حمایت علی شاعر(کراچی)
زبان پہ بارِ خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے
سجاد ظہیر عرف بنّے بھائی کا نام زباں پر آتے ہی تصور میں ترقی پسند ادب کی تاریخ جاگ اٹھتی ہے اور ساتھ ہی وہ الزامات بھی جو مخالف حضرات ان اہل ادب کو عطا کرتے رہے۔ پاکستان میں مذہبی اور سیاسی لوگوں کے علاوہ کچھ نام نہاد ادیب وشاعر بھی ترقی پسند اہل قلم کو مختلف ’’اعزازات ‘‘سے نواز چکے ہیں پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان کی ادبی انجمن ، کو سیاسی انجمن قرار دے دیا گیا۔ ان پر ملازمتوں کے دروازے بند کر دیے گئے اور تمام ذرائع ابلاغ پر پابندی عائد کر دی گئی۔ سجاد ظہیر تو اس انجمن کے سر خیل تھے۔ انہیں کیا کچھ نہیں کہا گیا ہوگا۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
میں نئی نسل کی معلومات کے لیے عرض کروں گا کہ جس ادبی انجمن کو اتنا مطعون کیا گیا اس کے انداز فکر کا آغاز علامہ اقبال کی شاعری سے ہوتا ہے۔ (علامہ اقبال ۔۔جن سے پاکستان کا وجود منسوب ہے)
اک ذرا تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھیے۔ پہلی جنگ عظیم (1914ء تا1917ء)کے بعد دنیا کن مسائل کی شکار تھی۔ کیسے کیسے تغیرات رونما ہوئے۔ ’’انقلاب روس‘‘(1917ء)کو دنیا میں فکری انقلاب کا عظیم محرک سمجھا جاتا ہے ۔ اردو شاعری میں غالبؔ اور حالیؔ کے بعد ’’آفتاب آمد۔ دلیل آفتاب‘‘کے مصداق۔۔۔ ادب کو نیا شعور عطا کرنے والے شاعر علامہ اقبال کی معرکتہ الآراء نظم’’خضر راہ‘‘ اسی انقلاب کی ترجمان ہے اور پہلی بار ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ افق سے آفتاب ابھرا ،گیا دورِ گراں خوابی
اس کے بعد ’’بالِ جبریل ‘‘ کی نظمیں۔۔ ’’خدا کا فرمان، فرشتوں کے نام‘‘
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو مسیّر نہیں روزی اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
اور پھر۔۔’’لینن۔۔ خدا کے حضور میں‘‘ ایسی فکر انگیز نظم ، جس میں علامہ اقبال نے اپنی خدا پرستی سے لینن کو نواز کر اس کے خیالات کو اپنایا اور واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ دنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات
اردو شاعری میرؔ،نظیرؔ، اور غالبؔ کے فکری اور جذباتی ہیجانات سے بخوبی آگاہ تھی اور غالبؔ کے الفاظ میں
کوہکن، گر سنہ مزدور طرب آگاہِ رقیب
کے حوالے سے عشق میں بھی فرہاد کی طبقاتی حیثیت کو سمجھ چکی تھی ۔اقبال کے کلام کی روشنی میں اس کی اگلی منزل سے بھی با خبر ہو گئی۔ گیا دور سرمایہ داری گیا تماشہ دکھا کر مداری گیا
اور جب انہوں نے کارل مارکس کے بارے میں یہ شعر کہا کہ
آں کلیمِ بے تجلی، آں مسیحِ بے صلیب نیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاب
اور کارل مارکس کی کتاب ’’داس کیپیٹال‘‘ کو الہامی کتابوں کی صف میں شامل کر دیا۔تب اردو شاعری کو ایک نیا زاویہ فکر ملا۔اسی زاویہ فکر نے ادب کی نئی نسل کو وہ روشنی عطا کی جس کے سرخیل کا نام سجاد ظہیر ہے۔ سر سید نے بھی مغرب سے ابھرنے والے سورج سے روشنی لی تھی۔ سجاد ظہیر اور ان کے رفقاء نے بھی اسی سورج کو نصف النہار پر دیکھا اور اس اس کی کرنوں سے نیا ادب تحریر کیا۔
ترقی پسند مصنفین کی نظریاتی بنیاد انگلستان میں رکھی گئی۔ سجاد ظہیر ، پروفیسر احمد علی ، ڈاکٹر رشید جہاں اور محمود الظفر کے افسانوں کا پہلا مجموعہ’’انگارے‘‘ وہیں مرتب ہوا اور 1942ء میں ہندوستان سے شائع ہوا۔
علامہ اقبال نے اسلام کی نئی تعبیر کرتے ہوئے اپنے اشعار میں ملاّاورمولوی کی جو مضحکہ خیز شکل دکھائی تھی ’’انگارے ‘‘ میں سجاد ظہیر کی کہانیاں جنت کی بشارت‘پھر یہ بنگلہ اور نیند نہیں آتی وغیرہ بھی اسی ملائیت کا مذاق اڑاتی ہیں ۔’’انگارے‘‘ کے مصنفین نے مسلم معاشرے کے اور پہلوؤں کو بھی نشانہ بنایا اور ان حقیقتوں کو طشت از بام کیا جو طبقات کے نشیب و فراز میں آنکھ اوجھل تھیں۔
سجاد ظہیر نے انہیں دنوں ایک ناولٹ بھی لکھا تھا۔ ’’لندن کی ایک رات‘‘جو ۸۳۹۱ء میں لکھنو سے شائع ہوئی تھی۔ اس ناولٹ میں تکنیک بھی قدرے نئی استعمال کی گئی یعنی شعور کی رو۔ ’’آزاد تلازمہ خیال‘‘ جو پہلے فرانسیسی مصنفین نے اختیار کی تھی۔ فرانسیسی ماہرین نفسیات کے نقطہ نظر سے شعورکی یہ روحقیقتاً انسان کی باطنی زندگی کی رو ہے جو ’’خارج ‘‘سے بے نیاز ہوتی ہے لیکن سجاد ظہیر نے مارکس کے جدلیاتی فلسفے کی روشنی میں اسے خارجی زندگی سے بالکل بے نیاز نہیں رکھا۔ وہ ناول کے کرداروں میں آئینہ و عکس کے مانند جاری رہتی ہے۔ علی عباس حسینی نے ا س ناولٹ کو جیمس جوائس کے یولی سس سے ہم رشتہ کیا ہے۔’’وہاں ڈبلن کا ایک دن تھا۔ یہاں لندن کی ایک رات ہے ۔ وہ تحت الشعور کی انسائیکلو پیڈیا ہے ۔ یہ جیمس کی تمثیلات۔‘‘
بہر حال یہ تجزیہ غور طلب ہے۔
سجاد ظہیر ۵۱۹۱ء سے افسانے لکھ رہے تھے۔ ان کے ابتدائی افسانے ماہنامہ’’ زمانہ‘‘ (کانپور) اور رسالہ ’’جامعہ‘‘(دہلی)میں شائع ہوئے۔ ’’لندن کی ایک رات‘‘ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے آکسفورڈ میں تعلیم کے دوران لکھی گئی تھی۔ ترقی پسند مصنفین کی انجمن کا قیام ۶۳۹۱ء میں عمل میں آیا۔ ’’انگارے‘‘کی ضبطی اور ترقی پسند مصنفین پر مختلف الزامات کی تفصیلات ہم سب کے ذہن میں ہیں۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سجاد ظہیر نے ہندوستان کی تمام زبانوں کے اہل قلم سے کس طرح رابطہ قائم کر کے ہر بڑے شہر میں انجمن کی شاخیں قائم کیں۔
پریم چند سے لے کر مولوی عبدالحق، حتیٰ کہ سید سلیمان ندوی تک کی سرپرستی اس انجمن کو حاصل رہی۔ مولانا حسرت موہانی تو سر عام خود کو ’’اشتراکی مسلم ‘‘کہتے تھے (اس سلسلے میں ان کے اشعار بھی موجود ہیں)سجاد ظہیر خود بھی کمیونسٹ پارٹی کے ’’ہول ٹائم ورکر‘‘ بن چکے تھے لیکن انجمن کو انہوں نے اپنے نظریات کا پابند نہیں رکھا۔ وہ رابند ناتھ ٹیگور اور علامہ اقبال دونوں کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے اور اپنی مصروفیات سے انہیں آگاہ رکھا ۔ علامہ اقبال سے ان کی ملاقات کا احوال مختلف اہلِ قلم نے لکھا ہے۔ علامہ ان کی کارکردگی سے متاثر بھی تھے۔ ایک بار انہوں نے کہا تھا۔
’’میرا نقطہ ء نظر آپ جانتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ مجھے ترقی پسند ادب یا سوشلزم کی تحریک سے ہمدردی ہے۔ آپ لوگ مجھ سے ملتے رہیں۔‘‘
سجاد ظہیر کا خاندانی پس منظر سبھی جانتے ہیں۔ وہ سر وزیر حسن کے چوتھے صاحبزادے تھے۔ بیرسٹر ایٹ لا ہو کر انگلستان سے آئے تھے۔ رئیس اور اہلِ اقتدار گھرانے سے ان کا تعلق تھا۔ اس کے باوجود (انہوں نے عام انسانوں کی طرح زندگی گزارنا مناسب سمجھا۔ وہ لکھنو سے بمبئی آ گئے اور کمیونسٹ پارٹی کے اخبار ’’قومی جنگ ‘‘ کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ان کی شادی بھی ایک بڑے گھرانے میں ہوئی تھی۔ رضیہ سجاد ظہیر جو خود بھی ایک بڑی ادیبہ تھیں۔ان کے کئی ناول ہیں وہ اپنے شوہر کے ساتھ ایک وفادار رفیقہ حیات کی طرح بمبئی کے چھوٹے سے فلیٹ میں زندگی گزارتی رہیں۔
قیام پاکستان کے بعد بنے بھائی پاکستان آ گئے تھے اورپھر راولپنڈی سازش کیں کا افسانہ سبھی کو معلوم ہے۔ ۱۵۹۱ء میں کچھ فوجی افسران کے ساتھ فیض احمد فیض اور سیّد سجاد ظہیر دونوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ وہ چار سال جیل کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے لیکن دونوں اہلِ قلم نے جیل میں ایسی کتابیں لکھیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔ فیض کے دو مجموعہ کلام ’’دستِ صبا‘‘ اور ’’زندان نامہ ‘‘(جس کا’’ سرِ آغاز ‘‘ سجاد ظہیر نے لکھا تھا۔ )اور ایلس فیض کے نام ان کے خطوط ’’صلیبیں مرے دریچے میں‘‘اردو شعرو ادب کا اہم سرمایہ ہیں۔ اسی طرح سجاد ظہیر کے خطوط (اپنی رفیقہ حیات کے نام)’’نقوشِ زنداں‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ ان کی دو اہم کتابیں’’ ذکر حافظ‘‘اور’’ روشنائی‘‘جیل ہی کی یادگاریں ہیں۔’’ذکر حافظ ‘‘پڑھ کر اندازہ ہوا کہ وہ اپنے ماضی کے ادب سے کتنے باخبر تھے اور اس کا مطالعہ کس زاویے سے کرتے تھے۔ حافظ شیرازی کی شاعری کو انہوں نے جس انداز میں سمجھا وہ ترقی پسند نظریہ حیات کا ایک نیازاویہ ہے۔’’روشنائی‘‘ انجمن ترقی پسند مصنفین کی پوری تاریخ ہے۔تمام حوالوں اور اہم ترین شخصیتوں کے تذکروں کے ساتھ بنّے بھائی نے ہر واقعہ اتنے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے کہ قاری کے ہاتھ سے کتاب نہیں چھوٹتی۔سجاد ظہیر ایک باعمل انسان تو تھے ہی مگر وہ شاعر بھی تھے۔ جیل میں فیض کی رفاقت میں انہوں نے غزلیں بھی لکھیں۔
کیپٹن ظفراللہ پوشنی جیل کی یادداشتیں’’زندگی زنداں دلی کا نام ہے ‘‘میں لکھتے ہی۔
’’حیدر آباد سنٹرل جیل میں قیام کے دوران ہم نے کم از کم گیارہ بارہ مشاعروں کی محفلیں برپا کیں۔ فیض کا تخلص کاہلؔ، میجر حسن کا تخلص جاہلؔ،اور میں یعنی ظفراللہ پوشنی کا تخلص خبیثؔ۔ ایرکموڈور جنجوعہ کا تخلص پٹاخہؔ، میجر اسحاق کا تخلص ڈنگاؔ یعنی تیڑھا۔ جنرل نذیر احمد کا تخلص سارسؔ۔ کیپٹن خضر حیات کا تخلص پیٹوؔ، محمد حسین عطا گوسفندؔ،میجر جنرل اکبر خاں کا تخلص فتوریؔ اور لفٹیننٹ جنرل ضیاالدین کا تخلص گڑبڑؔ رکھا گیا تھا۔ بریگیڈئیر صدیق خان کا تخلص مصدقؔ اور بریگیڈئیر لطیف خان کا تخلص خبطیؔ تھا مگر انہوں نے ہمیں ایک شعر بھی نہیں سنایا۔دوسرا مشاعرہ ۳؍ مئی ۳۵۹۱ء کو یعنی ہمارے مقدموں کے فیصلے اور ہمیں سزائیں مل جانے کے چار مہینے بعد ہوا۔ یہ آخری مشاعرہ تھا ۔ مصرعہ،طرح تھا۔
شمشیر ہے وہی کہ جو عریاں ہے ان دنوں
میر ی غزل کے بعد فیض صاحب نے سجاد ظہیر سے فرمائش کی، ان کی غزل کے کچھ اشعار پیش کرتاہوں۔
شعلے لپک رہے ہیں، چراغاں ہے ان دنوں دل کی جراحتوں سے بہاراں ہے ان دنوں
صدق و صفا و علم، تبہ حال و سر نگوں کذب و ریا و ظلم، نمایاں ہے ان دنوں
ملبوس زر نگار میں قحبائے زِشت اف لیلائے حسن خاک بدا ماں ہے ان دنوں
انساں پہ ہے وحوش و بہایم کی سروری افسوس، ارض پاک بیاباں ہے ان دنوں
خنداں ہے ملک بیچ کے امریکنوں کے ہاتھ جو مسخرا وطن کا نگہبان ہے ان دنوں
انسان وہ ہے ، ظلم سے پیکار جو کرے ’’شمشیر ہے وہی کہ جو عریاں ہے ان دنوں‘‘
بّنے بھائی کی غزلوں کا ذکر بہت کم کتابوں میں ملتا ہے۔ علی سردار جعفری نے اپنے رسالے’’گفتگو‘‘ میں ان کی ایک غزل شائع کی تھی۔ یہ غزل فیض کی زمین میں ہے۔ پہلے فیض کاا یک مشہور شعر سنا دوں۔
ہم سے کہتے ہیں چمن والے غریبانِ چمن تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام
بنّے بھائی کی غزل ملاحظہ فرمائیے۔
جب وہ اٹھتے ہیں مٹانے خم کا میخانے کا نام شورش مئے سے چمک جاتا ہے پیمانے کا نام
کچھ تو بدنامی کا کھٹکا ، کچھ گرفتاری کا ڈر آج کل لیتے نہیں وہ اپنے دیوانے کا نام
شیخ صاحب بھی لگے آتے ہیں ان کے ساتھ ساتھ اور پھر حضرت کبھی لیتے نہیں، جانے کا نام
سازِ آزادی کے نغمے تیز ہوتے ہیں یہاں کون کہتا ہے کہ یہ زنداں ہے، غم خانے کا نام
سجاد ظہیر ، روایت آشنا ہوتے ہوئے جدّت پسند بھی تھے۔ ان کے افسانے اور ناولٹ’’ لندن کی ایک رات‘‘ تکنیک کے حوالے سے اس کی گواہی دیتے ہیں۔انہوں نے ایک ڈرامہ بھی لکھا تھا۔’’بیمار‘‘وہ بھی ایک مثالی تخلیق تھا۔ جیل کے دوران غزلوں کے علاوہ انہوں نے نظمیں بھی لکھیں اور پھر جیل سے رہائی کے بعد بھی لکھتے رہے۔ انہوں نے زیادہ تر نثری نظمیں لکھی ہیں۔ (اس وقت نثری نظموں کا رواج نہیں تھا)
۵۳۹۱ء میں ماہنامہ ’’کنول‘‘ (آگرہ) میں سعادت حسن منٹو کی ترجمہ کردہ کچھ جاپانی نظمیں ’’نثری نظمیں ‘‘ کے عنوان سے چھپی تھیں۔ شاعر کا نام تھا۔’’زیونی سنٹو گوئنی۔‘‘ پھر منٹو صاحب کی تخلیق کردہ دو نثری نظمیں ان کے ایک ایسے مضمون میں بھی ملتی ہیں جو انہوں نے ’’جدید تر شاعری‘‘ کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھی تھیں۔(یہ ۲۴۹۱ء کی بات ہے) میں نے یہ مضمون اپنی کتاب’’شخص و عکس‘‘(مطبوعہ ۴۸۹۱ء ) میں بھی حوالے کے طور پر شامل کیا ہے۔ ماہنامہ ’’شاعر‘‘(بمبئی)کے ’’نثری نظم نمبر ‘‘ (۳۸۹۱ء)میں شاہد شیدائی لکھتے ہیں۔
’’۶۳۹۱ء کے بعد سجاد ظہیر نے اس طرح کی شاعری کی۔ پھر اختر الایمان کے رسالے ’’خیال‘‘(بمبئی)
مطبوعہ ۹۴۔۸۴۹۱ء میں میر ا جی کی چند نثری نظمیں ’’بسنت سہائے‘‘کے فرضی نام سے شائع کی گئیں۔‘‘
سجاد ظہیر کی نثری نظموں کا مجموعہ ’’پگھلا نیلم‘‘ ہندوستان سے شائع ہوا تھا اور پھر غالباً ۲۶ء میں پاکستان سے بھی چھپا اور عرصہ دراز تک زیر بحث رہا۔جیل سے چھوٹنے کے بعد بنّے بھائی کو ہندوستان بھیج دیا گیا تھا۔ ان کی بیوی اور بیٹیاں وہیں تھیں۔پھر انہیں پاکستان آنے نہیں دیا گیا۔ انتقال سے کچھ دن پہلے انہیں پاکستان آنے کی اجازت ملی تھی مگر وہ اس دنیا ہی کو چھوڑ گئے۔
میں نے ۱۵۹۱ء میں پاکستان ہجرت کی تھی ۔ اس وقت وہ گرفتار تھے۔ میرے دل میں انہیں دیکھنے اور ان سے ملنے کی بڑی آرزو تھی۔ آخر ایوب خاں کے زمانے میں جب دونوں ملکوں کے شعراء مشاعروں میں آنے جانے لگے مجھے بھی دہلی جانے کا موقع مل گیا۔سر شنکر لال اورمرلی دھر شاد کی فیکٹریاں دہلی میں تھیں اورلائلپور میں بھی۔۔دونوں بڑے ادب نواز تھے اور مرلی دھر تو شاعر بھی اچھے تھے۔ ۱۶۹۱ء میں کچھ پاکستانی شعراء حضرت حفیظ جالندھری ، تابش دہلوی، ماہر القادری،سیّد محمد جعفری، شوکت تھانوی، قتیل شفائی وغیرہ کے ساتھ میں بھی دہلی کلاتھ ملز کے مشاعرے میں مدعو تھا۔ بنّے بھائی نے ہم سب کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ میں نے پہلی بار انہیں اور رضیہ بھابی کو دیکھا اور ان کا گرویدہ ہو گیا۔ میں نے ان کے بارے میں جو تصّور باندھ رکھا تھا وہ اس سے بھی اعلیٰ دکھائی دیئے۔بنّے بھائی میرے کلام سے بھی واقف تھے۔ جنگ کے خلاف امنِ عالم کے موضوع پر میری طویل افسانوی نظم ان کی نظر سے گزر چکی تھی ۔ میں نے جب اپنا پہلا مجموعہ کلام (مطبوعہ ۶۵۹۱ء ) انہیں پیش کیا تو انہوں نے اس نظم کو اس میں دیکھ کر مجھے ہدایت کی کہ اسے الگ سے بھی چھپواؤ۔ یہ نظم تمہاری پہچان ہے۔ پھر انہوں نے میری کتاب پراپنے خیالات کا اظہار تحریری طور پر بھی کیا جو مختلف رسائل میں بطور تبصرہ شائع ہوا اور اب مجلّہ ’’شخصیت ‘‘(حمایت علی شاعر نمبر )میں ادب کی بعض بڑی شخصیتوں کے تاثرات کے ساتھ شامل ہے۔ (۶۹۹۱ء)
دہلی میں جامعہ ملیہ میں بھی ایک مشاعرہ تھا۔ اس مشاعرے کی صدارت خواجہ غلام السیّدین (مولانا حالی کے پوتے اور ہندوستان کے ایجوکیشن ایڈوائزر) فرمارہے تھے۔ بنّے بھائی نے ان سے بھی میرا تعارف کر ایا۔ اس مشاعرے میں میں نے اپنی کچھ’’ ثلاثیاں‘‘بھی سنائی تھیں۔(اس وقت تک میں نے اس صنف کا کوئی نام نہیں رکھا تھا)دو ایک دن بعد ہمیں اپنے سفیر سجاد حیدر صاحب کا پیغام ملا کر پنڈت جواہر لال نہرو پاکستانی شعرا کو سننا چاہتے ہیں۔ ہماری خوشی کا عالم دیدنی تھاپنڈت لال نہرو ہندوستان کے وزیر اعظم ضرور تھے مگر وہ ایک ادیب کی حیثیت سے بھی بڑا مقا م رکھتے تھے۔مقررہ وقت پر ہم شعرا سفیر پاکستان کے ہمراہ پنڈت جی کی کوٹھی پر پہنچے۔ پنڈت جی نے دروازے پر ہمارا استقبال کیا۔
وسیع دیوان خانے میں سفیدچاندنیاں بچھی ہوئی تھیں اور جگہ جگہ گاؤ تکیے رکھے ہوئے تھے۔ پنڈت جی خود بھی سیاہ شیروانی میں ملبوس تھے اور کچھ ہندوستانی شعرا بھی۔ ۔ان شعرا میں جگن ناتھ آزاد ، ساغر نظامی اور کنور ، مہندر سنگھ ،بیدی سحر بھی تھے۔ خواجہ غلام السیّدین نے پاکستانی شعرا کا فرداً فرداً تعارف کرایا۔ میں عمر میں سب سے چھوٹا تھا۔ پنڈت جی میرے پاس آئے اور ہاتھ ملایا۔ میں نے ’’آگ میں پھول‘‘ انہیں پیش کی۔ انہوں نے مختصر ورق گردانی کی اور کتاب اپنے اے۔ ڈی۔ سی کے حوالے کر دی‘‘مسکراتے ہوئے میرا شکریہ ادا کیا اور فرمایا۔’’میں ضرور پڑھوں گا۔‘‘’’یہ میرے لیے اعزاز ہو گا۔‘‘میں نے نہایت ادب سے عرض کیا۔ بنّے بھائی بھی مشاعرے میں موجود تھے۔ جب میں اپنی غزل سنانے لگا تو انہوں نے ثلاثیوں کی فرمائش کر دی۔ میں نے اپنی مشہور ثلاثی سنائی۔
یہ ایک پتھر جو راستے میں پڑا ہوا ہے
اسے محبت سنواردے تو یہی صنم ہے
اسے عقیدت تراش لے تو یہی خدا ہے
پنڈت جی کے علاوہ سامعین نے بھی کھل کر داد دی۔ پھر غلام السیّدین نے ایک اور ثلاثی کی فرمائش کی۔
دشوار تو ضرور ہے یہ سہل تو نہیں
ہم پر بھی کھل ہی جائیں گے اسرار شہر علم
ہم ابنِ جہل ہی سہی’’بو جہل ‘‘ تو نہیں
اس ثلاثی پر مجھے جامعہ ملیّہ میں بھی بڑی داد ملی تھی۔ وہ بنّے بھائی سے میری آخری ملاقات تھی۔ وہ آنکھوں سے دور چلے گئے مگر میرے دل میں آباد ہیں اور جو شخصیت دلوں میں زندہ رہتی ہے اسے وقت بھی نہیں مار سکتا۔ وہ شخصیتیں وقت کے اور اق پر بھی اپنی مہر ثبت کر دیتی ہیں۔ ثبت است برجریدہء عالم دوامِ ما!