دوسرے دن وہ واپس اچکا تھا بس فرق صرف اتنا تھا کہ اس بار وہ اکیلا آیا تھا۔۔۔ عنایہ اس کہ ساتھ نہیں آئی تھی ۔۔۔۔۔
سعیدہ بیگم کا نماز جنازہ کل ہی پڑھا دیا گیا تھا۔۔ سکندر حیات کہ گھر سے صرف صعود اور درراب گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ صائمہ ابھی اپنے میکہ میں تھی کیوں کہ آج ماہم کی بارات تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ تو قدرت کا نظام ہے کہیں غم اور کہیں خوشی ہوتی ہے اسی کا نام زندگی ہے ۔۔۔۔۔۔
شاہ کو گھر کاٹ کھانے کو دوڑنے لگا تو وہ یونیفارم چینج کر کہ پولیس اسٹیشن آگیا تھا ۔۔۔۔۔۔
جہاں دین محمد پہلے ہی سے موجود تھا۔۔۔۔۔۔۔
دین محمد نے درراب کو آتا دیکھا تو چونکنا ہو کر کھڑا ہوگیا ۔۔۔۔۔۔
کیسے ہو دین ؟؟؟
ازلی اعتماد کہ ساتھ پوچھا گیا:
“ٹھیک ہوں سر آپ کو یہاں دیکھ کر خوشی ہوئی۔ ”
ہمممم ۔۔باقی کہ لوگ کہاں ہیں اتنا سناٹہ کیوں لگا ہوا ہے؟؟؟
“سر یہ تو آپ کہ جانے کہ بعد روز ہی ایسا ہوتا ہے ۔۔ وہ تو آپ کہ ڈر کی وجہ سے مارے بندھے سویرے سویرے استیشن آجاتے تھے آپ کہ جاتے ہی انھیں چھوٹ مل گئی ۔۔۔۔”
“نہیں دین میرے ڈر کی وجہ سے نہیں اپنے ٹرانسفر لیٹر جاری نہ ہونے کی وجہ سے وہ تمھیں نظر آتے تھے ۔۔۔۔”
“کیوں کہ جن لوگوں کو خدا سے ڈر نہیں لگتا انھیں اس کہ بندوں سے بھی ڈر نہیں لگتا ۔۔۔۔”
“یس سر آپ نے سو فیصد درست کہا ہے ۔۔۔۔”
دین محمد نے شاہ کی بات کو سراہتے ہوئے کہا :
تم بتاو کیا رپورٹ ہے اب تک کی ؟؟؟
شاہ اپنی نشست پر جاکر بیٹھا اور کیپ اتار کر ٹیبل پر رکھی ۔۔۔۔۔۔۔
“سر ابھی تو راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے ۔۔۔۔۔”
“لکھنے دو اسے اور ہاں ڈسٹرب بلکل نہیں کرنا اسے مواقع دو تاکہ اور بھی کچھ لکھ سکے بس جو لکھ رہا ہے اس کو نظروں میں رکھنا۔۔۔۔۔”
“جی جی سر ہم تو انکھیں بھی بند نہیں کرتے کہ کہیں وہ آنکھ بچا کر روپوش نہ ہوجائیں۔۔۔”
“ہاہاہاہاہاہ واہ دین تم تو کافی سمجھدار ہوگئے ہو۔۔۔”
“بس سر آپ کی صحبت کا نتیجہ ہے ۔۔۔”
دین نے عاجزی سے کہہ کر سامنے رکھی فائل کھول کر شاہ کہ اگے کی ۔۔۔۔۔۔۔
اور خود چائے کا انتظام کرنے چلا گیا تھا ۔۔ کیوں کہ شاہ کی صبح سویرے آمد اس بات کی غماز تھی کہ دھولے منہ ہی اسٹیشن آیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
____________________________
عنایہ نجمہ کی گود میں سر رکھے نجانے کب کی سو چکی تھی ۔۔۔۔ راحب بھی پیشانی رگڑتا وہیں چلا آیا ۔۔۔۔ سعیدہ بیگم کو گئے ہوئے دوسرا دن تھا ۔۔۔ لیکن مہمانوں کا ہنوز تانتہ بندھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔ جس کو جیسے خبر ملتی وہ فوراً تعزیت کرنے چلا آتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنایہ جب سے آئی تھی روئے چلی جارہی تھی۔۔۔ نجمہ کہ لاکھ سمجھانے پر بھی وہ چپ نہ ہوئی تو مجبوراً انھیں اسے نیند کی گولی دے کر سلانا پڑا۔۔۔۔۔۔۔
نجمہ نے جب عنایہ کو ضعیم صاحب کہ ساتھ آتے دیکھا تو وہ اسے پہچان ہی نہ پائی تھیں انکھوں کہ نیچے گہرے سیاہ ہلکہ اور چہرہ پر دلکشی کا شبہ تک نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو انکی عنایہ نہیں تھی یہ تو کوئی اور ہی تھی ان کی عنایہ کی تو انکھیں بھی بولتی تھی۔۔۔۔ قریب آنے پر اس چہرہ کو بے تابانہ چوم کر اپنی ممتا کو سکون بخش رہیں تھیں۔۔۔۔۔
انکھیں تھیں کہ دریا بہانے کہ در پہ ہوچلی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا امی سوگئی عینو؟؟
“ہاں دوائی دی ہے تاکہ سکون کی نیند لے لے۔۔۔ رو رو کر اپنا حشر کرلیا ۔۔۔”
” دادو کہ بہت قریب تھی یہ اور اسی کہ سامنے تو دادو کا بی پی شوٹ کر گیا تھا۔۔۔”
راحب نے اپنی نم انکھ کا کونا صاف کیا۔۔۔۔
“راحب کیسے کٹھور اور ظالم لوگ ہیں یہ دیکھ تو میری معصوم سی بچی کا کیا حال کردیا سوکھ کہ کانٹا ہوگئی۔۔۔۔”
“بس امی کچھ لوگ نام نہاد ہی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں حقیقت میں علم انھیں چھو کر بھی نہیں گزرتا۔۔۔۔۔۔۔”
انکھیں بے تحاشہ سرخ ہورہیں تھیں جیسے ابھی لہو نکلنا شروع ہوجائے گا۔۔۔۔۔
“میں اب نہیں جانے دوں گی اسے بس بہت سزا کاٹ لی اس نے ۔۔۔۔ حد ہوتی ہے ہر بات کی ان کی بچی کی اگر ایسے ہی موت لکھی تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ تم زندہ انسانوں پر ظلم توڑو اور جینا حرام کردو ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔”
“امی یہ تو ناگہانی موت تھی ۔۔۔”
“وہ بھی بچی بڑی پیاری تھی۔۔۔ مجھے تو مہتاب کہ حوصلے پر رشک آتا ہے ۔۔۔۔۔ ”
“چھوڑیں امی جس کہ حصے میں جتنے غم ہیں انھیں اتنے ہی سہنے پڑیں گے۔۔۔۔۔۔”
“راحب میں نے ایک فیصلہ کیا ہے ”
کون سا فیصلہ امی ؟؟؟
“میں اور عینو تیرے ساتھ کراچی جائیں گے۔۔۔”
ہزار بار جائیں لیکن امی!!!!! ابو ؟؟؟
“بس راحب اب میں تیرے باپ کی کوئی بات نہیں مانوں گی تیرا باپ اپنی حصہ کی سزا خود کاٹے گا ۔۔۔ ”
کیا مطلب کون سی سزا امی ؟؟
راحب نے ناسمجھی سے نجمہ کو دیکھا۔۔۔۔۔۔۔
“وقت آنے پر سب بتادوں گی ۔۔۔ ماں جی کہ چالیس وے کہ بعد ہم دونوں تیرے ساتھ جائیں گے ۔۔۔۔”
“جیسا آپ مناسب سمجھے۔۔۔”
راحب نے فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سر اگے کردیا تھا۔۔۔۔۔ جسے نجمہ نے ممتا کی محبت سے چوما تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
“اب آپ آرام کریں میں بھی چلتا ہوں۔۔۔۔”
وہ ایک نظر سوئی ہوئی عینو پر ڈال کر پلٹ گیا۔۔
اس کہ دل میں بھی یہ بات ایک پھانس کی طرح چبھ گئی تھی۔۔۔ وہ ایسے تو ہر گز بھی درراب کو نہیں چھوڑے گا ۔۔۔ اپنی بہن پر کئے ہوئے ہر ظلم کا حساب لے گا۔۔۔۔۔۔
____________________________
فرروخ کا تعلق مڈل کلاس طبقے سے تھا ۔۔۔ ماں باپ کہ انتقال کہ بعد چار بہنوں کا اکلوتا بھائی ہونے کہ ناطے اس پر بہت سی ذمہ داریاں تھیں۔۔۔۔۔۔۔ بڑی بہن کہ بعد دوسرا نمبر فرروخ کا تھا بڑی بہن کرن کی شادی ماں باپ اپنی زندگی میں ہی کر کہ چلے گئے تھے ۔۔۔۔۔ البتہ تیسرے نمبر کی شازیہ کا رشتہ پھپو کہ بیٹے سے طے تھا۔۔۔۔۔ باقی نائلہ اور نمرہ ابھی تعلیم حاصل کررہیں تھیں۔۔۔۔۔۔
فرروخ کہ کندھوں پر جب بوجھ پڑا تو ہوش آیا ۔۔۔۔ پڑھنے میں اچھا تھا لیکن طبیعیت میں مستقل مزاجی نہ تھی ۔۔۔۔ کسی رشتہ دار کہ توسط سے اسے پولیس کی نوکری مل گئ تھی ذہین تو تھا ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی سی ایس ایس کہ بعد اچھے عہدہ پر اسے رکھا گیا یوں بہنوں کی ذمہ داری نے اسے محنت و لگن سے کام کرنا سکھا دیا تھا ۔۔ ۔ وہاں کہ باقی افسر جس طرح بیٹھ کر کھاتے تھے رشوت لینا ، یہ سب دیکھ دیکھ کر اسکا۔ محنت سے دل برا ہوگیا ۔۔۔۔۔ وہ محنت کرکہ بھی اتنا نہ کما سکا تھا جتنا وہ افسران بیٹھے بیٹھے کما لیتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی بات کو بنیاد بنا کر اس نے بھی یہ ہی وطیرہ اختیار کر لیا ۔۔۔۔۔
موڑ تو تب آیا جب درراب کا ٹرانسفر انہی کہ اسٹیشن میں کردیا گیا ۔۔۔۔۔
فرروخ تو سنبھل گیا تھا لیکن باقی کہ افسران نے درراب کہ خلاف محاذ کھول لیا ۔
“خیر حق کی راہ پر چلنے والے لوگ چھوٹے چھوٹے طوفانوں سے نبٹنے کا ہنر جانتے ہیں۔۔۔۔۔”
فرروخ کی سیدھی سادی زندگی میں ماہم کا داخل ہونا بھی ایک اتفاق ہی تھا۔۔۔۔ کیوں کہ نا تو وہ اس گاوں کا۔ تھا اور نہ ہی ان کی طرح رئیس ۔۔۔۔۔۔ فرروخ کی آپا کو جب اس بات کا علم ہوا تو پہلے تو وہ غصہ ہوئیں تھیں لیکن پھر بعد میں مان چکی تھیں یوں ان کہ مختصر سے مہمان بارات لے کر گئے اور کچھ ہی گھنٹوں میں ماہم کو رخصت کروا کر گھر لے آئے۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
___________________________
صائمہ کی خاموشی صعود کو حیران کررہی تھی ۔۔۔۔۔ وہ جب سے بارات میں سے آئی تھی چپ تھی نہ کوئی طنز، نہ لڑنا ، نہ جھگڑنا، چہرہ بھی مرجھایا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ صعود پہلے تو سمجھا کہ ماہم کہ رخصت ہونے پر افسردہ ہے لیکن جب پورے ایک دن تک صائمہ کی چپ نہ ٹوٹی تو حقیقتاً وہ پریشان ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی وہ بیڈ پر بیٹھی راحم کو تھپک رہی تھی وہ بھی وہیں چلا آیا۔۔۔۔
طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟؟؟
کف کہ بٹن کھولتے ہوئے آستینیں چڑھائی۔۔۔۔
“ہمم ٹھیک ہوں۔۔”
آپ کو کچھ چاہیئے؟؟
“نہیں مجھے کچھ نہیں چاہیئے تم بتاو کیا بات ہے رات سے چپ ہو ”
“سوچ رہی ہوں کسی نے سچ ہی کہا ہے جو دوسروں کی عزت خاک میں ملانے کہ در پہ ہوتے ہیں وہ خود ہی ذلت کی اتاہ گہرائی میں گرتے ہیں۔۔ ”
“بلکل ٹھیک سوچ رہی ہو ۔۔۔”
لیکن یہ بات تم کیوں سوچ رہی ہو ؟؟
“کیوں کہ میں ہی تھی وہ جو بابا جان کہ سامنے عنایہ کو ذلیل کرتی تھی اس کو نجانے کیا کیا نہیں کہا میں نے۔۔۔ یہاں تک کہ شاہ اور اس کہ بیچ بھی غلط فہمی پیدا کی ۔۔۔”
کیا کہا ہے تم نے شاہ سے؟
صعود نے غصہ سے صائمہ کا بازو پکڑا۔
“وہ جب خالہ بی اور عنایہ کو ساتھ لے کر جارہا تھا جب میں نے شاہ کو عنایہ کہ خلاف کرنا چاہا تھا ۔۔ لیکن وہ شاہ تھا اس کہ سر پہ جوں تک نہ رینگی۔۔۔ ”
“اور آج میری۔ بہن نے ہی مجھے آپ کی نظروں میں گرادیا یہاں تک کہ بابا جان کی نظروں میں بھی ۔۔۔۔۔۔”
صائمہ یہ کہہ کر بری طرح رو دی ۔۔۔ صعود اس پر چبھتی ہوئی نگاہ ڈال کر وہاں سے اٹھ گیا تھا۔۔۔۔۔۔
“یہ اس کہ اپنے کھودے ہوئے گڑھے تھے جن میں آج وہ گری تھی اور ایسی گری تھی کہ کسی نے آٹھایا تک نہ تھا۔۔۔ ”
___________________________
ماضی:
خالہ بی مجھے امی کی یاد آرہی ہے آپ کہ یاد
موبائل ہے ؟
“نہ بیٹا میرا موئے موبائل کا کیا کام میرے تو کوئی اگے ہے نہ پیچھے ۔۔ ”
“اچھا ۔۔”
عنایہ نے منہ بسور کر کہا:
“شاہ نے فون تو لگایا ہوا ہے اس پر کرلو۔۔۔”
خالہ بی کو یک دم آیا تو کہنے لگیں۔۔۔
عنایہ کی آنکھوں کی بجھی جوت چمک اٹھی ۔۔۔ وہ خالہ بی کا شکریہ کرتے ہوئے فون کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندسہ دبانے کہ بعد ریسیور جیسے ہی کان سے لگایا ۔۔۔ درراب کسی بوتل کہ جن کی طرح نازل ہوگیا۔۔۔۔
درراب کو دیکھ کر اس کہ ہاتھ سے ریسیور چھوٹ گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
کس کو فون ملایا جارہا ہے ؟؟؟
جھک کر ریسیور اٹھایا گیا تھا۔۔۔۔
“کککک ککسسی کو ننہی۔۔۔”
جھوٹ نہیں سچ بلکل سچ بتاو۔؟؟
درراب کی پتھریلی آواز پر وہ گھبرا کر پیچھے دیوار سے جالگی۔۔۔
“میں اپ اپنے گگگ گھر ففون کررہی تھی۔۔۔”
خوف اتنا تھا کہ ٹھیک سے بولا بھی نہیں گیا۔۔۔
“یہ لاسٹ وارنگ ہے ۔۔۔۔ ”
لاسٹ وارنگ سمجھتی ہو ؟؟؟
درراب کہ پوچھنے پر جھٹ گردن اثبات میں ہلائی ۔۔۔
“جاو اپنے کمرہ میں ۔۔۔۔”
انگلی کہ اشارہ پر وہ لمحہ ضائع کئے بنا وہاں سے بھاگی تھی۔۔۔۔۔۔
درراب نے فون چیک کیا اور جو نمبر ملایا گیا تھا اسے بلوک کردیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
____________________________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...