“تمہاری طبیعت کیسی ہے اب”
آبیان عنایہ کے کمرے میں داخل ہوتا عنایہ کو بیڈ پر بیٹھے دیکھتے ہوے بولا
عنایہ کو آئے ایک ہفتہ ہو گیا تھا اس ایک ہفتے سے وہ روم سے باہر نہیں آئی تھی اس ایک ہفتے میں آبیان نے بھی اسے نہیں بلایا وہ چاہتا تھا کہ عنایہ تھوڑی سیٹ ہو جائے پھر وہ اس سے دوبارہ بات کریگا
آج آبیان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا اس لیے وہ آج اسکے کمرے میں تھا
جب وہ اسکے کمرے میں گیا تو عنایہ بیڈ پر بیٹھی اپنے دونوں ہاتھ گود میں رکھے پستا کلر کا سادہ سا فروک پہنے سر پر سلیقے سے بےبی پنک کلر کا دوپٹہ اور بےبی پنک کلر کا ہی ٹرووثر پہنے بیٹھی ہوئی تھی چہرہ بلکل اترا ہوا تھا اور آنکھیں سوجھی ہوئی جو رونے کی چُگلی کر رہیں تھیں وہ اسکو کسی گہری سوچ میں پا کر اس سے بات کرنے لگا
عنایہ نے آبیان کی بات کا جواب نہیں دیا
“میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں”
آبیان اب بھی اس سے نرمی سے بات کر رہا تھا کہ کہیں وہ پھر سے نا ڈر جائے
“ٹھیک ہوں”
عنایہ نے دو لفظ میں جواب دیا
“اب تو تمہیں بُھکار بھی نہیں ہے”
آبیان عنایہ کے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا
“جی”
عنایہ سر جھکاے مدھم آواز میں بولی
“چلو ہم باہر جارہے ہیں ریڈی ہو جاؤ”
آبیان اسکو پہلے جیسا دیکھنا چاہتا تھا لڑتی ہوئی سامنے جواب دیتی ہوئی پنگے لیتی ہوئی وہ عنایہ آبیان کو ایسے ہی اچھی لگتی تھی
“میرا دل نہیں ہے”
عنایہ اتنا مدھم آواز میں بولی کہ آبیان نے بامشکل سنا
“میں نے تمہارے کپڑے نکل دیے ہیں جلدی تیار ہو میں تمہارا ویٹ کر رہا ہوں دس منٹ میں تم مجھے نیچے نظر آو”
آبیان اسکی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کپبرڈ سے بلیک کلر کی کلیوں والی فراک نکالتے ہویے عنایہ کے گال سہلاتے ہویے باہر چلا گیا
دس منٹ بعد عنایہ نیچے آئ اسی ڈریس میں جو آبیان نے عنایہ کے لیے نکالا تھا
سڑیوں سے نیچے آتی آبیان کی نظر عنایہ پر پڑی تو ہٹنا بھول گئی عنایہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی کلیوں والی فراک عنایہ پر بہت اٹھ رہی تھی آبیان اسے دیکھ کر مہبوت سا ہوگیا
عنایہ اسکے پاس آکر رکی تو اس سے ہوش آیا
“چلو”
آبیان عنایہ کا ہاتھ پکڑے باہر کی طرف لے گیا
آج وہ خود ڈرائیو کرنا چاہتا تھا اس لیے جیسے ہی وہ باہر نکلا ڈرائیور کو پیچھے جانے کا اشارہ کیا
اور عنایہ کے لیے فرنٹ ڈور کھولا
عنایہ چپ کر کے بیٹھ گئی
آبیان سب سے پہلے اسے شوپنگ پر لے کر گیا آبیان کے بار بار کہنے پر عنایہ نے اپنے لیے کچھ سوٹ لیے اور باکی آبیان نے اس کے لیے خود شاپنگ کی
تین گھنٹے سے دونوں مسلسل گھوم رہے تھے بلکے یوں کہا جائے آبیان اسے پورا مال گھوما رہا تھا ہر ایک دکان پر رک کر اسکے لیے ہر ایک چیز دیکھ کر لے رہا تھا
“میں تھک گئی ہوں میں اور نہیں چلو نگی”
عنایا تھکن کی وجہ سے جو منہ میں آیا کہ دیا جب اندازہ ہوا تو زبان دانتوں تلے دبا گئی مبادا کہیں غصہ ہی نہ ہوجائے
“ٹھیک ہے میری جان چل لیتے ہیں اگر تم سے نہیں چلا جا رہا جیسا تم کہو”
آبیان اسے پیار سے کہنے لگا
عنایہ حیران کن نظروں سے آبیان کو دیکھ رہی تھی
“ایسے نہ دیکھو پیار تو ہوگیا۔ ہے کہیں عشق ہی نہ ہو جائے”
عنایہ کو ایسے دیکھتے پا کر آبیان شوخیہ ہوکر بولا
عنایہ اسکی بات سن کر بنا کچھ بولے نظریں جھکا گئی
“عنایہ آئ ایم ریلی سوری میں نے تمہارے ساتھ غلط کیا میں جانتا ہو پر میں نے تمھیں کہا بھی تھا مجھے غصہ مت دلانا اگر کوئی دوسرا اایسی حرکت کرتا تو اسکی لاش بھی نہیں ملتی تم دیکھو تم کتنے ٹائم سے میرے پاس ہو کبھی میں نے تم سے اونچی آواز میں بات کی ہے کھبی ہاتھ اٹھایا ہے یا ہاتھ اٹھانے کی دھمکی دی ہے کیوں کہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں اور میں تم سے اب وعدہ کرتا ہوں میں کھبی ایسا نہیں کرونگا تمہارے ساتھ اگر ایسا ہوا تو تم مجھے وہاں بند کردینا پورا پورا حق دونگا تمہیں مجھے تکلیف ہوتی ہے تمھیں ایسے خاموش دیکھ کر تم پلیز نارمل ہوجاؤ مجھے تم وہی لڑتی ہوئی اچھی لگتی ہو تم جو چاہو مجھے سازا دے سکتی ہو ”
آبیان اسے گاڑی میں بھیٹا کر خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر اسکا ہاتھ تھامے عنایہ کی آنکھوں میں دیکھ کہنے لگا
“جو میں چاہوں”
عنایہ جیسے پوچھ رہی تھی
“ہاں میری جان جیسا تم چاہو”
آبیان عنایہ کے بولنے پر ہی خوش ہو گیا تھا اس سے اور کیا چاہیے تھا اسلیے فوراً ہی بول دیا
“ٹھیک ہے پھر تیار رہنا جیسے آپ کی سزا نارمل نہیں تھی ویسے میری سزا بھی نارمل نہیں ہوگی یاد رکھ لینا بعد میں مجھے کچھ بولنا نہیں”
عنایہ جیسے آبیان کو آگاہ کر رہی تھی
“بندہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے ابھی تم جیسے پہلے تھیں ویسے ہی میرے ساتھ ڈنر کروگی ایسے معصوم بچوں کی طرح منہ لٹکاے نہیں گوٹ اٹ”
آبیان اس کے گال کھنچتے ہوئے بولا
“چلیں”
عنایہ مسکرا کر بولی
چلیں”
عنایہ مسکرا کر بولی
“Thats like a good girl”
آبیان خوش دلی سے بول کر گاڑی سٹارٹ کرنے لگا
بہت خوش گوار ماحول میں دونو نے کھانا کھایا اور ہاتھوں میں آئس کریم لیے گھر کو روانہ ہویے
____________
“کون ہو تم لوگ اور مجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے”
عنایہ کو کمرے سے ایک عورت لینے آئ تو وہ اس پر برس پڑی
“چپ کر کے چلو بوس کا آرڈر ہے”
عورت اسے ہاتھ سی پکڑتے ہویے تقریباً کھنچتے ہوئی بولی
“کون ہے یہ تمہارا بوس اور مجھ سے کیا چاہتا ہے”
عنایہ اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی
عنایہ کو خوف بھی آرہا تھا کہ پتا نہیں وہ میرے ساتھ کیا کرے گا
“پتا چل جائے گا تھوڑی دیر میں یہاں بیٹھو چپ کر کے اگر نہیں بیٹھی تو مجھے باندھنا آتا ہے”
عورت اسے صوفے پر بیٹھاتی ہوئی بولی
وہ ایک طرح سے ڈرائنگ روم بنا ہوا تھا ایک جگہ صوفے سیٹ رکھے ہویے تھے اور سامنے بڑی سی سکرین دیوار پر لگی ہوئی تھی اور ہر کونے پر شوپیز رکھے ہوئے تھے بہترین ڈیکوریشن کے ساتھ۔ عنایہ پورا کمرہ ہی دیکھ رہی تھی کہ اندر آتے قدموں کی آواز آئ
عنایہ نے مڑ کر دیکھا تو ایک وجیہہ چہرہ مگرور ناک ڈارک گرے آنکھیں بلیک شرٹ وائٹ پینٹ میں مگرور چال چلتا ہوا آبیان عنایہ کی طرف بڑھا
“کیسی ہو تم کسی نے کچھ کہا تو نہیں تمھیں؟؟؟”
آبیان اسکے برابر والے صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا پر نظریں جیسے اسکے چہرے کا طواف کر رہی تھیں
“تم ہو کون اور مجھے کیوں یہاں لایا گیا ہے”
عنایہ اسکے برابر بیٹھنے پر تھوڑا گھبرائی پھر ہمت کر کے بولی
“میری بات کے جواب نہ دینے والے لوگ مجھے بلکل نہیں پسند لیکن خیر کوئی بات نہیں تم میری خاص چیز ہو”
آبیان نے پہلے اپنی نا پسندی دیکھائی پھر شوخیہ بولا
“چلو مُدے پر آتے ہیں زیادہ بھیس مجھے پسند نہیں ہے یہ لو پیپر ان پر سائن کرو”
عنایہ کو کوئی جواب دیتے نا دیکھ آبیان اسکے سامنے پیپرز رکھتے ہوئے بولا
جب عنایہ نے پیپرز دیکھے تو آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں
“یہ یہ ک کیا ہے ”
عنایہ کے ہوس کام نہیں کر رہے تھے
“تمہارے علم میں اضافہ کردوں یہ نکاح کے پیپرز ہے”
آبیان جیسے اسے پڑھنے میں مدد کر رہا ہو
“سائن کرو”
آبیان کھڑے تیور لیے بولا
“میں نہیں کرونگی سائن تم کچھ بھی کرلو”
عنایہ آنسو پونچتی ہوئی بولی
عنایہ کو اپنے گھر والے شدت سے یاد آرہے تھے عنایہ کو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے
“مطلب تم نے سیدھی طریقے سے نہیں ماننا”
آبیان صوفے سے اٹھتے ہوئے بولا
“تم چاہتے کیا ہو مجھ سے کس بات کا بدلہ لے رہے ہو میں نے تو تمہارا کچھ بگاڑا بھی نہیں ہے”
عنایہ روتی ہوئی بولی
“مجھے تمہارا رونا نہیں پسند ہے جلدی آنسو پھونچو ورنہ مجھے اپنے طریقے سے بھی آتا ہے وہ تمھیں بلکل اچھا نہیں لگےگا”
آبیان کو سچ میں اسکا رونا اچھا نہیں لگ رہا تھا اس لیے دھمکاتے ہوئے بولا
“چلو اب جلدی سائن کرو”
آبیان اسکی آنکھوں میں جھاکتا ہوا بولا
“میں ہر گز سائن نہیں کرونگی تم کچھ بھی کرلو”
عنایہ سرخ آنکھوں سے چلا کر بولی
“ٹھیک ہے مرضی ہے تمہاری اب ذرا سکرین پر نظر دوڑاؤ”
سکرین پر اسکا بھتیجا ثوبان آبیان کے بندوں کے ہاتھوں میں تھا اور اسکے سر پر گن رکھی ہوئی تھی اور وہ بلک بلک کر رو رہا تھا یہ لائیو ویڈیو تھی جس میں آبیان نے عنایا کے بھتیجے کو اغواء کر دیا تھا اسے یقین تھا کہ عنایہ اتنی آسانی سے نہیں مانے گی اس لیے آبیان نے اسکے بارے میں سب معلومات نکل وائی اور جو جو اس سے قریب ہے سب کے بارے میں معلوم کروایا اس سے پتا چلا کہ عنایا کا بھتیجا اسکے لیے بہت کمزور ڈھال ہے
“پلیز نہیں اس سے چھوڑ دو اتنے سے بچے نے تمہارا کیا بگاڑا ہے”
عنایہ نے جب لائیو ویڈیو دیکھی تو تڑپ اٹھی اسنے کھبی اسکو رونے بھی نہ دیا ہو اور آج وہ اسکی وجہ سے بے تحاشا رو رہا تھا اور ساتھ اسکی جان بھی خطرے میں تھی
“اب سائن کر رہی ہو یا اسکو اڑا دوں”
آبیان عنایا کو دیکھتے ہوئے بولا اس سے یقین تھا کہ اب وہ سائن کردیگی
“کیوں ایسا کر رہے ہو ہمارے ساتھ پلیز اس سے چھوڑ دو”
عنایہ بلک بلک روتے ہوئے بولی اس سے اپنے سے زیادہ ثوبان کی پروا تھی
“میں نے تمھے پہلے بھی کہا تھا مجھے تمہارا رونا نہیں پسند ہے اگر تمہارا اب ایک بھی آنسو گڑا میں اسکو ایک سیکنڈ بھی نہیں لگاؤ گا اس سے گولی مارنے میں”
آبیان کو اب تکلیف ہورہی تھی اسکے آنسو سے اس لیے تیش میں بولا
“ٹھیک ہے نہیں رو رہی پر اسے چھوڑ دو”
عنایہ آنسو پونچھتی ہوئی بولی
“پہلے سائن کرو پھر چھوڑ دونگا”
آبیان نے اسکے لرزتے ہاتھوں میں زبردستی پین پکڑائی
“ٹھیک ہے کرتی ہوں”
“رکو مولوی صاحب آرہے ہیں پہلے نکاح ہوگا پھر سائن”
آبیان اپنے بندے کو اشارہ کرنے لگا۔تو وہ باہر چلا گیا۔
“یہ اس لیے تھا کہ تم سہی سے نکاح کرلو اور میں تو پوری رسم کے ساتھ ہی کرتا ہو”
آبیان اسکے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہنے لگا اور ٹی وی بند کیا
عنایہ چپ ہی ہوگئی تھی رونا بھی بند ہوگیا تھا
مولوی صاحب اندر آئے اور نکاح شروع کیا پہلے لڑکی سے پوچھا
عنایہ نے تین بار قبول ہے کہا اور کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے نکاح کے پیپرز سائن کیے
اسی طرح آبیان سے پوچھا اسنے بھی قبول ہے کہ کر سائن کیے
مولوی صاحب کو آبیان کے بندوں نے باہر چھوڑا اور آبیان عنایہ کے پاس آیا
“اب چھوڑ دو ثوبان کو”
عنایہ بھیگی آنکھوں سے کہنے لگی
“ملنا ہے تمھیں اس سے”
آبیان نرمی سے پوچھنے لگا
“ملنے کے بعد چھوڑ دوگے نہ اسے”
عنایہ جیسے اس سے پوچھنے لگی کہ کہی ملنے کے بعد وہ اسکے ساتھ کچھ نہ کرے
“ہاں چھوڑ دونگا میں اتنا بھی برا نہیں ہوں”
آبیان اسکا گال نرمی سے سہلاتے ہوئے بولا
عنایہ نے اپنا رخ موڑ لیا
وہ دونوں اکیلے تھے کے دروازہ بجا
“آجاؤ”
اندر ایک چھوٹا بچہ بھاگتے ہوئے آیا
عنایہ اسے دیکھ کر فوراً اسکی طرف بڑھی اور گلے سے لگایا
“سوری میری جان میری وجہ سے آپ مشکل میں آگئے پھوپھو سوری کہ رہی ہے میری جان”
عنایہ ثوبان کو زور سے گلے لگاتے ہوئے بولی
ثوبان نے اپنے گھر کے فرد کو دیکھ کر چپک کر گلے لگایا
“آدھا گھنٹہ ہے تمہارے پاس ملازمہ تمھیں کمرہ دیکھا دیگی وہاں لے جاؤ اسے اور جتنی باتیں ہیں کرلو پھر اسکے بعد میرا ٹائم ہے”
آبیان عنایہ کو محبت دیکھ کر سرشار ہوا پھر شوخیہ بولا
آبیان نے ملازمہ کو اشارہ کیا تو وہ اندر آکر عنایہ کو اپنے ساتھ لے گی۔عنایہ بھی ثوبان کے ساتھ اسکے پیچھے چلی گئی
****
“آپ ہمیں چھ مہینے میں شادی کردیں دراصل حسن کو اپنی جاب پر واپس جانا ہے ابھی وہ اپنی چھٹی پوسپون کرکے واپس جارہا ہے کہ چھ مہینے میں زیادہ چھٹی لے سکے”
حسن کی امی آمنہ کو فون پر بتانے لگی
“پر اتنی جلدی ہم تیاری کیسے کرینگے اور آبش ابھی پڑھ رہی ہے ”
آمنہ نے اپنا مسلہ بتایا
“ہمیں آپ بس اپنی بیٹی دیدیں اور کچھ دینے کی ضرورت نہیں ہے ”
حسن کی امی آمنہ کی پریشانی سمجھ کر بولیں
“پھر حسن کو چھٹی نہیں ملیگی اور مجھے منگنی اتنی دیر نہیں رکھنی ہے باکی آپ دیکھ لیں گھر میں مشورہ کرلیں اور آبش کی پڑھائی نہیں چھوٹے گی وہ شادی بعد اپنی پڑھائی کو جاری رکھے اور آگے بھی جتنا پڑھنا چاہے پڑھ سکتی ہے ہمھیں کوئی مسلہ نہیں ہے پھر بھی آپ لوگ دیکھ لیں پھر اپنا فیصلہ بتادیں”
حسن کی امی نے انھے تفصیل سے سمجھایا
“چلیں میں گھر میں مشورہ کرلوں اسکے بعد آپ کو بتاتی ہو”
آمنہ بتانے لگی
****
“میں ایسا کیا کرو جس سے آبیان کو احساس ہو اور۔ جتنا میں ڈری تھی وہ بھی اتنا ہی ڈرے”
عنایہ کمرے میں ٹہلتی ہوئی بولی
“جس۔ طرح کی مجھے سزا دی ہے نا اللّه ہی معاف کرے دل کرتا ہے وہی بند کروادو جہاں مجھے کیا تھا لیکن وہ تو وہاں بھی آرام سے رہ لینگا پتا نہیں کون سی مٹی کا بنا ہے”
عنایہ تھک ہار کر بیٹھ پر بیٹھتی ہوئی بولی
“گھر جانے کا بول دیتی ہو کہ مجھے اب نہیں رہنا اس کے ساتھ پر نہیں بھاگنے سے ہی ایسی سزا دی تھی اور پھر ہمیشہ کا بولنگی تو پتا نہیں کیا کریگا میرے ساتھ”
عنایہ جھرجھری لیتے ہویے بولی
“کیوں نہ یہی رہ کر تڑپایا جائے اس کا مزہ بھی الگ ہے”
عنایہ ہاتھ پر تالی مارتے ہویے بولی
“آئیڈیا”
عنایہ کچھ سوچ کر شیطانی مسکراہٹ سے بولی
عنایہ نے۔ گھنٹی بجا کر ملازمہ کو بلایا
“جی میم”
ملازمہ اندر آتی ہوئی بولی
“مجھے کسی ڈاکٹر کا نمبر دیدو میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ”
عنایہ بیڈ پر لیٹے اپنا سر ایک ہاتھ سے دباتی ہوئی بولی
“میں بوس کو بتا دیتی ہو اپ رکے”
ملازمہ باہر جانے لگی کہ عنایہ نے آواز دی
“نہیں رکو بوس کو نہیں بتانا فضول کا پریشان ہو جائے گے تم بس مجھے نمبر دیدو میں فون پر دوائی پوچھ لونگی”
پہلے تو عنایہ گھبرا گئی پھر سمبھل کر بولی
“دے بھی دو میں نے کون سا ڈاکٹر سے بھاگنے کی ترکیبے لینی ہے حد ہے”
ملازمہ کو سوچتے پا کر عنایہ نے جھنجھلا کر کہا
“ٹھیک ہے میں دیتی ہو”
“میں نمبر۔ اپنے ہاتھ سے ملا کر کان پر لگاؤ گی”
عنایہ اسے۔ صرف نمبر لاتی ہوئی بولی
“میرے پاس موبائل نہیں ہے آبیان نے۔ کہا ہے وہ مجھے لا دینگے ابھی تم اپنا دیدو”
عنایہ ملازمہ کو دیکھتی ہوئی بولی
“آبیان کو پتا چلا تو اب شیر کے آگے ہی دیدینگے مجھے”
عنایہ سوچ کر ہی گلہ تر کرنے لگی
“ہمت رکھ کر عنایہ”
عنایہ خود کو تسلی دیتے ہویے بولی
آبیان کا نام سن کر ملازمہ نے اپنا فون دے دیا
“ٹھیک ہے تم جاؤ اب میں بلا لونگی تمھیں”
عنایہ نے ملازمہ کو جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا
“جی ڈاکٹر میں آبیان کی وائف بول رہی ہو آپ سے کچھ بات کرنی تھی”
“جی بولیے”
ڈاکٹر نے سامنے سے کہا
“آپ کی ہیلپ چاہیے تھی”
عنایہ ڈاکٹر کو سب بتانے لگی اور بہت فورس کے بعد ڈاکٹر مانا
“تھنک یو سو مچ چلیں پھر ملتے ہیں”
عنایہ نے کہ کر چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ سجا کر فون رکھ دیا
” کیوں نہ میں اپنی فیملی سے بات کرلوں کتنا ٹائم ہوگیا ہے میری کسی سے بات ہی نہیں ہوئی ہے”
عنایہ اداس لہجے میں بولی اور فون ملانے لگی لیکن کسی کا بھی فون نہیں مل رہا تھا عنایہ نے سب کا نمبر ڈائل کیا اور کتنی کتنی دفع کیا اسے پتا نہیں تھا ملازمہ کے پاس جتنے بھی فون ہوتے ہیں ان میں صرف ایمرجنسی کال یا پھر آبیان کا نمبر لگ سکتا ہے باکی پورا موبائل بلاک ہوتا ہے
جب کر کر کے تھک گئی تو موبائل سائیڈ ٹیبل پر پٹک کر آنکھیں موندھ گئی
___________
“ہیلو جی کون”
ڈاکٹر نے کہا
“میں آبیان کی وائف بات کر رہی ہو”
عنایہ نے بتایا
“اوہ اچھا آپ کے بارے میں بہت سنا ہے آبیان کے منہ سے آپ کی بہت باتیں کرتا ہے”
ڈاکٹر سعد عنایہ کو خوش دلی سے بتانے لگا
ڈاکٹر سعد آبیان کا بہت اچھا دوست تھا انکی دوستی بچپن سے ہی تھی سعد کو ڈاکٹر بننے کا بہت شوق تھا اس لیے اسنے ڈاکٹر کی فیلڈ چوس کی جب کہ آبیان ایک غلط پٹری پر چلا گیا وہ جب بھی اس سے ملنے آتا ہمیشہ یہی کہتا کہ وہ اس چیز کو چھوڑ دے لیکن وہ ہر بار ٹال دیتا
آج بھی سعد آبیان سے ملنے آیا تھا سب کے سامنے وہ ایک چھوٹا سا آفس چلاتا تھا اور ہمیشہ سعد سے وہی ملتا
ابھی بھی دونوں باتیں کر رہے تھے کہ آبیان کو اسکے سیکرٹری نے بلایا تو آبیان اپنا موبائل وہیں بھول کر جواب دینے چلا گیا کہ پیچھے سے اسکا موبائل بجا تو اسنے ایمرجنسی سمجھ کر اٹھا لیا
“ہاں یہی بتاتا ہوگا کہ سزا کونسی دینی ہے ہہ”
عنایہ صرف سوچ کر ہی رہ گئی
“کیسی ہیں آپ؟؟ رکیں میں آبیان کو دیتا ہو”
“نہیں نہیں”
سعد کہتے ساتھ اٹھا تو عنایہ نے روکا
“مجھے آپ کی ہیلپ چاہیے تھی”
عنایہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے پھر بھی بولی
“جی کہیے”
سعد نے احتراماً کہا
عنایہ کو پتا نہیں تھا اسنے ڈاکٹر کو نہیں آبیان کو ہی فون کیا ہے اور اسکا گڈ لک ہے کہ آبیان کے بجاے اسکے دوست نے اٹھائی
“میں آپ کے پاس چیک اپ کے لیے آونگی تو آپ کو کہنا ہے کہ مجھے کینسر ہے”
“واٹ پر کیوں؟؟”
سعد کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنی بڑی بیماری کیوں بول رہی ہے
“عنایہ نے مختصر کہا کہ آبیان نے مجھے تنگ کیا ہوا ہے مجھے بھی تھوڑا تنگ کرنا ہے
عنایہ نے سنمبھل کر بات کی
یہ سن کر سعد کا قہقہ گونجا
“پر میری ایک شرط ہے”
سعد کے دماغ میں آئیڈیا آیا تو اسنے کہا
“جی کہے”
عنایہ نے کہا
“آپ کا بہت دیوانہ ہے میرا یار آپ کو اسکو سہی پٹری پر لانا ہوگا یہ جو بھی کام کرتا ہے مجھے یقین ہے آپ کے علم میں ہے اسلیے آپ کسی بھی طرح اسے سیدھے راستے پر لے آئیں”
سعد نے بہت امید سے کہا کہ شاید یہاں اسکا کام ہوجاے اور آبیان اپنی نئی زندگی گزارے
“پر میں کیسے کر سکتی ہوں”
عنایہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا جواب دے
“آپ کرسکتی ہیں آپ کوشش تو کریں میں آپ کی پوری مدد کرونگا”
سعد نے عنایہ کی ہمت بھاندی
“آپ کی رپورٹس بھی میں بنوا دونگا جتنا اسنے تنگ کیا ہے آپ کو اس سے کہیں زیادہ آپ کرنا”
سعد نے اسے سب بتایا
“چلیں ٹھیک ہے تھنک یو سو مچ اللّه حافظ”
عنایہ خوشی سے بولی لیکن عنایہ کو سمجھ بھی نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے ایسا جس سے آبیان سہی راستے پر آجائے
“اللّه حافظ کوشش ضرور کرنا”
سعد نے جیسے یاد دہانی کروائی
عنایہ نے جی کہ کر فون رکھدیا
****
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...