نور کا ہالہ سا تھا ہر طرف اس قدر تیز روشنی تھی کہ آنکھیں چندھیا سی گئیں تھیں ۔۔۔اس نور کے پیچھے وہ بھاگ کر چلے جانا جاہتی تھی ۔۔وہ روشنی اس کو اپنے بخت کی منزل لگی تھی رمشا اور سیف باہیں پھلائے ایک طرف کھڑے اس کے اپنی طرف پلٹنے کے منتظر تھے مگر ایک چیز نے اس کو ٹھٹھکا دیا تھا ۔۔سیف اپنے پیروں پر کھڑے سفید لباس میں ملبوس محبت سے اس کو اپنی جانب آجانے کے اشارے کر رہے تھے ۔۔
مگر وہ نور ۔۔۔۔دل تو کیا دماغ بھی اس روشنی کی چمک پالینے کے لیے ہمک رہا تھا ۔۔اور پھر وہ بھاگ کھڑی ہوئی اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے اس سفید سے گولے کو چھو لینے کی خاطر ۔۔۔
روفہ بچے رک جاو ۔۔۔تم گر جاو گی ۔۔۔روفہ یہ ایک سراب ہے ۔۔۔روفہ چندا مت بھاگو ۔۔۔واپس آجاو۔۔۔
مگر وہ سیف اور رمشا کی التجاوں کو نظرانداز کرتی بھاگتی رہی یہاں تک کے پیر دکھنے لگے اور پھر وہ بری طرح لڑکھڑائی ۔۔اس سے پہلے کہ زمین بوس ہوتی کسی کی باہوں کے حصار نے اس کو اپنے شکنجے میں نرمی سے قید کر لیا ۔۔
اس گرفت کیا تھا اس لمس میں کوئی جادو ٹونا یا کوئی سحر جو کسی آکٹپس کی طرح اس کو مدہوش کر گیا تھا ۔۔
ان مضبوط ہاتھوں نے اس کے گال کو سہلایا تھا پھر عقیدت بھرا لمس ماتھے پر چھوڑا ۔۔یوں جیسے وہ کوئی دیوی ہو اور سامنے والا اس کا جوگی ۔۔۔
“روفہ یہ تیرا اصل ہے تیری منزل کبھی بھٹکنا مت نہیں تو بے سکونی آوارہ بادل کی طرح تجھ پر برسے گی ۔۔”
سیف کی آواز اس کے کانوں میں گونجی تھی ۔۔مگر وہ اس گرفت میں رہنا نہیں چاہتی وہ نور اس شخص پر برس رہا تھا مگر اس روشنی کے باعث وہ چہرہ دیکھ نا پارہی تھی ۔۔۔
” اماں مجھے تمہارے پاس آنا ہے ابوجی آپ نے ابھی تو کہا کہ یہ سراب ہے ”
وہ جیسے مشکل میں تھی ۔۔۔
” یہ وہ نہیں ہے روفہ یہ تیرے بخت کا چمکتا روشن ستارہ ہے ۔۔۔اب ہمیں جانا ہے ۔۔پر تجھے اب یہاں ہی رہنا ہے ۔۔اللہ کے حوالے بیٹا جی ۔۔۔”
شفقت ٹپکتا لہجہ روفہ کو بے چین کرگیا اس سے پہلے کہ وہ ان کے پیچھے جاتی ان دو بازوں نے اس کو جانے نادیا اور خود میں یوں بھیج لیا کہ روفہ کو لگا وہ اس کشادہ سینے میں پیوست ہوجائے گی ۔۔۔
اس سے پہلے وہ الگ ہوتی وہ وجود کہیں گم ہوگیا ۔۔
” نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔” آنکھیں کھولتے اپنے آزاد وجود کو دیکھتی ایک دم بیدار ہوئی تھی ۔۔۔
ٹانگوں اور سر میں شدید درد کی لہریں اٹھیں ۔۔جیسے کسی نے بھاری سل وجود پر گرا دی ہو ۔۔۔
بخار میں دل بری طرح متلا رہا تھا ۔۔جوڑ جوڑ ٹوٹ رہا تھا ۔۔وہ کہاں تھی اس وقت اردگرد دیکھنے پر کافی دیر غائب دماغی کے باعث اسے سمجھ ہی نا آیا ۔۔شاید وہ عجیب خواب ابھی تک ذہن پر سوار تھا ۔۔۔
وہ کوئی بہت ہی خوبصورت کمرہ تھا ۔۔وائیٹ پنک اور بلو امتزاج کا وہ کمرہ کسی کو بھی چونکا دینے کو کافی ثابت ہوسکتا تھا ۔۔۔روفہ بھی شاید توجہ ضرور دیتی مگر باہر سے کسی کے رونے کی آواز کان میں پڑی تھی ۔۔کون رو رہا تھا وہ سمجھ نا سکی اور وہ کہاں تھی ۔۔
بورڈ ٹاپ ۔۔۔چیک ۔۔۔لوگوں کا رش ۔۔۔۔غصہ کرنا ۔۔۔بےجان چارپائی پر پڑے وجود ۔۔۔۔چادر پر خون کے دھبے ۔۔۔زمین پر گرنا ۔۔۔اور پھر ماموں کا اپنے بازو میں اٹھانا ۔۔۔
سب یاد آتا گیا ۔۔۔ذہین بیدار ہوتا گیا اور اس کی رنگت زرد سے زرد پڑتی گئی ۔۔۔آنکھیں رونے کو بے تاب تھیں مگر ستم یہ کہ رونے سے محروم تھیں ۔۔کاش کاش وہ رو سکتی تو اپنے نقصان پر ساری زندگی کے آنسو ایک ہی بار بہا لیتی ۔۔۔
وہ روفہ جس نے کبھی ننگے سر گھر سے قدم نا نکالا تھا آج ننگے پیر اور سر لیے باہر کو دوڑی تھی ۔۔۔رونے کی آوزیں اب قریب سے آرہی تھیں ۔۔
وہ کوئی بڑا سا لاونج تھا جہاں ایک طرف کو سٹالئیش سی سیڑھاں تھیں ۔۔۔
بھاگ کر ان سیڑھیوں سے نیچے اتری ۔۔جہاں ایک طرف گلاس وال تھی ۔۔اور اس گلاس وال کے پار تھی روفہ پر گزری حقیقت بھری قیامت ۔۔۔
پتھریلے تاثرات لیے میکانکی انداز میں گلاس وال دھیکلی ۔۔اب کسی کی سسکیاں بڑی صاف سنائی دے رہی تھیں ۔۔وہ سیف کی بہن تھیں ۔۔جو پشاور میں ہونے کے باعث سال دو سال بعد ہی ملنے آیا کرتی تھیں ۔۔
اس کے داخل ہوتے ہی ہائیسم جلیس اور فودیل کی نظریں اس کے اجاڑ حلیے پر جم کر رہ گئیں۔۔۔ہائیسم کا دل اپنی ماں جائی کی حالت پر پھٹا ۔۔۔جلیس نے کرب سے آنکھیں میچ لیں فودیل نے ایک نظر دیکھ کر نظروں کا رخ موڑ لیا ۔۔اس کی حالت برداشت سے باہر تھی ۔۔
نیچے والے پورشن کے وسیع لاونج میں پڑے جنازوں کو دیکھ کر روفہ کے حواس نے ایک بار کام کرنا چھوڑا تھا ۔۔مگر جلتی آنکھوں اور سن ہوتے پیروں سمیت وہ دھیمے دھیمے چلتی رمشا کی چارپائی کے پاس ایک جٹھکے کے بیٹھ گئی ۔۔۔
فضا کا دل تڑپ کر رہ گیا ۔۔۔اپنی بیٹی کو پورے چودہ سال بعد دیکھا تھا ۔۔دل اس کو محسوس کرنے کو مچل رہا تھا مگر وہ خود کو سنبھالے ہوئی تھیں ۔۔۔
عالم مردانے میں تھے نہیں تو روفہ کی حالت پر ضرور تھوڑی دیر پہلے کی طرح خود کو قصور وار گراند کر رو دیتے ۔۔
اس کی چپی ان سب کو کھائے جارہی تھی ۔۔مگر اس کے لبوں کا فقل نا تو ٹوٹنا تھا نا ٹوٹا تھا ۔۔
” روفہ رو لو بیٹے ۔۔۔میرے بچے رو لو ۔نہیں تو تکلیف گھٹن میں تبدیل ہوجائے گی ۔۔”
فضا کی ممتا بھری آواز اور باہوں کے لمس سے روفہ نے بےتاثر انداز میں دیکھا ۔۔۔
” رو ہی تو نہیں سکتی ۔۔” بےبسی حد سے سوا تھی ۔۔
” کیوں بچے ۔۔غم کو اندر مت دباو۔۔نہیں تو درد جینے نہیں دے گا ۔۔” اس کا رونا ضروری تھا۔۔
” نہیں رویا جاتا ۔۔سالوں سے آنسو سوکھ گئے ہیں ۔۔۔”
رمشا کے کفن پر نظریں جمائے سرگوشی کی۔۔
روفہ کو اپنے سینے میں سمو کر فضا اس کے یاسیت بھرے انداز پر رو دیں ۔۔۔
مگر روفہ تو برف بنی بس عورتوں کو روتا ہوا دیکھ رہی تھی ۔۔
کچھ دیر بعد مرد اندر آکر جنازوں کو اٹھانے کے لیے آگے بڑھے تھے ۔۔۔
روفہ ان کی حرکت سے ہوش میں آئی ۔۔برف اچانک چٹخ پڑی تھی ۔۔۔
” کہاں لے جارہے ہو آپ سب انہیں ۔۔کوئی میری اماں ابوجی کو ہاتھ نہیں لگائے گا ۔۔چھوڑو مجھے ۔۔۔میں نے کہا چھوڑو مجھے ۔۔اماں ۔۔۔ابوجی نا جاو نا ۔۔دیکھو میں اکیلی ہوگئی ہوں ۔۔۔ابوجی ۔۔۔۔۔اماں آپ دونوں کے سوا روفہ کا کوئی نہیں ہے ۔۔اپنی بیٹی کو چھوڑ کر مت جاو ۔۔۔چھوڑو مجھے ۔۔۔”
ہائیسم کی گرفت میں مچلتی روفہ کی حالت پر عالم اور فضا کا کلیجا سو ٹکروں میں کٹ کر رہ گیا تھا ۔۔۔
ترتیل ایک کونے میں کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی ۔۔اسے دکھ ضرور ہوا تھا ۔۔مگر اتنا نہیں کہ وہ اپنے آنسو ضائع کرتی اس لیے چپ چاپ سارا تماشا دیکھ رہی تھی ۔۔
البتہ جلیس کے چہرے کی پریشانی اس کو بے سکون کر رہی تھی ۔۔۔
” روفہ میری جان ۔۔سنبھالو خود کو ۔۔۔ان کو جانا ہے ۔۔ان کے جانے کا وقت ہوگیا ہے ۔۔ہم سب کو ایک دن جانا ہے خود کو اور اذیت دے کر ہم سب کو مت تڑپاو ۔۔”
بیس سال بعد ہائیسم کو اپنی بہن ملی تھی وہ بھی اس حالت میں کہ اس کو سنبھالنا بھی امتحان بن گیا تھا ۔۔
مگر اپنے کندھے سے لگائے وہ اس کو قابو میں کیے کھڑا تھا ۔۔۔
روفہ کو آہستہ سے اپنے بازو میں کچھ چبھتا ہوا محسوس ہوا تھا ۔۔پھر تھوڑی بعد اس کا پورا وزن ہائیسم کے اوپر تھا ۔۔۔
فودیل نے آگے بڑھ کر ہائیسم کے اشارے پر ہی اس کو نیند کا انجیکش لگایا تھا ۔۔
” کمرے میں لے جاو ہائیسم ۔۔مجھے سے اور نہیں دیکھا جائے گا ۔۔۔”
فضا آنسو پونچھ کر صوفے پر ڈھے سی گئیں ۔۔۔
ہائیسم نرمی سے اس کو اٹھائے کمرے میں لے گیا ۔۔۔
سیف اور رمشا کی وفات کو پندرہ دن بیت گئے تھے ۔۔روفہ کو دنیا کا ہوش بھول چکا تھا ۔۔
اس گھر وہ صرف دو مرتبہ سات سال کی عمر میں آئی تھی جب عالم ماموں کا اکیسیڈنٹ ہوا تھا اور دوسرا جب نانی ( جو کہ روفہ کی دادای تھیں ) کی وفات ہوئی تھی ۔۔
وہ جب بھی رمشا سے ماموں سے زیادہ رابتہ نا رکھنے کی وجہ کا پوچھتی تو وہ کوئی نا کوئی بہانہ بنا کر ٹال جاتی ۔۔بلکہ رمشا نے کچھ سال پہلے اس سے کہا تھا عالم ماموں اپنے خاندان سمیت اسٹریلیا شفٹ ہوچکے ہیں اس کے بعد زندگی کی جنگ لڑتے نا کبھی روفہ نے رمشا سے پوچھا نا کبھی رمشا نے خود بتایا ۔۔اب یہ لوگ کب واپس آئے یا پھر رمشا نے اس سے جھوٹ بولا وہ نہیں جانتی تھی نا ہی جاننے میں دلچسپی رکھتی تھی ۔۔۔
ان بیتے دنوں میں وہ جس کمرے میں ٹھہرے ہوئی تھی وہاں سے نا نکلی تھی ۔۔۔مگر وقتا فوقتا عالم فضا ہائیسم اور جلیس اس کے کمرے میں آتے تھے ۔۔کسی نومولود کی طرح اس کا خیال رکھتے ۔۔فضا اور عالم کے خود پر واہلانا انداز میں پیار برسانے پر وہ حیرت زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ الجھ بھی جاتی ۔۔۔
” پہلے تو اتنے برس مڑ کر پوچھا تک نہیں اور اب اتنی فکر ہورہی ہے جیسے یہ لوگ میرے یہاں آنے کے منتظر ہی ہوں ۔۔۔”
عالم نے اسے بتایا تھا رمشا اور سیف کی ٹیکسی ٹرک سے ٹکراو کے باعث دھماکے کی زد میں آئی تھی جس میں ڈرائیور سمیت وہ تینوں ہی جان کی بازی ہارے تھے ۔۔
اس سب میں اگر روفہ کا وجود کسی کو کھٹک رہا تھا تو وہ ترتیل تھی ۔۔جو محبت پہلے اس پر برسائی جاتی تھی اب روفہ اس پر قابض ہوگئی تھی ۔۔خاص کر جلیس کی توجہ رفہ پر دیکھ کر اس کا دل بری طرح سلگ رہا تھا ۔۔
اور ترتیل کے جلنے کڑھنے پر فودیل بھی روفہ سے فراموش ہو چکا تھا اپنی بہن اس کو سب سے بڑھ کر عزیز تھی باقی جاتے سب بھاڑ میں ۔۔۔
اس خوبصورت رعنائیوں سے بھری خواب گاہ کی شیشے سے بنی کھڑکی سے روفہ کی نظریں نیچے گارڈن میں لگے فوارے پر جمی تھیں دوسری منزل پر ہونے کے باعث وہ کھڑکی سے نیچے چلتے پھرتے گارڈز اور بل ڈوگس کو دیکھ رہی تھی ۔۔اس کے ماموں امیر تھے یہ تو رمشا سے سنا تھا مگر اس حد تک یہ اس کو علم نا تھا ۔۔
ان پندرہ دن میں وہ کسی حد تک خود کو سنبھالنے میں کامیاب ہوگئی تھی ۔۔
” مجھے اب یہاں سے چلے جانا چائیے آخر کب تک ماموں کے گھر مفت کی روٹیاں توڑتی رہی گی ۔۔۔ویسے بھی جن لوگوں نے کبھی میری ماں کی خبر گیری ناکی وہ مجھ سے کب تک ہمدریاں جتائیں گے ۔۔اس سے پہلے کوئی مجھ سے بیزار ہو میں خود ہی اپنے اصلی مقام واپس لوٹ جاوں گی ”
روفہ جیسی خود مختار لڑکی کو اپنا آپ کسی پر لادنا گوارہ نا تھا ۔۔۔
دل میں ارادہ کرتی عالم سے بات کرنے کی غرض سے کمرے سے نکلی ۔۔۔۔
” ایک تو اتنا بڑا گھر ہے پتا نہیں ان لوگوں کو بڑے گھروں سے وحشت کیوں نہیں ہوتی ۔۔۔ناجانے ان بھول بھلیوں میں ایک دوسرے کو ڈھونڈ کیسے لیتے ہیں ۔۔”
کوفت سے سوچتے اپنا دو مرلے کا مکان یاد آیا ۔۔
” بات سنو باجی ۔۔یہ عالم ماموں کا کمرہ کس طرف ہے ۔۔”
سیڑھیاں اتر کر کام کرتی ایک لڑکی سے پوچھا ۔۔۔
نجمہ نے کام سے ہاتھ روک کر کھلے منہ سے کنگ ہو کر روفہ کو دیکھا جو گھر کی مالکن تھی مگر نوکر کو باجی بول رہی تھی ۔۔۔
” کیا ہوا میں نے کچھ پوچھا ہے آپ سے ۔۔” اب کے چڑ کر بولی ۔۔۔
” اس طرف دوسرا کمرا ”
نجمہ نے قدرے سنبھل کر اشارہ کیا ۔۔۔
” عجیب لوگ ہیں ادھر کے ۔۔منہ تو ایسے کھولا ہے جیسے میں نے ریاضی کا کوئی فارمولا پوچھ لیا ہو ۔۔”
بڑبڑاتی ہوئی نجمہ کے اشارے کے تعقب میں چل پڑی ۔۔۔گلاس وال کو کھول کر لاونج میں آئی تو کوئی اس کی ہم عمر لڑکی دائیں کندھے کو کالی شال میں لپیٹے رخ موڑ کر کوئی ایکشن مووی دیکھ رہی تھی ۔۔
وہ ترتیل تھی مگر روفہ نے ابھی تک اس کو دیکھا نا تھا ناہی ان کا آمنا سامنا ہوا تھا ۔۔ان پندرہ دنوں میں وہ پہلی بار کمرے سے باہر آئی تھی ۔۔
بچپن میں دو بار دیکھے گئے سب کے چہرے ذیہن کے پردے سے مٹ چکے تھے ۔۔۔سر جٹھک کر عالم ماموں کے دروازہ کے قریب پہنچی جوکہ پہلے سے ہی تھوڑا سا کھلا ہوا تھا ۔۔۔۔
” عالم آپ روفہ کو حقیقت بتا کیوں نہیں دیتے میں آپ کو صاف لفظوں میں کہہ رہی ہوں اب کی بار میں روفہ کی جدائی برداشت نہیں کر پاوں گی ۔۔آپ کو کچھ کرنا ہوگا ۔۔مجھے نہیں معلوم کچھ بھی کریں مگر روفہ کو حقیقت بتائیں کہ وہ ہماری بیٹی ہے ہماری سگی اولاد ہے ۔۔آپ کی بہن نے جن حالوں میں میرے جگر کے ٹکرے کو پہنچایا ہے اس کا ازالہ تو ممکن ہی نہیں مگر اب کی بار روفہ مجھ سے دور ہوئی تو میں بھی آپ کو چھوڑنے میں ایک پل نہیں لگاوں گی ۔۔۔”
فضا کی روتی ہوئی آواز سے دستک دیتا ہاتھ ہوا میں ہی معلق ہو کر رہ گیا ۔۔کانوں میں جیسے کسی نے پگھلا ہوا سیسہ انڈل دیا تھا ۔۔یہ الفاظ یہ حقیقت پل میں روفہ کو آسمان سے زمین پر پٹخ گئی تھی ۔۔۔
قدموں پر کھڑے رہنا محال تھا ابھی زندگی کے ایک جٹھکے سے سنبھلی نا تھی کہ دوسرے نے اس کی ذات کو دو کوڑی کا کر کے رکھ دیا تھا ۔۔۔