خلیق انجم( دہلی)
’’ہر درد کی صدا میں شریکِ فغاں ہوں میں‘‘
صباؔ اکبرآبادی صاحب سے براہِ راست میرا کوئی تعارف نہیں ہے۔وہ ایک شاعر کی حیثیت سے میرے سامنے آئے اور میں نے ایک قاری کی حیثیت سے ان سے ملاقات کی اور اُن سے ادبی سطح کی اس ملاقات میں انسانی رشتوں کی گرم جوشی کا لطف آیا۔اب شاعری کے علاوہ اُن سے ملاقات کا امکان بھی نہیں کہ اگر کبھی اُن سے بالمشافہ ملاقات کا موقع ملتاتو شاید ایسے ہی یا اس سے بھی کچھ زیادہ گرم جوشی کا لطف آتا۔
فنکار جتنا جینوئنgenuineیعنی اصل یا حقیقی ہوگا۔ اس کی شخصیت اور اُس کے فن میں اتنا ہی تال میل زیادہ ہوگا۔صباؔاکبر آبادی کی غزلوں کے مطالعے سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میں ایک حقیقی شاعر کے کلام سے گزر رہا ہوں۔اس اعتبار سے میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ان کی شاعری میں ہمیں جو کچھ نظرآتا ہے وہ محض قدرتِ کلام کا ظہورنہیں بلکہ ان کی اپنی ذات کا عکس ہے۔ان کی شاعری کی دوسری اہم خصوصیت مجھے یہ نظرآئی کہ صباؔ ایک انفرادی لب و لہجے کے شاعر ہیں ۔آج کی غزل جس طرزِ بیان کا مطالبہ کرتی ہے،اُس کے بے شمار نمونے اس شاعری میں بکھرے ہوئے نظرآتے ہیں ،اس لیے اس طرزِ بیان کو انگیز کرلینا کچھ ایسا دشوار بھی نہیں لیکن عام مقبولیت کی سطح پر اس کا ایک دور رس نقصان فنکار کو یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنی تخلیق کو بکاؤ مال بھی بنانا چاہتاہے تو منڈی کی ضروریات اُس کی اُپچ پر حاوی ہوجاتی ہیں اور شاعر کی انفرادیت دب کر رہ جاتی ہے۔شکر ہے کہ صباؔ صاحب نے ایسا نہیں کیا جس کی وجہ سے اشعار میں اُن کا وہ انفرادی لب و لہجہ برقرار رہاجو ایک شاعر کو دوسرے شاعر سے ممیز کرتا ہے۔صباؔاکبرآبادی کی زبان انتہائی شستہ ،صاف،سلیس اور رواں ہے اور کیوں نہ ہوں میرؔ، غالبؔ اور نظیرؔ (نذیرؔ)سے لے کرسیمابؔ اکبرآبادی اور میکش اکبرآبادی کے شہر کا شاعر جو اپنی ادبی روایت سے رشتہ برقرار رکھے گا توکچھ ایسا ہی اسلوب لے کر سامنے آئے گا جو صباؔ کا ہے۔ زبان انتہائی سادہ اور سلیس۔ کلام میں عطف اور اِضافت کا استعمال آٹے میں نمک کے برابر۔ایہام تقریباً نہ ہونے کے برابر اور جہاں ہے اُس کی ضرورت اور حُسن کوبرقرار رکھے ہوئے ،تجربات و مشاہدات ،کیفیات اوراحساسات کے بیان کا اپنا ہی ایک انداز۔اُنھوں نے اپنے کلام کو زبردستی چٹ پٹا بنانے کی کوشش نہیں کی ۔چناں چہ اس طرزِ کلام کا شاعر ہی یہ شعر بھی کہہ سکتا ہے:
ہوس پرست ادیبوں پہ حد لگے کوئی
تباہ وہ کرتے ہیں لفظوں کی عصمتیں کیا کیا
دوسرے مصرعے کے آغاز میں تباہ کی جگہ خراب کا لفظ بھی آسکتا تھا۔پھر شاید یہ شعرفحاشی کی سرحدوں کو چھو لیتا۔پھر ایک زیریں لہر جو صفِ اوّل سے صفِ آخر تک ہر جگہ موجود ہے۔ وہ یہ ہے کہ زیادہ تر ایک خود کلامی کا سا انداز ہے۔ بیشتر مقامات پر ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنے آپ سے باتیں کررہے ہوں اور اگر کہیں اپنی ذات سے باہر تخاطب بھی ہے تو اس حسین انداز سے:
ہاتھوں کو ڈبو آئے ہو تم کس کے لہو میں
پہلے تو کبھی اتنا نہ تھا رنگِ حِنا تیز
اگر کبھی ہم اس شعر کے بارے میں سوچتے ہوئے دور تک پیچھے جائیں تو بین السطور میں میرؔ کا یہ مصرعہ بولتا ہوا صاف سنائی دیتا ہے:
اُس نے کل رو رو دیا ہاتھ کو دھوتے دھوتے
اب ذرا صبا صاحب کے یہاں کشمکشِ زیست کاپہلو بھی دیکھیے:
کیسے تعلقات کی زنجیر توڑ دوں
میں وہ سفینہ ہوں کہ جو لنگر میں قید ہوں
تیرے الطاف و عنایات کا رخ غیر کی سمت
میرے احساس و خیالات کا رخ تیری طرف
…………
درد دینے کے وہاں ساماں بہت
اور تڑپنے کی اجازت کم سے کم
…………
زندگی میں اکتاہٹ پیدا کرنے والی سب سے بڑی شے یکسانیت ہے۔ خواہ وہ خوشی ہی کیوں نہ ہو۔ یہ وہ نازک سا احساس ہے جو ہرایک کو محسوس نہیں ہوتا۔دیکھیے یہ شعر:
باہمی ربط میں رنجش بھی مزا دیتی ہے
بس محبت ہی محبت ہو ضروری تو نہیں
فانیؔ کا آئیڈیل موت تھالیکن اُس کی انَا کا تقاضا یہ تھا کہ اُس نے کہا:
موت ملے تو مفت نہ لوں
ہستی کی کیا ہستی ہے
زندگی کی کلفتوں سے گھبراکر انسان موت کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا ہے لیکن اِدھر دامنِ یوسف زلیخائے زیست میں بھی اُلجھا دکھائی دیتا ہے۔ صباؔ کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
مرنے کی خواہشوں میں بھی اُلجھے ہوئے ہیں ہم
ہے زندگی بھی اپنے لیے لازمی ابھی
چکبستؔ کا ایک شعر ہے:
الہٰی خیر ہو میں نے قفس میں خواب دیکھا ہے
کہ شمعِ صحنِ گلشن بن گیا ہے آشیاں میرا
اسی سے ملتی جلتی بات صباؔ نے بھی کہی ہے لیکن’’الہٰی خیر ہو‘‘ کے خوف سے مبرّا ہوکرکچھ اپنے ہی انداز میں اس طرح:
سوزِ دل سے گوشۂ تنہائی میں کیا فائدہ
اس طرح جلئے چراغِ رہ گزر ہوجائیے
عا لمیت نے پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں کے باشندوں کے پیروں میں ہجرتوں کی وہ بلیاں باندھی ہیں کہ اب اس کا کوئی اختتام نظر نہیں آتا۔اب اس موضوع پر صباؔ کو سنیے:
ابھی تو ایک وطن چھوڑ کر ہی نکلے ہیں
ہنوز دیکھنی باقی ہیں ہجرتیں کیا کیا
اب بھلا میں صباؔ کے اشعار پراپنی کیپشن لگالگا کر اس تحریر کے قاری کو کہاں تک بورکرتا جاؤں،اس لیے چند اشعار کے ساتھ قاری کو تنہا چھوڑتے ہوئے اپنی مداخلتِ بے جاکا سلسلہ بند کرتا ہوں ورنہ کہیں صباؔ اکبرآبادی کے قاری کو مجھ سے یہ شکایت نہ پیدا ہوجائے کہ تم نے صبا صاحب کے اشعار کو مکتب کا سبق بناکر کیوں رکھ دیا؟ اب ملاحظہ ہو آخر میں صباؔ کے مختلف رنگوں کے ساتھ چنداشعار متنوع مضامین کے ساتھ۔۔
پستی نے بلندی کو بنایا ہے حقیقت
یہ رفعتِ افلاک بھی محتاطِ زمیں ہے
کام آئے گی مزاجِ عشق کی آشفتگی
اور کچھ ہو یا نہ ہو ، ہنگامۂ محفل سہی
ہم بھی بندے ہیں ہمیں بھی مقدرت اتنی تو ہے
وہ خدا بن جائے جس کے سامنے سجدہ کریں
طاقتِ دیدار ظاہر اور آنکھوں کو یہ شوق
بس تمھیں دیکھا کریں، دیکھا کریں، دیکھا کریں
اور اسی غزل کا یہ شعر بھی دیکھئے۔
چاہتے یہ ہیں کہ راہِ زندگی ہموار ہو
سوچتے یہ ہیں کہ دنیا کو تہہ و با لا کریں
–
ازل سے آج تک سجدے کیے اور یہ نہیں سوچا
کسی کا آستاں کیوں ہو، کسی کا سنگِ در کیا ہے
…………
تیلیاں خون میں تَر دیکھیں قفس کی تو صباؔ
اپنی سوکھی ہوئی آنکھوں پہ میرا دھیان گیا
…………
جب دورِ بیخودی تھا تو مشکل نہ تھی کوئی
یہ عہدِ ہوش ہے تو کچھ آساں نہیں ہے اب
…………
حلق میں چبھ رہے ہیں کانٹے سے
لب پہ گلہائے تر کا قصّہ ہے
صبا اکبرآبادی کی شاعری کا جائزہ اگر سنجیدگی سے لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اُن کی شاعری میں وہ تجربات اورمشاہدات بھی موجود ہیں جن سے ہمارے بہت سے بزگ شعرا واقف بھی نہیں تھے اور یہ تجربہ اور مشاہدہ وقت سکھاتا ہے۔