"بتاؤ ورنہ یہی انجیکشن شہہ رگ میں میں اُتار دوں گا”
کہتا ہوئے انجکشن کی نوب شہہ رگ اور رکھ چُکا تھا اور سامنے کھڑی ڈاکٹر کو پسینے آرہے تھے
"اندر کیا ہورہاہے ۔۔۔دروازہ کھولو ”
باہر سے گارڈز کی آوازیں آنے لگ گئی
"تین تک گینوں گا اُسکے بعد میں زمیدار نہیں
ایک
دو”
"تمہاری ماں سے پچاس لاکھ دیا تھا ”
اُسے تیز گنتا دیکھ کر پھٹ سے بولی
"مارنے کا”
انجیکشن والے ہاتھ کانپ گئے
"نہیں مفلوج کرنے کا ۔۔۔ تاکہ کبھی ہوش میں ہی نہ آسکے۔۔۔ویسے وہ مارنا چاہتی تھیں آپکی بیوی بچہ دونوں کو ”
کیا کہتا ڈاکٹر کو وہ ایک پرایا وجود تھا اور اُسے کرنے پر مجبور کر دینے والی امی وہ ماں جس کو کبھی ستالی سمجھا ہی نہیں تھا
"دیب ٹھیک ہوجائے گی نہ”
ساری چالوں کو ایک طرف رکھتا انکھوں میں جنونیت لیے بولا
"انشاء اللہ ۔۔۔یہ بے ہوشی کے ہی انجکشن تھے جو اتنی جلدی نقصان نہیں دیتے لیکن اگر زیادہ مقدار میں روز ایک ڈوز دی جائے تو دو ماہ بعد انسان چلنے کے قابل نہیں رہتا ”
وہ اپنا پسینہ صاف کرتی ہوئی بولی تو تالش دیب کی طرف دیکھنے لگ گیا جو اِس کروائی سے قطا نظر ہوش کی دُنیا سے کافی دور تھی
"آپکا حساب بعد میں چوکتا کروں گا ”
بول کر دیب کے ماتھے پر جُھکا اور اُسکے سر پر محبت بھرے لمس چھوڑے جبکہ ڈاکٹر تیز تیز قدم اٹھاتی باہر کی طرف چل دی
"کوئی کسی کو خوش کیوں نہیں دیکھ پا رہا ”
مہر عدن کا ماتھا چومتی ہوئی بولی
"حسدین نے غلبہ پا لیا ہے ”
دمل بولتا باہر کی طرف چلا گیا کیسے بتاتا کتنا گرا ہُوا محسوس کر رہا تھا اپنے بھائی اور بیوی کے سامنے ۔۔۔اُسکی ماں اس حد تک گر گئی
وہ لوگوں کی مائوں کو نصیحتیں کرتا پھر رہا تھا اور خود اپنے گھر میں جلتے حسد کے لاوے کو بجا نہ سکا
°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
"مایا جی کھانا لاؤں”
ابھی بھی رو رہی تھی جب بیا نے دروازہ سے ہی پوچھا
"بیا جی مجھے ماں کی ضرورت ہے ”
کہتے ہوئے با آواز رونے لگ گئی تو بیا نے آگے بڑھ کر اُسکے سر پر دست شفقت رکھا
تو مایا اپنا آپ اس میں چھپا گئی
"بیا جی بد قسمت لوگ دیکھیں ہیں کبھی”
رونے کے بعد سنبھل کر بولی وہ محض نے میں سر ہی ہلا سکیں
"مجھے دیکھیں میرے جیسے ہوتے ہیں جن کے مقدر میں محبت نہیں ہوتی ۔۔۔۔جو بس لوگوں کے لیے جیتے ہیں جن کو کوئی انسان ہی نہیں سمجھتا ”
غبار نکال رہی تھی جو بیا کےپیچے کھڑا انسان بھی سن رہا تھا
"ایک انسان پہلے میری زندگی برباد کر کے چلا گیا اور اب ایک مجھے اپنے سر سے اُتار دینا چاہتا ہے ”
روتے ہوئے بولے جارہی تھی آنکھیں موند رکھی تھیں
"بیا میں کیوں کسی کے لیے اہم نہیں ہوئی کبھی ۔۔۔۔کیوں لوگ مجھے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔کیا میں محبتوں کے قابل نہیں ہوں ”
اُسکی باتیں سن کر بیا کی آنکھیں نم ہوئیں جبکہ بازل نے موبائل پر سے ٹائم دیکھا
"اگر ڈرامہ بند ہوگیا ہو تو تمہارا ٹائم ہوگیا ہے جانے کا ”
سرد آواز میں بول کر وہاں دونوں نقوش کو حیران کر گیا
"بازل میاں ۔۔۔نور نہیں۔۔۔”
"بیا پلیز میرے پرسنل معاملات میں مت بولا کریں ”
کہتا باہر چلا
"بیا یہ انسان کسی کی محبت کے قابل نہیں ہے”
دل میں نفرتوں کا بازار سر گرم ہوا تو گالوں اور بہتا گرم سیال بے دردی سے رگھڑ دیا اور بغیر بیا سے ملے اپنا ہینڈ کاری لیتی باہر کی طرف بھاگ گی
یہاں پہلے بھی گاڑی سے ٹیک لگے بازل شاہ اپنی پوری وجاہت کے ساتھ کھڑا اُسے لمبے عرصے کے لیے انکھوں میں بسا رہا تھا اُسکے آنے سے پہلے ہی کار کا دروازہ کھول دیا
پہلے تو یکدم پیر ركے لیکن ساتھ ہی اپنے تاثرات سخت کرتی گاڑی میں بیٹھ گئی
اُسکی سوجی ہوئی آنکھیں بازل کے دل کو ٹھیس پہنچا گئی تھیں
"اپنا خیال رکھنا ”
اُسے سمجھ نہیں آرہی تھی کے یہ بات بازل شاہ ہی کہہ رہا ہے نظریں اُٹھا کر چند لمحوں کے لیے اُسکی طرف دیکھا جو گاڑی کے شیشے کے سامنے جھکا ہُوا ہے ایک پل کے لیے دونوں کی نظریں ساخت ہوئیں تو دونوں طرف دھڑکنوں میں اُدھم مچ گیا ایک ہی سیکنڈ میں دونوں رخ موڑ گئے تو عبداللہ نے گاڑی چلا دی
بازل شاہ تب تک گاڑی کا پیچھا اپنی نظروں سے کرتا رہا جب تک کے گاڑی دھول میں گم ہوگئی
"تم بہروپیا ہو بازل شاہ۔۔۔کوئی نظر کا دھوکا یہ پھر ایک خوبصورت فریب”
اپنے دل کی دھڑکنوں کو نارمل کرتی ہوئی با آواز بولی
"یہ ضروری تھا مسز مایا شاہ”
اُسکے نام کے آگے اپنا نام لگاتا پراصرار سا مسکرایا تو سامنے لگے گلاب کے پھول بھی اُسکی مسکراہٹ پر مہبم ہوئے
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
"مام پاش ۔۔۔۔۔۔۔۔نور مام ”
ہاتھ پاؤں بیڈ پر مارتی زوروں سے رونے میں مصروف تھی مایا کے جاتے ہی اُٹھ گئی تھی اور اُٹھ کر بازل کے کمرے کی طرف بھاگی تھی یہاں روزانہ مایا کے ساتھ لیٹ کر فیڈر پیتی تھی اور آج وہ جگہ خالی تھی جس کے بعد بیا اور بازل ہر طرح اُسے بہلا چُکے تھے لیکن وہ ضد میں سب سے آگے تھی
"میرا شیر بیٹا آج بابا ساتھ کھیلے گا ”
بازل کھلونوں کو ایک انبار اُٹھا کر اُسکی طرف لایا اور اُسکے سامنے پھیلا دے جسے اس بے پرواہ شہزادی سے ایک نظر دیکھنا پسند بھی نہیں کیا
"نور مام ۔۔۔۔مالا ”
رونے کے ساتھ غُصہ بھی جاری تھا اور بازل کی طرف دیکھ بھی نہیں رہی تھی
"بازل صاحب نور کو فیڈر پالا دیں دیکھیں بھوک سے نڈھال ہورہی ہے”
بازل کو بیا کے اِس عمل پر بھی غصہ آیا جو بڑی آسانی سے پارٹی بدل گئی تھی جب سے مایا گئی تھی اُسکا منہ بھی الگ بنا ہوا تھا
"نور اچھے بچوں کے طرح پیو”
وہ اُسے آنکھیں دیکھتے ہوئے بولا
"ڈرٹی ۔۔بابا ”
اُسے غُصہ میں دیکھتے ہوئے جھپٹی اور بال نوچ لیے بازل جو پہلے ہی تھک گیا تھا اب غُصہ آرہا تھا اُسپے جو اپنے باپ کو دو سال سے اُسکی ماں اور باپ دونوں بنا ہُوا تھا کیسے ایک ماہ میں ہی اُسے بول گئی تھی اوپر سے گندہ بول رہی تھی
"بد تمیزی نہیں کرو ورنہ باہر پھینک دوں گا ”
غُصہ میں بولتا اُسکے منہ میں فیڈر ٹھونس دیا جو رونے کی وجہ سے اُسکے سانس والی نالی میں لگنے کی وجہ سے نور کو سانس آنا بند ہوگیا اور آنکھوں سے پانی نکل رہا تھا جبکہ ہونٹ بلکل نیلے ہی چُکے تھے
"نور میری جان ”
ایک میں ٹرپ کر رہ گیا جب بیا نے نور کی کمر تھپتھپائی اور اُسکے گلے میں اٹکا دودھ باہر نکل گیا
"ن۔۔۔۔۔نور اپنے ب۔۔۔ بابا کو ایسی سزا تو مت دو”
اُسے سینے میں بھینچ کر جنونیت سے بولا جب کے لفظ اور سانس دونوں ہی اٹک رہے تھے اور آنکھیں نم ہوگئی تھیں
"نور مام پاش ”
بڑی ہی کوئی مطلب پرست ثابت ہوئی تھی ابھی اُسے نرم پڑتا دیکھ کر اُسکا منہ چومتے ہوئے بولی جبکہ ہونٹ پر ابھی نیلے رنگ کی شاپ ماجود تھی
"بازل کیوں نہیں سمجھتے وہ ایک بچی ہے بڑی ہوکر ایک ماں کی ضرورت ہوگی جو تم پیسے سے بھی پوری نہیں کر پاؤ گے ۔۔۔میں آج ہوں کل پتہ نہیں سانس ساتھ دے کے نہ ”
وہ آگے آکر اُسے ماننے کے لیے آگے ہوئی
"ہاں عبداللہ ۔۔۔۔ہماری فلیٹ بک کروا دو باقی یہاں کے کام تم خود دیکھ لینا ”
بولتے ہوئے دوبارہ موبائل پوکٹ میں رکھ کر دیوانہ وار نور کے گلابی اور سفید گال چوم لیے
"مام پاس جائیں گے ۔۔۔۔اج ہی بس دودھ پی لو میرے شیر”
اُسے سمجھاتے ہوئے بولا اور بیڈ پر لیٹے ہوئے خود ساتھ لیٹ کر اُسکے منہ میں فیڈر دے چُکا تھا جسے اب سکون سے پی رہی تھی
"تم ضروری ہو میرے لیے بھی اور ہماری بیٹی کے لیے بھی”
دل میں سوچ کر ہلکا سا مسکرایا اور نور کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگ گیا
°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
"تالش یہ میرا جیسا کیوں نہیں ہے ”
وہ اپنا بیٹا کو پہلی بار دیکھ رہی تھی آنکھیں خوشی سے نم ہورہیں تھیں جبکہ اُسکے پاس ہی بیٹھا تالش خود ہی شرمندہ تھا اُسکی بیوی اور بچہ اُسکی ماں سے ہی غیر محفوظ تھے
جبکہ دیب بے خبر چھوٹے سے عدن کے گالوں کو نرمی سے چھو رہی تھی جبکہ وہ ہلکی ہلکی سی مسکراہٹ بار بار اپنے چہرے پر لا رہا تھا
"کیوں کے اُسکے بابا زیادہ پیارے ہیں”
اُسکے تنگ کرنے کی غرض سے بولا جب باہر سے شور آتا سنائی دیا
دامل اور مہر ابھی تھوڑی دیر پہلے گھر کے نکل گئے جبکہ دیب کو کل کو چھٹی ملنی تھی
"تالش باہر کیا ہو رہاہے ”
تالش اُٹھ کر باہر کی طرف گیا تو دامل اسٹچیر کے ساتھ بھاگ رہا تھا جو ایمرجنسی کی طرف جارہا تھا
تالش کو لگا اب وہ اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں رہ پائے گا کونسا دُکھ رہ گیاتھا اُسکی قسمت میں جو اب ملنا تھا
"بھائی مہر کو بچا لیں نہ۔۔۔۔۔ بھائی دیکھیں وہ درد میں ہے”
وہ روتا ہُوا تالش کے گلے لگ گیا جبکہ سامنےمہر کو ایمرجنسی میں لے جارہے تھے اور اُسکے سینے پر ڈالی ہوئی چادر خون سے سُرخ ہوچکی تھی
"تم مہر کے پاس رہو میں آج صبر کا دامن نہیں تھاموں گا۔۔۔ورنہ ہماری ماں پیسے کے پیچھے ہماری خوشیاں کھا جائے گی”
وہ دامل کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا جبکہ دیوار کا سہارا لیتی دیب پیچھے سے دامل کے کندھے پر ہاتھ رکھا
"بھابھی آپ تو اتنی اچھی ہیں ۔۔۔۔۔صبر کرنے والی ہیں آپ دعا کریں نہ مجھے میری مہر واپس مل جائے ”
روتا ہُوا اُس کے آگے ہاتھ جوڑ گیا اور دیب ٹرپ کر رہ گئی
"کُچھ نہیں ہوگا حوصلہ کرو میں بھی کروں گی دعا لیکن تم کرو گے تو مہر کو اچھا لگے گا ”
اُسکے آنسو صاف کرتی بولی تو دامل نے اُسکے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا
دامل وضو کی نیت سے دوسری طرف دل پر پتھر رکھے چلا گیا اور اُسکے جاتے گی دیب پھوٹ پھوٹ کر رو دی
"اللہ ہمیں اور آزمائش میں مت ڈالیے گا ۔۔۔۔کمزور ہیں ٹوٹ جائیں گے”
°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
"اب میں بھی مایا شیخ خانزادی نہیں جو بازل شاہ کو کبھی یاد بھی کرے کے کوئی تھا
"چچورا ”
فلیٹ میں آتے ہی چلائے جارہی تھی پتہ نہیں کیوں بار بار وہی انسان ذہن میں آجائے رہا تھا جیتنا چاہ رہی تھی اُس کی یاد سے چھٹکارا اتنا ہی وہ اعصاب پر سوار ہوگیا تھا
"نور مام مس یو ”
ونڈو میں کھڑی تھی جب نیچے ہوٹل میں کوئی فیملی داخل ہورہی تھی بچی ہڈی والی انسان نے اٹھائی ہوئی تھی اور ساتویں فلور اور ہونے کی وجہ سے کسی کا چہرہ نظر نہیں آرہا تھا لیکن نور کی یاد آگئی تھی
"ہائے اللہ ۔۔۔۔یہ بازل شاہ ہے کیا ۔۔۔۔۔۔اس کو تو اپنے ہاتھوں سے انکاونٹر کروں گی”
پھر ذہن میں وہ واقع آیا جب اُن دونوں کی آنکھیں ملی تھیں تو یہاں بھی اُسکی دھڑکنیں تیز ہوگئیں
"اپنا خیال رکھنا ”
اُسکا جملہ کانوں میں زہر گھولنے لگا
"اب تو بلکل نہیں رکھوں گی ۔۔۔لکھوا لو ”
خودی سے ضد لگا کر اپنے بال کھول دیا سردی میں بھی گلاس میں پڑا ٹھنڈا پانی ایک گھونٹ میں بھی گئی جب کے بعد جسم میں سردی کی لہر دوڑ گئی
اور ساتھ ہی دروازہ نوک ہُوا
جسے کھولنے کو کوئی ارادہ نہیں تھا
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...