دو تین دن میں وہ پھر نارمل ہوگئی تھی گھر کے سب لوگوں کے ساتھ باتیں کرتی، گھر کے کام کرتی اور کچھ ہی دن میں اسکے گھر پیارے، ننھے سے بھتیجے کی آمد ہوئی تو وہ بہت خوش اور مصروف ہوگئی تھی اسے پیارا سا کھلونا مل گیا تھا وہ سارا دن اسکی دیکھ بھال کرتی بھابی کے کام خود کرتی اسکی زندگی میں خوشیاں اسکے بھتیجے کے دنیا میں آتے ہی لوٹ آئی تھیں۔۔۔۔
وہ پھر سے پہلے کی طرح چہکنے لگی تھی۔۔۔۔۔۔
اسکے گھر میں پہلے بچے کی خوشی شاندار طریقے سے منانے کے لیے بھائی نے شاندار پارٹی رکھی تھی شبینہ نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیااور دل کھول کر شاپنگ کی تھی۔۔۔۔۔
*وہ پیارا سا سوفٹ میک اپ کیے جدید فیشن ہیئر سٹائل نازک سی بندیا، وائٹ میکسی اور وہائٹ سنڈریلا شوز پہنے۔۔۔۔کانوں میں زرقون ٹاپس ڈالے۔۔۔۔بہت ہی حسین لگ رہی تھی۔۔۔
کتنے لوگوں کی نظریں اس پر اٹھی تھیں۔۔۔۔پر وہ اپنی دنیا میں مگن لوگوں سے ملتی ہنستی بولتی رہی۔
فنکشن کے کچھ دن بعد اسکے لیے وقفے وقفے سے تین رشتے ایک ساتھ آگئے تھے جن میں سے دو رشتے مناسب ناہونے کی وجہ سے ٹال دیے گئے۔پر ایک رشتہ اسکے لیے بہتر تھا اس پر خاص غور کیا گیا۔وہ فیملی شبینہ کے بھائی کے دوست کی بیوی کا میکہ تھی۔ اسکے بھائی کے دوست نے جب اپنی بیوی کی خواھش شبینہ کے بھائی کو بتائی اور شبینہ کے لیے باقاعدہ رشتہ لانےکی اجازت چاہی تو شبینہ کے بھائی نے گھر آنے کی اجازت دے دی۔۔۔۔۔۔!
بھائی اپنے دوست کی وجہ سے مطمئن تھے پر وہ انکے سسرال کی فیملی کو نہیں جانتے تھےگھر پے پھر سے رشتے کا سلسلہ چل نکلا تھا اور وہ پھر سے سر پر دوپٹہ لیے لڑکے کی والدہ اور انکی تمام شادی شدہ بہنوں کے بیچ بیٹھی باری باری ان کے سوالوں کے جواب دے رہی تھی۔۔۔۔۔
لڑکے کی بڑی بہن شبینہ کو تقریب میں خود پسند کر کے یہاں تک آئی تھی تو شبینہ آج اتنی نروس نہیں تھی اور سب کے چہروں سے اسے لگ رہا تھا کے معملا اسکی طرف سے حل ہے پر لڑکے کے بارے میں اسے کوئی آئیڈیا نہیں تھا۔۔۔۔
شبینہ ان لوگوں کو پسند آگئی تھی۔۔۔۔۔
*اگلے ہفتے لڑکا دیکھنے جانے کی باتیں ہونے لگیں تھی۔۔۔۔۔اور اس بار گھر والوں کو لڑکا بھی پسند آگی۔انکے گھر کی حالت کچھ زیادہ اچھی نا تھی پر شبینہ کے ماں باپ کی راۓ تھی کے یہ سب بیٹیوں کے نصیب سے ہوتا ہے “اگر بیٹی کے نصیب میں تخت ہے تو وہ کسی غریب کو بھی بادشاه بنا سکتی ہے” اور اگر نہیں تو پھر “”بادشاہ کو بھی فقیر کر سکتی ہے”” اور ہم اپنی بیٹی کو اتنا جہیز دیں گے “” کہ ہماری بیٹی کے نصیب پر لوگ فخر کرے گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شبینہ کی امی نے دل سے دعا دی تھی بیٹی کو! “اللّه ہماری بیٹی کو برتنہ نصیب کرے””ماں باپ کی باتیں وہ کان لگاے سن رہی تھی وہ بہت خوش تھی پر اسنے اب تک لڑکے کو نا دیکھا تھا پر بھابھی نے اسے بتا دیا تھا لڑکا اچھا ہے کام بھی ٹھیک ہے گھر کے حالات بھی ٹھیک ہوجائیں گے ویسے بھی شادی سے پہلے گھر بنوانے کا ارادہ ہے انکا وہ بتا رہیں تھی۔۔۔۔۔
*اسکے دل میں پھر سے ایک میٹھے سے احساس نے جنم لیا تھا وہ بہت خوش رہنے لگی تھی، شبینہ کے سسرال والوں کا آنا جانا بڑھ گیا تھا وہ جب بھی آتیں اچانک بن بتاۓ آجاتیں تھی وہ جیسے بھی حال میں ہوتی سامنے آجاتی تھی کے بناوٹ اسے بھی پسند نہیں تھی
شبینہ کے گھر والوں کو اتنا موقع نہیں ملتا تھا کے وہ بھی انکے گھر آئیں جائیں ہر دو تین دن کے بعد وہ خود ہی آجاتیں اور پھر لمبے لمبے دسترخوان انکے لیے لگاے جاتے۔۔۔۔ شبینہ کے سسرال والوں کو شادی کی بہت جلدی تھی پر شبینہ کے گھر والے اتنی جلدی بیٹی کو رخصت نہیں کرنا چاہتے تھے کے پہلے ایک سال تک دیکھ پرکھ کر لیں آتے جاتے رہیں تو پھر شادی کردی جاۓ۔۔۔۔۔۔شبینہ کے سسرال والوں نے زور دیا تو شبینہ کے والد نے ہلکی پھلکی رسم کرنے کی اجازت دے دی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
شبینہ کے بھائیوں نے اسکی رسم دھوم دھام سے کرنے کا ارادہ کیا پر بڑوں نے انھیں سمجھایا کے شادی اتنی دھوم دھام سے کرے گے کے دنیا دیکھے گی پر منگنی نہیں صرف منہ میٹھا کر وایا جاۓ گا۔۔۔۔۔۔اسے سمپل طریقے سے ہونے دو۔۔۔۔۔۔
*شبینہ کی امی نے اسکی بھابھی کو ذمداری دی کے تم شبینہ کو تصویر دیکھا کر اسکی خوشی پوچھ لو وہ خوش تو ہے نا!!
شبینہ کی بھابھی نے اسے لڑکے کی پک دکھانے سے پہلے اسے بہت تنگ کیا تھا اور لڑکے کی تصویر کا بیک سائیڈ اسکی طرف کر کے کہنے لگی بلکل “مسٹر بین” لگ رہا ہے اتنی گھنی آئ برو ہے دیکھو تو زرا ناک تو دیکھو کتنی نوکیلی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اسنے جھاکنے کی کوشش کی تھی پر بھابی تھیں کے تصویر کا رخ اسکی طرف کر ہی نہیں رہیں تھی پھر اینڈ میں سنجیدہ سی کہنے لگیں بہت اچھا ہے جوڑی بہت اچھی لگے گی
شبینہ نے بھرم دکھایا تھا اور کہا جائیں مجھے نہیں دیکھنا اب۔۔۔۔۔۔۔
بھابھی نے کہا ٹھیک ہے بھئی نا دیکھو یہی رکھ کے جا رہی ہوں مجھے اور بھی کام ہیں۔۔۔۔۔۔۔
اسکی بھابھی نے تصویر اینولپ میں ڈال کے اسکے پاس رکھ دی اور کمرے سے چلی گئیں۔۔۔۔۔۔
بھابھی کے جاتے ہی اسنے جلدی سے لفافہ اٹھایا تو دروازے کے سائیڈ پے چھپی بھابھی نے مسکرا کے اسے دیکھا اور پھر سے اچانک بلند آواز میں چھیڑا۔۔۔۔۔
“”””یہ کیا ہو رہا ہےبھئی یہ کیا ہورہا ہے””””
“”وہ ایک دم کھبرا گئی تھی کچھ نہیں رکھ رہی تھی اٹھا کر””۔۔۔۔۔بھابھی ہنس دیں اور اسکا چہرہ شرم سے لال ہوگیا۔۔۔۔۔
*شبینہ کو وہ بہت اچھا لگا تھا اسکا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا جیسے وہ تصویر میں نہیں بلکہ سامنے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی آنکھوں نے ایک نئی زندگی کے خواب سجانا شروع کر دیے ۔۔
رات بھر وہ سو نا سکی تھی ایک عجیب سا احساس اسے کروٹیں بدلنے پے مجبور کر رہا تھا رات بھر وہ اسی کے بارے میں سوچتی رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
*آج صبح سے وہ ماسی بنی گھر کی ایک ایک چیز چمکانے میں لگی تھی آج اسکا منہ میٹھا کر وانے اسکے سسرال والے آرہے تھے۔۔۔۔۔
وہ الجھے سے بالوں کا جوڑا بناے رف سی حالت میں پودوں کی صفائی کر رہی تھی گھر بھر کو چمکانے میں اسے آدھے سے زیادہ دن لگ گیا تھا۔اسکی بڑی بہن بھی آگئی تھی وہ بھی اسکی مدد میں لگیں تھیں گھر میں اچھی خاصی چہل پہل مچ گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
باجی اور بھابھی نے اسکے لیے اچھے سے جوڑے کا انتخاب کیا تھا اور اسکی تیاری میں مدد کی لائٹ سا میک اپ سوفٹ لپسٹک اور بالوں کو سائیڈ پے لا کر کھلے چھوڑ دیا تھا ساتھ سر پے دوپٹہ پن سے سیٹ کیا تو امی اسکی بلائیں لینے لگیں
باہر بھائی نے کام سے بھابھی کو آواز دی تو بھابھی نے بھائی کو بھی اندر ہی بلا لیا شبینہ کے بھائی نے اپنی بہن کو دیکھ کر سر پے ہاتھ رکھا تو اسکی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے بھابھی نے اسے چپ کرانے کے لیے ڈرایا کے مسکارہ واٹرپروو نہیں ہے تو سب ہنس دیےتھے۔ رسم پر کچھ خاص چند رشتے داروں کو بلایا گیا تھا اور گھر میں ہی سمپل طریقے سے رسم کی تیاری کی گئی تھی۔۔۔۔۔۔
شبینہ کے سسرال والے آگئے تھے اور جینٹس کا انتظام چھت پے کیا گیا جب کے رسم نیچے بڑے سے ڈرائینگ روم میں خواتین نے انجام دی تھی شبینہ کو میٹھا پسند تو تھا پر ایک مٹھائی بھی وہ کبھی پوری نا کھا پاتی تھی مٹھائی پے مٹھائی ایک بعد کے ایک آکر اسے کھلا رہا تھا وہ ہر ایک کے بعد پانی سے مٹھائی کو نگل رہی تھی وہ چاہتی تھی کہ کہہ دے کہ بس میں اور نہیں کھا سکتی پر وہ نہیں کہہ سکتی تھی۔۔۔۔
*اسکی نندوں نے باری باری اسے پھولوں کے گہنے پہناے تھے اور لڑکے کی والدہ نے اسکے ہاتھ پر شگن کے کچھ پیسے رکھے تھے ۔شبینہ کی امی نے اپنی بیٹی کو بلکل دلہن کے جیسے روپ میں دیکھا تو وہ دوپٹے سے اپنے آنسو پوچھنے لگیں اچانک شبینہ کی نگاہ ان پر پڑی تو امی جان کی نم آنکھیں اسکی آنکھوں کے آنسو نا روک پائیں اور وہ بھی رونے لگی ایک بار جب وہ رونے لگتی تو پھر اچھے خاصے آنسو بہا کر ہی چپ ہوتی تھی اسکی آنکھوں سے مسکارہ بہنے لگا تھا جب پتا نہیں کس نے ٹشو سے اسکے میک اپ کو درست کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں موجود کسی بڑی بی نے دور سے اسے تسلی دی تھی کے بیٹا یہ تو صدیوں سے ریت چلی آرہی ہے کے بیٹی پالے کوئی اور لے کوئی جاۓ ہر لڑکی کو سہنا پڑھتا ہے اللّه تمہارے نصیب اچھے کرے۔۔
وہ نظریں جھکاے آنسو روکنے کی کوشش کر رہی تھی کے کسی نے ہنسانے کی کوشش کی تو پھر سب ہنس دیے۔۔۔۔۔۔
*رسم کے بعد امی اسکے کھانے پینے کا بہت خیال رکھنے لگیں تھیں کے یہ کھا لو وہ کھالو فروٹ کھاؤ ابھی کھا پی لو جتنا کھانا ہے یہی عمر ہوتی ہے جب طاقت بنتی ہے بعد میں زندگی میں مصروف ہوجاؤگی کام میں لگی رہو گی تو پھر کمزوری ہوجاۓ گی۔۔۔۔۔۔
شبینہ نے پیار سے کہا!مگر امی جیسے یہاں کھاتی ہوں ویسے ہی وہاں کھالوں گی میں کیوں شرماؤں گی بھلا۔۔۔۔۔۔
“ہاں جیسے ابھی کھاتی ہو چڑیا کی خوراک ویسے ہی کھانا امی نے طنزیہ کہا۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!
*وہ دن پے دن نکھرتی جا رہی تھی یہ اثر دل کے خوشگوار موسم کا اثر تھا۔۔۔۔۔۔۔جو اسکے چہرے سے جھلکنے لگا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔شادی کا وقت قریب آرھا تھا پر شبینہ نے لڑکے کے بارے میں جو کچھ بھی سنا تھا گھر والوں سے سنا تھا اسنے نا تصویر کے علاوہ اسے دیکھا تھا نا اسے کبھی کسی بھی طرح بات ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
نا ہی خود لڑکے نے کبھی کسی طرح شبینہ سے بات کرنے کی کوشش کی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شبینہ نے تو من ہی من میں صرف اسکی تصویر دیکھ کر ڈھیروں خواب سجا لیے تھے۔۔۔۔۔
چار ماہ میں شادی کا شور ہوا تو۔۔۔۔۔
اسکے گھر والوں میں شادی کو اعلی طریقے سے کرنے کی باتیں ہونے لگیں۔۔۔۔۔
اورشبینہ کی امی نے اپنی بیٹی کے لیے جہیز کی تیاری شروع کردی تھی۔۔۔۔۔۔۔
بہت ہی خوبصورت احساس تھا جو شبینہ کو اپنے حصار میں لیا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔!
اس میں لوگوں سے ملنے ہنسنے بولنے کا کونفیڈیٹ بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
اب وہ لوگوں کے کسی سوال کے ڈر سے نہیں چھپتی تھی گھر کے کام میں بڑھ چڑھ کے حصہ لینا ہنسی مذاق کرنا خود کی کیئر کرنا۔۔۔۔۔وہ زندگی کی طرف لوٹ آئی تھی۔۔۔۔۔۔
سب سے سُندر ملن کا سپنا
سب سے میٹھی کسک جیا کی
سب سےپیاری سجن کی گلیاں
سب س
وہ چھت پے کھڑی گیلے کپڑوں کو رسی پے ڈالتی ہوئی اپنی دھن میں کوئی پیارا سا گیت گنگنا رہی تھی
نیچے سے امی کی آواز آئ تو وہ دوڑ کے نیچے اتر آئ تھی۔۔۔۔
نیچے اسکی سہیلی “فائزہ ” کی امی آئ تھی اپنی بیٹی کی شادی کا کارڈ دینے وہ سن کر خوش ہوگئی تھی۔۔۔۔۔
“”آنٹی اتنی اچانک ابھی کچھ دن پہلے تو “فائزه “سے میری بات ہوئی تھی اس نے تو مجھے کچھ نہیں بتایا۔۔۔۔
“”ہاں بیٹا ہوا کچھ ایسا کے اچانک اچھا رشتہ آگیا انھیں جلدی تھی لڑکے کی بہن کی بھی شادی ہے تو انھوں نے ساتھ کرنے کی ضد کی۔۔۔اور آج کل اچھے (لڑکے) رشتے ملتے کہاں ہیں اسلئے بس اللّه کا نام لے کر ہاں کر دی۔۔۔۔۔۔
،،شبینہ کی والدہ نے بھی انکی بات سے اتفاق کیا تو وہ بھی شبینہ کے رشتے کے حوالے سے پوچھنے لگی۔۔۔۔۔
دونوں کے بیچ اب شبینہ کے رشتے کی بات ہونے لگی تو اسنے وہاں سے اٹھنا مناسب سمجھا اور سیدھے کچن میں چاۓ بنانے چلی گئی۔۔۔۔۔۔
،،،تھوڑی دیر میں وہ چاۓ اور سنیکس کے ساتھ واپس آئ تو اسکی سہیلی کی امی شادی پے آنے پے زور دے رہی تھیں۔۔۔
*اپنی سہیلی کو فون کر کے شبینہ نے اسکو مبارک باد دی اور ساتھ ہی اس نے ڈھیروں باتیں سنائی تھی
کسی دوست ہو تم مجھے چھوڑ کے جا رہی ہو۔۔۔۔۔اسنے خفا ہونے والے انداز میں کہا تو اسکی سہیلی فائزہ نے بھی معصومیت سے پلٹ کر کہا۔۔۔۔۔۔
“تم بھی تو جا رہی ہو کچھ وقت کے بعد۔۔۔۔۔تو پھر دونوں ہنس دیں فائزہ نے اسے اپنے ہونے والے ہسبنڈ کے بارے میں بہت کچھ بتایا تھا اسکی شادی بھی غیروں میں ہی ہورہی تھی پر دونوں کی فون پے باتیں ہوتی رہتی تھیں اس لیے وہ کافی ایک دوسرے کو جان گئے تھے۔۔۔۔
،،شبینہ کے پاس فائزہ کو بتانے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا نا اس کی کبھی اس لڑکے سے بات نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔۔
شبینہ نے فائزہ کو حسرت سے کہا فائزہ تم تو ابھی سے اپنے “انکی” دوست بن گئی ہو انکی پسند نا پسند سب جان گئیں میرا کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔شبینہ نے فکر مندی سے کہا۔۔۔۔۔۔۔
تو فائزہ نے اسے چھیڑا۔۔۔۔۔تمہارا کچھ ایسا ہوگا کہ! جب وہ جناب آپکے کمرے میں آئیں گے تو گلہ کھنکار کر تھوڑا شرما کر گھبرا کر آپکا گھونگٹ اٹھا کر۔۔۔۔۔ کہیں گے آداب میں سلیم۔۔۔۔۔۔۔ہاہاہا دونوں کھلکھلا کر ہنس دی۔۔۔۔
*وہ آئینے کے سامنے اپنے چہرے پر مہارت سے انگلیاں پھیرتی ہوئی کلینزنگ کر رہی تھی۔۔۔۔۔
آج اسکی سہیلی کی شادی تھی پیچ کلر کا پیارا نفیس سا جوڑا وہ خود ارجنٹ لے کر آئ تھی میچینگ چوڑیاں اور نازک سے جھمکے وہ دن میں کئی بار رات کی تیاری دیکھ چکی تھی ۔۔۔۔۔اور ساری چیزوں کو اپنے سامنے ترتیب سے رکھ کر تیاری میں مگن تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بہت خوش تھی کیوں کے اگلا نمبر بس اسکی شادی کا ہی تھا۔۔۔۔
اچانک ہی اسکے من میں خیال آیا تھا کے کافی دن سے اسکے سسرال کی طرف سے کوئی نہیں آیا پھر خیال جھٹک کر وہ سوچنے لگی کے آج تو میں انہی کے نام پر تیار ہو کر جاؤں گی ہاں مانا کے جب تک محبت سے دیکھنے والی نگاہ نا ہو شنگار ادھورا رہتا ہے۔۔۔۔۔پر کوئی بات نہیں میں سولہ شنگار اپنی شادی کے بعد ہی کر لوں گی مگر ابھی پندرہ شنگار تو لازمی کروں گی۔۔۔
،،بھابھی آپ بھی چلیں نا وہ بھابھی کو بھی ساتھ چلنے کا کہہ رہی تھی پر بھائی کے لیٹ آنے کی وجہ سے انھوں نے انکار کر دیا تھا۔۔۔نہیں امی اور تم چلی جاؤ میرا سچ میں دل نہیں کہیں جانے کا آج۔۔۔۔وہ بھابھی کی بات مان گئی تھی۔۔۔۔۔۔
*وہ شاور لے کر خوشی خوشی آئینے کے سامنے کھڑی میک اپ کرنا شروع ہوگئی تھی۔۔۔۔!
نفاست سے کیا گیا میک اپ، خوبصورت ڈریس، میچینگ چوڑیاں اسکے کانوں میں جھولتے جھمکے۔۔۔۔۔آنکھوں میں لگا کاجل اور ہونٹوں پے لگی پنک لپسٹک اور سب پر بھاری دل کا خوشگوار موسم اسکے حسن کو مکمل کر رہا تھا۔۔۔۔
ایک گھنٹہ لگا کے وہ اپنی مگن میں نیچے سیڑھیاں اترنے لگی تو بھابھی نے اسے اپر واپس جانے کو کہا پر ڈرائنگ روم سے اسے امی بابا جان کے علاوہ اسکے سسرال والوں کی آواز آرہی تھی ہمیشہ کی طرح وہ اچانک آگئے تھے پر اندر سے اسے عجیب گفتگو کی آوازیں آرہی تھی اسکی بھابھی نے پھر سے اپر کی طرف جانے کا کہا!پر شبینہ کےقدم اندر سے آنے والی آواز پر وہیں رک گئے تھے اسکے ہونے والے جیٹھ اسکے بابا سے معافی مانگ رہے تھے کے ہمم شرمندہ ہیں۔۔۔۔انکی والدہ کی رونے کی آواز آرہی تھی۔۔۔۔
وہ حیرانی سے بھابھی سے پوچھ رہی تھی کیا ہوا ہے۔۔۔۔بھابی اسے بہانے سے بار بار اپر جانے کا کہہ رہیں تھیں وہ کوئی چھوٹی بچی نا تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
“وہ سن چکی تھی کے وہ یہ رشتہ ختم کر رہے ہیں مگرکیوں! وہ سننا چاہتی تھی اسکے امی ابو خاموش تھے۔۔۔۔۔
“”بھابھی نے اسے وہاں سے ہاتھ پکڑ کر ہٹایا تو اس نے بھابی کا ہاتھ جھٹک دیا۔۔۔۔۔۔
“”ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کے ہم آپکی بیٹی کے ساتھ ایسا کریں گے ہمارے آگے بھی بچیاں ہیں خوف خدا ہمیں بھی ہے اگر وہ ہمیں بتا دیتا تو ہم ایسا نہیں کرتے پتا نہیں اسنے اتنا بڑا قدم کیسے اٹھایا جان سے مار بھی نہیں سکتے اسے بھائی ہے وہ چھوٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شبینہ کے جیٹھ نے ابو سے معذرت چاہی۔۔۔۔۔۔۔
لڑکے کی والدہ رو رہیں تھی مجھے آپ کی بچی بڑی پسند تھی پتا نہیں کہا سے وہ لڑکی پیچھے لگ گئی میرے بیٹے کے۔۔۔۔۔۔۔
“””چھپ کے نکاح کر آے دونوں۔۔۔””””
شبینہ کے دل کو کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا تھا وہ پیچھے ہٹ گئی تھی بھابھی نے اسے پکڑنا چاہا پر اسکی آنکھیں پل میں ویران کر دی گئیں تھیں اسنے خالی خالی آنکھوں سے بھابھی کو دیکھا اور خاموشی سے بھاری بھاری قدم اٹھاتی ہوئی اپر چلی گئی۔۔۔۔
کمرے میں آہستہ آہستہ قدم رکھتی ہوئی وہ بلکل خاموشی سے قدم بڑھاتی گئی اسکے کمرے میں تنہائی زلفیں بکھرای ماتم کدہ تھی پر بلکل خاموش تھی اسکی خاموشی کسی بڑے طوفان کے آنے کی خبر دے رہی تھی دوپٹہ اسکے شانے سے پھسل کے کارپیٹ پے گر گیا تھا وہ دوپٹے کو کچلتی ہوئی بیڈ کے کنارے ٹک گئی تھی اسکی آنکھیں بلکل خشک تھیں۔۔۔۔
بیڈ کے سامنے لگا بڑا سا آئنہ اسکی بےبسی پر کی تصویر کشی کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
بھابھی کمرے میں آ کر نا جانے اسے کیا کیا کہہ کر واپس نیچے چلی گئیں تھیں اسکی سماعت اس قابل نہیں تھی۔۔۔۔۔کہ وہ سن پاتی انکی بات۔۔۔۔۔
،،اسنے اپنے کان کے جھمکے ایک جھٹکے سے کھیچ کر دور پھینکے تھے اپنی کلائی سے اذیت ناک طریقے سے چوڑیاں اتار کر دور پھیک دی۔۔۔۔۔۔اسکا ہاتھ زخمی ہوگیا تھا پر “ٹھکراے” جانے کا درد ہر درد پے بھاری تھا۔۔۔۔۔
انکے جانے کہ بعد شبینہ کی امی بھابھی کے ساتھ اسکے کمرے میں اسکے پاس آئ تھیں۔۔۔۔
پورے فرش پے چوڑیاں بکھری پڑی تھیں اسکے ہاتھ پے گہرا کٹ لگنے کی وجہ سے خون کے کترے فرش پے گر رہے تھے اسکی بھابھی نے اپنے دوپٹے کو اسکے ہاتھ پے لپیٹا تھا۔۔۔۔
اسکی امی نے اسے گلے لگا کر کہا بس میری بچی بس۔۔۔۔۔میری بچی بہت بہادر ہے صبر کر شبینہ۔۔۔۔۔۔۔
شبینہ کی خشک آنکھوں سے آنسو بہتا ہوا اسکے گال کو بھگو گیا تھا۔۔۔۔
امی جان اپنے مجھےطاق رات میں جنم دیا تھا نا دیکھیں نا امی آپکی بیٹی بھی طاق رہ گئی۔۔۔۔
اسکی آنکھوں سےآنسو گرنے لگے۔۔
آپکی بیٹی منحوس ہے امی۔۔۔۔۔۔
مجھے سب ٹھکرا دیتے ہیں وہ تڑپ کے رو رہی تھی۔۔۔۔۔۔
امی میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے کیوں مجھے سب ٹھکرا دیتے ہیں۔۔۔۔بولیں نا امی جان۔۔۔وہ بے بسی سے چیخ رہی تھی۔۔۔۔۔
آپ مجھے تخت تو دے سکتی ہیں پر بخت نہیں۔۔۔۔۔۔آپکی بیٹی ہار گئی ہے آج۔۔۔۔۔۔۔۔
امی اپنے کیوں میری زندگی کو کسی مرد کہ محتاج کیا؟کیوں امی؟وہ ماں کے گلے سے لگی تڑپ کے رو رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے مجھے سب کچھ سکھایا پر بنا کسی مرد کے سہارے جینا کیوں نہیں سکھایا؟اپنے مجھے پڑھا لکھا کر بھی اس قابل نہیں بنایا کے میں خود کسی مرد کے سہارے کے بنا جی سکوں؟ اپنے بس مجھے ایک ہی خواب دکھایا شادی شادی شادی۔۔۔۔۔۔
میری زندگی کیوں ایک مرد کی محتاج ہے امی۔۔۔۔۔۔
میں منحوس ہونا بولیں نا امی۔۔۔۔۔
وہ ٹوٹ کے بکھر گئی تھی۔۔۔
اسکی امی اسے سینے سے لگائی خود بھی رو رہیں تھیں
بھابھی اسے صبر دلا رہی تھیں۔۔۔۔۔
بس کرو شبینہ ابو بہت پریشان ہیں تمہیں اسے دیکھیں گے تو انکی حالت خراب ہوجاۓ گی چپ ہوجاؤ نیچے آواز چلی جاۓ گی بھابی نے اسے ابو کا واسطہ دیا تھا۔۔۔۔
اسے امی دیر تک سمجھا تی رہیں تھی وہ بھوکی پیاسی اسے ہی سوگئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔شبینہ کی والدہ نے اسے کمبل اڑھا کر کمرے کی لائٹ بند کی تو شبینہ نے پھر سے اپنی آنکھیں کھول دیں اسے کیسے نیند آسکتی تھی پورے کمرے میں اسکے خواب کرچی کرچی بکھرے پڑے تھے۔۔۔۔۔۔
اسنے خود کو کمرے تک محدود کر لیا تھا نا ہنستی نا بولتی گھر میں رہ کر بھی وہ گھر میں نہیں رہتی تھی اسکی بڑی بہن نے اسکے پاس آکر اسے سمجھانا چاہا کہ “ہر کام کا ایک وقت لکھ دیا ہے اللّه نے” دیکھنا بہت جلد تمہیں تمہارا اصل حقدار مل جایگا بہت اچھا ہوا یہ سب ابھی پتا چل گیا اگر سب کچھ شادی کے بعد سامنے آتا تو۔۔۔۔۔تم کیا کرتیں۔۔۔۔۔
صبر کرو۔۔۔۔۔۔دعا کرو۔۔۔
اس طرح رہو گی تو لوگ کیا سوچے گے۔۔۔۔۔باجی کی تسلیوں سے وہ پھر سے رونے لگی تھی۔۔۔
اسنے آنسو روکنا چاہیے پر ناکام رہی ،،اب میں پہلے جیسی کبھی نہیں ہو سکتی باجی۔۔۔۔۔!
شبینہ کی آنکھوں سے روانی سے آنسو بہہ رہے تھے باجی آپکو پتا ہے ٹھکراے جانے کا احساس کیسا ہوتا ہے نہیں پتا نا آپکو۔۔۔
ٹھکرایا جانا بہت بڑی نحوست ھے۔۔۔،،نظر انداز ھونے والے نقطے پہ کھڑے ھو کر یوں محسوس ھوتا ھے کہ جیسے منزل اور واپسی کہ سارے راستے مفلوج ھو چکے ھیں۔اپنی خامیوں اور ناکامیوں کا احساس کاٹ کھانے کو دوڑتا ھے۔انسان خود اپنی نظر میں گر جاتا ھے،سوچنے لگ جاتا ھے کہ مجھ میں یہ ھوتا تو کوئی مجھے نا چھوڑتا،میں یہ نا ھوتا تو کوئی نا چھوڑتا۔بہت لمبا عرصہ یا شاید ایک ہنستی مسکراتی زندگی لگ جاتی ھے خود کو اپنی ھی نظر میں اھل ثابت کرنے کیلئے،نظر اٹھا کہ چلنے کیلئے یا تو مضبوط بننا پڑتا ھے یا پھر بے حس۔۔۔دونوں ھی صورتوں میں انسان بہت بدل جاتا ھے،اتنا کہ آنکھ اٹھا کر دیکھا جاۓ تو پہنچانا جا سکے!
میرے سارے جذبات مر چکے ہیں۔۔۔۔
یہ ایک جھٹکے میں نہیں میرے جذبات کا قتل بار بار کیا گیا ہے
میں اب کبھی کسی کی ہونا نہیں چاہتی میں پہلے جیسی سانسیں لے رہی تھی اب بھی ویسے ہی سانسیں چل رہی ہیں بس فرق اتنا ہے میرے جذبات مر چکے ہیں میری آنکھوں نے خواب سجانا چھوڑ دیے ہیں۔۔
میں نے اعتبار اعتماد سب کھو دیا ہے
میں تو اب بھی زندہ ہوں۔۔۔۔
پر بہت کچھ ختم ہوگیا میرا اعتبار اٹھ چکا ہے مردوں پے سے۔۔۔۔۔
اب میں کسی کو اپنی ذات کا مذاق بنانے نہیں دونگی۔۔۔۔۔
“”مرد اتنے بزدل ہوتے ہیں اسنے چھپ کے نکاح کیا کسی لڑکی سے وہ سب کو منا کر بھی تو کر سکتا تھا نکاح ایک پاکیزہ رشتہ ہے چوری تو نہیں جرم تو نہیں وہ دنیا کے سامنے بھی تو اس لڑکی سے نکاح کر سکتا تھا، وہ کتنا بے حس تھا باجی اسکے اندر یہ سب چلتا رہا اور دوسری طرف وہ مجھے خواب دیکھا رہا تھا۔۔۔۔
ایک مرد میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کے وہ اپنی ماں کو اپنی پسند بتا کر انھیں راضی کرلے۔۔۔
وہ یہ بات جب بتا رہا ہے جب شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔۔۔۔۔۔
کیا وہ مجھے اس حال تک پوھچا کر خوش رہ سکتا ہے۔۔۔۔
*وہ اپنے کمرے میں بیٹھی تھی کے اچانک عشاہ کی اذان کی آواز اسکے کانوں میں گونج اٹھی۔۔۔۔۔۔اللّه اکبر۔۔۔۔،،،
وہ اچانک اٹھی اور واش بیسن کے پاس کھڑی وضو کرنے لگی اسکی نظر شیشے پے پڑی اسکی آنکھیں مسلسل برسنے کی وجہ سے سوجھ گئیں تھیں۔۔۔۔اور آنکھوں میں لالی ٹھہر سی گئی تھی۔۔پھر سے اسکی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔۔۔۔۔۔
وہ دوپٹے کو اچھی طرح لپیٹ کر ہاتھ باندھے اللّه کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔۔
سوره فاتحہ پے ہی اسکی آنکھیں بھیگ گئی تھی۔۔۔۔سسکیاں لیتے ھوۓ اسنے روکوع میں سر جھکایا۔۔۔۔
وہ سجدے میں گئی تو اٹھنا بھول گئی اللّه کے آگے سسکتی رہی وہ چاہتی تھی اپنے من کی ہر بات اللّه سے کہہ دے پر ذبان سے اسکے ایک لفظ بھی ادا نہیں ہو پارھا تھا ۔اسکا دل اللّه سے مدد مانگ رہا تھا
اللّه تو دل کا حال جاننے والا ہے۔۔۔
میں تیری بنائی ہوئی بندی ہوں کونسی خطا ہے میری اللّه پاک اسکو معاف فرما دے۔۔۔۔۔تو نے ہی تو میری تقدیر قلم بند کی ہے مولا۔۔۔۔
میں تیری کمزور بندی ہوں۔۔۔۔۔
دنیا نے بار بار ٹھکرایا ہے۔۔
میری ذات میں کیا کمی ہے اللّه
تیری بندی تو عزت سے گھر بسانا چاہتی تھی اللّه میں نے تو کبھی عزت کو پامال نہیں کیا پھر کیوں ٹھوکر پے ٹھوکر لگتی ہے مجھے
اللّه تو میری مدد فرما مجھے حوصلہ دے میں بہت کمزور ہوں اسکا دل چیخ چیخ کر دعائیں کر رہا تھا۔۔۔۔
ہونٹوں سے تو بس سسکیاں رواں تھیں۔۔۔
وہ وہیں جانماز پے لیٹ کر سوگئی تھی۔۔