(Last Updated On: )
سچ نہ ہم بولتے تو خوش رہتے
وقت کو تولتے تو خوش رہتے
زمزمہ خواں و خوش نوا تھے مگر
پَر نہ ہم کھولتے تو خوش رہتے
اپنے خوں میں، جہانِ وحشی میں
شہد کم گھولتے تو خوش رہتے
موتیوں کی طرح سے اشکوں کو
روز و شب رولتے تو خوش رہتے
ان رقیبوں کے سامراج کے بیچ
کچھ نہ گر بولتے تو خوش رہتے
ایک ٹوٹی سی ناؤ کی صورت
بحر میں ڈوبتے تو خوش رہتے
دل تو یوں بھی کہیں پہ کھونا تھا
بھاؤ گر مولتے تو خوش رہتے
چپ ہی دیکھا کیے، اگر اسلمؔ
ایک پل بولتے تو خوش رہتے
٭٭٭