(Last Updated On: )
وقت تیزی سے گزرنے لگا ۔۔۔ گھر میں دونوں سے بہت سی خوشیان اور رونقین ہونے لگیں انشاء اور ایمان کی شرارتوں سے ۔۔۔ باباجان اب بھی عیان کو کہتے رہتے شادی کا پر وہ نہیں مانتا ۔۔۔اب وہ اپنا بزنس اسٹارٹ کر چکا تھا عمر اور وہ دونوں پارٹنر تھے ۔۔
اب رخصتی کی باتیں ہونے لگیں تھیں تاریخ بھی طے تھی ۔ انشاء کی ڈگری مکمل ہوگئی تھی اور ایمان کی ہاؤس جاب چل رہی تھی ۔۔۔ اب وہ ڈاکٹر ہونے کے فرائض نباہ رہا تھا پر گھر میں بلکل بچہ بنا رہتا ۔۔
حیدرشاہ چاہتے تھے اب عیان کی بات بھی کہیں پکی ہوجاۓ اس کی عمر بڑھ رہی تھی ۔۔۔ پر عیان بلکل لاپرواہ تھا خود سے ۔۔۔
اب شادی میں کچھ دن رہ گۓ تھے ۔۔۔ عیان اپنے خیال میں جارہا تھا ۔ اچانک سامان سے بھرا تھال جو انشاء لارہی تھی اس سمیت عیان سے ٹکرائی ۔۔۔ سب سامان بکھر گۓ تھے زمین پر ۔۔۔
“دیکھ کر نہیں چل سکتی انکھیں ہیں یا بٹن ۔۔۔ عیان نے ازلی غصہ بھرے انداز میں کہا پر اج انشاء ہمیشہ والے انداز میں گھبرائی بلکل نہیں اور ارام سے کہا ۔۔
“سوری عیان بھائی ۔۔۔ غلطی سے ہوگیا ۔۔۔
“دیکھ کے چلا کرو سارا وقت برباد کردیا ۔۔ عیان کو اب بھی غصہ تھا اس لیۓ اس کا لہجہ تیز تھا پر انشاء کے تاثرات میں ردی برابر فرق نہ ایا وہ پرسکوں ہی تھی ۔۔
“اب دو منٹ میں کونسی دنیا بھاگنی ہے اور اتنا غصہ کس لیۓ , چلیۓ اب میری اٹھانے میں مدد کروائیں , مجھے بھی بہت سے کام ہیں , میرا بھی ٹائم ضایع ہوا ہے ۔۔۔
وہ حیرت سے دیکھنے لگا اسے , اس کے اندر کی تبدیلی پر حیران تھا جسے وہ اتنے مہینوں میں محسوس نہ کرسکا ۔۔۔ یہ تو وہ انشاء رہی نہ تھی جو عیان کو غصے میں دیکھ کر سانس روک لیتی تھی ۔۔۔ یہ تو کوئی اور انشاء لگی اسے ۔۔۔
پھر اس صدی کا حیرت انگیز واقعہ ہوا عیان نے جھک کر اسے سامان اٹھوانے میں ہیلپ کی ۔۔۔ انشاء جو کہنے کو اسے اس طرح کہے تو گئی پر اب تھوڑا گھبرائی تھی پر اس کا بات کا حوصلہ ایمان کا ہی دیا ہوا تھا ۔۔۔ جو اکثر اسے سمجھاتا تھا ۔۔۔
“اف ۔۔ ہاتھی میرے ساتھی , تم بھائی کو غلط سمجھتی ہو وہ جتنی میری پرواہ کرتے ہیں اتنی تمہاری بھی , بس انداز ان کا الگ ہے تم جتنا گھبراتی ہو اتنا تمہیں ڈرا کے رکھتے ہیں جس دن تم نڈر ہوکر بات کروگی تو دیکھنا تمہاری سنیں گے بھی اور مانیں گے بھی ۔۔۔
“اوہ بھول ہے تمہاری ۔۔۔ تمہارا جلاد ہلاکو بھائی , سب کو ڈرا کے رکھتا ہے , دیکھ لو بابا کی مانتے کم اور منواتے زیادہ ہیں , ان کا رویہ مجھ سے بدلے ناممکن ہے ۔۔۔
“بھائی بہت اچھے , بس تم یہ ڈرنا چھوڑو , پھر دیکھنا , وہ ڈری سہمی مخلوق کو سخت ناپسند کرتے ہیں ۔۔۔ اکثر دونوں کے بیچ عیان بھائی ڈسکس ہوتا تھا ۔۔۔ کیونہ ایمان کی یہی کوشش ہوتی گھر کا ماحول بنا رہے اور انشاء کی غلط فہمی دور ہوجاۓ ۔۔۔
عیان کی ہیلپ کے بعد وہ تھال تھامتی” تھینکس عیان بھائی , کہے کر جلدی بھاگی , کہیں عیان کا مخصوص انداز لوٹ نہ آۓ ۔۔۔ ڈر تو تھا ہی اندر اس کے ۔۔۔
عیان اس کے انداز پر حیران ہوتا ہوا مڑا ۔۔۔ سامنے زینب بی کو دیکھا جو مسکرا رہی تھیں ۔۔۔
“دیکھا زینب بی اپ نے انشاء کو کس طرح مجھ سے بات کی اس نے ۔۔۔ یہ انداز پہلی دفعہ دیکھا ہے میں نے اس کا ۔۔ ورنہ مجھے تو اس کا وہ ڈرا سہما انداز ہی یاد پڑتا ہے یہ کایا کیسے پلٹی ۔۔۔
وہ ہنسی اس کے حیرت بھرے تبصرے پر اور کہا ۔۔۔
“عیان بیٹے , یہ شوہر کا دیا اعتماد اور پیار ہے ۔۔۔ اب وہ سب پر اپنا حق سمجھتی اور تم سے ڈرتی بھی نہیں ۔۔۔ سارا کمال ایمان کا ہے ۔۔۔
“کیا واقعی , شوہر کا دیا اعتماد اتنی معنی رکھتا ہے ۔۔۔ عیان نے پوچھا ۔۔۔ اس کے امداز میں سادگی تھی ۔۔۔
“عیان تم تو بلکل ہی بےخبر رہتے ہو ہر بات سے , بلکل ایسا ہی ہوتا ہے , شوہر کا اعتماد بیوی کو مضبوط کرتا ہے , جس کی مثال تم نے دیکھی انشاء کی صورت ۔۔۔۔
“ائی ایم امیزڈ ۔۔۔۔ وہ بڑ بڑاتا ہوا چلا گیا اور زینب بی اسے جاتا دیکھنے لگی ۔۔۔
@@@@@@
جتنا شاندار نکاح کا فنکشن تھا اس سے بڑھ کر شادی کا فنکشن تھا ۔۔۔ بہت لوگوں کو مدعو کیا گیا ۔۔ ہر چہرے پر مسکراہٹ اور خوشی تھی ۔۔۔
گاؤں سے بھی رشتیدار آۓ تھے ۔۔۔ شاندار انتظام ان کا اسٹیٹس سنبل تھا ۔۔۔ اج بابا جان کے چہرے پر خوشی کا نور تھا ۔۔۔
کئی مہمانوں نے حیدرشاہ سے عیان کی شادی کا پوچھا ۔۔ جسے وہ عیان کی بزنس کے لگن اور مصروفیات پر ڈال کر ٹال دیتے ۔۔۔
“دیکھ لو میرا بھائی کسی پرنس سے کم نہیں لگ رہا , اج میں بہت خوش ہوں ۔۔۔ عیان نے قہقہ لگاتے ہوۓ عمر سے کہا ۔۔۔
“ہان وہ تو ہے پر اج کی شادی میں میرے یار کے بھی چرچے کم نہیں ۔۔۔ عمر نے اس کے لکس کو دیکھ کر کہا ۔۔۔ جو بلیک کمپلیٹ میں بھرپور مردانہ وجاہت لیۓ ہوۓ تھا ۔۔۔
“بات ایمان کی کررہا ہوں اور تو مجھے کیوں بیچ میں لارہا ہے ۔۔۔
“کیسے نہ لاؤں یار , اب اتنی لڑکیوں کا کرش ہے تو کسی ایک سے منسوب ہوجا تاکہ یہ مسئلا بھی حل ہوجاۓ , سب لڑکیوں کی امید ٹوٹ جاۓ کم سے کم , بیچارے حیدر انکل کو دیکھ لو ۔۔۔۔ عمر نے افسوس کی بھرپور ایکٹنگ کرتے ہوۓ کہا جس پر عیان نے کہا ۔۔۔
“اب تمہارے حیدر انکل کا اس معاملے میؔ کیا ذکر بھلا ۔۔۔
عمر نے کہا ۔۔۔
“جواب تو ان کو دینا پڑ رہا سب کو , اخر بڑے بیٹے کی جگہ چھوٹے کی کیوں کروارہے ہیں ۔۔۔ صفائیاں تو وہی دے رہے ہیں سب کو ۔۔۔ تو مزے سے چھوٹے بھائی کی شادی انجواۓ کررہا ہے ۔۔۔۔
“یہ تو ہے ۔۔۔ بس سیٹ ہوجاۓ میرا بزنس شادی بھی کرہی لوں گا ۔۔۔
اسی وقت کسی کے بلانے پر وہ دونوں اسٹیج کی طرف بڑھے۔۔۔
فوٹوگرافی کا دور شروع ہوگیا ۔۔۔ ایمان اور انشاء ایک دوسرے کو مکمل کررہے تھے ۔۔۔
@@@@@@
وہ کمرے میں ایا کئی رسموں کے بعد , کمرہ خوبصورتی سے سجا تھا ۔۔۔ گولڈن اور ریڈ کامبینیشن شرارے میں ملبوس انشاء حسین دلہن لگ رہی تھی ۔۔۔ ایمان نے اسے بھرپور نظر سے دیکھا ۔۔۔ اس نے ہلکہ سا گھونگھٹ لیا تھا جسے لمحے کی دیر کے بغیر اسے الٹ دیا ۔۔۔ اس کا چاند سا حسین چہرہ اسے مبہوت کرگیا ۔۔۔ ہاتھوں میں کنگن پہناۓ اور اس کے ہاتھ تھام کر کہا ۔۔۔
“اج کی رات , مجھ سے وعدہ کرو تاعمر ہنستی مسکراتی رہوگی خوش رہوگی چاہے میں رہوں نہ رہوں, اداس نہ دیکھوں تمہیں ۔۔۔
وہ اس کا ہاتھ تھامے کہے رہا تھا پر اچانک اس کے ہونٹ پر ہاتھ رکھ لیا انشاء نے۔۔۔
“ایمان کے بچے ایسے نہ کہنا پھر کبھی , میری ساری خوشی تم سے ہے صرف تم سے ۔۔۔۔ آئی سمجھ ۔۔۔
دلہن بنی ساری شرم بالاطاق رکھ کے بولی اور غصے سے اسے گھور رہی تھی ۔۔۔۔
“میری جان , فکر مت کرو , اج کی رات ہی میری کوشش ہوگی جلد ایمان کے بچے اس دنیا میں ائیں اور اس گھر کی رونقین بڑھائیں ۔۔۔ کیوں ہاتھی میرے ساتھی دوگی نہ میرا بھرپور ساتھ ۔۔۔۔
وہ اسے نثار ہوتی نظروں سے دیکھنے لگا اور شوخ لہجے میں کہا تھا ۔۔۔ اس کے ہاتھ پر اپنا لمس چھوڑا ۔ وہ شرما گئی اسے ہلکی سی بازو پر چمٹ لگائی انشاء نے اور کہا ۔۔۔
“ایمان تم بھی نہ ۔۔۔
“دیکھ لینا جلد ہی ایسا ہوگا ۔۔۔ ورنہ مت ماننا اس ڈاکٹر کو ۔ ۔ ایمان نے ہنستے ہوۓ کہا ۔۔۔
اج کی رات دونوں کی زندگی کی خوبصورت رات تھی ۔۔۔ جسے ایک دوسرے میں گم ہو کے گزاری دونوں نے ۔۔۔
@@@@@@@
شادی کے بعد دونوں کو ہنی مون پر بھیجا حیدر صاحب نے ۔۔ پندرہ دن گھوم پھر کے واپس اگۓ پر دونوں کا محبت بھعا انداز سب کو مسکرانے پر مجبور کرتا ۔۔۔ ایمان کے انے کا ٹائم ہوتا ہسپتال سے وہ دروازے پر نظر جماۓ سج سنور کے اس کا روز انتظار کرتی ۔۔۔
شام کی چاۓ حیدر صاحب اور عیان پی رہے تھے , اسے دودفعہ کہے چکے تھے پر انشاء ہر بار انکار کردیتی ۔۔۔
“بیٹا دیر ہوگئی ہے اسے , تم بیٹھ جاؤ چاۓ پی لو ۔۔۔ اب کے زینب بی نے کہا ۔۔۔
“نہیں زینب بی , ایمان اجاۓ پھر اس کے ساتھ چاۓ لوں گی ۔۔۔۔ اس نے کہا تھا اجاۓ گا ۔۔۔ اس کی نظرین ہنوز دروازے پر جمی تھی ۔۔۔۔
اس کے معصوم انداز پر سب مسکرا اٹھے ۔۔۔ عیان دلچسپی سے دیکھ رہا تھا اس کی بےچینی , ایمان اور انشاء کے انداز اسے مسکرانے پر مجبور کردیتے ۔۔۔
دروازے کی گھنٹی بجی پھر ملازم نے دروازہ کھولا اور عمر اور نازیہ کو دیکھ کے وہ مایوس ہوئی ۔۔۔ عیان مسکرایا اس کے انداز پر اور اپنے دوست کے گلے لگا اور نازیہ بھابھی کو سلام کیا ۔۔۔
“بچے کہان ہیں ۔۔۔ حیدر صاحب نے پوچھا ۔۔۔
“اپنے نانو کے گھر ہیں انکل ۔۔۔ ان سے مل کر عمر نے کہا ۔۔۔
انشاء بھی ملی نازیہ سے ۔۔۔
“کیا بات ہے ہمیں دیکھ کے اتنی مایوسی انشاء کے چہرے پر ۔۔ نازیہ بھابھی نے کہا ۔۔۔
“یہان ایمان کا انتظار ہورہا ہے , اب رونق ایمان کے انے پر ہوگی ۔۔۔۔ عیان نے ہنستے ہوۓ کہا ۔۔۔
“ارے واقعی , یہ بات ہے کیا ۔۔۔
“دیکھ لیجۓ گا ۔۔۔ پھر اس کے چہرے پر ٹیوب لائیٹ جلتی بھی دیکھ لجیۓ گا ۔۔۔ عیان نے کہا اور انشاء شرمائی
“اب ایسی بھی بات نہیں ۔۔ انشاء نے کہا ۔۔۔
عمر اور نازیہ گھر کے فرد ہی طرح تھے اس لیۓ لاؤنج میں بیٹھ گۓ صوفوں پر ۔۔۔ سب باتوں میں مصروف ہوۓ ۔۔۔
کچھ دیر میں ایمان داخل ہوا اور انشاء ایک جست میں دروازے کی طرف لپکی بغیر کسی کی پرواہ کے۔۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کے مسکراۓ ۔۔۔۔ اس کے ہاتھ سے ایپرن انشاء نے لیا ۔۔۔
“سوری جان , کنسلٹینٹ راؤنڈ نے لیٹ کردی ۔۔۔ ایمان نے ہلکی اواز میں کہا ۔۔۔
“چلین چاۓ پیتے ہیں اپ کا ہی انتظار تھا مجھے ۔۔۔ انشاء نے کہا ۔۔۔
دونوں کی نظرین ایک دوسرے میں گم سب سے بےخبر سے لگے ۔۔۔
“سوری عمر بھائی ۔۔۔ میری نظر نہیں پڑی ۔۔۔ ایمان نے ایک نظر لاؤنج میں دیکھا اور ان پر نظر پڑتے معذرت بھرے انداز میں کہا ۔۔۔
“کوئی بات نہیں , سنا تھا اج دیکھ لی تم دونوں کی دیوانگی ۔۔۔ پکے لیلا مجنوں ہو ۔۔ عمر نے کہا ۔۔۔ عمر کے انداز پر سب ہنسے , نازیہ کو عیان کی بات بھی سچ لگی انشاء کے چہرے پر چمک سی اگئی تھی ایمان کو دیکھ کر ۔۔۔
“ویسے انکل اپ سچ بتائیں , یا عیان اپ کا بیٹا نہیں یا پھر ایمان , کیونکہ اتنا بڑا نمایان فرق دونوں بھائیوں میں , ایک اتنا سڑا مذاج جسے اس عمر تک کسی لڑکی نے اتنا امپریس کیا ہو اور دوسرا ایسا جو دنیا بھول کر گم ہوجاۓ ایک اسے دیکھ کر ۔۔۔
عمر نے پوچھا جس پر عیان نے انکھیں دکھائیں پر عمر تو سرے سے اگنور کرکے بڑے غور سے حیدر صاحب کو دیکھ رہا تھے کہ جیسے اس سے ضروری کوئی بات نہ ہو ۔۔۔ جس پر سب مسکراۓ اور انشاء شرمائی ۔۔۔
“باباجان , سوال دس کروڑ کاہے , جلدی جواب دیں ۔۔۔ ایمان نے مذاحیہ انداز میں کہا ۔۔۔
“دونوں میرے ہی ہیں , میں بھی اتنا کیریئر کو سریس لیتا تھا جتنا عیان کرتا ہے اور جب ان کی مان میری زندگی میں ائی تو میں ایمان جیسا بی ہیوو کرتا تھا ۔۔۔ اس لیۓ عمر بیٹا یہ دونوں میری ہی کاپی ہیں ۔۔۔ حیدر صاحب نے دونوں بیٹوں کو محبت سے دیکھا ۔۔۔عمر ان کے جواب پر ہنسا ۔۔۔
“ویسے بچت ہوگئی عیان کی ورنہ مجھے یقین تھا یہ اپ کا بیٹا بلکل نہیں لگتا سڑو سا ۔۔۔۔ عمر نے چڑایا اس سے پہلے کچھ اور کہتا عیان زینب بی اگئی ۔۔۔
زینب بی نے چاۓ سروو کی کچھ ناشتے کے سامان کے ساتھ ۔۔۔
سب باتوں میں مصروف ہوۓ ۔۔۔
@@@@@@@
” بابا میں سوچ رہا ہوں انشاء کا یونی میں ایڈمیشن کروانا چاہیۓ ۔۔تاکہ کچھ مصروفیات ہوجاۓ اس کی ۔۔ورنہ سارا دن دروازے کے چکر لگانے میں اس کا دن گزرتا ہے ۔۔ عیان نے چاۓ دیتی انشاء کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔
“سچ کہے رہے ہو , سارا دن ایمان کی غیر موجودگی میں بولائی پھرتی ہے ۔۔۔ باباجان نے تائیدی انداز میں کہا ۔۔۔
انشاء نے ایمان کی طرف دیکھا ۔۔۔ کہ جیسے کہے رہی ہو تم منع کرو ۔۔ پر ایمان نے نظر پھیر لی جیسے کہے رہا ہو ۔۔۔ میں کچھ نہیں کہے سکتا ۔۔
“یہ تم دونوں کی انکھوں انکھوں کی لڑائی ختم کرو ۔۔۔ تم کہو ایمان کیا کہتے ہو ۔۔۔
“میں کیا کہوں بھائی , جو اپ کو مناسب لگے ۔۔۔ مجھے بھی ایسا فیل ہورہا ہے کچھ مصروفیات اس کی ہونی چاہیۓ ۔۔۔ ایمان نے کہا ۔۔
شادی کو دو مہینے ہوگۓ تھے اور انشاء کا فارغ پن دیکھ کر سب نے یہی سوچا ۔۔۔
“نہیں عیان بھائی مجھے نہیں پڑھنا بس ۔۔۔ مجھے گھر میں مصروف رہنا اچھا لگتا ہے ۔۔۔ انشاء نے جلدی سے کہا ۔۔۔ اس کا انداز دوٹوک تھا ۔۔۔
“دیکھ لیں باباجان , اپ کی بیٹی بدل گئی ہے , کیسے دو ٹوک جواب دینے لگی ہے مجھے , اب یہ اپ کی معصوم بیٹی نہیں بلکہ ایمان کی خرانٹ بیوی ہوگئی ہے ۔۔۔ تبدیلی اگئی ہے بابا جان ۔۔۔۔ وہ مسکرایا ۔۔ جس پر انشاء نے نظرین جھکا لیں ۔
” یہ تو میں نے بھی محسوس کیا ہے انشاء میری بیٹی کم , ایمان کی بیوی زیادہ لگتی ہے ۔۔۔ حیدر شاہ نے چھیڑا جس پر انشاء نے کہا ۔۔۔
“باباجان اپ بھی ان کے ساتھ مل گۓ ۔۔۔ وہ ان کے پاس بیٹھ گئی ۔۔۔۔ ہلکہ سا روٹھے لہجے میں تھی انشاء ۔۔۔
“بابا جان چھیڑ رہے ہیں تم کو ۔۔۔ ایمان نے کہا ۔۔۔
“پہلے بابا کی بیٹی پھر ان کے بیٹے کی خرانٹ بیوی ہے انشاء ۔۔۔ ایمان نے مزے سے کہا ۔۔۔ دونوں بھائیوں نے قہقہ لگایا جس پر اس نے باباجان کو دیکھا ۔۔۔
“بس کرو تم دونوں میری بیٹی کو چھیڑنا ۔۔۔
“بس اللہ نظر سے بچاۓ میرے بچوں کو, یونہی ہنستے مسکراتے رہو ۔۔۔ آمین ۔۔۔ حیدر شاہ نے اپنے بچوں کو دیکھ کر کہا ۔۔۔ جس پر سب نے آمین کہا ۔۔۔
@@@@@@
ناشتے کے وقت انشاء کسی کام سے جارہی تھی کچن کی طرف اس کو چکر ایا اور اس نے بروقت صوفے کو تھام کر اس پر بیٹھی ۔۔۔
“کیا ہوا انشاء ۔۔۔ ایمان سب سے پہلے اس کی طرف لپکا ۔۔۔ بابا اور زینب بی بھی فکر سے دیکھ رہے جس کا چہرہ ذرد سا ہورہا تھا ۔۔۔
“بس ذرہ سا چکر ایا ہے تم فکر نہ کرو تم جاؤ ہاسپیٹل جاؤ , میں ٹھیک ہوں اب ۔ انشاء نے خود کو نارمل کرتے ہوۓ کہا ۔۔۔
“ایسے کیسے , پہلے انشاء کی طبیت پھر کام , جاؤ ڈاکٹر کو دکھاؤ ۔۔۔ بابا نے کہا ۔۔۔
“باباجان میں خود ڈاکٹر ہوں ۔۔۔ ایمان نے ان کو یاد دلایا ۔۔۔
“پر بیٹا اسے تمہاری نہیں زنانی ڈاکٹر کی ضرورت ہے ۔۔۔ زینب بی نے کہا ۔۔۔
جن کی بات پر سب چونکے ۔۔۔
“انشاء تیار ہوجاؤ پہلے تمہیں دکھا کر آؤں پھر دوسرے کام ۔۔۔ ایمان نے جلدی سے کہا ۔۔۔
@@@@@@@
گھر میں جیسے بہار سی اگئ اس خبر سے کہ گھر میں نیا مہمان ارہا ہے ۔۔۔
بس ایسا لگ رہا تھا جیسی سب ہو دو جہان کی خوشی مل گئی ہو ۔۔۔ شام کو اتے ہوۓ عیان ڈھیر سارے کھلونے لیتا ہوا ایا ۔۔۔ باباجان نے کہا ۔۔۔
“یہ کیا عیان تم تو لگتا ہے پورا دکان اٹھا لاۓ ہو ۔۔۔
“بس باباجان , سمجھ نہیں ارہا تھا کیا لوں کیا چھوڑوں , بس پھر کیا , سب اٹھالیا ۔۔۔ خوشی بھی تو ایسی ہے ۔۔۔
اس کے ہر انداز سے خوشی جھلک رہی تھی ۔۔۔ وہ جو کم مسکرایا کرتا تھا اج دل کھول کے ہنس رہا تھا ۔۔۔
انشاء کے ہاتھ میں ٹرے دیکھ کر ۔۔۔ عیان نے جلدی ے اس سے لی اور کہا ۔۔۔
“آئندہ سے کوئی کام نہیں کرنا تمہیں , زینب بی اور ملازم رکھ لیں گے , اپ اسے کسی کو کام ہاتھ نہیں لگانے دین گی , کوئی رسک نہیں لینا ہمیں ۔۔
اس کے انداز پر ایمان اور بابا تو ہنسے پر انشاء بھی حیران تھی ۔۔۔ وہ جو ہمیشہ سوچتی تھی عیان اسے کبھی اس گھر کا حصہ نہیں سمجھتا سواۓ اس کے سب کے لیۓ احساسات رکھتا ہے ۔۔۔
آج اس کے کیئرنگ انداز پر اس کی انکھین نم ہوئیں ۔۔۔
“ایسے کیا دیکھ رہی ہو , کیا ہوا ۔۔۔۔ عیان کو حیرت ہوئی اس کی انکھوں کی نمی پر ۔۔۔
“کچھ نہیں , بس یہ خوشی کی نمی ہے ۔۔۔ انشاء نے کہا ۔۔۔
“تھینک یو عیان بھائی ۔۔۔ انشاء نے خوشی سے کہا ۔۔۔
“وہ کس لیۓ ۔۔۔ عیان نے پوچھا ۔۔۔
“آپ نہیں سمجھیں گے ۔۔۔ انشاء نے دھیرے کہا ۔۔
“اچھا تم ارام سے بیٹھو ۔۔۔ اسے بٹھاکر , دوبارہ گویا ہوا ۔۔۔
زینب بی جیسا آپ سے کہا ہے بالکل ویسا کرنا ہے اسے کسی کام کو ہاتھ مت لگانے دینا اور ہاں ایمان تم بھی تمہیں بھی بے انتہا خیال رکھنا ہے انشاء کا ۔۔۔۔
زینب بی نے ہان کہا ۔۔۔
“جی بھائی بلکل , ویسے اپ کے ہوتے ہوۓ مجھے کیا پرواہ , اب اپ ہی خیال رکھیں اس کا ۔۔
“زیادہ ذمیداری تمہاری ہے , ایمان مجھے تمہاری طرف سے کوئی کمی نہ ملے ۔ ۔
“جو اپ کا حکم بھائی ۔۔۔۔ ایمان نے کہا ۔۔۔
“اللہ کا جتنا شکر کروں کم ہے , جو ہم پر اس قدر مہربان ہوا ۔۔۔ حیدر شاہ نے کہا ۔۔۔
@@@@@@@@
رات کے اس پہر تم دونوں یہاں کیا کررہے ہو ۔۔۔ عیان نے رات کو گیارہ بجے دونوں کو لاؤنج میں دیکھ کر کہا ۔۔۔
انشاء نے منہ پھیرلیا جب کہ ایمان اس پر ایک نظر ڈال کر کہا ۔۔۔
“بھائی اس کے کام دیکھو یہ وقت ناراضگی کا ہے ۔۔۔ ایمان کا انداز شکایت لیے ہوئے تھا۔۔۔
“ویسے تمہیں کہا تھا مجھے انشاء ہر وقت ریلیکس نظر آۓ اور تم نے اس کو ناراض کیا ہوا ہے ۔۔۔ عیان نے سرزش کی ۔
” بھائی آپ میری بات سنے بغیر اس کا سائیڈ لے رہے ہیں ۔۔۔ ایمان نے کہا ۔۔۔
“اب تمہاری کوئی اہمیت نہیں رہی ایمان کے بچے ۔۔۔ سب نے میری سننی ہے کیوں عیان بھائی ۔۔۔ انشاء نے چڑاتے ہوۓ اسے ٹھینگا دکھا کر کہا ۔۔۔
اس کے معصوم انداز پر عیان کو بےساختہ ہنسی ائی اور عیان نے اس کا ساتھ دیتے ہوئے کہا۔۔۔
“ہان یہ تو ہے , اب تو تمہاری چلنی ہے اس گھر میں ۔۔ بتاؤ ایمان نے کیا کیا ۔۔
“بھائی یہ فاؤل ہے , میری جگہ پہلے ہے , ایمان نے دکھی ہونے کی بھر پور ایکٹنگ کرتے ہوۓ کہا ۔۔۔۔
اب انشاء کی اہمیت کو چیلینج نہیں کرسکتے تم ۔۔۔
“ہاۓ یہ بھی دن دیکھنا تھا مجھے ایک میرا بھائی تھا گھر میں جس کو بھی چھین لیا تم نے ظالم ۔۔۔ اب وہ بھی تمہاری ٹیم میں , ہاۓ میرا بیٹا ہوگا جو میرے ساتھ ہوگا , باقی سب کو تو بس اس کی پرواہ ہے ۔۔۔۔
ایمان کا انداز ڈرامائی سا تھا , اپنے جھوٹ موٹ کے انسو صاف کرنے لگا ۔۔۔
” بند کرو یہ ڈرامہ اور صاف بتاؤ کیا پرابلم ہے انشاء کی ۔۔۔ عیان نے کہا اس کے کاندھے پر دھموکا مار کر ۔۔۔
جس پر سنجیدہ ہوکر ایمان نےاصل بات بتائی ۔۔۔
“بھائی اسے رات کے اس پہر آئس کریم کھانی ہے اب میں اسے یہی سمجھا رہا تھا ۔۔۔ یہ وقت مناسب نہیں۔۔۔
انشاء مدد طلب نظروں سے عیان کو دیکھنے لگی ۔۔۔
عیان نے ایک نظر اسے دیکھ کر کہا ۔۔۔۔
“سہی تو کہے رہی ہے اس حالت میں, تمہیں اس کی خوشی دیکھنی چاہیۓ ۔۔۔ جاؤ دونوں کھا کر آؤ ۔۔۔
انشاء نے اسے انگھوٹھا دکھایا ۔۔۔ ” تھینک کیو عیان بھائی کہا ۔۔۔
“اف بھائی, اپ نے بھی اس کی ٹیم جوائن کرلی ۔۔۔
“بھئی اب میں مضبوط پارٹی کے ساتھ ہوں ۔۔۔ عیان نے کندھے اچکاۓ ۔۔۔
اب ایمان کے پاس سواۓ جانے کے کوئی راستہ نہ تھا ۔۔۔
“اب چلو جلدی سے , ایسا نہ ہو میرا من بدل جاۓ ۔۔۔
“اف تمہارے نخرے ۔۔۔ ایمان نے کہا جس پر انشاء اکڑی اور دونوں کی ایک نئی جنگ شروع ۔۔۔ عیان نے دونوں کو مسکرا کر دیکھا جن کے بیچ نئی نوک جھونک شروع ہوچکی تھی ۔ ان دونوں کے دم سے رونق تھی گھر میں ۔۔۔
@@@@@
“ایمان ناشتہ تو کرتے جاؤ ۔۔۔ عیان نے کہا جو جلدی جلدی جارہا تھا ۔۔۔
“نہیں بھائی لیٹ ہورہا ہوں ہاسپیٹل میں کرلوں گا ڈاکٹر اکرم کے راؤنڈ میں لیٹ پہنچنا افورڈ نہیں کرسکتا ۔۔۔
“کچھ نہیں ہوتا ناشتہ کرلو ایمان ۔۔۔ اب باباجان نے کہا ۔
“نہیں باباجان بہت لیٹ ہوں ۔۔ اس نے گھڑی دیکھ کر کہا ۔
زینب بی انشاء کو دیکھیں ۔۔۔ بابا نے کہا زینب بی سے ۔ ان کی بات پر پلٹ کر ایمان نے جلدی سے کہا ۔۔۔
“بابا اسے سونے دین رات لیٹ سوئی تھی طبیت ذرہ خراب تھی ۔۔۔ جاتے جاتے ایمان نے کہا ۔۔۔ اللہ حافظ بابا , بھائی اور زینب بی, انشاء کا خیال رکھیۓ گا پھر شام میں اس کو ڈاکٹر کو دکھاؤں گا ۔۔۔
سب نے اسے اللہ حافظ کہا اور وہ سب پر ایک نظر ڈال کر مسکریا ۔۔۔ اور چلا گیا لمبے ڈگ بھرتا ہوا ۔۔۔
@@@@@@
وہ سیڑھیوں سے اتررہی تھی بابا جان صوفے پر بیٹھے تھے ۔۔ انشاء کو دیکھ کر باباجان نے پوچھا “اب میری بیٹی کی طبیت کیسی ہے ۔۔
وہ ارام سے سیڑھیاں اترتی تھی یہ سب کی خاص انسٹریکشن تھی اسے ۔۔۔ اس نے سنبھل کر ٹھر کر کہا ۔۔۔ “میں ٹھیک ہوں باباجان ۔۔۔
“بابا میں افیس چلتا ہوں عیان نے کہا ۔۔۔ وہ کھڑا ہوا اپنا بریفکیس اٹھایا ۔۔۔ اسی وقت موبائل پر رنگ ہوئی ۔
“دیکھ لیں , ایمان کی بھی کال اگئی اس کی طبیت کا پوچھنے کے لیۓ ۔۔۔ عیان کا اشارہ انشاء کی طرف تھا جو اہستہ اہستہ اتررہی تھی سنبھل کر ۔۔۔
ہنس کر اس نے موبائل پر کال ریسوو کرکے کان سے لگایا ۔۔انشاء نے بغور اسے دیکھا سیڑھیوں سے اترتے ہوۓ ۔ وہ جو کھڑا تھا ایک دم لڑکھڑایا اس کا ہنستا چہرہ تاریک سا سایہ لہرایا سامنے سے بات سن کر ۔۔۔
اس کے تاثرات دیکھ کر جلدی سے حیدر صاحب نے کہا ۔۔۔۔
“کیا ہوا عیان ۔۔۔
وہ دکھ اور صدمے سے باپ کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔