سبکتگین کو کمپنی میں ملازمت کرتے تین مہینے ہو چکے تھے۔ اور اس کمپنی کے قاعدے کے مطابق اسے پہلے تین ماہ کی تنخواہ ایک ساتھ ملی تھی۔ وہ ابا، اماں، شاہنواز کے علاوہ خالہ، چچا جان، اقدس اور اریبہ کے لیے بھی تحائف لے کر آیا تھا۔ نہ صرف اپنے گھر والوں کے لیے بلکہ نجیب اور اس کی امی، جنھیں وہ خالہ کہہ کر بلاتا تھا، ان کے لیے بھی ویسی ہی گرم شال لایا تھا جیسی اپنی اماں اور خالہ کے لیے لایا تھا۔
“ساری تنخواہ ہمارے لیے تحفے خریدنے میں ہی لگا دی یا کچھ بچایا بھی ہے؟” اس کے چچا فیاض نے اس کے ہاتھ سے اپنے لیے لایا سوٹ پکڑا اور محبت سے اسے سینے سے لگایا تھا۔
“اللہ تمھیں مزید ترقی دے بیٹا!” ان سب کو فوزیہ نے سبکتگین کی ملازمت کی خوشی میں گھر، رات کے کھانے پہ مدعو کیا تھا۔ دو گھرانے ان کے اور تیسرا گھرانہ نجیب کا، اس کے گھر والے بھی ان کے ساتھ لازم و ملزوم تھے۔ مرد حضرات کے لیے کھانا بیٹھک میں لگایا گیا تھا جبکہ خواتین کے لیے انتظام کچن سے ملحقہ ہال کمرے میں تھا۔
“اس ملازمت میں ترقی ہی کرے گا، تم دیکھنا فیاض!” شاہد نے اس کا کندھا تھپکا تھا۔ وہ جی بھر کر خوش ہوا تھا لیکن ان کے اگلے جملے نے اس کا حلق تک کڑوا کیا تھا۔
“ہمارے برخوردار شیف بننا چاہتے تھے، کیا صرف شیف بن کر اتنا کما سکتا تھا؟” وہ بغیر کچھ کہے باہر نکل گیا۔
“اب جانے دیجیے شاہد صاحب! ملازمت تو شروع کر دی ہے اس نے آپ کے کہنے پر، باقی اس کا شوق ہے کرتا رہے جو مرضی! یہی غنیمت ہے کہ فی زمانہ آپ کی اولاد اپنی پسند اور خواہش پہ آپ کی رضا کو ترجیح دیتی ہے۔” یہ بات کہنے والے اقبال تھے، نجیب کے ابو، جو بہت حد تک اولاد کی پسند کو ترجیح دینے والے لوگوں میں سے تھے۔
“آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں اقبال بھائی! نو سے پانچ والی ملازمت کے بعد بچہ اپنا شوق پورا کرنے کے لیے وقت نکالتا رہے، تو کیا جاتا ہے؟” فیاض نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی تو مجبوراً شاہد کو بھی خاموشی اختیار کرنا پڑی تھی۔ بات تو ان دونوں کی سچ تھی، اب وہ باپ کی بات مان کر ملازمت کر رہا تھا۔ اور اپنی عمر کے لڑکوں کی طرح کوئی الٹے سیدھے شوق بھی نہیں تھے کہ انھیں پریشان ہونا پڑتا۔ بیکنگ ہی کرتا تھا وہ بھی گھر پہ، ان کی نظروں کے سامنے رہ کر، جوان اولاد گھر میں والدین کے سامنے رہے، پھلے بڑھے اور ترقی کرے، اس سے بڑھ کر والدین کے لیے اور کیا اہم تھا۔
اس دعوت سے اگلے ہی دن سبکتگین نے فوزیہ سے بات کی تھی کہ وہ اوپر ہال کمرے کو سیٹ کروانا چاہتا ہے۔
“ابا جی کو آپ منائیے گا، جیسے بھی کرکے، میں کچھ نہیں جانتا۔” فوزیہ نے استری کا سوئچ بند کیا اور کپڑے بعد میں استری کرنے کا سوچ کر اس کے پاس آ بیٹھیں۔
“اوپر والا کمرہ ویسے بھی زیادہ استعمال نہیں ہوتا، آپ نے کاٹھ کباڑ ہی جمع کر رکھا ہے وہاں، میں اس کے ایک حصے میں شیلف بنوا کر اوون سیٹ کرنا چاہتا ہوں۔” وہ کوئی کاپی پینسل لیے بیٹھا تھا سارا حساب کتاب کرکے ہی آیا تھا۔
“میں نے تخمینہ لگایا تھا، ایک بندے سے بھی پوچھا، کل ملا کر پچاس سے ساٹھ ہزار تک کا خرچ ہو گا اماں!”
“پیسے؟” انھوں نے استفسار کیا تھا۔
“میری تین مہینے کی تنخواہ میرے اکاؤنٹ میں آئی ہے نا اماں! پیسے ہاتھ میں آئے ہیں تبھی تو یہ کام کروانے کا سوچا ہے۔” اس نے کاپی ماں کے سامنے رکھی تھی۔
“اوون بھی پتا کر چکا ہوں، آن لائن چیک کیا ہے کہ کون سا بہترین رہے گا۔ یوٹیوب کے ایک بہترین شیف سے بھی پوچھا ہے۔ بیکنگ کے لیے جو اوون اچھا ہے، وہ یہاں نہیں ملے گا۔” وہ اپنی ہر بات، آیندہ اٹھائے جانے والے ہر قدم کے بارے میں اپنی ماں سے ضرور بات کرتا تھا۔
“جو اوون استعمال میں ہے، وہ بھی تو ٹھیک چل رہا ہے، نئے پہ پیسے خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟” فوزیہ نے کاپی پہ لکھے سارے اخراجات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا تھا۔
“وہ پرانا ہے اماں، چھوٹا موٹا کام کرنا ہو تب تو ٹھیک ہے، لیکن بڑے پیمانے پر نہیں، مجھے دیوار میں ہی سیٹ کروانا ہے، جیسا میں نے یوٹیوب پہ ایک شیف کے کچن میں دیکھا تھا۔” انھوں نے سمجھ کر اور مسکرا کر سر ہلایا تھا۔ وہ انھیں نجیب کے مشورے سے پہلے ہی آگاہ کر چکا تھا وہ بھی اس سے متفق تھیں۔
“پیسے اور ضرورت پڑیں تو مجھے بتانا، اتفاق دیکھو، میری اسی مہینے ایک لاکھ کی کمیٹی نکل رہی ہے۔” انھوں نے کاپی اسے واپس کی تھی۔
“ابھی تو نہیں چاہییں، جو میرے پاس ہیں وہی پورے ہو جائیں گے ان شاء اللہ! بس آپ ابا جی کو منا لیجیے۔”
“ان شاء اللہ! تم بےفکر رہو۔” اس کا چہرہ پیار سے تھپتھپا کر وہ کپڑے استری کرنے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ دریں اثناء سبکتگین کا فون بجنے لگا تھا۔
“نجیب کا فون ہے اماں! میں چلتا ہوں۔” کال اوکے کرتا وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھا تھا۔
“مصروف تو نہیں تھے، تمھیں ایک کام کہنا تھا۔”
“بس اماں سے کچن کے بارے میں بات کر رہا تھا، اب فارغ ہوں کہو تم!”
“میرے ایک کولیگ کی ترقی ہوئی ہے، اسی سلسلے میں پارٹی دے رہے ہیں، پہلے تو یہ ہی طے نہیں ہو پا رہا تھا کہ میٹھے میں کیا بنایا جائے؟ پھر سب کے باہمی مشورے سے ہم نے کیک کو فائنل کیا تھا۔ تب میں نے تمھارا ذکر کیا اور تمھاری بیکنگ کی جو تصاویر میرے پاس تھیں، وہ بھی انھیں دکھائیں، تو انھوں نے وہ چاکلیٹ چپ کوکیز بار، جو تم نے پچھلے دنوں بنائی تھیں، بنانے کا کہا ہے۔”نجیب کی بات سنتے ہی اس کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔
“تم سچ کہہ رہے ہو نجیب؟ مذاق تو نہیں کر رہے!؟” اسے اپنے کانوں پہ یقین نہیں آ رہا تھا۔ مبادا کہیں وہ خواب تو نہیں دیکھ رہا۔
“نہیں میرے بھائی! سچ ہے۔ تم یقین کرو اور اپنی بیکری کا پہلا آرڈر منظور کرو۔” نجیب نے ہنس کر کہا تھا۔
“اب اسی بے یقینی میں دن ضائع مت کر دینا، فقط دو دن ہیں تمھارے پاس۔” نجیب نے اسے مقدار بتائی تھی اور دوسری کچھ چیزوں پہ تبادلہ خیال کرکے فون بند کیا تھا۔ وہ بہت خوش تھا اتنا خوش کہ رات کے گیارہ بجے، بےحد تھکاوٹ کے باوجود، سامان کا اندازہ لگانے کچن میں چلا آیا۔ اس نے تراکیب والی ڈائری سے کوکیز بار کی ترکیب نکالی تھی۔
[اجزاء:
مکھن 170 گرام
سفید چینی 133 گرام
براؤن چینی 200 گرام
میدہ 270 گرام
ایک کھانے کا چمچ کارن فلور
ایک چائے کا چمچ بیکنگ سوڈا
ایک چائے کا چمچ نمک
انڈے 2
ایک کھانے کا چمچ ونیلا ایسنس
چاکلیٹ چپ 1 کپ
ترکیب :
باؤل میں پگھلا ہوا مکھن اور دونوں قسم کی چینی ملا کر اچھی طرح پھینٹ لیں۔ ونیلا ملائیں، ایک ایک کر کے انڈے شامل کریں۔ میدے میں کارن فلور اور بیکنگ سوڈا ملا کر چھان لیں۔ اور چمچ سے انڈوں والے آمیزے میں شامل کریں۔ آخر میں چاکلیٹ چپ شامل کرکے 8 انچ کے چوکور پین میں بٹر پیپر لگا کر منتقل کریں اور پہلے سے گرم کیے اوون میں 350 فارن ہائیٹ پہ 30 سے 35 منٹ کے لیے بیک کر لیں۔]
وہ ساری مطلوبہ چیزیں نوٹ کرکے سونے کے لیے آ گیا تھا۔ یہ الگ بات تھی کہ ساری رات خوشی کے مارے اسے نیند نہیں آئی تھی۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
وہ آفس سے واپس آیا تو پتا چلا کہ ابا جی کام کے سلسلے میں دوسرے شہر گئے تھے اور وہاں سے ان کی واپسی کل رات تک ہی ممکن تھی۔ گویا وہ ان کی ڈانٹ ڈپٹ سے بےنیاز ہو کر اپنا کام کر سکتا تھا۔ فوزیہ کو اس نے صبح جانے سے پہلے ہی بتا دیا تھا۔ سن کر وہ بھی خوش ہوئی تھیں کہ اسے اپنی مرضی کا کام ملا تھا۔ آرام اور کھانے کی پروا کیے بغیر، وہ رات تک مطلوبہ آرڈر تیار کرنے میں مصروف رہا تھا۔ شاہنواز بھی سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے اس کے ساتھ، مدد کے لیے ہمیشہ سے مصروف تھا۔
“اب بس کرو سبکتگین! کچھ دیر آرام کرو، کھانا کھا لو، باقی کا کام کھانے کے بعد کرنا۔” فوزیہ نے کچن میں قدم رکھا۔ وہ جب سے آیا تھا تب سے کھڑا کام کر رہا تھا۔
“تھک گئے ہو گے بیٹا!” تھکن اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
“اس نے کوکیز کے آخری آمیزے کو پین میں ڈالتے ہوئے ماں کو دیکھا اور مسکرا کر بولا تھا:
“تھک تو واقعی گیا ہوں اماں! لیکن آج اس تکان میں دل کی خوشی بھی شامل ہے۔ اور آپ کو پتا ہے کہ جب تھکا دینے والے دن کا اختتام انسان کی من چاہی منزل پہ ہو تو وہ تھکاوٹ، پریشانی اور بھوک پیاس سب بھول جاتا ہے۔” فوزیہ نے سر پہ ہاتھ مارا اور بولیں:
“کوئی انجان بندہ تمھاری گفتگو سنے تو سمجھے گا کہ کسی کے عشق میں پاگل تھے اور اسے حاصل کر چکے ہو۔ لیکن اسے کیا پتا کہ سبکتگین صاحب بیکنگ کے عشق میں مبتلا ہو کر اتنا فلسفہ جھاڑ رہے ہیں۔” اماں کی بات پہ وہ تو ہنسا ہی تھا، سب سے بلند قہقہہ شاہنواز کا تھا۔
“ابھی شکر کیجیے کہ ابا جی گھر پہ نہیں ہیں، ورنہ وہی بھائی کے اس عشق کا بھوت اتارتے۔” سبکتگین نے بھائی کو گھوری سے نوازا اور پین اوون میں رکھ کر چیزیں سمیٹنے لگا تھا۔
“السلام علیکم!” اقدس نے اندر قدم رکھا تھا۔ ایک لمحے کو اسے اپنی ساری تکان زائل ہوتی محسوس ہوئی تھی۔
“آج آپ کیسے راستہ بھول گئیں اقدس بی بی!” سبکتگین کی آنکھیں اسے دیکھ کر چمک اٹھی تھیں۔
“اماں نے پلاؤ بنایا تھا، تمھارے لیے بھیجا تھا۔” شازیہ کے بار ہا سمجھانے پر بھی وہ اسے آپ نہیں کہتی تھی۔ پلیٹ اسے پکڑاتے، اس کے حلیے پہ ناک بھوں چڑھایا تھا:
“ویسے تایا ابا اگر تمھیں اس حلیے میں دیکھ لیں تو گنجا ہی کر دیں تمھیں۔” سبکتگین جانتا تھا کہ وہ بھی ابا جی کی ہاں میں ہاں ملاتی تھی اور اس کے بیکنگ کے شوق کو لے کر کافی چڑتی تھی۔ پلیٹ شیلف پہ رکھتے اس نے تیار کوکیز بار میں سے ایک ٹکڑا اٹھا کر اس کی طرف بڑھایا اور بولا:
“ابا جی جب دیکھیں گے، تب کی تب سہی! فی الحال تو مجھے لگ رہا ہے کہ تمھارا بس چلے تو تم بھی مجھے گنجا کر دو۔” فوزیہ ان دونوں کی آپسی نوک جھونک سے واقف تھیں۔ اس لیے کچھ کہے بغیر، صرف مسکرا کر برتن دھونے لگیں۔
“یقیناً۔! ایپرن پہنے کزن سے بہتر گنجا کزن لگے گا۔” اس کے ہاتھ سے کوکیز بار لیتے وہ جل کر بولی اور پھر فوزیہ کی طرف آئی تھی
“ہٹیے خالہ جان! میں دھوتی ہوں برتن۔” اس نے فوزیہ کو سنک کے آگے سے ہٹایا اور خود تیزی سے برتن دھونے لگی:
“انھیں تو صرف بیکنگ کا اور برتن گندے کرنے کا ہی شوق ہو گا بس۔۔۔ یہ صفائی ستھرائی بھلا ان کے بس کا روگ کہاں۔!” ہاتھوں کے ساتھ ساتھ اس کی زبان بھی خوب چل رہی تھی۔ سبکتگین نے اماں کو کچھ بھی کہنے سے منع کر دیا فوزیہ اور شاہنواز مسکراہٹ دبائے کچن سے نکل گئے تھے۔ جبکہ وہ وہیں بیٹھ کر چاول کھاتے اسے دل جمعی سے سنتا رہا جو مسلسل بول رہی تھی:
“ٹھیک کہتے ہیں تایا ابا کہ سبکتگین کی کوئی کَل سیدھی نہیں۔” اب کے اسے زور کا اچھو لگا تھا۔ گویا وہ سبکتگین نہ ہوا اونٹ ہو گیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ:
“اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کَل سیدھی۔؟”
“کیا ہوا؟” وہ کھانس رہا تھا اقدس نے پلٹ کر اچنبھے سے اسے دیکھا جو اب پانی پی کر قدرے بہتر محسوس کر رہا تھا۔
“میں تمھیں اونٹ نظر آتا ہوں؟” چہرے پہ مصنوعی غصہ لیے وہ پوچھ رہا تھا۔ برتن دھل چکے تھے۔ اقدس نے سر سے پاؤں تک اسے دو تین بار دیکھا اور لاپروائی سے بولی:
“قد کاٹھی کے حساب سے تو اونٹ کے برابر ہی ہو۔” اتنا کہہ کر وہ دروازے کے قریب گئی اور آخری جملہ کچن سے باہر نکلتے ہوئے اونچی آواز میں کہہ کر گئی تھی
“بس ایک کوہان کی کمی رہ جاتی ہے۔” وہ اٹھتے اٹھتے رہ گیا۔ اب بچپن تو تھا نہیں کہ اس کی کسی بات پر، اسے مارنے کے ارادے سے اس کے پیچھے بھاگ پڑتا۔ اور اس کے بال مٹھی میں جکڑ کر اپنا بدلہ لیتا اور کہتا:
“بدتمیز۔!” بچپن کے دن یاد کرکے وہ آپ ہی آپ مسکرا دیا تھا۔ عمر گزر گئی تھی، لیکن اسے تنگ کرنے کی، اقدس کی عادتیں نہیں بدلی تھیں۔
“بس کوہان کی کمی رہ جاتی ہے۔” اس نے بے اختیار اپنی کمر پہ ہاتھ مارا تھا اور پھر خود ہی ہنس دیا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
نجیب کے کولیگ کی طرف سے دی گئی پارٹی شاندار رہی تھی۔ کھانا تو پسند آیا ہی تھا لیکن سبکتگین کے ہاتھ کی بنی کوکیز بار کو بھی سب نے بہت پسند کیا تھا۔
“ڈیڈی۔! یہ بارز یہاں کی کس بیکری سے منگوائی ہیں؟” ایم ڈی کے کمرے میں بیٹھی ایم ڈی کی بیٹی نے باپ سے پوچھا تھا۔
“جہاں تک میرا خیال ہے کہ اس شہر کی ہر ایک بیکری میں دیکھ چکی ہوں۔ ان میں کہیں مجھے اس قسم کی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔” وہ نہ نہ کرتے بھی ایک پورا ٹکڑا کھا گئی تھی۔
“مجھے نہیں معلوم عبیرہ! عدیم نے پارٹی دی ہے، اسی کو پتا ہو گا۔” فائل ہاتھ سے رکھ کر، چشمہ اتار کر ہاتھ میں پکڑتے حسین صاحب نے بیٹی کو گھورا:
“اور اب کیا میں یہ چیزیں بھی نوٹ کرنے بیٹھوں کہ کون سا ورکر، پارٹی کے لیے چیزیں کس ہوٹل یا بیکری سے منگوا رہا ہے۔؟” اس نے کندھے اچکائے گویا کہہ رہی تھی کہ کوئی مضائقہ بھی نہیں۔
“میں اس کمپنی کا منیجنگ ڈائریکٹر ہوں عبیرہ! میرے اور اس کمپنی کے ملازمین کے درمیان ایک حد ہے، جسے میں پار کرنا نہیں چاہتا۔” میز پہ آگے کو جھک کر کہتے انھوں نے اسے باور کروایا کہ وہ بھی حد میں رہے۔
“اب جانے بھی دیجیے ڈیڈی! ایک بیکری کا نام پوچھنے میں کیا جاتا ہے؟” وہ جھنجھلائی اور سیٹ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
“ایم ڈی آپ ہیں، میں نہیں۔ لہٰذا میں خود ہی پتا کروا لوں گی۔” اس نے کہہ کر ان کی ایک بھی بات سنے بغیر میز پہ رکھی گھنٹی بجائی اور عدیم کو بلایا۔ اسے پارٹی کے لیے شکریہ کہا اور ادھر ادھر کی بات کیے بغیر اس سے بیکری کا پوچھا تھا۔
“میم! بیکری کا نام تو مجھے نہیں معلوم، وہ اپنا نجیب ہے نا! اسی کو یہ کام سونپا تھا۔ آپ اسی سے پوچھ لیجیے۔” عبیرہ نے منھ بنایا
“ٹھیک ہے آپ جائیے اور انھیں یہاں بھیج دیجیے۔” عدیم سر ہلاتا باہر گیا تو حسین صاحب نے بیٹی کو ڈانٹا۔
“اب بس بھی کرو عبیرہ! یہ سب کیا لے کر بیٹھ گئی ہو؟ ایک کیک کا ٹکڑا ہی تو تھا۔” اس نے باپ کی بات پہ سر جھٹکا۔ نجیب اجازت لے کر اندر داخل ہوا تھا
“نجیب صاحب! آپ نے یہ کوکیز بار کس بیکری سے بنوائی ہیں؟” اس نے بلا تمہید کے پوچھا۔ وہ ڈیڈی کے غصے کو مزید ہوا نہیں دینا چاہتی تھی۔
“کسی بیکری سے نہیں میم! میرا دوست ہے اس سے بنوائی تھیں۔” وہ دل ہی دل میں بہت خوش ہوا کہ سبکتگین کے ہاتھوں کا جادو چل گیا تھا۔ باقی کے سٹاف کو بھی وہ بارز بہت پسند آئی تھیں۔
“وہی تو پوچھ رہی ہوں کہ کس بیکری کے ساتھ کام کرتا ہے آپ کا یہ دوست؟”
“کسی بیکری کے ساتھ نہیں، وہ محض شوقیہ ہی بیکنگ کرتا ہے، یوں سمجھیں کہ یہ اس کا پہلا آرڈر تھا۔” نجیب نے بتایا تو عبیرہ کو بھی دلچسپی ہوئی۔
“اسی پلازے میں تیسری منزل پہ اس کی کمپنی کا آفس ہے۔ ہوٹل منیجمنٹ میں ایم بی اے کیا ہے اس نے۔” عبیرہ اور حسین صاحب کی نظریں بیک وقت ایک دوسرے کی جانب اٹھی تھیں۔ جیسے دونوں ہی کسی فیصلے پر پہنچے تھے۔ جبکہ نجیب کے لیے ان دونوں کا رویہ ناقابل فہم تھا۔
“آپ اپنے دوست سے۔۔ کیا نام ہے اس کا؟” حسین صاحب نے اب گفتگو میں حصہ لیا تھا۔
“سبکتگین۔!”
“ہاں تو نجیب! آپ اپنے دوست سبکتگین سے میری ملاقات کروائیے، جتنی جلدی ممکن ہو سکے۔” اسے جانے کا اشارہ کیا اور جب وہ کمرے سے نکل گیا تو عبیرہ سے مخاطب ہوئے:
“میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنا مطلوبہ بندہ مل گیا ہے۔”
“مجھے بھی یہی لگتا ہے ڈیڈی! جب ہم دونوں ایک ساتھ ایک بات پہ متفق ہو جائیں تو اس کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ کام ہو جائے گا۔” اس نے بھی مسکرا کر باپ کی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...