صفدر ہمدانی(لندن)
حقیقتوں کے مماثل مجاز کرتا نہیں
میں بے جواز کبھی اعتراض کرتا نہیں
مجھے خبر ہے مقدر کے استعارے کی
میں اپنے دستِ طلب کو دراز کرتا نہیں
ہر ایک غیر سے کہتا ہے وصف سارے مرے
مگر وہ شخص کہ خود مجھ پہ ناز کرتا نہیں
کچھ ایسے لفظ ہیں جو لوحِ دل پہ لکھتا ہوں
ہر ایک شعر سپردِ بیاض کرتا نہیں
اِک آئینہ سا مرے رو برو جو رہتا ہے
میں راز دار سے راز و نیاز کرتا نہیں
جو دل نہ چاہے تو جھکتی نہیں جبیں میری
گناہ گار ہوں رشکِ نماز کرتا نہیں
شبِ سیاہ کو صفدرؔ شبِ سیاہ کہا
میں بے لحاظ خود اپنا لحاظ کرتا نہیں
***
گلستاں در گلستاں اب باغباں کوئی نہیں
پھول سب تنہا کھڑے ہیں تتلیاں کوئی نہیں
دھوپ اچھی لگ رہی ہے آج کتنے دن کے بعد
بادلوں کا دور تک نام و نشاں کوئی نہیں
خشک لکڑی کی طرح سے جل گئے سارے مکاں
یہ عجب کہ ساری بستی میں دھواں کوئی نہیں
نام کیا دے گا کوئی ان بے سبب حالات کو
مہرباں سارے ہیں لیکن مہرباں کوئی نہیں
اپنے گھر سے دور رہ کر ہر قدم ہے امتحاں
کون کہتا ہے یہاں پر امتحاں کوئی نہیں
اُس نے اپنے شوق سے دستِ دعا کٹوا دیئے
اُس کے چہرے پر لکھی اب داستاں کوئی نہیں
رات کی جھیلوں میں اُترے گی کہاں سے چاندنی
ہم سیاہ بختوں کو بھی ایسا گماں کوئی نہیں
کیا خبر کیا ہو گیا ہے اُس معمر شخص کو
دن ڈھلے جنگل سے چُنتا لکڑیاں کوئی نہیں
اک عجب سا حادثہ دیکھا ہے صفدرؔ شہر میں
خشک ہیں سب آشیاں اور بجلیاں کوئی نہیں
***
تبدیلیاں ہیں عمر کے جانے کے ساتھ ساتھ
ناراضگی بڑھی ہے منانے کے ساتھ ساتھ
نفرت منافقت سے رہی مجھکو عمر بھر
میں چل سکا نہیں ہوں زمانے کے ساتھ ساتھ
میری مصیبتیں بھی گوارا نہیں ا سے
مجھکو رلا رہا ہے ہنسانے کے ساتھ ساتھ
دل میں سلگ رہی ہیں دعاؤں کی مشعلیں
لب ہل رہے ہیں ہاتھ اٹھانے کے ساتھ ساتھ
اس کی ہر ایک بات تو یکسر نہیں غلط
ہیں کچھ حقیقتیں بھی بہانے کے ساتھ ساتھ
میں آشنا ہوں اس کے مزاج و خیال سے
یاد آؤں گا اسے میں بھلانے کے ساتھ ساتھ
صفدرؔ عجیب لگتی ہے بستی بسی ہوئی
آتش فشاں کے سرخ دہانے کے ساتھ ساتھ
***
جدھر بھی دیکھیں وہی رویے منافقوں کے
سمجھ میں دکھ ہم کو آ رہے ہیں پیمبروں کے
کھلی ہوئی ہیں جو کھڑکیاں وہ بھی ادھ کھلی ہیں
نہ جانے کب سے ہیں در مقفل یہاں گھروں کے
انا مری ہے ابھی بھی ہر مصلحت پہ حاوی
لہو میں اترے ہیں تجربے سب مسافتوں کے
نا آشنا ہے ہر ایک شاخِ شجر ثمر سے
درخت سارے ڈسے ہوئے ہیں یاں بارشوں کے
عجب تغیر پسند اسکی ہوئی ہے عادت
بدلتے رہتے ہیں روز معیار چاہتوں کے
یہاں بھی شاید کبھی کوئی شہرِ آشنا تھا
نشاں ملے ہیں ہماری بستی میں مقبروں کے
اُگی ہے فصلِ نجات جیسے خزاں میں صفدرؔ
یوں سر بریدہ بدن پڑے ہیں مسافروں کے
***
نہاں ہو کے بھی میں ظاہر رہوں گا
تری ہر سوچ کا محور رہوں گا
میں اب محصور کر ڈالوں گا خود کو
مثالِ خانہء بے در رہوں گا
تمہارے ساتھ اب رہنا ہے مشکل
میں اپنی ذات کے اندر رہوں گا
بچھڑ کے بھی رہیں گے ساتھ دونوں
تو میرا میں ترا پیکر رہوں گا
مجھے بے بال و پر گرداننا مت
میں تنہا ہی سہی لشکر رہوں گا
ستارہ اب کوئی آنگن میں اترے
اسی اُمید پہ اب گھر رہوں گا
زمانہ جو بھی چاہے نام دے دے
میں صفدرؔ ہوں میں بس صفدرؔ رہوں گا
***
لکھے گا وقت ہواؤں پہ انکشاف مرے
گناہ سب تو نہیں قابلِ معاف مرے
میں تیرگی کو کبھی روشنی نہیں کہتا
ہر عہد کی ہے ہوا اس لیئے خلاف مرے
پرائے لوگوں سے کیا لیں سماعتوں کی دلیل
مرے گواہ بنے ہیں خود اعتراف مرے
پڑا ہے وقت تو آنکھوں سے ہو گیا اوجھل
وہ عمر بھر کو جو کرتا رہا طواف مرے
فقط تمہیں سے نہیں ہے یہ اختلاف مرا
خود اپنے ساتھ بھی صفدر ہیں اختلاف مرے
***
محبت اب عداوت لگ رہی ہے
بڑی مشکل میں قدرت لگ رہی ہے
فقیہِ شہر تو خود پُر سکوں ہے
مگر سولی پہ اُمت لگ رہی ہے
تمہارے قتل سے لگتا ہے ایسے
مرے سر کی بھی قیمت لگ رہی ہے
فضاؤں میں لہو کی بو بسی ہے
بہت بے چین فطرت لگ رہی ہے
میں اپنے عہدِ نو کی کربلا ہوں
مرے خوں میں شہادت لگ رہی ہے
مقدر سو رہا ہے خاک اوڑھے
زمینِ سخت راحت لگ رہی ہے
فصیلِ شہر پر تو روشنی ہے
مگر داؤ پہ عزت لگ رہی ہے
میں اپنے ملک میں آیا ہوں جب سے
عجب بے چین صورت لگ رہی ہے
منڈیروں پر کہیں چڑیاں نہیں ہیں
عجب اس گھر کی حالت لگ رہی ہے
زمیں میں نفرتیں بوئی گئی ہیں
ہری شاخوں پہ تہمت لگ رہی ہے
سکوں میں ہیں منافق شہر بھر کے
ہمیں یہ سانس ذلت لگ رہی ہے
وہاں مصروفیت تھی چار جانب
یہاں فرصت ہی فرصت لگ رہی ہے
رکے یہ قافلۂ جاں کہیں پہ
بے معنی اب مسافت لگ رہی ہے
میں اپنے آپ کو غرقاب کر دوں
بچاؤ کی یہ صورت لگ رہی ہے
خدایا مشکلیں آسان کر دے
مجھے گھرمیں بھی وحشت لگ رہی ہے
وہاں بے چین ہے وہ کل سے صفدرؔ
اسے میری ضرورت لگ رہی ہے