(Last Updated On: )
کتنی ٹھنڈک ہے یہیں نہر کنارے بیٹھیں دل بہل جائے گا اس میں بھی ہے مشکل کوئی ننھے بزغالوں کی سبزے پہ کلیلیں دیکھیں اپنے سواگت کو پون آئی ہے دھیمی دھیمی کتنے اند وہ سے کر پایا ہوں ان کو رخصت وہ بھی افسردہ و مضطر تھا نگاہیں بھی غمیں سند با ادب کے تو ہمراہ مجھے بھی لے چل (دل جو بہلا تو کتابوں ہی میں آ کر بہلا) میں تیرے ساتھ زمانے کی نظر سے اوجھل لے کے چلتا ہوں خیالوں کاسفینہا پنا کیا خبر اب میں انھیں یاد بھی ہوں گا کہ نہیں کاش میں نے ہی انھیں ایسے نہ چاہا ہوتا کتنے ہنگاموں سے آباد ہیں گلیاں بازار (کلفتیں شہر کے ماحول نے دھوئیں دل سے ) آج ہر چیز کی صورت پہ انوکھا ہے نکھار اتنے چہرے ہیں کہ پہلے کبھی دیکھے بھی نہ تھے اتفاقات سے بچھڑے ہوئے ملتے ہیں کہیں خام امیدوں سے بہلاؤں کا دل کو کیسے ؟ خام امیدوں سے بہلاؤں گا دل کو کیسے اتفاقات سے بچھڑے ہوئے ملتے ہیں کہیں کتنے اندوہ سے کر پایا ہوں ان کو رخصت دل بھی افسردہ و مضطر تھا نگاہیں بھی غمیں کاش میں نے انھیں ایسے نہ چاہا ہوتا اب تو شاید میں انھیں یاد بھی آؤں کہ نہیں