سانحہ نائن الیون کے بعد افغانستان اور عراق پر حملوں کے دوران صدر بُش نے عید کے موقعہ پر عالمِ اسلام کو مبارک باد دی تھی۔اس کے جواب میں یہ نظم لکھی گئی۔بعض اخبارات اور ویب سائٹس میں چھپنے کے باوجودابھی تک میں نے اسے اپنے کسی شعری مجموعہ میں شامل نہیں کیا تھا۔اب اس مجموعہ میں شامل کر رہا ہوں۔(ح۔ق)
ہمارے عہد کے ہیرو!
تمہارے دم قدم سے اب ہواؤں میں
انوکھا اسلحہ ،بارود کی خوشبو لئے
گہرے دھوئیں کے بادلوں پہ رقص فرما ہے
فضاؤں میں تمہارے تیز تر رفتا طیاروں کی آوازیں
ابھی تک موت کے نغموں کی صورت گونجتی ہیں اور
ابھی بمبار منٹ اور گولہ باری کی نئی طرزیں
نئے گیتوں میں جیسے ڈھلتی جاتی ہیں
عراقی اور افغانی لہو پی کر نشے سے جھومتے
”ڈیزی کٹر “کا جشن جاری ہے
یہ ایسا جشن ہے جس میں
”بموں کی ماں“خوشی سے ناچتی ہے اور
جہاں فرعون اور نمرود اور چنگیز کی اولاد کے
گلنار چہروں پر مسرت تمتماتی ہے
ہمارے عہد کے ہیرو!
ابھی ہم بے بسوں کے سر پہ اک لمبا محرم ہے
ہمارے واسطے ہر دن محرّم کا مہینہ ہے
سو ہم ماتم گزاروں کی کہاں عیدیں!
صلیبی جنگ کااعلان کرنے والے
پیارے بُش!
ہمارے عہد کے ہیرو!(مگر کیا واقعی ہیرو؟)
ہماری عید ہو یا پھرتمہاری عید ہو
اب تو سبھی عیدیں تمہاری ہیں
سو ہم مجبور اور ماتم گزاروں کی طرف سے
تم کو سب عیدیں مبارک ہوں!
٭٭٭