ڈاکٹر محمد علی صدیقی(کراچی)
سوچتا ہوں کہ سجّاد ظہیر صرف ایک شخص کا نام نہیں ہے․․․․․ایک عہد اور ایک تحریک اُن کے نام سے مشخّص ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ جس شخص پر یہ تینوں باتیں بڑی حد تک صادق آسکتی ہوں وہ ․․․سجّاد ظہیر ہے۔
مجھے اُن سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا لیکن اُن کے دوستوں ، رفقاء اورخوردوں کے ذریعہ جو کچھ بھی مجھ تک پہنچا ہے اُس سے میں نے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وہ ایک غیر معمو لی انسان تھے۔وہ شمالی ہندوستان کے ایک پابند رسو م و اقدار کلچر میں۵؍ نومبر ۱۹۰۵ء کو پیدا ہوئے۔اگر وہ اُن قدرتی پابندیوں کے ساتھ باہر نکلنے کیلئے جراتِ رندانہ کا مظاہرہ نہ کرتے تو یقین مانئے کہ سر وزیر حسن کے بیٹے سجّاد ظہیر کو ترقی پسند تحریک کا سُرخیل رہنما بننے میں کم از کم ایک صدی ضرور لگتی، لیکن ہم نے دیکھاکہ سجّاد ظہیر ․․․ سب کے بنّے بھائی نے اپنے پس منظر سے رہائی کے لئے درکار ممکنہ مدت کا فیصلہ ہفتوں اور دنوں میں طے کر لیا۔ شاہد یہ سریع الحرکتی اُن کی شخصیت کا وہ جوہر ہے جو اُن کے Metamorphosisمیں حد درجہ مددگار ثابت ہوا۔میں سجّاد ظہیر کی زندگی کے سنگ میلوں کی بساط پراپنے مضمون کی بنیاد نہیں رکھنا چاہتا ۔وہ ایک علمی اور ثقافتی طور پر برِّ صغیر کے چند ممتاز افرادمیں شامل ہیں۔ سجّاد ظہیر نے ابتدائی تعلیم جوبلی اسکول اور کرسچن کالج لکھنؤ میں حاصل کی اور اس کے بعد ۱۹۳۰ ء میں آکسفورڈ چلے گئے۔’’ یادیں‘‘ اور ’’روشنائی‘‘ میں انہوں نے اپنی داستانِ زندگی کی اہم روئیداد رقم کی ہے۔ ان روئیدادوں کی تحریر میں ۲۵سال کا بُعدِ مکانی و زمانی ہے یعنی۱۹۲۸ء سے ۱۹۵۴ء تک ترقی پسند سوچ، تحرک اور تنظیم کس طرح بنی۔
دوستو ! ایک فرد کی سوچ کو ایک اہم ملکی تنظیم بنتے بنتے بہت مدت درکار ہوتی ہے، لیکن سجّاد ظہیر کی تنظیمی صلاحیتوں نے یہ مدت اس قدر جلد پوری کی کہ چند برسوں میں ․․․’’جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا‘‘ کے بجائے ’’ جنگل کا جنگل احمریں ( لال ) ہوگیا‘‘ پر بات جا کر رکی․․․!
سجّاد ظہیر نے ترقی پسند مصنفین کے قیام کا فیصلہ برطانیہ میں مقیم ایک طالبِ علم کی حیثیت سے کیا۔ وہ یوروپ میں گذشتہ صدی کے تیسرے عشرہ میں رہے۔ 1930تک Thirtiesکا عشرہ یوروپ میں جرمنی میں ہٹلر کے شباب کا عشرہ ہے۔ یہ جرمن قوم پر ، جرمن تاریخ نگار Rank & Fichteکے طلسماتی اثرات کی دَہائی ہے ۔ یہ اسپین کی خانہ جنگی کا عشرہ ہے۔ یہ ہندوستان کے لئے گول میز کانفرنس ، کمیونل ایوارڈ، گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء کا عشرہ ہے، یہ سات صوبوں میں کانگریسی وزارتوں کے قیام کا عشرہ ہے۔ لیکن اس عشرہ تک آتے آتے ہمیں سجّاد ظہیر کی ادبی اور سیاسی زندگی پر ہونے والی تبدیلیوں پر غور کرنا پڑیگا۔
سجّاد ظہیر لکھنؤ میں کالج کی زندگی کے دوران اُردو ادب، انگریزی ادب، تاریخ اور معاشیات سے گہرا شغف رکھتے تھے۔۱۹۲۳تا ۱۹۲۴میں وہ اناطول فرانس اور برٹرانڈ رسل کو بڑے ذوق وشوق سے پڑھ رہے تھے ۔ اناطول فرانس نے فکشن اور دوسری تحریوں میں مذہبی ریاکاری اور منافقت کا پردہ چاک کرنے میں کمال حاصل کیا تھا۔ رسل حقیقت پسندی اوربائیں بازو کی طرف جھکنے والی تعقل پسندی کے وکیل تھے۔ وہ مارچ ۱۹۳۰ء میں اکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے براستہ مارسیلز اور پیرس، لندن روانہ ہوئے۔ انہوں نے جس یونیورسٹی کا انتخاب کیا تھا وہ اپنی قدامت پرستانہ سوچ کے لئے مشہور تھی۔ لیکن سجّاد ظہیر ہندوستان ہی میں بائیں بازو کی سیاست کے رسیا ہو چکے تھے۔ ۱۹۲۵ء برِّ صغیر میں کمیونسٹ پارٹی کے قیام کا سال ہے۔ اس پارٹی کا تاسیسی اجلاس کانپور میں منعقد ہوا جس کی استقبالیہ کمیٹی کے چیئر مین مولانا حسرت موہانی تھے۔ یہ وہی حسرت موہانی جو ایک طرف تو حضرت محمدؐ کے ذکر پر اشک بار ہوجایا کرتے تھے․․․خود کو کرشن بھگت بھی کہتے تھے اور اشتراکیت کے اس درجہ حامی کہ لازم ہے کہ ہو ہند میں آئینِ سوویت دوچار برس میں ہو کہ دس بیس برس میں
جیسے شعر کے خالق بھی۔
اس ضمن میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھنے کا خیال جن اشخاص کو آیا اُس میں تحریک ہجرت کے بعض ایسے رہنمابھی تھے جو افغانستان اور روس ہوتے ہوئے آئے تھے۔ دیکھئے کہ بنیادی طور پر ایک مذہبی نوعیت کی تحریک نے ہندوستان میں ایک انقلابی پارٹی کی Midwifeکا کردار کس طرح ادا کیا ۔
۱۹۲۸ء میں سجّاد ظہیر ، سوئٹزر لینڈ کے سینی ٹوریم میں قیام کے بعد اشتراکی خیالات کے حامی ہو چکے تھے ۔ برطانوی پارلیمنٹ کے پہلے کمیونسٹ M.P.Sakaltawalaڈاکٹر اشرف، ڈاکٹر محمود الظفر اور ڈاکٹر زین العابدین احمد ، (جو بعد میں زیڈ احمد کہلائے اور جن کی یادد اشتیں ادارۂ یادگارِ غالب نے حال ہی میں شائع کی ہیں) کی صحبت نے منتخب راستے پر گامزن ہونے میں مزید مہمیز لگائی۔سجّاد ظہیر ۱۹۲۴ء تا ۱۹۲۵ء کے زمانہ کانپور میں کچھ افسانے تحریر کرچکے تھے۔علاوہ ازیں وہ لندن میں ’ نیا ہندوستان‘‘ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ہندوستان کے سماجی ، سیاسی ، اور معاشی مسائل پر لکھتے چلے آرہے تھے۔ یعنی سجاد ظہیر کا ذہن پختہ سے پختہ تر ہوتاگیا۔ انہوں نے انگلستان کے دورانِ قیام ، فرینکفرٹ میں فسطائی طاقتوں کے خلاف منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی تھی۔
۱۹۳۲ء میں شائع ہونے والے افسانوں کے مجموعے ’’ انگارے‘‘ میں․․․احمد علی کا افسانہ’’ بادل نہیں آتے‘‘ اور ’’ مہاوٹوں کی ایک رات‘‘، ڈاکٹر رشید جہاں کا افسانہ ’’دلّی کی سیر‘‘ اور محمود الظفر کا افسانہ’’ جواں مردی‘‘ شامل تھے اور ساتھ ساتھ سجّاد ظہیر کے چار افسانے ’’ گرمیوں کی ایک رات‘‘ ، ’’جنّت کی بشارت‘‘ ، ’’نیند نہیں آتی‘‘ اور ’دلاری ‘‘ بھی شامل تھے۔ یہ ایک تاریخی اہمیت کی حامل کتاب تھی۔
ان افسانوں کے مرکزی خیالات میں مذہبی ریا کاری اور منافقت، ہندوستانی سماج میں عورتوں کے سقیم حالات کے خلاف احتجاج کی آواز بلند ہوئی تھی، جو آج بھی قابل توجہ ہے۔ آج بھی ہم مذہبی ریاکاری اور عورتوں کے ساتھ ہو نے والی بدسلوکی کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں آج بھی لڑکیوں کی کافی بڑی تعداد faetusہی کے مرحلے میں ختم کردی جاتی ہے۔پاکستان میں 1998کی مردم شماری میں مردوں اورعورتوں کی شرح آبادی5 3اور 47ہے یعنی معروف خیال کے برخلاف مرد زیادہ ہیں اور عورتیں کم۔اس حقیقت سے ہمارے دیہی سماج میں عورتوں کے بارے میں مروجّہ تعصبات کی عکاسی ہوتی ہے۔
سجّاد ظہیرنے مذہبی منافقت اور عورتوں کی حیثیت کے بارے میں ہمارے سماج کی رجعت پسندانہ سوچ کا پردہ چاک کرکے جس مسئلہ کی طرف توجہ مبذول کی تھی وہ منشی پریم چند کے افسانوں کی عورت کے مقابلے میں اس لئے مختلف تھی کہ پریم چند نے زیادہ تر صنف نازک کی قربانیوں کی صورت گری سے اسے glamouriseکرنے پر زور دیا گو بعد میں عورتوں کے حق میں بتدریج احتجاجی لہجہ اختیار کرتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن ’’انگارے‘‘ کے افسانہ نگاروں نے اور بطورِ خاص سجّاد ظہیر نے عورت کی ترقی کے بغیر معاشرے کی ترقی کو ناممکن جانا۔ لندن کے قیام کے دوران سجّاد ظہیر انگریزی زبان کے بائیں بازو کے ادیبوں سے تبادلۂ خیال کے ذریعہ ایک ایسے فکری مکالمہ یاڈائیلاگ کا حصہ بنے جس کا مقصد ہندوستان کی جنگِ آزادی کی جدوجہد کے شرکاپر یہ واضح کرنا تھا کہ آزادی کے بعد ہندوستانی سماج کو کس طور پر تبدیل کیا جائے تاکہ آزادی واقعتا آزادی ثابت ہو سکے اور․․․․
داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
ثابت نہ ہو۔ ہمارے سما ج میں آزادی کو التباسِ آزادیMyth of Independenceبنانے والے گماشتے موجود تھے اور ہماری آزادی ، التباسِ آزادی بن کر رہ گئی جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب کے ٹائٹل سے بھی ثابت ہوا۔
سجّاد ظہیر نے اپنے افسانوں میں ہندوستانی سماج کے جن دو خطرناک رجحانات کے خلا ف قلم اُٹھا یا اُن کا لہجہ ’’ انگارے‘‘ میں شامل دوسرے افسانہ نگاروں کے مقابلے میں دھیما تھا۔ ’’ جنّت کی بشارت‘‘ کا موضوع تنگ نظرشخصیات کی جہالت کامرقع ہے۔سجّاد ظہیر کے افسانے ’’ گرمیوں کی ایک رات‘‘ میں سرکاری دفتر کے تین کرداروں․․․جمّن چپراسی، ہیڈ کلرک لالہ جی اور منشی برکت علی کی کہانی ہے۔جمّن ہے تو دفتر کا چپراسی لیکن گھر کے کام کاج کی ذمہ داری بھی اُس کی ہے۔ بازار سے آم خریدکر لاتا ہے․․․بیگم صاحبہ نے آم پسند نہیں کئے․․․وہ واپس بازار جاتا ہے۔ ایک عجیب سے ہیجان میں مبتلا ہے․․․منشی برکت علی سے مدد مانگتا ہے․․․․لیکن منشی جی کا ایک کلاس فیلو اُنہیں مجرا سنانے کے لئے لے جاتا ہے․․․․اور بیچارہ جمّن حیران و پریشان کھڑا رہ جاتا ہے۔افسانہ ’’ جنّت کی بشارت ‘‘ میں ایک مولوی صاحب کی پُر خوری اور پچیس (۲۵)برس کم عمر لڑکی سے شادی کے بعد شب بیداری کے نوافل کے دوران ’’جنّت ‘‘ کی سیر کا قصہ جس میں وہ اپنے لئے ایک حور پسند کر لیتے ہیں۔ افسانے کا اختتام ان کی بیگم کے قہقہوں پر ہوتا ہے۔ خواب سے بیداری کے بعد اپنے مصلّے کو دیکھتے ہیں اورپھر اپنی بیوی کو۔ اُن کے سامنے جنّت اور حور کی بجائے روز مرہ کی دنیا اور․قہقہے مارتی ہوئی اُن کی بیوی ایک nightmareکی صورت پیش کرتی ہے۔
سجّاد ظہیر کی ایک کہانی ’’نیند نہیں آتی‘‘ اُردو فکشن میں Stream of Consciousnessکی ٹیکنیک میں لکھی گئی ہے۔ اس لحاظ سے ہندوستانی ادب کوRevitalize and Rejuvenateکرنے والا سجّاد ظہیر برِ صغیرکے اُردو فکشن میں نئی ٹیکنیک کا رائج کرنے والا پہلا ادیب بن گیا ہے۔افسانہ ’’ دلاری‘‘ ایک کھاتے پیتے مسلم گھرانے میں ملازم لڑکی کی کہانی ہے، جسے گھر کے ایک فرد کی طرح رکھا گیا ۔ گھر کے بڑے صاحب زادے کاظمؔ کی اس کے ساتھ رنگ رلیاں بھی ہوئیں۔ لیکن جب کاظم ؔ کی شادی کا موقع آیا تو دلاری کو یہ محسوس ہوا کہ وہ دودھ کی مکھی کی طرح نکال دی گئی۔ غرض یہ کہ ان کے مندرجہ بالاافسانوں پر نظر ڈالیں یا ایک ڈرامہ’’بیمار ‘‘ یا پھر’’لندن کی ایک رات‘‘ کا مطالعہ کریں تویہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اُردو ادب کی ترقی پسندتحریک کو منظم کرنے والے سجّاد ظہیر کو صرف ایک منتظم اور ایک Monitorکی حیثیت نہیں دے سکتے بلکہ اُردو ادب کی تخلیق میں عملی نمونے پیش کرتے ہوئے تخلیق کار اور منتظم علیحدہ نہیں ہو پاتے۔۱۹۳۵ء کے بعد انہوں نے ترقی پسندانہ تنقیدکی کئی اچھی تحریروں کے طور پر کئی مضامین تحریر کئے ۔ حیرت ہے کہ یہ مضامین ، اور کئی کانفرنسوں میں دیے گئے خطبات ابھی تک یکجانہ ہوسکے۔ ورنہ فیض احمد فیض کے تنقیدی مضامین ’’ میزان‘‘ کی طرز کا ایک مجموعہ بھی سجّاد ظہیر کی نگارشات کی فہرست میں شامل ہوتا․․․․ان کے مضامین درج ذیل ہیں۔
۱۔ اُردو کی جدید انقلابی شاعری ۲۔ ترقی پسند ادب کا پیغام
۳۔ اُردو، ہندی، ہندوستانی ۴۔ غزل اور اس کا غلط رجحان
۵۔ اُردو ادب کی عمومی حیثیت ۶۔ شعرِ محض
۷۔ ہندوستانی تہذیب کا ارتقا ۸۔ اُردو شاعری کا مستقبل
۹۔ لوئی اراگان ۱۰۔ تہذیب علم پر نئے اثرات
۱۱۔ روایت اور انفرادی حیثیت ( ٹی۔ایس۔ایلیٹ کے مضمون پر مذاکرہ، سویرا، لاہور)
۱۲۔ اُردوشاعری اور اس کا مستقبل ۱۳۔ سخن گسترانہ بات، ڈاکٹر وحید اختر کے مضمون میں اُٹھائے گئے نکات کا جواب۔ مطبوعہ صبا، حیدرآباد دکن۔اس کے علاوہ․․․․
APWAکے جنرل سیکریٹری کی رپورٹ، الہ آباد، ۱۴؍ ۱۵؍ نومبر ۱۹۳۶، مطبوعہ ماہنامہ شاہجہاں، دہلی
زیرِ صدارت چوتھی کانفرنس ۱۹۴۳، مطبوعہ عالمگیر، لاہور، اگست ۱۹۴۳
زیرِ صدارت کل ہند ترقی پسند مصنفین کانفرنس ،منعقدہ ۲۷؍ ۲۸؍ نومبر ۱۹۴۹، لاہور۔
علاوہ ازیں ’’ذکر حافظ‘‘ جسے مندرجہ بالا مضامین کے ساتھ یکجاکیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ چالیس(۴۰) کی دَہائی میں ’’قومی جنگ‘‘ اور ساٹھ (۶۰) کی دہائی میں ’’عوامی دور‘‘ میں سجاّد ظہیر کی سیاسی ومعاشی مسائل پر تحریریں بھی قارئین کے سامنے آنی چاہئیں تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ بین الاقوامی بائیں بازو کے ادبأ کو ہندوستانی ادیبوں سے متعارف کرانے اور ترقی پسندی کا ایک عظیم الشان عالمی محاذ بنانے میں سجاّد ظہیر کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
مجھے حیرت ہے کہ ’’انگارے‘‘ کے خلاف اُٹھنے والی آوازوں سے اُردو ادب کے بعض کشادہ ذہن مؤرخین بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ترقی پسند تحریک پر تین اہم کتابیں شائع ہوئیں، جن میں عزیز احمد کی ’’ترقی پسند ادب‘‘ سب سے پہلی کتاب تھی۔ وہ اس کتاب میں لکھتے ہیں ․․․
’’ اس کتاب میں ہزار نقص سہی لیکن اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس کی اشاعت سے نئے ادب نے خود مختاری کا علم بلند کیا۔ یہ سماج پر وحشیانہ حملہ تھا اگرچہ اس حملہ میں غیر ضروری خونریزی بہت تھی ، جس کی وجہ سے ترقی پسند تحریک کئی سال تک پنپ نہ سکی لیکن جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں اس کتاب کا مقصد کئی قدروں کی تعمیر سے زیادہ پرانے اصولوں کی تخریب تھا۔‘‘
اس کے بعد’’ لندن کی ایک رات‘‘ کے بارے میں کشن پرشاد کول کی کتاب ــ’’ نیا ادب‘‘ اور ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی کی کتاب ’’ ترقی پسند تحریک ‘‘ کا رویّہ بھی معاندانہ تھا۔ علی عباس حسینی جیسے سجاد ظہیر کے بظاہر طرفدار مصنف بھی اپنی کتاب ’’ ناول کی تاریخ اور تنقید ‘‘ میں اس کتاب (انگارے )سے سرسری گزر گئے۔ وہ اسے James Jonکے Ulyssesسے متاثر سمجھتے ہیں۔ اس کے یہاں ڈبلن کا ایک دن تھا اور یہاں ’’لندن کی ایک رات‘‘ پھر معاملہ ختم ہوجاتا ہے۔’’روشنائی‘‘ جنوری ۱۹۵۴ء میں مچھ جیل میں لکھی گئی تھی۔ ظ۔انصاری کی ’’ غزل‘‘ جاگیرداری طبقہ اور تصوّف کے بارے میں منفی اعتراضات کے جواب میں۔ ’’ ذکرِحافظ‘‘ جولائی ۱۹۵۴ء میں تحریر ہوئی ۔ اس کتاب میں سجاد ظہیر کا اصرار تھا کہ ہمیں جاگیرداری عہد کے منفی پہلو کے بجائے مثبت رویوں کی پذیرائی کرنی چاہیے۔ ’’پگھلا نیلم‘‘ پاکستان سے ہندوستان مراجعت کے بعد کی شاعری کا مجموعہ ہے۔ یہ نثری نظموں کا مجموعہ ہے۔ نظم کی ایک ایسی فارم میں ہے جسے فیض احمد فیض اپنے انتقال کے وقت تک قبول نہیں کرسکے۔ ہر چند کہ سجّاد ظہیر نے ’’ پگھلا نیلم‘‘ میں ہندوستانی سماج کی کہولت اور ترقی دشمن سماجی رویّوں کے خلاف خوبصورت احساسات کوپیش کیا ہے تاہم انہوں نے تہہ دار شاعری کے ذریعہ ثابت کیا کہ نہ تو ’’تخلیق‘‘ کی ہئیتیں جامد ہیں اور نہ ہی سماجی اقدار اور پیداوار ی رشتے․․․․․! انہی تبدیلیوں کا نام استحصال سے آزادی کی تاریخ ہے۔ سجاد ظہیر کی مساعی کا لبِ لباب یہ تھا کہ انسانی رشتے ’’اپنے ہاتھوں اپنی تقدیر‘‘ کے سنہری آدرشوں سے نمو پاتے ہیں۔
آپ اس سوچ کی دور رسی کا اندازہ لگائیے․․․ہندوستان ان دنوں اپنی تاریخ کے جس نازک دور سے گزر رہا تھا ، اس میں صرف خوابوں کا فسوں تھا․․․سنگلاخ حقیقتوں کا ادراک نہیں تھا۔سجاد ظہیر نے سوچا کہ اگر انگریزی اقدار ، انگریز حکومت کے گماشتوں کو منتقل ہوتا ہے تو پھر ہندوستان کے محنت کش عوام کی تقدیر کس طرح بدلے گی؟ انہوں نے سوچا کہ اس بڑے کام میں ادیبوں کو سماجی تبدیلی میں Catalytic Agentبنا ناپڑیگا۔ مذہبی تقاضوں کی بحث ہندو احیا پرست ہندؤں سے اور مسلمان احیا پرست مسلمانوں سے اپنے اپنے منابع کی طرف رجعت کا مطالبہ تو کر رہے تھے ، لیکن آزادی کے بعد درکار ضروری سماجی اور معاشی تبدیلیوں کے لئے صرف وہی لوگ سوچ سکتے تھے جو محنت کشوں کے حق میں بدلتے ہوئے پیداواری رشتوں کے ذریعہ ملک سے استحصا ل پیشہ قوتوں کا خاتمہ چاہتے ہوں ۔ برِّ صغیر میں کمیونسٹ پارٹی کا ۱۹۲۵ء میں قیام اس سلسلے کی کڑی تھی۔جس طرح کراچی اور بمبئی کی سڑکوں کا Pollutionماؤنٹ آف کلامنجورو( (Mount of Kilamanjoroپر برف پگھلاسکتا ہے․․․اسی طرح ایک علاقے میں ہونے والی نا انصافی دنیا کے دیگر حصّوں پر اثر انداز بھی ہوتی ہے۔ صرف معاشی و سیاسی معنوں میں نہیں بلکہ سیاسی سطح پر دنیا میں انصاف کی قوتیں بھی متوازن(eco-system) کی طرح انسانوں کی عمومی بھلائی کے لئے عالمی انصاف کا چلن چاہتی ہیں۔ سجّاد ظہیر جیسے منظم اور مفکّر کی یہ خواہش تھی کہ دنیا کے تمام حقیقت پسند اور انصاف
پسند ادیب دنیا بھر کے مسائل کی بہتر تفہیم کے لئے ایک پلیٹ فارم پر نظر آسکیں اور ان کی یہ خواہش ایک ایسے برِّ صغیر میں تھی جہاں اس ملک کے دو بڑے مذہبی گرو ہ اتحاد فکر و نظر جیسے ضروری فریضہ کی بجا آدری میں کافی سست رو تھے بلکہ اپنے گروہ کے علاوہ دوسرے گروہ کی تنقید تو کرسکتے خود اپنے مذہبی گروہ میں بھی Plurarity of viewsکے قائل نہ تھے۔
سجّاد ظہیر ۵نومبر ۱۹۰۵ء کو پیدا ہوئے اور ۱۳؍ ستمبر ۱۹۷۳ء کو ہم سے بچھڑ گئے۔ انہوں نے ۶۸برس کی زندگی پائی لیکن یہ زندگی کیا تھی ․․․ایک طوفان تھا․․․! اگست کے مہینے میں ٹورانٹو کے دوستوں کی طرف سے سجّاد ظہیر کی یاد منانا درحقیقت ایک ایسے شخص کی یاد منانا ہے جس نے برِّ صغیر کے منجمد سماج کو متحرک کرنے میں بنیادی کام کیا۔ آج معاشرت ہو، معیشت ہو، یا سیاست ہو ، یا ادب ہم کسی نہ کسی طرح سجاد ظہیر کی بینائی اور فہم سے استفادہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہم اس حقیقت کا اعتراف کریں یا نہ کریں․․․وہ کسی نہ کسی حد تک ہمارے ذہن کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ٭٭٭
میں بھی حاضر تھا وہاں ضبطِ سخن کر نہ سکا حق سے جب حضرت ملّا کو ملا حکمِ بہشت
ہے بد آموزیٔ اقوام و ملل کام اس کا اور جنّت میں نہ مسجد، نہ کلیسا، نہ کنشت
(علّامہ اقبال)