وہ بے حد تھک چکی تھی اس وجہ سے اسکی آنکھ لگ گئ تھی پر اچانک اس شخص کا آکر اسے ایسے اٹھانا اسکے تمام حواس جھنجھوڑ گیا تھا۔
وہ اسکو سنا کر کمرے سے واپس نکل گیا تھا۔ میرب کو اپنا سر دکھتا ہوا محسوس ہوا۔ اسنے جو تھپڑ اسکے چہرے پہ مارا تھا۔ وہ اسکے حواس جھنجھنا گیا تھا۔ وہ ہمت کرتی کمرے سے باہر آئ حویلی میں ملازموں کے علاوہ کوئ موجود نہیں تھا۔
اس وقت شام کے پانچ بج رہے تھے۔ وہ ننگے پیر چلتی ہوئ حویلی کے مین دروازے سے نکل کر باہر بنے برآمدے میں آئ تھی۔
اماں جان وہیں بیٹھی تھیں ، وہ انکے پاس جا کر سلام کرتی تخت پہ بیٹھی۔ تو وہ اسے دیکھ نرمی سے مسکرائ تھیں۔ ” وعلیکم اسلام “۔ انہوں نے شفقت سے کہا۔
” آرام کرکے اب کچھ بہتر لگ رہا ہوگا ناں تمہیں”۔ انہوں نے نرمی سے کہا۔
” جی پر سر میں درد ہو رہا ہے”۔ وہ دھیمی سے آواز میں کہتی اماں جان کو بڑی پیاری لگی تھی۔
” شنو جا جاکر بچی کے لیئے کھانا لا ، اور پھر اچھی سی چائے چڑھا ہم دونوں کے لیئے ، اور تم آؤ ادھر دم ڈال دوں ابھی غائب ہوجائے گا سر درد”۔ انہوں نے اسے اپنے قریب بیٹھنے کو کہا۔ وہ ذرا سی کھسک کر اماں کے پاس ہوئ اماں نے دم ڈالنا شروع کیا اسکا سر شدید درد کر رہا تھا۔ کافی دیر خاموشی کے بعد اماں کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔
” جانتی ہوں بہروز آیا تھا ، اور شاید اسنے تم سے بد تمیزی بھی کی ہو ، پر تم صبر سے کام لینا دیکھنا بہت جلد وہ تمہارے صبر کے آگے ہار جائے گا”۔ اماں نے اسکے سر کو دباتے کہا۔ دم شاید وہ ڈال چکی تھیں۔
” اماں جی ہر چیز پہ ہم عورتیں ہی کیوں صبر کریں”۔ اسکے لہجہ کی تلخی محسوس کرتیں وہ دھیرے سے مسکرائ تھیں۔
” اگر صبر نہیں کروگی تو کبھی خوشیاں نہیں آپائیں گی تمہارے قریب تم جانتی ہو سکھ ہمیشہ ڈھیروں آزمائش کے بعد ملتا ہے پھر وہ چاہے مرد ہو یا عورت دونوں کو آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے”۔ انہوں نے نرمی سے کہا۔ میرب نے جھٹ آنکھیں کھول کر انہیں تکا۔
” پر میں نے مرد کو آزمائشوں میں گھرا نہیں دیکھا”۔ وہ سنجیدگی سے بولی۔
” پگلی۔۔۔ !! یہ جو بہروز جس دور سے گزر رہا ہے یہ اسکی بھی تو آزمائش ہے ، اسنے اپنا بھائی کھویا ہے، یہ جو آگ اسکے سینے میں جل رہی ہے ناں یہ ہی سب سے بڑی آزمائش ہے ، اور سب سے بڑی بات تم دونوں کا رشتہ بہت پیارا ہے بس اگر تم دونوں وقت پہ سمجھ جاؤ “۔ انہوں نے اسکے گال پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔
” کیا ضمانت ہے اس بات کی کہ وہ میرے صبر کے آگے ہار جائے گا”۔ اسنے انہیں تکتے نرمی سے پوچھا۔
” میں ضمانت ہوں ، میں یہ بات دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ وہ تمہارے صبر کے آگے ہار جائے گا”۔ انہوں نے شفقت سے اسکے ماتھے پہ بوسہ لیا۔
” مجھے لگتا تو نہیں پر پھر بھی کوشش کرونگی”۔ اسنے آنکھیں مٹکا کر کہا۔
” صبر کوشش سے نہیں کیا جاتا جب صبر کیا جاتا ہے تو بس صبر ہی ہوتا ہے پھر اسکو کرنے کے لیئے کوشش نہیں کرنی پڑتی”۔ وہ نرمی سے بولیں۔
” ہمم سہی میں صبر کرونگی “۔ اسنے نظریں جھکا کر کہا۔ شنو اسکے لیئے کھانا لائی اسنے کھانا کھایا اتنے میں چائے بھی تیار ہوچکی تھی وہ چائے لے کر آئی۔
اسنے اور اماں نے چائے پی پھر اسکو ایک سر درد کی گولی دی پھر وہ دیر اماں جی کے ساتھ ہی رہی اور رات آٹھ بجے اماں نے اسے اسکے کمرے میں بھیج دیا۔ وہ من من بھر کے ہوتے قدم لیئے کمرے میں جیسے ہی گھسی وہ سامنے بیڈ پہ ایک شان سے پڑا نجانے کس سے موبائل کان سے لگائے ہم کلام تھا۔ اسکو دیکھ اسنے کال کاٹی تھی اسکی آنکھوں میں چھپی نفرت دیکھ اسکے پیر کانپنے تھے۔
” وہاں کیا کھڑی ہو کیا پتھر کا مجسمہ بن گئی ہو ، یہاں آؤ”۔ اسنے سرد بے تاثر لہجہ میں اسے اپنی طرف آنے کو کہا۔
” ج۔۔جی”۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی جیسے ہی اسکے پاس آئی۔ اسنے اسے ہاتھ سے کھینچ کر بیڈ پہ گرایا تھا۔ وہ یکدم اسکی آغوش میں آگری تھی۔ وہ اس وقت برے سے برے رویے کی امید کر رہی تھی پر یہ کیا خوف سے اسکے پیر کانپ اٹھے تھے۔ اسنے اٹھنا چاہا کہ یکدم وہ کروٹ لے کر اسپہ مکمل طور پر جھکا۔
” راہ فرار ممکن نہیں “۔ اسنے سخت انگلیاں اسکے چہرے پہ پھیرتے کہا۔ میرب کا سانس اٹکا تھا۔
” مجھے۔۔۔ پتہ تھا ۔۔۔۔مجھے دیکھ تم یونہی پل میں پگھل جاؤ گے”۔ وہ تمسخر سے گویا ہوئ۔
” ہاں تمہیں تو ویسے بھی بڑا تجربہ ہے ناں مردوں کو پل میں پگھلانے کا”۔ اسنے بھی سیدھا خنجر سے وار کیا تھا۔ ” میرے بارے میں ایسے الفاظ نا استعمال کریں”۔ وہ اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتی اسے خود سے دور کرنے کے جتن کرنے لگی تھی کہ وہ یکدم اسپہ مزید حاوی ہوا تھا۔ دونوں کے وجود ایک دوسرے سے مکمل طور پہ جڑے پڑے تھے۔
” میرا دل جیسے الفاظ استعمال کرنے کو کرے گا میں کرونگا اور تم ہوتی کون ہو مجھے یہ بتانے والی کہ میں تمہارے لیئے کیسے الفاظ استعمال کروں ، تم ایک قاتل کی بیٹی ہو ، اور تم یہاں اپنے باپ کے جرم کی سزا کاٹنے آئ ہو ، یہ انداز یہ کانفیڈینس تم پہ سوٹ نہیں کرتا”۔ وہ اسکے بالوں کو اپنی مٹھی میں قید کرتا اپنے لہجہ میں ڈھیروں نفرت سموئے گویا ہوا۔
” بیوی ہوں آپکی ، عزت کی مستحق ہوں”۔ نم لہجہ میں کہا گیا۔
” اچھا اتنی ہی عزت دار ہو اور عزت کی مستحق ہو تو بتاؤ اس دن ان کھیتوں میں کیا کر رہی تھیں”۔ وہ اسکا چہرہ دبوچ کر غرایا۔ ” میں نے اس دن بتایا تو تھا کہ میں آپلے لینے گئی تھی”۔ وہ نم لہجہ میں گویا ہوئی۔
” اچھا اور آپلے لینے کے بہانے اپنے کس عاشق سے ملاقات کرکے آرہی تھیں”۔ اب کے اس کا لہجہ حد سے زیادہ تضحیک آمیز تھا۔
” دور ہٹیں “۔ وہ یکدم اسے دھکا دے کر اٹھی تھی وہ بھیگی بلی سے یکدم خونخوار شیرنی بن گئ تھی۔ وہ اسکے خونخوار ہونے پہ تمسخر سے ہنسا تھا۔
” جس میں خامی ہو وہ یونہی بھڑکتا ہے”۔ وہ بیڈ کی دوسری سائڈ پہ ہوتا طنزاً ہنسا تھا۔
” آپ جیسا انسان جسکی سوچ اس حد تک گری ہوئ ہو میں نے آج تک نہیں دیکھا”۔ وہ حقارت سے کہتی اسے سلگا گئ تھی۔
” میں کتنا گرا ہوا انسان اس کا اندازہ تمہیں بہت جلد ہوجائے گا ، زیادہ میرے منہ لگنے کی ضرورت نہیں”۔ سیگریٹ کو لائٹر سے جلا کر ایک کش لیتے کہا۔
” مجھے اچھے سے معلوم پڑ چکا ہے کہ آپ کیسے مرد ہو”۔ وہ ماتھے پہ لاتعداد تیوریاں سجائے کہتی لیٹنے لگی تھی کہ اسکے الفاظ سن کر اسنے اسے دیکھا۔
” یہاں سونے کی ضرورت نہیں اپنے مرنے کا بندوبست کہیں اور کرلو”۔ وہ بد تمیزی کی تمام حدود پار کر گیا تھا۔
” میں تو یہیں سوؤں گی بیوی ہوں آپکی”۔ وہ جیسے سلگی۔
” اچھا بیوی ہو ٹھیک ہے پھر حقوق ادا کرو میرے”۔ اسنے اسے ستانے کو کہا۔
” سوچنا بھی مت ایسا کچھ آپ جیسے انسان کے ساتھ میں کوئی تعلق کبھی نہیں بناؤں گی”۔ وہ آنکھوں میں ڈھیروں نفرت و حقارت لیئے بھڑکی۔
” سمجھ کیا رکھا تم نے مجھے شاید تم نے ابھی ٹھیک سے مجھے پہچانا نہیں میں چوہدری بہروز ہوں ، میرے ساتھ اس انداز میں بات کرنے کی ہمت کوئ نہیں رکھتا اور جو رکھتا ہے ناں میں اسکی ہمت توڑ دیتا ہوں”۔ وہ اسے کھینچ کر اپنی طرف سرکا گیا تھا۔ جس وحشی انداز میں اسنے اسے اپنی گرفت میں جکڑا تھا وہ تڑپ کر ہی تو رہ گئی تھی۔ اسنے اسکی مضبوط گرفت سے خود کو نکالنا چاہا پر ناممکن سی بات تھی۔
“چھوڑو مجھے”۔ اسنے اسکی انگلیوں کی جنبش کو اپنے وجود پہ ہوتا محسوس کرکے سسک کر کہا۔
اور پھر وہ ہوا جو شاید ہونا تو چاہیئے تھا پر ایسے نہیں۔۔ بہروز نے اسکا لباس ایسے نوچ کر اس سے الگ کیا تھا۔ کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر روپڑی تھی۔
” بہروز نہیں”۔ اسنے یکدم سر نفی میں ہلایا۔ بہروز نے گہری نظروں سے اسے تکا۔
” کیوں نہیں ہاں”۔ اسنے اسکے چہرے پہ انگلی پھیر کر کہا۔
” پلیز دور ہٹیں”۔ وہ گہرے سانس لیتی روندھی ہوئ آواز میں بولی۔
بہروز تمسخر سے ہنستا اسکے لبوں پہ اپنا مضبوط ہاتھ جماتا اپنا حق وصول کر گیا تھا۔
کچھ دیر بعد نیم اندھیرے کمرے میں اسکی سسکیاں گونجنے لگی تھیں، وہ جو ابھی اسکو ریزہ ریزہ کرکے پیچھے ہٹا تھا۔ اسکے رونے کی آواز جب اسکے کانوں میں پڑی تو اپنے کیئے پہ شرمندہ ہونے کے با وجود بیزار سے لہجہ میں گویا ہوا۔
” بند کرو یہ رونا دھونا ایسا بھی کوئ ظلم نہیں کیا جو رونا ہی بند نہیں ہورہا”۔ وہ کروٹ بدل گیا۔
وہ اسکے روکنے پہ بھی نا رکی ساری رات اسکی روتے روتے گزری صبح کی روشنی لگنے سے پہلے ہی وہ اپنی حالت درست کرکے کمرے سے نکل چکی تھی۔ جیسے ہی مولوی نے اذان دی دھیرے دھیرے حویلی میں چہل پہل ہونے لگی۔ میرب نے جلدی جلدی نماز پڑھی اور جب دعا کے لیئے ہاتھ اٹھائے تو انسوؤں اور سسکیوں کے سوا کچھ نا تھا۔
اماں جی بھی اٹھ چکی تھیں ، وہ انکے پاس آکر بیٹھی تھی ۔ یکدم بہروز کے والد نماز پڑھ کر جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے اور اسے دیکھ کر جو بے عزتی انہوں نے اسکی کی ، وہ رات کو کی گئ انکے بیٹے کی کی گئ زیادتی کو بھی پیچھے چھوڑ گئ تھی۔ صبح صبح حویلی کی دیواریں انکی دھاڑ سے کانپ اٹھی تھیں۔ وہ ظالم بھی نیند سے بھری آنکھیں لیئے جیسے ہی جدید طرز کے بنے لاؤنج میں آیا تو میرب سر جھکا کر رو رہی تھی اور اسکے ابا اسکے سر پہ کھڑے اسے نجانے کیا کچھ کہہ رہے تھے۔ اسے برا لگا۔ پر اسنے کچھ نا کہا۔ خاموش رہا۔ نظر ایک بار پھر اسکے کملائے چہرے پہ پڑی تو وہ محض لب بھینچ گیا۔ پر جب ابا نے اسکے کردار پر بولنا شروع کیا تو اسکی برداشت بلکل ختم ہونے لگی تھی، اسکے دماغ کی رگیں غصہ سے تن گئ تھیں۔ وہ یکدم بھڑکا۔
” ابا میری بیوی کے بارے میں ایسے الفاظ آپ کیسے استعمال کر سکتے ہیں”۔ وہ مشتعل ہوا۔
” بیوی نہیں ہے تمہاری یہ ونی ہے”۔ ابا چیخے۔
” ابا غلط بات نا کریں نکاح کرکے لایا ہوں”۔ وہ جیسے بھپرا۔
” ہاں نکاح بے شک کیا ہو پر اسکی حیثیت ہماری ملازمہ سے بھی کم ہے”۔ وہ بھی بھڑکے تھے۔
میرب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی اماں جی نے یکدم اسے اپنے سینے میں بھینچا تو وہ مزید سسک اٹھی۔
ابا تن فن کرتے وہاں سے جاچکے تھے اور وہ سامنے کھڑا ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ کھڑا اب اسے غصہ سے گھور رہا تھا۔ یکدم وہ آگے بڑھا بغیر اماں جی کا لحاظ کیئے اسے کلائی سے تھامتا گھسیٹتا ہوا کمرے میں لیکر آیا تھا۔ ایک جھٹکے سے اسے بیڈ پہ لاکر پھینکا تو وہ یکدم سیدھی ہوکر بیٹھی۔
” آئیندہ سے جب تک ابا گھر پہ ہوں کمرے سے نا نکلنا”۔ اسنے کمرے میں طیش کے عالم میں چکر کاٹتے کہا۔
” ایسا غلط کچھ انہوں نے بھی نہیں کہا جو آپ نے کیا وہ اس سے زیادہ توہین آمیز تھا”۔
وہ اسکے مقابل کھڑی ہوتی نم لہجہ میں گویا ہوئ۔
” بکواس بند کرو”۔ وہ نظریں چرا کر بولا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...