اسلام و علیکم پھپھو
کیا حال ھے آپ کا
ناہید بیگم (حور کی پھپھو) ھال میں صوفے پر بیٹھیں باتیں کر رہی تھیں کہ حور نے آ کر سلام کیا
وعلیکم السلام بیٹے
میں بالکل ٹھیک ہوں تم کیسی ھو
ناہید بیگم شفقت سے بولیں
میں بھی ٹھیک ھوں پھپھو
آپ کو پتہ ھے میں نے آپ کو کتنا مس کیا بابا کہ رھے تھے کہ میرے پیپرز کے بعد آپ سے ملنے جائیں گے
لیکن شکر ھے کہ آپ خود آ گئیں
حور مسکرا کر بولی اور ان کے ساتھ ہی بیٹھ گئی جبکہ حمزہ باہر فون پر کسی سے بات کر رہا تھا
پڑھائی کیسی جا رہی ھے تمہاری
ناہید بیگم نے حور کو دیکھ کر کہا
پڑھائی بھی بس ٹھیک ہی جا رہی ھے پاس تو ھو ہی جاؤں گی ارے حمزہ بھائی بھی آ نے والے تھے نا وہ نہیں آئے
حور نے اردگرد کآجائزہ لے کر کہا
بالکل آیا ھے باہر فون پر بات کر رہا ھے آ تا ہی ھو گا
صبا بیگم جلدی سے بولیں
اچھا میں ان سے مل کر آ تی ھوں
حور کہ کر اٹھی اور باہر لان میں چلی گئی جبکہ ناہید بیگم نے بات کرنی شروع کی جس کے لئے وہ یہاں آئیں تھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ھاں ٹھیک ہے
اللہ حافظ
اسلام و علیکم حمزہ بھائی
آپ تو لگتا ھے بھول ہی گئے تھے مجھے
کہ آپ کی کوئی چھوٹی سی کیوٹ سی کزن بھی ھے
حور نے حمزہ سے شکوہ کیا
حمزہ جو کال کاٹ کر پلٹا ہی تھا کہ حور کو دیکھ کر مسکرانے لگا
توبہ اتنے شکوے
یار تھوڑا سا بزی تھا اس لئے کال نہیں کر سکا لیکن دیکھو اب تو آ گیا ھوں تم سے ملنے
اور اب میں اور ماما سوچ رھے ہیں کہ تمہیں اپنے ساتھ ہی لے جائیں
حمزہ نے مسکرا کر حور کے بالوں کو بکھیرا
ااہ
مت کریں حمزہ بھائی
اور میں کوئی آپ کے ساتھ نہیں جانے والی ماما بابا کو چھوڑ کر
اور وہ بھی ملتان
توبہ اتنی گرمی ھوتی ھے وہاں پتہ نہیں آپ کیسے رہ لیتے ھیں
حور نے کانوں کو ھاتھ لگاتے ہوئے کہا
اور اگر تمہیں ہمیشہ وہاں رہنآپڑا تو کیا کرو گی مطلب کہ اگر تمہاری شادی ملتان میں ہی ھو گئی تو
حمزہ مسلسل حور کو اپنے نظروں کے حصار میں لیے ہوئے تھا
میں کیوں ملتان میں شادی کروں گی توبہ بھئ مجھ سے اتنی گرمی برداشت نہیں ھوتی ھے
میں بابا سے کہوں گی کے یہی لاھور سے کوئی لڑکا دیکھیں اور یہی شادی کر دیں میری اس طرح میں ہمیشہ ان کے ساتھ بھی رہوں گی
حور مزے سے اپنی آ گے کی پلینگ حمزہ کو بتا رہی تھی
ویسے حمزہ بھائی آپ نے کوئی لڑکی دیکھی اپنے لئے
مطلب کے اس طرح میں بھی انجوائے کر لوں گی آپ کی شادی کو
حور حمزہ کی اپنے لیے پسند اور اس کی معنی خیز باتوں کو اچھے سے سمجھتی تھی مگر پھر بھی انجان بننے کی کوشش کرتی تھی کیونکہ وہ خود حمزہ کے بارے میں ایسی کوئی فیلنگ نہیں رکھتی تھی
اور جان بوجھ کر بار بار اسے بھائی کہتی تھی تاکہ وہ اپنے دل سے حور کے لئے فیلنگز کو نکال دے اور اب حمزہ کی کہیں اور شادی کی بات بھی اسی لئے کی تھی
یار حور تم مجھے بھائی کیوں کہتی ھو
مطلب کہ ہم اچھے دوست ھیں تو نام لیا کرو میرا
حمزہ چڑ کر بولا
مطلب کہ حور اس کی فیلنگز کو سمجھ کیوں نہیں رہی اور بھائ بھائی کا لیبل دیتی رہتی ھے
کیوں کہ آپ مجھ سے بڑے ھیں اور میرا کوئی بھائی بھی تو نہیں ھے اس لئے اپنی اس خواہش کو میں پورا کر رہی ھوں آپ کو بھائی کہ کر
آپ کو برا لگتا ھے میرا بھائی کہنا
حور معصومیت سے بولی
(ھاں لگتا ھے برا مت کہا کرو نہیں ھوں میں تمہارا بھائی)
یہ سب حمزہ صرف دل میں ہی سوچ سکا اور پھر بولا تو صرف اتنا کہ
چلو اندر سب ہمارا ویٹ کر رہے ھوں گے
حمزہ کہ کر منہ بنا کر اندر چلا گیا تو حور بھی کاندھے آچکا کر اندر چلی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھئ مزمل مجھے تو حور شروع سے ہی اپنے حمزہ کے لئے پسند تھی مگر اب تو حمزہ بھی یہ چاہتا ھے کہ حور کی پڑھائی مکمل ھوتے ہی دونوں کی شادی کر دیں گے
کیوں نہیں باجی
حور تو آپ ہی کی بچی ھے جب چاہیں بیاہ کر لے جائیں
ناہید بیگم نے اپنے دل کی بات کی جس پر صبا بیگم نے اپنی رضا مندی ظاہر کی جبکہ مزمل صاحب اچانک بولے
میں پہلے حور کی مرضی پوچھوں گآپھر آپ کو بتاتا ھوں
مزمل صاحب نے کہا تو ناہید بیگم اور صبا بیگم دونوں نے بھی حامی بھر لی
ارے مل لیا حمزہ سے
صبا بیگم حور اور حمزہ کو آ تے دیکھ کر بولیں
جی مل لیا اچھے سے
حمزہ جل کر بولآجبکہ حور مسکرا کر دوبارہ ناہید بیگم کے پاس بیٹھ گئی
اور سب آپس میں باتیں کرنے لگے اسی طرح رات کا کھانا کھا کر سب سونے کے لئے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح حور یونی جانے کے لئے تیار ہو کر باہر آئ اور ناشتہ کرنے لگی
بابا چلیں مجھے یونی چھوڑ دیں
ناشتے سے فارغ ہو کر حور اٹھتے ھوے بولی
حور آپ کے بابا ناشتہ کر رھے ھیں تو آج آپ حمزہ کے ساتھ یونی چلے جاؤ
صبا بیگم نے بہانے سے حور کو حمزہ کے ساتھ یونی بھیجھنا چاھا تاکہ حور حمزہ کے ساتھ اٹیچ ھو جائے
اوکے آ ئ ڈونٹ مائنڈ اٹ
چلیں حمزہ بھائی
حور کہ کر باہر نکل گئی جبکہ حمزہ بھی مزمل صاحب سے گاڑی کی چابی لیتے ھوئے باہر چل پڑا
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد جب سے حور کے گھر سے واپس آ یا تھا بے چین تھا کیوں رہ رہ کر اسے یہ بات ستا رہی تھی کہ حور اس لڑکے کے سامنے رھے گی اس سے باتیں کرے گی
وہ حور کو اپنی گندی نظروں سے دیکھے گا
کہیں وہ حور کے رشتے کے لئے تو نہیں
نہیں نہیں
نہیں حور تمہیں دیکھنے کا تم سے باتیں کرنے کا اور تمہارے ساتھ رہنے کا حق صرف میرا ھے اور یہ حق میں کسی اور کو کبھی نہیں دے سکتا
بس اب بہت ھو گیا اب تمہیں میرے پاس جلد از جلد آ نا ھو گا کیونکہ میں کوئی نقصان برداشت نہیں کر سکتا تم صرف میری ھو اور تمہیں میں اپنے پاس لا کر رھوں گا
اب تم سے کل ہی تفصیل سے ملاقات ھو گی
پھر احمد یہی سب سوچتے سوچتے نیند کی وادی میں اتر گیا
احمد ایسا تو کبھی بھی نہیں تھا مگر حور کے معاملے میں ایسا ھو گیا تھا محبت انسان کو واقع میں بہت بدل دیتی ھے کتنا حساس ھو جاتا ھے انسان اپنی محبت کے لئے
جیسے کہ احمد ھو گیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح احمد جلدی سے تیار ھوا اور گاڑی سٹارٹ کر کے یونی پہنچ گیا مگر وہاں حور کو حمزہ کے ساتھ دیکھ کر اس کا غصے دیکھنے کے قابل تھا
حور تو احمد کو مکمل اگنور کر کے یونی میں چلی گئی جبکہ احمد بھی گاڑی سے باہر نکلا اور یونی کے اندر چلا گیا
۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
یونی کیوں نہیں آئی تم
اگر نہیں آ نا تھا تو مجھے تو بتا دیتی تاکہ میں بھی چھٹی کر لیتی ویسے بھی پھپھو اور حمزہ بھائی آ ے ھوئے ھیں
میرا تو پہلے دل نہیں کر رہا تھا یونی
آج صلہ یونی نہیں آ ی تھی تو حور اکیلے وہاں کلاس میں بیٹھنے کے بجائے باہر نکل کر صلہ سے بات کر رہی تھی کہ اچانک کسی نے اسے ایک روم میں کھینچا اور اس کے منہ پر ھاتھ رکھ دیا تاکہ وہ چیخ نہ سکے
شش
آ واز نہ آئے تمہاری
بس جو میں پوچھ رہا ھوں صرف اس کآجواب دو
کون ھے وہ
جو تمہارے گھر آ یا ھے اور آج تمہیں یونی چھوڑنے آ یا
احمد حور کو دیوار کے ساتھ لگائے کھڑا تھا اور اس پر جھکا آ ہستہ آہستہ سے بول رھا تھآجبکہ حور کو آج سہی معنوں میں احمد سے خوف آ رہا تھا
وہ منہ پھٹ ضرور تھی مگر بے شرم نہیں
ایک غیر محرم اس کے اتنے قریب کھڑا اس کے منہ پر اپنا ھاتھ رکھے کھڑا تھآجبکہ دوسرے ھاتھ سے اس کے ھاتھوں کو پکڑ رکھا تھا
سرخ آ نکھوں کے ساتھ غصے سے حور کے کانوں کے پاس بول رھا تھا
اس سچویشن میں تو اچھے اچھوں کی بولتی بند ھو جائے وہ تو پھر بھی ایک نازک سی لڑکی تھی
حور آنکھیں پھاڑے احمد کی طرف دیکھ رہی تھی پھر احمد سے اپنے آپ کو چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی
آ ہ ھاں
زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ میں تمہیں ایسے نہیں چھوڑنے والا ھوں
جو پوچھا ھے اس کا سہی سہی جواب اور جاؤ یہاں سے
احمد نے اپنی پکڑ اور مضبوط کرتے ھوئے کہا تو نا چار حور کو ھاں میں سر ہلانآپڑا
ٹھیک ہے
اب میں ہاتھ ہٹانے والا ھوں تو کوئی ڈرامہ مت کرنا
ورنہ انجام بہت برا ھو گا
سمجھ آ ئ
احمد نے حور سے پوچھا تو اس نے ھاں میں سر ہلا دیا
گڈ گرل
ایسے ہی فرما برداری کیا کرو میری
زندگی سکون سے گزرے گی ہماری
اب بتاؤ کون ھے وہ
ک۔۔۔۔کزن
احمد نے اپنا ھاتھ حور کے منہ سے ہٹایا تو وہ ڈرتی ھوئی بولی
اچھا مطلب کزن برادر
رائٹ
احمد نے دانت پیستے ہوئے کہا تو حور نے غور سے احمد کی طرف دیکھا اور پھر بولی
جی
حمزہ بھائی
اچھی بات ھے کہ تم اسے بھائی سمجھتی ھو مگر ضروری نہیں کہ وہ بھی تمہیں بہن سمجھتا ھو اس لیے دوبارہ مجھے تم اس کے ساتھ نظر نہ آؤ
سمجھ آئی
اور بہت جلد آ رہا ھوں تمہارے گھر تمہارا رشتہ لینے
اس لئے جب تک ہماری شادی نہیں ھوتی تم اس سے ہی کیا ہر ایک مرد سے دور رہو گی
جاؤ اب
اس سے پہلے کہ کوئی آجائے
کیوں کہ میں تمہارے کردار کے بارے میں کوئی بات برداشت نہیں کر سکتا
احمد نے اپنی بات کہی اور حور کے ھاتھوں کو چھوڑ دیآجو کہ وہ کافی دیر سے پکڑ کر کھڑا تھا
حور نے بے یقینی سے احمد کی طرف دیکھا اور پھر بغیر کچھ بولے وہاں سے چلی گئی
اور پھر حور کے جاتے ہی احمد بھی یونی سے باہر نکل گیا
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔