سورج نے اپنا جال بچھا دیا تھا، کائنات نے گرم سنہری لباس پہن لیا تھا۔ آسمان اور زمین کے درمیان پانی بہہ رہا تھا۔ اس کی روانی بڑی تیز تھی۔
’’تمہاری کہانی کا ہر لفظ اور ایک ایک حرف میری کہانی سے ملتا جلتا ہے۔ یہ مماثلت شاید اس لیے ہے کہ کرّہ کے درمیانی نقطہ میں سمتوں کے فرق سے قطع نظر، فاصلہ دائرے کے نقطۂ مرکز اور نصف قطر کے درمیان جیسا بالکل برابر ہوتا ہے۔ اور وہ نقطۂ مرکز ’’کلائمکس‘‘ ہے۔ ’’نقطۂ آخر‘‘ ہے۔۔ ۔ اور یہی حسنِ اتفاق سے ’’نقطۂ آغاز‘‘ بھی ہے۔
تم نے ابھی کہا نا ’’اسے میرے پسینہ سے پیار تھا۔۔ ۔ اسے میرے دماغ سے پیار تھا۔۔ ۔ اور میری روح سے پیار تھا۔۔ ۔ یعنی ابدی پیار۔۔ ۔ اسی لیے اس پیار کو بقا تھی۔۔ ۔ اور تم نے اس کے عیوض اس کو سر سے پیر تک چاٹا، کتنی مٹھاس تھی جسم کے ان کانٹوں میں جبکہ وہ اُگ آتے تھے میری قربت کے احساس۔۔ ۔۔‘‘
لیکن اب تم کہتے ہو کہ ’’میری زبان لہولہان ہو گئی ہے اور اس کا ذائقہ اس قدر نمکین ہو گیا ہے کہ شروع میں زہر لگا اور اب بڑا ہی سوندھا سوندھا لگتا ہے۔
جب تم نے انہیں پہلی بار نا قابلِ برداشت حالت میں دیکھا تھا تو وہ دونوں ایک دوسرے میں سمٹے ہوئے تھے۔ ایک دوسرے میں اس قدر پیوست تھے کہ درمیان میں بال برابر نکاس نہیں تھا کہ ہوا بھی گزر سکے۔ انہوں نے اس حدِ امتیاز کو پار کر لیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے عبوری دور میں بے حد اور بڑی بے چینی سے بے قرار تھے۔ شاید صرف اس مقام پر عورت کو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ اس کے بال ٹھوڑی پر اگ آئے ہیں اور کچھ ناک کے نیچے۔ اور کبھی کبھی بعض کہانیوں کا یہی نقطۂ آغاز بھی ہوتا ہے۔۔ ۔۔ لیکن میری کہانی کلائمکس کے بعد ختم ہوتی ہے۔ یا یوں سمجھ لو ہر کہانی لا متناہی سلسلہ ہے نہ ختم ہونے کا۔ بس کہے جاؤ۔ ہاں جبکہ تم نے یہ پوچھا کہ ’’کون تھا وہ؟‘‘ تو اس نے کیا کہا؟ اس نے کہا ’’میرا دوست تھا وہ۔ بالکل تمہاری طرح۔ تمہارا جیسا ہی پسینہ ہے۔۔ ۔ تمہاری جیسی روح ہے۔۔ ۔ اور جسم بھی تمہارا ہی جیسا ہے۔۔ ۔ دیکھو تمہیں آگ اگلنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تم بھی ڈھونڈ لو۔۔ ۔ آخر کب تک۔۔ ۔ ایک ہی راستہ پر مسلسل چلا جائے ہم زندہ ہیں۔۔ ۔ متحرک ہیں‘‘
شروع شروع میں یہ الفاظ گرم لوہے کی سوئیاں بن کر کانوں کے پردے پھاڑ رہے تھے۔۔ ۔ پھر لگا جیسے ان سوئیوں نے پردوں کو رفو کر دیا ہو۔
کہانی کی پہلی کڑی:
دیکھو تمہاری کہانی وہ ہے جو کلائمکس کے بعد شروع ہوتی ہے۔ اور میری کہانی۔۔ ۔۔ میری کہانی جواب کہانی ہے۔ پہلے حقیقت تھی اور سچ کو سچ کہنے کے لیے دلیل کے طور پر اس کی کہانی سناؤں گا۔۔ ۔۔
ہاں تو قصہ یوں اس نے بیان کیا تھا کہ ’’جب خدا کو اپنا جلوہ دیکھنا مقصود ہوا تو اس نے آسمان بنایا، زمین بنائی، سورج، چاند اور ستارے چمکائے زمین کو گلزار کیا۔ آسمان کے اس طرف ایک خوبصورت سی جنت بنائی جس میں دودھ اور شہد کی نہریں جاری کیں۔۔ ۔۔ جنت میں میوے اور پھلوں کے درختوں کو اگایا۔۔ ۔ اور ساتھ ہی ساتھ ایک دوزخ بنائی جس میں آگ ہی آگ ہے، کھانے کے لیے آگ کے چنے، پہننے کے لیے آگ کے کپڑے اور آگ ہی کی چپلیں۔۔ ۔ اس جنت میں حور و غلمان ہیں۔ مرنے کے بعد نیک مردوں کو حوریں اور نیک عورتوں کو غلمان ملیں گے۔۔ ۔ باوجود اس کے، افزائش نسل کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔۔ ۔ ہاں تو اس میں اس کی تخلیق ہوئی۔ فرشتوں نے اس کی عظمت کو سجدے کئے۔ فضائیں بڑی ہی پُر لطف اور خوبصورت تھیں۔ لیکن اس حسین و جمیل منظر میں اس کی طبیعت نہ لگی وہ فکرمند رہنے لگا۔۔ ۔۔ ۔ وہ سوچ میں محو ایک خوبصورت درخت کے نیچے بیٹھ گیا کہ شاید سکون ملے اس کو دیکھ کر خالق کائنات بھی پریشان ہو گیا۔ آخر اس کی بائیں پسلی سے ایک عورت پیدا کی۔۔ ۔ وہ پسلی ٹیڑھی تھی۔۔ ۔ اس طرح تنہائی کا علاج تو ہو گیا لیکن اس نے عورت کو چھونے کی غلطی کی۔ پھر کیا تھا؟ زمیں ہل گئی، آسمان کانپ گیا۔ خالق کا جلال جوش میں آ گیا۔۔ ۔ اور ان کو زمیں پر پھینک دیا گیا۔۔ ۔ اور وہ بیچارے ان حسین فضاؤں سے تا قیامت محروم کر دئے گئے۔ کون جانتا ہے کہ یہ سزا ہے یا ’’حکمت ربّانی‘‘ ہے۔ ’’چاہتے ہیں سو آپ کریں ہم کو عبث بدنام کیا‘‘ عورت کو سزا ملی کہ وہ زندگی بھر اولاد کا بوجھ ڈھوئے گی۔۔ ۔ اور مرد ان کو اپنا پسینہ پلائے گا اور خون کھلائے گا۔ پہلے جس جُرم کی پاداش میں انہیں زمین پر پھینکا گیا اب وہی جرم ان کے اوپر حلال کر دیا گیا اور اس طرح عورت اور مرد ایک دوسرے میں ضرب ہوئے۔۔ ۔ پھر یوں ہوا ہابیل اور قابیل کے ساتھ ایک عورت بھی پیدا ہوئی۔۔ ۔ بس پھر وہی روایت دہرائی گئی پہلے اس نے اس کو بہکایا۔ بعد میں ان کو لڑا دیا۔ ایک بھائی نے دوسرے کو قتل کر دیا۔ اور زمین میں دبا دیا۔ تاکہ وہی مٹی جو اس کے تخلیق کے وقت استعمال ہوئی تھی اسی مٹی میں مل کر ایک اکائی بن جائے۔۔ ۔ بہر حال پانی بہتا رہا اور اس کی ہر لہر میں سینکڑوں کہانیاں پوشیدہ ہوتی رہی۔ جو وہ روانی کے ساتھ گنگناتا ہے۔ کبھی دھاڑیں مار مار کر ڈکراتا ہے‘‘ ۔ اب تم کو میرے کہانی سن کر ذرا بھی شک نہ ہو گا۔ چونکہ میں تم کو وہ باتیں بتاؤں گا جو بتانے کی نہیں ہوں گی اور وہ باتیں میں کہوں گا جو کہنے کی ہیں۔
کہانی کی درمیانی کڑی:
ہاں ہو یوں۔۔
’’تم بھی ایک مجرم ہو، اس لیے کہ تم نے اس اشتہار کو رک کر دیکھا تھا‘‘ یہ بات قاضی نے کہی
’’لیکن رُک کر دیکھنے سے، میں کیا مجرم ثابت ہو گیا‘‘؟
’’تم اس شہر کے پہلے آدمی ہو، جس نے تصویر کو رُک کر دیکھا۔ لگتا ہے تمہارا اس تصویر سے کوئی سلسلہ ضرور ہے‘‘
’’حضور، میں آپ کے تجربہ اور ذہانت کی داد دیتا ہوں۔ اور چونکہ میں جھوٹ نہیں بولتا، اس لیے میں کہے دیتا ہوں کہ میں اس عورت کو جانتا ہوں کیونکہ میرا اس سے تعلق تھا۔ اسی لیے اس کو میں نے قتل کیا ہے۔ لیکن قتل کرتے وقت میرے ذہن میں ایک نیک ارادہ تھا۔ نیکی کا پہلا ثبوت یہ ہے کہ جس حالت میں مقتولہ میرے ساتھ فرار ہوئی تھی، اسی حالت میں مری بھی ہے۔ میں اس عورت کا قاتل ضرور ہوں لیکن اس کی عصمت کا قاتل نہیں ہوں۔ اب میں یہ نہیں سمجھ پا رہا ہوں کہ اس میں بڑا قصور کون سا ہے؟ دوسرے یہ جو مال و اسباب لے کر میرے ساتھ فرار ہوئی تھی اس کی بھی میں نے حفاظت کی ہے‘‘
’’یہ بات سچ ہے۔ یہ تصویر بھی بول رہی ہے‘‘ قاضی نے کہا
تھوڑی دیر فضا میں سکوت طاری رہا۔ کائنات کی نبض سی رک گئی تھی
’’ایک بات بتاؤ کہ آخر تم۔۔ ۔‘‘ خاموشی کی کرچیاں ہو گئیں
گفتگو کا سلسلہ منقطع کرتے ہوئے ’’ہاں، سرکار وہی بات بتاؤں گا۔ اصل واقعہ یوں ہے۔ ایک دن میں اپنے گھوڑے پر سوار تھا۔ سلطان کو پیغام رسانی کر کے محل سے واپس ہو رہا تھا۔ بلند دروازہ عبور کر کے دائیں جانب مڑا، ابھی محل کی سڑک کو پار بھی نہیں کیا تھا کہ ایک کاغذ کا پرزہ چھت سے گرا۔
’’دیکھئے وہ یہ ہے‘‘ قاضی نے ہاتھ بڑھایا۔
خوبرو نوجوان سلام حسرت قبول ہو!
پہلی ہی نظر میں دل جیسی قیمتی شے ہار گئی۔ تمہارا یہ چوڑا چکلہ سینہ، مضبوط باہیں، لمبی لمبی ٹانگیں، گھونگریالے بال۔ اس شدت سے پسند آئیں کہ میں نے تمہیں اپنا شریک حیات منتخب کر لیا۔ تم بعد از نصف شب محل کی پشت پر ملنا۔ میں تمہارے ساتھ چلوں گی۔۔ ۔ والسلام۔
قاضی اس تحریر کو پڑھ رہا تھا۔۔ ۔ میں سوچ رہا تھا کیا کرسی کے لیے کوئی قانون نہیں ہوتا؟ دوسروں کے نجی خطوط پڑھنا اگر قانونی جرم نہیں تو اخلاقی جرم ضرور ہے! لیکن جرم۔۔ ۔ پھر۔۔ ۔ جرم ہے۔۔ ۔ میں نے بھی ایک سنگین جرم کیا ہے۔۔ ۔ ایک نامحرم کو لے کر شہر سے دور چل دیا۔ رات کے آخری حصہ میں ہم لوگ ایک جنگل سے گزر رہے تھے۔ عورت کے چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں ہو رہے تھے۔ گھوڑا قریب ہی باندھ دیا۔ زین زمین پر بچھائی اور عورت کو سلادیا۔۔ ۔ نیند کی حالت میں چہرے سے نقاب اُلٹ گیا۔۔ ۔ مجھے لگا جیسے بجلی سی کوند گئی۔ ایک لمحہ کے لیے میری آنکھیں چندھیا گئیں اور محسوس ہوا جیسے بجلی سی میرے جسم میں سرایت کر گئی ہو۔ میں نے جلتی مشعل اپنی ایک انگلی رکھ دی، بجلی کوندی، دوسری انگلی رکھ دی۔۔ ۔۔ یہ عمل چند لمحے جاری رہا۔۔ ۔ جب تھوڑا سا سکون ہوا۔۔ ۔ ایک درخت کے قریب، عورت کی جانب سے پشت کر کے بیٹھ گیا، سینکڑوں پرندے میرے ذہن کے آسمان پر پھڑپھڑانے لگے اچانک ایک پرندہ میرے ذہن کے آسمان سے نکل کر میرے کانوں کے قریب اڑنے لگا ’’۔۔ ۔ اس عورت سے میں شادی کروں گا۔۔ ۔ بچے ہوں گے۔۔ ۔۔ ممکن ہے لڑکی ہو۔۔ ۔ وہ بھی کسی خوبرو نوجوان کیساتھ اسی طرح رات کی سیاہی میں۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔ نہیں یہ سلسلہ آگے جاری نہیں رہے گا‘‘
اچانک دوسرا پرندہ کانوں پر پھڑپھڑانے لگا ’’جو عورت اپنے باپ کے دامن پر داغ لگا سکتی ہے۔۔ ۔ کس سے خون کا رشتہ ہے۔۔ ۔ اور میں جس سے ریشمین دھاگے سے بندھا ہوا رشتہ ہو گا‘‘
اچانک تمام پرندے میرے ذہن سے نکل کر میرے چاروں طرف اڑنے لگے۔۔ ۔ ان کی خوفناک آوازوں نے ماحول کو بھیانک بنا دیا تھا۔۔ ۔ رات کی سیاہی گہری ہو رہی تھی آسمان پر لگے ستارے اسے دامن پر لگے داغ محسوس ہوئے۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔ نہیں۔
میں نے تلوار کھینچ لی اور اس عورت کو کتنے ہی حصّوں میں قتل کر دیا۔۔ ۔ حضور میرا قصور صرف اتنا ہے کہ میں نے نسل در نسل چلنے والا سلسلہ۔۔ ۔
’’ہاں نوجوان تم نے بالکل صحیح کیا، در اصل اس کی ماں بھی میرے ساتھ فرار ہوئی تھی۔۔ ۔ میں نے ایک جنگ میں اس کے باپ کو شکست دی تھی۔ وہ میری فتح پر فریفتہ ہو گئی تھی۔۔ ۔ (کچھ دیر خاموشی کے بعد)۔۔ ۔ تم نے اچھا کیا۔۔ ۔‘‘
مقتولہ کے باپ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ جو کہ سلطان کی فوج کا سپہ سالار تھا۔ قاضی نے فیصلہ دیا ’’خون کے بدلے خون کی سزا معاف کی جاتی ہے۔‘‘
پانی معمول کے مطابق بہتا رہا۔ اس میں بڑی روانی تھی۔ تیز رفتاری تھی۔ سرخی تھی۔ جو نہ رکنے کا نام لیتا ہے۔۔ ۔ نہ ہی ٹھہرنے کا۔۔ اور نہ ہی پیچھے لوٹنے کا۔۔ ۔۔ ۔۔
٭٭٭
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...