فارس بیٹا۔۔۔ نہیں۔۔۔!!
فارس کا ایک بار پھر ہاتھ اٹھا۔
لیکن الماس بیگم نے آگے بڑھ کے روک دیا۔
تو سختی سے آنکھیں بند کیے اس نے اپنا ہاتھ نیچے کیا۔
میرا بھاٸی۔۔۔مجھ سے چھینا انہوں نے۔۔۔ صرف۔۔ اس جاٸیداد کی خاطر۔۔۔۔!!
فارس کا لہجہ نم ہوا۔
میں جانتا تھا۔۔۔
میرا دل بھی نہیں مانتا تھا۔۔۔ کہ عفان ۔۔۔ سوساٸیڈ۔۔۔ کر سکتا ہے۔۔۔!!
آنکھیں بھی نم ہوٸیں۔
میں۔۔۔ میں نے بہت دعاٸیں مانگیں تھیں اماں۔۔۔!!
عفان۔۔۔ کے لیے۔۔۔۔!!
ہمارے عفان کے لیے۔۔۔
لیکن۔۔۔۔ نہیں قبول ہوٸیں۔۔
الماس بیگم نے فارس کے آنسو صاف کیے۔ اور اسکے چہرے پے پیار س ہاتھ پھیرا۔
اور جب۔۔ میں اس کے پاس گیا۔۔۔
he was dead…..
وہ روتا ہوا گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔
جیسے آج ہی ہارا ہو اپنے عکس کو۔
اسکے ہاتھ میں ۔۔۔۔ اسکی مٹھی میں ۔۔۔ مجھے ۔۔وہ خط ملا۔۔۔
جو۔۔۔ میرے خلاف بھی انہوں نے سازش کی۔
اس وقت مجھے نہیں پتہ تھی اس خط کی سچاٸی۔۔۔
اور۔۔میں بھی۔۔ اس خط سے گمراہ ہوا۔
وہ خط۔۔۔عفان کے نام تھا۔۔۔
نور کی طرف سے۔۔۔۔
جس۔۔۔میں نور نے۔۔۔ اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔۔
فارس کی نظریں نور پے اٹھیں۔
نور کے آنسو بندھ توڑ کے بہے۔
فارس سے محبت کا اظہار۔۔۔
اور عفان کو ۔۔۔ ہماری زندگی سے نکل جانے کا خط تھا وہ۔۔۔!!
دھیمے لہجے میں کہا۔
اور سازش۔۔۔ ان کی تھی۔۔۔!!
کبیر شاہ کی طرف دیکھا۔
اور اس راز کا سرا بھی مجھے۔۔ انہی کے بیٹے۔۔ ابرار نے پکڑایا۔
جس رات آپ ۔۔۔
کبیر شاہ کی جانب اشارہ کیا۔
ابرار سے راز و نیاز کر رہے تھے۔۔
سب سن لیا تھا میں۔۔ نے۔۔۔۔!!
فارس نے ان پے ایک اور بم پھوڑا۔
کبیر شاہ کو وہ رات یاد آٸی۔ جب ۔۔ ابرار نے عفان کےاس دنیا سے جانے کے بعد اپنا رشتہ جوڑنے کی بات کہی تھی۔
بابا ۔۔۔۔! آپ۔۔بات کریں۔۔ تایا سے۔۔۔ کہ میری اور عین کی شادی کروا دیں۔
پاگل ہوگٸے ہو کیا۔۔۔؟؟ ابھی فان کو گٸے دن ہی کتنے ہوۓ ہیں۔۔۔؟؟ جو یہ نیا شوشہ چھوڑنے لگے۔۔۔ ہو۔۔۔؟؟ تھوڑا صبر سے کام۔لو۔۔۔!!
تمہارے بھاٸی کا یہ کھیل رچایا ہوا ہے۔۔۔ آگے کی لاننگ بگی اسے کرنے دو۔۔۔!!
کبیر شاہ کے کہے الفاظ پے فارس بہت سخت کنفیوژن کا شکار ہوا تھا۔
ایک طرف عفان کی موت تو دسری طرف وہ خط تھا۔ جو عن کو غلط ثابت کر رہا تھا۔
اور ایک طرف اا باپ بیٹے کی گفتگو۔۔
بھاٸ۔۔۔۔کونسا بھاٸی۔۔۔؟؟ اور کونسی پلاننگ۔۔۔؟؟
سب جاننے کے لیے۔۔پھرمیں نے ایک پلاننگ کی۔۔۔!!
اس پلاننگ کے تحت۔۔۔ میں نے یہی باور کروایا۔کہ نور کو ہی میں عفان کی موت کا زمہ دار سمجھتا ہوں۔
ایک نظر پھر نور پے ڈالی جو اب خاموش کھڑی سب سن رہی تھی۔
نور کو شادی کے دن۔۔ کڑنیپ کرنے کی پلاننگ بھی جان چکا تھا۔
جس میں فاریہ بھی شامل تھی۔
چاہتا تو ۔۔ ادھر ہی روک سکتا تھا۔
لیکن۔۔۔ مجھے۔۔ اس تیسرے تک پہنچنا تھا۔
نور کو ابرار نے کڈنیپ کیا۔
اس دن بھی وہ تیسرا سامنے نہ آیا۔
فارس کا ہر لفظ عین کے دل کے پار ہو رہا تھا۔
مطلب وہ اس سب سے انجان تھی۔
اسے پتہ ہی نہ چلا۔
اور نور کو اس دن۔۔۔۔ میری وجہ سے۔۔ تکلیف ہوٸی۔۔۔!!
شرمندہ نظروں سے نور کو دیکھا۔
نو نے نفی میں گردن ہلاٸی۔ آنسو آنکھ سے چھلکا اور گال پے گرا۔ تو منہ پھیر لیا۔
اس دن بھی میں تیسرے تک نہ پہنچ سکا۔
لیکن۔۔۔۔۔ میں جانتا تھا۔۔ کوٸی۔۔ اور ہے۔۔۔ کوٸی تیسرا۔۔۔ جو ہم۔۔پے نظر رکھے ہوٸے ہے۔۔۔!!
اس نے۔۔ ہم۔۔پے۔۔ حملہ بھی کیا۔۔!!
مجھے مارنا چاہا۔۔۔!!
لیکن۔۔ نور۔۔۔ نے میرے حصے کے وہ زخم بھی خود کھاٸے۔
لہجے میں درد تھا۔
اور پھر وہ تیسرا۔۔۔ میرے سامنے آیا۔۔۔
اس روپ میں ۔۔۔۔
اپنی پاکٹ سے ایک تصویر نکال کے سامنے کی۔
جو ابرار کے والٹ سے اسکی اور ارباز کی تصویر گری۔۔ جو فارس کے ہاتھ لگ گٸی۔
ایک ہی شکل کے دو انسان۔۔۔
فارس حیرت میں پڑ گیا۔
پھر اس نے زیان کی مدد سے اس کیس کو بھی solve کیا۔
پولیس کی بھی مدد لی۔ اور سارا باٸیو ڈیٹا نکلوایا۔
اور اس میں ۔۔ پتہ چلا۔۔۔
کہ ارباز۔۔ کبیر شاہ کا بیٹا ہے۔۔۔!!
ابرار کا جڑواں بھاٸی۔۔۔!!
فارس ایک ایک کر کے سارے راز کھولتا جا رہا تھا۔
سبھی کی آنکھیں نم تھیں۔
اب جب۔۔۔ دمن کا پتہ چل ہی گیا تھا۔ تو۔۔۔ اسے پکڑنا بھی تھا۔۔۔
اور۔۔پھر۔۔ جال بچھایا ہم نے۔۔۔۔!!
فارس کے کہتےہی کبیر شاہ خود سے نظریں نہ ملا پاٸے۔
دوسری طرف ارباز کی حیرت سے آنکھیں کھلی رہ گٸیں۔
مطلب وہ۔۔۔ ٹریپ ہوا تھا۔۔۔۔۔!! جبکہ اسےلگا۔۔ اس نے انکو چکما دیا تھا۔
یہ۔۔۔یہ جانتا تھا۔۔۔ نور۔۔ ہی میری کمزوری ہے۔۔۔!!
عین کی ہارٹ بیٹ مس ہوٸی۔
یہ۔۔مجھ پے اٹیک نہیں کر سکتاتھا۔۔۔
کیونکہ سامنے سے وار کرنا بزدل کے بس کی بات ہی نہیں۔۔۔
اس نے وہی کیا۔۔ جو اسے کرنا تھا۔
اس نے پھر سے نور کو نشانہ بنایا۔
یعنی ہر بار۔۔ ہمیں۔۔۔ ہی۔۔۔ انہوں نے خود جان بوجھ کے۔۔۔۔!!
نور بس سوچ کے رہ گٸ۔
یہ نور کو لے کے گیا۔ اور یہی اسکا آخری وار تھا۔
اور۔۔ یہ پکڑا گیا۔۔۔!!
فارس نے اسے گریبان سے پکڑ کے اٹھایا۔ اور سامنے کھڑا کیا۔
الامس بیگم نےآگے بڑھ کے اسے دیکھا۔
تم۔۔بھی۔۔تو ۔۔اسی۔۔ خاندان۔۔کے بیٹے۔۔۔ تھے ناں۔۔ پھر کیوں۔۔ مجھ سے میرا بیٹا چھینا۔۔۔۔!!
بیٹا۔۔۔۔ میں۔۔۔ اس خاندان کا۔۔۔۔؟؟
ہاہاہہاہاہہا۔۔۔۔۔ ارباز پاگلوں کی طرح ہسننے لگا۔
آج۔۔۔ کہاں۔۔کھڑا ہوں۔۔۔ میں ۔۔اس خاندان کی جہ سے۔۔۔؟؟
ایک قاتل بن گیا۔۔ میں اس خاندان کی وجہ سے۔۔۔
یہ۔۔۔میرا باپ۔۔ہے۔۔۔ جس نے۔میرے وجود کو ہی چھپا دیا۔۔۔
ہر رشتے سے محروم کر دیا۔۔۔
اورجب۔۔۔ بیٹا۔۔۔ جاتا ہے ناں۔۔ چھوڑ ۔۔۔کے۔۔ کتنا۔۔۔۔ درد۔۔ہوتا۔۔ہے۔۔۔ عفان کے۔۔۔ جانے کے بعد پتہ چلا ناں۔۔۔۔!!
ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔!
وہ پاگلوں کی طرح ہنسے جا رہا تھا۔
بیٹا۔۔۔! ادھر دیکھ۔۔۔ میں تیری ماں۔۔۔ ہوں۔۔۔!! مجھے معاف کر دے۔۔۔ مجھے۔۔ نہیں پتہ تھا۔۔۔ تم۔۔ زندہ ہو۔۔۔!! اس شخص نے جھوٹ بولا۔۔۔ مجھ سے۔۔ کہ۔۔ ایک بیٹا۔۔ مرا ہوا۔۔ پیدا ہوا ہے۔۔۔!!
دردانہ بیگم کا رو رو کے برا حال تھا۔٠
وہ زمین پے بیٹھے اپنے بیٹے ارباز سے معافی مانگ رہی تھیں۔
نہیں۔۔ کبھی۔۔۔نہیں۔۔۔ کروں گا معاف۔۔۔
وہ ہذیانی انداز میں چینخا۔ او دردانہ بیگم کو زور سے دھکا دیا۔ وہ بمشکل بچیں۔
فارس نے فوراً انہیں سہارا دیا۔
اوۓ۔۔۔ !!
پر اسرار انداز میں فارس کو پکارا۔
اگر اپنی اور اپنے خاندان کی جانبچانا چاہتا ہے۔۔۔ تو ماردے مجھے۔۔۔۔!!
ورنہ۔۔۔ میں ماردوں گا سب۔۔کو۔۔۔ ایک ایک کر کے۔۔۔۔!!
ارباز ابھی بھی باز نہ آیا تھا۔
فارد آگے بڑھتا کہ زیان نے روک دیا۔
نہیں بھاٸی۔۔۔!! اسے قانون سزا دے گا۔۔۔
اس نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا۔ جو رکارڈ بھی ہو چکا ہے۔۔
زیان نے ٹیپ ریکارڈر فارس کے سامنے کیا۔
ارسم آنے والا ہو گا۔ اسے بھی اور کبیر شاہ کو بھی گرفتار کرنے۔۔۔۔!!
ہمارے عفان کی موت کا کھیل کھیلنے والا ماسٹر ماٸنڈ تو یہی ہے۔۔۔۔۔!!
زیان کے ہرلفظ میں نفرت اور حقارت تھی۔
اتنا بڑا ظلم۔۔۔۔ کیوں کیا۔۔۔؟؟ خود پے بھی اور ۔۔۔ اپنے بچوں پے بھی۔۔۔؟؟
کیا ملا یہ سب کر کے۔۔۔؟؟ کبیر شاہ۔۔۔!!
دلاور صاحب کی غصے سے بھری آواز آٸی۔
انہیں آج تک کسی نے اتنے غصے میں نہیں دیکھا تھا۔
بھاٸی۔۔۔۔صاحب۔۔۔۔ !! معاف۔۔۔۔!
ہاتھ جوڑنے چاہے۔
معافی۔۔۔؟؟ کس کس گناہ کی معافی مانگو گے۔۔۔؟
ساری خطاٸیں معاف بھی کر دو۔۔۔ تو۔۔۔ اپنے بیٹے۔۔۔ کا قتل کیسے معاف کروں۔۔۔؟؟کہتے کہتے انکی آنکھیں نم ہوگٸیں۔
ارسم پولیس فورس کے ساتھ وہاں پہنچ چکا تھا۔
بھاٸی۔۔۔ آپ۔۔آخری بار۔۔۔!! معاف۔۔۔
پولی نے انہیں حراست میں لیا۔
وہ رونے لگے۔دلاور شاہ نے منہ پھیر لیا۔
میرے۔۔۔ میرے بیٹے کو۔۔۔ چھوڑ دو۔۔۔۔!! اسکی کوٸی غلطی نہیں۔۔۔۔۔ سارا ۔۔۔کچھ۔۔ میں نے کیا ہے۔۔۔۔ لالچ ۔۔۔میرے من میں آیا تھا۔۔۔
اس بیچارے کی تو ساری زندگی ہی۔۔۔ انگاروں پے گزری ہے۔۔۔ اس کے۔۔ اسکے دل۔میں نفرت کی آگ۔۔۔ بھی میں نے ہی لگاٸی۔۔۔ سزا دینی ہے۔۔تو مجھے۔۔ دے دو۔۔۔ میرے۔۔ بیٹے کو چھوڑ دو۔۔۔!!
آج۔ وہ واقعی ایک ہارے ہوٸے باپ لگ رہے تھے۔سوری مسٹرکبیر شاہ۔۔۔۔ !! پپ کے بیٹے نے قتل کیا ہے۔۔۔یہ قانون کامجرم۔ہے۔۔۔ اور آپ کو بھی۔۔ آپ کے کیے کی سزاملے گی۔۔۔!!
ارسم کے اشارے پے ارباز اور کبیر دونوں کو حراست میں لیا گیا۔
ارباز نے موقع یکھتے ہی ارسم کی گن کو ہاتھ میں لے لیا۔ااور پیچھے ہٹا۔
نہ۔۔۔نہ۔۔۔ اتنی آسانی سے ہاتھ۔۔ نہیں آنا۔میں نے۔۔۔۔!!
وہ زخمی تھا۔ لیکن ابھی بھی ہمت نہیں ہارا تھا۔
ارباز۔۔۔ ڈونٹ ڈو۔۔ دِس ۔۔ خود ک قانون کے حوالے کردو۔
فارس او زیان بھی چوکنا ہوٸے۔
ہاں۔۔ کیا۔۔میں نے قتل۔۔۔۔ قاتل ہوں۔۔ میں۔۔ !!
وہ ہزیانی انداز میں چلایا۔
لیکن۔۔مجھے۔۔قاتل۔۔بنایا۔۔۔ میرے باپ نے۔۔۔۔ان سب نے۔۔۔!!
ارباز نےسب کی طرف اشارہ کرتے غصے سے کہا۔
ارباز گن نیچے کرو۔۔۔
فاارس نے دھمکی ددی۔ اور آگے بڑھا۔
بہت چالاکی کی میرے ساتھ تم نے۔۔۔۔!! میرے لیے جال۔بچھایا۔
مجھے۔۔۔ پھسایا۔۔۔۔!!
ابرار میرا۔۔ بھاٸی۔۔۔ !! اسے بھی تم نے مارا۔۔۔
میرے سامنے۔۔۔ میں اسے۔۔ مار کھاتا دیکھتا رہا۔۔۔ میں جانتا تھا۔۔ تم مجھ تک پہنچنے کے لیے یہ سب کر رہے ہو۔۔۔اس لیے۔۔ میں نے بھی ارادہ بدلا۔
تمہیں مارنے کا پلان بدلا۔
ہاں۔۔ عفان کے بعد تمہارا نمبر تھا۔۔۔
ارباز کے الفاظ الماس بیگم کے دل کو لگے۔
وہ اب مزید کسی کو نہیں کھو سکتی تھیں۔
لیکن۔۔۔ ہر بار تو بچ گیا۔۔۔۔
پھر میں نے سوچا۔۔۔ فسعاد کی جڑکو ہی ختم کر دیتا ہوں۔۔۔
میں نے۔۔اس لڑکی کو مارنے کا پلان بنایا۔
جہاں۔۔ تمہیں۔۔ یہ لگا۔۔ کہ تمہیں۔۔ مارنا چاہتا ہوں۔۔
میں نے پلان بدل دیا۔
اور ۔۔۔ا سے کڈنیپ کیا۔۔۔۔ !
اشارہ اب کی بار عین کی طرف تھا۔
مارنے ہی والا تھا کہ۔۔۔ یہ۔۔ پھر پہنچ گیا۔۔۔ بچانے۔۔!
نجانے کیسے۔۔۔ لیکن۔۔۔ اسے خبر ہوگٸ۔۔۔۔
ہر بار کی طرح اس نے مجھے ہرا دیا۔
ارباز کوافسوس ہوا۔
میں نے گاڑی کے بریکس فیل کیے۔یہ پھر بھی بچ گیا۔
گھر والوں نے فارس کی جانب دیکھا۔
ہر بار۔۔ موت کے منہ سے بچ کے نکلا ہے یہ۔۔۔!!
عفان جو۔۔۔ ایک جھٹکے کی مار تھا۔۔
اس شخص نے مجھے اتنے ہی جھٹکے دٸیے۔
اب۔۔ بس۔۔۔ اور ۔۔ نہیں۔۔۔!!
ارباز جیسے تھک ہار گیا تھا۔
ارباز۔۔۔۔!! میرے بیٹے۔۔۔۔!!
دردانہ نے آگے بڑھنا چاہا۔
وہیں۔۔ کھڑی رہیں۔۔!! کوٸی ماں نہیں میری۔۔۔!!
ارباز نے ان پے بھی گن تانی۔ تو وہ ناچاہتے ہوٸے بھی رک گٸیں۔
بہت۔۔ درد دیٸے ہیں۔۔ اس زندگی نے۔۔۔۔!!
اب۔۔اور نہیں۔۔۔!!
میں مر تو جاٶں گا۔۔ لیکن۔۔ خود کو تم۔لوگوں کے حوالے ہرگز نہیں کروں گا۔
ارباز کی بات پے سبھی نے دل دہلا کے اسکی طرف دیکھا۔
ایک گولی۔۔۔ !! فارس کی جانب دیکھا۔
ایک گولی تھی۔۔ جو عفان۔۔ کے دل کے پار کی تھی۔۔۔
جانتے ہو کیسے۔۔۔؟؟
ارباز کے پراسرار انداز پے سبھی کے رونگٹے کھڑے ہوۓ۔ کبیر شاہ کو ارباز کا انداز ڈرا گیا۔
ایک گولی۔۔۔ اور کام تمام۔۔۔
کہتے ہی ساتھ گولی چلاٸی۔
فارس بھاگا اسکی طرف۔
زیان بھی اسکی طرف لپکا۔
کبیر شاہ کو لگا ان کا سانس رک گیا ہے۔
گولی ارباز نے اپنے دل کے مقام پے چلاٸی تھی۔
ہاتھ سے گن چھوٹی۔
اور خون کی ایک لہر نکلی جہاں اس نے گولی ماری
اور وہ نیچے گرتا چلا گیا۔
فارس نے آگے بڑھ کے اسے تھامنا چاہا۔
ارباز۔۔۔ ارباز۔۔ آنکھیں کھولو۔۔۔۔!!
ارباز کے چہرے پے ایک مسکراہٹ تھی۔
اسے لگا۔ عفان اسکے پاس کھڑا اسے مسکرا کے فیکھ رہا ہے۔۔۔۔
کجیسے وہ اسے لینے آیا ہو۔۔۔!!
سبھی اشک بار تھے
دردانہ شاہ کی چینخ پکار اونچی ہوگٸ۔
کبیر شاہ زمین پے گرتے چلے گٸے۔
بھاٸی ہاسپٹل۔۔۔۔!!
زیان کی آواز پے فارس نے ارباز کو اٹھانا چاہا۔
لیکن۔۔ ارسم نے روک دیا۔ جس نے ارباز کی نبض چیک کی تھی۔
He is no more.
الفاظ نے سب پے ایک سکتہ طاری کر دیا۔
وہ جاتےجاتے ایک بار پھر سے۔ سب کو ثابت کر گیا۔۔ کہ وہ ارباز ہے۔۔ اکیلا رہا اکیلا ہی چلا گیا۔
یوں۔۔ زندگی کا ایک اور باب ختم ہوگیا۔۔ ایک اور موت پے۔۔۔
یہ ایک گھر کی نہیں۔۔ تقریباً ہر گھر میں ہی دولت جاٸیداد کے لیے اپنے اپنوں کا جینا حرام کیے ہوٸے ہیں۔۔ سازشیں چلتے ہیں۔۔
وار کرتے ہیں۔۔
قتل کرتے ہیں۔۔
کتنی ماٸیں ان جاٸیدادوں کے لیے پنے بیٹے قربان کر چکی ہیں۔۔٠
لیکن۔۔ پھر بھی۔۔ انسان کا لاچ ختم نہیں ہوتا۔
یہ نہیں سمجھتے کہ یہ سب یہیں رہ جانا ہے۔۔۔
جاتے ہوٸے صرف اپنے اعمال ساتھ لے کے جانے ہیں۔۔
اللہ ﷻکا نام اور مُحَمَّد ﷺ کا کلمہ۔۔۔!!
یہی کل کنجی ہے۔۔۔
پھر بھی دنیاوی اور مادی چیزوں کے لیے قتل و غارت کرنے سے باز نہیں آتے۔
ارباز کا کردار۔۔ بھی ان میں سے ہی تھا۔
جہنیں۔۔ نہ دنیا میں سکون نصیب ہوا۔۔۔ او نہ آخرت میں۔۔۔
براٸی کاانجام ہمیشہ برا ہی ہوتا ہے۔۔
اور بچے تو ماں باپ سے ہی سیکھتے ہیں۔۔ ارباز نے بھی وہی سیکھا جو باپ نے سکھایا۔
اپنے فاٸدے کے لیے۔۔ دولت کی لالچ کے بھینٹ چڑھا فیا انی اولاد کو۔۔
اور ایسے والدین کے پاس سواٸے پچھتاوے کے اور کچھ نہیں بچتا۔۔۔
وقت گذرتے ہوٸے زخم تو بھر دیتا ہے۔۔ لیکن۔۔ انکا درد ساری زندگی کے لیے ساتھ رہ جاتا ہے۔
ارباز کے جانے کا درد دردانہ شاہ کو۔۔
اور عفان کے جانے کا درد الماس بیگم کو ۔۔۔
کاش۔۔۔ کبیر شاہ یہ کھیل نہ کھیلتا تو۔۔ سب ٹھیک ہوتا۔۔
کاش۔۔
یہ۔۔۔کاش۔۔۔ہی تو۔۔ ہماری زندگیوں میں رہ جاتا ہے۔۔
کبیر شاہ کو7 سال کی سزا ہوٸی تھی۔
دردانہ شاہ اورفاریہ ابرار کے ساتھ حویکی چھوڑ جا چکے تھے۔
لیکن۔۔۔ انکا جو حق بنتا تھا۔ دلاور شاہ نے اس سے کہیں زیاہ انہیں دیا۔ تا کہ ۔۔ وہ اپنی زندگی کو آسانی کے ساتھ گزر سکیں۔
اور یہ صرف انہوں نے اپنی مرحوم بہن کی محبت کے لیے کیا تھا۔
دعا اور زیان واپس جا چکےتھے۔
دعا ویسے ہی ہاسٹل میں تھی ۔ اور زیان فلیٹ میں۔
دعا اپنی پڑھاٸی کر رہی تھی تو زیان اپنی جاب نبھا رہا تھا۔
عین اور فارس کے بیچ سب صحیح تو ہو گیا۔۔لیکن ایک خلش تھی جو رہ گٸ تھی۔
جب سے سب ٹھیک ہوا تھا۔
عین نے محسوس کیا تھا۔ وہ عین سے جان بوجھ کے دور دور رہتا ہے۔ اور اسے اگنور کرتا ہے۔
یہاں تک کہ۔۔ وہ سونے کےلیے اسٹڈی روم کا استعمال کرتا تھا.اور گھر میں کوٸی نہیں جانتا تھا۔عین نے بھی اسے نہ چھڑا۔
اصولاً عین کو یہی لگتا تھا۔ کہ فارس کو اس سے بات کرنی چاہیے۔
یعنی پہلا قدم فارس کو بڑھانا چاہیے۔
جتنی عین کی یہ خواہش تھی۔ فارس اس سے اتنا ہی دور ہو رہا تھا۔
جس سے عین کو تکلیف ہور رہی تھی۔
اور عین نے اس سے خود بات کرنے کا سوچا۔
لیکن۔۔
فارس اپنےکسی خاص کام کے لیے شہر سے باہر چلا گیا۔اور یہ سب اچانک ہوا۔
کوٸی اب تک نہ جان سکا۔۔ کہ وہ کام کیا کرتا ہے۔۔
کیونکہ اسے لندن سے یہاں شفٹ ہوٸے کافی عرصہ بیت گیا تھا۔
لیکن وہ شہر کیوں جاتا تھا۔۔؟؟ کیاکرتا تھا۔۔ کوٸینہیں جانتا تھا۔
زیان نے اپنا یونی میں میں پڑھانے کےبارےمیں گھر والوں کو بتا دیا۔
لیکن اپنی سیکرٹ جاب کا زکر نہ کیا۔
فارس کو گٸے پندرہ دن ہوگٸے تھے۔
اور عین بےکل سے حویلی میں ادھر سے ادھر ہو رہی تھی۔
تم ۔۔۔جانتی ہو۔۔۔میں جب بھی تمہارے قریب آتا ہوں۔۔مجھے تمہاری دھڑکنوں کا شور سناٸی دیتا ہے۔۔۔
اور میں فارس شاہ۔۔۔ ان دھڑکنوں کا محافظ ہوں۔۔۔!
کہتے ہوٸے وہ ایک پیا بھرا لمس اسکے ماتھے پے چھوڑ گیا۔
جھولے پے بیٹھے فارس کے کہے الفاظ اس کی سماعت سے ٹکراٸے۔
تو ہاتھ بے اختیار ماتھےپے گیا۔
ایک آنسو آنکھ سے چھلکا۔
اور گود میں گرا۔
ان پندرہ دنوں میں وہ کیسے مرجھاٸی تھی۔
الماس شاہ کی آنکھوں سے چھپا نہ تھا۔
اور آج ہی تو انکی فارس سے بات ہوٸی تھی۔
اور الماس شاہ نے اسے واپس آنے کو کہا تھا۔
وہ تو آنا چاہتا تھا۔ لیکن۔۔ وہ نور کا سامنا نہیں کر پا رہا تھا۔
بدلے کی خاطر اس نے نور سے نکاح کیا۔
لیکن۔۔جب پتہ چلا کہ وہ بے قصور ہے۔۔ تو اس نے اپنے رب کے آگے سجدہ کیا تھا۔ کہ اس نے نور کو کوٸی تکلیف نہیں پہنچاٸی۔
لیکن پھر بھی۔۔ کہیں نہ کہیں وہ نور کو درد دے گیا تھا۔۔
اس لیے اس نے اپنے اور عین کے بیچ ایک فاصلہ قاٸم کر دیا تھا۔
وہ چاہتا تھا وہ اسے پکارے۔
یہ جانے بنا کہ وہ تو لڑکی ہے۔۔ کبھی جس نے اپنے حق کےلیے کبھی کچھ نہ بولا۔ وہ کیسے اسے بلاتی۔۔۔؟؟
وہ یہاں نہیں تھا۔ لیکن ایک ایک منٹ کی رپورٹ رکھتا تھا۔
حویلی کی سیکیورٹی پے وہ کوٸی کمپروماٸز نہی ںکر سکتا تھا۔
ابھی وہ الماس بیگم کی باتوں پے سوچ رہا تھا۔ کہ موبٸیل بجا۔
اور اسکا دھیان بٹا۔
یس۔۔۔ چارلی۔۔۔سپیکنگ۔۔۔۔!!
یس۔ گڈ۔۔۔۔!! آٸی وِل چیک۔۔
ویلڈن۔۔۔!!
چہرے پے اسکے ایک چمک تھی۔
فون بند کرتےہی ای میل چیک کی۔
اور اپنے نٸے کیس کے بارے میں تمام ڈیٹیلز اسے مل چکیں تھیں۔
اب اسکا کام اور آسان ہوگیا تھا۔
ہاں۔۔ وہ کوٸی فوجی نہیں تھا۔۔
وہ کوٸی سیکریٹ ایجنٹ بھی نہیں تھا۔
لیکن۔۔۔ کام اس کے اس ملک کے لیے ہی تھے۔
جب پہلی بار ایک ماں کے لیے اس نے اس کے بیٹے کی موت کا بدلہ لیا تھا۔۔۔
انسانیت ابھی مری نہیں تھی۔
یہاس نے ثابت کیا تھا۔
وہ بلیک چارلی تھا۔۔۔
کالی دنیا کے اندر گھس کے کالے کرتوتوں والوں کو موت کے گھاٹ اتارنا ہی اسکا مقصد تھا۔
بنا کسی ریوارڈ کے۔۔۔۔وہ لوگوں کیمدد کرنے والا۔۔۔ بلیک چارلی تھا۔
جو رات کے اندھیروں میں مجبور اور مفلس لوگوں کی مدد کرتا تھا۔
اور زیان اس سب میں فارس کا بھرپور ساتھ دیتا تھا۔
دونوں ہی اپنے وطن پاکستان کے سچے محبِ وطن تھے۔
جاری ہے