سلطان جمیل نسیم
ہمارے گھر میں خط دو ہی جگہ سے آتے تھے ۔ایک کھلنا سے جہاں ارشاد میٹرک کرنے کے بعد اصفہانی میچ فیکٹری میں ملازم ہوکر چلا گیا تھا دوسرے غازی آباد سے خالہ جان کے․․․․رشّو کے خط سے تو یوں سمجھئے کہ سوکھے دھانوں میں پانی پڑ جاتا تھا۔ اماں خط کے ایک ایک لفظ کے جواب میں ہزار دعائیں دیا کرتیں،پھر روہانسی ہو جاتیں بلکہ آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب جاتیں،نجانے اُسے ہماری کون سی بات بری لگی جو دسویں پاس کرتے ہی مشرقی پاکستان چلا گیا۔ کئی مہینے تک ہمیں اُس کا ٹھور ٹھکانہ بھی معلوم نہ ہو سکا، پھر اُس نے خود ہی رابطہ کیااب اماں کے پاندان کو ہرا بھرا رکھنے کے لئے ہر مہینہ کبھی پچاس اور کبھی ساٹھ روپیہ ضرور بھیج دیتا ہے اور اماں اُن روپوں کو پہلے تو تبرک کی طرح اپنے آنچل میں باندھ لیتی ہیں اور پھر خرچ بھی اُسی مد میں کرتیں جس کے لئے بھیجے گئے تھے، ارشاد کے خط آئیں یا نہ آئیں فرق اس لئے نہیں پڑتا تھا کہ وہ اماں کو مہینہ دو مہینہ میں ٹیلیفون بھی کر لیتا تھا البتہ خالہ جان کے خط پابندی سے ملتے رہتے اُن کے خطوں میں بڑی یکسانیت ہوتی تھی، اور وہ اپنے ہر خط میں عام طور سے یہی لکھتی تھیں کہ بچے بڑے ہو رہے ہیں اگرچہ سب حسبِ مقدورپڑھ لکھ رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ نوکریوں کے لئے جوتے بھی چٹخاتے پھر رہے ہیں۔لڑکیاں سیانی ہورہی ہیں، ہم پلہ رشتے تو جیسے عنقا ہوکر رہ گئے ہیں،چو طرفہ پریشانیوں نے راتوں کی نیندپر ایسا سایا ڈالا ہے کہ آنکھیں اب تم پر ہی لگی رہتی ہیں،کوئی ایسا راستہ نکالو کہ ہم بھی تمہارے پاس پاکستان آجائیں․․․․در اصل کسی نے خالہ جان کو پاکستان کی ایسی تصویر دکھا دی تھی کہ وہ سمجھتی تھیں یہاں ہُن برس رہا ہے ۔ اِن خطوں میں اتنی یکسانیت ہوتی تھی کہ ہم اکثر خالہ جان کا پوسٹ کارڈ پڑھے بغیراپنی طرف سے خط کا مضمون اماں جان کو سنادیا کرتے تھے۔ خط سننے کے بعد اماں وہ پوسٹ کارڈ ہم سے لیکر چاروں طرف سے گھما کے دیکھتی تھیں اور اپنے دوپٹہ کے پلّو سے یوں صاف کرکے تکیہ کے نیچے رکھ لیتی تھیں جیسے اپنی بہن کے آنسو پونچھ لئے ہوں۔پھر ہم سے کہتی تھیں۔
’’ارے ہو سکے تو بلالو۔ میں بھی ایک نظر اُسے دیکھ تو لوں۔اب وہی ایک تو رہ گئی ہے اماں باوا کی نشانی۔۔۔‘‘
ہم اماں جان کو تسلی دیتے اور وہ ہمیں دعا ئیں دیکرمطمئن ہوجاتیں۔۔۔کم از کم ہم یہی سمجھ لیتے تھے۔
رشّو(ارشاد) سال دوسال میں دس پندرہ دن کی چھٹی لے کر اماں جان کی آنکھوں میں روشنی باقی رکھنے کو آ جاتا ۔ اُس کے آنے سے ہم سب ہی خوش رہتے تھے۔ بھاوجیں تو ماچس کا ڈھیر دیکھ کر ہی خوش ہو جاتی تھیں۔ اسکول کے بعد بچوں کو وہ جگہ جگہ لئے پھرتا۔ پھر وہ دس پندرہ دن چٹکی بجاتے گزرجاتے۔دو تین مرتبہ میں نے وجّو کی موجودگی میں کہا بھی کہ یہیں رہ جا، تیرے آجانے سے فیکٹری میں برکت ہوگی۔ کوئی واضح جواب نہیں دیا، بس ہنس کے ٹال دیا۔
پھر معلوم ہوا کہ رشّو نے بنگال میں ہی شادی کر لی ہے․․․․ایک دن سان نہ گمان وہ اپنی بیوی اور بچہ کو لیکر بھی آگیا․․․․ظاہر ہے خوشی کا اظہار سب ہی نے کیا․․․․اورجلدی میں جس سے بھی جو کچھ بن پڑا وہ اُس کی دلہن اور بچہ کو تحفہ دیا․․․․پھر اُس کا اشارہ ملنے پر اُسکی بنگالن بیوی نے سب کو اتنی قیمتی اور نایاب چیزیں دیں کہ سب کے منہ اتر گئے۔آٹھ دس روز گھر میں خوب رونق رہی پھر وہ چلا گیا۔ہم میں سے کسی کی سمجھ میں بھی یہ بات نہیں آسکی ہے کہ آخر رشّو کس بات پر ہم لوگوں کو چھوڑ کر چلا گیاتھا۔ بہر حال وقت گزرنے کے ساتھ اب ہم اسی کی خوشی میں خوش تھے ۔
ایک دن جب ہم دونوں بھائی دفتر میں بیٹھے ایک نہایت ضروری ٹیلیفون کا انتظار اِس طرح کر رہے تھے کہ لفظ ہونٹوں کا راستہ بھول گئے تھے اور کان صرف ٹیلیفون کی آنے والی گھنٹی کی طرف لگے تھے کہ اب آئے کہ اب آئے․․․․انتظار کے اِس سنسان مقام سے کئی راستے نکلتے تھے خدا جانے میرا ذہن کون سے راستہ پربھٹک گیا کہ بالکل بے دھیانی میں بھائی سے پوچھ بیٹھا․
’’وجّو․․ہم خالہ جان کے خط پڑھے بغیراپنی طرف سے مضمون گھڑ کے سنا دیتے ہیں تو کیا ہم اپنی ماں سے جھوٹ نہیں بول رہے ہیں․․․․‘‘اُس کا ذہن بھی شایدانتظار کی بھول بھلیوں میں کھویا ہواتھا ،میری بات سن کرپہلے تو ذراتعجب سے میری طرف دیکھا،پھر پوچھا۔
’’کیا کہا آپ نے۔!‘‘
میں نے اپنی بات دہرائی تو وہ ہنس دیا۔
’’دھوکہ کیسا بھائی جان․․․․آپ نے تو اُن کے کئی خط پڑھے ہیں۔ سب کا مفہوم ایک ہی سا ہوتا ہے‘بس لفظ ذرا آگے پیچھے ہوتے ہیں․․․․‘‘
’’ مگر وجّو․․․․میں سوچتا ہوں کہ․․․․‘‘
’’ایک تو آپ مجھے وجّوکہنا چھوڑدیجئے۔ آپ جانتے ہیں میرا نام وجاہت مرزا ہے۔ اکثر آپ مجھے اسٹاف اور کلائنٹ کے سا منے بھی اِسی نِک نیم سے پکار لیتے ہیں۔I feel aukward دوسرے یہ کہ خالہ کے بارے میں زیادہ نہ سوچاکیجئے۔ وہ وہاں آرام سے بیٹھی ہیں اورہم یہاں․․․․‘‘
میں اُس کی بات نظر انداز کردینے کے لئے ذرا مسکرایا، کچھ دیر خاموش رہا․․․․پھر پوچھا۔
’’تمہیں خالہ یاد تو ہونگی۔؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’ہاں آں کیا یاد ہونگی․․․․تم سال بھر کے تھے جب ہم یہاں آئے۔ رشّوتیرہ چودہ سال کا تھا۔وقت کیسے پر لگا کر اُڑتا ہے۔ مجھے خالہ جان کی باتیں اور ان کی صورت اچھی طرح یاد ہے۔ وہ ہم دونوں بھائیوں کوبہت چاہتی تھیں۔ تمہارا تواماں سے زیادہ لاڈ کرتی تھیں۔۔۔‘‘
’’مجھ سے کتنا لاڈ کرتی تھیں یہ مجھے تو ذرا بھی یاد نہیں․․․․ہاں آپ سے جو محبت جتاتی تھیں اُسکے پیچھے بھی کوئی مطلب ہوگا‘ ‘
میں وجو کی بات سن کر ہنس دیا اور بولا۔’’مجھ سے․․․․!ایک بارہ تہرہ سال کے لڑکے سے انھیں کیا مطلب ہو سکتا ہے۔‘‘
’’سنا ہے وہ اپنی ایک لڑکی سے آپ کے ساتھ شادی کا منصوبہ بنائے بیٹھی تھیں اور دوسری سے ارشاد بھیا کا۔۔‘‘
’’تمہیں یاد ہے۔؟‘‘ میں نے اشتیاق سے پوچھا
’’نہیں۔ میں نے ایک دفعہ امّاں سے سنا تھا۔‘‘
میں نے معمول کے مطابق وجّو کے اُکھڑے ہوئے لہجہ پر کوئی توجہ نہیں دی اور کہا۔
’’خالہ کی بڑی بیٹی نفّو اُس زمانے میں چار پانچ سال کی تھی۔گول مٹول‘سرخ سفید۔ اب تو بہت بڑی ہو گئی ہوگی۔‘‘
’’یہ نفّو کیا نام ہوا۔‘‘
’’نام تواس کا نفیسہ تھا مگر سب پیار سے نفو نفوکہتے تھے۔‘‘
’’اِ س کا مطلب ہے نام بگاڑنے کا رواج ہمارے خاندان میں خاصا پرانا ہے۔‘‘
میں نے اس کی بات نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔
’’ابا میاں نے ساتھ آنے کے لئے خالو سے کتنا کہا مگر وہ مانے ہی نہیں۔ مٹّی جو وہاں کی تھی۔‘‘
’’ لوگ جہاں ہیں اُن کی مٹّی وہیں کی ہے۔ پھر یہاں آنے کے لئے کیوں مرے جارہے ہیں۔‘‘
’’یار خاندان بکھر گئے ۔ اگر آجائیں تو ہمیں بھی سپورٹ ہو جائے گی۔ اللہ کے فضل سے ہمارا کاروبار بھی تو Expandہو رہا ہے․․․․رشّو ڈھاکہ میں جاکے بس گیا ہے۔ یہیں رہتا تو ہمیں اور سہارا ہوتا․․․․‘‘
’’ بھیا کی بات رہنے دیجئے ۔ ہم سب کو اختیار ہے کہ اپنے مستقبل کا خیال رکھیں۔خالہ کی بات کیجئے ،ابا میاں اپنا مکان ان کے نام کر آئے تھے۔نانا کی جائیداد میں سے بھی اپنا حصہ اُن ہی کے نام کردیا تھا۔ ہمارے مکان کا تو سنا ہے بیچ باچ کے تیا پانچا کرلیا۔ اب تک اُسی مشترک جائداد سے سانپ کی طرح لپٹی ہوئی ہیں۔ ہم نے تو ابا میاں کے کہنے سے کوئی کلیم بھی نہیں کیا ۔جس کی وجہ سے وہ لوگ کسٹوڈین سے بھی بچے ہوئے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا پھر یہاں آنے کے لئے کیوں تڑپ رہے ہیں۔؟‘‘
میں جواب میں کچھ کہنا چاہتا تھا کہ وجّو نے اپنی بات جاری رکھی۔’’اب رہی یہ کہ ہمارا کام بڑھ رہا ہے تو ہمیں اُن کو سپورٹ کرنا چاہئے، یا اُن کی سپورٹ حاصل کرنی چاہئے۔ مجھے یہ بتایئے یہاں آدمیوں کی کمی ہے۔؟ہمیں اُن کی سپورٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں ٹیکنکل کام پنجابی جس خوبی سے کرتا ہے وہ کوئی دوسرا کرہی نہیں سکتا۔فزیکل لیبر میں آپ نے دیکھ ہی لیا، پٹھان سے بڑھکر کوئی نہیں ہے،اور ان مہاجروں کاتوباوا آدم ہی نرالا ہے کہ ذرا پڑھائی لکھائی میں آگے کیا نکل گئے دماغ ہی ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔کام کم کرتے ہیں اپنے ماضی کی بادشاہی کے قصے زیادہ سناتے ہیں۔ انھ۔‘‘
میں نے وجّو کی تردید کرنے کے بجائے کہا۔’’ ارے بھائی آنے والا کچھ نہ کچھ چھوڑ کر تو آتا ہے اور جو چیز چھوٹ جائے اُس کی یاد بھی بہت عرصہ تک ساتھ رہتی ہے۔‘‘
’’جانے دیجئے ان باتوں کو ․․․․اگر وہ لوگ آبھی گئے پھر بھی میں انھیں اپنے ساتھ نہیں رکھوں گا۔ نجانے رشتے داری کی آڑ میں کیا کیا رعایتیں مانگ بیٹھیں․․․․رشّوبھیا بتا رہے تھے کہ خالہ اُن کے پاس گئیں توپندرہ دن سے زیادہ نہ ٹکیں اِ س لئے کہ وہاں اُن کو اللے تللے نظر نہیں آئے․․․․بھیا سے ہمارے بارے میں سن کر،اب وہ یہاں آنے پر بضد ہیں۔‘‘
اس موضوع پرمیں اور وجّوشاید اور باتیں کرتے کہ وہ ضروری فون آگیاجس کا انتظار تھا۔ یوں ساری باتیں آئی گئی ہوگئیں۔خداجانے یہ خالہ جان کے جذبے کی کشش تھی یا اماں کی دعاؤں کا اثرکہ1965 کی جنگ کے چار پانچ سال بعداُن کا ویزہ لگ گیا اور وہ پاکستان پہنچ گئیں۔
’’لڑکے اپنے اپنے کام میں لگے تھے ، لڑکیوں کو کہا ں ساتھ لگائے پھرتی۔بڑی آپا کو دیکھنے کے لئے پھڑک رہی تھی سو چلی آئی․․․․‘‘
دو مرتبہ ان کے ویزے کی تجدید کرائی ، ہمارے یہاں ہی نہیں بلکہ دُور پاس جس عزیز سے وہ ملنے گئیں، اُن کی یہ خواہش اتنی ہی بڑھتی گئی کہ کسی صورت اُن کے سب گھر والوں کو یہاں بلا لیا جائے۔وجاہت اکل کھرا تھا۔ ایک بار خالہ نے اپنی اس خواہش کا اظہار اس کے سامنے کردیا تو اس نے جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کر لیا تھا۔’’ہمارا گھر کتنے میں پیچ ڈالا۔‘‘
اور خالہ نے بچوں کی بیماریوں اور بے روزگاریوں کا تفصیل سے ذکر کرنے کے بعد صورتِ حال کی وضاحت یوں کی کہ ابا کے ایک دوست کاشی رام جی نے آٹھ ہزارروپے میں مکان اپنے پاس رہن رکھ لیا ہے،ہمارے بڑوں کی آنکھیں دیکھے ہوئے ہیں اس لئے مروت والے آدمی ہیں،کاغذ لکھ کے دیا ہے کہ پانچ برس تک بزار سے دو پیسہ کم بیاج لیں گے۔ لڑکے کہتے ہیں ابھی پانچ برس میں دوچار مہینہ کم ہیں ۔ہم پہلے ہی چھڑالیں گے۔‘‘
وجاہت نے اُن سے پھر کبھی بات ہی نہیں۔
اکژ وہ مجھے ہاتھ پکڑ کے اپنے قریب بٹھا لیتی تھیں اور اپنی خواہشوں کا برملا اظہار کردیا کرتی تھیں۔
’’بیٹا۔۔ہم سب کو بھی تم پاکستان بلا لو۔وہاں تمہارے تین بھائی ہیں، یہاں آکے دست و بازو بنیں گے۔ماشاء اللہ سب پڑھے لکھے ہیں، انگریزی توایسی فروَٹ بولتے ہیں کہ سننے والا منہ دیکھتارہ جاتاہے․․․․مگر جب یہان سے تمہارا خط جاتا ہے تو سب ایک دوسرے پر ٹالتے ہیں آخرکاشی رام جی کے پاس جاکر سنتی ہوں،وہ خط کم سناتے ہیں املے اور قوائد کی غلطیاں زیادہ نکالتے ہیں۔ اُن کا یہ سبھاؤ دیکھکراب نفو ہی اٹکل پچو سے پڑھ کر سنا دیتی ہے․․․․دیکھو بیٹا ایم اے بی اے کرنے کے بعد رشید نے پرچون کی دکان کھول لی ہے۔عزیز ایک اسکول میں ماسٹری کر رہا ہے۔بس قدیر کو اللہ اللہ کرکے دوائیوں کی کمپنی میں نوکری مل گئی ہے۔چار بہنوں کی ذمہ داری ہے۔لڑکیوں کو بھی کوئی کہاں تک پڑھائے․․․․اور پھر زمانہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔قادر بخش کی نواسی ایک رات گھر سے نکلی اور بمبئی پہنچ گئی۔پہلے تو بڑی ڈھنڈیا پڑی۔ تھانے کچہری تک نوبت پہنچنے ہی والی تھی کہ لڑکی نے دس ہزار بھیج کے سب کو اپنے پاس بلوالیا۔ فلموں میں کام کرکے اب لاکھوں میں کھیلتی ہے۔ میں کہتی ہوں عزت سلامت رہے۔اسی لئے کہتی ہوں یہاں آجائیں تو اپنوں میں لڑکیوں کی بھی کھپت ہو جائے گی اور لڑکے بھی تمہاری طرح کچھ بن جائیں گے۔‘‘
مخاطب مجھی سے رہتیں لیکن رُخ اماں کی طرف کرکے گہری سانس لیکر کہتیں۔
’’گھر بھی ٹوٹ رہا ہے جگہ جگہ سے چُونا تو پہلے ہی جھڑ رہا تھا، اب کمروں کی چھتیں بھی ٹپکنے لگی ہیں۔ بڑے کمرے کی چھت تو برسات میں پرنالہ بن جاتی ہے۔ ہفتہ بھر تک لڑکیاں پانی سونتی رہتی ہیں مگر سیلن جونک کی طرح چمٹ کے بیٹھ جاتی ہے۔ ابامیاں نے گھر بھی ایسا بنایا تھا کہ ہم آٹھ جنے پتہ ہی نہیں چلتا کس کونے میں سمائے ہوئے ہیں۔ کاشی رام جی کہہ رہے تھے ابھی تو اونے پونے میں بک بھی جائے گا،بالکل ہی ڈھے گیا تو ملبے کی قیمت کون دے گا۔‘‘
اب خواہشیں زبانی اظہار سے پوری نہیں ہوتی ہیں۔ خالہ جان کو جانا ہی تھا، سال بھر رہ کے چلی گئیں۔ جانے کے بعد اُن کے خطوں کا سلسلہ پھر شروع ہو گیا‘ اماں جان بار بار جواب بھیجنے کی تاکید کرتی تو میں اپنے بیٹے نجیب کو، جو اُس زمانے میں ساتویں میں پڑھ رہا تھا ،کاغذ قلم دیکے اماں جان کے پاس بٹھا دیتا، جو وہ بولتیں نجیب لکھتا رہتا۔ایک روز کونا کٹا ہوا پوسٹ کارڈملا، جو انگریزی میں لکھا تھا، جس میں خالہ جان کے گذر جانے کی خبر تھی ۔
امّاں جان کو جتنا رونا تھیں رولیں․
پھر جب مشرقی پاکستان کے حالات کروٹ لینے لگے تو ہم نے ارشاد کوبلانے کے لئے کتنے فون کئے۔ اس کا ایک ہی جواب ہوتا کہ میں یہاں بالکل محفوظ ہوں․․․․بظاہر لگتا بھی یہی تھا کہ اُس کی بیوی بنگالن ہے اور اُس نے اپنی ایک بیٹی کی شادی بھی مقامی خاندان میں کی تھی۔لیکن جب تعصب کی لہر اٹھتی ہے تورشتے ناتوں کو کہاں دیکھتی ہے․․․․ایک بیخبری کا عالم تھا جس سے ہم گذر رہے تھے اور․․․․جس کے دامن میں امید بھی تھی اور مایوسی بھی․․․․
دوتین مہینہ بعد مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہوجانے کا واقعہ گزر گیا۔
اب قوم اپنے غم کا سوگ مناتی رہی۔ہمارے لئے اُس سوگ میں ارشاد کا غم بھی شامل ہو گیا تھا، سیاست داں تاویلیں پیش کرنے کے ساتھ ایک دوسرے کے سر پر الزام بھی تھوپتے رہے ۔سال بھر تک کیوں اور کیسے کا مباحثہ بھی ہوتا رہا۔پھر سب بھولنے لگے۔اور جیسے تھے ویسے ہی ہوگئے۔ہم سب سے الگ تو نہیں تھے۔!
یکایک وجاہت کے سر میں کناڈا جانے کا سودا سما گیا۔اور بغیر لحاظ مروت اس نے چلتے ہوئے کاروبار میں سے اپنا حصہ الگ کرلیا۔میں نے لاکھ سمجھایا کہ اس طرح بچے کھچے کاروبار کو سنبھالنے میں جی توڑ محنت کرنے کے بعد بھی ایک عرصہ لگ جائے گا۔
’’یہ آپ جانیں۔ مجھے ابھی جو Opportunityمل رہی ہے اس کو میں کھونا نہیں چاہتا۔۔۔‘‘
’’لیکن وجّو ہمارے کاروبار کا۔۔۔۔‘‘
’’بھائی جان مجھے اپنے بچوں کا فیوچر دیکھنا ہے۔کاروبار تو جیسے ہم نے مل کے جمایا تھا۔ اب نجیب بڑا ہوگیا ہے۔ اس کو شامل کر کے کوشش کیجئے، ایک دو برس میں ٹھیک ہو ہی جائے گا۔‘‘
وجاہت چلا گیا۔
عید بقرعید پر اماں جان کے نام اُس کے کارڈ آتے رہے، جن پر اس کا پتا بھی نہیں لکھا ہوتا تھا۔
نجیب کالج میں پڑھ رہا تھا۔میری دوگنی محنت کے باوجود، بڑھتی مہنگائی اور بڑے ہوتے بچوں کے سبب آمدنی اپنی جگہ ٹھٹہر کے رہ گئی تھی۔اب مجھے ایک ہی آس تھی کہ نجیب سائینس کا گریجویٹ ہو جائے، کوئی ڈھنگ کی ملازمت مل جائے تو شایدہاتھ میں دو پیسے زیادہ آئیں ۔میں نے بھی اپنے واقف کاروں سے کہہ رکھا تھا اور خود نجیب بھی اپنے طور سے کوشش میں لگا ہوا تھا۔
ایک بار کسی ہمدرد نے مشورہ دیاتھا کہ نجیب کو اپنے ہی ساتھ کام میں لگالوں۔ مگر ایک تو اُس کا رجحان نہیں دوسرے اگر زورزبردستی سے اپنے ساتھ لگا بھی لوں تو فائدہ کیا۔سوکھی گائے کو ایک آدمی دوہے یا دو‘ دودھ تو وہ اتنا ہی دیگی جتنی اس کے بدن میں جان ہے۔
یہ اُس روز کی بات ہے جب مجھ سے نجیب نے آکے تھکے ہوئے لہجہ میں کہا تھا۔’’ابو۔بڑی سفارش یا کچھ لئے دیئے بغیر نوکری نہیں مل سکتی۔‘‘
ابھی میں اُس کی بات کا جواب دے بھی نہیں سکا تھا کہ اُس نے دوسری بات کہی۔
’’اگر آپ کہیں سے بھی ڈیڑھ دو لاکھ کا انتظام کردیں تو میں اے۔ایس ۔آئی ہو جاؤنگا۔یہ آپ سے پرامس کرتا ہوں کہ ملازمت ملنے کے چھے سے آٹھ مہینے کے اندر یہ روپیہ واپس کر دوں گا۔‘‘
اُس کی بات سن کر میرے وجود میں ایک اُبال سا اٹھا، پھر میری آنکھوں میں دھواں سا بھر گیا۔مجھے یقین تھا کہ میری صورت دیکھ کر اور میرا جواب سن کروہ تمام ادب آداب اور لحاظ مُروت ایک طرف رکھ کے بپھر جائے گا اور جس طرح میری عدم موجودگی میں اپنی ماں کے سامنے میری کم ہمتی اور ایمانداری کو بزدلی پر محمول کرتا رہاہے۔ اب وہ سب باتیں میرے روبرو کہہ دیگا․․․․مگر نجیب کے کچھ کہنے کی نوبت ہی نہیں آئی کہ اُسی وقت ایک صاحب مجھے پوچھتے ہوئے آئے۔ لباس اور شخصیت مرعوب کن تھی۔قریب آنے کے بعد انھوں نے پھر میرا نام لیا۔جب میں نے کہا۔’’ فرمایئے۔‘‘تو اُن صاحب نے کہا
’’آداب۔میرا نام عبدالرشید ہے اور میں آپ کی ہندوستان والی مرحوم خالہ کا بیٹا ہوں۔‘‘
میں اُٹھ کر اُن سے بغلگیر ہوا۔پھر پوچھا۔
’’آپ انڈیا سے آرہے ہیں۔؟
’’جی نہیں،فی ا لحال تو دبئی سے آرہا ہوں۔ میری ماں کی خواہش تھی کہ میں ایک مرتبہ پاکستان جاکے آپ سب سے ملوں اور خالہ اماں کو سلام کرنے کے لئے حاضر ہوؤں․․․․بڑی مشکل سے دو دن کا وقت نکال کے آسکا ہوں․․‘‘
’’تو چلئے گھر چل کے باتیں کرتے ہیں۔ سامان کہاں ہے آپ کا۔؟‘‘
ایک رات کی تو بات تھی۔پھر آپ کا گھر بھی دیکھا ہوا نہیں تھا، اس لئے ہوٹل میں ٹہر گیا۔‘‘
’’ یہ تو بڑی زیادتی کی آپ نے کہ گھر ہوتے ہوئے ہو ٹل میں ٹہرے ۔‘‘
’’خالہ اماں کیسی ہیں۔؟‘‘ بات کا رُخ ہی بدل گیا۔
’’بڑھاپے میں آدمی کیسا ہوتا ہے۔ گھر چل کے خود ہی دیکھ لیجئے گا۔‘‘
اماں جان پر عمر کا بوجھ اتنا پڑ چکا تھا کہ وہ چلنے پھرنے سے لا چار ہوگئی تھیں۔زمانے کی اتنی اونچ نیچ دیکھی تھی کہ اپنی عینک کہیں رکھ کے بھول گئی تھیں اور اپنوں کے بارے میں ایسی اور اتنی باتیں سنی تھیں کہ اب کسی کے بولنے سے پہلے آہستہ سے پوچھتی تھیں ’’کوئی بری خبر تو نہیں ہے ؟‘‘پھرچیخ چیخ کر ان کو بتایا جاتا تھا کہ اچھی بات ہے اور ضروری بات ہے۔ تب وہ سننے پر رضا مند ہوتی تھیں۔ اِس وقت بھی جب ان کو بتایا گیاکہ یہ بھائی عبدالرشید ہیں۔آپ کی چھوٹی بہن کے بیٹے․․․․ہندوستان سے آئے ہیں․․․․․تو انھوں نے بھائی رشید کے کندھے ہر ہاتھ رکھ کے وہ سب کہنا شروع کر دیا جوکسی بھی ملنے والے کے سامنے دہراتی رہتی تھیں۔
بیٹا،ہم نے کبھی اِس زمانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا کہ اپنے بیگانے بن جائیں گے ایسے بیگانے کہ اپنوں کا گلا کاٹنے لگیں گے۔۔ تمہیں معلوم ہے میرے ارشاد کے ساتھ کیا ہوا۔؟بیوی بنگالن․․․․بیٹی داماد بنگالی․․․․
میں نے اُن سے کہا۔’’ اماں۔ یہ خالہ جان کے بیٹے ہیں۔‘‘
اماں جان کے آنسو بھی خشک ہو چکے تھے۔ ایک جملہ کہنے کے بعد انُ کا گلا سوکھ جاتا تھا۔ میری بات سن کر بولیں۔
’’لمبی زندگی بھی عذاب ہوتی ہے۔تمہاری ماں خوش نصیب تھی کہ وقت پر مر گئی ۔اور ایک میں ہوں۔ میرے ارشاد کے ساتھ کیا ہوا․․․․․‘‘
رشید بھائی اُن کے قریب بیٹھ گئے، اپنے بازو اماں جان کے نحیف و ناتواں کندھوں پر رکھے پھر مجھے اشارہ کیا۔وہ جو کچھ آہستہ آہستہ کہتے رہے وہ میں چیخ چیخ کر اماں جان کے گوش گزار کرتا رہا۔
’’اماں جان بھائی عبدالرشید کہہ رہے ہیں وقت کے ساتھ آدمی بدل جاتا ہے، حالات بدل جاتے ہیں اور یہ خوش خبری سنا رہے ہیں کہ چاروں بہنیں اپنے اپنے گھر کی ہو چکی ہیں۔ دو اپنے بچوں کے ساتھ امریکا میں ہیں اور دو جدہ میں۔۔ سب بھائیوں کی بھی شادی ہوگئی ہے۔۔بھائی عبدالعزیز ،الہ آباد یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں، بھائی عبدالقدیردبئی میں ہیں اور اِن کے ساتھ یعنی بھائی عبدالرشید کیساتھ ہی کاروبار کر رہے ہیں اور․․․․اور اماں جان بھائی عبدالرشید مجھے ایک تین لاکھ دس ہزار کا ڈرافٹ دے رہے ہیں۔ یہ ابا کے مکان کی قیمت ہے۔۔ نانا جان والی حویلی دوبارہ بنوالی ہے۔فرمارہے ہیں کہ پاکستان کے خصوصاَ کراچی کے حالا ت زیادہ سازگار نہیں ہیں ،اس لئے وہ نجیب کو جلد ہی ویزا بھیج کر دبئی بلالیں گے اور مجھ سے بھی کہہ رہے ہیں کہ میں بھی۔۔۔
اتنا کہنے کے بعد مجھے یہ محسوس ہوا کہ شاید اب میں اُن کا کہا نہ دہرا سکوں کہ یہ اتنا سچ ہے کہ میرے حلق میں کانٹے کی طرح چبھنے لگاہے۔
٭٭٭٭
’’ایک شام کا قصہ‘‘ ۔ ’’کھویا ہوا آدمی‘‘ اور ’’سایہ سایہ دھوپ‘‘ کے بعد سلطان جمیل نسیم کے افسانوں کا تیسرا مجموعہ ہے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شائع شدہ سبھی افسانے دہشت گردی کے موضوع پر ہیں۔ شاذ و نادر ہی قاری کو ایک ہی موضوع پر لکھے گئے افسانوں کا مجموعہ پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ ایک ہی موضوع پر لکھنا جتنا مشکل ہے اُتنا ہی پڑھنا بھی۔لیکن سلطان جمیل نسیم نے بڑی فنکاری سے یہ سبھی افسانے لکھے ہیں ہر افسانے کا پلاٹ تنوع لئے ہوئے ہے اور ہر افسانے کی تیکنک میں بھی ندرت ہے۔کسی افسانے سے اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ سبھی افسانے اچھے اور دلچسپ ہیں۔زبان با محاورہ‘ مکالمے چست اور فطری ‘ جذبات نگاری پُر اثر اور بیان رواں دواں ہے۔۔بین السطور افسانہ نگار کا اظہارِ خیال یہ ہے دہشت گردی کراچی اور حیدرآباد سندھ کا مسئلہ نہیں بلکہ در حقیقت یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس سے مفر کا فی الحال کوئی امکان نظر نہیں آتا․․․․․
محافظ حیدر