عروہ نے ایک گہرا سانس لے کر دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو کر لائٹ جلائی پورے گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا وہ ہائی ہیل سے ٹک ٹک کرتی شہریار کے کمرے کی طرف بڑھی ہی تھی کہ سویرا کے کمرے کا دروازہ کھولا اور ایک بزرگ خاتون باہر نکلیں وہ انہیں دیکھ کر ٹھٹک کر رک گئی
” اے لڑکی !! کون ہو تم اور ایسے گھر میں کیسے گھسی چلی آرہی ہو ؟؟ ” انہوں نے کڑی نگاہوں سے اس کا جائزہ لیا
” دیکھنے میں تو دیسی مرغی لگ رہی ہو چلو شروع ہوجاؤ کون ہو تم ۔۔۔۔” وہ بارعب انداز میں بولیں
” دیسی مرغی !! ” عروہ کو پھندا سا لگ گیا
” میں !! میں عروہ ہوں ۔۔۔۔” اس نے اپنا تعارف کروانا چاہا
” ارے عروہ غرباء ہوگی تو اپنے گھر کی !! یہاں کیا کررہی ہے اندر کیسے گھسی ۔۔۔۔؟؟” انہوں نے اس کی بات کاٹ کر اسے لتاڑا
” میرے پاس چابی ہے ۔۔۔” عروہ نے چابی دکھائی اور فرزانہ نے چیل کی طرح جھپٹ کر چابی اس کے ہاتھ سے لے لی
” کہاں سے ملی تجھے ہمارے گھر کی چابی ؟؟ ” فرزانہ نے بھونیں اچکائیں
” یہ چابی مجھے شیری نے دی تھی ، یو نو شیری ؟؟ اس گھر کا مالک ۔۔۔۔” عروہ نے جواب دیا
” شیری !! اوہ تو شیرو کی بات کررہی ہے !! ارے وہ تو بچہ ہے اور تو ، تو پکی سمجھدار عورت ہے بچے نے چابی دی اور تو نے لے لی تیری اتنی ہمت ۔۔۔” وہ اسے سر لیکر پیر تک گھورتے ہوئے بولیں
” اولڈ وومین !! تمیز سے بات کرو اور وہ شیری کو دودھ پیتا بچہ نہیں ہے ۔۔۔۔” عروہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا
” اولڈ وومین ہوگی تو ، تیری ماں ، تیرا باپ ، تیرا پورا خاندان جسے تجھے پہنانے کے لیے کپٹرے تک نہیں نصیب ہوئے ۔۔۔۔” فرزانہ نے اسے کوسا
” کیا ہورہا ہے آپا ۔۔۔۔” سلیم صاحب آوازیں سن کر گیسٹ روم سے باہر نکل آئے
“سلیم میاں !! ذرا دیکھو تو ہمارے گھر میں فقیرنی گھس آئی ہے بیچاری کے پاس کپڑا لتا تک نہیں ہے کہ خود کو ڈھانپ سکے !! میاں ذرا اپنا بٹوا تو لاؤ اور اسے کچھ دے دلا کر فارغ کرو ۔۔۔۔” وہ عروہ کو گھورتے ہوئے بولیں
سلیم صاحب آگے آئے ۔۔
” بیٹی آپ کون ہیں اور ادھر کیسے آنا ہوا ؟؟ ” انہوں نے شائستگی سے پوچھا
” انکل آپ کون ؟؟ ” عروہ نے الٹا سوال کیا
” میں اس گھر کے مالک شہریار کا باپ ہوں ۔۔۔۔” وہ نرمی سے بولے
” آپ شیری کے فادر ہیں !! او مائی گاڈ اس نے مجھے بتایا ہی نہیں کہ اس کی فیملی آرہی ہے پاکستان سے ۔۔۔” وہ حیران رہ گئی
“چلیں بیٹا آپ اندر چل کر بیٹھیں اور آپا آپ دروازہ کھولیں لگتا ہے شہریار کے بھجوائے نوکر آگئے ہیں ۔۔۔” وہ گھنٹی کی آواز سنتے ہوئے گویا ہوئے
سوزن آکر کچن سنبھال چکی تھی سلیم صاحب عروہ کو لیکر لیونگ روم میں بیٹھے تھے فرزانہ بھی زاہدہ بیگم کو لیکر ادھر ہی جا رہی تھیں جب سوزن سامنے آئی اور ٹوٹی پھوٹی اردو میں چائے کا پوچھا
” میڈم آپ لوگ چائے پیو گے یا کافی ؟؟ ”
” ارے بھاڑ میں جائے تمہاری چائے جاؤ جا کر ناشتہ تیار کرو ۔۔۔۔” فرزانہ سوزن کی مداخلت پر تلملا کر بولیں
سوزن نے ان کا رویہ دیکھتے ہوئے خاموشی سے کچن میں جانا مناسب سمجھا
“یہ ولایتی لڑکیاں تو ہوتی ہی تیز طرار ہیں ذرا اس بے ڈھنگی کو تو دیکھو کیسے بنا لباس بے باکی سے سلیم کے سامنے بیٹھی ہے ۔۔۔۔” فرزانہ نے لیونگ روم میں بیٹھی عروہ کو دیکھتے ہوئے زہر اگلا
” فرازنہ آپا !! اب ایسا بھی مت کہئیے ، اس نے لباس پہنا ہوا ہے ادھر کا پہناوا ہی ایسا ہے ۔” زاہدہ بیگم نے عروہ کی طرف داری کی جس سے فرزانہ بھڑک اٹھیں
” تمہیں اس فیشن کی پوٹ ننگی ٹانگوں والی بکری میں ایسا کیا نظر آگیا جو اس کی حمایت کررہی ہوں ؟؟ بہتر ہے تم سلیم کو لیکر اندر جاؤ میں خود اس سے نبٹ لونگی ۔۔۔” انہوں نے زاہدہ بیگم کو جھاڑا
وہ دونوں اندر آکر صوفے پر بیٹھ گئیں کمرے کا ماحول خاصا سنجیدہ تھا ۔ سلیم صاحب کے چہرے پر بھی بلا کی سنجیدگی طاری تھی اور عروہ اپنے آنسو پوچھ رہی تھی
” تو اب آپ کیا چاہتی ہیں بیٹا جی ۔۔۔۔” چند لمحوں کی خاموشی کو سیلم صاحب کی گھمبیر آواز نے توڑا
” انکل مجھے شیری سے شادی کرنی ہے اس نے سو لوگوں کے بیچ مجھ سے منگنی کی تھی اور اب اپنا مطلب نکال کر شادی سے مکر گیا ہے ۔۔۔۔” عروہ کی بات نے زاہدہ بیگم اور فرازنہ کی سماعت پر بم سا پھوڑ دیا تھا
” کیا بکواس ہے یہ ؟؟ اور لڑکی !! تجھے حیا نا آئی اتنا گندا اور جھوٹا الزام میرے شیرو پر لگاتے ہوئے ۔۔۔” فرزانہ نے نفرت اگلتی نگاہوں سے عروہ کو گھورا
” آپا پلیز !! میں بات کررہا ہوں ۔۔۔۔” سلیم صاحب نے انہیں ٹوکا
” ارے جن کے دل سیاہ ہوں وہ ایسے ہی دوسروں پر تہمت لگاتے ہیں سلیم میاں اس حرافہ کو کچھ دے دلا کر فارغ کرو یہ منگتی ہے لکھ لو دولت کی ہوس میں شیرو کے پیچھے پڑی ہوگی ۔۔۔”
عروہ فرازنہ پھپھو کی بات سن کر تڑپ کر کھڑی ہو گئی
” اے بڈھی عورت زبان سنبھال کر !! مجھے نہیں پتہ تھا شیری کا خاندان اتنا بیک ورڈ ہے اور میں الزام نہیں لگا رہی بلاؤ اسے پوچھو اس سے کہ مجھ سے منگنی کی تھی کہ نہیں شادی کے سپنے دکھائے تھے کہ نہیں ۔۔۔” عروہ چلائی
“آواز نیچی کر بے شرم !! ” فرزانہ نے اسے ٹوکا
” بیٹا آپ ابھی اپنے گھر جاؤ آپ کی بات میں نے سن لی ہے اب مجھے شہریار کی سائیڈ کی اسٹوری بھی جاننی ہے پھر میں آپ سے خود رابطہ کرونگا ۔۔۔” سلیم صاحب نے بات ختم کی
*************
“سر آپ میرے راستے سے ہٹ جائیں ورنہ ۔۔۔۔” سویرا نے غصہ سے کہا
” ورنہ کیا ؟؟؟ تم میرا کیا بگاڑ لو گی بولو ۔۔۔” وہ اس کے نزدیک آکر اس کے چہرے پر پھونک مارتا ہوا بولا
” یہ سنسان جگہ ہے ڈارلنگ اور اس وقت ویسے بھی سب اسٹوڈنٹس اپنی اپنی کلاسز میں ہیں اب اگر میں تمہیں ادھر سے گھسیٹتا ہوا بھی لے جاؤ تو کوئی نہیں بچا سکتا ۔۔۔” وہ ہنس کر اس کے چہرے کو چھوتے ہوئے بولا
” چٹاخ !!!! ” سویرا نے بنا سوچے سمجھے اس کے چہرے پر زور دار تھپڑ مارا
ڈاکٹر اینڈریو نے سرخ نگاہوں سے سویرا کو گھورا اور اس کا ہاتھ بڑی بیدردی سے پکڑا ۔
********
” ہیلو اینا بے بی ۔۔۔۔” بریڈلی نے یونیورسٹی پہنچتے ہی اینا کو فون ملایا
” ہیلو بریڈلی اتنی صبح کال کی خیریت ۔۔۔” اینا جو آفس کیلئے تیار ہو رہی تھی فون اٹھا کر باہر نکلتے ہوئے بولی
” بس تمہاری یاد آرہی تھی ۔۔۔” وہ بڑے مزے سے بولا
” کبھی پڑھ بھی لیا کرو رومیو کی اولاد ۔۔۔” اینا نے لتاڑا
” تم موقع دو گی تو ہی تو پڑھونگا ۔۔۔” اس نے شرارت سے اسے چھیڑا
” میں نے کب روکا ہے تمہیں ؟؟ ” وہ الجھی
” پاس آؤ گی تو تمہاری ہارٹ ریڈنگ کرونگا ۔۔۔۔” وہ آنکھ مارتے ہوئے بولا
” بریڈلی !! کیا بکواس کرنے کے لیے فون کیا ہے ۔۔۔” وہ تپ گئی
” اچھا لیو دا رومینس !! یہ بتاؤ سویرا آج یونیورسٹی آرہی ہے ؟؟ ” اس نے سوال کیا
” ہاں !! میں نے کل باس کو کال کی تھی وہ خود اسے ڈراپ کرینگے ۔۔۔” وہ اطمینان سے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے بولی
” ٹھیک ہے میں بیک سائیڈ چیک کرتا ہوں وہ ڈپارٹمنٹ کا شارٹ کٹ ہے میں نے ہی اسے دکھایا تھا اچھا ہے اسے وہی سے کیچ کرلونگا ۔۔۔۔” وہ تیزی سے عمارت کی پچھلی طرف بڑھا
” او مائی گاڈ ۔۔۔۔” اس کے منھ سے سامنے کا منظر دیکھ کر نکلا
” کیا ہوا ؟؟ ۔۔۔” اینا نے فوری پوچھا
” اس خبیث ڈاکٹر اینڈریو نے ابھی ابھی سویرا کا راستہ روکا ہے لیکن اس بار یہ کمینہ میرے ہاتھوں بچے گا نہیں ۔۔۔۔۔” بریڈلی نے دانت ہچکچاتے ہوئے کہا
” بریڈلی !! تم فوراً پولیس کو فون کرو !! ” اینا پریشان ہو گئی
” اینا ڈئیر !! تم فکر مت کرو میں اس کی وڈیو بنانے جارہا ہوں تاکہ پکا ثبوت مل جائے اور یونیورسٹی اسے کک آؤٹ کردے اسٹوڈنٹ کو ہراس کرنے کے کیس میں ۔۔۔” وہ سنجیدگی سے بولا
” اچھا آئیڈیا ہے لیکن سنو سویرا کا چہرا نہیں آنا چاہیے وہ بدنام ہو سکتی ہے ” ۔۔۔اینا جلدی سے بولی
” جانتا ہوں ڈونٹ وری ۔۔۔” بریڈلی نے فون رکھا اور خود درختوں کی آڑ لیتا ہوا قریب آگیا جہاں سے اینڈریو کا چہرہ اور آواز صاف سنائی اور دکھائی دے رہی تھی
اینڈریو کی بڑھتی ہوئی جسارتوں کو دیکھ کر اس نے پولیس کال کر دی تھی اور اب فون کیمرہ ہاتھ میں لئیے اس کی سمت تیزی سے بڑھا
****************
وہ سویرا کا لیب ٹاپ لیکر یونیورسٹی کے احاطے میں داخل ہوا سویرا اسے کہیں بھی نظر نہیں آئی
” اتنی جلدی یہ لڑکی کدھر چلی گئی ۔۔۔۔” وہ بڑبڑایا
چاروں طرف نظریں گھماتے ہوئے اس نے اپنا فون نکالا اردہ سویرا کو کال کرنے کا تھا اسی وقت ایک کونے سے اسے تیزی سے بریڈلی نکلتا ہوا دکھائی دیا
” بریڈلی !! ہے مین ۔۔۔۔” اس نے آواز لگائی پر وہ فون کانوں سے لگائے عمارت کے پچھلے حصے کی طرف بڑھ گیا تھا ۔
شہریار بھی تیزی سے اس کی سمت بڑھا اس کا ارادہ بریڈلی کو سویرا کا لیب ٹاپ دینے کا تھا تھوڑی ہی دور جاکر اسے بریڈلی سیل فون سے وڈیو بناتا ہوا دکھائی دیا اور سامنے کا منظر دیکھ کر اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا ۔۔۔
بریڈلی تیزی سے سویرا کی سمت بڑھا ہی تھا کہ اس کے شانے پر کسی نے ہاتھ رکھا وہ فوراً پلٹا اور شہریار کو دیکھ کر حیران رہ گیا
” اس باسٹرڈ کو میں دیکھتا ہوں تم وڈیو بناتے رہو اور فوراً یوٹیوب پر اپلوڈ کردو لیکن سویرا نظر نہیں آنی چاہیے انڈر اسٹینڈ ۔۔۔”
بریڈلی نے اس کی سرخ آنکھوں کو دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا
شہریار اسے ہدایات دے کر آگے بڑھا ۔۔۔
قدموں کی آواز سن کر اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتی سویرا اور اینڈریو دونوں نے چونک کر اسے دیکھا ۔
“آ آپ آگے ۔۔۔۔”وہ اس کی طرف بڑھی ہی تھی کہ اینڈریو نے اسے اپنی سمت کھینچا
” اوہ !! بڑا اسٹرانگ کنکشن ہے بھئی ، ابھی تو بس ہاتھ ہی پکڑا تھا اور ہسبنڈ صاحب کھینچے چلے آئے۔۔۔” اینڈریو اسے دیکھ کر بولا
” تمہاری اتنی ہمت !!! ” شہریار پھنکارتے ہوئے آگے بڑھا اور جھٹکے سے سویرا کا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھڑوا کر ایک زور دار گھونسا اس کے منھ پر مارا
” مسٹر شہریار !! کبھی اپنی وائف سے بھی پوچھو کہ اس نے کیوں مجھے دیوانہ بنایا ؟؟ کیوں میرے دل سے کھیلا ؟؟ اور اب جب مجھ پر اس کے حسن کا جادو چڑھ چکا ہے تو یہ ۔۔۔۔
” بکواس بند کرو ۔۔۔۔” شہریار نے ایک زور دار پنچ اس کے چہرے پر مارا وہ لڑکھڑا کر دو قدم پیچھے ہوا
“تم جیسے استاد معاشرے کا ناسور ہیں جو اپنی ہی اسٹوڈنٹس پر بری نظر رکھتے ہیں ۔۔۔۔” شہریار پھنکارا
وہ دونوں گھتم گھتا ہو چکے تھے سویرا کا چہرہ زرد پڑ چکا تھا وہ سانس روکے شہریار کے چہرے پر چھائی چٹانوں سی سختی کو دیکھتے ہوئے لرز رہی تھی جب دوڑتے ہوئے قدموں کی آوازیں سنائی دیں سامنے ہی پولیس کے ساتھ ساتھ اسٹوڈنٹس ٹیچرز کا ایک ریلہ دوڑتا چلا آرہا تھا جو یقیناً بریڈلی کے وڈیو اپلوڈ کرنے کی وجہ سے اس معاملے سے آگاہ ہوا تھا ۔۔
پولیس نے ڈاکٹر اینڈریو کو گرفتار کر لیا تھا اور اب ضابطے کی کارروائی پوری کر کے اسے انسپکٹر نے تھانے بھجوا دیا تھا۔
” مسٹر شہریار ! آپ ڈین آفس آئیں آپ سے کچھ بات کرنی ہے ۔۔۔” انسپکٹر شین اس کے پاس آکر بولا
” شیور آپ چلیں !! میں اپنی وائف کے ساتھ تھوڑی دیر تک آتا ہوں ۔۔۔” شہریار سنجیدگی سے بولا
بریڈلی نے سب اسٹوڈنٹس کو وہاں سے ہٹادیا تھا اور خود بھی شہریار کو گڈ لک کا اشارہ کرتے ہوئے ڈین آفس کی طرف روانہ ہو گیا تھا۔
شہریار سب کے جانے کے بعد سامنے کھڑی سویرا کی طرف متوجہ ہوا جس کا چہرہ خوف سے زرد پڑ چکا تھا اور جو ابھی بھی ہلکے ہلکے لرز رہی تھی ۔وہ کافی ہراساں اور پریشان تھی
“تم اتنی خوف زدہ کیوں ہو ؟؟ ” شہریار نے اس کے ٹھنڈے ہاتھ تھامے
” وہ وہ وہ ۔۔۔۔۔۔” سویرا سے بولا تک نہیں جارہا تھا
” وہ گرفتار کیا جاچکا ہے اور اب کبھی بھی تمہارے راستے میں نہیں آئیگا ٹرسٹ می ۔۔۔۔” وہ نرمی سے بولا
سویرا نے بھیگی پلکیں اٹھا کر اپنے ہمسفر کی طرف دیکھا جو اس کے سامنے ایک مضبوط چٹان کی طرح کھڑا ہوا تھا۔ ایک وقت تھا کہ وہ اسے معمولی سی بھی اہمیت دینے کو تیار نہیں تھا اور آج اس کی پرچھائیں بنا اس کا محافظ بنا سامنے کھڑا تھا ۔وہ اس کی چاہت میں گرفتار ہوا تھا تو سویرا بھی اس کے عشق میں ڈوب چکی تھی ان دونوں کے درمیان محبت کا بیج دل کی سر زمین پر مضبوطی سے نشوونما پا چکا تھا محبت کا لافانی جذبہ ان دونوں کو اسیر کرچکا تھا ۔۔۔
” آپ آپ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں ۔۔۔” وہ اس کی نگاہوں کی تپش سے گھبرا اٹھی
“چلو تمہارے ڈین آفس چلیں ۔۔۔۔” وہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا
ڈین کے آفس میں خاصا رش لگا ہوا تھا ٹیچرز اسٹوڈنٹس کے علاوہ پولیس انسپکٹر اور بریڈلی بھی ادھر ہی تھے ۔وہ سویرا کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے بڑے مغرور بارعب انداز سے چلتا ہوا ڈین کی میز کے سامنے پہنچا
ڈین نے بڑے احترام سے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا شہریار نے کرسی گھسیٹ کر سویرا کو بٹھایا اور خود کھڑا رہا
” مسٹر شہریار !! وی آر ویری سوری جو بھی ہوا مگر یقین کریں آئندہ ایسا نہیں ہوگا یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر اینڈریو کے خلاف سخت ایکشن لے گی ۔۔۔” ڈین نے بات شروع کی
” یونیورسٹی ایکشن لے یا نہ لے ، میں اس باسٹرڈ کو سخت سے سخت سزا دلوائی جائے اس بات کو پریقین بناؤں گا ۔۔۔”وہ دو ٹوک لہجے میں بولا
” مسٹر شہریار آپ سے ایک ریکوئسٹ ہے آپ پلیز یو ٹیوب سے وڈیو ہٹوا دیں یونیورسٹی کی عزت کا سوال ہے باقی ہم پر یقین رکھیں ہم اس معاملے پر ڈاکٹر اینڈریو کو سزا ضرور دلوائیں گے ۔۔۔” ڈین فیکلٹی نے گزارش کی
” ویل میں اس پر سوچوں گا ۔۔۔” وہ بولتے بولتے رکا
” مسٹر شہریار کائنڈلی وڈیو ڈیلیٹ کروائیں ہم اس وڈیو کو عدالت میں استمال کرینگے ۔۔۔” اب کے انسپکٹر آگے بڑھا
” اوکے ۔۔۔” شہریار نے سر ہلاتے ہوئے بریڈلی کو اشارہ کیا اور خود الوادعی کلمات ادا کرتے ہوئے سویرا کو لیکر آفس سے باہر نکل آیا ۔
” تم نے دیکھا ؟؟ آج اس ڈاکٹر کی وجہ سے کتنی پرابلم ہوئی اور تماشہ الگ بنا ۔۔۔” وہ سنسان راہداری میں رکتے ہوئے سنجیدگی سے بولا
” کاش تم نے مجھ سے کچھ نا چھپایا ہوتا تو آج یہ نوبت نہیں آتی ۔۔۔” وہ بلا کی حد تک سنجیدہ تھا
“میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ سر اس طرح سے اتنی بدتمیزی کریں گے ۔” وہ روتے ہوئے بولی
“جی مسز شہریار !! بالکل آپ نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا انفیکٹ آپ تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے ہی عاری ہیں اور میں ، میں تو جیسے مکمل پلاننگ کر کے آیا تھا نہ کہ وہ ذلیل انسان تم سے بدتمیزی کرے اور میں اس کی ٹھکائی لگاؤ !! صرف تمہاری وجہ سے ، صرف اور صرف تمہاری وجہ سے یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑا مجھے ورنہ اس وقت اپنے آفس میں بیٹھا مارننگ کافی انجوائے کررہا ہوتا !! ” وہ طنزیہ لہجے میں بولا
سویرا اس کا طنزیہ لہجہ سن کر سسک اٹھی
” حد ہوتی ہے احمقانہ پن کی اور بے اعتمادی کی !! یہ شخص تمہیں اتنے دنوں سے ڈرا دھمکا رہا تھا اور تم نے مجھے بتایا تک نہیں۔۔۔” اس کا موڈ بری طرح خراب ہو چکا تھا
” کل آپ کو بتایا تو تھا ۔۔۔۔۔” وہ آنسو پیتے ہوئے بولی
” محترمہ کل آپ نے صرف اتنا کہا تھا کہ یہ آپ کو تنگ کرتا ہے اور تنگ کرنے اور ہراس کرنے میں واضح فرق ہوتا ہے وہ تو شکر ہے میں آگیا ورنہ آپ نے تو اس کے ہاتھوں اغوا ہونے کی ٹھان لی تھی ۔۔۔”وہ شدید غصہ میں بپھرا ہوا تھا
سویرا دانتوں سے ہونٹ کاٹتے ہوئے اپنے آنسو روکنے کی کوشش کررہی تھی
” پلیز اب یہ رونا شروع مت کرنا ورنہ یہی کسی درخت سے الٹا لٹکا دونگا تمہیں ۔۔۔۔” وہ بھنایا
” پلیز !! میں سوری کررہی ہوں نا ۔۔۔” وہ بے اختیار ہو کر آگے بڑھی اور اس کے کندھے سے سر ٹکا کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی
” ایک تو بندہ شادی کے بعد غصہ بھی ڈھنگ سے نہیں کرسکتا ۔۔۔” اس نے بڑبڑاتے ہوئے سویرا کو خود سے الگ کیا
” اچھا اب یہ رونا دھونا بند کرو اور آرام سے اپنی بقایا کلاسس اٹینڈ کرو فارغ ہو کر کال کردینا میں ڈرائیور بھیج دونگا ۔۔۔”وہ نرمی سے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا
سویرا اثبات میں سر ہلاتے ہوئے آگے بڑھ گئی جہاں بریڈلی اس کا انتظار کررہا تھا ۔
صبح سات بجے وہ گھر سے نکلا تھا تھا سویرا کو چھوڑنے اور اس کے بعد یونیورسٹی کے ہنگامے نے اسے بہت دیر کروا دی تھی اس وقت دن کے گیارہ بج رہے تھے وہ آفس کی پارکنگ میں اپنی مخصوص جگہ پر گاڑی پارک کر کے سب کے سلام کا سر ہلاتے ہوئے سنجیدگی سے اپنے روم کی طرف بڑھا اور اندر پہنچتے ہی انٹرکام اٹھا کر اینا کو اندر آنے کا حکم دیا
” یس سر !! ” اینا ہاتھ میں کاپی پین لئیے اندر داخل ہوئی
” مس اینا !! ”
” جی سر !! ” وہ اٹینشن ہوئی
” میں نے آپ کو پہلے دن سے ہی سویرا کی دیکھ بھال کی اور ساری رپورٹنگ دینے کی ذمہ داری دی تھی !! دی تھی کہ نہیں ؟؟؟ ”
” یس سر دی تھی اور میں نے آپ کو ان کی ساری رپورٹس دی تھیں انفیکٹ یونیورسٹی میں ان کا روم نمبر تک بتا دیا تھا ۔” اینا فرفر بولی
” تو پھر مجھے اس ڈاکٹر اینڈریو کے بارے میں کچھ پتہ کیوں نہیں چلا ؟؟ ” وہ سرد لہجے میں بولا
” سر ڈاکٹر اینڈریو کا مجھے بھی بہت دیر سے پتہ چلا تھا آپ ان دنوں مس عروہ کے ساتھ بزی تھے تو میں اور بریڈلی اسے دیکھ رہے تھے ۔۔۔”
” کیا خاک دیکھا ہے تم لوگوں نے ؟؟ مجھے اس اینڈریو کی پوری انفارمیشن چاہئیے وہ سویرا کو کیسے جانتا ہے کیوں اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہے سب کچھ ، کسی پرائیوٹ ڈیٹیکٹیو کو ہائر کرو ۔۔۔” اس نے ہدایات دیں
” ویل !! سویرا کے معاملے میں میں آئندہ کوئی کوتاہی برداشت نہیں کرونگا کنسڈر دس آ لاسٹ وارننگ ۔۔۔۔”
” اوکے سر ۔۔۔” اینا نے سنجیدگی سے سر ہلایا
” اب جاؤ اور اس شہر کے سب سے بیسٹ وکیل سے میری میٹنگ سیٹ کرواؤ جو اس اینڈریو کو کم سے کم دس سال کی سزا دلوائے ۔۔۔” شہریار نے حکم دیا
” اوکے سر ” اینا تابعداری سے سر ہلاتے ہوئے باہر نکل گئی
************
وہ اپنے کاموں میں مصروف تھا ابھی ابھی ایک میٹنگ بھگتا کر فارغ ہوا تھا جب اس کا سیل فون بج اٹھا اس نے فون پر نظر دوڑائی تو سویرا کی کال تھی
” ہیلو !! ” سویرا کی مدھر آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی
” آپ ٹھیک ہیں ؟؟ ” اس نے جھجکتے ہوئے پوچھا
” کیوں مجھے کیا ہونا تھا ؟؟ ” شہریار نے الٹا سوال کیا
” وہ آپ غصہ میں تھے تو ۔۔۔۔۔”
” مسز شہریار !! میرے غصہ کی اگر آپ کو فکر ہوتی تو آپ !! خیر کہئیے کیا حکم ہے کیسے کال کی ۔۔۔” وہ ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوئے کرسی پر بیٹھا
” وہ میری کلاسز ختم ہوگئی ہیں۔۔۔”
” اوکے تم میرا ویٹ کرو میں آرہا ہوں ۔۔۔” وہ کھڑا ہوتے ہوئے گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے بولا
” جی ٹھیک ہے لیکن اگر آپ مصروف ہیں تو بریڈلی کہہ رہا وہ ڈراپ کردیگا ۔۔۔”
” نہیں میں آرہا ہوں ویسے بھی مجھے تمہیں کہیں لیکر جانا ہے ۔۔۔”
” سب ٹھیک تو ہے ۔ ۔ ” وہ پریشان ہوئی
” سب ٹھیک ہے ، بس میں ٹھیک نہیں ہوں اور مجھے اس وقت تمہارے ساتھ ٹائم اسپینڈ کرنا ہے ڈیٹس اٹ ۔۔۔”وہ آفس سے باہر نکلا
” لیکن گھر میں سب انتظار کر رہے ہونگے ۔۔۔” سویرا بوکھلا گئی
” گھر کو چھوڑو اور اپنے گھر والے کی فکر کرو صبح سے غصہ سے تپ رہا ہوں اور اب تمہارا فرض ہے میرا غصہ کم کرو ، تھوڑا دل بہلاؤ میرے ساتھ اچھا سا رومینٹک سا ٹائم اسپینڈ کرو ۔۔۔” وہ اس کے چھکے چھڑاتے ہوئے بولا
____________
اس نے گھبراہٹ میں تیسری بار خود پر اچھی طرح سے سے کوٹ کو درست کیا اور چاروں طرف دیکھنے لگی یونیورسٹی آف ہو رہی تھی سب اسٹوڈنٹس آہستہ آہستہ باہر جارہے تھے وہ وہ بریڈلی کے ساتھ آئی تھی جو اس وقت ایک کونے پر اینا سےفون پر باتیں کرنے میں لگا ہوا تھا ۔اس نے ایک بار پھر پارکنگ میں شہریار کی گاڑی تلاش کرنا چاہی لیکن وہ ابھی تک نہیں پہنچا تھا ۔تبھی اس کی نظر دائیں ہاتھ پر کھڑے گھنے برگد کے درخت کے نیچے پڑیں اور اس کے چہرے پر خوف کی پرچھائیاں تیزی سے نمودار ہو گئیں ۔
شہریار پارکنگ میں پہنچ چکا تھا سویرا کے آنے سے پہلے اس کی زندگی ایک مشین کی طرح سے چل رہی تھی بس بزنس کی دنیا میں نام بنانا اپنا آپ منوانا یہی دھن سوار تھی کام کام اور کام !! لیکن سویرا اس کی زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی ثابت ہوئی تھی وہ پھر سے مسکرانے لگا تھا اس لڑکی کی چھوٹی چھوٹی حماقتیں اسے اچھی لگنی لگی تھیں ۔ اس نے گاڑی روک کر اطمینان سے اپنی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی اور دروازہ کھول کر باہر نکلا ۔۔
بائیں طرف درخت کے نیچے سرجھکائے کھڑی لڑکی پر اسے سویرا کا گمان ہوا اس نے آنکھیں سکیٹر کر بغور دیکھا ۔ وہ ابھی تک شہریار کا کوٹ پہنے ہوئے تھی ڈھیلا ڈھالا جو اس کے گھٹنوں سے بھی نیچے تک آرہا تھا ۔لمبی آستینیں فولڈ کی ہوئی تھی ۔ اس کے سر جھکا کر آنسو صاف کرنے پر اسے اندازہ ہوا کہ وہ رو رہی ہے وہ اختیار ہو کر تیزی سے اس کی سمت بڑھا
“کیا ہوا ہے ؟؟ کسی نے کچھ کہا ہے ؟؟ مجھے بتاؤ کیا بات ہے؟؟آخر تم رو کیوں رہی ہو ؟؟؟” وہ ماتھے پر تشویش سے بل ڈالے اسے دیکھنے لگا
“آپ !! آپ آگے ۔۔۔۔” سویرا نے اس کی آواز سن کر سر اٹھایا اس کی آنکھیں شہریار کو دیکھ کر چمک اٹھی تھیں
“تم یہاں اکیلی کیا کر رہی ہو ؟؟ ہو بریڈلی کدھر ہے۔۔۔” وہ اس کی نظروں میں خود کو دیکھ کر ابھرنے والی جگمگاہٹ نوٹ کرتے بولا
“وہ ادھر اینا سے فون پر بات کر رہا ہے !! اس نے کہا تھا یہیں ٹھہرو میں آتا ہوں لیکن آپ وہ سامنے دیکھئیے نہ نہ وہ وہ مجھے گھور رہا ہے ۔۔۔مم مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔” وہ سہم سی گئی
” کون ؟؟ کون گھور رہا ہے ؟؟ مجھے بتاؤ ابھی اس کا منھ توڑتا ہوں ۔۔۔” شہریار اسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے چاروں اطراف دیکھتے ہوئے بولا اس کے چہرے پر کرختگی سی چھا گئی تھی
” وہ ادھر دیکھیں درخت کے نیچے لال گاڑی کے پاس کتنا خطرناک کتا ہے ۔۔۔۔” سویرا نے کانپتے ہاتھوں سے ایک کتے کی طرف اشارہ کیا
“حد ہوتی ہے مسز !! کتے سے بھی کوئی ڈرتا ہے ؟؟دو منٹ کے لیے تو میں سیریس ہوں کے تمہیں گھورنے والے بندے کا قتل کرنے کا سوچ رہا تھا اور یہ بریڈلی بھی انتہائی بے وقوف اور غیر ذمہ دار آدمی ہے ہے اسے پتا بھی ہے کہ تم ایک نمبر کی عقل سے پیدل ہو پھر بھی تمہیں اکیلا چھوڑ گیا ۔۔۔”وہ بڑبڑاتے ہوئے سیل فون نکال کر بریڈلی کا نمبر ملانے لگا ۔
“کہاں ہو تم؟؟”
” شہریار برو !! میں نے آپ کو دیکھ لیا ہے بس ابھی آیا۔۔۔۔
“اٹس اوکے !! میں نے سویرا کو پک کرلیا ہے اب وہ میرے ساتھ ہے۔ یو کیری آن ” شہریار نے اسے روکا
” اوکے برو !! ٹیک کئیر ۔۔۔۔” بریڈلی نے مسکراتے ہوئے فون بند کردیا
“چلو ۔۔۔” وہ فون بند کر کے سویرا کو ساتھ چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے آگے بڑھا
ابھی وہ دونوں چند قدم ہی آگے بڑھے تھے کہ وہ کتا تیزی سے دوڑتا ہوا سویرا کے پیروں کے قریب آیا اس کے منھ سے فلک شگاف چیخ نکلی وہ بری طرح ہراساں ہوگئی تھی
سویرا کی چیخ سن کر شہریار چونک کر تیزی سے پلٹا سامنے ہی سفید رنگ کا جرمن ڈاگ سویرا کے پیروں کے پاس کھڑا ہوا تھا اور سویرا بی بی آنکھیں سختی سے میچے تھر تھر کانپ رہی تھیں ۔ اس نے آگے بڑھ کر کتے کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور پھر سویرا کا کانپتا ہوا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں تھام کر تیزی سے آگے گاڑی کی جانب بڑھنے لگا ۔
سویرا جو اس کتے کو اپنے اتنے نزدیک دیکھ کر ڈر گئی تھی اپنے ہاتھوں پر شہریار کا لمس محسوس کرتے ہی پرسکون سی ہوگئی اور اپنے تیزی سے دھڑکتے ہوئے دل کو قابو کرنے لگی آنکھیں کھولنے کی ہمت اس میں ابھی بھی نہیں تھی کیا پتہ وہ کتا آس پاس ہی موجود ہو !! یہ سوچ ہی اس کا دل دہلانے کے لئیے کافی تھی
” سنو لڑکی !! اب تم آنکھیں کھول سکتی ہو ۔۔۔” شہریار نے گاڑی کے پاس آکر اس کا نازک ہاتھ اپنی گرفت سے آزاد کیا
” کک کتا ۔۔۔۔”
“واٹ ؟؟ تم مھے کتا کہہ رہی ہو ؟؟ ” شہریار نے اسے گھورا
“نہیں نہیں ۔۔۔۔”سویرا نے گھبرا کر جھٹ سے اپنی آنکھیں کھولیں اور خود کو گاڑی کے پاس کتے سے دور محسوس کر کے ایک پرسکون سا سانس لیا
” چلو بیٹھو ۔۔۔۔” وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر اسے بٹھا کر خود ڈرائیونگ سیٹ پر آیا
” میری سمجھ نہیں آتا تم جیسی ڈرپوک لڑکی جو اتنے کیوٹ سے ڈاگ سے ڈر جاتی ہو ، وہ میڈیکل کیسے کریگی ؟؟ ” وہ گاڑی سڑک پر نکالتے ہوئے بولا
” اب آپ اس بدمعاش کتے کو کیوٹ تو مت کہیں !! دیکھا نہیں کیسی خطرناک سرخ آنکھیں تھی اس کی ۔؟”سویرا نے شکوہ کیا
” سویرا !! ڈئیر یہ پالتو جانور ہوتے ہیں ویل ٹرینڈ ان سے ڈرنا نہیں چاہئیے اور یہ تو تمہیں جگہ جگہ ملینگے یہاں ہر دوسرے آدمی کے پاس ڈاگ یا کیٹ ہوتی ہے ۔۔۔” شہریار نے اسے سمجھایا
” اب ڈاگ کہنے سے کیا ہوتا ہے ؟؟ کتا تو کتا ہی ہوتا ہے نا اور کتوں کا کیا بھروسہ کب کانٹ لیں ۔۔” سویرا نے جھرجھری لی
” خیر میں کتوں پر رسرچ نہیں آیا تھا ویسے ۔۔۔۔۔” وہ بولتے بولتے رک کر سویرا کو دیکھنے لگا جو پوری توجہ سے اس کی بات سن رہی تھی
“اگر ہمارے بیٹے نے ڈاگ پالنا چاہا تو تم کیا کرو گی ۔۔۔۔؟؟”وہ شرارت سے بولا
شہریار کی بات سن کر سویرا کا چہرہ سرخ پڑ گیا تھا تھا۔ شہریار نے بغور اس کے چہرے پر بکھرتے رنگوں کو دیکھا اور ایک گہری سانس لی
” مسز شہریار !! اب تم مجھے بے خود ہونے پر مجبور کر رہی ہو ۔۔۔۔۔” وہ گھمبیر لہجے میں بولا
” آ۔۔ آپ بھی بس ۔۔۔۔” وہ سٹپٹا کر تیزی سے چہرہ جھکاتے ہوئے پیچھے ہوئی۔۔۔
_________
اس نے گھبراہٹ میں تیسری بار خود پر اچھی طرح سے سے کوٹ کو درست کیا اور چاروں طرف دیکھنے لگی یونیورسٹی آف ہو رہی تھی سب اسٹوڈنٹس آہستہ آہستہ باہر جارہے تھے وہ وہ بریڈلی کے ساتھ آئی تھی جو اس وقت ایک کونے پر اینا سےفون پر باتیں کرنے میں لگا ہوا تھا ۔اس نے ایک بار پھر پارکنگ میں شہریار کی گاڑی تلاش کرنا چاہی لیکن وہ ابھی تک نہیں پہنچا تھا ۔تبھی اس کی نظر دائیں ہاتھ پر کھڑے گھنے برگد کے درخت کے نیچے پڑیں اور اس کے چہرے پر خوف کی پرچھائیاں تیزی سے نمودار ہو گئیں ۔
شہریار پارکنگ میں پہنچ چکا تھا سویرا کے آنے سے پہلے اس کی زندگی ایک مشین کی طرح سے چل رہی تھی بس بزنس کی دنیا میں نام بنانا اپنا آپ منوانا یہی دھن سوار تھی کام کام اور کام !! لیکن سویرا اس کی زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی ثابت ہوئی تھی وہ پھر سے مسکرانے لگا تھا اس لڑکی کی چھوٹی چھوٹی حماقتیں اسے اچھی لگنی لگی تھیں ۔ اس نے گاڑی روک کر اطمینان سے اپنی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی اور دروازہ کھول کر باہر نکلا ۔۔۔۔
بائیں طرف درخت کے نیچے سرجھکائے کھڑی لڑکی پر اسے سویرا کا گمان ہوا اس نے آنکھیں سکیٹر کر بغور دیکھا ۔ وہ ابھی تک شہریار کا کوٹ پہنے ہوئے تھی ڈھیلا ڈھالا جو اس کے گھٹنوں سے بھی نیچے تک آرہا تھا ۔لمبی آستینیں فولڈ کی ہوئی تھی ۔ اس کے سر جھکا کر آنسو صاف کرنے پر اسے اندازہ ہوا کہ وہ رو رہی ہے وہ اختیار ہو کر تیزی سے اس کی سمت بڑھا
“کیا ہوا ہے ؟؟ کسی نے کچھ کہا ہے ؟؟ مجھے بتاؤ کیا بات ہے؟؟آخر تم رو کیوں رہی ہو ؟؟؟” وہ ماتھے پر تشویش سے بل ڈالے اسے دیکھنے لگا
“آپ !! آپ آگے ۔۔۔۔” سویرا نے اس کی آواز سن کر سر اٹھایا اس کی آنکھیں شہریار کو دیکھ کر چمک اٹھی تھیں
“تم یہاں اکیلی کیا کر رہی ہو ؟؟ ہو بریڈلی کدھر ہے۔۔۔” وہ اس کی نظروں میں خود کو دیکھ کر ابھرنے والی جگمگاہٹ نوٹ کرتے بولا
“وہ ادھر اینا سے فون پر بات کر رہا ہے !! اس نے کہا تھا یہیں ٹھہرو میں آتا ہوں لیکن آپ وہ سامنے دیکھئیے نہ نہ وہ وہ مجھے گھور رہا ہے ۔۔۔مم مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔” وہ سہم سی گئی
” کون ؟؟ کون گھور رہا ہے ؟؟ مجھے بتاؤ ابھی اس کا منھ توڑتا ہوں ۔۔۔” شہریار اسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے چاروں اطراف دیکھتے ہوئے بولا اس کے چہرے پر کرختگی سی چھا گئی تھی
” وہ ادھر دیکھیں درخت کے نیچے لال گاڑی کے پاس کتنا خطرناک کتا ہے ۔۔۔۔” سویرا نے کانپتے ہاتھوں سے ایک کتے کی طرف اشارہ کیا
“حد ہوتی ہے مسز !! کتے سے بھی کوئی ڈرتا ہے ؟؟دو منٹ کے لیے تو میں سیریس ہوں کے تمہیں گھورنے والے بندے کا قتل کرنے کا سوچ رہا تھا اور یہ بریڈلی بھی انتہائی بے وقوف اور غیر ذمہ دار آدمی ہے ہے اسے پتا بھی ہے کہ تم ایک نمبر کی عقل سے پیدل ہو پھر بھی تمہیں اکیلا چھوڑ گیا ۔۔۔”وہ بڑبڑاتے ہوئے سیل فون نکال کر بریڈلی کا نمبر ملانے لگا ۔
“کہاں ہو تم؟؟”
” شہریار برو !! میں نے آپ کو دیکھ لیا ہے بس ابھی آیا۔۔۔۔”
“اٹس اوکے !! میں نے سویرا کو پک کرلیا ہے اب وہ میرے ساتھ ہے۔ یو کیری آن ” شہریار نے اسے روکا
” اوکے برو !! ٹیک کئیر ۔۔۔۔” بریڈلی نے مسکراتے ہوئے فون بند کردیا
“چلو ۔۔۔” وہ فون بند کر کے سویرا کو ساتھ چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے آگے بڑھا
ابھی وہ دونوں چند قدم ہی آگے بڑھے تھے کہ وہ کتا تیزی سے دوڑتا ہوا سویرا کے پیروں کے قریب آیا اس کے منھ سے فلک شگاف چیخ نکلی وہ بری طرح ہراساں ہوگئی تھی
سویرا کی چیخ سن کر شہریار چونک کر تیزی سے پلٹا سامنے ہی سفید رنگ کا جرمن ڈاگ سویرا کے پیروں کے پاس کھڑا ہوا تھا اور سویرا بی بی آنکھیں سختی سے میچے تھر تھر کانپ رہی تھیں ۔ اس نے آگے بڑھ کر کتے کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور پھر سویرا کا کانپتا ہوا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں تھام کر تیزی سے آگے گاڑی کی جانب بڑھنے لگا ۔
سویرا جو اس کتے کو اپنے اتنے نزدیک دیکھ کر ڈر گئی تھی اپنے ہاتھوں پر شہریار کا لمس محسوس کرتے ہی پرسکون سی ہوگئی اور اپنے تیزی سے دھڑکتے ہوئے دل کو قابو کرنے لگی آنکھیں کھولنے کی ہمت اس میں ابھی بھی نہیں تھی کیا پتہ وہ کتا آس پاس ہی موجود ہو !! یہ سوچ ہی اس کا دل دہلانے کے لئیے کافی تھی
” سنو لڑکی !! اب تم آنکھیں کھول سکتی ہو ۔۔۔” شہریار نے گاڑی کے پاس آکر اس کا نازک ہاتھ اپنی گرفت سے آزاد کیا
” کک کتا ۔۔۔۔”
“واٹ ؟؟ تم مجھے کتا کہہ رہی ہو ؟؟ ” شہریار نے اسے گھورا
“نہیں نہیں ۔۔۔۔”سویرا نے گھبرا کر جھٹ سے اپنی آنکھیں کھولیں اور خود کو گاڑی کے پاس کتے سے دور محسوس کر کے ایک پرسکون سا سانس لیا
” چلو بیٹھو ۔۔۔۔” وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر اسے بٹھا کر خود ڈرائیونگ سیٹ پر آیا
” میری سمجھ نہیں آتا تم جیسی ڈرپوک لڑکی جو اتنے کیوٹ سے ڈاگ سے ڈر جاتی ہو ، وہ میڈیکل کیسے کریگی ؟؟ ” وہ گاڑی سڑک پر نکالتے ہوئے بولا
” اب آپ اس بدمعاش کتے کو کیوٹ تو مت کہیں !! دیکھا نہیں کیسی خطرناک سرخ آنکھیں تھی اس کی ۔؟”سویرا نے شکوہ کیا
” سویرا !! ڈئیر یہ پالتو جانور ہوتے ہیں ویل ٹرینڈ ان سے ڈرنا نہیں چاہئیے اور یہ تو تمہیں جگہ جگہ ملینگے یہاں ہر دوسرے آدمی کے پاس ڈاگ یا کیٹ ہوتی ہے ۔۔۔” شہریار نے اسے سمجھایا
” اب ڈاگ کہنے سے کیا ہوتا ہے ؟؟ کتا تو کتا ہی ہوتا ہے نا اور کتوں کا کیا بھروسہ کب کانٹ لیں ۔۔” سویرا نے جھرجھری لی
” خیر میں کتوں پر رسرچ نہیں آیا تھا ویسے ۔۔۔۔۔” وہ بولتے بولتے رک کر سویرا کو دیکھنے لگا جو پوری توجہ سے اس کی بات سن رہی تھی
“اگر ہمارے بیٹے نے ڈاگ پالنا چاہا تو تم کیا کرو گی ۔۔۔۔؟؟”وہ شرارت سے بولا
شہریار کی بات سن کر سویرا کا چہرہ سرخ پڑ گیا تھا تھا۔ شہریار نے بغور اس کے چہرے پر بکھرتے رنگوں کو دیکھا اور ایک گہری سانس لی
” مسز شہریار !! اب تم مجھے بے خود ہونے پر مجبور کر رہی ہو ۔۔۔۔۔” وہ گھمبیر لہجے میں بولا
” آ۔۔ آپ بھی بس ۔۔۔۔” وہ سٹپٹا کر تیزی سے چہرہ جھکاتے ہوئے پیچھے ہوئی
************
رات بہت گہری ہو چکی تھی وہ شہر سے ابھی ابھی واپس آیا تھا تھا اس نے گھڑی میں ٹائم دیکھا رات کا ایک بج رہا تھا گاؤں میں اتنی دیر تک بھلا لوگ کب جاگتے تھے لیکن آج کل سب بڑوں کے لندن جانے کی وجہ سے گھر میں خاصا سکون تھا اور شاہ بی بی وہ تو ان دونوں کو خوش دیکھ کر ہی بہت خوش تھیں وہ سیدھا اپنے کمرے کی طرف بڑھا نیلگوں روشنی پورے کمرے کو اپنے سحر میں جکڑے ہوئی تھی سامنے ہی بیڈ پر رخسار گردن تک چادر اوڑھے سو رہی تھی اس نے ایک گہری نگاہ سوئی ہوئی رخسار پر ڈالی اور الماری میں ٹنگا اپنا آرام دہ لباس نکال کر باتھ روم میں گھس گیا ۔۔۔
فریش ہو کر وہ باہر نکلا رخسار ہنوز گہری نیند سو رہی تھی۔۔۔
” رخسار !! ” اکرام نے اسے آواز دی
” تم نے میرا انتظار بھی نہیں کیا اور سو گئی ۔۔۔” اس نے رخسار کی نیند سے بھری آنکھوں میں خفگی سے جھانکا
” آپ اگئے۔۔۔۔” رخسار نے دیوار پر نصب گھڑی پر نظر ڈالی
” جی جناب مابدولت آ گئے ہیں اب اٹھو مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے ۔۔۔” اکرام نے ہاتھ پکڑ کر اسے بٹھایا
” آپ بیٹھیں میں آپ کے لئیے کھانا گرم کرکے لاتی ہوں ۔۔۔” رخسار کو اچانک اس کی بھوک کا احساس ہوا
” بیگم سب فکریں چھوڑو اور یہ دیکھو ۔۔۔۔” اکرام نے سائیڈ میز پر سے لفافہ اٹھا کر اس کے ہاتھ میں تھمایا
” یہ کیا ہے ؟؟ ” رخسار نے لفافہ کو الٹ پلٹ کر دیکھا
” کھول کر دیکھو ۔۔۔۔” اکرام نے پیار سے کہا
رخسار نے لفافہ کی سیل کھولی اندر سے دو پلین کے ٹکٹ نکل کر اس کی جھولی میں آگرے
” سوئٹزرلینڈ ؟؟؟ ” وہ حیرت سے ٹکٹس کو دیکھ رہی تھی
” جی جناب اب اٹھو کل دوپہر کی فلائٹ ہے ساری پیکنگ کرنی ہے ہم پورا ایک ماہ اپنا ہنی مون منائیں گے ۔۔۔۔” اکرام مسکرایا
” لیکن پھپھو !! انہیں شاید اچھا نہیں لگے گا ۔۔۔۔” رخسار نے خدشہ ظاہر کیا
” امی کو بتا کون رہا ہے ؟؟ ۔۔۔” اکرام نے جلدی سے کہا
” مگر !! ” رخسار نے کچھ کہنا چاہا
” رخسار !! امی کی وجہ سے میں تمہیں آج تک کہیں باہر لے کر نہیں جاسکا لیکن اب جب تک وہ واپس نہیں آتیں ہم بھی کھل کر انجوائے کرینگے ۔۔۔۔” وہ اس کے ہاتھ تھامتے ہوئے بولا
” اور شاہ بی بی ۔۔۔۔” رخسار نے سر اٹھایا
” شاہ بی بی کو سب پتہ ہے بلکہ انہوں نے ہی یہ آئیڈیا دیا ہے میں نے ادھر تمہارے لئیے گائنا کالوجسٹ سے بھی اپوائنٹمنٹ لے لیا ہے بس اب تم ہنی مون پر چلنے کی کرو ۔۔۔” اس نے حکمیہ انداز اپنایا
” اللہ اللہ شادی کے چار سال بعد ہنی مون کتنا عجیب لگتا ہے ۔۔۔۔” رخسار شرمندگی سے بولی
اکرام نے غور سے نازک سی رخسار کو دیکھا جو آج بھی اس کا دل دھڑکا دیتی تھی خوبصورتی معصومیت اور سادہ طبیعت کی رخسار ۔۔۔
اگلی دوپہر وہ دونوں شاہ بی بی کی دعاؤں کے سائے میں ائیر پورٹ کیلیئے روانہ ہوئے ۔سوئیٹزرلینڈ پہنچ کر اکرام نے رخسار کی بات شہریار سے کروائی ۔اس کا یہ پورا ٹرپ پلانڈ تھا بس فرزانہ کو ہی بےخبر رکھا گیا تھا ۔
وہ دونوں ہفتے میں ایک بار بمشکل فرازنہ سے بات کررہے تھے البتہ شاہ بی بی کو روز ہی فون کرکے ڈھیروں باتیں کی جاتیں تھیں ۔۔