اہی وے۔۔۔۔۔ محبتاں سچیاں نیں۔۔۔۔ کسی کال کے آنے پہ میرا موبائل گا رہا تھا۔۔۔۔گاتے گاتے چپ ہو گیا، دو منٹ بعد سچی محبتیں اک بار پھر فضامیں گونجنے لگیں۔۔۔۔ میں نیند میں ڈوبا پڑا تھا، بڑی مشکل خود میں فون اٹھانے کی ہمت پیدا کی۔۔۔۔ پر اٹھانے سے پہلے وقت دیکھنا نہیں بھولا تھا رات کے دو بج رہے تھے۔۔۔۔ یا اللہ خیر۔۔۔۔ کہہ کر میں نے فون کانوں سے لگا لیا۔
ہیلو ہیلو کہتا رہا،
آگے گھمبیر خاموشی تھی، چند لمحوں بعد یہ خاموشی سسکیوں میں بدل گئی۔
میں جو ابھی تک بستر پہ اوندھے منہ پڑا تھا، سیدھا ہو بیٹھا، تھوڑی دیر پہلے والی نیند سے بوجھل آنکھیں پوری کھل چکی تھیں۔
اسکا فون اگرچہ پانچ سال بعد آیا تھا، پر اسے پہچاننے میں مجھے پانچ منٹ بھی نہیں لگے تھے، اسکی وجہ شاید یہ تھی کہ بچھڑ جانے کے باوجود میں نے یہ پانچ سال اسی کے ساتھ ہی گزارے تھے، ہر لمحہ اسے اپنے قریب پایا تھا، ہر دعا میں اسے یاد کیا تھا۔۔۔
اور ہر پل نا چاہتے ہوئے بھی اسکا انتظار کیا تھا، جانتا تھا واپسی ناممکن ہے، پھر بھی دل اسی کی تمنا کئے ہوئے تھا، اسی انتظار میں میں آج تک اپنا نمبر بھی تبدیل نہ کرسکا تھا اور موبائل بھی۔۔۔۔۔
میرے موبائل پہ کال آنے پہ بیل کی جگہ۔۔۔ محبتاں سچیاں نییں۔۔۔۔ چل پڑتا ہے یہ بھی اسی کی کارستانی تھی، میرے دوستوں نے میری خوب کلاس لی۔۔۔۔ کہ کہیں دس لوگوں میں یہ بجنے لگے تو بندہ کتنا اکورڈ لگتا ہے ختم کر اسے۔۔۔۔
اسکے جانے کے بعد مجھے طعنے دئیے کہ اب تو اس سچی محبت سے جان چھڑا لے کہ اب تو وہ جا چکی۔۔۔۔کئی بار سوچا پر میں ایسا کر نہیں سکا۔
رابی بول رہی ہوں۔۔۔۔۔ اس نے بالآخر سسکیوں کے درمیان کہہ ڈالا۔
جانتا ہوں۔۔۔ میں نے مختصر جواب دیا کہ آج سننے کی بہت طلب ہو رہی تھی۔۔۔۔
فیضی میں آ رہی ہوں۔۔۔۔ اس نے سسکی بھر کر کہا۔
میں یاہووو کا نعرہ لگاتا؛ گر حالات پہلے جیسے ہوتے پر یاد آیا کہ اب تو کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا،
کب۔۔۔ بمشکل پوچھ سکا۔
کل پاکستان کے دوپہر بارہ بجے پہنچ جاؤں گی؛ لینے آ جانا، اکیلے انا ، اور ہاں۔۔۔ اماں کو مت بتانا۔۔۔۔ اس نے تاکید کر کے فون کاٹ دیا۔
میرا دل اچانک سے زیادہ اداس ہو گیا، یقیناً اب وہ بھی کھل کر رو رہی ہو گی۔۔۔۔
میں پھر سے لیٹ گیا، سونا چاہتا تھا پر اب نیند کہاں آنے والی تھی۔
%%%%%%%%%%%%
ہم دونوں تایا چاچا کی اولاد تھے اور اسکے ساتھ ہی وہ میری خالہ کی بیٹی بھی تھی۔۔۔۔ میں خالہ کو خالہ ہی کہتا تھا، چاچی لفظ میں مجھے اپنائیت محسوس نہیں ہوتی تھی، پر چچا کو چچا ہی کہتا۔۔۔۔ اس لفظ اور رشتے دونوں سے ہی سچی محبتوں کی خوشبو آیا کرتی تھی، ہمارا بچپن ایک ساتھ بیتا تھا، بہت خوبصورت بچپن تھا، ایک چھوٹا پر خوبصورت گھر تھا جسکے آنگن میں دو بچے کھیلا کرتے تھے۔۔۔چھوٹی چھوٹی شرارتیں کرتے، ہمارے ماں باپ ہمیں دیکھ دیکھ جیا کرتے تھے۔۔۔۔ دونوں کے ہاں کئی سالوں سے ایک ایک اولاد ہی تھی۔۔۔۔ پھر کئی سالوں بعد اللہ پاک نے مجھے ایک بہن بھی دے دی۔۔۔ پر میری بہن کو مجھ سے زیادہ رابی پیار کرتی، تب مجھے بہت غصہ آتا جب وہ مجھے چھوڑ کر ننھی کے ساتھ کھیلنے لگتی، تب دل چاہتا کہ ننھی مر ہی جائے، جانے کیوں آ گئی ہے۔۔۔۔
رب کو شاید میری بات بہت بری لگ گئی۔۔۔۔ اس نے مجھ سے ننھی کے ساتھ ماں باپ بھی چھین لئے۔۔۔۔
ایک دن ہم دوسرے شہر کسی رشتے دار کی شادی پہ گئے، واپسی پہ کافی دیر ہو گئی، سردیوں کی رات تھی اس روز دھند بھی معمول سے زیادہ تھی، میں کافی تھک چکا تھا سو سو گیا۔۔۔۔
پھر شدید قسم کی چیخیں سنائی دیں، بہت تیز جھٹکے لگے،میرا سر گاڑی کی چھٹ سے بہت زور سے ٹکرایا، میں نے آنکھیں کھولیں۔۔۔۔۔ مجھے کچھ خون دکھائی دیا، سب ادھر ادھر گرے ہوئے تھے۔۔۔۔ بس اتنا ہی دیکھا کہ میری آنکھیں پھر سے بند ہو گئیں، مجھے کوئی ہوش نہ رہا۔۔۔۔ پھر جب آنکھ کھلی تو میں ہوسپٹل کے بیڈ پہ تھا۔۔۔۔ سب سے پہلے مجھے جسکا خیال آ یا وہ رابی ہی تھی۔۔۔۔
میں نے دیکھا کہ میری کھلی آنکھیں دیکھ کر خالہ جلدی سے میرے پاس آ کھڑی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔رابی۔۔۔۔ میں نے سرگوشی کی۔۔۔۔
پھر انکی سوجی ہوئی آنکھوں کا تعاقب کیا تو میرے ساتھ والے بیڈ پہ رابی لیٹی نظر آ گئی، دیکھ کر دل کو قرار ملا پر جس حال میں دیکھا۔۔۔ وہ بہت تکلیف دہ تھا اسکا منہ پٹیوں میں لپٹا ہوا تھا اور ایک ٹانگ پر پلستر چڑھا ہوا تھا۔
بابا اماں، چچا۔۔۔ ننھی ۔۔۔۔۔ میں نے سوالیہ نگاہوں سے خالہ کی طرف دیکھا۔
تمہیں آرام کی ضرورت ہے، سو جاؤ، چلو شاباش آنکھیں بند کرو۔۔۔ دیکھو رابی بھی سو رہی ہے۔۔۔۔
انہوں نے میری پیشانی چوم کر کہا۔۔۔۔
اور میں نے بھی اچھے بچوں کی طرح آنکھیں بند کر لیں۔
دو دن میں میں بالکل ٹھیک تھا، مجھے اور خالہ کو زیادہ چوٹیں نہیں آئی تھیں۔۔۔۔ رابی کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی پر ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ وہ جلد ہی اپنے پیروں پہ چلنے لگے گی۔۔۔۔ مسئلہ زیادہ پیچیدہ نہیں۔
چچا ایک ہفتے سے آئی سی یو میں تھے۔۔۔۔۔ انکی حالت بہت نازک تھی۔
اپنے ماں باپ کے بارے میں پوچھتا تو خالہ بات ٹال جاتی، میرا دل سہم جاتا، کبھی کبھی دل کرتا کہ ضد کر کے پوچھوں پر جب میں انکا ستا چہرہ دیکھتا تو سوچتا کہ وہ پہلے ہی چچا اور رابی کی وجہ سے بہت پریشان ہیں مجھے انکو اور پریشان نہیں کرنا چاہیے۔
چچا کو ہوش آیا تو ہم بھاگے بھاگے گئے، انہوں نے میرے سر پہ ہاتھ رکھا، آنکھوں ہی آنکھوں میں پیار کیا اور میرا ہاتھ خالہ کے ہاتھ میں دے کر بنا کچھ کہے جہاں فانی سے کوچ کر گئے۔۔۔۔ ہم دیکھتے رہ گئے۔۔۔۔ میں رونے لگا تو خالہ نے میرے آنسو صاف کر کے ہونٹوں پہ انگلی رکھ دی۔۔۔۔ میں رونا چاہتا تھا، آخر اتنا پیار کرنے والا بچھڑا تھا جسے اس وقت اپنی اولاد سے زیادہ میری فکر تھی۔۔۔۔ پر مجھے رونے نہیں دیا گیا۔
مجھے خالہ پہ رشک آیا کہ اتنے کڑے وقت میں وہ تنہا کیسے سب سنبھال رہی ہیں۔۔۔۔ اپنے ماں باپ کی بے حسی پہ غصہ بھی کہ جانے ہمیں اس حال میں چھوڑ کر کہاں چلے گئے ہیں۔
جنازہ سامنے پڑا تھا، لوگ آ رہے تھے۔۔۔۔ جا رہے تھے، میری نظریں دروازے کی طرف تھیں کہ بس ابھی اماں بھی آتی ہو گی۔۔۔۔ دل بہت اداس تھا کہ اس صورت کو دیکھے بھی دس دن ہو چلے تھے۔میری نظریں دید کو ترس رہی تھیں۔۔۔۔ آنکھیں بار بار نم ہو رہی تھیں اور میں خالہ کے ڈر سے آنسوؤں پہ بند باندھے بیٹھا رہا۔
تدفین سے فارغ ہو گئے تو سب ہی اپنے گھروں کو چلے گئے، میں اور خالہ بالکل تنہا رہ گئے۔
تب میں نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا کہ آخر اماں بابا کہاں چلے گئے، اتنے دن ہو گئے ہیں۔۔۔۔
تمہارے چچا انہی کے پاس ہی تو گئے ہیں، بہت پیار کرتے تھے ناں اپنے بھائی سے، اسکے بنا رہ نہیں سکتے تھے، تمہارا میرا، رابی۔۔۔۔ کسی کا بھی خیال نہ کیا اور چلے گئے۔۔۔۔۔
خالہ ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر رو دی، ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔
______
میں خالہ کو دلاسہ دینا چاہتا تھا پر کیسے دیتا میں تو خود ٹوٹ گیا تھا بکھر گیا تھا۔۔۔ میری کل کائنات اجڑ چکی تھی، بے جان وجود کو گھسیٹ کر بابا کے کمرے تک لایا اور پھر خود کو لاک کر لیا۔۔۔ بابا کی اماں کی ہر ہر شے کو چھوتا رہا، چومتا رہا اور سینے سے لگا کر رویا۔۔۔۔ایک طرف رکھی کھلونوں کی ٹوکری دیکھ کر میں بے قابو ہی ہو گیا، ننھی میری ننھی سی بہن۔۔۔۔ مجھے معاف کر دینا، میں نے کبھی تمہیں بھائی کا پیار دیا ہی نہیں۔۔۔۔ کاش تم واپس آ جاؤ میں تمہارے لاڈ اٹھاؤں گا قسم سے کندھوں پہ بیٹھا کر سیر کرواؤں گا۔۔۔۔ پلیز آ جاؤ ناں
میں اسکی گڑیا کو سینے سے لگا کر روتا رہا۔۔۔
پھر دیوانہ وار اٹھا، بابا کی الماری کھولی، انکے کپڑوں سے اک خوشبو سی آیا کرتی تھی، میں نے انکی قمیض کو خود سے لپٹا لیا چوما تو ویسی ہی خوشبو آ رہی تھی، مجھے ایسا لگا میرے بابا میرے پاس ہیں۔۔۔ میں قمیض کی بانہوں میں لپٹ کر لیٹ گیا۔۔۔ روتے روتے جانے کب آنکھ لگ گئی۔
آنکھ دروازہ بجنے کی آواز سے کھلی۔۔۔۔ میں آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا، آنکھوں میں عجب دکھن کا احساس ہوا ، بڑے دنوں بعد ایسی نیند آئی تھی۔۔۔۔دروازے کی آواز اس وقت بہت بری لگی۔
دروازہ کھولا تو سامنے خالہ کھانے کی ٹرے پکڑے کھڑی تھیں۔۔۔۔ میں واپس اپنی جگہ پر آ بیٹھا۔
بابا کی قمیض پہ نرمی سے ہاتھ پھیرنے لگا۔
وہ بھی میرے پاس آ بیٹھیں۔۔۔۔ نوالہ بنا کر میری طرف بڑھایا تو میں نے ہاتھ جھٹک دیا۔۔۔۔ نہیں کھانا مجھے۔۔۔ مجھے بابا کے پاس جانا ہے۔۔۔۔ میں چہرہ چھپا کر رونے لگا۔
خالہ نے تڑپ کر مجھے سینے سے لگا لیا۔۔۔۔ نا میری جان ایسا مت بول۔۔۔۔ ہمارے پاس اب بچا ہی کیا ہے، اب تو ہی تو ہے۔۔۔ہمارے جینے کا سہارا۔۔۔۔ ہمارا سائبان۔
ایسے بولنے سے پہلے تجھے میرا اور رابی کا خیال نہیں آیا، کیسے جئیں گے ہم اس معاشرے میں جس عورت کے ساتھ کوئی مرد نہ ہو زمانہ اسے نوچ کھاتا ہے۔۔۔۔ مرد ہونا بہت ضروری ہے چاہے وہ مرد بارہ سال کا ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔۔ خالہ میرا سر چامے جارہی تھیں۔۔۔
اگر تم ہی ہمت ہار جاؤ گے تو رابی کا سوچو کیا ہو گا۔۔۔۔ باپ تو اس نے بھی کھویا ہے اور ابھی جانے کب تک اس نے معذوری کی زندگی جینی ہے۔۔۔۔
تمہیں روتا دیکھے گی۔۔۔۔ تو خود بھی ہمت ہار جائے گی۔ تمہیں تو اس کڑے وقت میں اسکی ہمت بننا ہے۔، نہیں تو تمہاری رابی غم سے ہی مر جائے گی ۔۔۔ بنو گے ناں اسکا سہارا۔۔۔۔ بتاؤ؟
خالہ نے بغور میرا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھا۔
ہاں۔۔۔۔۔ وہ میری رابی ہے، میں ہی اسکا سہارا بنوں گا۔۔۔۔ میں اب کبھی بھی نہیں روؤں گا۔۔۔۔۔ اپنی رابی کو خوش رکھوں گا۔۔۔۔ بہت خوش۔۔۔۔ میں نے خالہ کے سینے میں سر چھپا لیا۔
بس یہی وہ لمحہ تھا جب اک بارہ سالہ فیضی کو گیارہ سالہ رابی سے محبت ہو گئی۔۔۔۔ سچی محبت۔۔۔۔ جس میں آج تک رتی برابر بھی فرق نہیں آیا تھا۔۔۔۔ بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہوا تھا۔۔۔۔ معلوم تھا کہ اب ملن ممکن نہیں۔۔۔۔ پھر بھی میں اسی کو چاہتا رہا کہ سچی محبت میں تو من ملے ہوتے ہیں یہ صرف تن کا قرب کب مانگتی ہے۔۔۔۔
میں اسے کھو کر بھی اسی کا رہا۔
رابی ہسپتال سے گھر آ چکی تھی، میں اور خالہ اسکا بہت خیال رکھ رہے تھے۔
زندگی رفتہ رفتہ معمول پہ آ گئی، پہلے تو کبھی کوئی آ کر حال پوچھ لیتا تھا دلاسہ دے دیتا تھا۔۔۔۔ اب سب مصروف ہو گئے۔۔۔۔ کسی کو ہم یاد نہ رہ گئے۔
قریبی کوئی رشتے دار تھا نہیں جو سدا ساتھ دیتا، اور ایسے حالات میں تو کوئی ہو بھی تو ساتھ نہیں دے پاتا۔۔۔۔ وہ کہاوت ہے نا کہ اندھیرے میں تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔۔۔۔
بس یہ دور ہماری زندگیوں کا تاریک دور تھا۔۔۔۔ جو ہم سب نے بہت ہمت اور حوصلہ سے کاٹا۔۔۔۔
ہمارا گھرانہ خوشحال گھرانہ تھا بابا اور چچا دونوں بہت اچھی نوکری کر رہے تھے۔۔۔۔۔کچھ جوڑ بھی رکھا تھا، اگر صرف دو وقت کی روٹی کا سوال ہوتا تو ہم گھر بیٹھ کر بھی کھا سکتے تھے، پر خالہ کے خواب اور تھے۔۔۔ وہ ہم دونوں کو پڑھا لکھا کر کچھ بنانا چاہتی تھیں۔۔۔۔
اور ان خوابوں کو پورا کرنے کے لیے انہیں کچھ کرنا تھا، گھر بیٹھ کر نہیں کھایا جا سکتا تھا۔۔
بہت سوچ بچار کرنے پہ انہیں اندازہ ہوا کہ وہ صرف شام کی ٹیوشن ہی پڑھا سکتی ہیں، میں صبح سکول چلا جاتا، رابی ابھی اس قابل نہ تھی، خالہ کو ہر صورت گھر پہ رہنا تھا، رابی کو تنہا نہیں چھوڑا جا سکتا تھا، میں سکول سے آ جاتا تب ہمیں کھانا کھلا کر وہ اکیڈمی چلی جاتیں، میں خود اپنا ہوم ورک کرتا اور پھر رابی کو بھی پڑھاتا۔۔۔۔ یوں شام تک وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلتا تب شام میں خالہ آ کر کھانا دیتی، اور پھر سب سو جاتے۔۔۔۔
اسی طرح شب و روز بیت رہے تھے۔۔۔۔
مجھے وقت کے ساتھ اندازہ ہو گیا کہ جو بات مجھ سے کہی گئی تھی وہ رابی کو بھی سمجھائی گئی تھی۔۔۔ گویا خالہ نے خفیہ طور پر دونوں کو ایک دوسرے کو خوش رکھنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔۔۔ میں کبھی جو بھولے سے ماضی کو دہرانے لگتا تو رابی میری بات بدل دیتی، میرا دھیان بٹا لیتی۔۔۔
رابی کو مکمل طور پر صحت یاب ہوتے ایک سال لگ گیا۔۔۔۔ میری محنت اور محبت نے اسکا ایک سال ضائع ہونے سے بچا لیا وہ ٹیسٹ دے کر اگلی کلاس میں ہی بیٹھی۔
ہم بہت خوش تھے کہ اب دونوں ساتھ میں سکول جایا کریں گے، رابی میری نظروں کے سامنے رہے گی، میرا دل پرسکون تھا ورنہ پہلے سکول جا کر بے چین رہتا تھا کہ جانے کیا کر رہی ہو گی، خالہ تو اپنے کاموں میں مصروف ہوں گی وہ تنہا بستر پہ پڑی رو نہ رہی ہو۔۔۔۔
اب خالہ نے ایک سکول کی نوکری بھی کر لی تھی۔۔۔ ہمیں سکول چھوڑ کر وہ اپنے سکول چلی جاتی تھیں۔۔۔ ہم وقت پہ واپس آ جاتے پر وہ اکثر لیٹ ہو جاتی تھیں، پرنسپل نے کوئی نہ کوئی کام انکے لئے نکال کر رکھا ہوتا تھا۔
ہم دونوں گھر آ کر یونیفارم چینج کر کے خود ہی کچھ نہ کچھ بنا کر کھا لیتے تھے، رابی میرے لیے پیار سے چھوٹی چھوٹی ٹیڑھی میڑھی روٹیاں بناتی اور میں آملیٹ بنانے میں اسکی مدد کرتا۔۔۔یا رات کا سالن ہوتا تو وہ گرم کرنے لگتا۔ روٹی ہوتی تو بے مزہ تھی پر اسکی محبت میں مجھے اس سے زیادہ اچھا کھانا کوئی نہ لگتا تھا،
کبھی خالہ کے لیے بھی بنا کر رکھتے۔
وہ آ کر یہ کھانا کھاتی تو اکثر آبدیدہ ہو جاتیں تب ہم دونوں کو گلے لگا لیتی۔۔۔۔ مجھے معاف کر دو میرے بچوں۔۔۔۔ میں تمہارا اس طرح سے خیال نہیں رکھ پا رہی جیسا کہ تمہارا حق ہے۔۔۔۔۔ پر یقین کرو میں یہ سب صرف تم لوگوں کے لیے ہی کر رہی ہوں۔۔۔۔
ہم انکے منہ پہ ہاتھ رکھ کر ان سے لپٹ جاتے۔۔۔۔ پھر انکے آنسو صاف کر کے انہیں گدگدانے لگتے۔۔۔۔ تب وہ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جایا کرتی تھیں۔۔۔ ہمارے پاس انہیں ہنسانے کا بس اک یہی طریقہ تھا ورنہ ہم انکے لئے کر ہی کیا سکتے تھے۔
سکول کے بعد وہ اکیڈمی چلی جاتیں۔۔۔۔ شام میں گھر آ کر کھانا بنانا۔۔۔ صبح کے کپڑے تیار کرنا۔۔۔۔
جب بستر پہ لیٹیتیں تو درد سے کراہ اٹھتیں، تب میں اور رابی اٹھ کر انہیں دبانے لگتے، وہ منع کرتی رہ جاتیں۔۔۔پر ہم باز نہ آتے۔۔۔ ۔ صبح سے شام تک مسلسل کام کرنا پڑتا تھا، اتنی مشقت کی کہاں عادی تھیں۔۔۔ یہ قسمت بھی جانے کیا کیا کھیل کھیل جاتی ہے۔۔۔۔
میں انکا ستا ہوا چہرہ دیکھتا، آنکھوں کے گرد حلقے۔۔۔۔ رنگ بھی مدھم پڑنے لگا تھا۔۔۔ وہ اپنی عمر سے کہیں زیادہ کی دکھائی دینے لگیں تھی۔۔۔۔ دو سال پہلے والا چہرہ تو کہیں کھو ہی گیا تھا اور انکے وہ زندگی سے بھرپور قہقہے تو چاچا کے ساتھ ہی انکی قبر میں جا سوئے تھے۔۔۔۔
تھوڑی دیر میں ہی وہ گہری نیند سو جاتی تھیں۔۔۔۔ تب ہم بھی لیٹ جاتے۔
زندگی کا پہیہ مستقل مزاجی سے گھومتا رہا۔۔۔۔
میٹرک کے پیپرز دینے کے بعد خالہ سے پوچھا کہ میں محلے کے چھوٹے بچوں کو ٹیوشن پڑھا لیا کروں تو وہ بہت برہم ہوئیں، تمہاری ابھی عمر نہیں ہے ان کاموں میں پڑنے کی، اپنی پڑھائی مکمل کرو تم، پھر ساری زندگی کمانا ہی ہے۔۔۔پڑھانا ہی ہے تو رابی کو پڑھا دیا کرو، میں دیکھ رہی ہوں وہ بہت لا پرواہ ہوتی جا رہی ہے۔۔۔میں نے تابعداری سے سر ہلا دیا۔
پھر میں جی جان سے اسے پڑھانے لگا، ویسے تو وہ جان چھڑاتی تھی پر میری بات بھی نہیں ٹال سکتی تھی سو اسے پڑھنا ہی پڑتا تھا۔
میرا رزلٹ آیا تو میں نے اپنے علاقے میں ٹاپ کیا تھا، خالہ بے حد خوش تھیں، اپنے خواب پورے ہونے کی امید جاگ اٹھی تھی اور اسی خوشی میں انہوں نے رابی کی اچھی خاصی کلاس بھی لے ڈالی، اسے نالائق اور کام چوری کے طعنے بھی دے ڈالے۔۔۔۔
وہ جو میری خوشی میں دل و جان سے شریک ہونا چاہتی تھی، اتنی باتیں اتنے طعنے سن کر رونے دھونے بیٹھ گئی اور مجھ سے بھی خفا ہو گئی۔۔۔۔
شام تک روتی رہی، خالہ نے پرواہ نہ کی، پر میں اسے روتا نہیں دیکھ سکتا تھا، خالہ سے آنکھ بچا کر اسکے پاس جا پہنچا۔۔۔۔ اس نے منہ پھیر لیا۔۔۔۔
اچھا، اب آئندہ اچھے نمبر نہیں لوں گا۔۔۔۔ بس تم ناراض نہ ہو مجھ سے۔۔۔۔ تمہیں پتہ ہے ناں۔۔ میں تم سے بات کئے بنا نہیں رہ سکتا۔۔۔۔ میں نے چھوٹتے ہی کہہ دیا
نہیں تم ایسا نہیں کرو گے۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔
میں تمہیں ہمیشہ سب سے آگے دیکھنا چاہوں گی، سمجھے تم۔۔۔۔ اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بہت مان سے کہا۔
اچھا ٹھیک۔۔۔۔ اب تم میری مرضی سے پڑھو گی تو دیکھنا تمہارے مجھ سے بھی زیادہ نمبر آئیں گے۔۔۔ میں نے اسکا موڈ اچھا کرنے کو کہا۔
نہیں مجھے تم سے زیادہ نمبر نہیں لینے، مجھے تم سے اک قدم پیچھے رہنا اچھا لگتا ہے، ایک نمبر کم لوں گی تم سے۔۔۔ وہ چہک کر بولی۔
پاگل ہو تم تو۔۔۔۔ میں ہنس دیا۔
ہاں میں پاگل ہوں۔۔۔۔ اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
وہ پاگل ہی تھی، میرے پیار میں۔۔۔۔ ہم دونوں اک دوسرے کو چاہتے تھے پر زبان سے کہنے کی ابھی عمر نہ تھی سو بس آنکھیں ہی پڑھا کرتے تھے۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...