صادق باجوہ سے میرا پہلا تعارف چند سال قبل اس وقت ہوا جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’میزانِ شناسائی‘‘ بذریعہ ڈاک موصول ہوا۔ کتاب کو الٹ پلٹ کر کئی بار دیکھا۔ کتاب کے اندر یا باہر کچھ بھی تحریر نہ تھا۔ خیال گذرا کہ شاید کتاب غلطی سے بھیج دی گئی ہے۔ سوچتے رہے کہ یہ اچھا میزانِ شناسائی ہے کہ صاحب ِتحریر سے تعارف ہی نہیں اور کتاب مطالعے کے لیے حاضر ہے۔ اسے بھی اپنی خوش قسمتی پر محمول کیا کہ ایسا کم کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ ہمارے تخیل کے سرپٹ بھاگتے ہوئے گھوڑے کو اس وقت لگام لگی جب جرمنی سے حیدرقریشی کے فون نے اس مخمصے کو حل کیا کہ کتاب ان کی جانب سے بھیجی گئی تھی۔ شکریے کے ساتھ ہی ’’میزانِ شناسائی‘‘ سے شناسائی پیدا کرنے کے لیے کتاب کا مطالعہ شروع کردیا۔ اس شعری مجموعے میں باقرزیدی، سلطان جمیل نسیم اور اکرم ثاقب کے تبصروں اور جائزوں کے ساتھ ساتھ صاحب کتاب کی مختصر تحریر بعنوان حرف اول بھی شامل تھی۔ میرے خیال میں یہ حرف اول ہی نہیں بلکہ حرف آخر بھی ہے کیونکہ صادق باجوہ نے جس انداز میں شاعر اور شاعری پر اظہار خیال کیا کہ ’’ایک اچھے شاعر کی زندگی نشوونما ، رہن سہن، عادات و اطوار، مشاہدات و تجربات کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ شعرگوئی کا شعور و ادراک زندگی ، ماحول، تہذیب و تمدن اور روزمرہ ہونے والے حالات و واقعات سے وجودپذیر ہوتا ہے۔ ایک شاعر انتہائی سنجیدگی اور حساس دل کی گہرائی سے روزمرہ پیش آمدہ واقعات و مشاہدات اپنے سینے میں جذب و ثبت کرنے کے عمل تسلسل سے دوچار رہتا ہے۔‘‘
میں سمجھتی ہوں کہ تخلیقی عمل کی اساس (یاوہ نثر ہو یا شاعری) انہی عناصر کی مرہون منت ہے لیکن اگر اس میں ایک بہت ہی دردمند دل بھی شامل ہو پائے جو غم جاناں، غم دوراں اور غم عقبیٰکو اکٹھا کرکے غموں کو کشید کرنے کا ہنر جانتا ہو تو میزان شناسائی اور کاسۂ نمناک جیسی دردمند تحریریں وجود میں آتی ہیں۔ جس کے لیے صادق باجوہ خود لکھتے ہیں کہ ؎
بانٹیں دکھ، پائیں سکوں امن و اماں ہو ہر سو
عرصۂ دہر ہو میزانِ شناسائی کی
یا پھر
اشک کتنی دیر چنتے ہی رہے
آنکھ کے اس کاسۂ نمناک سے
ان جیسے بے شمار اشعار صادق باجوہ کے دونوں مجموعۂ کلام میں آپ کو جا بجا ملیں گے جس میں ان کا حساس پن، ازلی اور ابدی، غمگساری، سوزوگداز اور مائل بہ شگفتگی انسانی قدروں کا نوحہ نظر آتا ہے۔
یوں لگتا ہے کہ شاعر نے اپنا دل نکال کر کاغذ پر رکھ دینے کی سعی کی ہے جو پڑھنے والے کا دامن ہر قدم پر کھینچ کر اسے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ مثلاً ؎
اپنے ہاتھوں میں ہی صادقؔ موت کا سامان ہے
آج کا انسان پھر گھاٹے میں ہاتف نے کہا
انسانیت کے نام سے انساں کا خون ہے
پھیلا ہے شرق و غرب میں اک انتشار سا
میزان شناسائی میں اگر غزلیں، رباعیات و قطعات ہیں تو کاسۂ نمناک میں غزلوںکے ساتھ ساتھ نظمیں اور پنجابی کلام بھی شامل تھا جو صادق باجوہ کے مجموعہ کی وسعت نظر اور مائل بہ تنوع شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ ایک شعر دیکھئے: ؎
ہے نظر کی بھی رسائی دور تک
ایک دنیا آنکھ کے اس تِل میں ہے
یہ شعر پڑھتے ہوئے نجانے کیوں مجھے ہندی سنیما کی ایوارڈ یافتہ فلم سلم ڈاگ ملینئریاد آگئی ہے۔ جہاں دوربین نظریں ہندوستان کی نام نہاد ترقی اور ان کی خوشحالی کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑتی ہوئی نظر آتی ہیں اور صادق باجوہ کی نظروں کا ریڈار انسان اور انسانی زندگی کے المیوں کے گویا پاتال سے کھینچ کھینچ کر باہر نکالتا ہے اور وہ کہہ اٹھتے ہیں: ؎
جانے کب سے دیکھ رہا ہوں آتے جاتے راہی کو
رستہ نہیں پہچانے شاید انسانوں کی ذاتوں کو
اس دردمندی اور غمگساری کے باوجود صادق باجوہ نے قنوطیت کا رستہ اختیار نہیں کیا بلکہ انسانی نفسیات اور زندگی کے دکھوں اور انسانی بے حسی کا نوحہ لکھنے کے ساتھ ساتھ ان سے باہر نکلنے کی تدابیر بھی بتائی ہیں۔ گویا ان کا کلام رجائیت کا بھرپور انداز لیے ہوئے ہے جو پڑھنے والے کو بے حوصلہ نہیں کرتا۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ ؎
انہیں ڈرائیں گے کیا موت سے حوادثِ غم
جو چل رہا ہے صلیبوں کو خود اٹھائے ہوئے
بانٹ کر دوسروں کے دکھ صادقؔ
ہم نے جینے کا راز پایا ہے
اسی امید پر جیتے ہیں صادقؔ
کبھی تو قدر انسانی بھی ہوگی
کربلا آج بھی کہتا ہے یہ ہم سے صادق ؔ
بے خطر بڑھتے چلو ، ظلم مٹانے کے لیے
آرزو کوئی نہ خواہش ہے کوئی
جستجو صادق ؔ کو ہے انسان کی
صادق باجوہ انسان تو انسان خوابوں کو بھی دربدر ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ شعر دیکھئے: ؎
خواب جو دیکھے ہیں صادقؔ ان کی کچھ تعبیر ہے
آرزو کیونکر گریزاں دربدر ہو جائے گی
میرے خیال میں صادق باجوہ غزل کے پہلے مصرعے سے لیکر مقطع تک پہنچتے پہنچتے گویا صدیوں کی مسافت طے کرلیتے ہیں مگر یہ آبلہ پائی انہیں اپنی سوچوں کے محور سے ہٹنے نہیں دیتی اور کسی ابہام کا شکار ہوئے بغیر وہ اپنے قطعات میں کھل کر سامنے آتے ہیں اور انسانی مصائب کے حل کی نہایت سچی تدبیر پیش کرتے ہیں کہ ؎
دُھل پائیں ایک آن میں صادقؔ کثافتیں
پچھلے پہر کے آنسوئوں سے گر وضو کریں
میں صادق باجوہ کو ان کی دونوں کامیاب شعری تخلیقات پر دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں ۔ اس امید کے ساتھ کہ وہ انسانوں سے اپنی گفتگو کا سلسلہ جاری رکھیں گے کیونکہ ہم سب ان کی بات بہت غور سے سن رہے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...