ایس ایس علی
ایس ایس علی (سید سکندر علی) ۵؍ جنوری ۱۹۴۹ کو اکولہ میں پید ہوئے۔ ایم ایس سی، بی ایڈ کرنے کے بعد پیشہ ٗ تدریس کو اپنایا۔ ان کے کئی مضامین ماہنامہ شگوفہ میں شائع ہوئے۔ ۲۴ طنزیہ و مزاحیہ مضامین پر مشتمل کتاب کھل جا سم سم (۲۰۱۵)میں منظرِ عام پر آئی۔
ایس ایس علی نے سائنس سے متعلق مضامین اور افسانوں کے علاوہ انگریزی روزنامے ناگپور ٹائمز اور ہتواد میں انگریزی میں مڈل بھی لکھے۔ ان کے طنزیہ مضامین میں عام طور پر سماجی بے راہ روی اور شخصی بے اعتدالیوں پر گہرے طنز کے عمدہ نمونے موجود ہیں۔ مورخہ ۱۹ ؍ مئی۲۰۲۰ کو اکولہ میں انتقال ہوا۔
سبھی اُس شوخ کے مارے ہوئے ہیں
ایس۔ ایس۔ علی
آج کے تیز رفتار دور میں مصنف ہو یا مرتب، جلد از جلد اپنی کتاب کو شائع کر کے قارئین تک پہچانا چاہتا ہے۔ وہ کتاب کو خلوص، محبت، احترام اور نہ جانے کون کون سے جذبوں کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔ لیکن کیا آپ یقین کریں گے کہ کوئی مرتب اپنی کتاب کو طبع کرنے کے پورے پندرہ سال بعد شائع کرتا ہے؟ اور کتاب کو خلوص، محبت، احترام کی بجائے معذرت اور شرمندگی کے ساتھ پیش کرتا ہے؟ یقین نہیں آتا نا؟ ہمیں بھی یقین نہ آتا اگر ہم خود اس روایت کے راوی ہوتے! ہوا یوں کہ ایک دن ہم شکیل اعجاز صاحب کے یہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ میاں شکیل پسینے میں تر بتر، دھول میں اٹے ہوئے، تھکے ماندے اور پریشان حال دروازے پر کھڑے ہمیں تک رہے ہیں، گویا کہہ رہے ہوں کہیے کیا کام ہے؟ لیکن جب ہم نے اپنے مخصوص انداز میں کھنکارا تو وہ ہوش میں آئے اور یہ دیکھ کر کہ یہ ہم ہیں، انھوں نے ہمیں اندر بلایا۔ کچھ رسمی باتوں کے بعد انھوں نے اپنی پریشان حالی کا سبب یہ بتایا کہ گذشتہ تین چار روز سے وہ اپنی مرتب کردہ کتاب اوراقِ مصور کی جِلد بندی میں لگے ہوئے تھے۔ پھر انھوں نے اوراقِ مصور کی ایک جلد ہمیں دیتے ہوئے کہا۔ یہ کتاب میں آپ کی خدمت میں معذرت کے ساتھ پیش کر رہا ہوں۔ ہم نے حیرت سے ان کی جانب دیکھا اور کتاب کا سرِ ورق اُلٹا تو پہلے ہی صفحے پر اُن کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر نظر آئی جو اس طرح تھی۔ سکندر بھائی کے لیے۔ پندرہ سال قبل اس کتاب کے اوراق شائع ہوئے تھے۔ اب اس کو مکمل صورت میں پیش کرتے ہوئے مجھے خوشی نہیں بلکہ شرمندگی ہے۔ صرف یہی درخواست ہے کہ غلطیوں کے اس پلندے کو پیار سے مطالعہ فرمائیں۔ تحریر کے نیچے ان کی دستخط تھی۔
انسان کی فطرت ہے کہ دوسروں کی خوبیوں کی بہ نسبت ان کی خامیوں پر جلد نظر جاتی ہے۔ لہٰذا ہر قاری عام طور پر کوئی تحریر پڑھتے وقت قاری کم اور پروف ریڈر و نقاد زیادہ ہوتا ہے۔ اب جب کہ شکیل میاں نے خود اپنی کتاب کو غلطیوں کا پلندہ قرار دے دیا ہے تو پھر ظاہر ہے کہ ہماری آنکھوں نے ایک لینس نقاد کا اور دوسرا لینس پروف ریڈر کا چڑھا لیا۔ لیکن پھر جلد ہی ہمیں یہ دونوں لینس اُتارنے پڑے کیوں کہ انھوں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ کتاب کا مطالعہ پیار سے کیا جائے۔ لہٰذا ہم نے اپنی تمام مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر مطالعہ شروع کر دیا۔
اوراق مصور در اصل ریجنل کالج آف ایجوکیشن بھوپال کے علمی و ادبی جریدے کا خصوصی شمارہ ہے۔ اس کا دیباچہ مذکورہ کالج کے شعبہ اردو کے صدر ڈاکٹر اخلاق اثر صاحب کا لکھا ہوا ہے، شیخ رحمٰن اکولوی، اور ایم۔ آئی ساجد کے افسانے ہیں۔ فداء المصطفی فدوی کی غزل ہے، پھر خود شکیل اعجاز، عبد الرحیم نشتر، محمد خضر حیات اور رشید آثار کے سوانحی مضامین ہیں۔ یہ تمام لوگ مذکورہ کالج کے طلباء رہ چکے ہیں۔ اس کے بعد رفیق شاکر کا مختصر تحقیقی مقالہ برار میں اردو شاعری کا آغاز و ارتقاء ہے اور آخر میں اکولہ ضلع کے شعراء کا تعارف اور نمونہ کلام ہے۔
داد دیجیے ہمارے صبر و تحمل اور ہماری دوست داری کی کہ ہم نے اس عدیم الفرصتی کے دور میں اس کتاب کو Cover to Coverپڑھ ڈالا۔ خلاصہ اس مطالعہ کا یہ ہے کہ یہ کتاب اوراقِ مصوّر در حقیقت ایک طویل سوالنامہ یا امتحانی پرچہ ہے۔ قاری کو ذہنی آزمائش میں مبتلا کرنے کے لیے مروج طریقوں کے علاوہ بعض عجیب و غریب طریقے بھی اپنائے گئے ہیں۔ اس سوال نامہ میں سب سے زیادہ weightage خالی جگہ پُر کرنے والے سوال کو دیا گیا ہے۔ پوری کتاب میں بیسیوں مقامات پر آپ کو خالی جگہیں پُر کرنی ہیں۔ مثلاً یہ چند جملے:
غرض کے بعد زندگی نئے دور میں …..قدم ہے، محمد خلیل الہدیٰ خان نام اور شارق تخلص سنۂ …..میں پیدا ہوئے، والد کا نام….. ہے۔ اس سوال کے ذیل میں قاری کو دھوکہ دینے کے لیے کہیں کہیں غیر ضروری طور پر بھی خالی جگہیں چھوڑ دی گئی ہیں۔
اسی طرح مختصر جواب دیجیے کہ ذیل میں جگہ جگہ ایک، دو یا تین تین سطریں چھوڑ دی گئی ہیں۔ طویل جوابوں کے لیے پورا پورا صفحہ چھوڑا گیا ہے۔ اسی طرح رف کام کے لیے بھی کورے صفحات پر لکھا تھا۔ اور جب ہم مضمون کا پورا کا پورا ڈرافٹ انہیں کورے صفحات پر لکھا تھا۔ اور جب ہم مضمون کو Fairکر رہے تھے تو ہمارے درجہ ہفتم کے بچے ریاضی کے کچھ سوالات لے آئے۔ ہم نے انہیں اسی کتاب کے کورے صفحات پر حل کر کے سمجھایا۔ ہو سکتا ہے بیگم صاحبہ بھی دورانِ مطالعہ یاد آنے والے ضروری امور مثلاً کِرانے
کے سامان وغیرہ کی لسٹ بھی ان صفحات پر درج کر لیں کیوں کہ اس میں ابھی کافی گنجائش ہے۔
بعض جگہ ادھورے جملے دیے گئے ہیں۔ ذہین قاری اپنے طور پر انہیں مکمل کر کے کتاب کا لطف لے سکتا ہے۔ مثلاً غلام ربّانی، نعیم بالاپوری کے تعارف میں آخری جملہ اس طرح ہے۔ اسٹیج پر پہلی بار اکولہ میونسپل ٹاؤن ہال میں جشنِ غالب اس کے فوراً بعد غلام ربّانی کی غزل درج ہے۔
قاری کی ڈرائنگ کیسی ہے اس کو بھی آزمایا گیا ہے۔ کئی مقامات پر صرف چوکھٹا بنا ہوا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ قاری غزل کے اشعار کے اعتبار سے اس میں کونسی تصویر بناتا ہے۔ کہیں کہیں قاری کی آسانی کے لیے چوکھٹے میں تصویر کی آؤٹ لائن بھی کھینچ دی گئی ہے۔
املا درست کیجیے کے تحت کچھ بہت خوبصورت سے سوالات ہیں۔ مثلاً اصرار کے لیے اسرار اور ٹکٹکی کے لیے تکتکی لکھا گیا ہے۔ املا کی ان غلطیوں کو درست کرنا ہے۔ کتاب کا مطالعہ کرتے وقت قاری ہوش میں ہے یا نہیں یہ دیکھنا بھی مقصود ہے۔ اس لیے کچھ صفحات دو دو، تین تین بار نظر آئیں گے جبکہ سلسلہ کے کچھ صفحات غائب ہوں گے۔
اس کتاب کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس کے ذریعے بعض گھِسی پٹی کہاوتوں کو باطل قرار دیا گیا ہے۔ مثلاً فارسی کی کہاوت دیر آید درست آید اور انگریزی کی کہاوتBooks are the best Friends.
دوسروں کو غصّہ دلانے اور ان کی صلوٰتیں سننے میں بعض لوگوں کو بڑا مزا آتا ہے۔ شکیل صاحب نے بھی اس بات کا التزام کیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ شعراء اغلاط کتابت کے لیے انہیں مورِدِ الزام ٹھہرائیں۔ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے شرارتاً کتاب شائع کرنے میں اتنی تاخیر کی کیونکہ جو شعراء آج لکچرار اور پرنسپل بن چکے ہیں وہ کتاب کے لحاظ سے پرائمری یا سیکنڈری ٹیچر ہی ہیں۔ جو صاحب، صاحبِ کتاب بن چکے ہیں وہ کتاب کے لحاظ سے آج بھی نو مشق ہی ہیں۔ ان پندرہ سالوں میں شاعروں کی جو نئی کھیپ میدان میں آئی ہے ان کا نام و نشان بھی اس کتاب میں نہیں۔ خوش فہمی اور مغالطہ کا ایک پہلو یہ بھی پیدا ہو گیا ہے کہ۔۔ ء اور ۔۔۔ء کے دوران جو شعراء اللہ کو پیارے ہو گئے، تعارفی نوٹ کے مطابق وہ آج بھی بقیدِ حیات ہیں اور دھڑ لے سے طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ ایک شاعر ایسے بھی ہیں جو عرصہ ہوا شاعری سے تائب ہو چکے ہیں اور آخرت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں لیکن کتاب کے مطابق آج بھی شاعری (گناہِ بے لذّت)کیے جا رہے ہیں۔
کورے صفحات جو اس کتاب میں جا بجا نظر آتے ہیں قاری ان کا استعمال نوٹ لینے یا دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے بھی کر سکتا ہے۔ اپنے پسندیدہ شعراء کے تعارف اور نمونہ کلام کو شکیل صاحب نے دو دو، تین تین بار مختلف تصاویر کے ساتھ شامل کیا ہے تاکہ لوگ تصویروں سے دھوکہ کھا کے ان کے پسندیدہ شاعر کا تعارف اور کلام ازبر کر لیں۔
کتاب کی ورق گردانی کے دوران اگر آپ اپنی پسند کا کوئی مضمون یا غزل پڑھنے کی غرض سے فہرست دیکھیں اور پھر صفحہ الٹیں تو آپ کو فوراً ہی مطلوبہ نگارش دستیاب نہ ہو گی کیونکہ کتاب کی جِلد بندی کے دوران صفحات اوپر اور نیچے سے اتنے زیادہ تراش دیے گئے ہیں کہ ان کے نمبر غائب ہو گئے ہیں۔ لہٰذا آپ کو اپنا مطلوبہ صفحہ بعد از محنت شاقہ دستیاب ہو گا اور ظاہر ہے کہ اسطرح پڑھنے کا مزہ دو بالا ہو جائے گا!
ان سب خوبیوں کے علاوہ آپ پر دھونس جمانے کے لیے کتاب کے صفحہ اوّل پر فارسی کی ایک رباعی درج ہے۔ (رُباعی کس شاعر کی ہے یہ آپ کو بتانا ہے۔)
جن شعراء کا تعارف اور نمونہ کلام اس کتاب میں شامل ہونے سے رہ گیا ہے ان بے چاروں پر شکیل میاں مزید ستم یہ کر رہے ہیں کہ ان کو پورے خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ یہ کتاب پیش کر رہے ہیں۔ غرض یہ کتاب یعنی اوراقِ مصور سُلانے والی نہیں بلکہ ایک جگانے والی کتاب ہے۔ ہم امید کرتے ہیں شکیل صاحب آئندہ بھی ایسی ہی جگانے والی بلکہShockدینے والی کتابیں مرتب کریں گے۔ ساتھ ہی ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم شاعر نہیں ہیں۔
اور اب آخری بات: ہم نے یہ مضمون شکیل صاحب کو چِڑانے کے لیے لکھا تھا۔ لہٰذا ہم نے اس مضمون کو شکیل صاحب کے حوالے کیا اور دل ہی دل میں ایک ہفتہ تک ان سے نہ ملنے کا ارادہ کر لیا۔ ہمیں یقین تھا کہ شکیل صاحب مضمون پڑھنے کے بعد کم سے کم ایک ہفتہ تک تو ہم سے ملنا پسند نہیں کریں گے۔ اس لیے ہم نے موقع غنیمت جان کر کچھ بہت ضروری کام جو کئی دنوں سے رُکے ہوئے تھے۔ نمٹانے کا پلان بنا لیا۔ لیکن ہوا یہ کہ دوسرے ہی دن وہ ہمارے یہاں آ دھمکے۔ خلافِ توقع ان کے چہرے سے خوشی اور بشاشت جھلک رہی تھی کہنے لگے۔ بڑا سچّا اور دلچسپ مضمون لکھا ہے آپ نے آپ تو جانتے ہیں قارئین کو وہ مضامین بالکل پسند نہیں آتے جن میں کتاب یا صاحبِ کتاب کی تعریفیں کی جاتی ہیں۔ یہ مضمون اسی لیے زیادہ پسند کیا جائے گا۔ اب اسے کہیں اشاعت کے لیے بھیج دیجیے۔
ایک تو ہم کتاب پڑھ کر پریشان تھے۔ اب ہمارے تبصرے پر ناراض نہ ہو کر شکیل اعجاز نے مزید پریشان کر دیا۔ ع
ہم تو سمجھے تھے کہ اے میرؔ یہ آزار گیا!
(کھل جا سم سم۔ ۲۰۱۵)