اسی وقت میاں نے میری طرف نظر کر کے فرمایا تھا، ’’شاہد! تمھیں کچھ کہنا ہے؟‘‘
میری زبان کھلنے سے پہلے ہی غلام ماموں نے کہا تھا، ’’میاں! مجھے سب کی طرف سے عرض کرنا ہے کہ ہم ہمیشہ سے نہر پر شکار کھیلتے ہیں، اور یہ خوف ہم پر مسلّط رہا تو ہمارا شکار چھوٹ جائے گا۔ اور ہم لوگوں کا شوق ہی کیا ہے۔ کیا یہ بھی۔۔۔ چھوڑ دیں؟ بستی کے سارے لوگ آپ سے پوچھ چکے ہیں۔ آپ! انھیں یہ کیوں نہیں بتاتے کہ چاند کیوں نہیں نکلا۔ آپ ہمیں یہ کیوں نہیں بتاتے کہ نہر پر ہمیں وہ منظر کیوں دکھائی دئیے۔ میاں! اگر آپ بھی خاموش رہے تو پھر ہمیں اور کون بتائے گا؟ ہم لوگ کس کے پاس جائیں گے؟‘‘
غلام ماموں کے خاموش ہونے پر میاں نے تھوڑی دیر ان کی طرف دیکھا تھا اور پھر سب کو باری باری دیکھ کر آہستہ آہستہ بولے تھے، ’’غلام! سارے دکھوں کا اکیلا وارث میں نہیں ہوں۔ ساری امّت کے حصے میں دکھ تقسیم کئے گئے ہیں، بلکہ سب بندوں کو حصہ ملا ہے۔ اپنے دکھوں کو خود اپنے آپ پہچانو! جاؤ! نہر پر جاؤ۔ اسی جگہ بیٹھ کر اپنے اپنے منظر یاد کرو اور پھر سوچو کہ تمھیں وہ منظر کیوں دکھائی دیے۔ میں اب کم زور ہو چلا ہوں۔ مجھ پر اتنا بار نہ ڈالو۔ کل ظہر کے بعد نہر پر جانا۔ اب تم لوگ جاؤ۔ رات زیادہ ہو گئی ہے۔‘‘
ہم سب نے میاں کے اُجلے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’اور سنو!‘‘
ہم سب پلٹ پڑے تھے۔
’’کل اپنے ساتھ حامد کو بھی لے جانا۔ بس اب تم جاؤ، خدا تم سب کو سکون دے۔‘‘
ہم لوگ جب حجرے سے نکلے تو آسمان صاف تھا اور ستارے بہت روشن تھے۔ ہم لوگوں کے لمبے لمبے سائے میاں کے حجرے سے دور ہو رہے تھے۔ مڑ کر دیکھا تو سفید پوش میاں حجرے کے دروازے پر کھڑے ہمیں جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور اسی وقت اجنبی آسمان کے نیچے چلتے چلتے ہم سب نے شاید ایک ساتھ سوچا تھا کہ خدا جانے کل کیا ہو گا۔
دوسرے دن ظہر کے بعد ہم لوگ نہر کی طرف چل پڑے تھے۔ نہر کے پُل پر کھڑے ہو کر میں نے سوچا کہ پرسوں اسی جگہ کھڑے ہو کر میں نے سوچا تھا کہ اونٹوں کے قافلے کے ساتھ رمضان اب رخصت ہونے ہی والے ہیں۔
عزیز بھائی نے پیچھے سے آ کر میرے شانے پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔
’’آج دن میں بھی ڈر لگ رہا ہے۔ کیا تمھیں بھی ڈر لگ رہا ہے؟‘‘
میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
’’یہ حامد کہیں زیادہ نہ ڈر جائے۔‘‘ عزیز بھائی نے آہستہ سے کہا۔
’’نہیں۔ ہم لوگ اسے بہلائے رکھیں گے۔‘‘ جمال ہم لوگوں کے قریب آ گئے تھے۔
اب میں نے نہر کے پُل کے بالکل درمیان میں کھڑے ہو کر دور دور تک دیکھا۔ نہر کے چاروں طرف ایک سبز تصویر پھیلی ہوئی تھی جس میں کہیں کہیں مٹیالے دھبّے نظر آ رہے تھے کہ کچھ کھیت ابھی بونے سے رہ گئے تھے۔ گیہوں کے چھوٹے چھوٹے پودوں پر دھوپ نے چمک پیدا کر دی تھی۔ جہاں جہاں سایہ تھا، وہاں کھیتوں کی سبزی گہری ہو گئی تھی اور کھیت بہت گنجان لگ رہے تھے۔۔۔ اور تھوڑی دیر بعد چھوٹے ٹیلے پر بیٹھے ہم چھ افراد نے محسوس کیا کہ آج ہم یہاں اپنے اپنے فیصلے کرنے آئے ہیں۔ یہاں ہم لوگ یہ سوچنے آئے ہیں کہ ہماری زندگی میں وہ کون سی کجی آ گئی ہے جس کی وجہ سے معمولات نے اپنی راستی چھوڑ دی ہے۔
میاں نے کہا تھا کہ زمین پر پاؤں مارنے سے جو دھمک پیدا ہوتی ہے، اس کے نہایت معمولی سے ارتعاش سے بھی کائنات کا کوئی نہ کوئی عمل ضرور متاثر ہوتا ہے۔ ہر قدم اہم ہے۔
سردیوں کا سورج اوپر تھا اور نیچے ہم لوگ تھے، تب غلام ماموں نے ٹیلے پر کھڑے ہو کر نہر کے پار اس جگہ کو غور سے دیکھا۔
شیشم کے دو بوڑھے درختوں کے درمیان کچھ بھی نہیں تھا جس سے خوف محسوس کیا جا سکے۔ سامنے نہر کے کنارے دور تک درختوں کا سلسلہ چلا گیا تھا اور ان میں سے کسی بلند شیشم کے اوپر سے بڑی فاختہ کی ’’یا حق تُو‘‘، ’’یا دوست تُو‘‘ کی مسلسل صدائیں، اس کنارے پر بالکل صاف سنائی دے رہی تھیں اور اب غلام ماموں نے سوچا کہ جو دن میں سوچو، رات کو وہی خواب میں نظر آتا ہے۔ پرسوں شام میں نے جو منظر دیکھا تھا وہ کسی بھیانک سوچ کا نتیجہ رہا ہو گا۔ شاید اسی لئے میاں نے ہم لوگوں کو نہر پر بھیجا ہے کہ ہم لوگ اپنا منظر یاد کریں اور اس منظر کی گانٹھ کا وہ سِرا تلاش کریں جس سے ہماری پچھلی سوچیں جُڑی ہوئی ہیں۔
’’کیا میں بتاؤں جو میں نے دیکھا تھا؟‘‘ جمال نے سہمی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’نہیں، رُکو! پہلے خوب اطمینان سے سوچو کہ تم نے کیا دیکھا تھا۔ پھر سوچو کہ تم نے وہ کیوں دیکھا؟ پھر بتانا۔‘‘
’’کیوں دیکھا!‘‘ جمال نے حیرت سے کہا، ’’کیا کوئی اپنے اختیار میں تھا! آپ تو غلام ماموں بات کو اور بھی پیچیدہ بنا رہے ہیں۔‘‘
تبھی غلام ماموں نے میاں کے لہجے میں ہم سب سے مخاطب ہو کر کہا، ’’تم سب لوگ یہیں خاموش بیٹھے بیٹھے سوچو۔ میاں نے یہ کہا تھا۔ ان کی یہی ہدایت تھی کہ کوئی اپنا منظر نہ بتائے۔ صرف حامد بتائے گا کہ اس نے کیا دیکھا تھا‘‘ یہ کہہ کر غلام ماموں نے سر نیچے ڈال دیا۔
اور اب غلام ماموں نے سوچا کہ سامنے ان دونوں درختوں کے بیچ وہ کیسا دہشت ناک منظر تھا۔ اُف۔۔۔ کہیں سچ مچ ایسا ہو جائے تو کیا ہو گا۔ اماں نے کتنے دکھ سہہ کر مجھے پالا۔ کھجور کی گٹھلیوں کی چھالیا کھا کھا کر، انھوں نے اپنے گردے میں پتھری پیدا کر لی لیکن میری پڑھائی کی طرف سے کبھی غفلت نہیں برتی۔ میں میٹرک کر کے ریلوے میں فائرمین سے ڈرائیور ہو گیا لیکن اماں کی زندگی کی گاڑی وہیں کی وہیں رہی۔ اماں ابا کتنے مزے سے غربت بھگت رہے ہیں اور میں ان سے سیکڑوں میل دور اپنے ساتھیوں میں، ’’غلام بابو‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہوں۔ کالونی میں سب سے اچھا کھانا میرے یہاں پکتا ہے اور صرف میرے ہی گھر ٹیلی وژن ہے۔ اس دن شکار پر آتے وقت میں نے اماں سے کہا تھا۔ اماں! میں عید کے دوسرے ہی دن واپس چلا جاؤں گا۔ ٹیلی وژن خراب پڑا ہے۔ منّو اور آپ کی بہو بور ہو رہے ہوں گے۔ مجھے وہاں جا کر ٹیلی وژن ٹھیک کرانا ہے۔
اماں یہ سن کر کچھ نہیں بولی تھی۔ اس نے یہ بھی نہیں کہا کہ بیٹا غلام! تم اب اللہ رکھے، پچاس برس کے ہو رہے ہو۔ تم نے اس طویل عرصے میں ایک دن بھی یہ نہیں پوچھا کہ اماں! تم اور ابا، میرے بغیر یہاں خود کو غیر محفوظ سمجھ کر تو زندگی نہیں گزارتے ہو اور یہ کہ اماں! تمھارے پان دان میں اب بھی کھجور کی گٹھلیاں ہیں یا اب وہ بھی نہیں ہیں۔
اُف! وہ منظر۔۔۔ میں نے پرسوں اسی سامنے والے کنارے کی طرف حامد کے اشارہ کرنے پر دیکھا تو نظر آیا کہ شیشم کے دو درختوں کے درمیان ایک ریلوے اسٹیشن کا کمرا ہے اور کمرے کے برابر ریل کی پٹری پر میں بہت تیزی سے انجن میں ریل گاڑی چلاتا چلا جا رہا ہوں۔ دونوں طرف مٹی اڑ رہی ہے اور سامنے ریل کی پٹری پر امّاں کھڑی ہے اور وہ چلّا رہی ہے۔ غلام، رک جاؤ! غلام رک جاؤ! میں تم سے کچھ نہیں کہوں گی لیکن اپنی گاڑی سے مجھے کچلو تو مت۔۔۔ لیکن میں نہیں رکا۔ میری گاڑی کا انجن میری ضعیف ماں کے بدن کے پرخچے اڑاتا ہوا تیزی سے نکل گیا اور ماں کے خون میں لتھڑے گوشت کی بو کو میں نے سونگھ کر محسوس کیا اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک سرخ ڈھیر پٹریوں پر پڑا تھا جو آہستہ آہستہ معدوم ہو گیا۔ تبھی میں نے اپنی ہڈیوں میں ٹھنڈی ہوا کی رگڑ محسوس کی اور اس منظر سے واپس آیا تو سب ساتھ والے خاموش اور خوف زدہ کھڑے تھے اور حامد بے ہوش ہو چکا تھا لیکن اس منظر میں میرا کیا قصور تھا؟ میں نے تو بریک پر ہاتھ رکھا تھا لیکن اس وقت مجھے خیال آیا تھا کہ سامنے مجھے روکتی ہوئی یہ بوڑھی عورت وہی ہے جس نے اگر مجھے اپنی کوکھ سے پیدا نہ کیا ہوتا تو ساتویں کلاس میں میرے ساتھی، کسی لڑکے کی رفو کی ہوئی پتلون کا مذاق کیوں اڑاتے۔ میں اس خیال کے دھارے میں اتنا آگے بڑھ گیا کہ جب ماں کے کٹے ہوئے بدن سے پھوٹتی ہوئی خون کی تیز مہک میری ناک میں آئی تب میں ہوش میں آیا تھا۔
میں نے دیکھا کہ غلام ماموں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا ہے اور چپ چاپ بیٹھے زمین تک رہے ہیں۔ تبھی حامد نے میری طرف کچھ عجیب سی نظروں سے دیکھا جن کا مطلب میں نہیں سمجھ سکا۔ میں نے مضبوطی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور غلام ماموں کو بہت قابل رحم محسوس کیا۔ خدا جانے انھوں نے کیا منظر دیکھا تھا، لیکن مجھے یقین ہے انھوں نے جو کچھ بھی دیکھا ہو گا، اس میں ان کا قصور نہیں ہو گا۔ کیوں کہ میں نے بھی جو کچھ دیکھا تھا اس میں میری کیا خطا تھی۔ میرا دل بے اختیار چاہا کہ میں اس ڈوبتی ہوئی سرد شام کے اداس لمحوں میں، سب کو بتا دوں کہ پرسوں سورج ڈوبنے کے بعد چاند نظر نہ آنے پر جب حامد نے نہر کے اُدھر اشارہ کیا تھا تو میں نے دیکھا تھا کہ نہر کی پٹری پر میری شبانہ بالکل برہنہ پڑی ہے اور کچھ عجیب الخلقت آدمی اس کے پاس کھڑے ہیں جن کے سر اور پنجے بھیڑیوں جیسے ہیں اور وہ باری باری شبانہ کے جسم کی عصمت دری کر رہے ہیں۔ میں وہیں قریب میں کھڑا ہوں اور میرے سارے اعضا پتھر کے ہیں صرف آنکھیں ہیں جن سے میں دیکھتا ہوں کہ شبانہ ہر بھیڑیے کو مطمئن کرنے کے بعد میری طرف آنکھیں کھول کر ٹکر ٹکر دیکھتی ہے اور پھر آنکھیں بند کر لیتی ہے۔ وہ مجھ سے کچھ نہیں کہتی۔ مدد کے لیے بھی نہیں کہتی۔ اور پھر اگلا بھیڑیا آگے بڑھتا ہے اور تیز دانتوں اور پنجوں سے دل بھر کر۔۔۔۔ شبانہ کو بھنبھوڑتا ہے اور دوسرے بھیڑیے کے لیے جگہ خالی کر دیتا ہے۔ اور پھر اگلا بھیڑیا آگے بڑھتا ہے اور پھر۔۔۔ لیکن میں یہ منظر کیسے بتاؤں۔۔۔ یہاں، اس نہر کی پٹری پر چھوٹے سے ٹیلے پر بیٹھا ہوا کوئی فرد۔۔۔ تمھیں نہیں جانتا شبانہ! اور اب تو شاید میں بھی تمھیں بھولتا جا رہا ہوں۔ تم مجھ سے پوچھو گی کہ چھ سال میں ہی تم مجھے بھول گئے؟ تم نے زندگی بھر یاد رکھنے کا وعدہ کیا تھا شاہد علی!
تو میں تمھیں جواب دوں گا شبانہ کہ چھ سال کی مدّت یوں تو اتنی طویل نہیں ہوتی کہ تم سے بچھڑ کر تمھیں بھلایا جا سکے لیکن شاید تمھیں اس کا اندازہ نہ ہو کہ بے روزگاری کے دن برسوں سے زیادہ طویل ہوتے ہیں اور وہ بھی ایسی بے روزگاری، جس کے ڈانڈے تمھاری جدائی سے ملتے ہوں۔ تمھیں شاید نہیں معلوم کہ ان طویل دنوں کے ساتھ کھردری تاریک راتیں بھی تو بندھی ہوئی ہیں جو اپنی سیاہی میں سب کچھ تاریک کر دیتی ہیں۔ ہاں، ہاں۔۔۔ تمھارا روشن چہرہ اور چمکتی ہوئی محبوب آنکھیں بھی تاریک ہو جاتی ہیں۔ تمھارے چمکتے ہوئے چہرے پر میری مادّی کلفتوں نے بہت موٹے موٹے پردے ڈال دیے ہیں۔ اور دیکھو، میری مجبوریوں اور محرومیوں نے اپنا انتقام لینے کے لیے میرے لاشعور کو کیسی اچھی پٹّی پڑھائی ہے کہ میں تمھیں بھیڑیوں کے جنگل میں برہنہ اور اکیلا ڈال کر کھڑا ہوا تمھیں دیکھ رہا ہوں اور اپنے اعضا پتھر کے بنا لئے ہیں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...