سنہ ۸۰ کے آس پاس شعراء کی جو نئی نسل سامنے آئی وہ کئی لحاظ سے اپنے پیش رو شعراء سے مختلف تھی۔ تازہ دم، نئی فکر اور نئے اسالیب کی موجد، تازہ ہوا کے جھونکوں کی مانند! ان کا کمٹمنٹ نہ ترقی پسندی سے تھا نہ جدیدیت سے۔ ایک آزاد تخلیقی فضا کا احساس دلانے والے ان شعراء میں ایک اہم نام تھا فریاد آزر! فریاد آزرؔ ۱۹۵۶ میں بنارس میں پیدا ہوئے، انٹر میڈیئٹ کے بعد اعلا تعلیم کی غرض سے دہلی تشریف لائے۔ جامعہ ملیہ میں ڈاکٹر عنوان چشتی کی شاگردی میں ۷۷۔ ۱۹۷۶ میں غزلیہ شاعری کا آغاز کیا۔
۱۹۹۴ میں فریاد آزرؔ کا پہلا شعری مجموعہ خزاں میرا موسم منظرِ عام پر آیا اور پھر ایک طویل وقفہ کے بعد سنہ ۲۰۰۵ میں دوسرا شعری مجموعہ قسطوں میں گزرتی زندگی شائع ہوا۔ اس طویل وقفہ کی وجہ ایسے مسلسل حادثات تھے جنھوں نے آزرؔ کے حوصلے پست کر دئے اور ان کی ذاتی زندگی بھی ایک مسلسل بے سکونی، ایک کرب ناک اضطراب اور ایک خاموش قیامتِ صغرا بن کر رہ گئی۔ دونوں مجموعوں کا انتخاب کچھ دن گلوبل گاؤں میں ۲۰۱۰ شائع ہوا۔ اسی دوران بچوں کے لئے ان کی ننھی منی نظموں کا مجموعہ بچوں کا مشاعرہ اردو اکادمی دہلی نے خود شائع کیا جس کا چوتھا ایڈیشن منظرِ عام پر آ چکا ہے۔ ان کی غزلوں کا نیا مجموعہ ایلیئن ایک طویل وقفہ کے بعد سنہ ۲۰۱۶ میں منظرِ عام پر آیا جس سے فریاد آزر کے شعری ارتقا کا واضح احساس ہوتا ہے۔ ایلیئن کسی دوسرے سیارہ کے انسان کو کہا جاتا ہے۔ لغات میں غیر ملکی کو بھی ایلیئن کہا گیا ہے۔ ہندستان میں فرقہ پرستوں کے ذریعہ ایک مخصوص اقلیتی طبقہ کو بار بار غیر ملکی کہہ کر انہیں احساسِ کمتری میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ اس مجموعہ کے نام کا بھی ہو۔ تینوں مجموعوں کے نام شاعر کے فطری درد و غم، اضطراب اور محرومی کے غماز ہیں اور حقیقت یہی ہے کہ کوئی بھی حساس فن کار ان سے بچ نہیں سکتا۔ زندگی کا عرفان انھیں جذبات و احساسات کا مرہونِ منت ہے۔ آزرؔ کے یہاں ذاتی غموں اور ناکامیوں نے اس رنگ کو اور بھی گہرا کر دیا ہے۔۔ ۔۔
پڑا تھا لکھنا مجھے خود ہی مرثیہ اپنا
کہ اپنے بعد بھلا اور کون تھا اپنا
پاؤں کے نیچے سلگتی ریت، صدیوں کا سفر
اور سر پر بارِ ثقف آسماں جلتا ہوا
یاس، محرومی، تذبذب، کرب، خوش فہمی، انا
اتنے ساماں تھے، مرا تنہا مکاں چھوٹا لگا
کربلا ہو کہ فلسطین کہ ہو بوسنیا
درد صدیوں سے مرا نام و نصب جانتا ہے
کربلا، فلسطین اور بوسنیا کی علامتیں بتاتی ہیں کہ شاعر کا غم محدود نوعیت کا نہیں ہے، یہ اسے ورثہ میں ملا ہے اور اس غم میں پوری ایک نسل اس کی شریک ہے۔ اسے صرف اس جرم کی سزا دی جا رہی ہے کہ وہ حق کا طرفدار ہے اور اس کی وابستگی دینِ محمدی سے ہے۔ حیرت کی بات نہیں کہ آزرؔ کی پسندیدہ علامتیں قرآن، رسول، اذان، نماز، سورۂ رحمان، سورۂ یاسین وغیرہ ہیں۔ سبز رنگ ان کے یہاں خدا شناسی، خدا ترسی، پاکیزگی، اخوت و محبت اور حق گوئی و بے باکی کا استعارہ ہے۔ سبز رنگ کے مختلف شیڈس آزرؔ کے تخلیقی تجربات کی رنگا رنگی کا وافر ثبوت پیش کرتے ہیں۔ ان پرکشش تراکیب پر نظر ڈالیں: سبز صدی، سبز لمحات، سبز ہوا، سبز لمس، سبز سایے، سبز موسم، سبز رخت، سبز ہاتھ اور سبز گھاس! اور جب یہ ترکیبیں جزوِ شعر بنتی ہیں تو یہی سبز رنگ کئی دوسرے رنگوں کے پیکر تخلیق کرتا ہے اور شعر کی بلاغت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔
نئی رتوں نے ہوا کی رو سے نہ جانے کیا ساز باز کر لی
کہ سبز صدیوں سے گونجتی آ رہی ندائے اذان بھی چپ
اس نے تو جڑ سے کاٹ ہی ڈالی تھی عادتاً
یہ سبز گھاس ہے کہ اگی آر ہی ہے پھر
مغربی طاقتیں مشرق اور خاص طور پر اسلام کو ہمیشہ زیر کرنے اور اور اسے بدنام کرنے کی فکر میں رہی ہیں، ان کی سازشیں بے نقاب ہو چکی ہیں مگر مشرقی ممالک کبھی گلوبلائزیشن کے نام پر، کبھی تیل کی سیاست، کبھی ایٹمی توانائی اور کبھی دہشت گردی کے حربوں سے ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ آزرؔ کی شاعری اس صورتِ حال کے خلاف شدید احتجاج درج کرتی ہی ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
ہر ایک ملک ہے میرے ہی خون کا پیاسا
تو کیا لہو میں مرے ذائقہ زیادہ ہے
جہاں کہیں بھی میں طاقت کی شکل میں ابھروں
کسی بہانے وہ مجھ کو دبانا چاہتا ہے
سر پہ آ کر رک گیا ہے آفتابِ مغربی
پی نہ جائے وہ کہیں اب سارے کا سارا فرات
اس قبیلے کے لہو میں ذائقہ اتنا لگا
جس کو بھی دیکھا اسی کے خون کا پیاسا لگا
ہم سمجھنے لگے مجرم ہے ہمیں میں کوئی
حادثہ ایسا رچایا گیا سوچا سمجھا
وقت کے چہرے پہ پھر کتنی خراشیں آ گئیں
پھر ضرورت اک صلاح الدین ایوبی کی ہے
آزرؔ کی شاعری میں اقلیتی نفسیات کا گہرا شعور نظر آتا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں اقلیتوں کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے، ان کی حق تلفی کی جاتی ہے اور بعض مواقع پر انھیں دوئم درجہ کا شہری قرار دیا ہے۔ ہندستان میں بار بار فرقہ وارانہ فسادات کا برپا ہونا اس امتیاز کی بدترین شکل ہے اور ایک مخصوص نظریہ کی حکومت آنے کے بعد پورے ملک میں اقلیتوں بالخصوص ایک خاص فرقہ کے ساتھ جو کچھ ہو رہا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں ہجوم کے ذریعہ انھیں پیٹ پیٹ کر قتل کر دینا روزانہ کا دستور بن گیا ہے۔ دہشت گردی کے نام پران کی اندھا دھند گرفتاری، وحشت ناک سزا اور کبھی کبھی پھانسی پر چڑھایا جانا اور فرضی انکاؤنٹروں کے ذریعہ مار دیا جانا ایک عام سی بات ہو چکی ہے۔ نیم فوجی دستوں میں صرف انہیں کے ساتھ ہی خطرناک حادثہ کا ہونا ور ان کا مارا جانا، اولا اور اوبر جیسی ٹیکسی سروسیز میں چونکہ ڈرائیور کا نام ٹیکسی بک کرتے وقت آ جاتا ہے لہٰذا اقلیتی فرقہ کے ڈرائیوروں کا مسافروں کے ذریعہ مار دیا جانا بھی ایک آسان کام بن گیا ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی تعداد جو پہلے ہی نہیں کے برابر تھی اور زیادہ کم ہوتے جانا، عدالتوں میں کبھی کبھی جانب داری کا عمل اور اسی طرح کی بہت سی وجہیں ٖ فریاد آزر کو کرب میں مبتلا کر دیتی ہیں جن کا عکس ان کی شاعری میں جا بجا نظر آتا ہے۔ کہیں کہیں تو فرقہ پرستوں کے خوف سے اپنی پہچان چھپا کر بھی لوگ جینے پر مجبور ہیں، مسلمانوں کو غیر ملکی کہنا بھی عام سی بات ہو گئی ہے مگر فریاد آزر صرف کفِ افسوس ملنے کی بجائے ان کا جواب بھی دینا جانتے ہیں۔ تاج محل جیسے سیکڑوں اثاثوں کو فرقہ پرستوں کے ذریعہ اپنا بتانے پر آزر کا یہ شعر اور دیگر اشعار ملاحظہ فرمائیں۔۔
جو ہم یہاں نہیں آتے تو آج بھی شاید
تمام شہر گپھاؤں میں رہ رہا ہوتا
عجیب رسم چلی ہے کہ بے گناہوں کو
ہمارے ملک میں ہر روز مارا جاتا ہے
مری پہچان اس نے چھین لی ہے
اب اس کے نام سے میں جی رہا ہوں
قانون کی نگاہ سے اکثر اتار کر
منصف بھی باندھ لیتے ہیں پٹی کبھی کبھی
آزرؔ کو اس بات کا احساس ہے کہ ساری دنیا میں ملتِ اسلامیہ خود انتشار کا شکار ہے۔ اس کی ناکامی کا خاص سبب یہی ہے۔ اس رویہ کے خلاف آزرؔ کے یہاں شدید برہمی ملتی ہے۔۔ ۔۔
جدا جدا رگِ ظالم پہ وار کرتے ہیں
ستم زدہ کبھی وحدت میں کیوں نہیں آتے
متحد ہو کر نہ سورج کی چمکے تو پھر
رفتہ رفتہ جگنوؤں کے پر کتر جائے گی رات
حالانکہ آزرؔ کی شاعری کا مرکزی خیال قومی اور بین اقوامی مظالم کے خلاف شدید احتجاج ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس عہد کے دیگر مسائل کی طرف ان کی نگاہ نہیں جاتی۔ سماجی، سائنسی، سیاسی، معاشی، تہذیبی، مذہبی، ادبی گویا کہ ہر طرح کے مسائل پر وہ بہت باریکی سے نگاہ ڈالتے ہیں۔ مندرجہ ذیل قبیل کے بے شمار اشعار آزرؔ کے کلام میں کثرت کے ساتھ ملتے ہیں۔
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں
خوب صورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے عہدِ قدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید
پھر نہیں خوف کوئی دونوں بڑے دیووں سے
سبز گلفاموں کو گر تھوڑی سیاست آ جائے
ورنہ ہم سانس بھی لینے کو ترس جائیں گے
سطحِ اوزون کو فضلات سے آزادی دے
اس نے چاہا تھا غصہ سے پاگل ہو جاؤں
میں نے اس کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا
ایک دن وقت بھی روئے گا لپٹ کر مجھ سے
اور قبولے گا ’’تجھے میں نے ہی برباد کیا‘‘
گرو کی یاد انگوٹھے سے آنے لگتی ہے
میں جب بھی ہاتھ میں تیر و کمان لیتا ہوں
زہر پینا ہی پڑے گا ہمیں اپنا اپنا
اب کوئی دوسرا شنکر نہیں آنے والا
اہلِ صحرا بھی بڑھے آتے ہیں شہروں کی طرف
سانس لینے کو جہاں صرف دھواں باقی ہے
تو پھر اقوامِ متحدہ میں بھی جمہوریت لائے
اگر سچ مچ ہی دشمن ہے وہ ظالم آمریت کا
کسی کو ایک ہی سجدے میں جنت مل گئی ہے
مگر کچھ لوگ صدیوں سے عبادت کر رہے ہیں
بزرگوں کی کبھی خدمت نہ کر پائے تھے آزر
سو اپنے آپ کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں
جو تھے مخصوص کبھی اور ہی قوموں کے لئے
کچھ عذاب ایسے بھی امت پہ اتر آئے ہیں
لوگ دو گز کے مکانوں میں بھی رہتے ہیں جہاں
کوئی دروازہ نہ آنگن نہ دریچہ کوئی
نظر انداز کرنا ہی نہ ہو مقصود تو آزرؔ
رخِ نرگس پہ کچھ اتنی بھی بے نوری نہیں ہوتی
دلِ عزیز پہ دعوا ہے آج بھی اس کا
اسے وہ مسئلہ کشمیر کا بتاتا ہے
اگرچہ صبح ضرورت تھی وقت کی لیکن
زمانہ غور سے سنتا رہا دلائلِ شب
ترے جمال سے آگے نظر گئی کس کی
نگاہ کون تری چشمِ نم پہ رکھتا ہے؟
اب اہلِ شہر کو آسانیاں بیمار کرتی ہیں
گھروں کا کام سارہ آلۂ خود کار کرتا ہے
اظہار کی سطح پر آزرؔ نے نئی شعری روایات سے بھر پور استفادہ کیا ہے۔ غیر آرائشی زبان، سامنے کی مگر تازہ علامتوں کا استعمال، فارسی اضافتوں سے کم سے کم کام لینے کا ہنر، صنعتِ تضاد کے ذریعہ بیان کو پر تاثیر بنانے کا ملکہ، جذبہ و فکر کی ہم آہنگی، قافیہ و ردیف کی بنیاد پر شعر کو استوار کرنے میں مہارت ایسی خصوصیات ہیں جن سے آزرؔ کے شعری مزاج اور انفرادیت کی تشکیل ہوتی ہے۔ ترکیب سازی میں بھی آزرؔ کے یہاں جدت نمایاں ہے۔ جسم کی کشتی، خواہشوں کا بحرِ بیکراں، سکوت موسم مکان، نیلا سراپا، تاریخی مسجدوں کا سکوت، برہنہ طرزِ بیان، سیاہ لفظوں بھری داستان، مٹی کا بادشاہ، دھوئیں کا لشکر، کربِ فلسطین وغیرہ۔ اس طرح ان تراکیب کی مدد سے وہ نئی شعری زبان کو نئے جہات سے آشنا کرنے میں بھی بڑی جدت کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ مثلاً غارِ حرا کے لہجے میں پناہ دینا، ابرہہ کے لہجہ میں عذاب کا آنا، خوش فہمی کے پنجوں پر کھڑے ہونا، قربتوں کی زد میں آنا، قسطوں میں جوان ہونا، قسطوں میں جینا مرنا وغیرہ۔ آزرؔ کی ایک اور بڑی خصوصیت یہ ہے ان کا شعری مواد کبھی گھسا پٹا نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ کہ آزرؔ نے زندگی اور دنیا کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا ہے، کائنات کے ذرہ ذرہ کو بغور محسوس کیا ہے۔ اس کے علاوہ تخیل کی پرواز بھی آزرؔ کو دوسرے شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔ بڑے اعتماد کے ساتھ کہا جا سکتا ہے
کہ دنیائے غزل میں فریاد آزرؔ کا نام مستقبل قریب میں سورج کی طرح نمایاں ہو گا کیوں کہ آزرؔ نے غزل میں اپنی انفرادیت کے نقوش ثبت کئے ہیں۔
٭٭٭