ضیاء الحق(الٰہ آباد)
سجاد ظہیر کے صدسالہ یوم پیدائش کے سلسلے کی تقریبات ہندوستان و پاکستان کے علاوہ اور کئی عالمی مراکز میں ان دنوں لگاتار منعقد ہورہی ہیں اور کافی عرصے تک ہوتی رہیں گی۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی الہ آباد میں ۱۱؍ سے ۱۳؍ نومبر ۲۰۰۵ء تک ہونے والا جلسہ اور جشن بھی ہوگا۔ الہ آباد سے سجاد ظہیر کا گہرا اور قریبی رشتہ رہا ہے۔ وہ یہاں دسمبر ۱۹۳۵ء سے ۱۹۳۹ء تک رہے۔ پی۔ڈبلیو اے(ترقی پسند مصنفین) کی انجمن کی داغ بیل یہیں ان کے والد کے گھر میں پریم چند، جوش ملیح آبادی، مولوی عبد الحق، رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری، مولانا حسرت موہانی، رشید جہاں وغیرہ کی موجودگی میں ڈالی گئی اور اپریل ۱۹۳۶ء میں لکھنؤ میں اس کی پہلی کل ہند کانفرنس کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔ الہ آباد میں ہی پی ڈبلیو اے کی پہلی شاخ اور اس کا پہلا صدر دفتر قائم ہوا۔ الہ آباد میں ہی ان دنوں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا صدر دفتر تھا اور اس کے صدر جواہر لال نہرو کی قیام گاہ۔ یہیں نوجوان کمیونسٹ اور سوشلسٹ رہنما کنور محمد اشرف، زیڈ۔اے۔احمد، رام منوہر لوہیا وغیرہ اے آئی سی سی آفس میں مصروف کار تھے۔سجاد ظہیر بھی الہ آباد شہر کانگریس کمیٹی کے سکریٹری کے عہدے پر فائز تھے اور شہری زندگی، مقامی سیاست اور مزدور تحریک میں سرگرم۔ وہ الہ آباد اور ملک کی زندگی میں ایک سنہرا دور تھا۔مجھے بھی اس فضا میں سانس لینے اور نئی سیاسی بیداری اور شعور سے فیضیاب ہونے کا موقعہ ملا۔ آج سجاد ظہیر کی۱۰۰ویں سالگرہ مناکر ہمیں اس دور کی یاد تازہ کرنے، سجاد ظہیر اور ان کے ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کی زندگی اور کارناموں سے نئی نسل کو آگاہ کرنے اور Inspirationحاصل کرنے کا موقع ملے گا۔
اس میں شک نہیں کہ سجاد ظہیر بنیادی طور پر سیاست کے میدان کے آدمی تھے۔آج کل کی سیاست نہیں بلکہ سماجی نظام کو بدلنے اور سماجی انصاف، انسانیت، برابری اور بھائی چارے پر مبنی سماج قائم کرنے کی جدوجہد والی سیاست کے۔وہ کمیونسٹ نظریات اور کمیونسٹ پارٹی کی ممبری انگلینڈ میں طالب علمی کے زمانے میں ۱۹۳۰ء کے آس پاس قبول کرچکے تھے اور تاعمر اس پر قائم اور عمل پیرا رہے۔لیکن ان کا فطری میلان ثقافت(کلچر)، خصوصاً ادب کی طرف تھا۔وہ جس ماحول میں پلے بڑھے تھے وہ اپنے آپ میں ہی خاصا ادبی اور ثقافتی اقدار میں رچا بسا ماحول تھا۔اپنی شروعاتی تعلیم میں ہی انھوں نے ہندستانی اور ہند اسلامی تہذیب کی کلاسیکی تخلیقات سے اچھی واقفیت اور دلی رغبت حاصل کرلی تھی۔ اودھ کا عوامی کلچر تو ایک طرح سے انھیں ماں کے دودھ سے ہی مل کر ان کی شخصیت کا جُز بن چکا تھا۔غرض یہ کہ ادب کی خدمت اور ترقی کے لیے شاید قدرت نے ہی انھیں تیار کر کے بھیجا تھا اور وہ کام انھوں نے زندگی میں بخوبی نباہا۔ وہ کوئی معمولی ادیب نہیں تھے بلکہ اپنی تحریروں میں گو وہ قدر ے مختصر ہیں، انھوں نے نئی جہتیں اختیار کیں اور نئے راستے دکھائے جن پر چل کر ایک ہونہار نئی نسل نے بہترین شعری و نثری ادب تخلیق کیا جو آج بھی ہمارے ذہنوں اور روحوں کو منور اور معطر کر رہا ہے۔
جہاں وہ ایک نئے دور کے نئے ادب کی بنیاد رکھنے والے اور عملاً راہ دکھانے والے تھے وہیں اور اس سے کہیں زیادہ وہ ادیبوں کے تنظیم کار بنے۔ یہ ان کا بہت بڑا، یادگار اور لاثانی کارنامہ ہے، جس کے لیے وہ ہمیشہ یاد کئے جائیں گے۔یہ صحیح ہے کہ کوئی تنظیم اور خصوصاً ادیبوں کی تنظیم ہمیشہ یا بہت عرصے تک نہیں رہ سکتی پھر بھی اس کے اثرات یقیناً دیرپا اور اپنا نقش چھوڑنے والے ہوتے ہیں۔غیر منقسم ہندستان اور تقسیم کے بعد پاکستان میں بھی یہاں کی تقریباً سبھی زبانوں کی ایک اور متحد ہ تنظیم انجمن ترقی پسند مصنفینPWAکو تشکیل دینا بڑی حد تک انھیں کا(سجاد ظہیرکا) کا رنامہ ہے۔تنظیم آج چاہے کئی حصوں میں بٹی ہو لیکن تحریک آج بھی زندہ ہے اور برابر پھل پھول رہی ہے۔ سبط حسن نے صحیح لکھا ہے کہ بیسویں صدی کے چوتھے دہے میں’’ڈھاکہ سے پشاور اور دہلی سے مدراس تک کا سفر کرنا اور مختلف زبانوں اور نسلی گروہ سے تعلق رکھنے والے ادیبوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا اور پھر انھیں ایک تنظیم کی کڑی میں پرودینا بڑا جان جوکھوں کا مرحلہ تھا۔لیکن سجاد ظہیر نے یہ کام نہایت خوش اسلوبی سے ہنستے کھیلتے کردکھایا‘‘۔آگے سبط بھائی اسی مضمون میں لکھتے ہیں:
’’ وہ (سجاد ظہیر) عمر بھر انسانوں اور انسانیت کی سربلندی کے لیے بڑے خلوص اور چاؤ کے ساتھ جدوجہد کرتے رہے اور کسی موقعہ پر بھی انھوں نے کسی قسم کی تلخی کا شائبہ تک نہیں آنے دیا۔ اردو ادب کی تاریخ میں ان کا نام ایک ایسی زندگی بخش تحریک کے بانی کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا جس نے ابتدا سے اب تک اعلیٰ تٓخلیقی صلاحیتوں والی نسلوں کو جنم دیا ہے۔‘‘
سجاد ظہیر کی سیاسی زندگی میں بہت سے پڑاؤ آئے۔وطن کی آزادی کی جدوجہد کے سلسلے میں انھوں نے ۱۹۳۹ء سے ۱۹۴۱ء تک برطانوی سامراج کی قید کی صعوبتیں جھیلیں۔۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۷ء تک بمبئی میں کمیونسٹ پارٹی کے ہیڈکوارٹر میں انھوں نے پارٹی کی طرف سے ایک اہم سیاسی رہنما اور مرکزی کمیٹی کے ممبر کا کردار ادا کیا۔ پارٹی کے اردو اخبار قومی جنگ کی ایڈیٹری کے فرائض انجام دیے اور ایک نہایت اعلیٰ درجے کی ادارتی ٹیم تشکیل دی۔ ساتھ ہی بمبئی کو ہر لحاظ سے ایک زبردست ادبی مرکز بنایا۔۱۹۴۸ء کی کمیونسٹ پارٹی کی دوسری کانگریس کے بعدملک کی تقسیم کے مد نظر انھیں پاکستان کے علاقے میں کمیونسٹ پارٹی کی تنظیم نو کی ذمہ داری دے کر بھیجا گیا۔پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی شروع میں ہی ایک غیر قانونی تنظیم قرار دے دی گئی تھی اور سجاد ظہیر کو روپوشی کی زندگی گذارنی پڑی جو اپنے آپ میں ایک بہت سخت اور مشکل زندگی ہوگئی۔ ۱۹۴۸ء سے ۱۹۵۱ء تک ان مشکل حالات میں سرگرم رہنے کے بعد وہ گرفتا کرلیے گئے اور انھیں حکومت پاکستان کو ایک فوجی بغاوت کے ذریعے الٹنے کی کوشش کے جھوٹے الزام کے ساتھ راولپنڈی سازش کیس میں ملوث کردیا گیا۔ اُسی کیس میں فیض احمد فیض کو بھی جو اُس وقت پاکستان کے سب سے بااثر اخبار پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے پھنسا کر قید کیا گیا۔
۱۹۴۸ء سے ۱۹۵۱ء تک پاکستان میں روپوش رہ کر سجاد ظہیر نے جس طرح وہاں کی کمیونسٹ پارٹی اور اس کی ذیلی تنظیموں کو کھڑا کرکے بااثر بنادیا وہ اپنے آپ میں ایک کارنامہ ہے جو تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔سبطِ حسن لکھتے ہیں:
’’انھوں(سجاد ظہیر)نے پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری کا عہدہ بڑے پریشان کن حالات میں سنبھالا تھا۔ پاکستان کے وجود میں آنے سے پیشتر بھی کمیونسٹ پارٹی کے دفتر لاہور، پشاور اور کراچی میں موجود تھے۔لیکن سب سے فعال صوبائی پارٹی پنجاب کی تھی۔ البتہ اس کے بیشتر رہنما سکھ یا ہندو تھے۔ سردار منموہن سنگھ جوش، سردار تیجا سنگھ سونتر، سردار کرم سنگھ مان وغیرہ۔ان میں سے بعضوں کا تعلق غدر پارٹی سے رہ چکا تھا، ملک تقسیم ہوا تو ان سب لوگوں کو بھی ہندستان جاناپڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں کی پارٹی کا شیرازہ بکھرگیا۔ سجاد ظہیر کا یہ سب سے بڑا کارنامہ ہے کہ انھوں نے تین سال کی مختصر مدت میں کمیونسٹ پارٹی کے بکھرے ہوئے تاروں کو نہ صرف از سرِ نو جوڑا بلکہ نئے کارکنوں کی سیاسی تربیت کرکے اس نوزائیدہ پارٹی کو ایک نہایت باعمل اور منظّم جماعت میں تبدیل کردیا۔‘‘
سجاد ظہیر کے ایک اور ساتھی جو بمبئی میں بھی پارٹی کے اردو اخبار میں ان کے ساتھ کام کرتے تھے اور بعد میں اپنے وطن لاہور واپس جاکر وہاں بھی سجاد ظہیر کی رہنمائی میں کمیونسٹ پارٹی کا کام کرتے رہے۔حمید اختر لکھتے ہیں:
’’ بنّے بھائی زندگی کی صحت مندانہ اقدار اور تہذیب کے سچے علمبردار تھے۔ بدترین حالات میں بھی میں نے انھیں مایوس نہیں دیکھا۔وہ ایک انتہائی مہذب،شائستہ اور دلربا شخصیت کے مالک تھے۔ایک سچے ادیب اور فن کار جو دنیا میں حسن شائستگی اور انسانوں کی بہتری کی تلاش میں سرگرداں رہے۔بظاہر وہ بہت ڈھیلے ڈھالے بلکہ انتہائی سست قسم کے انسان نظر آتے تھے مگر انجمن ترقی پسند مصنفین اور بعد ازاں پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے اُنھوں نے حیرت انگیز تنظیمی صلاحیتوں کا ثبوت دیا۔۱۹۴۸ء کے اوائل سے لے کر جب وہ پاکستان آئے، ۱۹۵۱ء میں ان کی گرفتاری کے وقت تک کا زمانہ کمیونسٹ پارٹی اور اس کے زیر اثر کام کرنے والی تمام تنظیموں کا انتہائی فعال زمانہ تھا۔ یہ انھیں کی صلاحیتوں کا انجام تھا کہ تمام ریاستی جبر اور مشکلات کے باوجود پاکستان کے محنت کش خیبر سے کراچی تک کمیونسٹ پارٹی کے پرچم تلے جمع تھے۔لاہور، کراچی اور پشاور میں دانشوروں کے فرنٹ پر ترقی پسند مصنفین سرگرم عمل تھے۔ پورے ملک کے صنعتی مزدور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی رہنمائی میں منظّم تھے، ریلوے مزدوروں کی یونین مرزا ابراہیم کی قیادت میں سب سے زیادہ فعال تھی۔کسانوں کے فرنٹ پر سندھ،پنجاب اور سرحد میں زبردست کام ہوا۔ کراچی میں سوبھوگیان چندانی محنت کشوں کے بے تاج بادشاہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ اگر راولپنڈی سازش کیس جیسے مقدمے قائم کرکے اور سیفٹی ایکٹ جیسے ظالمانہ قوانین کے ذریعے اس ملک کے محنت کشوں کی تحریکوں کو سختی سے کچل نہ دیا جاتا تو آج یہیں ملک کی شکل مختلف ہوتی۔۔۔‘‘
(حمید اختر مصنفہ’آشنائیاں‘ جنگ پبلیشرز لاہور،ص ۲۳)
راولپنڈی سازش کیس میں سجاد ظہیر اور فیض احمد فیض وغیرہ کے بچاؤ میں وکالت کے فرائض حسین شہید سہروردی نے انجام دیے اور بالآخر حکومت کے سارے الزامات بے بنیاد ثابت کرکے ان لوگوں کو بری کروالیا۔۱۹۵۱ء سے ۱۹۵۵ء تک دنیا دم بخود دیکھتی رہی کہ بر صغیر کی ان مایۂ ناز ہستیوں کو موت کی سزا تو نہیں سنائی جائے گی۔ان کی رہائی کی ایک عالمگیر تحریک چلی اور حکومت پاکستان کو ان قیدیوں کو رہا کرنا پڑا۔سجاد ظہیر کے لیے پاکستان میں قیام کسی طرح ممکن نہ تھا کیوں کہ وہاں کی حکومت پھر کسی بہانے انھیں جیل میں ٹھونسنے یا نظر بند کرنے پر تلی ہوئی تھی۔اس لیے وہ ہندستان واپس آگئے۔ پاکستان کے سات سالہ قیام نے پھر بھی بڑے نقوش چھوڑے ۔ پاکستان اور ہندستان کے ادیبوں، دانشوروں،ترقی پسند عوامی کارکنوں میں یکجہتی کی بنیادوں کو مضبوط کیا جو آج ہم سب کے لیے،آئندہ کی مشترکہ جدوجہد کے لیے ایک مضبوط بنیاد ہے۔
ہندستان واپس آکر سجاد ظہیر نے رفتہ رفتہ از سرِ نو یہاں کی تحریکوں میں شرکت کرنا اور ذمہ داریاں سنبھالنا شروع کیا۔ پارٹی کے اردو ہفت روزہ عوامی دور اور اس کے بعد حیات کی ایڈیٹری اور رہنمائی کا کام انھوں نے سنبھال لیا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین (PWA)اس درمیان بہت سے مراحل سے گزر چکی تھی اور اب ایفرو ایشیائی ادیبوں کی تنظیم کی بھی تشکیل ہوچکی تھی۔ سجاد ظہیر نے انھیں حتی المقدور مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے لیے انھیں وقت کم ملا اور ۱۹۷۳ء میں ۱۳؍ ستمبر کو الماتا جو اس وقت قازقستان کا دار السلطنت تھا ایفرو ایشیائی ادیبوں کی کانفرنس کے دوران دل کا دورہ پڑنے پر داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ فی الجملہ ایک نامکملInningsچھوڑ کر وہ ریٹائر ہوگئے۔انھیں ابھی کم از کم پندرہ سال اور جینا تھا۔ تبھی وہ ان کاموں کو پورا کرسکتے جنھیں انھوں نے نہایت خوش اسلوبی سے ایک قابل قدر مقام تک پہنچادیا تھا۔بقول سبطِ حسن:
’’سجاد ظہیر جن کو ہم سب پیار سے بنّے بھائی کہتے ہیں بڑے آن بان کے آدمی تھے اور بڑی شان سے اس دنیا سے رخصت ہوئے انھوں نے ایک بھر پور زندگی گزاری، تمام عمر سچائی، انصاف اور انسانیت کی قوتوں کا ساتھ دیا اور بدی، بے انصافی، انسان دشمنی، ذہنی اور مادی غلامی، غرض کہ ان تمام قوتوں سے لڑتے رہے جو موت اور زوال کی نشانیاں ہیں۔‘‘ (بنّے بھائی، مولفہ عتیق احمد، ص ۴۱)
بنّے بھائی اور ان کے ساتھیوں نے جو ورثہ چھوڑا ہے، جو مثال اصولوں پر قائم رہنے اور سمجھوتہ پرستی، موقعہ پرستی، مفاد پرستی جیسی لعنتوں سے دور رہنے کی انھوں نے قائم کی ہے اس پر ثابت قدم رہنا اور آگے بڑھتے رہنا سب کی ذمہ داری ہے۔
٭٭٭
’’ہمارے اکثر ترقی پسندوں نے بغیر سوچے سمجھے مذہب کو اپنا مخالف بنا لیا۔اس میں انگریزوں کا
بھی بڑا ہاتھ ہے۔وہ سمجھتے تھے کہ کمیونزم کا مقابلہ کوئی فکری تحریک ہی کر سکتی ہے،چنانچہ انہوں نے
ایک پلاننگ کے تحت اسلام اور کمیونزم کا تضاد پیدا کر دیاحالانکہ اسلام اور کمیونزم کے بنیادی عقائد
اور اخلاقیات ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں۔اقبالؔ نے یونہی تو نہیں کہہ دیا تھا کہ
نیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاب
عبید اللہ سندھی نے کہیں لکھا ہے کہ لینن اسلام کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے اور سٹالن
توبرطانیہ کے خلاف مسلمانوں کا ایک بلاک بنانا چاہتے تھے۔لیکن شاطر برطانیہ نے نہ صرف یہ
بلاک نہیں بننے دیا بلکہ الٹا مسلمانوں کو کیمونسٹوں سے ایسا لڑایا کہ یہ لڑائی پھر مسلمان ہی نے لڑی۔
انگریز کا یہ منصوبہ افغانستان میں جا کر مکمل ہوا۔ہمارے ترقی پسند عملی کی بجائے آئیڈیلسٹ تھے۔
انہوں نے نہ تو یہاں کے ثقافتی مزاج کو سمجھا اور نہ مذہب کے گہرے اثرات کو محسوس کیا۔‘‘
(ڈاکٹر رشید امجد کی خود نوشت تمنا بے تاب صفحہ نمبر ۱۳۱۔۱۳۰سے اقتباس)