نظر اچانک بستر سے ملحق دراز پر پڑی تو اپنی ڈائری کو دیکھ کر عنابی لب مسکرا اٹھے ، تو گویا روحیل کی جان ڈائری کا مطالعہ فرما چکی ہے یا پھر سونے سے قبل فرماتی رہی ہے ، روحیل نے متجسس ہو کر ڈائری کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔۔ ڈائری کے بیچ میں اٹکا قلم کھسک کر نیچے گرنے لگا جسے روحیل نے بروقت اپنے دوسرے ہاتھ سے تھام لیا ۔۔۔
ڈائری کھولی تو نئی تحریر دیکھ کر حیرت کا دوسرا بڑا جھٹکا لگا۔۔۔
مدھم روشنی میں تحریر واضح نہ ہونے پر صوفے کی جانب بڑھ گیا اور میز پر پڑا فون اٹھا کر اسکی ٹورچ آن کر لی۔۔۔
ڈائری میں موجود زینہ کی تحریر نے روحیل کے اندر کھلبلی مچا دی ، جی چاہا زور زور سے چلائے ، اچھل کود کرکے سب کو بتا دے کہ زینہ نے اقرار محبت کر لیا ہے ۔۔ زینہ اب میری اور صرف میری ہے۔۔
زینہ نے روحیل ارشاد کو من و عن قبول کر لیا ہے ۔۔۔ روحیل بار بار زینہ کے تحریر کردہ جملوں کو پڑھتا اور اکیلا مسکراتا جا رہا تھا۔۔۔ دلفریب مسکراہٹ عنابی ہونٹوں پر ڈیرہ جمانے لگی۔ زینہ میں تو کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ میری واپسی پر مجھے اس قدر خوبصورت انعام ملنے والا ہے ۔۔۔
تو گویا زینہ جی تم نے میرے جانے کے فوراً بعد ہی اقرار محبت کر لیا تھا مگر مجھ دل جلے کو آج خبر ہو رہی ہے ، خیر کوئی بات نہیں ہے ، تمہارا بھی کوئی قصور نہیں ہے ،تمہیں تقدیر نے موقع ہی نہیں دیا ہے۔۔ماسی کی اچانک موت نے تمہارے ارمانوں کو سلا دیا ہے۔ روحیل نے فون کی ٹورچ بند کی ، اور ڈائری بند کرکے بستر کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔
زینہ ہنوز گہری نیند میں تھی۔۔
روحیل نے چند لمحے کھڑے ہو کر سوچا پھر بستر کے دوسری جانب بڑھ گیا۔
دھیرے سے کمبل کا ایک کونا کھینچ کر سیدھا کیا اور اپنے اوپر اوڑھ لیا ، کروٹ بدلی اور لیٹے لیٹے اپنی محبوب ہستی کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگا ۔۔
بہتر ہے محبوبہ کو نہ چھیڑا جائے وگرنہ نتائج خطرناک بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔۔
زینہ نے مدہوشی میں ہی کروٹ بدلی اور چہرہ بستر کی دوسری جانب موڑ لیا ، ریشمی زلفیں پونی کی قید سے آزاد ہو کر بکھرنے لگیں۔
روحیل کامیاب عاشق بن گیا ہے مگر تیرے امتحانات کا سلسلہ شاید طوالت اختیار کر جائے ، لہذا محبوبہ کی زلفیں سنوارنے کے بجائے شرافت سے صبر کا گھونٹ پی اور سو جا۔۔۔ ہائے اس وقت نیند کس ظالم کو آئے گی۔؟؟روحیل نے دل میں سوچا اور بستر کے ایک کونے میں لیٹے لیٹے چار وناچار آنکھیں موند لیں۔۔۔
*****************************************
فجر کی اذان زینہ کو گہری نیند سے بیدار کر گئی ، فوراً بستر پر اٹھ کر بیٹھ گئی ، بکھرے بالوں کو ہاتھوں سے سنوار کر دوبارہ پونی میں جکڑا اور غسل خانے میں گھس گئی۔سنگ مرمر کے فرش پر گیلے پاؤں کے نشانات حیرت میں مبتلا کر گئے ، لگتا ہے کسی نے میرا غسل خانہ استعمال کیا ہے۔
شاید میرے سوتے ہوئے پھپھو آئی ہوں۔؟ رات کو خاص طور پر تنبیہ کر کے گئیں تھیں کہ کمرے کی کنڈی نہیں چڑھانی ہے۔۔
وہی آئی ہوں گی پر روحیل کی شرٹ ٹوکری میں کیسے آن پہنچی ہے۔؟ جبکہ کل ہی میں نے میلے کپڑوں کی ٹوکری خالی کی ہے ۔۔
وضو سے فراغت کے بعد تمام شبہات کو جھٹک کر کونے میں مصلی بچھا کر خشوع وخضوع سے عبادت میں محو ہو گئی۔۔۔
سلام پھیر کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لیے ، آنسوؤں کی لڑیاں بنا کسی روک ٹوک کے گال بھگونے لگیں۔۔
پرزور کوشش کے باوجود بھی ہچکی بندھ گئی۔۔۔
اسی دوران کمرے کا دروازہ کھلا اور روحیل کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔
زینہ نے فوراً پلٹ کر دیکھا تو دیکھتی رہ گئی۔ سفید کرتا شلوار میں سر پر سفید ٹوپی سجائے دروازے سے متوازن چال چلتا خوبرو روحیل زینہ کی طرف بڑھنے لگا۔۔زینہ کی پانیوں سے لبریز آنکھیں پتھرا گئیں ، آنکھوں کو مسلا اور ایک منٹ کے تاخیر کیے بنا مسکراتے روحیل کی طرف دوڑ لگا دی۔۔
روحیل آپ کب آئے ہیں۔؟؟؟ آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا۔؟؟ روحیل کے ساتھ لپٹی زینہ باتوں کے ساتھ رونے کا شغل بھی پورا کر رہی تھی۔۔۔
زینہ میری جان حوصلہ۔!! میں رات بارہ بجے سے گھر پہنچ چکا تھا ۔روحیل نے بڑی چادر میں لپٹی زینہ کو اپنے حصار میں بھینچا اور سر پر بوسہ دیا ۔۔
زینہ چلو آؤ ادھر آرام سے بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ روحیل نے زینہ کو اپنے ساتھ لپٹائے صوفے پر بٹھایا اور خود بھی ساتھ بیٹھ گیا۔۔
زینہ۔!!
جی۔!
میری طرف دیکھو۔!
روتی زینہ نے فوراً آنسوؤں سے لبریز آنکھوں کو اوپر اٹھایا تو روحیل نے اس کے ہاتھ اپنے لبوں سے لگا لیے ۔
زینہ مجھے ماسی امی کے اچانک چلے جانے پر بہت افسوس ہے مگر انہیں اتنی ہی سانسوں کی مہلت ملی تھی۔ مجھے پتا ہے اپنوں کو اچانک کھو دینا بہت مشکل ہے مگر تم صبر کے معنی مجھ سے زیادہ سمجھتی ہو۔!
روحیل مجھے امی کی آپ کے ساتھ الوداعی ملاقات بہت یاد آتی ہے اور امی کی وہ تمام باتیں جو وہ آپ اور ویرے سے کرتیں تھیں۔
روحیل آپ کو پتا ہے امی ہر وقت مجھے نصحیتیں ہی کرتی رہتیں تھیں ، اب مجھے کون سمجھائے گا ۔؟ کون بتائے گا ۔؟؟؟ زینہ نے ہچکیوں میں اپنا دل کھول کر روحیل کے سامنے رکھ دیا۔۔۔
جتنا رونا ہے رو لو۔! اب میں آ گیا ہوں ،خود کو تنہا نہ سمجھنا۔! تمہارے شوہر کا مضبوط کندھا حاضر ہے۔ روحیل نے روتی زینہ کو اپنے مضبوط حصار میں لے کر ہمت بندھائی۔۔۔
زینہ جب خوب رو چکی تو روحیل سے الگ ہو کر فوراً شکوہ کنائی پر اتر آئی۔۔
آپ نے مجھے رات گھر واپسی پر نیند سے اٹھایا کیوں نہیں ہے ۔؟؟ اور آپ کہاں پر سوئے تھے۔؟؟
زینہ مجھے اچھا نہیں لگا کہ تمہارے آرام میں مخل ہوں۔اور میں سویا بھی اسی کمرے اور اسی بستر پر تھا۔۔!!
ہائے اللہ۔! آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا تھا۔؟
تمہیں بتا کر بھگانا نہیں چاہتا تھا ، سوچا شاید تم نیند سے اچانک بیدار ہو کر ڈر نہ جاؤ۔!
تمہیں میرے ساتھ مانوس ہونے میں وقت لگے گا اسی لیے خاموشی سے اپنے کونے میں پڑے پڑے ایک گھنٹہ گھڑیال کی ٹک ٹک سن کر آخرکار نیند میرے اوپر بھی مہربان ہو گئی تھی۔۔۔
تمہارے اٹھنے سے قبل ہی وضو کر کے مسجد کے لیے نکل گیا تھا۔۔
میں اتنی گہری نیند میں تھی کہ میری آنکھ ہی نہیں کھل پائی۔۔۔
خیر چھوڑیں آپ نے کچھ کھانا ہے ۔؟؟ ناشتہ لے آؤں۔؟؟ رات کو بھی ایسے ہی سو گئے تھے۔۔
آپ نے رات کو کچھ کھایا تھا۔؟؟
نہیں کھایا تو نہیں تھا مگر پیا ضرور تھا ۔!
کیا۔؟؟
روحیل نے ڈائری کی طرف اشارہ کیا۔
یا اللہ۔! زینہ نے چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا۔۔
گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے زینہ۔! میں نے اپنی بیوی کا اظہار محبت پڑھ کر فوراً پی لیا تھا لہٰذا اب رات گئی بات گئی والی بات سمجھو ، اور شرماؤ نہیں ۔!!
چہرے سے ہاتھ ہٹاؤ۔۔! روحیل نے سنجیدگی سے زینہ کو دھیمے لہجے میں بولا۔۔
معافی چاہتی ہوں روحیل جیسے میں چاہتی تھی ویسے آپکا استقبال نہیں کر پائی ہوں۔۔!
زینہ مجھے رتی برابر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ تمہاری امی انتقال کر گئیں ہیں اور یہ آزمائش معمولی نہیں ہے۔۔
مجھے تو بس اسی بات کی بےانتہا خوشی ہے کہ مجھے میری کھوئی ہوئی محبوبہ مل گئی ہے ۔۔
مجھے تمہارے اقرار کا طریقہ کار بہت بھایا ہے ۔۔
اور میرے خیال میں ہم دونوں کے حق میں بہتر ہوا ہے ۔۔۔
جی ۔! زینہ نے جھکی گردن سے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔۔
ماسی کے بارے میں بتاؤ۔! جس دن انکا انتقال ہوا ہے اس دن انہوں نے کوئی خاص بات کی تھی۔؟؟زینہ کی خجالت مٹانے کے لیے روحیل نے فوراً بات کو بدلا۔
کچھ خاص نہیں بس معمول کے مطابق سب کچھ تھا ، ہاں البتہ آپ دونوں بھائیوں کو فجر کے بعد بہت یاد کر رہیں تھیں اور دعائیں دے رہیں تھیں۔۔۔
تم نے انکا خیال ٹھیک سے رکھتی رہی تھی زینہ۔؟؟
جی۔! میں تو دن میں تقریباً ہر گھنٹے بعد انہیں جاکر دیکھتی تھی ، جب خود مصروف ہوتی تھی تو شریفاں خالہ کو بھیج دیتی تھی۔۔ میں نے انہیں تنہائی محسوس نہیں ہونے دی روحیل۔!!!
روحیل خاموشی اور سنجیدگی سے زینہ کو باتوں کو سن رہا تھا۔۔۔
زینہ کی بات مکمل ہوتے ہی روحیل نے کچھ دیر خاموشی اختیار کی پھر گویا ہوا ۔
زینہ تمہیں جیمی تنگ کرتا رہا ہے۔؟؟
ججججی۔؟ زینہ نے تڑپ کر چور نظروں سے دیکھا۔۔
آپ کو کس نے بتایا ہے ۔؟؟
اسی کمینے نے بتایا ہے۔؟؟
کیا بتایا ہے۔؟؟ زینہ ہچکچائی۔۔
یہی جو وہ تمہارے ساتھ کر کے گیا ہے۔! اور تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا تھا۔؟ روحیل نے بھنویں اچکا کر پوچھا۔
ووووووووہ روحیل میں نہیں چاہتی تھی کہ آپ کو پردیس میں پریشان کروں۔
اور خود تم اکیلی پریشان ہوتی رہی ہو۔؟
میرا کیا ہے روحیل مجھے تو آپ نے بھی کافی پریشان کیا تھا ۔نا چاہتے ہوئے بھی زینہ کی زبان سے شکوہ پھسل گیا۔۔۔
روحیل نے مسکرا کر اس شکوہ کناں ہستی کو اپنے ساتھ لپٹا لیا۔۔
اب تو نہیں نا کرتا تنگ ۔؟؟ اگر کرتا ہوں تو بتا دو ۔!
نہیں ابھی نہیں تنگ کرتے ہیں ۔! اور اگر کبھی کیا تو میں روٹھ جاؤں گی۔! زینہ روحیل کے حصار سے نکل کر سامنے بستر پر ٹک گئی۔۔۔
زینہ اس کمینے جیمی کی طرف سے معافی قبول کرو ، وہ جان بوجھ کر تمام حرکتیں کر رہا تھا جو کہ اسے زیب نہیں دیتی ہیں ، یا پھر شاید میرے کیے کی سزا میری معصوم سی بیوی کو بھگتنی پڑ گئی تھی۔۔
تمہارے بارے میں پتا ہے کیا بول رہا تھا۔؟؟
کیا ۔؟؟ روحیل بھیا بھابھی دیکھی تو نہیں ہے مگر بھابھی کا انداز بیان بہت ترش ہے۔ بولتی ہے تو مخاطب کا خون خشک کر دیتی ہے۔۔!
ابھی اس نے سنا ہی کیا تھا۔؟ اسے تو میں دو چار تھپڑ لگانے کا سوچ چکی تھی وہ تو خوش قسمتی سے پھپھو نے بروقت اسکی سیوہ کر دی تھی وگرنہ اس دن میرے ہاتھوں پٹ جاتا ۔۔ ! زینہ رونا بھول کر جیمی کے ذکر پر دانت پیس کر رہ گئی۔۔۔
روحیل نے زینہ کے جواب پر مسکراہٹ دبائی۔
اصل میں اسے نئی نئی سرگرمیوں کا شوق ہے تو اتفاقاً تم اس کے سامنے ایک نئے انداز میں آئی تو اس سے ہضم نہ ہو پایا اور وہ متجسس ہونے لگا ۔ خیر اسے معاف کر دو ۔! تمہاری بہت تعریفیں کر رہا تھا ، کہہ رہا تھا کہ بھابھی خالص ہیرا ہے اور سنا ہے ماشاءاللہ ساس بہو میں دوستی بھی بہت گہری ہو چکی ہے۔؟ روحیل نے کن اکھیوں سے زینہ کو دیکھا۔۔
جی آپ نے سب درست سنا ہے ۔
چار دن گھر سے باہر گزار کر آئے ہیں اور ایک ایک بات کی خبر رکھے ہوئے ہیں۔
یار میں کب خبر رکھتا ہوں ، خود ہی ان لوگوں نے مجھے تمام خبریں پہنچائی ہیں۔! انکے پیٹوں میں بات جو نہیں ٹھہرتی ہے۔! روحیل دھیمے سے مسکرا دیا۔۔۔۔
آپ نے دوبارہ سونا ہے تو سو جائیں۔! میں نیچے چلی جاتی ہوں۔
تم کیوں نیچے جاؤ گی۔؟؟
تاکہ آپ کی نیند میں خلل نہ پڑے۔!!
کیوں رات میری موجودگی میں تمہاری نیند میں خلل پڑا تھا کیا ؟؟؟
نہیں بالکل بھی نہیں ۔! زینہ نے چاروں طرف لپیٹی سفید چادر میں معصوم شکل بنا کر نفی میں گردن جھٹکی۔۔۔
تو پھر تمہیں بیٹھے بیٹھے قلقاریاں مارنے کی عادت ہے ۔؟روحیل نے ہنسی دبا کر سنجیدگی سے پوچھا۔
نہیں تو ۔! میری عمر ہے کہ میں اس عمر میں قلقاریاں ماروں گی۔؟ زینہ نے سنجیدگی سے جواب دیا۔۔
اچھا چلو آؤ باہر باغیچے میں چلتے ہیں۔!!
ایک تو تازہ ہوا خوری بھی ہو جائے گی اور دوسرا طبیعت بھی ہشاش بشاش ہو جائے گی۔۔
چلیں ٹھیک ہے۔! میں آپ کے ساتھ چلتی ہوں ، زینہ فوراً کھڑی ہو گئی۔۔۔
رہنے دو زینہ۔!!
جی ۔؟ زینہ نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
عبایا حجاب اوڑھ لو گھر سے باہر چہل قدمی کے لیے چلتے ہیں بلکہ آج پارک چل کر جائیں گے ، زیادہ دور نہیں ہے ، ہمارے گھر سے قدمی آدھے گھنٹے کی مسافت پر ہے۔۔
چل لو گی کیا۔؟؟
جی میں چل لوں گی ، بعض اوقات یونیورسٹی سے بھی چل کر لوٹنا پڑ جاتا تھا۔۔ یونیورسٹی کے ذکر پر زینہ کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گئی پھر یکدم گویا ہوئی۔۔
پر آپ پھپھو اور چچا سے نہیں ملیں گے کیا ۔؟
ان سے مل چکا ہوں ۔!
کب ۔؟ ابھی مسجد سے واپسی پر۔!
پھپھو اتنی صبح جاگ گئیں تھیں کیا۔؟
پھپھو نے غالبًا تمہاری صحبت کا اثر لے لیا ہے یا پھر تمہاری امی کی اچانک موت کا کہ وہ بھی نماز ادا کرنے لگ گئیں ہیں ماشاءاللہ۔۔
کچھ نیک لوگوں کا ساتھ بھی ساتھ رہنے والوں پر اثر انداز ہوتا ہے شاید۔ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے ، تم نے کبھی بھی انہیں کچھ نہیں بولا ہے مگر تمہارے اعمال ، تمہارے برتاؤ نے انہیں ضرور خیر کی رغبت دلائی ہے۔۔ روحیل نے محبت پاش نظروں سے سامنے بیٹھی زینہ کو دیکھتے ہوئے فخریہ انداز میں بولا۔۔۔
روحیل میں نے کیا کرنا ہے ، یہ تو صرف وہ اوپر والا مالک ہے جو دلوں کو نور توحید وسنت سے منور کرتا ہے۔۔زینہ نے بولا اور اپنے اردگرد لپٹی بڑی چادر اتار کر الماری میں لٹکے حجاب کو اوڑھنے لگی۔۔۔
زینہ۔!!
جی ۔! حجاب اوڑھتی زینہ پلٹی۔۔
تم بہت خوبصورت اور بہت اچھی ہو۔! مجھے اللہ کی طرف سے ایک انعام کے طور پر ملی ہو ، کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ میری کونسی نیکی ہے جس کی بدولت اللہ نے تمہیں میرا بنا دیا ہے۔؟
آپ بھی نا بس۔! زینہ کے چہرے کا رنگ لال ہو گیا، فوراً چہرے کو نقاب میں چھپا لیا۔۔
زینہ ابھی ہم کمرے میں بیٹھے ہیں تو چہرہ کیوں چھپا لیا ہے۔؟؟
مجھے آپ کی باتوں پر شرم آتی ہے۔!
اچھا نقاب ہٹاؤ اب نہیں ایسی باتیں کروں گا۔!
جی اچھا۔زینہ نے چہرہ سے نقاب ہٹا دیا تو گول معصوم سا چہرہ دل میں اتر جانے کی حد پار کر رہا تھا۔تمہیں پتا ہے ان چار دنوں میں تم کس قدر کمزور دکھنے لگی ہو۔؟ تمہارا چہرہ کملا کر رہ گیا ہے۔!
اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں تم نے کھانا پینا بھی چھوڑ رکھا ہو گا۔ آج سے میں تمہیں خود اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا کروں گا۔!!
سمجھی ہو۔؟؟
جی سمجھ گئی ہوں ۔معصوم زینہ نے زخمی مسکراہٹ سے ہامی بھری۔۔
روحیل نے اپنے جذبات کو ایک مرتبہ پھر تھپکا اور اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
چلو آ جاؤ میرا ہاتھ تھامو۔! اب یہ نہ کہنا مجھے گھر والے دیکھ لیں گے۔!
جی۔! زینہ چوں چراں کیے بنا روحیل کا ہاتھ تھام لیا اور دبے پاؤں سیڑھیاں اترنے لگی۔۔
روحیل آپ نے رات سے کچھ نہیں کھایا ہے ، ابھی چائے کے ساتھ تھوڑا سا کھا لیں ، پھر ہم چہل قدمی کے لیے چلے جائیں گے۔۔۔۔
زینہ مجھے ابھی ضرورت نہیں ہے ، ابھی خاموشی سے میرے ساتھ باہر چلو۔
جی۔! زینہ روحیل کے ہمراہ چلتی ہوئی خارجی دروازے پر پہنچی تو پاؤں میں چپل دیکھ کر پریشان ہو گئی۔۔
روحیل وہ میں اپنا جوتا تبدیل کرنا بھول گئی ہوں اس چپل میں تو میرا سارا پاؤں ننگا نظر آ رہا ہے۔
زینہ نے رک کر روحیل کی توجہ اپنے پاؤں کی طرف مبذول کروائی۔
تمہارے جوتے اوپر ہیں یا نیچے ماسی کے کمرے میں پڑے ہیں۔؟
وہ سب کچھ آپ کے کمرے میں پڑا ہے۔
کیا مطلب آپ کے کمرے میں ؟؟؟
میرا مطلب ہے ہم دونوں کے کمرے میں۔!!
اچھا چلو رہنے دو باہر نہیں جاتے بلکہ عقبی باغیچے میں چلتے ہیں۔!
جی بہتر ہے۔!
زینہ روحیل کی ہاں میں ہاں ملاتی اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔۔۔دونوں اینٹوں سے بنی پکی روش پر چلتے ہوئے کیاریوں میں لگے پھولوں کی طرف چلنے لگے۔۔۔ تازہ دیسی گلاب کی خوشبو باغیچے میں پھیلی ہوئی تھی، پرندوں کی چہچہاہٹ اپنے عروج پر تھی، رات کی تاریکی کو سفید روشنی اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی۔ چاروں طرف خاموشی کا راج تھا۔
زینہ ۔!
جی۔!
تم میرپور جانا چاہتی ہو۔؟؟ میرا مطلب ہے اگر تم اپنے بہن بھائی کے ساتھ چند دن قیام کرنا چاہتی ہوتو میں تمہیں چھوڑ آؤں گا۔!!
پر آپ کیسے اکیلے رہیں گے۔؟؟ یکدم زینہ کی زبان سے پھسل گیا۔۔ مگر بعد میں پچھتائی جب روحیل کا قہقہہ بلند ہوا ۔۔
میری پرواہ کرتی ہو مجھے بہت اچھا لگتا ہے ، اور یہ بھی سچ ہے کہ میں تمہارے دیدار کے بغیر رہ بھی نہیں پاؤں گا مگر بعض اوقات دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنا پڑتی ہیں۔!
میں دوسروں ہوں ۔؟؟؟ زینہ نے فوراً رک کر پوچھا۔
بیوی صاحبہ میں نے چھوٹی سی مثال دی ہے۔۔
آپ دوسروں نہیں ہو بلکہ پہلوں سے بھی بڑھ کر پہلی ہو۔! اب خوش ہو ۔؟
جی بہت خوش ہوں ماشاءاللہ۔۔
میں تو صرف اس لیے بول رہا تھا کہ زید کے لیے اچھا ہوگا اگر تم چند دنوں کے لیے چلی جاؤ گی تو اسے تھوڑی ڈھارس مل جائے گی۔ شہلا آپا بھی اپنے گھر لوٹ گئی ہیں اور تم اپنے گھر میں ہوتو اکیلا تو وہ بیچارہ رہ گیا ہے نا ۔! جسے امید تھی کہ ماں تندرست ہو کر بہت جلد گھر لوٹ آئیں گی جیسے ایک وقت مجھے اور عاصم کو امید تھی ۔
یکدم روحیل کا لہجہ سوگوار ہو گیا۔۔
جی ۔ یہ بات تو ہے یہاں سے جاتے ہوئے زید بہت رو رہا تھا۔ !
زینہ زید کو بھی ادھر ہی نا بلا لیں۔؟؟ ہمارا کتنا بڑا گھر ہے ،کسی بھی کمرے میں ٹھہر جائے گا۔!
نہیں روحیل زید کبھی بھی نہیں مانے گا۔! پہلے ہی آپ سب کے بہت احسانات ہیں۔!
زینہ تم بار بار ماضی کو کیوں کھینچ کر لے آتی ہو ۔؟
روحیل انسان کو حقیقت پسند ہونا چاہئے اور اپنا ماضی نہیں بھولنا چاہئے۔۔!
یار زینہ نیکی کر دریا میں ڈال۔! اللہ نے مجھے مال دیا اور توفیق بھی اللہ نے ہی دی ہے تو میں نے خرچ کیا وگرنہ میری حیثیت تو کچھ بھی نہیں ہے ،میں ایک عام انسان ہوں یار ۔!
آپ میرے سے پوچھیں کہ آپ میرے لیے کیا ہیں ۔؟؟
جی جی ضرور بتائیں میری سماعتیں آپ کے ذکر خیر کے لیے شدت سے منتظر ہیں۔! روحیل نے چلتے ہوئے رک کر اپنا کان زینہ کے سامنے کیا۔۔
آپ بہت اچھے ہیں ماشاءاللہ۔!
بس ۔؟؟
نہیں ٹرک۔!! زینہ نے چھیڑا۔
ہاہاہاہا ہاہاہاہا زینہ تمہاری باتیں بہت یاد آتیں تھیں۔۔ شکر کیا ہے عربوں اور ترکوں سے جان چھوٹی ہے ۔
آپ نے بتایا نہیں ہے کہ جس کام کے لیے گئے تھے کیا وہ ہو گیا ہے ۔؟؟
ہاں جس دن انا طولیہ پہنچا اسی دن ماسی امی کی اطلاع مل گئی تو کچھ کرنے کو جی ہی نہیں چاہا مگر دوسرے دن مجھے اس سارے معاملے کو نپٹانا تھا لہٰذا صبح سویرے ہوٹل سے نکل گیا تھا اور کاریگروں سے ملاقاتیں کیں اور وہ لوگ بہت جلد ہمارا نیا آرڈر شپ کر دیں گے ان شاءاللہ،
باقی روزانہ ٹکٹوں کی تگ و دو میں رہتا تھا کہ کب میں اپنی پیاری سے بیوی کے پاس پہنچوں اور اس کے تمام غم بانٹ لوں۔۔
خیر اب میں آگیا ہوں ،ابھی پریشان نہیں ہونا ہے ،مجھے تم اپنا دوست ،ہمدرد غمگسار ساتھی پاؤ گی ان شاءاللہ۔
جی ۔! روحیل آپ کا بہت شکریہ ، آپ واقعی بہت اچھے ہیں ماشاءاللہ ۔ زینہ نے بھرائی آواز میں بولا اور دوبارہ سے رونا شروع کر دیا۔۔
زینہ یار ۔! ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے اچھے ہیں اسی لئے اللہ نے ہمارا ساتھ لکھ دیا تھا، ابھی میری جان رو تو نہیں ۔ روحیل نے زینہ کو اپنے حصار میں لے کر تسلی دی۔
اچھا چلو اب اندر چلتے ہیں اور مجھے اچھا سا پراٹھا بنا کر کھلاؤ۔! روحیل نے زینہ کی توجہ بٹانے کے لیے نیا حربہ آزمایا۔۔۔
روحیل اور زینہ عقبی باغیچے سے نکل کر پکی روش پر چلنے لگے تو خارجی دروازہ کھلا اور ایک گاڑی اندر داخل ہونے لگی۔۔۔
زینہ تم اندر جاؤ ،میں دیکھتا ہے کون آیا ہے۔!
جی بہتر۔!
زینہ خاموشی سے پکی روش عبور کر کے اندرونی دروازے سے مہمان خانے سے ہوتی ہوئی باورچی خانے میں جا پہنچی۔۔۔
اللہ جانے صبح صبح کون آ گیا ہے۔؟ شکر ہے روحیل گھر پر ہی ہیں ، ورنہ میرے لیے کس قدر مشکلات پیدا ہو جاتیں ، شوہر کی گھر میں موجودگی بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی ہے۔ یا اللہ میرے روحیل کو لمبی زندگی عطا فرمائے آمین۔۔
زینہ نے فریج کھول کر ناشتے کی تیاری کے لیے سامان نکالتے ہوئے ذکر خیر سے اپنی زبان کو تر رکھا۔۔۔
چند لمحوں کے بعد جانی پہچانی آواز کانوں سے ٹکرائی ، پلٹ کر دیکھا تو عاصم باورچی خانے میں داخل ہوا۔۔۔
زینہ ایک پل ضائع کیے بنا عاصم سے لپٹ گئی۔ ویرے تم۔!!! زینہ کی نشیلی آنکھیں حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہونے لگیں۔۔۔
ویرے شکر ہے تم آ گئے ہو۔!! زینہ کی چھم چھم کرتی آنکھیں عاصم کو بھی رلا گئیں۔۔۔
زینہ صبر کرو۔! اللہ کو یہی منظور تھا۔ عاصم نے آنکھوں کو رگڑ کر زینہ کو تسلی دی۔۔
عاصم کے عقب میں کھڑا روحیل آگے بڑھا اور زینہ کو کندھوں سے تھام کر مہمان خانے کی طرف لے گیا ، ساتھ میں عاصم کو بھی ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔
تم دونوں بیٹھو میں پانی لاتا ہوں۔ روحیل نے بول کر فوراً باورچی خانے کا رخ کیا۔۔۔جانتا تھا کہ زینہ نے رو رو کر خود کو ہلکان کر لینا ہے۔۔
اور وہی ہوا ، اسکی واپسی تک زینہ ہنوز قیمتی موتی لٹا رہی تھی جبکہ عاصم پاس بیٹھا اسکی دلجوئی میں مصروف تھا۔۔۔
عاصم یار اسے پانی پلاؤ۔! روحیل نے پانی کا گلاس عاصم کو تھما دیا اور خود ساتھ صوفے پر ٹک گیا۔۔
عاصم نے زینہ کی حالت کو مدِنظر رکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں اسے مخاطب کیا۔۔
زینہ تم تو بہت بہادر ہونا ، اللہ کے قدر پر پختہ ایمان رکھنے والی ہونا ۔؟؟
زینہ نےجھکی گردن کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا۔
تو پھر اچھی بہنوں کی طرح میری بات مانو اور یہ پانی پیو۔!
زینہ نے فوراً گول گال رگڑ ڈالے اور عاصم کے ہاتھ سے گلاس تھام لیا۔۔ چند گھونٹ لے کر گلاس سامنے شیشے کے کوفی میز پر رکھ دیا۔۔۔
روحیل ہنوز ٹکٹکی باندھے زینہ کی حالت زار پر دل جلا رہا تھا ، اشارے سے عاصم کو متوجہ کیا۔۔
یار اسکا دھیان بٹاؤ ، اس نے رو رو کر خود کو فنا کر لینا ہے ۔ اس وقت روحیل کی حالت بھی قابل رحم تھی۔۔۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح وہ زینہ کو ان تمام دکھوں سے دور لے جائے ، اسکے تمام غم اپنے دامن میں بھر لے ۔۔
عاصم روحیل کی حالت زار پر اثبات میں گردن جھٹک کر رہ گیا۔۔۔جانتا تھا کہ بھائی اس وقت کس طرح کی نازک صورتحال سے گزر رہا ہے۔۔
فورا موضوع بدلا ۔۔بھیا زینہ کی یونیورسٹی کا کیا بنا ہے ۔؟ ٹرانسفر ہو گیا ہے کیا ۔؟
ارے نہیں یار۔! آج میں سوچ رہا ہوں کہ خود یونیورسٹی جاؤں اور ان سے بات کروں ۔۔
زینہ چلو آج اکھٹے ناشتہ بناتے ہیں پھر یونیورسٹی کے لیے چلیں گے ۔۔۔
روحیل نے زینہ کو مخاطب کیا تو زینہ نے فوراً سوگوار چہرہ اٹھا کر اوپر دیکھا۔۔۔
جی بہتر ہے۔!
ویرے تم اوپر اپنے کمرے میں جا کر تازہ دم ہو جاؤ ، میں نے تمہارے جاتے ہی سارے کپڑے ترتیب سے الماری میں استری کرکے لٹکا دیئے تھے۔ زینہ نے آنسو رگڑ کر فوراً عاصم کو مخاطب کیا۔۔
تم جاؤ۔! میں تمہارے لیے ناشتہ بناتی ہوں۔!
نہیں زینہ مجھے بھوک نہیں ہے ، میں فی الحال چند گھنٹوں کے لیے سونا چاہوں گا، پھر بعد میں باقی سب سے ملاقات ہو گی ان شاءاللہ۔
آپ لوگ ناشتہ بناؤ اور کھاؤ۔!
اور ہاں بھیا۔! زینہ اگر نہ کھائے تو آپ نے اپنے ہاتھوں سے کھلانا ہے ۔!
جی جناب۔! سرکار کا حکم غلام کی سر آنکھوں پر ہے۔۔!
اتنی غلامی نہیں درکار صرف ناشتے تک کی درخواست گزاری ہے ۔عاصم نے بڑے بھائی کو آنکھ دبا کر بولا اور سیڑھیاں چڑھنے لگا۔۔۔
جی بیوی صاحبہ باورچی خانے میں جانے کے لئے سواری درکار ہے یا پھر اپنے مبارک قدموں سے چلنا پسند فرمائیں گی۔؟
روحیل نے مسکراتے ہوئے زینہ کے سامنے اپنا ہاتھ بڑھایا۔۔۔
خاوند پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اچھے اخلاق اور نرمی کا برتاؤ کرے ، اور اپنی وسعت کے مطابق اسے وہ اشیاء پیش کرے جو اس کےلیے محبت والفت کا باعث ہوں ۔
اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
“اور ان کے ساتھ حسن معاشرت اوراچھے انداز میں بود و باش اختیار کرو”۔ (النساء: 19 ) ۔
اور ایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمايا :
“اورعورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے حق ہیں”۔ (البقرۃ: 228 ) ۔
سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے کہ :
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
“عورتوں کے بارہ میں میری نصیحت قبول کرو اوران سے حسن معاشرت کا مظاہرہ کرو۔”(صحیح بخاری:3153 ؛ صحیح مسلم:1468 ) ۔
( ہمارے وطن عزیز میں بھی عجیب رواج قائم ہو چکا ہے جو شوہر اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے اسے زن مریدی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے ۔ طرح طرح کے جملے سننے کو ملتے ہیں :
“بیوی کے نیچے لگ گیا ہے”۔
“بیوی کو سر چڑھا رکھا ہے”۔
“اسکا رعب ساری عمر قائم نہیں ہو پائے گا”۔
“یہ تو بیوی کے اشاروں پر ناچتا ہے”۔ وغیرہ وغیرہ۔)
سوگوار سی زینہ روحیل کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام کر اٹھ کھڑی ہوئی اور بولی ۔ روحیل سواری درکار ہو گی جب بیہوش ہو جاؤں گی۔!!
اللہ کی پناہ۔!! زینہ اب بیہوش ہونے کا سوچنا بھی مت یار ۔! روحیل نے ہاتھ تھاما اور باورچی خانے کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔
آپ میرے بیہوش ہونے سے ڈرتے ہیں کیا ؟؟
ڈر تو معمولی لفظ ہے پیاری۔! میری جان سولی پر لٹک جاتی ہے۔!
اسی لیے اس لٹکی جان کو بچانے کےلئے آپ نے مجھے داغدار کر دیا تھا۔! زینہ کو شرارت سوجھی۔۔
کیا مطلب ۔؟ روحیل کو دھچکا لگا تو فوراً رک کر زینہ کے سامنے آ گیا۔۔
وہی جو مجھے ہوش میں لانے کے لئے پہلوانوں کی طرح نس دبائی تھی تو اس کا درد اور نشان کئی دن آپ کے گھریلو ٹوٹکے کی یاد دہانی کرواتا رہا تھا۔۔
باتیں کرتے کرتے دونوں باورچی خانے میں پہنچ آئے۔ زینہ نے اپنا عبایا،حجاب اتار کر کرسی پر رکھا اور بکھرے بالوں کو ڈھیلی پونی سے آزاد کرکے دوبارہ پونی میں کس کر جکڑ دیا۔۔۔
روحیل کرسی پر بیٹھے بیٹھے اس کی ہر حرکت کو ازبر کرنے لگا۔۔
زینہ کو نظروں کی تپش محسوس ہوئی تو چونک کر دیکھا۔۔
روحیل۔!
جی جان روحیل۔!!
آپ مجھے دیکھنے کے بجائے یہ انڈے پھینٹ لیں۔!
کیوں تمہیں دیکھنے پر جرمانہ عائد ہوتا ہے کیا۔؟ روحیل کی معنی خیزی اپنے عروج پر تھی۔۔
جی جرمانہ اس صورت میں عائد ہو گا جب میرے ہاتھ سے چیزیں پھسلیں گی ، اور باورچی خانے میں کچرا پھیل جائے گا۔!
بس اتنی سی بات پر گھبرا رہی ہو۔؟؟
پھپھو نے دیکھ لیا تو دونوں کا کچومر نکال دیں گی۔۔!
ابھی کچومر نہیں نکالیں گی ، تم بےفکر ہو کر اپنے کام میں جتی رہو اور مجھے اپنا کام کرنے دو۔!
روحیل۔! زینہ نے آنکھیں پھاڑ کر دوبارہ گرکا مگر روحیل کے سامنے سب بیکار۔۔۔
ہلکے زرد رنگ کا ٹراؤزر اور سفید قمیض زینہ کے نازک سراپے کو چار چاند لگا رہا تھا ، روئی روئی نکھری سی زینہ روحیل کے دل و دماغ پر مکمل طور پر قابض ہو چکی تھی۔ سفید قمیض کے گلے اور آستینوں پر جڑے سفید نگینوں کے ساتھ مختلف رنگوں کی کڑھائی کا امتزاج قمیض کو پرکشش بنا رہا تھا۔۔۔
زینہ نے آستینوں کو موڑا اور اپنے کام میں مگن ہو گئی۔۔ دبلی پتلی سی زینہ کی چست قمیض اس کے وجود کے خطوط نمایاں کر رہی تھی۔ یکدم لال چہرے کے ساتھ پلٹ کر روحیل کو گھورا۔
آپ دیکھنا بند کریں گے یا میں آپ کو سزا دوں۔؟؟
دونوں منظور ہیں۔!
کیا۔؟ زینہ نے آنکھیں پھاڑ کر پوچھا۔
سزا بھی اور تمہیں ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا بھی۔!!
روحیل آپ حقیقتاً لاعلاج ہیں۔! زینہ دوبارہ آٹے کی طرف پلٹی اور پانی ڈال کر گوندھنے لگی۔۔
اوپر کمرے میں میرا دوپٹہ پڑا ہوا ہے جاکر لا دیں پلیز۔!
نہیں لاؤں گا ۔!! روحیل نے ہٹ دھرمی سے جواب دیا ۔۔
ٹھیک ہے میں خود لے آتی ہوں۔!
تم بھی نہیں جاؤ گی۔!!
ٹھیک ہے پھر میں برقعہ پہن لیتی ہوں۔!
برقعے کو ہاتھ لگا کر تو دکھاؤ ذرا ۔!!
روحیل۔!!!
جی جان روحیل۔!!
آپ بہت ڈھیٹ ہیں۔! زینہ نے زچ ہو کر بولا۔!
بہت شکریہ۔!
مجھے گھورنا چھوڑیں ابھی کچھ دیر بعد شریفاں خالہ نے آجانا ہے ۔۔ !
آنے دو ۔! میں انہیں کہیں اور بھجوا دوں گا۔!!
روحیل آپ بھی نا۔!!
آپ بھی نا کیا ۔؟؟ آگے جملا پورا کرو ۔!! روحیل کرسی سے اٹھ کر زینہ کے کان کے قریب سرگوشی والے انداز میں پوچھنے لگا۔۔
زینہ کے دل کی دھڑکنیں منتشر ہونے لگیں۔۔
روحیل۔!! زینہ نے لال ٹماٹر ہوتے چہرے سے گھور کر بولا۔۔ ایسے تو نہ دیکھیں۔!
تو پھر کیسے دیکھوں ۔؟ پاس نہیں ہوتا تو کہتی ہو کہ روحیل آپ بہت یاد آئے تھے ، خیالی دنیا میں پکارتی بھی رہی ہوں اور جب قریب آتا ہوں تو دور بھاگتی ہو ۔! روحیل نے اپنی آواز بدل کر زینہ کی نقل اتاری۔۔
ہاہاہاہا تمام غم بھلا کر یکدم زینہ کا نقرئی قہقہہ بلند ہوا ۔
روحیل آپ بھی نا بہت وہ ہیں ۔؟؟
وہ کیا ۔؟
شرارتی۔! زینہ خجالت مٹانے کے لئے فریج کھنگالنے لگی۔
روحیل نے سکھ کا سانس لیا کہ زینہ کا دماغ بہلنے لگا ہے۔۔۔
اب میرے ساتھ چپک کر کھڑے ہونے سے آپ کو انعام نہیں ملنے والا ہے لہٰذا فاصلے پر کھڑے ہو جائیں اور مجھے میرا کام نپٹانے دیں۔!!
ہائے میری قسمت۔! دعائیں مانگ مانگ کر جو سانولی سلونی سی فاصلے مٹانے کو ملی ہے ، وہی ہر وقت فاصلے بڑھانے کی بات کرتی ہے۔۔ روحیل نے سرد آہ بھری۔
خیر انڈے دو۔!
آج تمہیں انڈے پھینٹ کر دکھاتا ہوں۔!
انڈے بھی میں خود پھینٹ لوں گی ،آپ صرف پیاز کاٹیں۔!
پیاز۔!!!! حیرت سےروحیل کا منہ کھل گیا۔
جی۔! آپ نے کبھی پیاز نہیں دیکھا کیا ۔؟؟
دیکھا ہے مگر پیاز نے جو میرا حشر نشر کر دینا ہے وہ مجھے پتا ہے۔!
اچھا ہے آپ مجھے ٹکٹکی باندھ کر نہیں گھور پائیں گے۔!
زینہ تم چاہے جو مرضی حربہ آزما لو ، میں نے تمہیں جی بھر کر دیکھنا ہے بلکہ رات کو بھی تو یہی مشغلہ پورا کرتا رہا ہوں۔۔۔
ہائے اللہ ۔!! رات نجانے میں کس حال میں مدہوش پڑی تھی ۔؟ یکدم زینہ کو شرمندگی نے آن گھیرا۔۔ روحیل کی بات کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے خاموشی سے گردن جھکائے اپنے کام میں جتی رہی۔۔۔
زینہ ویسے بھی اپنی بیوی کو جی بھر کر دیکھنے پر ثواب ہی کماؤں گا ناکہ گناہ ملے گا۔!
یہ ثواب آپ کسی اور وقت بھی کما سکتے ہیں۔! زینہ نے مسکراہٹ دبا کر بولا۔
مجھے ثواب کمانے کا موقع تو دو۔!! روحیل نے جان بوجھ کر زینہ کا دھیان بٹانے کی خاطر مزید چھیڑنا شروع کر دیا۔۔
روحیل۔!! زینہ نے لفظ روحیل چبا کر بولا۔
جی جان روحیل۔! تو گویا تم چاہتی ہو کہ میں نامحرموں کو دیکھوں۔؟؟ روحیل نے زینہ کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔
آپ سوچ کر تو دیکھیں۔! میں نے آپ کو ہلاک کر دینا ہے!!
ہاہاہاہا روحیل کے قہقہے بلند ہوئے۔۔ تم تو پوری کی پوری ہٹلر بیوی بن چکی ہو۔!
ابھی آپ نے میرا ہٹلر پنا دیکھا ہی کہاں ہے۔!!
دکھاؤ نا۔!! روحیل زینہ کے سامنے ہاتھ سینے پر باندھ کر کھڑا ہو گیا۔۔
میں آپ کو بتا رہی ہوں آپ کی پٹائی ہو جانی ہے۔!
کون مائی کا لعل ہے جو میری پٹائی کرے گا۔؟
لاؤ اسے میرے سامنے ذرا ۔!!
شوہر نامدار آپ کی پھپھو جان۔!!!
پھپھو کی پیار بھری پٹائی منظور ہے۔! مگر ہٹلر بیوی کی دوری نامنظور ہے ، نامنظور ہے ، نامنظور ہے۔!
ناچاہتے ہوئے بھی زینہ کی ہنسی چھوٹ گئی ۔
اچھا چلیں نا۔۔!! آپ پیاز کو تھامے کھڑے نا رہیں ،بلکہ اسے چھیلیں اور کاٹیں۔!
زینہ۔!
جی۔! زینہ کے چلتے ہاتھ رک گئے۔
“تمہیں پتا ہے جب تم میرے آس پاس ہوتی ہو تو مجھے ہر چیز خوبصورت اور خوش نما لگنے لگتی ہے”۔
اچھا جی۔!!
ابھی یقیناً آپ کو پیاز بھی خوبصورت لگ رہا ہو گا لہٰذا یہ خوبصورت چھری پکڑیں اور اپنے خوبصورت ہاتھوں سے اسے خوبصورت سا کاٹیں۔۔
اعلیٰ سرکار کا ہر حکم غلام کی سر آنکھوں پر ہے۔۔
جی نہیں مجھے شوہر کو غلام بنانا بالکل بھی پسند نہیں ہے۔!
شوہر تو سر کا تاج ہوتا ہے۔!
اچھا۔!!
زینہ نے پلٹ کر دیکھا تو روحیل کی آنکھیں پیاز کی کڑواہٹ سے لال اور پانی پانی ہو رہیں تھیں۔
روحیل آپ چھوڑ دیں ، یہ کام آپ کے بس سے باہر ہے۔! زینہ نے روحیل کے ہاتھ سے چھری لے کر ایک طرف رکھی۔۔
خود فورا کونے میں پڑے ٹشو کے ڈبے کی طرف لپک کر چند ٹشو نکال کر چھ فٹ لمبے روحیل کی آنکھوں تک پہنچنے کےلئے ایڑیاں اٹھانے لگی۔ میرے باکے سجیلے اور خوبرو شوہر صاحب آنکھیں صاف کر کے ادھر کرسی پر تشریف رکھیں اور ناشتے کا انتظار فرمائیں۔۔!!
روحیل نے زینہ کا ہاتھ ٹشوز سمیت تھام لیا اور اسکی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔۔
دیکھ لو آنکھیں پیاز کی کڑواہٹ سے چور ہیں پھر بھی تمہیں دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔!
اچھا جناب۔! آپ میں بہت ساری صلاحتیں موجود ہیں ماشاءاللہ جن کا ادراک میرے اوپر گاہے بگاہے ہوتا جا رہا ہے۔۔ میں ہاری آپ جیتے روحیل۔!
زینہ نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دل کی بات کہہ ڈالی۔۔
اب برائے مہربانی ہاتھ چھوڑیں تاکہ آملیٹ اور پراٹھے پایا تکمیل تک پہنچا سکوں۔!
اگر نہ چھوڑوں تو ۔؟؟ روحیل نے دائیں آنکھ دبا کر پوچھا ۔۔
پھر پھپھو آکر ہاتھ چھڑوانے کی اچھی خاصی صلاحیت رکھتی ہیں۔۔ زینہ نے چڑانے والے انداز میں بولا۔۔۔
مجھے ہر وقت پھپھو سے نہ ڈرایا کرو ۔! روحیل نے زینہ کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے بولا۔۔۔
آپ کے لئے پھپھو کے علاوہ کسی اور کی دھمکی کام ہی نہیں کرتی ہے۔۔
خیر اب بس دس منٹ اور لگیں گے اور گرما گرم پراٹھا تیار ہو گا۔۔۔
چائے تو آپ کڑک پسند کرتے ہیں نا ۔
تمہارے ہاتھوں سے تو زہر بھی منظور ہے زینہ۔! روحیل نے جذب میں آ کر بولا۔۔۔
خبردار آپ نے ایسی بات دوبارہ بولی تو۔!! زینہ تڑپ اٹھی۔
کیوں۔؟؟ محبت کرنے لگی ہو ۔؟؟
مجھے ایسی منفی باتیں بالکل بھی پسند نہیں ہیں۔! اور ہاں محبت بھی ہو گئی ہے ۔!! زینہ نے فوراً بول کر زبان دانتوں تلے دبا لی۔۔۔
ہائے آخری جملے پر میں صدقے میں واری جاؤں زینہ۔!! جی چاہتا ہے بار بار سنوں اور ہر بار سنوں۔!
نجانے زندگی اس جملے کو سننے کی اور کتنی مہلت دیتی ہے۔؟
روحیل آپ ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں۔؟مجھے اچھا نہیں لگتا ہے۔! زینہ نے غم سے منہ بسورا۔۔
اچھا چلو اب نہیں بولوں گا۔! ابھی خوش ؟
جی بہت خوش۔!
زینہ برق رفتاری سے بیلن سے پراٹھے کی گولائی میں غلطاں ہوگئی۔ دوسرے چولہے پر رکھی پتیلی میں چائے ابلنے کے قریب تھی جسے روحیل نے بروقت آگے لپک کر بند کر دیا۔۔
شکریہ روحیل میرا دھیان ادھر پراٹھے کی طرف چلا گیا تھا۔۔۔
کوئی بات نہیں روحیل کی جان۔!
ابھی حقیقت میں بھوک ستا رہی ہے۔ دو کے بجائے تین پراٹھے بناؤ۔!
تین۔؟ زینہ کی آنکھیں پھیل گئیں۔۔
میں کوئی نازک دوشیزہ تو نہیں ہوں جو آدھا پراٹھا کھا کر سیر ہو جاؤں گا۔
قد کاٹھ والا سجیلا کڑیل مرد ہوں یار۔!
یاد سے چوتھا پراٹھا اپنے لیے بھی بنا لو۔!
روحیل آپ کی خوش خوراکی پر ماشاءاللہ ہی بولوں گی۔۔
زینہ نے پراٹھوں کی تیاری کے ساتھ ساتھ آملیٹ کا آمیزہ تیار کر کے فرائی پین میں ڈال دیا۔۔
دو پراٹھوں کے بعد آملیٹ بھی تیار ہو چکا تھا، کپ میں چائے چھان کر انڈیلنے لگی تو ڈیڈھ ہفتہ قبل کا واقعہ یاد آگیا تو آنکھیں نم ہو گئیں۔۔
روحیل آپ ناشتے کے لیے میز پر جانا پسند کریں گے یا ادھر ہی باورچی خانے میں کھائیں گے۔؟ زینہ نے تیز تیز ہاتھ چلاتے ہوئے پوچھا۔۔
سارا ناشتہ تیار کرو ، ہم دونوں اپنے کمرے میں جا کر کھائیں گے۔
ابھی کچھ دیر قبل تو آپ کو شدید بھوک لگ رہی تھی۔؟
ہاں بھوک تو ابھی بھی ہے مگر جب تک میں اپنی بیوی کو نہ کھلا لوں ، میرا ایک نوالہ بھی حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔۔۔
اتنی محبت اور توجہ پا کر زینہ کی آنکھیں نمکین پانیوں سے چھلکنے لگیں۔۔
روحیل میں اتنی بھی معتبر نہیں ہوں جتنا آپ نے مجھے بنا دیا ہے۔۔
تمہیں کیا خبر زینہ تم کون ہو۔؟؟؟
یہ مجھ سے پوچھو میری ہٹلر سی بیوی۔!!
لفظ ہٹلر پر زینہ کی ہنسی چھوٹ گئی جبکہ روحیل زینہ کے اندر رونما ہونے پر تبدیلیوں پر شکر گزار تھا۔۔۔
ماں کا اچانک چلے جانا معمولی بات نہیں ہے مگر یہ لڑکی اپنے فرائض سے غافل نہیں ہے۔ میرے سمیت عاصم کے کھانے پینے کی فکر بھی ستائے جا رہی ہے۔۔ خود غرضی تو گویا اسے چھو کر نہیں گزری ہے۔۔
یا اللہ اس مخلص ، پاکیزہ پارسا بیوی کا ساتھ دینے پر میں تیرا شکر گزار ہوں۔۔۔
باورچی خانے میں پانچ منٹ کے لئے مکمل خاموشی چھا گئی تو زینہ نے پلٹ کر روحیل کو دیکھا۔۔
آپ کہاں کھو گئے ہیں۔؟
ناشتہ تیار ہو چکا ہے۔!
ہاں ہاں چلو ٹرے میں سب کچھ رکھو اوپر چلتے ہیں۔! روحیل نے چونک کر جواب دیا۔۔
******************************************
روحیل یار زینہ جب سے رخصت ہو کر اسلام آباد آئی ہے گھر میں بند ہے ۔ اسے باہر لے جاؤ۔! اسے گھماؤ پھراؤ یار۔! ارشاد صاحب نے رات کے کھانے سے فراغت کے بعد بولا۔۔
ہاں روحیل بھائی جان ٹھیک بول رہے ہیں۔ نئی نئی شادی ہے تو لڑکیوں کے سو چاؤ ہوتے ہیں۔۔
جی ڈیڈ جی پھپھو میں بھی یہی سوچ رہا ہوں۔ آج بس سارا دن گھر پر ہی جہاز کے چکر اتارنے میں گزر گیا ہے ۔۔
کل صبح ہم سب مری چلتے ہیں ۔! کیا خیال ہے۔؟؟
بھئی ہم کس لیے کباب میں ہڈی بنیں ، تم اپنی بیوی کو لے کر جاؤ اور قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہو۔۔بلکہ یوں کرو کہ چند دن ادھر ہی کسی ہوٹل میں گزارو۔۔! ارشاد صاحب کے بولنے سے قبل ہی پھپھو نے روحیل کو قیمتی مشوروں سے نواز دیا ۔۔
روحیل کے ساتھ والی کرسی پر براجمان زینہ کا چہرہ شرم سے لال ہو گیا تو سر فورا جھکا لیا۔۔