محمداظہار الحق(اسلام آباد)
’’ہَم لڑکیوں کے ہائر سیکنڈری سکول کے قریب سے گزرتے ہیں۔سکول میں ہر طرف بچیوں کے کھلے ہُوئے بستے اور جوتے اِدھر اُدھر بکھرے پڑے ہیں۔ہَوا کو جانے کس ادھوری تحریر کی تلاش ہے کہ وُہ کتابوں اور کاپیوں کے صفحے الٹ رہی ہے۔میں اِس منظر کی تاب نہیں لا سکتا‘‘
یہ دلگداز اقتباس خوبصورت شاعری کرنے والے احمد حسین مجاہد کی تصنیف ’’صفحۂ خاک‘‘سے ہے۔آٹھ اکتوبر ۲۰۰۵کی صبح برپا ہونے والے زلزلے نے کتی ہی بستیاں اجاڑ کر رکھ دیں، کتنے ہی قصبے زمین کے سینے سے اٹھا کر زمین کے پیٹ میں ڈال دیے اور کتنے ہی قریے ملبے کے ڈھیر میں بدل کر رکھ دیے لیکن جو رات بالاکوٹ پر گزری وُہ سب سے زیادہ تاریک تھی۔اِس تیرہ بختی میں بالاکوٹ کو ایک خوش نصیبی میسر آ گئی(مجھے نہیں معلوم کہ خوش نصیبی کا لفظ یہاں بر محل ہے یا نا مناسب ہے)اور وُہ یہ کہ احمد حسین مجاہد بالاکوٹ کا بیٹا تھا، اُس نے اپنے تباہ شدہ شہر پر نوحہ خوانی کرنے کے لیے درختوں کی سوختہ شاخوں سے قلم بنائے ، راکھ کے ڈھیروں کو صفحوں میں تبدیل کیا اور اپنی خونی خونی انگلیوں سے ایسی کتاب لکھی جس کا ہر صفحہ اور ہر صفحے کی ہر سطر،اور ہر سطر کا ہر لفظ اور ہر لفظ کا ہر حرف اپنی جگہ مکمل نوحہ ہے ،مکمل شہر آشوب ہے اور مکمل عزاداری ہے۔لگتا ہے ’’انگلیاں فگار اپنی،خامہ خونچکاں اپنا‘‘والا مصرع کہا ہی احمد حسین مجاہد کے لیے گیا تھا۔
’’صفحۂ خاک‘‘ میں احمد حسین مجاہد نے ماتم کرنے کاحق ادا کر دیا ہے۔مجھے یہ کتاب پڑھتے ہُوئے بارہا یوں لگا جیسے مجاہد نے اپنے بال نوچ کر بکھیرے ہُوئے ہیں، جیسے اُس نے پٹکا سر سے اتار کر کمر سے باندھا ہُوا ہے،جیسے وُہ سینے پر دو ہتھڑ مار رہا ہے ،جیسے وُہ دونوں ہاتھوں سے سر پکڑے بلک بلک کر رو رہا ہے،سسکیاں بھر رہا ہے،جیسے وُہ دونوں ہاتھوں کی انگشت ہائے شہادت اٹھائے آسمان کی طرف دیکھ رہا ہے۔اُس کی کتاب کے ہر صفحے پر ملبہ ہے اور لاشیں ہیں،زخمی ہیں اور اُن کا واویلا ہے،بچے ہیں اور اُن کے ٹوٹے ہُوئے کھلونے ہیں،پرندے ہیں اور اُن کے جلے ہُوئے پر ہیں،مائیں ہیں اور اُن کے جگر گوشوں کی میتیں ہیں،باپ ہیں اور اُن کے نوجوان بیٹوں کے کفن ہیں،بھائی ہیں اور اُن کی بہنوں کے جہیز سے اٹھتا ہُوا دُھواں ہے اور بہنیں ہیں اور اُن کے بھائیوں کی اجتماعی قبریں ہیں۔
کون سنتا گم شدہ آواز میری جا چکے سب، میں ہی پیچھے رہ گیا ہُوں
کر گئیں بستی سے ہجرت چیونٹیاں بھی میں کہیں ملبے کے نیچے رہ گیا ہُوں
ذرا نوحہ خوانی کی شدت ملاحظہ کریں۔
’’آٹھ اکتوبر کو وُہ اپنے کمرے میں سویا ہُوا تھا۔زلزلہ آیا تو پہاڑی کے کنارے پر بنا ہُوا اُس کا گھر مکمل طور پر تباہ ہَو گیا اور وُہ درختوں کے جھنڈ میں آن گرا۔آٹھ اور نو اکتوبر کی درمیانی رات۔۔۔۔وُہ قیامت کی رات اُس نے زندگی اور موت کی کشمکش میں گزاری۔بتانے والے بتاتے ہیں کہ ساری رات اُس کی آواز اُجڑی ہُوئی بستی میں گونجتی رہی۔وُہ پکارتا رہا کہ میں سفیر ہُوں ، مجھے یہاں سے نکالو۔وُہ اندھیری اور اُجڑی ہُوئی رات ،ژالہ باری ،زلزلے کے پے در پے جھٹکے اور زخموں سے چُور سفیر۔۔۔! جانے اُس نے کس کس کو پکارا ہو گا،جانے اُس پہ کیا بیتی ہو گی،جانے کس وقت اُس نے آخری سانس لیا ہَو گا۔مجھے ایسا لگتا ہے جیسے اُن اذیت ناک لمحوں میں اُسے میرا بھی خیال آیا ہَو گا۔۔۔شاید اُس نے مجھے بھی آواز دی ہَو،مجھے بھی پکارا ہَو۔‘‘
آٹھ اکتوبر ۲۰۰۵کے زلزلے سے بچوں کی ایک پوری نسل ختم ہَو گئی۔اس کی ذمہ داری تقدیر پر ہے یا اُن درندوں پر جو شکم کے تنور میں حرام کا لقمہ ڈالنے کے لیے سرکاری عمارتیں غیر معیاری بناتے ہیں اور بنواتے ہیں۔احمد حسین مجاہد نے ان نو شگفتہ کونپلوں کی مرثیہ خوانی کرتے وقت قلم توڑ کر رکھ دیا ہے۔پڑھیے اور روئیے۔
’’ میں ملبے پر بکھری کتابوں اور کھلے ہُوئے بستوں سے جھانکتی کہانیوں کے درمیان کھڑا ہُوں۔میرے اندر کے صحرا میں کہیں ریت اُڑنے لگتی ہے۔۔۔‘‘
احمد حسین مجاہد کی تصنیف ’’صفحۂ خاک‘‘ اُس تباہی کی داستان ہے جو زلزلہ بالاکوٹ پر لے کے آیا لیکن یہ صرف داستان ہی نہیں اور بھی بہت کچھ ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک شاعر جب نثر لکھتا ہے تو نثر کو زمین کی پستیوں سے اٹھا کر آسمان کی رفعتوں پر لے جاتا ہے ،اِس لیے کہ شاعری الہام ہے ۔آپ نثر لکھنا تو سیکھ سکتے ہیں ،شاعری کرنا نہیں سیکھ سکتے۔تاریخ میں آج تک کوئی مدرسہ،کوئی کالج،کوئی مکتب، کوئی ادارہ ایسا نہیں گزراجہاں ناشاعر کو شاعر بنایا جاتا ہَو۔جس کو بحر کا، اور تقطیع کا اور وزن کا شعور نہ ہَو ،اُسے اِس شعور سے بہرہ ور نہیں کیا جا سکتا۔استاد ’’جوابِ مضمون‘‘تو سکھا سکتا ہے ’’جوابِ شاعری‘‘ کی کبھی کوئی کلاس نہیں ہُوئی۔چنانچہ شاعر جب نثر لکھتا ہے تو الہام کو شعر سے نثر تک منتقل کرتا ہے اور اسے مابعد الطبیعاتی(METAPHYSICAL)بنا دیتاہے۔آپ ادب کی تاریخ میں نثر کے وُہ آثار دیکھ لیں جو شاعروں نے چھوڑے ہیں۔سعدی کی گلستان،جامی کی بہارستان،غالب کے خطوط،اقبال کیRECONSTRUCTION OF RELIGIOUS THOUGHT،شمس ا لرحمن فاروقی کا ’’سوار‘‘ ،بورس پاستر ناک کا ڈاکٹر ژواگو اور بے شمار دوسری کتابیں،ہر تصنیف جریدہ ٔ عالم پر دوام ثبت کر رہی ہے۔احمد حسین مجاہد نے ’’صفحہ ٔ خاک‘‘ میں نثر تو اعلیٰ پائے کی لکھی ہی ہے ،جابجا اُس نے شعر ہیروں کی طرح ٹانکے ہیں۔تباہی کے منظر نامے پر شعر آنسوؤں کی طرح چمک رہے ہیں ۔ایک جگہ لکھتا ہے
پانی تھا میسر، نہ کفن تھا ،نہ دعائیں بے طور ہر اک پیر و جواں دفن کیا تھا
ملبے سے نکالے تھے کئی پھول،کئی خواب اب یاد نہیں کس کو کہاں دفن کیا تھا
بالاکوٹ کے رہنے والے اِس شاعر نے کئی سال پہلے پیشگوئی کر دی تھی کہ
زباں سمجھتا ہُوں میں ٹوٹتے ستاروں کی یہ شہر مجھ کو اُجڑتا دکھائی دیتا ہے
مرگ ، انبوہ کا ایک اور منظر دیکھیی
بھونچال میں کفن کی ضرورت نہیں رہی ہر لاش نے مکان کا ملبہ پہن لیا
مجاہد کا ننھا بیٹا اپنے مکان کے ملبے پر کھڑا ہے اور زبانِ حال سے کہہ رہا ہے
بہت ہے فرشِ زمیں،بام و در نہیں نہ سہی یہ کائنات مرا گھر ہے، گھر نہیں نہ سہی
لیکن اس اندھیری رات میں روشنی بھی طلوع ہُوئی اور وُہ تھی اہلِ وطن کا اور دنیا بھر کے لوگوں کا فوری ردِ عمل۔کراچی سے پشاور تک جس طرح پوری قوم اٹھی اور زلزلہ زدگان کی طرف چل پڑی، اُس کی حالیہ تاریخ میں کم ہی مثالیں ملتی ہیں۔مجاہد لکھتا ہے۔
’’ میں نے ایک غریب عورت کو دیکھا جس نے شاید ساری زندگی کی جمع پونجی خرچ کر کے زخمی بچوں کے لیے چند جوس کے ڈبے خریدے تھے۔وُہ اپنا یہ اثاثہ لیے کیمپوں میں گھوم رہی تھی ۔اُس کے چہرے سے پھوٹتی کرنوں کی لَو میں مجھے زندگی اتنی خوبصورت دکھائی دی کہ میں ایک لمحے کے لیے اپنے سارے دُکھ بھول گیا۔‘‘
مجاہد نے سب ملکی اور غیر ملکی تنظیموں کا احوال تفصیل سے لکھاہے کہ کس نے کیا کیا اور کتنا کیا۔بالاکوٹ کو ایک اور جگہ بسانے کے منصوبے کا بھی مجاہد نے تفصیل سے تجزیہ کیا ہے لیکن شہر تاریخ ، روایتوں اور وابستگیوں سے بنتے ہیں ،نئی آبادیاں کالونی تو کہلا سکتی ہیں، شہر نہیں کہلا سکتیں۔باقی صدیقی نے اسی لیے تو کہا تھا
زندگی حسنِ بام و در تو نہیں چند اینٹوں کا نام گھر تو نہیں
بالاکوٹ کے بام ودر کا حسن وقت کے خرابے میں اتر کر آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ہے اور ’’صفحۂ خاک‘‘اس گمشدہ حسن کا نوحہ ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭’’دھند میں لپٹا جنگل‘‘ پا کر مجھے اُس باپ جیسی خوشی نصیب ہُوئی ہے جسے برسوں ترسنے کے بعد اولاد نصیب ہُوئی ہو ۔ قتیل شفائی
٭ تمہاری تازگی اور زبان پر کنٹرول نے متاثر کیا۔تم میں ایک اچھے شاعر نے بسیرا کیا ہے، اِس کا خیال رکھنا۔
ساقی فاروقی