(Last Updated On: )
(خاکہ )
بابا کی یاد بہت آتی ہے، جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے ہمارے والد کے بڑے بھائی تھے ہمارا سارا بچپن ان کے سائے میں گزرا ان ہی کی ہدایتیں سن سن کر ہم بڑے ہوئے کتنی ساری باتیں ہیں جو اکثر یاد آتی ہیں تو ہونٹوں پر بابا کا ذہنی توازن صحیح نہیں تھا مگر ان کی ذات سے کبھی کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہونچی ہے۔ بلکہ وہ خود ہی سب کے آرام کا بیحد خیال رکھتے تھے بابا کی شخصیت بہت پر اثر تھی جو بھی کبھی ایک بار ان سے مل لیتا وہ کبھی نہیں بھولتا تھا اچھا خاصہ لمبا سفید بال چھوٹی سی سفید داڑھی جو وہ ہر جمعہ کو خط بنواتے تھے، کپڑے پہنے کا بھی ان کا الگ انداز تھا، لائین یا چک والی لمبی قمیص اور چوڑے پائینچوں کا پائیجامہ، سردیوں میں ایک گھر کی سلی واسکٹ پہنتے تھے جسے وہ ’’بنڈی‘‘ کہتے تھے اسمیں روئی بھری ہوتی تھی۔ سر پر اون کا بنا ہوا کیپ رہتا تھا جسے وہ ’’ٹوپا ‘‘کہتے تھے۔ بابا چہرے سے بیحد معصوم نظر آتے تھے کیونکہ ان کو دنیا داری بالکل نہیں آتی تھی جو کچھ بھی کہتے یا کرتے تھے وہ سچ ہی ہوتا تھا۔
صبح صبح فجر کی نماز پڑھ کر جب وہ مسجد سے گھر آتے تو اپنے دامن میں ہار سنگھار کے بہت سارے پھول بھرکے لے آتے اور ہمارے سوتے ہوئے چہروں پر ٹھنڈے پھول برس جاتے چاروں طرف خوشبو پھیل جاتی، ہم ہڑبڑا کر اٹھتے تو وہ سرہانے اپنی معصوم سی مسکراہٹ لئیے کھڑے ہوتے، ’’نماز پڑھ لیجئے بٹیا‘‘ وہ نرمی سے کہتے ذہن کمزوری کے باوجود وہ ایک نارمل اور شریعت کی پابند زندگی گزار رہے تھے، نماز روزے کے لئیے وہ ہم پر کافی سختی بھی کرتے اور خود بھی کبھی لاپرواہی نہیں کرتے تھے مگر کبھی کسی بات پر غصہ آ جاتا تو ایک رکعت نماز کے بعد اللہ میاں سے بھی خفا ہو جاتے۔ ’’جاؤ نہیں پڑھتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہہ کر مصّلہ لپیٹ کر رکھ دیتے اور مسجد سے تیز تیز چلتے ہوئے کچھ بڑ بڑاتے ہوئے نکل جاتے ہمیں نہیں پتہ چل سکا کہ وہ ناراض کیوں ہوتے تھے لیکن یقیناً کوئی دعا جو فوراً قبول نہ ہوئی ہو، اس پر انہیں بہت غصہ آتا تھا۔
قرآن کی تلاوت بھی روز پابندی سے کرتے اور اکثر با توں میں آیات کو ڈکیا کرتے تھے مگر کبھی بھول بھی جایا کرتے اور غلط پڑھتے اور کسی کے صحیح کر دینے پر سخت ناراض ہوتے تھے۔ اشتعال جلدی آ جاتا تھا شاید یہ ان کی کمزوری تھی پھر بڑی مشکل سے قابو میں آتے۔ اگر کوئی مہمان آ جاتا تو بے انتہا خوش ہو جاتے، ’’آ گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ وہ ڈیوڑھی سے بڑی تیز رفتاری سے نمودار ہوتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’کون آ گئے بابا؟؟؟؟ہمیں تجسس ہوتا ’’ارے وہی ان کے لڑکے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ نام ذہن سے نکل چکا ہوتا ’’کس کے لڑکے بابا؟؟؟؟؟‘‘ گاؤں میں اوّل تو یوں بھی لوگ نہیں پہنچ پاتے تھے سوائے گرمیوں کی چھٹیوں کے اور ایسے کوئی آ جائے تو بہت خوشی ہوتی تھی۔ بابا نام بھول جاتے مگر ہمیں ان کے انداز سے پتہ چل جاتا کہ ضرور پھوپی جان کے بیٹے ہوں گے کیونکہ بابا ان لوگوں کے آنے سے بے تحاشہ خوش ہوتے تھے محبت بھی بہت کرتے تھے اور ناراض بھی جلدی ہوتے۔ خیر اس وقت یا تو اندر آنے والا اندر ہی آ جاتا یا پھر کوئی نوکر اطلاع لے کر آتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (کیونکہ ہر ایک تو اندر نہیں بلایا جاتا تھا نا)
کوئی مہمان آ جائے تو بابا اسے جانے نہیں دیتے تھے زبردستی روک لیتے اور جب آنے والا دوسرے دن جانے کو تیّار ہو تو خفا ہو جاتے ’’کہ اتنی جلدی جانا تھا تو پھر آئے ہی کیوں ‘‘ اگر مہمان نہ مانتا تو اس کا سامان چھپا دیتے تھے ہم سبھی گھر ائے مہمان کا سامان ڈھونڈتے پریشان ہوتے اور بابا کھڑے کھڑے مسکراتے رہتے، کہتے ’اب جاؤ بیٹا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیسے جاؤ گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
مہمان کی خاطر کرنا تو ہماری تہذیب میں شامل ہے مگر وہ اس جا رہا نا انداز میں خاطر مدارت کرتے کہ سب لوگ پریشان ہو جاتے، اگر مہمان نے کھانے سے ہاتھ روک لیا تو زبردستی اس کی پلیٹ بھر دیتے اور ’’کیسے نہ کھیہو‘‘ وہ غصہ میں پوربی بولنے لگتے ’’چلو کھاؤ چپ چاپ‘‘ غصہ میں اپنا کھانا چھوڑ کر اس کے پیچھے پڑ جاتے، ابّی سمجھاتے کہ ’’بڑے بھیّا آپ اپنا کھانا تو ختم کیجئیے ‘‘ مگر وہ غصہ میں کسی کی نہیں سنتے تھے۔
سارے عزیز، رشتہ دار ان کے اس عادت سے آگاہ تھے اس لئیے پہلے ہی ان کو کسی دوسری بات میں الجھا لیتے اور کوئی ایسا موضوع چھیڑ دیتے کہ ان کے ذہن سے خاطر کا خیال محو ہو جاتا اور مہمان اس جارحانہ خاطر سے بچ جاتا۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں خاص طور پر ہمارے گھر میں رونق رہتی تھی، مہمانوں کی آمد زیادہ رہتی تھی کیونکہ ابّی کو آم کی دعوت کرنے کا بیحد شوق تھا، ان کے دوست احباب اور رشتہ داروں کا آنا جانا لگا رہتا تھا ابّی کے اپنے ہاتھ کے لگائے ہوئے باغ میں بہار آ جاتی تھی طرح طرح کے آم اپنی بہار دکھاتے تھے کہیں زرد آلو مہک رہا ہے تو کہیں لنگڑا نخرے دکھا رہا ہے، کہیں لکھنؤ کا سفیدہ اور کہیں ملیح آبادی سفیدہ، چونسا اور کالا پہاڑ تو آخر میں آتے تھے مگر تب تک کافی لوگ گھر آ جاتے اور بہت رونق ہو جاتی، پوری آم کی فصل میں کوئی نہ کوئی آتا ہی رہتا تھا۔
ابّی اپنے ہاتھوں سے عمدہ عمدہ آم کاٹ کر کھلاتے، ایک مرتبہ ہمارے یہاں لکھنؤ کے ایک نواب صاحب تشریف لائے، بیحد نفیس طبعیت کے مالک تھے پر وقار شخصیت، جسم بھاری، عمر کوئی ساٹھ پینسٹھ کے درمیان رہی ہو گی بہترین سفید ململ کا کرتا، پانیجامہ شیروانی میں ملبوس، وہ ہمارے دور کے رشتہ دار بھی تھے اور پہلی بار ہمارے گھر آئے تھے۔
ان کے کھانے کا بھی خاص اہتمام کیا گیا تھا باہر کے تخت پر کھانا لگایا گیا کھانے کے درمیان کوئی بدمزگی نہیں ہوئی لیکن جب آم کی باری آئی اور ابّی اپنے ہاتھوں سے انھیں آم کھلانے بیٹھے تو ایک قاش لینے کے بعد انھوں نے ’بس جناب‘‘ کہا اور اٹھنے لگے، ہمارے بابا کہاں تک برداشت کرتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بولے ’’چپ چاپ کھائیے ابھی بہت آم ہیں ‘‘ نواب صاحب اس طرز تخاطب کے کہاں عادی تھے، حیران ہو کر بابا کو دیکھا پھر مروتاً ایک قاش اور لے لی۔ اس کے بعد وہ اٹھے تو بابا بھی کھڑے ہو گئے ملازم لوٹا سنبھال کر ان کا ہاتھ دھلانے لگا تو بابا نے ڈانٹا، ’’ابھی کیسے ہاتھ دھو رہے ہیں ؟ آم کھائیے پہلے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
وہ پلٹ کر مسکرائے اور بابا دیکھا پھر بولے ’’جناب ہمارا معدہ اس قابل نہیں کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ مگر بابا نے بات پوری نہ ہونے دی اور ایک آم کی گٹھلی لے کر ان کے پاس آ گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ وہ گھبرا کر کبھی ابّی کو دیکھتے اور کبھی گٹھلی کو انھوں نے زندگی میں ایسی دعوت کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بابا ان کے پاس آ گئے تو وہ بھاگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بابا ان کے پیچھے دوڑے اب منظر یہ تھا کہ نواب صاحب آگے آگے اور بابا بڑی سی رسیلی گٹھلی لئیے پیچھے پیچھے۔ ابّی بابا کو آوازیں دیتے رہ گئے۔ ’بڑے بھیّا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سنئے تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ مگر بابا کہاں سنتے تھے وہ ان کو دوڑا رہے تھے ساتھ ہی ساتھ بولتے جا رہے تھے۔ ’’چلو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھاؤ چپ چاپ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھاؤ گے کیسے نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ نواب صاحب نے اب باقاعدہ چیخنا چلانا شروع کر دیا تھا، ’’ارے ضیغم صاحب بچائیے مجھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ وہ ابّی کو آوازیں دے رہے تھے، مگر بابا کو پکڑنا آسان نہیں تھا وہ اشتعال میں آ چکے تھے اور نواب صاحب کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے ان کے سفید کرتے کا برا حال کر چکے تھے۔ اب انہیں قابو میں نہیں کیا جا سکتا تھاسمجھا یا مگر وہ سمجھنے کو تیار نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نواب صاحب سے بھی بہت معذرت کی مگر وہ کچھ سنے کو تیار نہیں وہ اسی وقت جانے کے لئیے بضد تھے مگر نو بجے رات کو تب آدھی رات ہو جاتی تھی سواری کا انتظام کیونکر ہوتا۔ بہت مشکل سے انہیں سمجھا کر کپڑے وغیرہ بدلوائے گئے اور سلایا گیا، مگر وہ صبح ہوتے ہوتے ہی واپس چلے گئے اور پھر کبھی نہیں آئے۔
کچھ عزیز ایسے بے تکلف تھے جو اکثر آ جایا کرتے ان کو گاؤں کی بے فکر زندگی بیحد پسند تھی، مگر وہ بابا کو پریشان کر دیتے تھے اس لئیے بابا کو ان کا آنا پسند نہیں تھا، بابا خوش تو بہت ہوتے مگر ان لوگوں کے زیادہ رکنے سے گھبرا جاتے تھے ایک ایسے ہی صاحب تھے جو رشتہ دار ہونے کے ساتھ بھیّا کے بہت گہرے دوست بھی تھے، جو اکثر آ جایا کرتے کافی دن رہ کر جاتے، اور پھر کچھ دن بعد دوبارہ آتے تو بابا کہتے ’’پرکاگوڑ بھو سیلے ٹھاڑ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ (جو جانور ایک بار کسی بھوسے والی جگہ پر بھو ساکھا لیتا ہے، بار بار وہیں آ جاتا ہے ) مگر وہ صاحب شرمندہ ہونے والوں میں نہیں تھے ہنستے رہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بابا بھی ہنس دیے۔ محاورے استمعال کرنے کا ان کو بیحد شوق تھا اور محاورے کسی بھی زبان کے ہوں وہ ان میں پوربی زبان فٹ کر دیا کرتے، مثلاً کوئی بہت دیر تک ابّی کے پاس بیٹھا رہتا اور اندر ہم کھانے پر انتظار کر رہے ہوتے تو بابا کو بہت غصہ آتا کہتے ’’منھ چڑھی ڈومنی گاوے تال بے تال، ٹھاکر موکا موسی کہین۔ (منھ چڑھے لوگ الٹی سیدھی باتیں کر کے خوش ہو رہے ہیں کہ مالک نے ان کو منھ لگایا)
اگر ان کو یہ پتہ چلتا کہ کوئی کسی کی جائیداد پر قابض ہو رہا ہے تو بہت خفا ہوتے کہتے ’’جھیگر بیٹھا بنیا کی جیب پر، گائے بجائے سب موراے ہے ‘‘ (جھینگر جب بنیا کی جیب پر بیٹھ جاتا ہے تو سمجھتا ہے کہ جتنا بھی اس نے کمایا سب میرا ہے )
جب وہ کسی سے کوئی کام کہتے تو چاہتے کہ فوراً بو جائے اگر وہ کوئی توجیہ پیش کرتا تو کہتے ’’ناچے ناجانے انگنوا ٹیڈھ، کہوں انگنؤٹیڈھ ہوت ہے ناچے کے گن چاہی‘‘ (ناچ نا جانے آنگن ٹیڑھا کہیں آنگن بھی ٹیڑھا ہوتا ہے ؟ ناچنے کا فن آنا چا ہئیے ) انھیں با توں سے انہوں نے اپنی سونی زندگی میں رنگ بھر رکھّا تھا۔ باتیں اور بھی بہت ساری ہیں کیا کہوں اور کیا نہ کہوں ہم سب سے انھیں بیحد محبت تھی، جب ہم چھوٹے تھے تو ہم سے کہتے کہ کھرپی لے کر لان کی گھاس کاٹو اور ہم سے نہ ہوتا تو بہت خفا ہوتے تھے کہتے ’’سسرال جا کر کیا کرو گی؟ سب کہیں گے کہ کسی نے گھاس کاٹنا بھی نہیں سکھایا؟‘‘ آخر عمر میں کافی بیمار رہنے لگے تھے۔ اتفاق سے ان دنوں میں ہی اکیلی تھی ابّی کے ساتھ گھر میں۔ وہ دن بھی عجیب سا تھاہر طرف ساسنّاٹا سا چھایا ہوا تھا، گرمیوں کی گھبرا دینے والی دوپہر تھی وہ میں بابا کے لئیےدلیا بنا چکی تھی اپنے اور ابّی کے لئیے روٹیاں بنا رہی تھی جب بابا نے دالان سے آواز دی، ’’بٹیا‘‘ ’’جی بابا‘‘ ’’سرمیں تھوڑا تیل لگا دیجئے ‘‘ وہ اپنا کام یونہیں لجاجت سے کہتے تھے۔ ’’جی بابا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بس دو روٹیاں رہ گئی ہیں پکا کر آتی ہوں ‘‘ ’’اچھا‘‘ بس یہ آخری آواز تھی جو میں نے سنی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے کیا پتہ تھا وہ ورنہ میں فوراً بھاگ کے آتی۔ باورچی خانے سے نکل کر میں نے ہاتھ دھوئے اور سر اٹھا کر دالان کی طرف دیکھا وہ بالکل سیدھے لیٹے ہوئے تھے اور ان کا ایک ہاتھ پلنگ سے نیچے لٹک رہا تھا، میں گھبرا کر دوڑی ’’بابا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ میں نے کئی آوازیں دیں پر انھوں ے آنکھیں نہیں کھولیں۔ میں نے بیقراری سے ان کا ہاتھ تھام کر بستر پر رکھنے کی کوشش کی تو اف میرے اللہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاتھ بالکل ٹھنڈا تھا۔ میں بھاگ کر ڈیوڑھی میں گئی دروازے کی زنجیر زور زور سے کھٹکھٹانے لگی ابّی بھاگتے ہوئے اندر آئے انھوں نے بابا کو دیکھا پھر میری طرف دیکھ کر مجھے اندر جانے کا اشارہ کیا اور باہر سے کئی لوگوں کو بُلا لائے۔ بابا کے آخری سفرکی تیاریاں شروع ہو گئیں۔
وہ دن اور وہ اندھیری شام جبکہ سب انھیں لے کر چلے گئے میں اکیلی پلنگ پر بیٹھی تھی گاؤں ی عورتیں آ کر جا چکی تھیں، تنہائی کے وہ لمحات جب مجھے یاد آتے ہیں تو میرا دل ڈوبنے لگتا ہے اس دن آسمان پر پورا چاند تھا، چاندنی میں چھت پر بنے ہوئے بابا کے کمرے کا عکس بھوت کی طرح سیاہ تھا، لالٹین بھڑک بھڑک کر جل رہی تھی، جب میں تنہا ہوتی ہوں وہ شام میرے ساتھ چلنے لگتی ہے تنہائیاں بہت ڈراتی ہیں، بابا بہت یاد آتے ہیں۔
٭٭٭