’’زرقہ!!‘‘ وجدان صاحب نے زارون کو دیکھ کر انہیں تنبیہ کی
’’نہیں وجدان آج نہیں۔۔۔۔ اتنے سالوں سے جو سچ جھوٹ کے پردے میں چھپا رہا۔۔۔۔۔۔۔ جو سچ ناسور بن گیا ہماری زندگیوں میں اب وقت آگیا ہے کہ وہ سچ سامنے آجائے‘‘ وہ ہاتھ کی پشت سے آنسوں صاف کرتی ٹھوس لہجے میں بولی
زارون تو بس یک ٹک اپنی پھوپھو کو دیکھے جارہا تھا۔۔۔
’’تو کہوں زارون رستم ہمت ہے تم میں سچ سننے کی۔۔۔۔۔ بہت غرور ہے نا تم میں، تکبر ہے۔۔۔۔۔۔ بہت اکڑ ہے تم میں۔۔۔۔۔۔ لیکن اگر تمہیں اپنی اصلیت پتا چل جائے تو تمہاری انا کا جو یہ بت ہے نا پاش پاش ہوجائے۔۔۔۔۔ تم خود اپنی نظروں میں گر جاؤ۔۔۔۔۔۔ ارے تم ہوں ہی کیا۔۔۔۔۔ تمہارا وجود کیا ہے۔۔۔۔۔۔ جس کی بنا پر تم اتنا اکڑتے ہوں۔۔۔۔۔۔ اگر تم جان جاؤ تو سڑک پر پڑے کچرے اور تم میں کوئی فرق نہیں رہے گا زارون رستم‘‘ وہ اونچی آواز بولی تو زینیہ نے انہیں چپ کروانا چاہا
’’نہیں زینیہ آج مت روکو مجھے۔۔۔۔ بتانے دوں مجھے کہ یہ کون ہے اسکا باپ کون تھا۔۔۔۔ کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ وہ شخص جو میرا بھائی تھا کتنا گرا ہوا تھا وہ۔۔۔۔۔۔ کیسے ایک انسان کی زندگی برباد کردی اسنے۔۔۔۔۔۔ اگر میں آج بھی چپ نہیں رہی تو یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہے گا اور ایک معصوم لڑکی ہمیشہ ایسے ہی قربان ہوتی رہے گی۔۔۔۔۔ کوئی مت روکے مجھے‘‘ زرقہ بیگم کا چہرہ پھر آنسوؤں سے بھر گیا
’’بس!!! بہت ہوگیا۔۔۔۔۔ کیا سچ؟ کیسا سچ ہاں؟ بہت بول لیا آپ نے۔۔۔۔۔۔ بہت ہانک لی ادھر ادھر کی۔۔۔۔۔ مجھے بھی تو زرا سچ پتا چلے ۔۔۔۔ مجھے بھی بتائے آخر ایسا بھی کیا کردیا میرے باپ نے جو آپ اتنا بھڑک رہی ہے۔۔۔۔۔ یاں پھر یہ صرف ایک حربہ ہے مجھے میری پرنسز سے دور رکھنے کا۔۔۔۔۔ آخر کو میں نے آپکی بیٹی کو جو ریجیکٹ کیا تھا‘‘ وہ استہزایہ انداز میں زینیہ پر ایک ناگوار نظر ڈالے بولا
’’اتنی ہمت ہے تم میں۔۔۔۔۔ بولوں سچ کا سامنا کرسکوں گے تم؟‘‘ زرقہ بیگم سپاٹ لہجے میں بولی
’’زارون رستم پتھر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی ہمت کا اندازہ شائد آپ کو نہیں۔۔۔۔۔ وہ سب کچھ سہہ سکتا ہے۔۔۔۔‘‘ وہ ان کے برابر کھڑا آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بولا
’’تو ٹھیک ہے زارون رستم کل صبح یہاں موجود ہونا۔۔۔۔ سچ موجود ہوگا تمہارے سامنے۔۔۔۔ اور ہاں اب تم یہاں سے جاسکتے ہوں۔۔۔۔۔۔ اور وہ لڑکی یہی رہے گی کیونکہ اس وقت وہ میرے گھر میں موجود ہے۔۔۔۔۔ وہ میری دسترس میں ہے‘‘ زرقہ بیگم بھی اسے للکارا اور ساڑھی کا پلو سنبھالے اپنے کمرے کی جانب چل دی
’’ہنہ!!‘‘ زارون نے ہنکارا بھرا اور ایک نظر اپنے کمرے کے بند دروازے کو دیکھتا وہ گھر سے باہر نکل گیا
زارون کے جاتے ہی وجدان صاحب صوفہ پر ڈھہہ گئے
’’پاپا!‘‘ زینیہ فورا انکی جانب لپکی
’’ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا زینیہ۔۔۔۔ اگر سچ زارون کے سامنے آگیا تو نجانے وہ کیا کت گزرے گا۔۔۔۔۔۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا‘‘ وہ سر نفی میں ہلاتے اپنا ماتھا مسلتے بولے
’’سب ٹھیک ہوجائے گا پاپا۔۔۔۔ آپ فکر مت کرے زینیہ نے انہیں دلاسہ دیا
’’اچھا میں اپنے کمرے میں جارہا ہوں تم اس بچی کے پاس جاؤ۔۔۔۔دیکھو اسے نجانے کس حالت میں ہوگی۔۔۔۔ پتہ نہیں کچھ کھایا بھی ہے اس نے کہ نہیں‘‘ وجدان صاحب ہدایت دیتے اپنے کمرے کی جانب چل دیے
زینیہ اٹھ کر بسمل کے پاس گئی
’’بسمل دروازہ کھولو میں ہوں زینیہ‘‘ زینیہ دروازہ بجاتے بولی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زارون کے جانے کے بعد بسمل نے خود کو چادر سے اچھے سے لپیٹ لیا تھا۔۔۔۔۔ وہ تو ابھی تتک یقین نہیں کرپارہی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا تھا
اتنے میں دروازہ کھٹکا تو بسمل کی روح فنا ہونے لگی
’’بسمل دروازہ کھولو میں ہوں زینیہ‘‘ وہ کچھ پرسکون ہوئی مگر دروازہ نہیں کھولا۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ حیوان بھی اس کے ساتھ ہوا۔۔۔۔۔ نہیں ہرگز نہیں۔۔۔۔۔۔ وہ دروازہ نہیں کھولے گی
’’بسمل پلیز!!‘‘ زینیہ نے منت کی۔۔۔۔۔ اسے بولنے میں ابھی بھی دشواری ہورہی تھی
’’نن۔۔۔نہیں۔۔۔۔جاؤ یہاں سے۔۔ مجھے پتہ ہے وہ تمہارے ساتھ ہے‘‘ بسمل چیخی
’’بسمل میرے ساتھ کوئی نہیں ہے ماما نے اسے گھر واپس بھیج دیا ہے پلیز۔۔۔ پلیز دروازہ کھولو‘‘ زینیہ نے منت کی اور کھانسنے لگ گئی۔۔۔۔
بسمل نے کچھ پل کو سوچا اورپھر ٹیبل سے واز احتیاطی تدابیر کے طور پر اٹھا کر دروازے کی جانب بڑھی۔۔۔۔۔۔۔۔ اسنے ایک ہاتھ سے دروازہ کھولا جبکہ دوسرے سے واز اونچا کیے حملے کی نیت سے۔۔۔۔۔۔۔ مگر اکیلی زینیہ کو دیکھ کر اسکے ہاتھ سے واز نیچے گرگیا اور آنکھوں پانی بھرنا شروع ہوگیا۔۔۔۔۔ کچھ سوچے سمجھے بغیر اسنے واز بیڈ پر پھینکا اور زینیہ کے گلے لگ کر رونا شروع ہوگئی۔۔۔۔۔۔ زینیہ کو بھی اس پر ترس آگیا۔۔۔۔۔۔۔
’’بس کچھ نہیں ہوا سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔۔۔ آئی پرامس یوں۔۔۔۔۔۔۔۔ کل تک تم واپس چلی جاؤ گی‘‘ زینیہ اسے آرام سے اپنے ساتھ لگائے بیڈ کی طرف لائی اور اسے بیڈ پر بٹھا کر پانی پلایا
’’مجھے گھر جانا ہے۔۔۔۔۔۔ مجھے احان کے پاس جانا ہے‘‘ وہ ہچکیوں کی صورت روتی بولی۔
’’بسمل ادھر دیکھو چپ بلکل چپ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم فکر مت کروں کل تمہیں گھر بھیج دے گے ہم۔۔۔۔۔۔ ابھی رات کافی ہوگئی ہے۔۔۔۔۔۔۔ پرامس کرتی ہوں۔۔۔۔ ہم صیح سلامت تمہیں کل گھر بھیج دے گے‘‘ زینیہ نے اسے دلاسہ دیا
’’پرامس؟‘‘ بسمل نے نم آنکھوں سے پوچھا
’’پرامس‘‘ زینیہ نے مسکرا کر اسکی ناک کھینچی۔۔۔۔۔۔
’’چلو تم میرے ساتھ میرے کمرے میں۔۔۔۔۔ میں تمہیں اپنا ڈیس دیتی ہوں چینج کرنے کے لیے اور ساتھ ہی ساتھ کچھ کھانے کو بھی لاتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ نجانے کب سے بھوکی ہوں تم‘‘ زینیہ نے اسکا ہاتھ تھاما اور اسے اپنے کمرے میں لے آئی
کپڑے بدلنے کے بعد بسمل نے کھانا کھایا اور پھر زینیہ نے اسے نیم گرم دودھ کے ساتھ ٹیبلیٹ دی، جس کی وجہ سے وہ بہت جلد ہی نیند کی وادیوں میں چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ زینیہ کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔۔۔۔۔۔۔ کل کچھ ایسا ہونے والا تھا جو سب کچھ ہلا کر رکھ دیتا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح صبح اسکی آنکھ کھلی تو انجان کمرے میں خود کو دیکھ کر وہ چونک اٹھی۔۔۔۔۔۔ مگر کل کا واقع یاد کر کے آنکھیں پھر بھر آئی
زینیہ جو اسے ہی اٹھانے آئی تھی اسے روتا دیکھ کر پریشان ہوگئی
’’بسمل کیا ہوا سب ٹھیک ہے؟ درد ہو رہا ہے کیا؟‘‘ اسکے ماتھے کی پٹی کو دیکھ کر اس نے پریشان لہجے میں پوچھا
’’نہیں۔۔۔۔۔۔ مجھے گھر جانا ہے‘‘ وہ ایک بار پھر سے زینیہ سے لپٹ کر رونا شروع ہوگئی۔۔۔۔ زینیہ کو اسکی حالت پر ترس آیا
’’اچھا اوکے تم فریش ہوکر ناشتہ کرلو۔۔۔۔۔ اسکے بعد میں تمہیں خود لیکر جاؤ گی‘‘ زینیہ نے حامی بھری
زینیہ کی بات پر وہ جھٹ سے واشروم میں بھاگی۔۔۔۔۔ منہ ہاتھ دھو کر اسنے زینیہ کا ہی دیا ہوا ایک سوٹ پہنا۔۔۔ پیلے رنگ کا سادہ سا فراک۔۔۔۔۔۔ ساتھ میں سفید ٹراؤزر اور سفید ہی ڈوپٹا۔۔۔۔۔۔ وہ ڈوپٹا سر پر اچھے سے سیٹ کرنے لگی
’’ارے رکو پہلے بینڈایج تو چینج کروالو‘‘ زینیہ نے اسے ٹوکا اور پھر ماتھے کی پٹی بدلی
’’چلو چلے‘‘ زینیہ کے بولتے بسمل اس کے ساتھ باہر آگئی
وہ ڈائنینگ ٹیبل پر موجود لوگوں کو دیکھ کر وہ ہچکچائی
’’ارے بیٹا رک کیوں گئی آؤ‘‘ زرقہ بیگم اس معصوم سی لڑکی کو دیکھ کر مسکرا کر بولی تو بسمل بھی ہمت جمع کرتی زینیہ کے ساترھ جا بیٹھی
اسے ابھی ناشتہ کرتے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ زارون وہاں آیا
’’زہے نصیب!!‘‘ وہ دلفریب لہجے میں بولتا بسمل کو نظروں کے حصار میں رکھے اس کے بلکل سامنے بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔ بسمل نے ڈر اور خوف سے زینیہ کا ہاتھ تھام لیا
اسکا ڈرنا، خوف۔۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ زارون کو اندرونی سکون دیتا تھا
زینیہ نے ہلکے سے بسمل کا ہاتھ دبایا اور اسے تحفظ کا احساس دلایا
’’ناشتہ کرلو تو میرے کمرے میں آجانا‘‘ زرقہ بیگم سپاٹ لہجے میں بولتی وہاں سے اٹھ گئی
بسمل نے بھی مارے بندھے اپنا ناشتہ کیا اور لاؤنج میں آگئی۔۔۔۔۔۔ جبکہ زارون وجدان صاحب کے ساتھ ان کے کمرے میں چلاگیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’رک جاؤ‘‘ زارون کے اندر داخل ہونے سے پہلے ہی زرقہ بیگم بولی اور ایک چابی اپنے کبرڈ سے نکالی
’’چلو آؤ‘‘ وہ اسے اپنے پیچھے آنے کا بولتی گھر کے پیچھے انیکسی کی جانب بڑھی۔۔۔۔۔۔ زارون بھی حیران سا ان کے پیچھے بڑھا
انیکسی میں داخل ہوتے ہی وہ ایک کمرے کی جانب بڑھی۔۔۔۔۔۔۔ زارون مزید حیران ہوا کیونکہ اس نے ہمیشہ یہ کمرہ بند ہی دیکھا تھا
دروازہ کھول کر انہوں نے لائٹ اون کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پل بھر میں سارا کمرہ روشنی میں نہاگیا۔۔۔۔۔
زارون نے قدم اندر رکھے تو اسکی آنکھیں حیرت سے بڑی ہوگئی۔۔۔۔۔۔ پورا کمرے میں ایک لڑکی کی تصویریں لگی ہوئیں تھی۔۔۔۔۔۔ وہ لڑکی خوبصورت نہیں تھی مگر اس میں ایک کشش تھی
’’یہ ماں ہے تمہاری‘‘ زرقہ بیگم بولی تو زارون نے دوبارہ اس لڑکی کو دیکھا مگر اب آنکھوں میں حیرت نہیں کوئی اور ہی جذبہ تھا
زارون یک ٹک اس تصویر کو دیکھے جارہا تھا
’’بہت خوبصورت ہے یہ‘‘ وہ تصویر پر ہاتھ پھیرتے بولا۔۔۔۔ ہالانکہ وہ سادہ سے نین نقش کی تھی۔۔۔۔۔۔ مگر ماں تو ماں ہوتی ہے اور اولاد کے نزدیک ماں سے خوبصورت کوئی اور عورت نہیں ہوتی
اگر کوئی زارون سے پوچھتا کہ اس دنیا میں سب سے خوبصورت عورت کون ہے۔۔۔۔۔۔ تو وہ بنا ایک لمحہ لیے اپنی ماں کا نام لیتا۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اسکی ماں کا نام کیا ہے؟ وہ تو یہ بھی نہیں جانتا تھا
’’انکا نام کیا ہے؟‘‘ زارون نے تصویر پر نظریں گاڑھے پوچھا
’’انا۔۔۔۔۔ انا جعفری۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جتنی خوبصورت تھی۔۔۔۔ اتنی ہی خوب سیرت۔۔۔۔۔ مگر پھر ایک درندے نے اسکی ساری خوب صورتی نوچ ڈالی۔۔۔۔۔۔۔ مار دیا اسے۔۔۔۔۔۔۔۔ یوں کہ نا تو وہ زندہ لوگوں میں رہی اور نہ ہی مردوں میں۔۔۔۔۔ اسکی ساری معصومیت چھین لے اس نے‘‘ وہ بولی تو زارون کے اندر ایک لاوا سا ابلنے لگا
’’اور وہ درندہ میرا باپ تھا؟‘‘ زارون نے ضبط سے آنکھیں میچ کر پوچھا۔۔۔۔۔۔
’’ہاں‘‘ زرقہ بیگم بھیگے لہجے میں بولی
زارون نے آنکھیں کھولی اور انا کی تصویر پر ہاتھ پھیرنے لگا
’’مجھے جاننا ہے کہ ایسا کیا ہوا تھا جو اتنی خوبصورت اور معصوم لڑکی سے اس کا سب کچھ چھین لیا گیا‘‘ زارون نے ٹھوس لہجے میں پوچھا
’’بتاؤ گی مگر ایک شرط ہے میری۔۔۔۔۔ تم بسمل کو جانے دوں گے‘‘ زرقہ بیگم ٹھوس لہجے میں بولی
’’ٹھیک ہے میں اسے جانے دوں گا مگر سچ جاننے کے بعد‘‘ زارون کا لہجہ سخت تھا
’’ٹھیک جیسی تمہاری مرضی‘‘ زرقہ بیگم اسکی بات کی حامی بھر لی
۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سب اب لاؤن میں صوفہ پر آمنے سامنے بیٹھے تھے۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت دن کے گیارہ بج رہے تھے
’’آنٹی مجھے گھر جانا ہے‘‘ بسمل نظریں نیچی رکھے منمنائی
’’تم کہی نہیں جارہی‘‘ زارون غصے سے بولا تو بسمل ڈر گئی
’’بیٹا ہم نے وعدہ کیا ہے کہ آپ کو آپ کے گھر چھوڑ کر آئے گے۔۔۔۔۔۔ شام تک کا ویٹ کرلو بس۔۔۔۔۔۔ اوکے‘‘ زرقہ بیگم بولی تو بسمل نے سر اثبات میں ہلادیا
زرقہ بیگم نے ایک نظر وجدان صاحب کو دیکھا جنہوں نے آنکھوں کو جنبش دیکر اجازت دی
ایک لمبی سانس لیے انہوں نے زارون کو دیکھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی
’’آہ!!‘‘ پچھلے آدھے گھنٹے سے وہ ریسٹورانٹ میں بیٹھی اس شخص کا انتظار کررہی تھی
’’اففف زعقہ کہاں پھنسا دیا مجھے۔۔۔۔۔۔ چھوڑو گی نہیں میں تمہیں‘‘ ٹیبل پر ہاتھ مارتے وہ غصے سے بولی تو پانی کا گلاس اسکی کالی فراک پر گرگیا
’’ون مور ڈیزاسٹڑ‘‘
(one more disaster)
بھیگے فراک کو ٹیشو سے صاف کرتے وہ بولی۔۔۔۔۔۔ اور اٹھ کر واشروم کی جانب چل دی
زرقہ نے اس کے لیے آج ایک بلائنڈ ڈیٹ ارینج کی تھی اور وہ اب آدھے گھنٹے سے اس آدمی کا انتظار کر رہی تھی جسے زرقہ نے اس کے لیے چنا تھا
زرقہ کو سو باتیں سناتی وہ واشروم کے دروازے پر پہنچی جب اسے اندر سے عجیب آوازیں سنائی دی۔۔۔۔ اس نے کندھے اچکائے دروازہ کھولا۔۔۔۔۔۔ تو آنکھیں حیرت سے ابل پڑی
لیڈیز واشروم میں ایک مرد ایک عورت کے ساتھ اور ان کی پوزیشن۔۔۔۔۔ وہ اس عورت پر جھکا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ انا اپنی جگہ پر جم کر رہ گئی تھی۔۔۔۔۔ اس مرد کی پیٹھ انا کی طرف تھی۔۔۔۔۔۔ انا جو ابھی تک ہوش نا سنبھال پائی تھی جب اس آدمی نے اپنی پینٹ کی پاکٹ سے ایک چھوٹا سا ریوالور نکالا اور اس عورت کے پیٹ پر رکھ کر گولی چلا دی۔۔۔۔۔۔۔۔ گولی چلتے ہی انا کے منہ سے چیخ نکلی۔۔۔۔۔ جس پر اس آدمی نے منہ اوپر کیا تو شیشے میں سامنے کھڑی انا اسے واضع نظر آئی۔۔۔۔ انا بھی اسکی شکل دیکھ چکی تھی۔۔۔۔ اسی لیے الٹے پیر وہاں سے بھاگی
اس آدمی نے اپنے ساتھ لپٹی مردہ عورت کا وجود خود سے دور پھینکا جیسے کہ وہ کوئی اچھوت بیماری ہوں۔۔۔۔ اور خود کو فریش کرتا واشروم سے یوں باہر نکلا جیسے اندر کچھ ہوا ہی نہ ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اسکا ارادہ اس لڑکی کو ڈھونڈ کر ختم کردینے کا تھا۔۔۔۔۔۔ مگر اس سے پہلے اسے اس جھنجھٹ میں سے نکلنا تھا جس میں اسکی بہن نے اسے پھنسایا تھا
وہ لمبے لمبے قدم اٹھاتا اس ٹیبل پر پہنچا جہاں آج اسکی بلائنڈ ڈیٹ موجود تھی۔۔۔۔۔ اس لڑکی کی پیٹھ رستم کی جانب تھی اسی لیے وہ اسکی شکل نہیں دیکھ سکا اور گھوم کر سامنے آیا
’’ہیلو مس جعفری‘‘ وہ کانیفینڈینس سے بولا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انا واشروم سے جلدی بھاگتے دوبارہ اپنے ٹیبل پر پہنچی۔۔۔۔۔۔ لمبے لمبے سانس لیے اس نے خود کو نارمل کرنا چاہا۔۔۔۔۔۔ پہلے تو اس نے سوچا کہ وہ یہاں بھاگ جائے۔۔۔۔۔۔ لیکن اگر وہ ایسا کرتی تو شق پولیس تحقیقات میں شک یقینی طور پر اس پر جاتا
ابھی وہ خود کو نارمل کرہی رہی تھی کہ کسی نے اسے بھاری مردانہ آواز میں مخاطب کیا
’’ہیلو مس جعفری‘‘ وہ کانفیڈینس سے بولا تو انا کے ماتھے پر پسینے کی ننھی بوندے جمع ہونا شروع ہوگئی مگر اس نے خود پر قابو پایا۔۔۔۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ سامنے کھڑے اس شخص کو اس پر زرا سا بھی شک ہوں
’’ہائے‘‘ انا کانفیڈینس بحال کرتے بولی
’’میں رستم شیخ۔۔۔۔ زرقہ کا بھائی۔۔۔۔ تو وہ آپ ہے جس سے وہ مجھے ملوانا چاہتی تھی‘‘ رستم بھاری لہجے میں بولتا اس کے سامنے بیٹھ گیا
’’انا۔۔۔۔ انا جعفری زرقہ کی دوست‘‘ انا مختصر بولی
’’کچھ منگوائے گی آپ؟‘‘ مینیو کارڈ پر نظر دوڑاتے اس نے پوچھا
’’نہیں‘‘ انا نے سر نفی میں ہلایا۔۔۔۔۔۔۔ جو کچھ وہ دیکھ چکی تھی اسکے بعد کھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا
’’تو ٹھیک ہے کام کی بات پر آتے ہیں‘‘ رستم اپنا آرڈر لکھوا کر بولا
’’کونسی بات؟‘‘ انا نے حیرت سے پوچھا
’’نا تو تم اتنی بچی ہوں اور نا ہی میں اتنا بےوقوف۔۔۔۔۔ تو اب بتاؤ تم نے واشروم میں کیا دیکھا؟‘‘ اسکا ہاتھ اپنے گرفت میں لیے وہ بولا تو دیکھنے والوں کو یہی معلوم ہوتا کہ وہ ایک ہیپی کپل ہے
اسکی بات پر ایک پل کو تو انا گڑبڑا گئی مگر پھر اگلے ہی پل وہ سنبھلی
’’مجھے نہیں معلوم کہ آپ کس بارے میں بات کررہے ہے مسٹر شیخ ۔۔۔۔۔۔ اور اچھا ہوگا آپ اپنا ہاتھ اپنے تک ہی رکھے‘‘ انا نے اسکی گرفت سے اپنا ہاتھ آزاد کروایا
’’اٹیٹیوڈ؟‘‘ رستم نے غور سے اس لڑکی کو دیکھا۔۔۔۔ کالے فراک میں سادہ سے نین نقش اور سادہ سی تیاری کے باوجود بھی اس لڑکی میں ایک عجیب سی کشش تھی۔۔۔۔ اس پر گندمی رنگ جچتا تھا۔۔۔۔۔۔ رستم نے زندگی میں بہت خوبصورت اور حسین لڑکیاں دیکھی۔۔۔۔۔ مگر یہ گندمی رنگ والی لڑکی ان سب سے الگ تھی۔۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ مزید بات چیت کرتے اچانک پولیس سائرن کی آواز سنائی دی اور ساتھ ہی پورے ریسٹورانٹ میں واشروم مین ہوئے قتل کا شور مچ گیا
پندرہ منٹ کے اندر اندر پورا ریسٹورانٹ سیل کردیا گیا تھا۔۔۔۔۔ چونکہ قتل منسٹر کی بھانجی کا ہوا تھا تو سخت ایکشن لینا بنتا تھا
پوچھ گچھ شروع ہوچکی تھی۔۔۔۔ جب ایک پولیس آفیسر ان کے ٹیبل کے پاس آیا۔۔۔۔۔ جہاں انا سر جھکائے بیٹھی تھی جبکہ رستم اپنے ڈنر کے ساتھ انصاف کررہا تھا
’’ایکسکیوز می مس؟‘‘ پولیس آفیسر نے اسے مخاطب کیا
’’انا جعفری‘‘ انا انہیں دیکھ کر کانفیڈینس سے ہلکی مسکان لیے بولا۔۔۔۔ رستم نے اپنا ڈنر بیچ میں روکا اور اب فرصت سے اسے دیکھنے لگا جو سوالوں کے جواب دے رہی تھی۔۔۔۔۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ اسکے متعلق کیا بیان دے گی۔۔۔۔۔۔۔۔ سچ بتائے گی بھی یا نہیں
’’تو مس جعفری ایک ویٹر کے مطابق مس شہلا کی موت سے پہلے آپ تھی جو واشروم گئی تھی۔۔۔۔۔۔ آپ کے بعد کوئی نہیں۔۔۔۔۔ آپ کچھ کہنا چاہے گی؟‘‘
’’جی میں گئی تھی واشروم میری ان سے ایک دو منٹ بات بھی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر پھر ان کے موبائل پر کسی کی کال آئی تھی تو انہوں نے کہاں کے واشروم میں ہے اور وہی آجائے۔۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ شائد کوئی مرد تھا‘‘ رستم پر نظریں گاڑھے اس نے جواب دیا
’’اور آپ کو کیسے لگا؟‘‘
’’کیونکہ انہوں نے مجھے واشروم سے جانے کو کہاں تھا۔۔۔۔۔ اور یہ بھی کہ وہ پرائیویٹ ماحول چاہتی ہے‘‘ انا نے کندھے اچکائے جواب دیا۔۔۔۔۔۔ رستم مسکرا کر اسکا جھوٹ سن رہا تھا
’’شائد انکا بوائے فرینڈ ہوگا۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ اپنے میک اپ پر ایکسٹرا محنت کررہی تھی‘‘ انا نے جواب دیا تو پولیس نے سر اثبات میں ہلادیا
’’تو تم نے جھوٹ بول کر مجھے بچایا؟‘‘ رستم نے پولیس کے جاتے ڈنر پھر سے شروع کرتے انا سے پوچھا
’’میں نے بچایا نہیں احسان کیا ہے۔۔۔۔۔۔ آپ میری دوست کے بھائی ہے‘‘ انا لحاظ بالائے طاق رکھتے بولی
’’تم نے مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا ۔۔۔۔ یہاں موجود پولیس کو معلوم تھا کہ یہ قتل میں نے کیا ہے‘‘ رستم پرسکون سا بولا تو انا کی آنکھیں باہر کو آئی
اسکی حالت دیکھ کر رستم مسکرایا
’’تمہیں کیا لگتا ہے کہ ہماری پولیس اتنی ایکٹیو کب سے ہوگئی۔۔۔۔۔ اور دوسری بات وہ پولیس آفیسر تم سے اتنے اچھے سے کیسے بات کر رہے تھے؟ سوچنے والی بات ہے نا؟‘‘ رستم اسکا مزاق اڑاتے بولا
’’منسٹر سر کو معلوم ہوگیا ہے تو وہ تمہیں چھوڑے گے نہیں‘‘ انا کا لہجہ پل بھر میں سخت ہوا
’’پہلی بات منسٹر مجھے کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ یہ سب اسکا آئیڈیا تھا۔۔۔۔۔ دوسری بات آئیندہ سے میں تمہارے منہ سے اپنے لیے تم نہیں آپ سنوں‘‘ اس نے تنبیہ کی
’’منسٹر اپنی بھانجی کو کیوں مارنا چاہے گا‘‘ انا ابھی تک وہی اٹکی تھی
’’پیسہ سب کچھ کروا دیتا ہے انسان سے ۔۔۔۔۔۔ مائی ڈئیر پرنسز‘‘ رستم نے اب بل پے کیا
’’امید ہے کہ نیکسٹ ویک اینڈ مل کر ہم آج جو ٹائم ضائع ہوا ہے اسکی بھرپائی کرسکے‘‘ رستم پارکنگ میں اسکی گاڑی کے پاس کھڑا بولا
’’ہم میں دوبارہ کوئی ملاققات نہیں ہوگی۔۔۔۔۔ مجھے آپ سے ملنے کا کوئی شوق نہیں۔۔۔۔۔۔ اور جہاں تک بات ہے زرقہ کی تو اسے میں خود منع کردوں گی‘‘ انا سخت لہجے میں بولی
’’نیکسٹ ویک اینڈ ۔۔۔۔ آٹھ بجے۔۔۔۔۔۔ جگہ میں خود ڈیسائڈ کروں گا‘‘ رستم اسکا گال تھپتھپا کر وہاں سے چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...