وہ دونوں اپنے گروپ کے پاس آگئیں تھیں۔ کچھ ہی دیر بعد ایک گائیڈ نے انہیں بتایا کے یہاں سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر ستارہ جھیل ہے جو آجکل میں بھی نرف سے ڈھکی رہتی ہے۔
اتنا سننا تھا کہ سب کا دل للچانے لگا اور پھر ٹھیک ایک گھنٹے بعد ان میں سے کچھ جھیل سیف الملوک سے آدھے گھنٹے کی مسافقت پر ستارہ جھیل جانے کی تیاری کرنے لگے ۔۔
ستارہ جھیل تک جانے کا راستہ نا ہونے کی وجہ سے کوئی پراپر انتظام نہیں تھا ۔۔
ان لوگوں نے خچر ہائر کیے اور سفر شروع کر دیا راستے میں دو ایک جگہ انہیں مسلہ ہوا لیکن سب نے بغیر کچھ کہے سفر جاری رکھا اور بل آخر پچاس منٹ بعد وہ لوگ چوٹی پر کھڑے تھے جس کے دامن میں ستارہ جھیل واقع تھی۔۔
رملہ آیت اور زلیخا کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ایسا ہی حال کم و بیش سب کا تھا وہ جھیل کیا تھی رب کی قدرت کا حسین نظارہ تھا ایسا لگتا تھا رات آسمان پر جو روشن ستارے چمکتے ہیں ان میں سے ایک ٹوٹ کر زمیں کے اس خطے پر آگرا ہو
وہ جھیل دور سے دیکھنے پر واقع ستارہ معلوم ہورہی تھی گائیڈ کے مطابق اس جھیل کی سطح سال کے نو ماہ برف بنی رہتی ہے اب چونکہ جولائی کا مہینہ ہے تو اسلیے برف کی بڑی بڑی پٹیاں تیر رہی ہیں باقی کے نو ماہ جھیل اسی حالت میں رہتی ہے ۔
انہیں یہاں آئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں اور ٹھنڈ بڑھنے لگی گائیڈ نے فوراً واپسی کا سگنل دیا بہت سے لوگ رکنا چاہتے تھے لیکن گائیڈ کا کہنا تھا کسی بھی وقت برف باری شروع ہو سکتی ہے۔
جسکے نتیجے میں واپس جانا بہت خطرناک ثابت ہوگا
گائیڈ کی بات سب کے پلے پڑ گئی تھی اور سب واپسی کے لیے چل پڑے تھے۔
زلیخا کا خچر سب آخر میں تھا اس سے آخر میں خچر کا مالک پیدل چلا آرہا تھا اسکے ہاتھ میں بید کا ایک ڈنڈا تھا جسے وہ دور سے لہراتا تھا تاکہ خچر رکنے یا سست ہونے لگیں تو انہیں ڈرا سکے۔
وہ لوگ تھوڑا ہی چلے تھے کے تیز ہوا کے ساتھ برف باری شروع ہوگئی جہاں کچھ من چلوں نے خوشی میں چیخیں ماریں وہیں لڑکیوں کی ڈر سے چیخیں نکل گئیں
ان کے پاس سب کے سب جنگلی خچر تھے ایسی ہاہاکار اور شور کم ہی سنا تھا انہوں نے جبھی ان میں تھوڑی ہلچل مچ گئی
رہی سہی کسر آخر میں چلتے خچر بان نے پوری کردی ۔
وہ سمجھ نہیں پایا تھا کیوں شور ہو رہا ہے اس لیے خراب موسم کو دیکھتے ہوئے اس نے ہاتھ میں پکڑا ڈنڈا زور سے لہرایا تاکہ کی خچر تیز چلیں اور جلد از جلد منزل پر پہنچ جائیں یہی اس سے غلطی ہوگئی زلیخا کا خچر بدکا تھا اور اپنی سمت بدل بیٹھا تھا۔۔
———————–
انہیں دیوسائی میں بھورا ریچھ نہیں ملا تھا آخر تھک ہار کر وہ لوگ جھیل آگئے تھے یہاں انہوں نے اپنا خیمہ جھیل اے کافی اوپر آنسو جھیل اور ستارہ جھیلکے راستے میں تھوڑا ہٹ کر جنگل کی طرف لگایا تھا۔
صبح پوری طرح اپنا رنگ جما چکی تھی جب بلال ناران کچھ سامان لانے کے لیے چلا گیا وہ خود بور ہونے سے بچنے کے کیے اپنا ماوتھ آرگن لیے جھیل پر چلا آیا پھر ایک پرسکون سا گوشہ دیکھ کر اس نے اپنی سانسیں اسے سونپیں اور سر چھیڑنے لگا وہ قدرت کا شروع سے شدائی تھا اای لیے سیاحت اسکا پہلا شوق تھا اور ماوتھ آرگن بجانا دوسرا وہ جب بھی اسے بجاتا تھا دنیا جہاں سے بے خود ہوکر بجاتا تھا
اب بھی ایسا ہی ہوا اسے ہتا ہی نہیں چلا لوگوں کی بھیڑ اسکے گرد اکھٹی ہونے لگی پھر جب اپنی دھن مکمل کرنے کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں تو ایک ساتھ کئیں ہاتھوں تالیوں کے ساتھ کئی سراہتی کچھ کہتی قید ہوچکی انجانے پیام دیتی آنکھوں نے اسے سراہا تھا۔
موسم خراب ہورہا تھا جبھی وہ اپنے خیمے کی طرف چل دیا جب تک وہ خیمے میں پہنچا اچھی خاصی برف باری شروع ہوچکی تھی اس نے اندر آکر ہیٹر آن کیا ور چائے بنانے لگا ۔
چائے بنا کر وہ سلیپنگ بیگ تک آیا تھا جب ایک ساتھ بہت سی چیخیں اسے سنائی دیں
اللہ خیر کا ورد کرتے اس نے اہنے بندوق اٹھائی اور فوراً سے باہرنکل گیا اسکا. حتی القین گماں یہی تھا کہ کسی بھولے بھٹکے بھورے ریچھ نے حملہ کردیا ہوگا۔
وہ آواز کی سمت کا تعین کرتا ایک طرف بھاگنے لگا ابھی تھوڑا ہی دور گیا تھا کہ اسے چونک کر رکنا پڑا
دور ایک خچر اپنی دونوں ٹانگوں سے کھڑا ہوا تھا جسکی پیٹھ سے ایک انسانی وجود برف پر لڑکھا تھا۔
لیکن اسکے چونکے کی وجہ ان سے تھوڑا ہی دور بھورے ریچھ کا وہ جوڑا تھا جو بہت غصے میں خچر کو گھوری جارہے تھے۔
اسے برف میں دبتے وجود کی فکر نے آلیا لیکن وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کرسکتا تھا اسکی ایک ہلکی سی جنبش اسکے لیے اور دور برف میں دبتے وجود کے لیے یقیناً موت کا پیش خیمہ بنتی کیوں کہ ریچھوں کے جوڑے نے ایک لمحہ لگانا تھا اسے چیڑ پھاڑ کر رکھ دینا تھا۔
——————————
زلیخا کے خچر کے ساتھ کئی اور خچر بھی بدکے تھے لیکن ان میں سے اکثر پر لڑکے بیٹھے تھے جنہوں نے با مشکل ہی سہی انہیں کنٹرول کر لیا تھا لیکن زلیخا کا کی خچر سب سے آخر میں تھا جب وہ بدکا تو زلیخا نے ڈر کر چیخنا چلانا شروع کر دیا جانور مزید ڈر گیا اور سمت کا تعین کیے بغیر بھاگنے لگا۔۔
اسکے پیچھے خچر بان بھاگے تھے لیکن تیز سے تیز تر ہوتی برف باری میں زلیخا کا خچر آنکھوں سے اوجھل ہوگیا تھا ۔
آسمان سے اترتی روئی جسے میدانی علاقے کے لوگ آئیڈیلاز کرتے ہیں کبھی پہاڑوں میں رہنے والوں سے پوچھیں تو پتا چلے کہ یہ کیسا عذاب ہے ۔
اور آج یہ روئی زلیخا کے لیے عذاب بن کر اتر رہی تھی
خچر تیز برف باری میں ایک ہی سمت میں بھاگے جارہا تھا۔
پھر ایک مقام پر آکر وہ جھٹکے سے رکا اور اچانک اپنے دونوں ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا جیسے کسی چیز سے ڈر رہا ہو خچر کے ایسا کرنے پر زلیخا اسکی پیٹھ سے پھسلتی چلی گئی اور برف پر ڈھیر ہوگئی
اسکا جسم بلکل ماؤف ہوچکا اور ذہن آہستہ آہستہ ہوتا جارہا تھا
اسے محسوس ہوا تھا وہ برف کی قبر، میں اتر رہی ہے جیسے اسکی زندگی آہستہ آہستہ ٹھنڈی پڑتی جارہی ہے۔
——————————
وہ دور کھڑا اسے برف میں دبتا دیکھ رہا اور دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ وہ ہلے نہیں خچر اس انسانی وجود کو پھینک کر کسی اور سمت بھاگ گیا تھا۔
بھورے ریچھ میں سے ایک بہت آہستہ سے چلتا ہوا اس گرے پڑے ڈھیر کی طرف بڑھا تھا اس کی دھڑکن تیز ہوگئی تھی لب بے اختیار دعا کیے جارہے تھے کہ وہ جو کوئی بھی ہے ڈر کر یا کسی بھی وجہ سے حرکت نا کرے۔
ریچھ نے اسکے پاوں کے پاس پہنچ کر سونگھا تھا پھر پاؤں سے ہوتا ہوا سر کی طرف آیا تھا پھر اسے سے پہلے کہ ریچھ اس مصیبت ذدہ انسان کی چلتی سانسیں پاکر اسے مار دیتا علی سبحان کے ذہن میں جھماکا سا ہوا اس نے درخت کی اوٹ لے کر ٹھیک ریچھ کے سر کے اوپر کا نشانہ لیا اور فائر کردیا گولی ریچھ کے بالوں سمیت سر کو چھوتی درخت میں گڑ گئی تھی ۔
خون کا ایک ہلکا سا لوتھڑا نیچھے گرا تھا ۔
دونوں ریچھوں نے خطرے کی بو پالی اور نیچے گرے ہوئے انسان کو چھوڑ کر دوسری سمت بھاگنے لگے۔
انکے تھوڑا دور جاتے ہی علی سبحان بھاگتے ہوئے اسکے پاس آیا تھا اور جلدی سے جھک اسکی نبض ٹٹولی جو بہت دھیمی رفتار میں چل رہی تھی ۔
پھر اس کا چہرہ اٹھا کر اپنی گود میں رکھا لیکن جیسے ہی اسکی نظر بے ہوش چہرے پر پڑی وہ بے اختیار چونکا تھا۔
———————–
اس نے ریچھوں کی جھلک دیکھ لی تھی وہ خوف سے چیخنا چاہتی تھی لیکن اسکا حلق پہلے سے ہی خشک ہوچکا تھا جسم کی حرکت مسلسل ہوتی برف باری میں دم توڑنے لگی تھی
اسے لگا تھا وہ برف کی قبر میں قید ہورہی ہے اسے لگا وہ مر جائے گی اسکی آنکھیں بند ہورہی تھیں ذہن تاریکی میں ڈوبنے لگا تھا
اچانک اسے اپنے پاؤں کے پاس کسی کی بدبودار گرم سانسیں محسوس ہوئیں وہ جان گئی تھوڑی دیر پہلے دیکھے جانے والے درندے اسے موت کے گھاٹ اتارنے پہنچ چکے ہیں بند آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے ۔
درندہ آہستہ سے چلتا ہوا اسکے ہاتھ تک آیا ہی تھا جب گولی کی آواز آئی اور اسکے چہرے پر کوئی گرم چیز گری تھی خوف کی شدت سے اسکا دل بند ہونے لگا تھا ۔
پھر بلکل اچانک کوئی اپنی سی خوشبو اسے آس پاس محسوس ہوئی
اس نے جانا کہ جیسے کوئی اپنایت کی خوشبو لیے جانا پہچانا سا پر حدت لمس اسکے ہاتھ پر ابھرا ہو۔۔۔
پھر کسی نے اس کا سر اپنی گود میں رکھا تھا کتنی عجیب بات تھی اسکی سب حسیں تقریبا مر رہی تھیں لیکن کسی اپنے کی خوشبو اسنے فوراً پالی تھی جبھی تقریباً مردہ ہوچکی زندگی نے اس میں انگڑائی لی تھی۔۔
اسے لگا کسی نے اسے بہت قیمتی متاع کی طرح سمیٹتے ہوئے اپنی بانہوں میں اٹھا لیا ہو اور اپنے دل کے قریب کرلیا ہو وہ کسی کے دل کی دھک دھک کرتی دھڑکن محسوس کرسکتی تھی کیوں کے اس دھک دھک نے اسکے اپنے دل کو دھڑکنے کا حوصلہ دیا تھا
اسے محسوس ہوا وہ کسی کی پناہوں میں آگئی ہے اور یہ وہ آخری احساس تھا جو اس نے محسوس کیا پھر اسکا بعد ذہن بلکل تاریکی میں ڈوب گیا تھا۔
—————————
یہ کوئی لڑکی تھی جسکا چہرہ خون آلود تھا پہلے تو وہ گھبرا گیا ۔
لیکن پھر اسے غور سے دیکھنے پر کوئی زخم نظر نا آیا لڑکی کی نبض ڈوبتی جارہی تھی
بہت سوچ بچار کے بعد اس نے بے ہوش لڑکی کو اٹھایا ۔
اسے عجیب سا احساس ہوا کیونکہ اسکے دل نے دھڑکنے کا انداز یکلخت بدلہ تھا ۔
اسے لگا اس بے ہوش وجود کے ساتھ اس کا کوئی رشتہ ہے
مگر ساری سوچوں کو پس پشت ڈال کر فوراً سے خیمے کی طرف بڑھا خیمے کا ہیڑ وہ چلتا چھوڑ گیا تھا جبھی اندر کا ماحول بہت گرم تھا ۔
اندر آکر اس لڑکی سلیپنگ بیگ میں لٹانے کے بعد وہ گہری سوچ میں مبتلا ہوگیا کہ اب کیا کرے۔
اگرچہ کہ خیمہ جدید طرز کا تھا اور اندر کا ماحول بہت گرم تھا دو دن بھی برف باری نا رکتی تو اسکے لیے کوئی مسلئہ نہیں تھا اصل وجہ اس لڑکی کی تھی جو برف میں دبی رہی تھی اور اب اسکی نبض ڈوب رہی تھی ۔۔۔
اتنی تیز برف باری میں وہ کسی قریبی بستی میں مدد کے لیے بھی نہیں جاسکتا تھا گاڑی بلال ناران لے کر گیا تھا ۔
پھر بہت ہمت کرکے وہ اسکے بے ہوش وجود تک آیا اور بہت احتیاط کے ساتھ اسکا کوٹ اتار دیا ۔
یہ دیکھ اسنے خدا کا شکر ادا کیا تھا کہ کوٹ بہت موٹا فر کا بنا ہوا تھا جو برساتی طرز کا تھا ۔
کوٹ کے نیچے لڑکی کا پورا لباس ڈوپٹے سمیت خشک تھا وہ کوٹ اور مفلر لیے اٹھ کھڑ ہوا سلیپنگ بیگ کی زپ بند کرکے اسے پورا کور کیا اور مزید دو کمبل اٹھا کر اسے پر ڈال دیے
پھر ہیٹر اسکے تھوڑا پاس کرکے رکھا اور خود آکر کاوچ پر بیٹھ گیا۔
چہرے کو ہاتھ لگانا اسے مناسب نہیں لگا وہ فلحال خون آلود ہی تھا ۔
ایک گھنٹے بعد اس نے اٹھ کر لڑکی کی پیشانی پر ہاتھ رکھا جو کچھ گرم ہو رہی تھی پھر اس نے ہاتھ ناک کے قریب کرکے اسکی سانسیں چیک کیں جو اب کسی حد تک معمول پر آرہی تھیں۔
اسے کافی اطمینان ہوا پھر وہ واپس کاوچ پر آکر بیٹھ گیا۔
یہ لڑکی حلیے سے کوئی سٹوڈنٹ یا سیاح لگتی تھی کای ہوگا اسکا اگر برف صبح تک نا رکی تو بہت ساری سوچیں اسکے ذہن کو جکڑے ہوئے تھیں لیکن وہ اس حیقیت سے بھی منہ نہیں موڑ سکتا تھا کہ باہر بہت زیادہ برف باری ہے اور یہ کے بھورے جنگلی ریچھ اس طرف کو آ نکلے ہیں جو کسی بھی انسان کو بہت آسانی سے چیرپھاڑ سکتے ہیں۔۔۔
ان سب سوچوں سے اسے کسی احساس نے نکالا تھا اس نے پھر توجہ دینے پر پتا چلا کہ ہیٹر کی گیس مسلسل چلنے کی وجہ سے ختم ہونے لگی تھی
اسے فوراً لڑکی کا خیال آیا وہ فوراً سے اٹھ کر اسکے پاس گیا چیک کیا اسکی سانسیں اب تعریباً معمول پر چل رہی تھیں اور جسم بھی گرم تھا تسلی کرنے کے بعد وہ واپس آکر بیٹھ گیا اسے یقین تھا اگر ہیٹر بند بھی ہوجائے تو دونوں کمبل اور خاص کر سلیپنگ بیگ کی ہیٹ اب لڑکی کے لیے کافی ہوگی
مسلئہ اسکا اپنا تھا کہ وہ کیا کرے؟؟؟
ایک ہی حل نظر آیا کہ وہ اپنا ذہن بٹائے اور ذہن بٹانے کے لیے اسکے پاس ماوتھ آرگن سے اچھا کوئی کام نہیں تھا۔
سو ایک بار پھر سے اس نے جیب سے ماوتھ آرگن نکالا اور ہونٹوں کے قریب لا کر اس میں سر پھونکنے لگا۔
وہ ناران کا جنگل تھا اندھیری رات میں آسمان سے برف زور و شور سے برس رہی تھی پورے جنگل میں صرف علی سبحان خان کا خیمہ تھا جسکی درزوں سے ہلکی نارنجی روشنی پھوٹ کر دور دور تک زندگی کا پتا دے رہی تھی۔
ایسے خوبناک ماحول میں جب اس فارسی شہزادے نے ماوتھ آرگن کے سپرد اپنی سانسیں کیں تو ناران اور آس پاس کے جنگلوں میں بسنے والی پریمی روحیں نا چاہتے ہوئے بھی ایک دوجے کا ہاتھ تھامے ( pied Piper) کے اس خیمے کے باہر جمع ہونے لگی تھیں۔
باہر سے دیکھنے پر یونہی محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی شاہزادہ اپنی شاہزادی کو نیند نا آنے پر اس جادوئی آلہ کے ذریعے اپنی سانسوں کی لوری سنانے میں مشغول ہو دوسرے لفظوں میں اسے سلانے میں مشغول ہو۔
پھر کسی من چلی دیوانی مستانی روح نےجھیل سیف الملوک کی پریوں میں منادی کردی
سنو سنو
کہ دور جنگل میں کوئی اتنا حسین شہزادہ ہے جو محبت کہ دھنیں چھیڑتا ہے سُر جسکی سانسوں میں بہتے ہیں اور وہ قید کرتا ہے صرف اپنا کرتا غلام بناتا تھا۔۔
یہ سننا تھا کہ سب پریوں نے گٹھ جوڑ کیا اور آج رات جھیل سیف الملوک پر اترنے کو موخر کرکے وہاں اس خیمے کے باہر اتر آئیں جس میں بیٹھا شاہزادہ شاہزادی کو اپنی سانسوں سے محبت کی لوری سنا رہا تھا ۔۔۔
پھر جب سب پریوں نے یہ دھنیں سنی تو ہر ایک کے من میں یہ خواہش جاگی اس شاہزادے کی قید میں جانے کی صرف اسکا ہونے کی اسکی غلام بننے کی
لیکن اندر لیٹی سانولی سلونی سی شاہزادی کو دیکھ ان پریوں کو اپنی اپنی قسمت پے دکھ ہونے لگا۔
شاہزادہ تو پتا نہیں کب دھنیں بجاتا بجاتا تھک کر سو چکا تھا لیکن ان دھنوں کی باز گشت اب بھی جنگل کے طول عرض میں پھیلی ہوئی تھی اور ساتھ تھی ان پریوں کی ٹھنڈی آہیں۔
وہ بیچاری بھی یہ نہیں جانتی تھیں کہ اس رات کے بعد نکلنے والا نیا سورج اندر موجود شاہزادی اور شاہزادہ جو ابھی تک ایک دوسرے سے انجان تھے
انکے لیے بدنامی کا نیا باب کھولے گا
ورنہ وہ بیچاری کبھی افسوس نا کرتیں کبھی ٹھنڈی آہیں نا بھرتیں
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...