ڈاکٹر سید محمد عقیل
سجاد ظہیر کی پیدائش کو ۱۰۰سال گزر چکے اور ان کی وفات کو تقریباَ ۳۲سال۔ ایک ادیب کی حیثیت سے انھوں نے بہت زیادہ نہیں لکھا۔ ایک ڈرامہ، ’’بیمار‘‘ ایک ناول ’’لندن کی ایک رات‘‘، خطوط کا ایک مجموعہ ’’نقوش زنداں‘‘کے نام سے چھپا، ترقی پسند ادب کی ایک تاریخ ’’روشنائی‘‘، ایک شعری مجموعہ’’ پگھلا نیلم‘‘ اور کچھ ادبی مضامین، کچھ غیر ملکی کتابوں کے ترجمے، ’’ذکر حافظ‘‘ کے نام سے کلام حافظ کا ایک انتخاب۔ ایک ایسے ادیب کے لئے جس نے عمر کے اڑسٹھ سال طے کئے ہوں، یہ کام بہت بڑا کارنامہ نہیں۔ لیکن جس نے سجاد ظہیرؔ کی ہنگامہ خیز زندگی دیکھی ہے، جوان کی سیاسی اور ادبی سرگرمیوں ، دونوں سے واقف ہے، اس کے لئے یہ کام بھی حیرت انگیز ہے۔ ادیبوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا (جس سے مشکل کام دنیا میں کوئی دوسرا نہیں) کمیونسٹ پارٹی کا کام کرنا، جس میں اخبار بیچنے سے لے کر دوسرے مسائل بھی شامل ہیں۔ ملک کی سیاست پر بھی نظر رکھنا، ادب اور سیاست کا ہر وقت جائزہ لیتے رہنا، ان ترقی پسند اصولوں کا احصا کرنا جو ملک کی سیاست اور ادب کے ارتقا میں مددگارثابت ہوں، سیمینار اور کانفرنسوں کا ان مسائل کی افہام و تفہیم کے لئے منعقد کرنا، یہ ساری ذمہ داریاں انھوں نے اپنے سر لے رکھی تھیں۔
ایک ادیب کی حیثیت سے ۱۹۳۱ء کے قریب وہ ادبی افق پر نمودار ہوئے۔ اور افسانوں کا مجموعہ جو انھوں نے ’’انگارے‘‘ کے نام سے شائع کیا، اس نے ہندوستانی ادب اور خصوصاَاردو ادب کے ٹھہرے ہوئے ماحول میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ اور یہیں سے ترقی پسندی کی باقاعدہ فضا، اردو میں بطور خاص بننا شروع ہوئی۔ ’’انگارے‘‘ایک ایسے ذہنی انقلاب لانے کی کوشش تھی، جو روایت پسندی کی بنیادوں کو ڈھا دے، فرسودہ عقیدوں سے تعقل پسندی کی طرف ذہن کو رجوع کر کے مادیت اور روحانیت کی کشمکش میں مادیت کی عملی زندگی کا ساتھ دے سکے۔ اور اس طرح عوام الناس کو اس DOGMAسے نکال سکے جس میں مدتوں سے روایتی اخلاق پرستوں نے اسے اسیر کر رکھا تھا۔ لیکن جیسا کہ ہر تحریک کی ابتدا میں ہوتا ہے، ’’انگار ے ‘‘نے کچھ انتہا پسندی سے بھی کام لیا جسے مشرق کی روحانیت برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ سجادؔ ظہیر ہی کے پانچ افسانے ،’’ نیند نہیں آتی‘‘،’’ جنت کی بشارت‘‘، ’’گرمیوں کی رات‘‘،’’ دلاری‘‘، اور پھر یہ ہنگامہ،ؔ سب سے زیادہ لعن طعن کا نشانہ بنے (اگر چہ انگارے میں احمد علیؔ، رشید جہاںؔ اور محمودؔ الظفر کے بھی پانچ افسانے شامل تھے) اور ترقی پسندی پر ہر طرف سے حملے شروع ہو گئے۔ گو کہ اس قت تک ترقی پسندی کی باقاعدہ بنیاد نہیں رکھی گئی تھی۔ لیکن انگارےؔ کی اشاعت نے ایک ، ہلچل مچا دی۔ اردو افسانوں کی ایسی دنیا جہاں سلطان حیدرؔ جوش، پریم چند، نیاز فتح پوریؔ اور مجنوںؔ گورکھپوری کا چلن تھا، انگارے کی اشاعت، ایک نئی سمت تھی جس میں نئے سماجی انسان کی تلاش چھپی ہوئی تھی۔ نئے مسائل کی طرف اشارہ تھااور افسانہ نگاری کی ایک نئی دنیا مضمر تھی۔ فن کے اعتبار سے ان افسانوں کا نقص نمایاں ہے۔ مگر ان کے PIONEERہونے میں کسی کو شبہ نہیں ۔ کرشن چندرؔ، عصمتؔ، منٹوؔ اور بیدیؔ کے افسانوں کے لئے انگارےؔ کی روایت ہی مشعل راہ بنی۔ شاید پریم چندؔ اور دوسرے افسانہ نگاروں کی روایت ان نئے افسانہ نگاروں کی اتنی مدد نہیں کر سکی جتنی کہ انگارے کی فکر ی جہت سے یہ نئے افسانہ نگار متاثرہوئے ۔ یہاں انگارےؔ پر تبصرہ مقصود نہیں مگر ان اثرات کی طرف اشارہ کرنا ضرور ہے جو پھیل کر ہتکؔ، کیڈل کورٹؔ، خونی ناچؔ، تائی ایسریؔ، پان شاپؔ، متھنؔ اور اپنے دکھ مجھےؔ دیدو بنتے ہیں۔ اسی طرح سجاد ظہیر اچھے افسانہ نگار نہ سہی مگر نئے افسانے کو ایک ایسا نیاراستہ دکھانے میں وہ ضرور کامیاب ہوئے جہاں حسرت زدہ انسانوں کی تقدیریں، محرومیوں کا شکار تھیں اور اپنا اظہار چاہتی تھیں۔ جہاں عقل و ذہن پر روایت پرستی کا احتساب تھا۔ جہاں جنس ایک شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی تھی اور جسے چاہے کتنے ہی گھناؤنے طریقے سے عملی زندگی میں کیوں نہ برتا جائے۔ لیکن اس کا اظہار ممنوع تھا۔ انگارے کی اشاعت نہ ہوتی تو شاید نئے افسانوں کی بار آوری اس طرح سے نہ ہوتی جیسی کہ ہوئی اور جس کی روایت آج بھی جاری ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اپنی لندن کی زندگی میں سجاد ظہیرؔ نے سب سے پہلے بیمارؔ نام کا ایک ڈرامہ لکھا اور اسے ایک ادبی انجمن میں پیش کیا جسے اس وقت ڈاکٹر تاثیرؔ اور ملک راجؔ آنند نے بہت پسند کیا تھا۔ یہ ہو بھی سکتا ہے، اس لئے کہ مغربی ادب اور زندگی میں جو اہمیت ڈرامے کو حاصل ہے ، اس کا تقاضہ بھی یہی تھا کہ مغرب میں رہ کر ہندوستانی ادب کو فروغ دینے کی تمنا کرنے والا طالب علم ڈرامے کی روایت میں ادب کی ترقی کو سوچے، خصوصاَ اس وقت جب کہ اردو میں خاص طور پر ڈرامے کی روایت بہت کمزور بھی تھی۔ لیکن بیمارؔ کوئی اچھا ادبی نمونہ نہیں بن سکا۔ ہاں موضوع کے اعتبار سے بیمارؔ کا موضوع انارؔ کلی کی رومان انگیز فضا سے الگ تھا اور اس طرح اردو ڈراموں کی جیسی بھی روایت تھی اس سے بیمارؔ کا موضوع با لکل الگ تھا۔ ایک غریب بیمار عزیزؔ ایک متمول عزیز کے یہاں مہمان ہوتا ہے اور تپِ دق کے مرض میں گرفتار ہے۔ متمول عزیز، اس کی بیمار کا خیال نہ کر کے اسے اسپتال میں پھنکوا دیتا ہے تو اس کی بیوی اس کی تیما داری کو انسانیت کا فرض سمجھ کر اسے اپنے ساتھ رکھنا چاہتی ہے تاکہ بیمارؔ کی اچھی طرح خبر گیری ہو سکے۔ یہیں سے کشمکش شروع ہوتی ہے اور میاں بیوی میں ایک طرح کا ذہنی اختلاف بھی۔ یہ ڈرامہ ایک طرح کے ذہنی رویے کا دوسرے ذہنی رویے سے ٹکراؤ ہے۔ ڈرامہ میں سواڈائیلاگ کے اور کچھ نہیں اور نہ یہ اچھی طرح اسٹیج کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے بھی کہ سجاد ظہیرکے سامنے شاید اس کی STABILITYکا مسٔلہ اتنا اہم نہ تھا جتنا کہ اس ذہنی رویے کے اظہار کا جو ڈرامے میں پیش کیا گیا ہے۔ جس آگ میں ہندوستان اس وقت جل رہا تھا، اس میں یہ ذہنی انقلاب ہی اہم چیز تھا۔ اور یہی کوشش سجاد ظہیرؔ کی ہر تخلیق میں جھانکتی نظر آتی ہے۔ وہ ہر شعبۂ ادب اور فکر میں ایک تبدیلی کے خواہاں تھے۔ شاید فنی اہمیت ان کی نظر میں اتنی وقیع نہ تھی جتنی کہ وہ تبدیلی جو وقت کے ساتھ بدلتی ہوئی قدروں کا ساتھ دے سکے اور نت نئی کروٹیں لیتی ہوئی زندگی کے پیچ و خم کا ادراک کر سکے۔ ایسے پیچ و خم جن سے اس دور کے انسان گزر رہے تھے۔ سجاد ظہیرؔ کی یہ کوشش اور خواہش انکی تحریروں میں بار بار ابھرتی رہتی ہے۔ روشناؔئی میں ایک جگہ لکھتے ہیں :-
’’ ہم چاہتے ہیں کہ ترقی پسند دانشور ، مزدوروں اور کسانوں ،غریب اورمظلوم عوام سے ملیں۔ ان کی سیاسی اور معاشرتی زندگی کا حصہ بنیں، ان کے جلسے اور جلوسوں میں جائیں، انھیں اپنے جلسوں اور کانفرنسوں میں بلائیں۔ اس لئے ہم اپنی تنظیم میں اس پر زور دینا چاہتے تھے کہ دانشوروں کے لئے ادبی تخلیق کے ساتھ ساتھ عوامی زندگی سے زیادہ سے زیادہ قرب ضروری ہے۔ بلکہ نیا ادب بغیراس کے پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ہماری انجمن کی شاخیں گوشہ نشین علماء کی ٹولیاں نہ ہوں بلکہ ان میں حرکت بھی ہو —– ادیب اور شاعر، عام لوگوں سے ملتے جلتے رہیں۔ ان میں پیوست رہیں، ان سے سیکھیں اور انھیں سکھائیں —— یہ ایک ایسا جاندار ادبی ادارہ ہو جس کا عوام سے براہ راست اور مستقل تعلق رہے۔ ‘‘(روشنائی ۹۱)
یہ صحیح ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے قلم کی روشنائی خشک نہ ہو۔ ہمارے موضوعات ادب میں باسی پن نہ آئے، ہمارے ذہن اور فکر کو روز نئی غذا ملتی رہے تو ہمیں اپنا رابطہ، عوام سے جوڑے رکھنا چاہئے۔ محنت اور متوسط طبقے کی سماجی زندگی سے بہتر اور کوئی موضوع ادب کے لئے ممکن نہیں۔ گور کی نے ایک موقع پر بہت اچھی بات کہی تھی: –
“The Richest Treasure House of Language is to be found in the speech of simple people, among the folklore and storeis of the people there is to be found the greatest enrichment of language and literature.”
لیکن ہم نے بہ حیثیت ترقی پسند ادیب بھی، ابھی تک اس سادگی کو گرفت میں نہیں لیا جو محنت کش طبقے کی سادگی ہے، جو متو سط طبقے کی پیچیدہ سوسائٹی یا سماجی زندگی کی تہوں میں چھپی ہے۔ہماری ساری کوشش ’’سوسائٹی‘‘ کی چمک دمک اور گاہے ماہے اس کی خام کاریوں کو بے نقاب کرنے ہی میں صرف ہوتی ہے اور اس طرح ہم جیسے بہت سے لوگ، جو متوسط طبقے سے خود بھی آتے ہیں۔ ’’سوسائٹی‘‘ کا ایک پرزہ بن جاتے ہیں۔ اور اپنی وہ سطح چھوڑ دیتے ہیں جس کے وہ بہترین نباض ہو سکتے تھے۔
جب ہم اپنی سطح کو چھوڑ کر تہذیب کی اس چمک دمک کے اسیر ہونے لگتے ہیں جو ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف لے جاتی ہے تو ہم اپنی سطح کے گردو پیش سے دور ہو جاتے ہیں اور پوشیدہ طور پر اپنا ذہن اپنی صلاحیتیں بیچنے لگتے ہیں۔’’ لندن کیؔ ایک رات‘‘ کے بہت سے کرداروں سے لے کر ہندوستان اور بیرون ہند بھی بہت سے ترقی پسند ادیبوں کی طرح۔ اور یہ بات کوئی حیرت خیز بات نہیں۔ انگریزی ادب میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ ڈی۔ ایچؔ۔ لارنس اور ایچ۔ جیؔ۔ ویلس محنت کش طبقے سے آئے تھے۔ لیکن انھوں نے اپنی سطح چھوڑ کر ’’سوسائٹی‘‘ حاصل کرنے کے شوق میں مصلحت پسندی سے کام لیا۔ اور اس تہذیب کے کل پرزے بن گئے جو تمام ذہنوں کو تھوڑی سی چمک دمک دکھا کر کھینچ لیا کرتی ہے۔
’’لندن کی ایک رات‘‘ کے کردار ہندوستان کے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ہندوستان سے لندنؔ تعلیم کی غرض سے جاتے ہیں۔ انھیں اپنے ملک میں بیروزگاری اور مفلسی کا پورا احساس رہتا ہے۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ ہندوستان واپس جا کر خود ان کی کیا حالت ہو گی۔ لیکن ان تمام تلخ حقیقتوں کو تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی، بھول جانے کے لئے وہ اس چمک دمک والی تہذیب سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں وہ وقتی طور پر انھیں سکون بخش سکتی ہے۔ لیکن وہ کردار جن کا شعور بیداراحسان،ؔ راؤؔ اور جمؔ کی طرح وہ زندگی اور تاریخ کی صحیح نبض کو گرفت میں لیتے ہیں اور یہی لندنؔ کی ایک رات کا تاریخی اور عمرانی شعور ہے۔
’’تم سب رئیس، بنئے، مہاجن، بیرسٹر، وکیل، ڈاکٹر، پروفیسر، انجینئر، سرکاری نوکر جونک کی طرح ہو اور ہندوستان کے مزدوروں اور کسانوں کا خون پی کر زندہ رہتے ہو۔ ایسی حالت قیامت تک قائم نہیں رہے گی۔ کسی نہ کسی دن تو ہندوستان کے لاکھوں کروڑوں مصیبت زدہ انسان خواب سے چونکیں گے۔ بس اسی دن تم سب کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے گا۔ احسانؔ نے اپنے کرخت پنجابی لہجے میں کہا۔‘‘
راؤؔ ، اعظمؔ سے کہتا ہے : –
’’خیال تو کرو، ۳۵کروڑ انسان اور ایک لاکھ سے بھی کم انگریز ان پر مزے سے حکومت کرتے ہیں اور حکومت بھی کیسی جس میں ذلیل سے ذلیل انگریز کا رتبہ، بڑے سے بڑے ہندوستانی سے بڑھ کر ہے۔ یہاں انگلستان میں چاہے انگریز مرد ہمارے جوتے صاف کریں اور انگریز لڑکیاں ہم سے محبت کریں مگر سوئیز کے اس پار تو ہم سب کا لالوگ ’’نیٹوز‘‘ غلاموں سے بدتر سمجھے جاتے ہیں۔ میں بیرسٹرہو جاؤں اور تم انجینئر مگر ہندوستان میں وہی نیٹو کے نٹیور ہو گے اور انگریزوں کی ٹھوکریں کھاؤگے اور باوجود اس کے پھر الٹ کر انھیں کو ’سرکار سلام‘ ’خداوند‘،’’ماں باپ‘‘ کہو گے۔ اتنی ذلت برداشت کرنے پر بھی جس قوم کے کان پر جوں نہ رینگے اس کا تو صفحۂ ہستی سے ناپید ہو جانا ہی بہترہے۔ ‘‘
رالفؔ فاکس نے اپنی کتاب ناول انڈدی پیوپل(NOVEL AND THE PEOPLEمیں ایک دلچسپ قصہ لکھا ہے۔ ان کی مشہور میگزین اسپکٹیٹر س میں کوئی ای۔ ایچؔ کار تھے جنھوں نے گورؔ ی کے متعلق لکھا کہ گورؔ ی کے نے اپنی کیپری کی زندگی میں بدقسمتی سے سیاسی ناول لکھنا شروع کیا۔یہی ناول اس کی ناکامیابی کا سبب بنے۔ آج کوئی ان کے نام تک نہیں جانتا۔ اس پر رالفؔ فاکس نے سامعین سے دریافت کیا کہ کیا گورؔ کی کا ناول ’’ماں‘‘ؔ، ایسا ہی ناول ہے جس کا کوئی نام نہیں جانتا ۔ یا ماںؔ ایسا ناول ہے جس نے ناول کی دنیا میں سیاست کے موضوع کو ایک اہم موضوع بنا دیا؟ شاید دنیا کے بہت سے لوگوں نے ماںؔ کو پڑھ کر پہلی دفعہ سمجھا کہ سیاست ناول کے لئے کتنا کار آمد موضوع ہو سکتا ہے۔ یہاں اس مقالے میں رالف فاکس کی یہ بات پیش کرنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ لندن کی ایک راتؔ پر بحث کرتے ہوئے ایک مقالہ نگار نے ایک جگہ لکھا کہ ’’ یہ ناول مقصدیت سے عاری ہے۔ اس میں ٹھوس واقعیت اور تبلیغی ذہنیت نہیں ملتی۔ نہ اس میں طبقاتی کشمکش ہے اور نہ اس کے کردار کسان مزدور ہیں اس کے مسائل روزی روٹی سے وابستہ نہیں اور نہ اس کا مقصدسماج کے استحصالی مزاج و افراد کو بے نقاب کرنا ہے۔ ‘‘ اور اس سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ چوں کہ اس ناول میں ایسا کچھ نہیں ہے، اس لئے یہ ناول اردو ناول کی تاریخ میں ایک اہم ناول ہے۔ جو اقتباسات ’لندن کی ایک رات‘ سے اوپر پیش کئے گئے ہیں وہ خود اس مفروضے کا جواب ہیں کہ اس ناول کا اصل موضوع کیا ہے اس میں شک نہیں کہ شعور کی رو کا استعمال ’لندن کی ایک رات‘ سے پہلے شعوری طور پر اردو ناول کی تاریخ میں نہیں ملتا۔ لیکن یہ سوچنا درست نہیں کہ سجاد ظہیرؔ کی یہ تخلیق، محض ایک مغربی ٹیکنیک کے استعمال کے لئے پیش کی گئی تھی جس کا موضوع سے کوئی خاص علاقہ نہیں تھا۔’ لندن کی ایک رات‘ ہندوستان کے ایسے ذہنوں کی تصویر ہے جو امید و بیم ، مایوسی اور خوف کے جذباتی ہیجان سے ۱۹۳۰ء کے گرد و پیش گزر رہے تھے۔ زندگی کی معلومات کے لئے فن سے اس کا وابستہ ہونا لازمی بات ہے۔ کوئی ذہنی تخلیق اپنے دور کی زندگی سے الگ ہو کر، نہ خوبصورت ہو سکتی ہے، نہ تخلیقی اور نہ زندگی کی معلومات کو بے جان طریقے سے پیش کر کے یا مبہم انداز میں ان کا اظہار کر کے کوئی ادیب زندہ رہ سکتا ہے۔ کچھ ایسی ہی بات لیننؔ نے ایک بار ادیبوں کے لئے کہی تھی۔ کوئی دور حیات تحریکات اور تضادات سے خالی نہیں ہوتا۔ اور’ لندن کی ایک رات‘ میں ایسے دور حیات کے فکری نقوش ملتے ہیں۔ اس کے متعلق یہ سوچنا کہ یہ محض لندنؔ میں ہندوستانی طالب علموں کی عیش کوشی کی داستان ہے جو ایک خاص اسٹائل میں پیش کی گئی ہے اور اسی لئے اس ناول کو قبولیت کی سند ملی ہے، ایک گمراہ کن محاسبہ ہے۔ ہاں اس ناول میں بھی افسانوں کی طرح سجاد ظہیرؔ نے نئے طرز کی ناول نگاری کے امکانات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے جو ایک طرف آگے بڑھ کر ’ٹیڑھی لکیر اور شکست‘ بنتے ہیں اور دوسری طرح اسی میں سے وہ مزاج بھی پیدا ہوتا ہے جو عزیزؔ احمد کے گریزؔ ، آگؔ، ایسی بلندیؔ ایسی پستیؔ اور شبنمؔ کا مزار بنتا ہے۔ بلکہ لندن کیؔ ایک رات، آگؔ کا دریا، اور آخر شب کے ہم سفر پر بھی سایہ فگن ہے، موضوع کے اعتبار سے بھی اور شعور کی رو والی ٹیکنیک کے لحاظ سے بھی۔
سیاست کی عملی زندگی نے سجاد ظہیرؔ کی تخلیقی صلاحیتوں کو وہ موقع نہ دیا جو انھیں ملنا چاہئے تھا۔ اگر انھوں نے اپنا میدان عمل صرف تخلیقات تک محدود رکھا ہوتا تو اردو ادب کو ایک عظیم فنکار ان معنوں میں بھی ملتا ۔ نہ معلوم کتنی تخلیقات اور حسرت تخلیق ان کے ذہن میں دفن رہ گئیں۔ ان کے خطوط ’نقوش زنداں‘ کا مطالعہ کیجئے تو کتنی ہی کتابوں کے خاکے اور تصنیفی خواہشات ملتی ہیں۔ ان خطوط سے اس کرب تخلیق کا بھی اندازہ ہوتا ہے جس سے سجاد ظہیر گزر رہے تھے یا جن کو کاغذ پر پیش کرنے کی انھوں نے کوشش کی۔کچھ مضامین بھی جیل کی زندگی میں رجعت پرستوں کے جواب میں لکھے۔ ان میں سے ایک مقالۂ غلط رجحانؔ ‘ کے نام سے ۱۹۵۱ء میں چھپا ۔ جب وہ پاکستان میں قید تھے۔ اس سے پہلے ۱۹۴۷ء میں ’شعر محض‘ کے نام سے ، فرانسؔ کی انحطاطی شاعری پر ایک قابل قدر مقالہ پیش کیا۔ سید احتشامؔ حسین نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ جو کتاب انھوں (سجاد ظہیر) نے جیل میں لکھی وہ شائع نہ ہو سکی۔‘‘ یہ بات احتشام حسین نے اپنے ایک مقالہ میں لکھی تھی۔ معلوم نہیں کہ وہ کون سی کتاب تھی۔ ہو سکتا ہے کہ ’روشنائی‘ کے علاوہ وہ بھی کوئی ایسی ہی تخلیق رہی ہو جو شائع نہ ہو سکی۔ ان کا ایک بہت ہی اہم مقالہ ’یادیں‘ کے نام سے ۴۰ – ۱۹۳۹ء میں شائع ہوا تھا۔ میں نے وہ مقالہ نہیں دیکھا۔ مگر جو تفصیلات اور حوالے اس مقالے کے کہیں کہیں ملے ہیں ان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ غالبا وہ مقالہ ’روشنائی‘ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ غالباَ یادیںؔ ہی روشنائی کا ابتدائی حصہ ہے۔
بہر حال ’روشنائی‘ میرے نظر میں سجاد ظہیرؔ کی سب سے اہم کتاب ہے۔ اہم ان معنوں میں کہ روشنائی کے ذریعہ انجمن ترقی پسند مصنفین اور ترقی پسندی جو ہندوستانی ادب کی سب سے بڑی تحریک ہے۔ اس کی کما حقہ، تاریخ خود اس انجمن کی داغ بیل رکھنے والے کے قلم سے پیش کی گئی ہے۔ ’روشنائی‘ تحریک کی تاریخ ہے۔ رپورتاژ ہے، ترقی پسند ادب کا دستور العمل ہے۔ اور ایک ایسی دستاویز ہے جس کے بغیر ترقی پسند ادب کے ذہنی اور فکری ارتقا کو سمجھنے میں بڑی دقتیں پیش آئیں گی۔ ساتھ ہی ساتھ اردو کے اس دور کے نثری ادب کا دلنشیں نمونہ بھی۔ سجاد ظہیرؔ کا قلم ایک مصور کے موقلم کی طرح ہر ہر موقع کی ایسی تصویریں پیش کرتا ہے جس میں سماجی حقیقت نگاریاں بھی ہیں ،ادبی چاشنی بھی اور ایک مورخ کا محتاط قلم بھی۔ جہاں تحریک کے مخالفین پر نکتہ چینی کی گئی ہے وہاں ان کے ساتھ ایک ہمدردی کا جذبہ بھی کار فرما ہے جس سے بوئے عناد دور رہتی ہے۔ ان کی شخصیت کا ہالہ، تمام ایسی کیفیتوں کے گرد گھیرا ڈالے ہے جو دوسری صورت میں مخالفت کا ایک تنا ور درخت ہو سکتی تھیں۔ اس کے باوجود ترقی پسند ادب کے مخالفوں کی تعداد کم نہیں ہو سکی۔ نیاز فتحؔ پوری کی ایک تصویریوں پیش کی گئی ہے۔
’’ساغرؔ صاحب نے ہمیں بتایا کہ ان کو کانفرنس میں آنے میں دیر اس وجہ سے ہوئی کہ وہ صبح سے نیازؔ صاحب کے یہاں بیٹھے تھے اور نیاز ؔ صاحب اس کے منتظر تھے کہ کانفرنس کے منتظمین میں سے کوئی ان کے واسطے سواری لے کر ان کے مکان پر پہنچے تب وہ تشریف لے چلیں۔ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے انتظار کے بعد ساغرؔ تو تانگے پر بیٹھ کر خود ہی کانفرنس تک آ گئے۔ لیکن مولانا نیازؔ اس لئے تشریف نہیں لائے کہ کوئی انھیں لانے کے لئے نہیں گیا۔ وہ ہم سے روٹھ گئے تھے۔ ساغرؔ صاحب نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ مولانا نے کانفرنس میں پڑھنے کے لئے ایک مقالہ بھی سپرد قلم فرمایا تھا۔ ان باتوں کو سن کر ہمیں اپنی کو تاہی پر شرمندگی ہوئی اور اپنی محرومی کا رنج ۔ لیکن ہم یہ سوچنے پر مجبور تھے کہ ہماری کانفرنس میں شریک ہونے والے دو ادباء پریم چندؔ اور حسرتؔ موہانی با لکل دوسری طرح ہماری کانفرنس میں آکر شریک ہوئے تھے اور ان کے علاوہ بہت سے نوجوان ادیب ملک کے دور دراز علاقوں سے سفر کا خرچ قرض لے کر تیسرے یا ڈیوڑھے درجے میں سفر کر کے لکھنؤ تک پہنچے تھے اور تکلیف دہ جگہوں پر ٹھہرے تھے۔ یقینا ان لوگوں میں اور مولانا نیاز میں نمایاں فرق تھا۔ جو اپنے لکھنؤ کے مکان سے جو ر فاہ عام سے کوئی میل بھر کے فاصلے پر تھا، کانفرنس کے ہال تک سواری نہ پہنچنے کی وجہ سے نہیں آ سکتے تھے ۔‘‘
اس کے بر عکس پریم چندؔ جس طرح اچانک سجاد ظہیرؔ کے گھر پہنچتے ہیں، اس سے ان کا انکسار ان کی بھلمنسا ہٹ اور ان کی ادب دوستی نمایاں ہے۔ وہ لوگ یقینا انسانیت کی منزل میں چھوٹے ہیں جو کسی ادبی محفل میں ایسے شتر غمزے دکھاتے ہیں جس طرح نیازؔ فتحپوری کے واقعے سے عیاں ہے۔ یہ بات اس متوسط طبقے کی ذہنیت کی غماز ہے جو اردو کے مشاعروں کی فضا میں بار آور ہوئی ہے روشنائی میں ایسی بہت سے خوبصورت تصویریں موجود ہیں۔ حسرت موہانیؔ کی تصویر ، پریم چند کی تصویر اور جینندر کمار کی تصویر ۔ سب اپنی جگہ عہد آفریں۔
روشنائی اپنے دور کی ادبی تاریخ کے ساتھ ساتھ ادبی اور فکری زندگی کا جیسا احاطہ کرتی ہے آزادی حیات‘‘ کے علاوہ شاید ہی کوئی اور دوسری مثال ملے ۔ یہ کام وہی کر سکتا ہے جو نہ صرف ادب کا نباض ہو بلکہ تاریخ کے قدموں کے دھمکوں اور وقت کی آواز کو بھی پہچانتا ہو۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی بے لاگ قوتِ اظہار پر بھی قدر ت رکھتاہو۔ سجاد ظہیرؔ یہ باتیں روشنائی میں اکیڈمک ڈھنگ سے نہیں بلکہ اسی بے لاگ قوت اظہار اور تاریخی پس منظر میں پیش کرتے ہیں۔ پریم چندؔ، ٹیگور، ؔ حسرت موہاؔنی، احمد علیؔ اور خود ترقی پسند تحریک کے ارتقا اور تنزل ، سب کا تجزیہ اسی قوت اظہار کے ساتھ ملتا ہے۔ ٹیگور کے متعلق جو ایک طبقہ میں دیو مالائیت کا جذبہ ملتا ہے ، روشنائی میں اس سے اختلاف کیا گیا ہے۔ وہاں سجاد ظہیرؔ کی نظر میں ٹیگورؔ کا فن عوامی زندگی سے الگ ہوتا ہے جہاں وہ سامراج کی چالوں کو سمجھتے ہوئے بھی ان پر کھل کر تنقید نہیں کرتے۔ کیونکہ ایسے مسائل سے شاید ادب کو آلودہ کرنا نہیں چاہتے تھے۔ ایک عام بورژ و افنکار کی طرح ٹیگورؔ بھی ادب کو صرف ملکوتی صفات کا حامل سمجھتے تھے۔ ادب کی دنیا میں ایسی صورتیں اکثر پیش آتی رہی ہیں۔ اچھے سے اچھے فنکار بھی اپنے دور کے ما قبل کے معیاروں سے جب گرد و پیش میں ایسی تبدیلی پاتے جو انھیں کسی وجہ سے پسند نہ ہوتی تھیں تو اس تبدیلی سے کتراتے تھے۔ اگر چہ وہ تبدیلیاں ان کے گرد و پیش کی زندگی میں ایک ایسا انقلاب لا رہی ہوتیں جن سے سارا سماجی ڈھانچہ بدلتا ہوتا۔ گوئیٹے، اپنی فکر و نظر کی دنیا میں خود کو ایسامحصور کئے ہوئے تھا کہ انقلابِ فرانس کو اس نے پہلے پہل کوئی اچھی چیز نہ سمجھا لیکن جب رفتہ رفتہ انقلاب فرانس کا چمتکار اس پر منکشف ہونے لگا اور اس نے بہت غور سے ان تبدیلیوں کو محسوس کیا جو انقلاب فرانس کی وجہ سے سماجی حالات، جمالیاتی مذاق اور سیاسی رجحانات میں رونما ہو رہی تھیں تو اس کی تخلیقات سے تمام ایسی فرضی اور خیالی باتیں دور ہونے لگیں جن کا اس انقلاب سے پہلے اس نے کوئی تصور نہیں کیا تھا۔ کچھ ایسا ہی ٹیگورؔ کے ساتھ بھی ہوا۔ اپنی آخری عمر میں ان کا نقطۂ نظر بھی بدلنے لگا تھا اور انھیں اس بات کا بڑا افسوس تھا کہ انھوں نے یہ بات بہت دیر میں محسوس کی۔ ہندوستان کی عام زندگی سے الگ رہ کر انھوں نے اپنا بڑا نقصان کیا۔ روشناؔئی میں اس مسٔلے پر بہت اچھی بحث کی گئی ہے اور ٹیگورؔ کے اس پیغام کے کچھ حصے پیش کئے گئے ہیں جو انھوں نے کلکتہ میں ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس کے موقع پر بھیجا تھا۔ یہاں اس کے دو ایک جملے پیش ہیں:-
’’ادیبوں کو انسانوں میں مل جل کر انہیں بھی پہچاننا ہے۔ میری طرح گوشہ نشین رہ کر ان کا کام نہیں چل سکتا۔ زمانۂ دراز تک سماج سے الگ رہ کر اپنی ریاضت میں میں نے بڑی غلطی کی۔ اب میں اسے سمجھ گیا ہوں۔ اگر ادب انسانیت سے ہم آہنگ نہ ہوگا تو وہ ناکام اور نا مراد رہے گا۔ یہ حقیقت میرے دل میں چراغ حق کی طرح روشن ہے اور کوئی استد لال اسے بجھا نہیں سکتا۔‘‘ (روشنائی ۲۲۷)
اپنی آخری عمر میں سجاد ظہیرؔ نے شاعری کی طرف بھی باالقصد توجہ کی اور ایک مجموعہ ’’ پگھلا نیلم‘‘ کے نام سے مرتب کیا۔ اگر چہ اپنی ابتدائی ادبی زندگی میں بھی وقتاََ فوقتاََ وہ نظمیں لکھتے تھے مگر باقاعدہ شاعری کی مثال ان کا یہی مجموعہ پگھلا ؔنیلم ہے۔ یہ بات ابتدا ہی میں کہی گئی ہے کہ سجاد ظہیرؔ کو ہر صنف ادب میں جسے انھوں نے برتا، ایک ہر ا ول کی حیثیت حاصل رہی۔ ’’پگھلا نیلم‘‘ ترقی پسند شاعری میں نئی جہت کی طرف ایک پانیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں پابندنظمیں بھی ہیں اور نثری نظمیں بھی۔ یہ مجموعہ نومبر ۱۹۶۴ء میں دلی سے شائع ہوا۔ اس کے دیباچے میں بہت دلچسپ بحث نظموں میں پابندی اور عدم پابندی پر کی گئی ہے اور یہ نتیجہ نکالا گیا ہے :-
’’میرا خیال ہے کہ اصلی اور اچھی شاعری، بحر، وزن یا قافیہ کی پابندی کے ساتھ بھی کی جا سکتی اور ان کے بغیر بھی۔‘‘ ٭٭٭
اے مسلماں اپنے دل سے پوچھ، ملّاسے نہ پوچھ
ہو گیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم
(علّامہ اقبال)