وہ اپنے میکے آئی ہوئی تھی اسنے سارہ اور حمیرا کو اپنے آنے کا بتایا تھا وہ بھی اس سے ملنے کے لئے بےقرار تھیں۔
“بیٹا سب ٹھیک ہے نا تمھارے سسرال والے سب ٹھیک ہیں کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟”فہمیدہ بیگم نے ریحا سے پوچھا وہ تھوڑی ریحہ کی طرف سے پریشان تھیں۔
“جی ماما سب ٹھیک ہے آپ پریشان نہ ہوں سب اچھے ہیں”فریحہ نے ان کی پریشانی کو دور کرتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
“دراصل میں تمہارے بابا سے کہہ رہی تھی ہم نے جلد بازی کرکے اچھا نہیں کیا نہ جانے کیسے لوگ ہوں ٹھیک سے جانتے بھی نہیں ہیں ہم اس لیے تھوڑا پریشان تھی تمہارے لیے “فہمیدہ بیگم نے پریشان ہو کر کہا۔
“ماما آپ پریشان نہ ہوں سب ٹھیک ہے بابا نے جو بھی فیصلہ کیا بہت اچھا ہے آزر بھی میرے ساتھ کافی اچھے ہیں “فریحہ نے مسکرا کر کہا۔
“چلو شکر ہے تم بیٹھو میں تمہارے لئے کچھ لے کر آتی ہوں”فہمیدہ بیگم بولتے ہوئے اٹھیں۔
“نہیں ماما کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے اگر کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو میں خود لے لوں گی آپ بھی غیروں کی طرح کر رہی ہیں میرے ساتھ یہ کیا میرا گھر نہیں ہے میں خود اٹھ کر لے لوں گی جو بھی لینا ہوا “فریحا نے جذباتی ہو کر کہا۔
“نہیں بیٹا میرا کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا تم دور سے آئی ہو بس اسلیے “فہمیدہ بیگم نے گڑبڑا کر اس کے پاس بیٹھے ہوئے کہا۔
“آپ ابھی میرے پاس رہے مجھ سے بات کریں”اس نے لاڈ سے کہتے ہوئے ان کی گود میں سر رکھا۔
“آپ دونوں نے مجھے مس کیا ؟”اس نے مسکرا کر پوچھا۔
“ہاں بیٹا بہت زیادہ فرحان کو دیکھا ہے تمہاری رخصتی پے کیسے رو رہا تھا “فہمیدہ بیگم نے اس کے بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے کہا۔
“ہاں یہ تو ہے کہاں ہیں وہ نظر نہیں آ رہے انہیں نہیں پتہ کیا میں ملنے آؤں گی “فریحہ نے اپنے بھائی کا پوچھا اسے فرحان نظر نہیں آرہا تھا گھر پہ۔
“بیٹا میں نے ابھی اسے فون کیا ہے اسے نہیں پتا تم آئی ہو “فہمیدہ بیگم نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
اتنے میں بشیر صاحب بھی روم میں انٹر ہوئے ان کے ہاتھوں میں شاپر تھے۔
“یہ لو تمہارے فیورٹ فاسٹ فوڈ لے کر آیا ہوں “بشیر صاحب نے شاپر اس کی طرف کیا۔
“اس کی کیا ضرورت تھی بابا “وہ فہمیدہ بیگم کی گود سے اپنا سر اٹھاتے ہوئے بولی۔
“ہماری بیٹی ہم سے ملنے آئی ہے ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے “بشیر صاحب اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولے۔
“آئی لو یو بابا آپ دونوں کو میں نے بہت مس کیا “وہ جذبات سے بولتے ہوئے ان کے گلے لگ گئی۔
“ہم نے بھی بہت زیادہ تم نے مس کیا تمہیں اللہ ہمیشہ خوش رکھے سدا سکھی رہو “انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیتے ہوئے کہا۔
“اچھا میں یہ پلیٹ میں لے کر ڈال کر لاتی ہوں “فہمیدہ بیگم بولتے ہوئے اٹھیں اور باہر چلی گئیں۔
“بیٹا آزر اندر کیوں نہیں آیا باہر سے ہی چلا گیا “بشیر صاحب نے اس سے پوچھا۔
“جی بابا ان کو آفس میں کوئی کام تھا اس وجہ سے وہ نہیں آ پائے کہہ رہے تھے رات کو آئیں گے “فریحہ ان کو بتایا۔
“اچھا چلو ٹھیک ہے میں ذرا باہر جا رہا ہوں ہوں تمہارے شفیق انکل نے مجھے بلایا تھا”بشیر صاحب کہتے ہوئے اٹھے۔
اتنے میں بیل کی آواز آئی ہے شاید سارہ تھی۔
“میں دیکھتا ہوں کون ہے “بشیر صاحب بولتے ہوئے باہر چلے گئے وہ بھی ان کے پیچھے پیچھے روم سے نکلی۔
“السلام علیکم کیسی ہو تم بڑی جلدی پہنچ گئی “سارا حمیرا اور فرحان ایک ساتھ اندر آے۔
“ہاں ابھی ابھی آئی ہوں تم ان کے ساتھ کیا کر رہی ہو “اس نے حمیرا کو ان کے ساتھ دیکھا تو حیران ہو کر بولی۔
“میں جب گیٹ پر پہنچی یہ لوگ بھی پہنچ گئے “حمیرا نے آہستہ سے بتایا۔
“اچھا اچھا بیٹھو میں پانی لے کر آتی ہوں تم دونوں کے لیے “وہ بولتے ہوئے کچن کی طرف چلی گئی۔
“کیسی ہے میری بہنا خوش تو ہونا شادی کے بعد “فرحان نے کچن میں آ کر اس سے پوچھا۔
“آپ تو ایسے پوچھ رہے ہو جیسے میری شادی کو برسوں ہوگئے ہو “فریحہ نے سے بوتل نکالتے ہوئے کہا مسکراتے ہوئے کہا۔
“ہاں تو پوچھنے میں کیا جا رہا ہے خوش ہونا یہ بتاؤ “فرحان نے مسکرا کر پوچھا۔
“ہاں بھائی بہت خوش ہوں “فریحا نے ہلکا سا مسکرا کر جواب دیا اور پانی گلاس میں نکالا۔
“ہمارے بہنوئی صاحب کہاں ہیں وہ کیوں نہیں آئے”فرحان نے حیران ہو کر پوچھا۔
“رات کو آئینگے وہ آپ یہ لے جائیں “اس نے فاسفورٹ کے ٹریڈ فرحان کو پکڑایا۔
“اچھا چلو ٹھیک ہے رات کو مل لوں گا ہمارے بہنوئی سے “فرحان نے شرارت سے مسکراتے ہوئے کہا اور ٹرے لے کر باہر چلا گیا۔
“ماما آپ بھی آئیں نا یہاں کیا کر رہی ہیں”فریحہ نے فہمیدہ بیگم سے کہا۔
“میں ذرا چائے بنالوں پھر لیکر آتی ہوں”فہمیدہ بیگم نے مصروف انداز میں کہا۔
“ٹھیک ہے ماما جلدی آ جائے گا “فریحا بولتے ہوئے باہر چلی گئی۔
***
سارہ کھانا پکانے میں فہمیدہ بیگم کی مدد کر رہی تھی دونوں آذر کے لیے رات کے کھانے کی تیاریاں کرنے میں مصروف تھیں۔
اور دونوں سہیلی ٹیرس پہ کھڑے ہو کر باتیں کرنے میں مصروف تھیں۔
“تم بتاؤ سب کچھ کیسا چل رہا ہے خوش ہو ؟”حمیرا نے اس سے پوچھا۔
“ہاں سب کچھ ٹھیک ہے “اس نے آہستہ سے کہا ہلکی ہلکی ہوائیں آ رہی تھی جو ان کے بالوں کو ہولے ہولے ہلا رہی تھی۔
“جی جو کیسے ہیں تمہارے ساتھ “حمیرا نے پھر اس سے پوچھا۔
“بہت اچھے ہیں تجھے پتا ہے میں نے ان کو رات کے لئے منع کیا اور کہا کے میں ان سب لئے ابھی تیار نہیں ہوں تو بغیر کچھ بولے مان گئے”فریحہ نے مسکراتے ہوئے خوشی خوشی بتایا۔
“پاگل ہو کیا ایسا کیوں کیا تم نے وہ انکا حق تھا کیوں انکار کیا تم نے تجھے بھی پتا جو بیوی شوہر کا حق ادا کرنے سے منع کردے پوری رات فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں “حمیرا نے ڈپٹ کر اسے کہا۔
“میں جانتی ہوں لیکن میرا دل راضی نہیں تھا ابھی ان سب کے لئے مجھے کچھ ٹائم چاہیے تھا “اس نے سر جھکا کر کہا۔
“کیوں دل راضی نہیں تھا کہیں تو اس احمد کو یاد تو نہیں کرتی اب “حمیرا نے چونک کر گھومتے ہوئے پوچھا۔
“میں نے تجھے کہا تھا مہندی والی رات اس دن میں نے آخری دفعہ اسے یاد کیا تھا اور اب اس کی یادوں کو میں نے دفن کردیا اسے اب میں کبھی یاد بھی نہیں کرنا چاہتی نفرت کرتی ہوں اس سے “وہ نفرت سے بولی اس کے چہرے سے پتا لگ رہا تھا وہ احمد سے بے انتہا نفرت کرنے لگی ہے۔
“چلو اچھی بات ہے لیکن تجھے جی جو منع نہیں کرنا چاہیے تھا انہوں نے کچھ نہیں کہا تجھسے ؟”حمیرا نے اس سے پھر پوچھا۔
“نہیں وہ کہہ رہے تھے وہ میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے جب تک میرا خود دل نہ چاہے میرے ساتھ کچھ نہیں کریں گے “فریحا نے مسکرا کر بتایا۔
“دیکھ جیجو کتنے اچھے ہیں تیرا ان کو ابھی سے اتنا خیال ہے اور تو ہے کہ ان کا صبر آزما رہی ہے سب کچھ بھول جاؤ زندگی میں آگے بڑھو اب تمہارا شوہر ہی تمہارا سب کچھ ہے “حمیرا نے مسکرا کر اسے سمجھایا۔
“تم ٹھیک کہہ رہی ہو لیکن میں ان کو منع کردیا اور میں اب انکو کیسے کہوں “فریحہ نے پریشان ہو کر کہا۔
“وہ تو تجھے ہی پتا ہے تجھے کیا کرنا ہے “حمیرا نے دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
گاڑی کی آواز پر فریحہ نے ٹیرس کے نیچے دیکھا جہاں آزر گاڑی پارک کر رہا تھا۔
“لو جیجو بھی آگئے چلو نیچے چلتے ہیں “حمیرا نے آزر کو دیکھتے ہوئے کہا۔
“اچھا ٹھیک ہے چلو “وہ بولتے ہوئے حمیرا کے ساتھ نیچے چلی گئی۔
***
“کیا بنا رہی ہو “فرحان نے فہمیدہ بیگم کو کچن سے نکلتے ہوئے دیکھا تو احتیاط سے چپکے سے کچن میں گیا اور سارا کے پیچھے کھڑا ہو کر پوچھا۔
“اف۔۔۔تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا “سارا چونک کر ڈرتے ہوئے بولی۔
“اب میں نے ایسا کیا کر دیا جو ڈر رہی ہو “فرحان نے مسکرا کر آہستہ سے اسکا ہاتھ پکڑا۔
“ہاتھ چھوڑو کوئی دیکھ لے گا “سارا نے گھبراتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نکالنے کی کوشش کی۔
“اگر دیکھ بھی لیا تو کیا ہو جائے گا کہہ دونگا میری بندی ہے اور مجھے اسی سے شادی کرنی ہے” فرحان نے بدستور اس کا ہاتھ پکڑے رکھا اور ہیرو بنتے ہوے بولا۔
“ہاں یہ جو ہیروپنتی کر رہے ہو نا تائی خالہ آجائیں تو کیسے زیرو بن جاؤگے اچھی طرح پتا ہے”سارا میں گھورتے ہوئے کہا۔
“وہ تو رسپیکٹ ہے نہ اب ان کے سامنے تمہارا ہاتھ پکڑکر کھڑا تو نہیں رہ سکتا نہ”وہ مسکراکر بولا۔
“ہاں بہت اچھی طرح سے جانتی ہوں میں تمہیں جاؤ اب کوئی آجائیگا”مسکرا کر اسے باہر کی طرف دکھیلنے لگی۔
اتنے میں باہر سے بیل بجانے کی آواز آئی اور فرحان سارا کو گھورتے ہوئے دروازہ کھولنے کے لیے چلا گیا۔
***
کھانا کھانے کے بعد وہ دونوں سب سے مل کر واپس اپنے گھر آ چکے تھے۔
“آپ وہاں پر کیوں سو رہے ہیں “فریحہ نے آزر کو صوفے کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تو پوچھا۔
“کیونکہ میں یہاں دو راتوں سے سو رہا ہوں تو اپنی جگہ میں ہی جا رہا ہوں سونے کے لئے”آزر نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور کہا۔
“آپ یہاں بیڈ پہ سوجائیں”فریحہ نے جھجکتے ہوئے بیڈ کی طرف اشارہ کیا۔
اس کی بات سن کر آزر نے حیران ہو کر اس کی طرف دیکھا۔
“آپ شیور ہیں ؟”اس نے حیرانی چھپاتے ہوئے پوچھا۔
“جی “وہ اپنی آنکھیں یہاں وہاں گھوماتے ہوئے بولی وہ اس سے نظریں نہی ملا پا رہی تھی۔
آزر نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا اور اپنا تکیہ بیڈ پر رکھا اور لیٹ گیا۔
“آ جائیں آپ بھی سو جائیں وہاں کیوں کھڑی ہیں؟” آزر نے اسے اسی پوزیشن میں کھڑا دیکھا تو پوچھا۔
“ج۔۔۔جی آپ سو جائیں میں بھی سو جاؤں گی “وہ گھبراتے ہوے اٹک کر بولی۔
“آپ کھڑی کھڑی سوئینگی؟”آزر نے حیران ہو کر پوچھا۔
“ن۔۔۔نہیں “وہ اٹکتے ہوۓ بولی۔
“تو پھر آپ بھی سو جائیں بیڈ پر پریشان نہ ہوں جب تک آپ نہیں چاہیں گی میں آپ کو نہیں چھونگا کروں گا “اظہر نے اس کی حالت دیکھتے ہوئے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے کہا۔
اس کی بات سن کر اس نے جھٹ سے اس کی طرف دیکھا وہ اسے ہی مسکراہٹ کے ساتھ دیکھ رہا تھا وہ بری طرح شرمندہ ہوگئی۔
اور آہستہ سے بیڈ کے ایک کونے میں لیٹ گئی۔
آزر نے بھی سونے کے لئے اپنی آنکھیں بند کیں۔
فریحہ نے چھپ کے سے آزر کی طرف دیکھا جو شاید سو چکا تھا وہ اس کو دیکھنے لگی دیکھتے دیکھتے اس کی آنکھیں کب بند ہوئی اسے پتہ ہی نہیں چلا۔
***
ان کی شادی کو دو ہفتے گزر چکے تھے۔
آج شیلا بیگم اور شہزاد شاہ کی فلائٹ تھی وہ سب اس وقت ایئر پورٹ میں کھڑے مل رہے تھے۔
“ڈیڈ میں آپ دونوں کو بہت یاد کرو گی “نیشا روتے ہوئے ان کے گلے لگ کر بولی۔
“پریشان نہ ہو اللہ نے چاہا تو ہم جلد آجائیں گے “شہزاد صاحب نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے شفقت سے کہا۔
“نانو آپ وہاں سے میرے لئے ڈول لیکر آئیں گی نا؟”وفا نے معصومیت سے شیلا بیگم سے پوچھا۔
“جی بالکل لے کر آؤنگی”شیلا بیگم نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا۔
“نانو میرے لیے کار لےکر آئیگا”آیان بھی لقمہ دیتے ہوے بولا۔
“ہاں ہاں تم سب کیلئے کھیلونے لیکر آونگی “شیلا بیگم نے مسکراکر بچوں کو گھورتے ہوے کہا۔
“ماما آپ اپنا خیال رکھئیگا”آزر نے انکے پاس آکر گلے لگتے ہوئے کہا۔
“بیٹا پریشان نا ہو آپ لوگ تم دونوں کے سہارے پورا گھر چھوڑ کر جارہی ہوں گھر کا اور نیشا کا خیال رکھنا “شیلا بیگم نے بھیگی آنکھوں کیساتھ کہا۔
“ماما آپ ٹینشن نا لیں آپکی بہو ہے نا وہ سب دیکھ لیگی کیوں فریحہ؟آزر مسکراتے ہوئے اس سے پوچھا۔
“ج۔۔جی میں نیشا کا خیال کرونگی اور گھر کا بھی”وہ گڑبڑاکر بولی۔
“اور ہمارے بیٹے کا خیال کون رکھیگا؟شہزاد صاحب نے مسکراتے ہوئے ریحا سے پوچھا۔
“ج۔۔۔ج۔۔۔جی۔۔۔ان۔۔۔نکا بھی خیال کرونگی میں”وہ اٹک کر بولی۔
“ڈیڈ بہزاد کہہ رہے ہیں فلائیٹ کا ٹائم ہوگیا ہے”مہرین نے اطلاع دی۔
“چلو بیگم چلتے ہیں ٹائم ہوگیا ہے “شہزاد صاحب نے ان سے کہا۔
“اپنا خیال رکھنا بچو ہم چلتے ہیں”شیلا بیگم باری باری سب کے گلے لگیں اور الوداع کہتے ہوئے ائیر پورٹ کے اندر چلی گئیں۔
پیچھے سب بھیگی آنکھوں کے ساتھ آنکوں جاتا دیکھ رہے تھے۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...