“ویسے مجھے تم سے یہ امید نہ تھی انشاء ، اس رات چھپ کر ہماری باتیں سن بھی رہی تھیں اور دبے پاؤں چلی بھی گئی افسوس تم تو حق پر ہوتے ہوۓ اپنا حق نا استعمال کرپائی تف ہے تم پر افسوس ۔۔۔
علیزے ذرہ بھی شرمندہ نہ ہوئی تھی الٹا ڈھٹائی سے ہنس رہی تھی ۔۔۔
اب کے علیزے کی بات پر وہ شاک ہوکر اسے دیکھنے لگی ۔۔۔
“کچھ کہوگی نہیں اپنی صفائی میں ۔۔۔ کسی کی باتیں چھپ کر سننا بری بات ہے ۔۔۔ علیزے نے اسے چڑایا ۔۔۔
علیزے کی بات پر وہ تلملا اٹھی اس سے پہلے کچھ کہتی عیان اسے اتا دکھائی دیا ۔۔۔
“شکر ہے تم اگۓ ورنہ میں تو بیزار ہوکر چلی جاتی ۔۔۔ علیزے نے ایک ادا سے بال جھٹکتے ہوۓ کہا ۔۔۔
“ہممم فائل مل نہیں رہی تھی ۔۔۔ عیان انشاء کو دیکھتا گاڑی اسٹارٹ کی ۔۔۔ جواب علیزے کو ضرور دیا اس نے پر نظر انشاء پر تھی ۔۔
مرر انشاء پر فوکس کرتا وہ گاڑی چلا رہا تھا ۔۔۔ مسلسل وہ الجھن کا شکار تھا ۔۔۔
انکل وحید کے گھر اندر تک چھوڑنے گیا ۔۔۔ اتفاق سے انکل بھی بیٹھے تھے ان سے مل کر واپس ایا ۔۔۔
اس وقت وہ دونوں اکیلے تھے ۔۔۔
“علیزے ۔۔۔ عیان نے پکارا ۔۔۔
“ہمممم۔۔۔ علیزے نے اس کے ماتھے پر شکن دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
“انشاء اور تمہارے بیچ کوئی بات ہوئی ۔۔۔ عیان نے پوچھا ۔۔۔
“نہیں ۔۔۔اس نے نظر چراتے ہوۓ کہا ۔۔۔
“وہ تو خاموش ہی رہتی ہے ۔۔۔ تمہیں پتا ہے ۔۔۔ علیزے نے سرسری لہجے میں کہا ۔۔۔
“اس نے کچھ کہا کیا ۔۔۔ دوبارہ علیزے نے پوچھا ۔۔۔
” یہی تو مسئلہ ہے وہ کچھ کہتی ہی نہیں ۔۔۔ اب تک اس کے لب چپ ہوتے تھے اور انکھیں خاموش تھیں پر اج اس کی انکھوں میں شور اور لب خاموش تھے ۔۔۔
علیزے اسے دیکھتی ہی رہ گئی اتنی گہری بات کہنے پر ۔۔۔
@@@@@@
“اج باہر ذنر کا پلان ہے چلو گی ۔۔۔ شام میں عیان نے انشاء سے کہا جو اپنا چہرہ ٹاول سے صاف کرتی واشروم سے نکل رہی تھی ۔۔۔
“نہیں ۔۔۔ انشاء نے بیزاریت سے کہا ۔۔۔
“اچھا فیل کروگی تم ۔۔۔ عیان نے آس سے پوچھا ۔۔۔۔
“طبیت ٹھیک نہیں میری ، فریحہ انٹی کے گھر جو کھایا سب وومٹ کرکے نکل گیا ۔۔۔
انشاء نے اسے بتایا ۔۔۔
“انشاء چلو ابھی ڈاکٹر کو تمہاری طبیت دکھاتے ہیں ۔۔۔ اٹھو ریڈی ہوجاؤ ۔۔۔ ویسے بھی تم کمزور لگ رہی ہو اج کل ۔۔۔ عیان نے فکر سے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا ۔۔۔
وہ عجیب نظروں سے اس کا چہرہ تکنے لگی کتنی بےاعتباری تھی اس کی ایک نظر میں ، جس نے عیان کا دل چیر کے رکھ دیا ۔۔۔
“کیسا شخص ہے یہ جس کی سمجھ نہیں اتی مجھے ، ایسا لگتا ہے جیسے صرف اسے میری پرواہ ہے اور مجھ سے بڑھ کر اس کے لیۓ کچھ نہیں اور دوسری طرف میری بےوقوفی میں کہی بات پر اب عمل کررہا ہے دوسری شادی کررہا ہے ، پر صرف اپنی انا میں اب مجھے بتا بھی نہیں رہا ، کاش پوچھ ہی لیتا میں کونسا انکار کرنے کا اختیار یا حق رکھتی ہوں ، میں نے خود ہی سارے حق اور اختیار کھودیۓ اپنے زعم میں ، میں خالی ہاتھ خالی دامن رہ گئی ہوں عیان ، کاش تم دیکھ سکو میرے بےخبر !!!۔۔۔ انشاء نے سوچا اور عیان کی نظریں اس کے چہرے کا طواف کرنے لگیں جو رنگ بدل رہا تھا ۔۔۔
چند لمحے بعد سنبھل کر عیان نے کہا ۔۔۔
“اٹھو ریڈی ہوجاؤ ۔۔۔
اسی وقت دروازہ ناک ہوا اور علیزے اندر اگئی بغیر اجازت کے انتظار کے ۔۔۔ اسے دیکھ کر انشاء سنبھل گئی اور چہرے کا رخ پھیر لیا ۔۔۔
” چلیں عیان ، کچھ شاپنگ بھی کرنی ہے ۔۔۔ دو دن بعد مجھے جانا بھی تو ہے ایک ہفتے کے لیۓ فیصل آباد ۔۔۔
علیزے نے تفصیلی بات کہی ۔۔۔
اس سے پہلے عیان کچھ کہتا انشاء نے جلدی سے کہا ۔۔۔
“ہممم عیان اپ جائیں ۔۔۔
“پر پہلے ۔۔۔ عیان نے کچھ کہنا چاہا پر علیزے نے اس کی بات کاٹی ۔۔۔
“کیوں تم نہیں چل رہی ۔۔۔ علیزے نے بےساختہ پوچھا ۔۔
“نہیں ، میرا موڈ نہیں ۔۔۔ انشاء نے دو ٹوک کہا ۔۔۔
“اوکے عیان جلدی کرو ۔۔ پھر چلتے ہیں ۔۔۔ علیزے کہے کر جلدی سے چلی گئی روم سے باہر ۔۔۔
“انشاء یہ لاپرواہی اچھی نہیں ، پہلے تمہاری صحت ضروری ہے ۔۔۔ عیان نے انشاء سے کہا ۔
“پلیز میری پرواہ کرنا چھوڑ دیں اپ ۔۔۔ فی الحال علیزے زیادہ امپورنٹیٹ ہے اپ کے لیۓ ۔۔۔ اسے اپ کی ضرورت ہے ۔۔۔ جانے کیوں انشاء کے طنزیہ لہجے پر عیان نے غصہ ضبط کرتا ہوا واشروم چلا گیا کہتا ہوا ۔۔ ” جو تمہاری مرضی ۔۔۔۔
وہ بیڈ پر نڈھال سی بیٹھی تھی وہ تیار ہور رہا تھا ۔۔ دونوں کی نظر ملی ۔۔
“اگر ہوسکے زینب بی کے ساتھ جاکر دکھا آؤ طبیت اگر میرے ساتھ جانا تمہیں اتنا ناگوار گزرتا جو ہے ۔۔۔۔
عیان کی بات پر چونکی اور اسے گھوری نوازتے ہوۓ کہا ۔۔
“ایک تو چوری اوپر سے سینا زوری ، حد ہوتی ہے ہر ۔۔
وہ کھڑی ہوئی تھی ایک دم عیان نے اسے کمر سے پکڑا اس کے الفاظ منہ میں ہی رہ گۓ ۔۔۔ بغیر سوچے سمجھے وہ اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں قید کرچکا تھا ۔۔
“تمہاری زبان پر لاک لگانے کا یہی ایک طریقہ ہے ۔۔۔ آئندہ سوچ سمجھ کے بولنا ۔۔۔ مجھے نہیں پتا کس بات پر اتنا غصہ ہو پر جو بھی ہے آئندہ بولنے سے پہلے سوچوگی ضرور ۔۔۔
اس کے ہونٹوں کو آزادی بخش کر عیان نے کہا ۔۔۔ وہ منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی یہ امید تو وہ عیان سے کرہی نہیں سکتی تھی ۔۔
خود پر پرفیوم اسپرے کرنے لگا پھر انشاء پر کرنے لگا ۔۔۔
“یہ کیا کررہے ہیں ۔۔۔ وہ جو حیران کھڑی تھی چونک کر بولی ۔۔۔
“شاک سے باہر نکلنے کا انتظام کررہا ہوں تمہارا ۔۔۔عیان نے لاپرواہی سے کہا ۔۔۔
وہ باہر جانے لگا اسی وقت انشاء اس کا بازو پکڑا اور اس کا رخ اپنی طرف کرکے بولی ۔۔۔
“یہ سب اپ نے کیوں کیا ، کتنے بڑے دعوے کیۓ تھے کہاں گۓ وہ سب ۔۔۔ وہ غصے کی انتہا پر تھی اور اس کی ڈھٹائی پر چڑ ہی گئی تھی ۔۔
“یاد ہے سب ، بس کبھی کبھی ایسا بولنے لگتی ہو جو میری برداش سے باہر ہوجاتا ہے تو یہی بہتر طریقہ لگا چپ کروانے کا ۔۔۔۔ اب اگر تم کو برا لگا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں آئندہ خیال کرنا ، ایسی نوبت مت آنے دینا ۔۔۔ اب یہ تم پہ ڈپینڈ کرتا ہے تم ایسے کتنے موقع آنے دیتی ہو ۔۔۔
عیان نے سکوں سے اسے تفصیلی جواب دیا اس کے سوال کا۔۔۔ اس کے ہاتھ ارام سے ہٹاۓ اپنے بازؤں سے ۔ اور آخر میں کندھے اچکاتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا ۔۔۔
ہمیشہ کی طرح انشاء اسے جاتا دیکھتی رہی ۔۔
@@@@@@@
“اج جاکر اپنی طبیت دکھا آؤ ۔۔۔ صبح کو ہی عیان نے انشاء سے کہا ۔۔۔
کل رات وہ ایا تو وہ سکوں سے سورہی تھی ۔۔۔ پر وہ ہاسپیٹل سے اپائیمنٹ لے چکا تھا ۔۔۔
“پر ۔۔۔ انشاء نے کچھ کہنا چاہا ۔۔۔ پر عیان اس کی بات کاٹتا ہوا بولا ۔۔۔
“پلیز جاکر دکھا آؤ ، اج ضروری میٹنگ نہ ہوتی خود لے جاتا ۔۔۔ عیان نے گھڑی دیکھتے ہوۓ کہا تھا ۔۔
“زینب بی تیں بجے کی اپائیمنٹ ہے ۔۔۔ پلیز علیزے سے کھانے کا پوچھ لجیۓ گا ۔۔۔ انشاء غور سے دیکھ رہی تھی وہ واقعی مصروف لگا اسے ۔۔۔ اس لیۓ دونوں کو ساتھ ہدایت کررہا تھا ۔۔۔زینب بی جو صوفے پر بیٹھی تھی اس کی سن کر انہوں نے جلدی سے کہا ” ٹھیک ہے بیٹا ۔۔۔
عیان کا یوں علیزے کے لیۓ فکرمند ہونا جانے کیوں برا لگا اسے ۔۔۔
اب انشاء نے کچھ کہنا چاہا پر عیان ڈائینگ سے اٹھا نیپکن سے ہاتھ صاف کرتا اس کے روبرو ہوا اور کہا ۔۔۔
” پلیز انشاء بحث مت کیا کرو کبھی میری بھی مان لیا کرو اس لیے ڈاکٹر کے پاس ضرور جانا اوکے .. اس کا چہرہ تھپ تھپاتا ہوا چلا گیا “اللہ حافظ کہتا ۔۔۔
@@@@@@@
” کتنا خوش ہو گا عیان یہ سب سن کر ۔۔۔ اف کب آئے گا یہ لڑکا گھر ۔۔۔ زینب بی نے خوشی اور ایکسائٹمنٹ سے کہا ۔۔
انشاء کے خاموش تاثرات انہیں حیران کر رہے تھے اور انہیں یقین تھا عیان جب سنے گا تو وہ خوشی سے جھوم اٹھے گا۔۔۔ انشاء گہری سوچ میں تھی ان کی بات پر چونکی ۔۔۔
“پلیز زینب بی اپ کچھ نہیں کہیں گی عیان سے ۔ میں خود بتاؤں گی ۔۔ ایک دم سے انشاء نے کہا ۔۔۔
“ٹھیک ہے جلدی بتانا ۔۔۔ انے والا ہوگا عیان آفیس سے ۔۔۔ زینب بی نے کہا ۔۔۔
“شکریہ زینب بی میری بات رکھنے کا ۔۔۔ انشاء نے کہا ۔۔۔
“اب آرام کرو جاکر ۔۔۔ زینب بی نے اسے ماتھے پر پیار کرتے ہوۓ کہا ۔۔۔
“جی زینب بی ۔۔۔ انشاء نے کہا ۔۔۔ زینب بی اس کے چہرے کے تاثرات بغور دیکھ رہی تھی اور سمجھنے کی کوشش کر رہی تھیں آخر کون سی بات نے اسے اتنا پریشان کیا ہوا تھا جو اسے اتنی بڑی خوشخبری پر خوش ہونے نہیں دے رہی تھی ۔۔۔
“کاش حیدر بھائی یہاں ہوتے ۔۔۔ زینب بی نے سوچا ۔۔۔
وہ کئی بار پوچھ چکی تھیں پر انشاء ہر بار ان کو ٹال رہی تھی ۔۔۔ اب تو پوچھ پوچھ کر خاموش ہو گئی تھیں زینب بی ۔۔
وہ مرے قدموں سے سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔۔۔
@@@@@@@
کتنی دیر وہ لیٹی عیان کا انتظار کررہی تھی ۔۔۔
“کتنا خوش ہوگا عیان یہ سن کر ۔۔۔ وہ میری ساری غلطیان معاف کردے گا ۔۔۔ اب سب ٹھیک ہوجاۓ گا ۔۔۔ علیزے کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہوگی ۔۔۔ میرا شوہر صرف میرا ہوگا ۔۔۔
وہ سوچ کر خوش ہوتی بیڈ سے اٹھی ۔۔۔ ہونٹ خودبخود مسکرا اٹھے قدم خوشی سے من بھر کے لگنے لگے تھے ۔۔۔ وہ ٹہلتی رہی اور انے والے وقت کا سوچ کر مسکرا اٹھی ۔۔۔
اب شدت سے وہ انتظار کرنے لگی تھی عیان کا ۔۔۔
ایک دم اندر کی اواز پر وہ چونکی ۔۔۔
“بہت خودغرض عورت ہو تم انشاء ۔۔۔۔ بہت ہی زیادہ خودغرض ۔۔۔ تمہیں اپنے سوا کبھی کسی کی پروا نہیں رہی ۔۔۔ عیان کو تم نے کس طرح دھتکارا تھا بھول گئی ۔۔ لمحے لمحے اس کے سچے جذبوں کی توہین کرتی آئی ہو تم اس کے ہونٹوں کی ہنسی تک تم چھین چکی ہو ۔۔۔ اب جب وہ علیزے کے ساتھ خوش اور مطمئن رہنے لگا ہے اس کے ہونٹوں کی ہنسی لوٹ آئی ہے تو تم خود غرض بن کر اپنے بچے کا استعمال کر رہی ہو اور اسے روکنا چاہتی ہوں دوسری شادی سے جب کہ تم خود کھلے دل سے اجازت دے چکی ہو اسے دوسری شادی کی اور کئی بار اسے یہ کہہ چکی ہو ۔۔۔ نہ تم اچھی بیوی بن سکی ہو اور نہ اب اچھی ماں کہلاؤ گی اگر اپنے بچے کا استعمال کرو گی اس کی خوشیوں میں رکاوٹ بن کر۔۔۔
اندر کی اواز پر وہ سسک اٹھی ۔۔۔ اندر کی عدالت سب سے بڑی عدالت ہوتی ہے اور اگر اس نے اسے مجرم قرار دے دیا تو پھر کسی اور کے کہنے نہ کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے ۔۔۔
” واقعی میں ایک اچھی بیوی کبھی نہیں بن پائی پر اچھی ماں ضروری بنو گی ۔۔۔ میں خودغرض بالکل نہیں ہوں۔۔۔
ایک عزم سے اس نے سوچا اور اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرنے لگی ۔۔۔
” بے بی تمہاری ماں تم سے بہت پیار کرتی ہے اور پاپا بھی بہت کریں گے جب ان کو پتا چلے گا ۔۔۔ اب ہم تمہارے پاپا کی خوشیوں میں رکاوٹ بالکل نہیں بنیں گے۔۔۔
انشاء کو اس ننھے وجود نے دوبارہ مسکرانے پر مجبور کیا ممتا کا انوکھا احساس اس کے اندر جاگا تھا ۔۔۔
کمرے کے اندر داخل ہوتا عیان حیران ہوا اتنے دنوں بعد انشاء کو یوں مسکراتا دیکھ کر ۔۔۔ “خدا کرے کبھی ہنسی تمہارے ہونٹوں سے جدا نہ ہوں اور یونہی تم مسکراتی رہو۔۔۔۔ عیان کے دل سے دعا نکلی انشاء کے لیۓ ۔۔۔
خود پر نظروں کی تپش محسوس کرتے ہوئے انشاء نے آنکھیں کھولیں جیسے ہی عیان پر نظر پڑی اس کے ہونٹ خودبخود سکڑ گئے ۔۔۔ دونوں کی نظر مل چکی تھی اور اس کا یوں ہنسی کو سمیٹ لینا عیان کے دل کو گھائل کرگیا ۔۔۔
” کتنا بد نصیب شوہر ہے وہ جس کی بیوی کے ہونٹوں کی مسکراہٹ اسے دیکھ کر غائب ہوجاۓ اور عیان تم سے زیادہ کوئی بدنصیب اس زمین پر ہو سکتا ہے جو اپنی بیوی کے لئے دکھ کا باعث ہو۔۔۔۔
خود پر افسوس کرتا بریف کیس سائیڈ پر رکھا اور وہ الماری کی طرف بڑھا اور اپنے کپڑے نکالنے لگا ۔۔۔
“فی الحال یہ سب بتانا مناسب نہیں عیان کو ۔۔ انشاء نے سوچا اور کمرے سے باہر جانے لگی اسی وقت عیان نے اسے آواز دی ۔۔۔
“انشاء…
“جی ۔۔۔ اس کے قدم تھمے ۔۔
“ڈاکٹر نے کیا کہا ۔۔۔ عیان نے پوچھا ۔۔۔
“بس کھانے پینے کا خیال کہا ہے اور کچھ طاقت کی دوائیان ۔۔۔ انشاء نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کہا ۔۔۔
اور وہ کمرے سے باہر چلی گئی عیان اسے جاتا دیکھتا رہا ۔۔ جانے کیوں دل بوجھل ہورہا تھا ۔۔۔
@@@@@@@
زینب بی انتظار کرتی رہ گئیں پر عیان کی خوشی سے چہکنے کی آواز سننے کو کان ترستے رہ گۓ اور رات کے کھانے کا وقت ہوگیا ۔۔
وہ آس سے دونوں کو دیکھ رہیں تھیں اور دونوں بے پروا لگے ایک دوسرے سے ۔۔۔
کھانا سب خاموشی سے کھا رہے تھے ۔۔۔
“میرا پرسوں اسلام اباد کا پروگرام ہے ۔۔۔ ضروری کام ہے ایک دو دن لگ جائیں گے زینب بی ۔۔۔ زینب بی اور انشاء دونوں کو سنایا عیان نے ۔۔۔
“ٹھیک ہے بیٹا ۔۔۔ زینب بی نے کہا ۔۔۔
عیان کی ہمیشہ سے عادت تھی وہ اپنے گھر سے باہر جانے کے پلان جیسے ڈیسائیڈ ہوتے گھر پر بتا دیتا تھا ۔۔
آج زینب بی بھی ساتھ تھیں اور علیزے بھی خاموش تھی ۔۔۔
کھانے کے بعد علیزے باتیں کررہی تھی جن کا عیان مختصر جواب دیتا رہا ۔۔ انشاء نے اکر پوچھا ۔۔۔
“کافی یا قہوہ ، کیا بنادوں ۔۔۔ انشاء نے بغور عیان کو دیکھتے ہوۓ پوچھا ۔۔۔
“کافی بنادو ہمارے لیۓ ۔۔۔ ہمیشہ کی طرح علیزے نے کہا ۔۔۔
“میرا موڈ نہیں ، اج بہت تھکن ہے ، علیزے صبح ملتے ہیں پھر ۔۔۔ عیان نے کہا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔
“انشاء علیزے کو کافی ضرور دینا اگر ہوسکے اس کو کمپنی بھی دینا اسے اکیلے پینے میں مزا نہیں اتا ۔۔۔
عیان کے کہنے پر انشاء تو جل گئی پر علیزے کھل کے مسکرائی اور انشاء اچھی طرح سمجھ رہی تھی اس کی اس مسکراہٹ کا مقصد ۔۔۔
“جی ۔۔۔ انشا نے مختصر جواب دیا عیان کو ۔۔
عیان اٹھ کے جاچکا تھا ۔۔۔
@@@@@@
کچھ دیر بعد انشاء کافی لے کر آئی علیزے کے روم میں ۔۔
کیوں کہ عیان کے جانے کے بعد علیزے آٹھ کر اپنے روم میں آ چکی تھی اس لئے انشاء کو اس کے کمرے میں آنا پڑا کافی لے کر ۔۔۔
” بیٹھو تمہارے شوہر نے کہا تھا نہ مجھے کمپنی دو ۔۔ دیکھ لو اسے کتنی پرواہ ہے میری ۔۔۔ علیزے نے آنکھیں گھما کر کہا۔۔ اس کا نخرے کرنے کا انداز ہمیشہ مختلف ہوتا تھا یا پھر انشاء کو ہی ایسا محسوس ہوتا تھا ۔۔۔
وہ بیٹھ گئی ۔۔۔ کچھ دیر خاموشی رہی دونوں کے بیچ علیزے نے کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا ۔۔۔
” جانتی ہو اسلام آباد میں کیا ضروری کام ہے عیان کو ۔ ۔
انشاء ہنوز خاموش رہی۔۔۔ اس کی خاموشی پر طنز کرتے ہوئے علیزے نے کہا۔۔۔
” جانتی ہوں اتنی انڈرسٹینڈنگ کہاں ہے تم دونوں کی جو تمہیں پتا ہو وہ کیوں جا رہا ہے ۔۔۔
کچھ اور دیر علیزے خاموش رہی اور اس کے چہرے کے تاثرات کو جانچتی رہی ۔۔
” اتنا سسپینس کیوں پھیلا رہی ہو جو بتانا ہے وہ بتا دو ۔۔۔ اگر کچھ نہیں بتانا چاہتی تو مت بتاؤ ۔۔۔
انشاء نے سلگ کر کہا ۔۔
” ارے نہیں نہیں بالکل بتانا چاہتی ہوں ۔۔۔ علیزے ہنسی اور اسکی ہنسی نے انشاء کو سلگایا ۔۔۔
انشاء تنگ ہوئی تھی اس کے اس رویئے سے سو اٹھ کر جانے لگی۔۔۔
“ارے بیٹھو ۔۔ علیزے نے اسے کہا تو وہ دوبارہ بیٹھ گئی ۔۔۔
” جو کہنا جلدی کہو مجھے نیند آرہی ہے ۔۔۔ انشاء نے بیزاریت سے کہا۔۔۔
” شاید اب جو میں تمہیں بتاؤں اس کے بعد تمہاری نیند تو اڑنے والی ہے ۔۔۔
“کیا مطلب ۔۔۔انشاء نے حیرت سے پوچھا ۔۔۔
” اسلام آباد میں ، میں اور عیان نکاح کرنے والے ہیں ۔۔۔ علیزے نے اس پر دھماکا کیا ۔۔۔
“پر تم تو فیصل آباد جانے والی تھی ۔۔۔ انشاء نے شاک لہجے میں کہا ۔۔
“بس کیا کریں عیان نے کہا تھا ایسا کہنے کو ورنہ ہمارے بیچ یہی ڈیسائیڈ ہوا ہے ۔۔۔ اب تم سے کتنی دن عیان چھپانے کا ارادہ رکھتا ہے مجھے سہی سے معلوم نہیں ۔۔۔ علیزے نے کندھے اچکاۓ ۔۔۔
” پر ایک بات تم پر واضح کرنا چاہتی ہوں ایک دفعہ یہ نکاح ہو جائے پھر عیان کی نہیں میری مرضی چلے گی ۔۔ دیکھ لینا ۔۔۔ علیزے نے عجیب لہجے میں کہا ۔۔۔
اور کچھ لمحوں میں انشاء خود کو سنبھال چکی تھی اور اٹھ گئی اور کہا ۔۔۔
” جو کرنا ہے کر لو اب مجھے کوئی پروا نہیں ۔۔۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔۔ جس بات پر میرا شوہر خوش ہے میں بھی اس میں راضی ہوں ۔۔۔
اب سہی معنی میں علیزے کو جھٹکا لگا ۔۔۔
” اتنا جلدی تم نے ہار مان لی بغیر کسی مقابلے کے۔۔ میری جیت بھی تسلیم کرلی ۔۔۔علیزے نے افسوس سے کہا ۔۔۔
” جو تم سمجھنا چاہو سمجھو اگر تمہاری خوشی یہ سننے میں ہے کہ تم جیت گئی ہو تو ٹھیک ہے میں اعتراف کرتی ہوں تم جیت گئی ہو اور میں ہار گئی ۔۔۔بس ہوگئی خوش اور جاؤ اپنی جیت کا جشن اسلام آباد جا کر منانا عیان کے ساتھ ۔۔۔ انشاء نے تھک کر کہا ۔۔۔
“ایسی جیت کا کیا فائدہ مقابل میدان میں بھی نہ اترا اور ہار تسلیم کرکے سائیڈ پر ہوگیا ۔۔۔۔ مزا تو تب آۓ جب مقابل میدان میں روبرو ہو اور علیزے اسے چاروں شانے چت کرے ۔۔۔
انشاء حیران ہوئی علیزے کے مغرور انداز میں کہی بات پر ۔۔۔
“مجھے کسی کے ساتھ مقابلہ نہیں کرنا جو تم چاہتی ہو کرلو اور اگے میرا جو نصیب اسے میں دیکھ لوں گی ۔۔۔
انشاء نے خود کو سنبھال کر کہا اج کوئی انسو نہیں بھانا چاہتی تھی وہ ۔۔۔ اس لئے ضبط کی انتہا پر تھی انشاء ۔۔۔
“افسوس مزا نہیں ایا ۔۔۔
“تمہارے مزے کے لیۓ میں اپنی ذات ریزہ ریزہ نہیں کرسکتی علیزے ۔۔۔
“تو پھر ٹھیک ہے مجھے نظر مت انا اس گھر میں ، ہفتے کے روز عیان کے ساتھ میں اس گھر میں قدم رکھوں گی تمہارا وجود نظر نہ آۓ یہاں ۔۔۔ اپنا بوریا بستر سمیٹو اور نکل جاؤ اس گھر سے ۔۔۔ کیونکہ مجھے تمہارا وجود گوارا نہیں ۔۔۔ علیزے شاید واقعی اس کے ضبط کی انتہا کو آزما رہی تھی۔۔۔
“تم اس طرح نہیں کرسکتی میرے ساتھ ۔۔۔
“میں اس سے برا بھی کرسکتی ہوں ۔۔۔ کیونکہ تمہاری جتنی میری برداش نہیں ۔۔۔
“میں کہاں جاؤں گی ۔۔۔
“وہ مسئلا تمہارا ہے ۔۔۔
انشاء بےبسی سے اس کو دیکھتی رہی جبکہ علیزے نے کہا ۔۔۔
“اب تم جاسکتی ہو ۔۔۔
اور وہ شکستہ قدموں سے اس کے روم سے نکلی ۔۔۔
“مجھے عیان کو سب بتا دینا چاہیۓ میرا تو اور کوئی ٹھکانہ بھی نہیں ۔۔۔ پر کیسے کہوں ، کیا وہ میرا یقین کرے گا بھی یا نہیں ۔۔۔
وہ سوچتی کمرے میں آئی اور عیان کو گہری نیند میں سوتے دیکھ کر اسے اپنے حوصلے پست ہوتے نظر آۓ ۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...