سعید شباب نے سب سے پہلے اپنے ماہیوں کو کسی عنوان کے تحت پیش کرنے کی روایت قائم کی ہے۔ یاد، دل ، دیوانہ اور ماہیے کے عنوان کے تحت انہوںنے گویا مسلسل غزل کی طرح مسلسل ماہیے پیش کیے ہیں۔ ”ماہیے“ کے خصوصی عنوان سے پیش کئے گئے ان کے ماہیے پڑھ کر دیکھیں۔ ماہیے کی ہیئت، وزن اور مزاج کے بارے میں مضامین کی صورت میںتو بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن ماہیا شاعری کے ذریعے سعید شباب نے دریا کو کوزے میں بند کر کے دکھا دیا ہے۔ ماہیے کے لفظ کو شعری ضرورت کے مطابق پنجابی تلفظ میں بھی برتا ہے اور اردوتلفظ میں بھی۔
گیتوں کی جوانی ہے
بحر یہی یارو
ماہیے کی نشانی ہے
مٹیار اٹھلاتی ہوئی
دھن ہے ماہیے کی
ہنستی، بل کھاتی ہوئی
پھولو ں کی مہک بھی ہے
ماہیے میں دکھ کے
کانٹوں کی کسک بھی ہے
تحفہ پنجاب کا ہے
نشہ ماہیے میں
دریائے چناب کا ہے
گہرائی کی خوبی ہے
وسعتِ صحرا بھی
ماہیے میں ڈوبی ہے
جن لوگوں نے ماہیے کو صرف تحریری صورت میں دیکھا ہے ان میں سے اکثر نے اعتراض کیا کہ دوسرے مصرعہ میں تھوڑی سی کمی کے باعث جھٹکا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن دوسرے مصرعے میں ایک سبب کی کمی سے ہی تو ماہیے میںروانی پیدا ہوتی ہے اور اس روانی کا اس وقت تک اندازہ نہیں کیا جاسکتا جب تک گائے ہوئے ماہیے سن نہ لئے جائیں۔ماہیے کی دھن کو ایک مٹیار کہہ کر پھر اس کی اٹھلاتی ہوئی چال کو ہنستی،بل کھاتی ہوئی بیان کر کے سعید شباب نے بڑی لطافت سے ماہیے کے دوسرے مصرعہ کے وزن کی نوعیت اور خوبصورتی کو اجاگر کیا ہے۔ ان پانچوں ماہیوں میں سعید شباب نے ماہیے کی جو خوبیاں بیان کی ہیں، وہ ساری خوبیاں ان کے اپنے ماہیوں میں موجود ہیں۔ انہوںنے ماہیے کے اصل وزن میں ماہیے کہے۔ ان کی ماہیا شاعری کسی مٹیار کی طرح اٹھلاتی ،ہنستی اور بل کھاتی ہوئی آتی دکھائی دیتی ہے۔ ان کے ماہیے گیتوں کی جوانی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ چند ماہیے دیکھیں:
بادل اور پروائی
دیکھ کے گوری کو
لینے لگے انگڑائی
خوشبو کی طرح مہکو
شاخ پہ اس دل کی
پنچھی کی طرح چہکو
پازیب کی چھن چھن سے
بوجھ لیا اس کو
ہمسایوں کے آنگن سے
مت دور نکل جانا
ممکن ہوتا ہے
موسم کا بدل جانا
پھولوںکی مہک اور کانٹوں کی کسک سے دکھ اور سکھ کے ملاپ کا جو منظر نامہ بنتا ہے ۔وہ سعید شباب کے ماہیوں میں بڑا خوبصورت دکھائی دیتا ہے:
ہنستے ہوئے رونے کا
موسم آیا ہے
دکھ درد بلونے کا
دکھ، درد کا میلہ ہے
من کی بستی کا
یہ رنگ نویلا ہے
آئے نہ نگاہوں میں
آنکھیںبچھائی تھیں
اس شوخ کی راہوں میں
کیا اپنی جوانی ہے
درد کا قصہ ہے
زخموں کی کہانی ہے
احساس کے گھاﺅ میں
جلتے رہتے ہیں
یادوں کے الاﺅ میں
اک زخم بھرا جب سے
مانگ رہا ہے دل
اک زخم نیا،رب سے
اور سعید شباب کے دو ایسے ماہیے دیکھیں جن میں دریائے چناب کے نشے کا سرور موجود ہے:
دشمن دل والوں کا
شہر تمہارا بھی
ہوا شہر سیالوںکا
اک یاد پرانی ہے
دل کے چناب میں پھر
کوئی طغیانی ہے
ماہیے میں جس گہرائی اور وسعت کا ذکر سعید شباب نے کیا ہے اس کی ایک ہلکی سی جھلک ان کے اپنے ماہیوں میں بھی دیکھ لیں:
ہم باہر رُلتے ہیں
حالانکہ دروازے
سب اندر کھلتے ہیں
دکھ خواب کے کھونے کا
پھول تھے چاندی کے
ہر پیڑ تھا سونے کا
اک بوند کی ہستی ہے
دل کی حقیقت کیا
بس خون کی مستی ہے
راس آگئی تنہائی
گھائل کر گئی جب
چہروں کی شناسائی
سعید شباب کے ماہیوں میں ان کا جولہجہ ابھرا ہے وہ پنجاب کے دریا اور چولستان کے صحرا، دونوں کے امتزاج کا نتیجہ ہے ۔ پانی اور ریت ، پیاس اور سراب ،شہری اور خانہ بدوشی، شور اور خاموشی، سکوت اور تحرک، ہجر اور وصال ، خوشی اور غم،غرض ایسی متضاد حالتوں کے ٹکراﺅ سے نہیں بلکہ ملاپ اور امتزاج سے سعید شباب کی ماہیا شاعری کا لہجہ بنتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ ان دونوں کلچرز سے نہ صرف پوری طرح آشنا ہیں بلکہ ان دونوں کلچرز کے اثرات ان کے اندر رچے بسے ہوئے ہیں۔وجہ کچھ بھی رہی ہو سعید شباب کے مخصوص لہجے نے اردو ماہیے کو اپنے ابتدائی مرحلے میں ہی ایک عمدہ اور خوبصورت ماہیا نگار عطا کر دیا ہے۔سعید شباب کے ماہیوں میں متضاد کیفیتوں کے امتزاج سے جو شاعری وجود میں آئی ہے وہ امتزاج ہونے کے باوجود دریائی سے زیادہ صحرائی ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ وہ پنجاب کا باسی ہونے کے باوجود چولستانی ہے۔ بہر حال اس کے مخصوص مزاج اور لہجے کے حامل یہ چند ماہیے دیکھیں:
ہنستا ہے نہ روتا ہے
دل کا محبت میں
یہ حال بھی ہوتا ہے
پہرہ تو بٹھانا ہے
دل کی تجوری میں
زخموں کا خزانہ ہے
ہنس ہنس کے رلاتی ہیں
یادیں ستم گر کی
رہ رہ کے ستاتی ہیں
کب اس نے پکارا تھا
دل کی تھی خوش فہمی
اور وہم ہمارا تھا
بس ایسا ہی موسم ہو
تپتا ہوا دل ہو
اور آنکھ میں شبنم ہو
مت اس کو صدا دینا
دیپک یادوں کے
اب خود ہی بجھا دینا
جب اونچی ہوں پروازیں
سنتے نہیں پنچھی
پھر پیڑوں کی آوازیں
ہنس کھیل کے جی لیں گے
اور دل کے آنسو
خاموشی سے پی لیں گے
سعید شباب کے جتنے ماہیے حوالے کے طور پر ابھی تک درج ہوئے ہیں ان میں سے دس ماہیوں میں دل اور ایک میں من کا لفظ آیا ہے۔ جن ماہیوں میں دل کا لفظ نہیں آیا ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی سب میں بھی”روداددل“ہی بیان ہوئی ہے۔میںنے اپنے ایک مضمون میں ماہیے کو کتاب دل قرار دیا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ ماہیا فکر سے زیادہ جذبے کو اہمیت دیتا ہے۔ سچے جذبے کتاب دل کی کہانیاں ہیں۔سعید شباب صاحب دل شاعر ہیں۔ انہوںنے فکر و خیال کو رد نہیں کیا لیکن عشق و خرد اور دل و دماغ کی کشمکش کو اپنے طور پر سمجھنے کے بعد دل کے حق میں ووٹ دیا ہے:
نفرت نہ محبت سے
روگ لگے سارے
اس سوچ کی وسعت سے
یہ الگ بات ہے کہ محبت کا روگ اور اس کی وسعت عقل و خرد سے کہیں زیادہ ہے۔ سعید شباب محبت کے روگ میں مبتلا دکھوں اور یادوں کے پھیلے ہوئے صحرا میں دھونی رمائے بیٹھے ہیں۔اس صحرا میں بڑکا کوئی درخت نہیں ہو سکتا لیکن محبت کے گیان کے لیے کسی بڑ کے درخت کی ایسی خاص ضرورت بھی نہیں ہوتی کیونکہ محبت کا روگ خود ہی بڑ کا درخت بن کر اپنے روگی کو گیان کانور عطا کردیتا ہے۔
بجھتے ہوئے تارے ہیں
دل کی اداسی سے
بے چین نظارے ہیں
جگنو ہے نہ تارا ہے
ہجر کی راتوں میں
بس ذکر تمہارا ہے
کوئی بستی نہ راس آئی
یاد کھنڈر ہی میں
خوش ہے ترا سودائی
کوئی سپنا نہیں تھا وہ
کیا بنتا میرا
خود اپنا نہیں تھا وہ
سعید شباب کے ماہیے اصلاًایک دکھی دل کی آواز ہیں۔ یہ دنیا والوں سے فریاد کی صورت میں نہیں بلکہ اپنی محبت کی مہک اور اس کے روگ کی کسک سے بے ساختہ ابھرنے والی آواز ہے جو خود شاعر کے لیے انوکھی سی لذت کا موجب بن رہی ہے۔ ماہیا نگاری کے اس درخشاں دور کی ابتدا میں سعید شباب اردو ماہیا کے ایک اہم شاعر کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔ ان کے ماہیوں کی خوشبو دیر تک رہے گی۔ ماہیے کی تاریخ میں ان کے خوبصورت ماہیے آنے والے ماہیا نگاروں کے لیے اگلی منزلوں کی طرف نشاندہی کرتے رہیں گے۔
٭٭٭٭