شادی کے پانچ سال بعد اماں اس کا ساتھ چھوڑ گئیں- ابا اس کے بچوں میں گم ہو گئے- وہ سب کے حقوق ادا کرتے ہوئے بھی اپنے آپ میں گم رہا-
وہ اکیلا آدمی اور منڈی بھی جانا اور دکان بھی چلانا- وقت کی جیسے قلت ہو گئی تھی- اس روز دکان جاتے ہوئے صحن میں اس نے عجیب منظر دیکھا- مبشر کو ابا نے کندھے پر چڑھایا ہوا تھا- مدثر اور مزمل بھی دادا پر سوار ہونے کی کوشش کر رہے تھے- “مبشر، مدثر، مزمل یہ کیا کر رہے ہو؟” اس نے بچوں کو ڈانٹا-
“آور کچھ نہیں پتر، کھیل رہے ہیں مجھ سے” پیر بخش نے کہا-
“لیکن ابا ۔ ۔ ۔ ۔ ”
“تیری ماں کے بعد انہی میں تو میری جان اٹکی ہے” پیر بخش نے کہا- “دیکھ اب تو میں کام بھی نہیں کرتا- پورا وقت ان کے ساتھ گزارتا ہوں”
“تمہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ابا، میں جو ہوں”
“جانتا ہوں پتر- پر اب دکان پر آ کر تیرا ہاتھ بھی بٹایا کروں گ میں”
“اس کی ضرورت نہیں ابا” الہیٰ بخش نے کہا ” بس اب تم پوتوں کو سنبھالو”
پیر بخش نے بڑی محبت سے پوتوں کو دیکھا اور مبشر کو سینے سے بھینچ لیا- :یہ مبشر تو میری جان ہے- پتا ہے تو چھوٹا سا تھا تو ایسا ہی تھا”
الہیٰ بخش باپ کو محبت بھری نظروں سے دیکھتا رہا- پھر بولا “چلتا ہوں ابا- آج منڈی نہیں جانا تھا، اس لئے اتنا وقت مل گیا”
پیر بخش نے پیچھے سے اسے پکارا- “پتر ۔ ۔ ۔ آج مبشر کی بسم اللہ کروانی ہے”
الہیٰ بخش پلٹا “اچھا ابا ۔ ۔ ۔ اتنا بڑا ہو گیا یہ” اس کے لہجے میں حیرت تھی، پھر اس نے بہت نرم، محبت بھرے لہجے میں کہا “ابا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج اسے پہلا اور آخری سبق پڑھا دینا” وہ گھر سے نکل گیا-
وقت دھیرے دھیرے دبے پاؤں گزرتا رہا- کچھ چیزیں الہیٰ بخش کبھی نہیں بھولا- اپنی کچھ محرومیوں کی اس نے تلافی کرنے کی کوشش کی ۔ ۔ ۔ ۔ بچوں کے ذریعے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بچوں کے نام رکھنے کے معاملے میں بھی اس نے روایت سے بغاوت کی- مدثر، مزمل اور مبشر شاید وہ نام حرف م سے اس کی محبت کا اظہار تھے- اور شاید بیٹوں کے شہری انداز کے نام اس نے اس لئے بھی رکھے تھے کہ ان کی زندگی میں کوئی سادی آئے تو کماز کم نام کی رکاوٹ موجود نہ ہو-
دینی تعلیم توخٰری لازمی تھی، مگر اس نے انہیں انگریزی سکول میں داخل کرایا- وہ ان کے لئے ہمیشہ نیکر اور پینٹ بڑے شوق سے لاتا- لیکن مبشر کے سوا کوئی اس کی توقعات پر پورا نہیں اترا- حافظ قرآن تو سب ہو گئے لیکن مبشر کے سوا کسی نے پڑھ کر نہیں دیا- الہیٰ بخش کو اس کا غم بھی نہیں تھا- خوشی اللہ نے اسے مبشر کے ذریعے دے دی تھی اور وہ نا شکرا نہیں تھا- مدثر اور مزمل نے سکول چھوڑے تو وہ انہیں دکان پر لے گیا- وہ اس کا ہاتھ بٹانے لگے-
الہیٰ بخش کا خیال تھا کہ ابا یہ سب کچھ نہیں سمجھ سکے گا- لیکن وہ غلطی پر تھا- پیر بخش کی دانش کو سمجھ کر بھی وہ نہیں سمجھ سکا تھا-
بچوں کے بعد ماسٹر جی ہی تھے، جو پیر بخش کے سنگی تھے- حاجرہ کی شادی اور بیوی کی موت کے بعد وہ اکیلے رہ گئے تھے- بہت اصرار کے باوجود انہوں نے بیٹی کے ساتھ رہنا گوارا نہیں کیا- ہاں، اسے دیکھنے، بچوں سے ملنے وہ آتے رہتے تھے- ان کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع کم ہی ملتا تھا-
ماسٹر جی نے محسوس کیا تھا کہ پیر بخش کچھ کھویا کھویا سا رہتا ہے- ایک دن انہوں نے اس سے پوچھ لیا “کچھ پریشان ہو پیر بخش؟”
“نہیں ماسٹر جی- اللہ کا بڑا کرم ہے- اس نے بہت خوشیاں دی ہیں-”
“تو پھر فکر مند کیوں رہتے ہو؟”
“وہ اور بات ہے” پیر بخش نے آہ بھر کر کہا “بڑھاپے میں حساب کی فکر تو ستاتی ہی ہے”
چند لمحے خاموشی رہی پھر پیر بخش نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا “کبھی خیال آتا ہے کہ میں نے بیٹے کے ساتھ زیادتی کیہے- وہ مجھ سے خوش نہیں ہے”
“وہمہے تمہارا پیر بخش”
پیر بخش نے سنا ہی نہیں اپنی کہتا رہا- “دیکھو نا، بیٹوں کے نام کیسے رکھے- مدثر، مبشر، مزمل”
“تمہاری تربیت کا اثر ہے” ماسٹر جی بولے ” حرف م سے تو عشق ہے اسے”
“پر نام تو مختلف سے رکھے نا اس نے- مجھے بھی اچھے لگے- اب سوچتا ہوں میں نے کیا نام رکھا تھا اس کا- کبھی اسے شرمندگی بھی ہوئی ہو گی اپنے نام سے”
“کیسی باتیں کرتے ہو” ماسٹر جی نے احتجاج کیا-
پیر بخش اپنی کہتا رہا “جسے اپنے نام سے خوشی نہیں، شرمندگی ہو، و ہ بیٹوں کے نام اپنے نام سے الگ ہی رکھے گا نا”
“الہیٰ بخش نے کبھی بات نہیں کہی”
“کہنے والا کب ہے وہ- پھر دیکھو، وہ اپنے بچوں کو انگریزی کپڑے پہناتا رہا ——- اس نے انہیں انگریزی اسکول میں داخل کرایا—- کیوں؟”
“اس لئے کہ ہر باپ اپنے بچوں کو خود سے آگے دیکھنا چاہتا ہے”
“کوئی باپ اپنی کمی اولاد میں نہیں دیکھنا چاہتا” پیر بخش نے دوسرا زاویہ پیش کیا-
“تمکہنا کیاچاہتے ہو پیر بخش کیا سمجھ رہے ہو؟”
پیر بخش چند لمحے سوچتا رہا پھر اس نے نظریں اٹھائیں تو ان میں اداسی تھی “مجھے لگتا ہے، نام کی، کپڑوں کی، تعلیم کی کمی سے اس کی کوئی بہت پیاری چیز اس سے چھن گئی تھی، پر اچھا بیٹا ہے نا- کبھی شکایت بھی نہیں کی اس نے”
ماسٹر جی پیر بخش کی دانش کے پہلے ہی قائل تھے اور قائل ہوگئے- مگر انہوں نے اس کی سوچ کی حوصلہ افزائی نہیں کی، وہ بولے ” کہاں کی سوچ رہے ہو پیر بخش”
“بس ماسٹر جی، میرا دل بتاتا ہے”
“لیکن مبشر کے سوا کسی نے پڑھائی میں دلچسپی نہیں لی”
“مبشر بالکل الہیٰ بخش کی طرح ہے- بخشو اس سے محبت بھی بہت کرتا ہے- مبشر میں جان ہے اس کی-”
“تو گاؤں میں کیا، مبشر جیسے تو شہر میں بھی دو چار ہی ہوں گے” ماسٹر جی کے لہجے میں فخر تھا-
“وہ مجھے بھی بہت پیارا ہے” پیر بخش نے گہری سانس لے کر کہا- ” دیکھو پڑھتا بھی ہے اور دکان پر ہاتھ بھی بٹاتا ہے”
“چلو اب تو وہ بی اے بھی کرے گا- الہیٰ بخش کا ارمان پورا ہو جائے گا”
—————-٭¬——————
مبشر بلا شبہ لاکھوں میں ایک تھا- نیک، سعادت مند، اطاعت شعار —- اور پھر تھا بھی بڑا خوبرو- کالج میں سادات گھرانے کی ایک بڑی پیاری لڑکی تھی —– رابعہ —– رابعہ نے اسے پہلی ہی نظر میں پسند کیا- آہستہ آہستی پسندیدگی محبت میں تبدیل ہوتی گئی-
لیکن مبشر نے اسے کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا- دیکھ بھی نہیں سکتا تھا- اس کے لئے تو وہ بہت محترم —- بہت بلند تھی- وہ بی بی تھی- باپ اور دادا نے اسے یہی سکھایا تھا- وہ تو اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا-
اس روز وہ کالج کی لائبریری میں بیٹھا مطالعہ کر رہا تھا- رابعہ آئی، اس کے پاس کھڑی ہوئی اور ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھنے لگی- وہ کتاب میں محو تھا اسے پتا ہی نہیں چلا “مبشر سنو” رابعہ نے اسے پکارا-
مبشر نے سر اٹھا کر اسے دیکھا “جی رابعہ بی بی؟”
“مجھے اسلامک سٹڈیز کے نوٹس کی ضرورت ہے”
وہ اسے تکے جا رہی تھی- مبشر پریشان ہو گیا-
“دے دو نا” رابعہ نے اسے تکتے ہوئے کہا “کل واپس کر دوں گی”
مبشر نے نوٹس نکال کر اسے دے دیئے- عافیت اسی میں تھی کہ رابعہ لائبریری سے چلی جائے- مبشر پھر کتاب پر جھک گیا لیکن اب اس سے کچھ پڑھا نہیں جا رہا تھا-
رابعہ مبشر کے نوٹس سامنے رکھے بیٹھی تھی- بظاہر وہ پڑھ رہی تھی لیکن کوئی اس کی کھوئی کھوئی آنکھیں دیکھ لیتا تو سمجھ لیتا کہ وہ اس وقت کہیں اور ہے- حقیقت یہ تھی کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اس وقت مبشر کا چہرہ تھا- وہ از خود وارفتگی کے عالم میں تھی-
لیکن مبشر بے حد شرمیلا لڑکا تھا- اس نے کبھی اس کی نگاہوں کی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی تھی- رابعہ خود بھی بہت شرمیلی لڑکی تھی لیکن اندر کی دھیمی دھیمی آگ اب اس کے لئے نا قابل برداشت ہوئی جا رہی تھی- اب وہ خوفزدہ تھی کہ اظہار نہ کیا تو وہ اس آگ میں جل کر بھسم ہو جائے گی-
محبت کتنی طاقتور چیز ہے- آدمی کو بدل کر رکھ دیتی ہے- اس نے پیڈ اپنے سامنے رکھےت ہوئے سوچا- پھر وہ لکھنے لگی- اس نے مشکل سے دو سطریں لکھی ہوں گی کہ اماں کے پکارنے کی آواز سنائی دی- “رابعہ، رابعہ بی بی ذرا ادھر آنا”
“ابھی آئی امی” رابعہ نے بلند آواز میں جواب دیا- پھر وہ کمرے میں چلی گئی- پیڈ کا کھلا ورق میز پر رکھا تھااور اس پر قلم دھرا تھا-
یہی وہ وقت تھا کہ سلیم شاہ بہن کو پکارتا ہوا کمے میں چلا آیا- “رابعہ ۔۔۔۔۔۔ رابعہ بی بی کہاں چلی گئی؟ ” اس نے آ کر ادھر ادھر دیکھا اور پھر میز کے پاس چلا آیا- پہلے اس کی نظر مبشر کے نوٹس پر پڑی- اوپر مبشر کا ناملکھا تھا- پھر اس نے رائٹنگ پیڈ کو دیکھا-
“ڈئیر مبشر! تم نے مجھ پر کیا جادو کر دیا ہے ——
اس سے زیادہ سلیم شاہ سے پڑھا نہیں گیا- غصے سے اس کا چہرہ تمتمانے لگا- تو یہ کھیل، کھیل رہی ہے نادان بہن- اور وہ کم ذات —– اس نے پیڈ سے وہ صفحہ نوچا اور مٹھی میں بھینچ لیا- پھر وہ کمرے سے یوں نکلا جیسے مبشر کے وجود کو روند کر گزر رہا ہو-
پانچ منٹ بعد رابعہ کمرے میں آئی تو اس نے دیکھا کہ پیڈ کا وہ ورق غائب ہے، جس پر وہ مبشر کو خط لکھ رہی تھی- چند منٹ اس نے صفحے کو ادھر ادھر تلاش کیا- پھر بے پروائی سے اپنی جگہ آ بیٹھی- اس نے دوبارہ لکھنا شروع کیا ——- ڈیئر مبشر ——
———————٭——————–
مبشر کالج میں داخل ہوا ہی تھا کہ رابعہ نے اسے آواز دی- وہ اس کی طرف چلا گیا- رابعہ نے اس کے نوٹس اس کی طرف بڑھائے “یہ لو مبشر- بہت شکریہ”
“کوئی بات نہیں”
رابعہ کی نظریں جھک گئیں- اس نے نظریں جھکائے جھکائے کہا “احتیاط سے رکھنا- ان میں کچھ رکھا ہے تمہارے لئے”
یہ سن کر مبشر کا تو چہرہ فق ہو گیا- اس نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا- جس وقت سے وہ ڈر رہا تھا، وہ سر پر آ چکا تھا-
پہلے پیریڈ کے بعد مبشر نے چوروں کی طرح نوٹس کو ٹٹولا تو اس میں رابعہ کا خط رکھا ملا- اس نے خط پڑھا اور اس کے باریک باریک پرزے کر ڈالے- اس روز کلاس میں اس کا دل ہی نہیں لگ رہا تھا- کیاپڑھایا جا رہا ہے، اسے کچھ خبر نہیں تھی-
چھٹی کے بعد وہ باہر جا رہا تھا کہ لان میں بیٹھی ہوئی رابعہ نے اسے پکارا- پہلے تو اس نے سوچا کہ اس کو نظر انداز کر کے نکل جائے مگر اس نے ہمت کر ہی لی- سامنا کرنا منہ چھپانے کی نسبت بہتر نتائج لاتا ہے- اسے رابعہ کو سمجھانا ہو گا-
وہ رابعہ کے پاس جا بیٹھا “جی بی بی؟”
“تم نے میرا خط پڑھا؟” رابعہ نے پوچھا-
“جی، پڑھا- اور پھاڑ کر پینک دیا”
“کیوں؟”
“بی بی آپ نادانی کر رہی ہیں- یہ تباہی کا راستہ ہے”
“مگر میں کیا کروں؟” رابعہ نے بے کسی سے کہا ” میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے”
“ایسی باتیں نہ کریں- اللہ نے آدمی کو اپنا نائب بنایا ہے- انسان صرف اللہ کے سامنے بے بس ہے”
“تو یہ بھی اسی کی مرضی ہو گی- ورنہ میں بے بس کیوں ہوتی”
میں نہیں مانتا”
وہ انکار کر رہا تھا- رابعہ کی تبدیلی اور آگے بڑھ گئی- شرم و حیا رکھی رہ گئی “میں نے تم سے محبت کی ہے مبشر اور یہ گناہ نہیں”
“کمال ہے ہماری سوچوں میں کتنا فرق ہے” مبشر کا لہجہ طنزیہ ہو گیا “میں نے تو ایسا سوچا بھی نہیں لیکن پھر بھی اپنی نظر میں گناہ گار ہو گیا – آپ بات سمجھ ہی نہیں رہی ہیں- میں خاک ہوں اور آپ آسمان- آپ بی بی ہیں —– بی بی”
“پڑھے لکھے ہو کر کیسی بیک ورڈ باتیں کرتے ہو” رابعہ نے ملامت آمیز لہجے میں کہا “میں رابعہ ہوں اور تم مبشر- ہمارے درمیان کہیں کوئی تفریق نہیں اور عزت تو اللہ کی دی ہوئی ہے- اس پر غرور کرنا نا زیبا ہے”
“میری اور آپ کی سوچ میں بہت فرق ہے بی بی”
رابعہ کا دل بھر آیا، وہ گڑگڑانے لگی “مبشر —– میں بہت مجبور ہوں- تم نہیں سمجھ سکتے- میرے اندر کوئی طاقت ہے، جس نے مجھے بے اختیار کر دیا ہے”
“تو آپ کو اس سے لڑنا چاہیئے” مبشر نے متاثر ہوئے بغیر کا- “انسان کا تو کام ہی برائی سے لڑنا ہے”
“مگر یہ برائی نہیں، زندگی کی خوبصورتی ہے- محبت گناہنہیں، عبادت ہے” رابعہ نے تند لہجے میں کہا-
“دیکھیں بی بی، میں ایک بات واضح کر دوں” مبشر نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا- “میرے دل میں ایسی کوئی بات کبھی آ ہی نہیں سکتی – میرے ابا اور دادا نے سادات کا احترام کرنا سکھایا ہے مجھے اور یہ بات میں کبھی نہیں بھول سکتا- آپ میرے لئے بہت قابل احترام ہیں”
“حیرت ہے! تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود —–”
مبشر نے اس کی بات کاٹ دی- “تعلیم تربیت پر پانی پھیر دے تو وہ تعلیم نہیں رہتی بی بی”
“کچھ بھی ہو میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی”
مبشر کو افسوس ہو رہا تھا کہ اسے اتنی نازک اور پیاری سی لڑکی سے سخت گفتگو کرنی پڑ رہی ہے- اور وہ سادا ت ہے- لہذا یہ گناہ ہے- لیکن وہ جانتا تھا کہ یہ سختی ہی اس مستقل عذاب سے نجات دلا سکتی ہے- کبھی بڑے گناہ سے بچنے کے لئے چھوٹا گناہ کرنا پڑتا ہے- اس نے نہایت بے رخی سے کہا- “مجھے افسوس ہے بی بی، میں کبھی اس انداز میں نہیں سوچ سکوں گا- آپ کو اپنی سوچ بدل لینی چاہیئے ورنہ مایوسی ہو گی” یہ کہہ کر وہ اٹھا اور گیٹ کی طرف چل دیا-
رابعہ اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی- اس نے اپنے دل کو ٹٹولا- وہاں اس ضدی کی تصویر اب بھی ویسے ہی موجود تھی-
———————–٭——————–
اس روز پیر بخش بھی دکان پر آیا ہوا تھا- وہ الہیی بخش کے پاس بیٹھا تھا- الہیٰ بخش کی نظر سلیم پر پڑی، جو دکان کی ہی طرف آ رہا تھا، الہیٰ بخش تیزی سے اٹھا اور اس کی پیشوائی کے لئے دکان سے نکلا “سلام علیکم باجی” اس نے سلیم شاہ کا ہاتھ چوما-
پیر بخش بھی اٹھ کھڑا ہوا “آؤ باجی—- بیٹھو”
“میں بیٹھنے نہیں آیا ہوں پیرو چاچا” سلیم شاہ نے بے رخی سے کہا “میں تمہیں خبردار کر رہا ہوں- پھر شکایت نہ کرنا”
“ہوا کیا ہے باجی- کچھ تو کہو” پیر بخش نے تحمل سے کہا-
‘مبشر کو سمجھا لو چاچا- عزت کے لئے ہم جان بھی دے سکتے ہیں —– اور لے بھی سکتے ہیں” سلیم شاہ نے بے حد خراب لہجے میں کہا-
“میری سمجھ میں اب بھی نہیں آیا کہ بات کیاہے”
“اتنی عمر ہو گئی پیرو چاچا اور کہتے ہوسمجھ نہیں آئی- نہیں جانتے کہ ایسی باتیں اس سے زیادہ بتائی بھی نہیں جا سکتیں”
اب پیر بخش سمجھ گیا- “دیکھو باجی تمہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے- نسلیں گزر گئیں، ہمارے ہاں نہ آج تک ایسی بات ہوئی ہے، نہ ہی آئندہ کبھی ہو گی” اس کے لہجے میں بلا کا اعتماد تھا-
‘پہلے نہیں ہوئی ہو گی، پر اب ہو رہی ہے- لیکن میں ہونے نہیں دوں گا چاچا” سلیم شاہ بپھر گیا-
“میں نہیں مانتا کہ مبشر ایسا کر سکتا ہے- دیکھو باجی، خرابی اندر ہو تو اس کو باہر ٹھیک نہیں کرتے- اس طرح خرابی ختم نہیں ہوتی”
الہیٰ بخش حیران رہ گیا- یہ ابا کیسی باتیں کر رہا ہے- اس کا دل کانپ گیا- اس نے جدی سے مداخلت کی “کیسی بات کرتے ہو ابا”
“مجھے پورا بھروسہ ہے مبشر پر” پیر بخش نے جھنجھلا کر کہا-
الہیٰ بخش گڑگڑانے لگا “ایسی بات نہ کرو ابا”
پیر بخش کے لہجے میں نرمی اور عاجزی آ گئی- “کیوں نہ کروں پتر- اپنی اولاد کا پتا ہے مجھے” پھر سلیم شاہ کی طرف مڑا اور لجاجت سے بولا ” آپ اپنی طرف کو سنبھالو باجی، ہماری طرف سے آپ کو شکایت نہیں ہو گی”
“مجھے جو سمجھانا تھا سمجھا دیا چاچا- آگے تم ذمہ دار ہو” سلیم شاہ نے سرد لہجے میں کہا-
“آپ فکر نہ کرو سلیم شاہ” الہیٰ بخش نے سلیم شاہ کا ہاتھ تھام کر بڑی محبت سے کہا- “میں مبشر سے بات کروں گا”
پیر بخش کو اس کی بات اچھی نہیں لگی لیکن اس نے کہا کچھ نہیں-
سلیم شاہ چلا گیا- دونوں ہی اپنی اپنی سوچوں میں اکیلے ہو گئے- الہیٰ بخش کو باپ پر حیرت ہو رہی تھی- یہ اس کا رد عمل تو نہیں لگ رہا تھا- پھر اس کی سمجھ میں بات آ گئی- دادا باپ سے بڑا ہوتا ہے- باپ کی حیثیت سے ساری سختی ختم کر دینے کے بعد دادا بن کر اس کے پاس محبت ہی محبت رہ جاتی ہے، یہی بات ہے-
اس رات کھانے کے بعد صحن میں الہیٰ بخش کے سامنے مبشر مجرموں کی طرح کھڑا تھا- پیر بخش حقہ گڑگڑا رہا تھا-
“ابا تمہاری قسم، میرے دل میں ایسا کوی خیال بھی کبھی نہیں آیا جس سے شرمندگی ہو —– مجھے یا تمہیں” مبشر نے کہا-
پیر بخش الہیٰ بخش پر الٹ پرا “تو خوامخوا اس کے پیچھے نہ پڑ پتر- میں نے کہا تھا نا”
“وہ تو ٹھیک ہے ابا- پر یہ معاملہ سنگین ہے- تم تو جانتے ہو، بات کہیں بھی پہنچ سکتی ہے” الہیٰ بخش بولا-
“تو بی بی کو قائل کر سکتا ہے تو کر” پیر بخش نے کہا “دیکھ پتر، اپنا گھر، اپنے بچے تو باجی لوگوں کو ہی سنبھالنے ہیں نا —- تو اور میں کیاکر سکتے ہیں”
“نہ ابا، ان کی ذمہ داری بھی ہماری ہے- یہ تو ہماری آخرت کا سوال ہے- ہمیں ہی کچھ کرنا ہو گا”
“کیسی بات کرتا ہے پتر- جوان بیٹے کو چوڑیاں پہنا کر گھر میں بٹھائے گا کیا؟”
الہیٰ بخش کی نگاہوں میں خفیف سی ملامت جھلکی “مجھے خوب سکھایا ابا- اور خود احترام بھول گئے —-”
“او نہیں پتر- بھول سکتا ہوں کیا- پر دوش اپنا نہ ہو تو —-”
“تو بھی سر جھکانا چاہئے ابا” الہیٰ بخش نے جلدی سے کہا پھر وہ مبشر کی طرف مڑا “تو نے کیا سوچا ہے پتر؟”
“مجھے کیاسوچنا ہے ابا- جو بات تھی بتا دی، اب تم حکم کروابا”
الہیٰ بخش چند لمحے سوچتا رہا- پھر اس نے سر اٹھاتے ہوئے کہا “تو کالج جانا چھوڑ دے پتر”
پیر بخش بری طرح بھڑکا- مبشر کی تعلیم الہیٰ بخش کی ہی سب سے بڑی خوائش تھی اور وہ اس سے دستبردار ہو رہا تھا- تاہم کوئی ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے اس نے پوتے کی طرف دیکھا-
مبشر نے ایک لمحہ جھجکے بغیر کہا “ٹھیک ہے ابا، جو تمہارا حکم”
“خفا تو نہیں مجھ سے؟” الہیٰ بخش کے لہجے میں افسردگی تھی-
کیسی بات کرتے ہو ابا” مبشر نے برا مانتے ہوئے کہا “میں تو تمہاری خوشی میں خوش ہوں- ہر بات مانی ہے تمہاری- تم نے جو پہنایا پہن لیا تمہاری خاطر ہی تعلیم پر توجہ دی- تمہاری مرضی میرے لئے حکم ہے ابا”
الہیٰ بخش نے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا ” اللہ جی کس منہ سے تیرا شکر ادا کروں- کیسی سعادت مند اولاد دی تو نے”
‘ابا ایک بات کہوں؟”
“کہہ پتر”
“کالج کے د ن تھوڑے ہیں- نہیں جاؤں گا تو کوئی حرج نہیں، پر ابا، میرا بی اے کے امتحان کا آخری سالہے، امتحان تو دے سکتا ہوں نا؟”
“ہاں بیٹے، میں تو کالج سے روک رہا ہوں- تیرا بی اے کرنا تو میری بہت بڑی خوشی ہے”
“شکریہ ابا”
مبشر کمرے میں چلا گیا- پیر بخش الہیٰ بخش کو محبت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا “تو اس سے بھی اچھا بن گیا پتر، جیسا میں بنانا چاہتا تھا” اس کے لہجے میں فخر تھا-
“اللہ کا شکر ادا کرو ابا” الہیٰ بخش نے عاجزی سے کہا-
——————–٭——————–
لیکن جس بات کو ہونا ہوتا ہے، وہ کسی طرح نہیں رکتی !
اس روز مبشر منڈیاں سے گھر آ رہا تھا- وہ گھر سے چند قد م دور تھا کہاچانک کھیت کی طرف سے رابعہ نکلکر اس کے سامنے آ گئی- “تم نے کالج آنا کیوں چھوڑ دیا مبشر؟” اس نے پوچھا-
مبشر نے حیرت اور گبھراہٹ سےا سے دیکھا “بی بی —آپ یہاں؟”
“تم کالج نہیں آؤ گے تو میں تم سے ملنے یہاں آ جاؤں گی” رابعہ نے کہا پھر مسکرا کر پوچھا ” کالج آنا کیوں چھوڑ دیا ہے تم نے؟”
“آپ کی مہربانی سے” مبشر نے تلخ لہجے میں کہا ” سلیم باجی نے ابا سے شکایت کی تھی- دھمکی بھی دی تھی’
“مگر مجھے کوئی نہیں روک سکتا”
“مجھ پر رحم کرو بی بی- جو تم چاہتی ہو، وہ میں سوچ بھی نہیں سکتا” مبشر گڑگڑانے لگا-
“ایسی باتیں مت کرو تم مرد ہو” رابعہ نے سخت لہجے میں کہا-
“یہ کیسی محبت ہے بی بی؟” مبشر کے لہجے میں فریاد تھی “آپ نہ صرف مجھے بلکہ میرے ماں باپ اور دادا کو بھی ذلیل کروائیں گی- میں کبھی ابا سے نظر نہیں ملا سکوں گا”
‘میں کیا کروں مبشر- بہت مجبور ہوں میں —-”
“خدا کے لئے مجھے بھول جائیے – یہ خیال دل سے نکال دیجیئے”
“کیسے مرد ہو- عورت کے سامنے گڑگڑاتے ہو”
اسی لمحے انہی کھیتوں کی طرف سے سلیم نمودار ہو گیا- “میں نے پہلے ہی خبردار کیا تھا مبشر- اب میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا” اس نے للکارا-
اس للکار کی گونج گھر کے صحن میں کھڑے پیر بخش نے بھی سنی- سوچنے کووقت نہیں تھا- وہ تیزی سے کمرے کی طرف لپکا، اس نے صندوق میں سے پستول نکالا اور دروازے کی طرف جھپٹا-
باہر سلیم شاہ نے ریوالور نکاللیا تھا- رابعہ کے سامنے گڑگڑانے والا مبشر اس کے سامنے تن کر کھڑا ہو گیا- اس کے چہرے پر بے خوفی تھی “میں خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا سلیم شاہ” اس نے مستحکم لہجے میں کہا “میں تم سے نمٹ سکتا ہوں لیکن ابا اور دادا کو دکھ نہیں دینا چاہتا”
سلیم شاہ نے ریوالور لہرایا “میں نے سب کو بتا دیا تھا مبشر”
رابعہ لپک کر مبشر کے سامنے کھڑی ہوئی “بے انصافی نہ کر بھائی- اس کا قصور نہیں ہے”
“رابعہ بی بی —- تو ہٹ جا سامنے سے” سلیم شاہ نے گرج کر کہا-
“بھائی قصوروار میں ہوں میں اس سے ملنے آئی ہوں”
“تو پھر پہلے تو ہی جا” سلیم شاہ نے دانت پیستے ہوئے کہا “لیکن چھوڑوں گا اسے بھی نہیں”
سلیم شاہ کا ریوالور والا ہاتھ نیچے آ رہا تھا- لبلبی پر انگلی کا دباؤ بڑھ رہا تھا- اسی لمحے پیر بخش پستول ہاتھ میں لئے گھر سے نکلا- وہ ان کی طرف جھپٹا لیکن اس کے ان تک پہنچنے سے پہلے گولی چلی اور رابعہ دونوں ہاتھوں سے اپنا پیٹ تھامے گرتی چلی گئی-
سلیم شاہ کی انگلی دوبارہ ٹریگر پر تھی- عین وقت پر پیر بخش پوتے کے سامنے آ گیا-
پیر بخش کا خون دیکھ کر سلیم شاہ کے اوسان خطا ہو گئے- وہ اندھا دھند ایک طرف بھاگ کھڑا ہوا-
پیر بخش زخمی حالت میں ہسپتال کے بستر پر پرا تھا- الہیٰ بخش نے اس کے کان کے قریب منہ لے جاتے ہوئے کہا “یہ کیا ہو گیا ابا؟”
پیر بخش کی آواز بہت کمزور تھی- ‘یہ تو ہونا تھا پتر- اس کے بغیر یہ معاملہ نمٹتا نہیں”
“اب کیا کرنا ہے ابا”
“سلیم شاہ باجی کہاں ہے پتر”
“اپنے گھر پر ہے ابا- میں باجی لوگوں کے پیروں میں پڑ گیا تھا کہ وہ ہمارے گھر میں ہی محفوظ رہے گا- وہ یقین نہیں کر رہے تھے” وہ کہتے کہتے رکا “تم بالکل فکر نہ کرو ابا، اسے ہتھکڑی نہیں لگنے دوں گا”
“ایک کام کر دے پتر، میرے پستول کاگھوڑا چڑھا دینا”
“یہ کام میں پہلے ہی کر چکا ہوں ابا- سب سمجھ میں آ گیا تھا میری” الہیٰ بخش نے کہا “بلکہ میں نے تو دو فائر بھی کر دئیے”
پیر بخش کے ہونٹوں پر کمزور سی مسکراہٹ ابھری “تو کتنا اچھا پتر ہے الہیٰ بخش مجھے معلوم ہی نہیں تھا”
“تمہاری دعا اور رب کا کرم ہے ابا” الہیٰ بخش باپ پر اور جھک گیا “ایک بات اور ہے ابا” اس نے رازدارانہ لہجے میں کہا- ” ہر طرف سے چوکس رہنا چاہیئے بندے کو- یہ بتاؤ خون تم معاف کرو گے یا مجھے کرنا ہے؟”
پیر بخش نے آہستہ سے کہا “جس کو سعادت مل جائے پتر” ذرا توقف کے بعد وہ بولا “رب عزت دینے والا ہے پتر- وہ مجھے اس زخم سے نہیں مرنے دے گا”
“میں ڈاکٹر سے پوچھتا ہوں ابا”
پیر بخش نے محسوس کیا کہ اس لمحے اس کے اور بیٹے کے درمیان مکمل ہم آہنگی موجود ہے، دونوں ایک ہی انداز میں سوچ رہے تھے- دونوں کو ایک ہی فکر تھی- وہ یہ چاہتے تھے کہ یہ قتل نہ رہے، بلکہ قدرتی موت ہو- موت سے لڑتے ہوئے پیر بخش کا سینہ فخر کے احساس سے پھول گیا- مگر فورٰ ہی اس کا دل سجدے میں چلا گیا ” سب تیری دین ہے ربا- بندے کا اپنا تو کچھ بھی نہیں ہوتا- پر تو صلہ اسے ہی دیتا ہے”
ادھر الہیٰ بخش ڈاکٹر سے پوچھ رہا تھا “ڈاکٹر صاحب ابا بچ جائیں گے نا”
“خون بہت بہہ گیا ہے، حالت خطرے سے باہر نہیں ہے” ڈاکٹے نے صاف گوئی سے کام لیا-
الہیٰ بخش چند لمحے سر جھکائے ہوئے سوچتا رہا- پھر اس نے سر اٹھایا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے “ڈاکٹر صاحب اگر ابا اس زخم کی وجہ سے نہیں، کسی اور سبب سے ختم ہو گئے تو کیا ہو گا”
ڈاکٹر نے الجھن بھری نظروں سے اسے دیکھا “میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا”
“میرا مطلب ہے پھر یہ قتل کیس تو نہیں بنے گا؟”
ڈاکٹر اسے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہا تھا- اسے حیرت تھی- باپ موت سے لڑ رہا ہے، بیٹے کی آنکھوں میں آنسو ہیں لیکن وہ یہ سوچ رہا ہے کہ یہ قتل کہلائے گا یا نہیں- اس نے سر جھٹکتے ہوئے کہا “قانون کا تو مجھے علم نہیں مگر موت کا سبب وہ لکھا جائے گا جو ہو گا”
الہیٰ بخش نے پر خیال لہجے میں کہا “قدرتی موت پر قتل کا مقدمہ تو نہیں چل سکتا”
“مسئلہ کیا ہے؟” ڈاکٹر نے پوچھا ” کیا گولی چلانے والا تمہارا رشتے دار ہے؟”
“نہیں ڈاکٹر صاحب” الہیٰ بخش نے گہری سانس لے کر کہا “ہمارا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے”
سلیم شاہ کمرے میں چارپائی پر سہماسہما بیٹھا تھا – اس کے چہرے پر پریشانی تھی- اشتعال میں گولی چلا دینا اور بات ہے لیکن قاتم کی حیثیت سے تو اپنا سامنا کرنا بھی آسان نہیں ہوتا- کجا کہ قانون کا —— ساری دنیا کا-
دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ چونکا- ہاتھوں میں کھانے کی ٹرے لئے مبشر کمرے میں آیا- اس نے ٹرے سلیم شاہ کے سامنے رکھتے ہوئے کہا “روٹی کھا لو شاہ جی”
“مجھے بھوک نہیں ہے” سلیم شاہ کے لہجے میں بے بسی تھی-
“پھر بھی دو چار لقمے لے لو- یوں بھوکے رہو گے تو کمزور ہو جاؤ گے”
سلیم شاہ نے حیرت سے اسے دیکھا ” تم لوگ کس دنیا کے انسان ہو”
“ابا اور دادا کاپتا نہیں، پر میں اسی دنیا کا ہوں”
“ارے تمہارا محبوب دادا میری وجہ سے موے کے خطرے سے دوچار ہے اور تم نے زبردستی مجھے پناہ دی ہے کہ کہیں میں گرفتار نہ ہو جاؤں- تم میری مہمان نوازی کر رہے ہو،کھانے کے لئے اصرار کر رہے ہو کہ کہیں کمزور نہ ہو جاؤں —- میں تو مجرم ہوں، تمہارا بھی اور قانون کا بھی- تمہیں غصہ نہیں آتا مجھ پر؟” آخر میں اس کے لہجے میں ملامت آ گئی- اس کا جسم شدت جذبات سے لرزنے لگا-
“میں تو پتا نہیں کیا کر دیتا تمہارا” مبشر نے دانت پر دانت جماتے ہوئے کہا “پر ابا کا حکم نہیں ٹال سکتا ۔۔۔۔۔۔۔ اچھا تم کچھ کھا لو”
سلیم شاہ نے بے دلی سے ایک لقمہ لیا “تمہارے دادا کیسے ہیں؟”
“ان کی حالت اچھی نہیں”
“مجھے افسوس ہے- غصے نے اندھا کر دیا تھا مجھے- اب جو مجھے شرمندگی ہے وہ میں بیان نہیں کر سکتا”
“بہت خوبصورت لفظ ہیں شاہ جی” مبشر نے سادگی سے کہا-
“رابعہ کہاں ہے؟” سلیم شاہ نے اچانک پوچھا-
کسی رشتے دار کے گھر- اسے کوئی خطرہ نہیں- گولی پیٹ میں نہیں لگی تھی، کلائی کو چھو کر گزر گئی”
“پولیس کو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟”
“کسی کو اس بارے میں کچھ معلوم نہیں- خوامخواہ بدنامی ہوتی”
سلیم شاہ چند لمحے غور سے اسے دیکھتا رہا پھر بولا “تو تمہیں رابعہ سے کوئی دلچسپی نہیں؟”
“میں نے تمہیں سمجھانے کی کوشش کی تھی اور اب بھی بتا رہا ہوں” مبشر نے بے حد تحمل سے کہا “آور میں نے تو بی بی کو بھی سمجھانے کی کوشش کیتھی، پر اس پر تمہارا اختیار نہیں تو میں بے چارہ کیا کر سکتا تھا”
سلیم شاہ شرمندہ نظر آنے لگا- “مجھے واقعی افسوس ہے”
“چھوڑو اس بات کو” مبشر نے کہا “ابا نے کہلوایا ہے، وقت آنے پر تمہیں یہ کہنا ہو گا کہ دادا نے تم پر فائر کیا تھا- تمہیں اپنے بچاؤ میں گولی چلانی پڑی-”
سلیم شاہ چند لمحے اسے عجیب سی نظروں سے دیکھتا رہا، پھر اس نے دونوں ہاتھوں سے منہ چھپایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا-
الہیٰ بخش دیر سے دروازے پر کھڑا تھا- اس کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا اور جیب پھولی ہوئی تھی- ذرا دیر بعد موقع ملا تو اس نے چوروں کی طرح ادھر ادھر دیکھا اور دروازہ کھول کر انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل ہو گیا-
پیر بخش کا چہرہ دیکھ کر اس کا دل کٹنے لگا- اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ بہت تکلیف میں تھا- اس کے ہونٹ لہولہان ہو رہے تھے- شاید تکلیف برداشت کرنے کی کوشش میں وہ انہیں دانتوں سے کاٹتا رہا تھا-
الہیٰ بخش کا جی نہیں چاہ رہا تھا کہ اس حال میں اسے چھوڑ ے مگر فرض بہر بڑا تھا- اس نے باپ کے منہ سے منہ لگا کر پکارا- “ابا ۔۔۔۔۔ ابا”
پیر بخش نے آنکھیں کھول دیں
“ابا ڈاکٹر کہتا ہے تمہاری حالت اچھی نہیں، میں کیا کروں ابا”
پیر بخش نے کمزور آواز میں کہا “پتر وہ کر جو کرنا چاہیئے”
“کاغذ پر انگوٹھا لگانا ہے ابا”
پیر بخش سے بولا نہیں جا رہا تھا- اس نے آنکھوں سے اشارہ کیا- الہیٰ بخش نے جیب سے انک پیڈ نکال کر کھولا اور باپ کا ہاتھ تھام کر اس کا انگوٹھا پیڈ پر جما کر رکھا- پھر اس نے باپ کا انگوٹھا کاغذ پر لگا دیا-
روشنائی تو پکی ے نا ؟”
“تم فکر نہ کرو ابا- مجھ سے کوئی چوک نہیں ہو گی”
“ربا میری شرم رکھ لے” پیر بخش تڑپ کر گڑگڑایا “مجھے اس زخم سے نہ مار ربا” اتنا بولنے سے اس کی حالت ایک دم بگڑ گئی-
دروازہ کھلنے کی آواز سن کر الہیٰ بخش نے جلدی سے کاغذ اور انک پیڈ جیب میں رکھ لیا- آنے والا ڈاکٹر تھا “تمیہاں کیا کر رہے ہو” اس نے الہیٰ بخش سے پوچھا
“ڈاکٹر جی ابا کا حال اچھا نہیں”
ڈاکٹر نے پیر بخش کو دیکھا اور گھبرا گیا- اس نے نرس کو پکارا- چند منٹ میں ہنگامی حالات ہو گئے-
—————–٭————–
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...