(Last Updated On: )
ثبت ہیں دن کی راہ میں، نیلے سائے شام کے
جیسے پشت دست پہ حرف کھدے ہوں نام کے
انہونی سی آرزو، لپکے اٹھے ہاتھ سے
جاؤں اپنے دیس کو اڑتے بادل تھام کے
ڈیوڑھیوں کے بیچ سے، جاتا ہے یہ راستہ
بند کیے جا کھول کے، دروازے ایام کے
عمروں کے ملبوس پہ کل کے سکھ کی آس میں
کاڑھیں دکھ کی دیویاں سپنے عام عوام کے
کس تربیت کار نے پیدا کیں یہ سختیاں
کند ہوئے احساس پہ دندانے دشنام کے
جب سمتوں کی رات میں، میں بے حالت ہو گیا
چھلکے اک اک چیز سے لشکارے پیغام کے
٭٭٭