سبکتگین نے اپنے پہلے آردڑ سے ملنے والی ساری کمائی اپنی ماں کے ہاتھ پہ لا کر رکھی تھی۔
“بھائی! مجھے کیا کھلا رہے ہیں اب اس خوشی میں؟” شاہنواز ہر موقع پہ ان کے آس پاس ہی ہوتا تھا۔ اب بھی جان بوجھ کر للچائی نظروں سے ماں کی مٹھی میں دبے روپوں کو دیکھ رہا تھا۔
“خبردار جو اب کسی نے کچھ کھانے کی فرمائش کی۔ جو بھی چیز وہ بناتا ہے، اس میں سے تو آدھا تم ہی کھا جاتے ہو۔” سبکتگین کی بجائے فوزیہ نے جواب دیا اور ہاتھ میں دبے روپے دوپٹے کے پلو سے باندھنے لگیں۔
“صرف میں۔!!؟؟” جبکہ وہ تو اسی پہ اچھل پڑا تھا۔ اتنا بڑا الزام کیسے برداشت کرتا۔؟
“اس آدھے میں سے بھی آدھے سے زیادہ تو وہ آپ کی بھانجی اریبہ ٹھونس جاتی ہے۔ گھر پہ آؤں تو ابا جی اور ان کی لاڈلی بھتیجی اقدس آپا، بھائی کی بیکنگ سے چڑنے کے باوجود ان کی بنائی کوئی چیز نہ کھانا گناہ سمجھتے ہیں۔” وہ بلا رکے، بولے چلا جا رہا تھا۔ فوزیہ منھ پہ ہاتھ رکھے حق دق اسے سن رہی تھیں۔ جبکہ سبکتگین ہنسی دبانے کی کوشش میں دہرا ہو گیا تھا۔
“اور میں جو بھائی کا سب سے بڑا حمایتی اور طرف دار ہوں، مجھے تو چکھنے جتنا ہی میسر آتا ہے۔” آخر میں اس نے منھ بسورا۔
“ارے میرے ببر شیر۔!” سبکتگین نے بازو سے کھینچ کر اپنے ساتھ لگایا اور پچکارنے کے سے انداز میں بولا:
“تمھیں کس نے کہا تھا کہ ہم دونوں کی آپس کی بات کو اماں کے سامنے کرو؟ بھئی ہم دونوں کے معاملات میں کسی تیسرے کا کیا دخل؟ بھلے وہ اماں ہی ہوں۔” اس نے سر اٹھا کر چپکے سے ماں کو آنکھ ماری تھی۔
“آپ خود بھی تو ہر بات اماں سے کرتے ہیں، میں نے کر دی تو کیا ہوا؟”
“کیا میں نے ہم دونوں کی راز کی باتیں امں سے کہی ہیں؟” سبکتگین نے پوچھا، اس نے کچھ یاد کرکے نفی میں سر ہلایا تھا۔
“راز دو لوگوں کے درمیان ہوتا ہے، اس میں تیسرا شریک ہو جائے تو راز، راز نہیں رہتا۔ اب تم چلو میرے ساتھ اور بتاؤ مجھے کہ کیا کھانا ہے؟ کسی ہوٹل سے کھانا یا میرے ہاتھ سے بنی کوئی چیز؟” وہ اس کے کندھے پہ بازو دھرے اسے اماں کے کمرے سے باہر لے آیا تھا۔
“چاکلیٹ کپ کیک۔!” وہ جیسے پہلے سے ہی سوچے بیٹھا تھا۔
“ابھی چل کر بنانا شروع کریں؟” خوشی سے۔ چہکتے وہ جھٹکے سے اس سے الگ ہو کر جوش سے بولا تھا۔
“رات کو بنائیں گے، تاکہ اماں کی بھانجی اور ابا کی لاڈلی بھتیجی، تمھاری اقدس آپا کو نہ دینے پڑیں۔” اس کے کندھوں پہ ہاتھ رکھے، اس نے شاہنواز کی آنکھوں میں جھانکا جہاں اضطراب تھا۔
“پھر ایسے مجھے کھانے کا مزہ نہیں آئے گا بھائی!” وہ ٹھہر ٹھہر کر بولا تھا۔ سبکتگین جانتا تھا کہ وہ یہی کہے گا۔ کیونکہ ان کے گھروں میں اکیلے یا چھپ کر کچھ کھانے کا رواج نہیں تھا نہ ان کی ماؤں نے ایسی تربیت ہی کی تھی۔
“اور میں نے کپ کیک اسی لیے کہا کہ ایک ایک کیک سب کو دے کر جو بچے وہ سارے میرے۔!”
“ٹھیک ہے! لیکن کل بنائیں گے۔ کیونکہ ابھی کچھ سامان بھی لانا ہے بازار سے۔ ٹھیک ہے؟” دونوں بھائی ایک دوسرے سے باتیں کرتے فوزیہ کی نظروں سے اوجھل ہوئے تھے۔ ان کی باتیں وہ بخوبی سن چکی تھیں اور انھیں بجا طور پر اپنی تربیت پہ فخر ہوا تھا اور اللہ سے دعا کی تھی کہ
“وہ ان کے بچوں کو زمانے کے سرد و گرم سے محفوظ رکھے آمین۔” انھوں نے وقت دیکھا اور اٹھ کھڑی ہوئیں، بچوں کے ابا بس پہنچنے ہی والے تھے۔ سفر سے گھر آ کر وہ کھانا نہیں کھاتے تھے مگر چائے ضرور پیتے تھے اور وہ بھی خوب سارے لوازمات کے ساتھ۔ چائے کی تیاری کے ارادے سے ہی وہ کچن میں آئیں۔ فریج سے رولز اور سموسیاں نکال کر تلی تھیں اور میٹھے میں سبکتگین کی بنائی کوکیز بار رکھی تھیں۔
“یہ لڑکا بیکنگ سے باز نہیں آئے گا۔” شاہد نے ایک ٹکڑا پلیٹ میں رکھا تھا۔ تبصرہ کرنا نہیں بھولے تھے۔
“جیسے آپ اس کی بنائی چیزیں کھائے بغیر نہیں رہتے ایسے ہی وہ بھی بنائے بغیر نہیں رہتا۔” فوزیہ نے شاہنواز کی بات دہرائی تو وہ جھینپ سے گئے اور بات کو ہنسی میں اڑا دیا کیا کہتے؟ بقول پروین شاکر
؏ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
“گھر میں کھانے والے موجود ہیں تبھی تو اسے بھی اپنا شوق پورا کرنے کا موقع ملتا ہے” فوزیہ بیٹے کی زبردست حمایتی تھیں، یہ وہ اچھی طرح جانتے تھے۔
“اسے شہ دینے میں زیادہ ہاتھ تم دونوں بہنوں کا ہی ہے۔”انھوں نے بیوی کے ساتھ سالی کو بھی گھسیٹ لیا تھا۔
“اب یہ مت کہیے گا کہ سبکتگین کو غزنوی کی طرح پڑھ لکھ کر باہر کی کسی کمپنی میں ملازمت کی کوشش کرنی چاہیے۔” فوزیہ نے شازیہ کے بڑے بیٹے غزنوی کا ذکر کیا جو سبکتگین سے بس ایک سال ہی بڑا تھا اور پچھلے دو سال سے کینیڈا مقیم تھا۔ اس نے بھی ایم بی اے کیا تھا اور شاہد کے مطابق قسمت اچھی تھی کہ دوست کے توسط سے کینیڈا میں ملازمت کا موقع مل گیا تھا۔ اب بھی انھوں نے یہی بات دہرائی۔
“ایک میرا برخوردار ہے جس کا دوست بھی اسی جیسا، اسے بیکنگ کے لیے ہی مشورے اور نصیحتوں سے نوازتا رہتا ہے۔” کیک ختم کرکے چائے کی پیالی اٹھائی تھی۔
“ٹھیک کہا آپ نے، سبکتگین کا دوست بھی اسی جیسا ہے۔ اور اسی دوست کے توسط سے کل ہمارے بیٹے کو پہلا آرڈر ملا تھا۔”
“کیا؟؟” انھوں نے بمشکل ان کی بات ہضم کی تھی۔ چائے بھی پتھر کی طرح حلق سے نیچے نہیں اتر رہی تھی۔ فوزیہ کی زبانی تفصیل سن کر تو ان کا پارہ ہی ہائی ہو گیا۔
“دماغ خراب ہے اس لڑکے کا، اتنی اچھی نوکری ہے، ترقی کے بےشمار مواقع ہیں لیکن اسے شیف بننا ہے۔” چائے پینا ہی دشوار ہو گیا تھا۔ جبکہ فوزیہ نے خوب لطف لے کر اپنی چائے ختم کی تھی آج تو چائے بھی مزیدار بنی تھی۔
“کر تو رہا ہے نوکری اور کیا کرے؟” خالی پیالی میز پہ رکھتے وہ خم ٹھونک کر میدان میں اتریں، آخر کو بیٹے کے لیے مقدمہ لڑنا تھا۔
“نو سے پانچ والی نوکری کرتا رہے اور اپنی صلاحیتوں کو زنگ لگا دے، یہی چاہتے ہیں کیا آپ؟” ان کے لیے چائے دان سے چائے کی دوسری پیالی تیار کرکے انھیں دی، کیونکہ پہلی تو وہ غصے میں ٹھنڈی کر چکے تھے۔
“وہ بیکنگ کا شوق رکھتا ہے اور خدا کی قدرت دیکھیے کہ اس کے ہاتھ میں ذائقہ بھی ہے۔ آپ کو نجانے اس کے شوق سے کیا چڑ ہے؟” شاہد چائے پیتے انھیں سنے گئے۔
“آپ کی بات مان کر نوکری کر رہا ہے تو اب آپ بھی اس کی خواہش کو مان دیجیے اور کرنے دیں اسے جو وہ کرنا چاہتا ہے۔ اللہ کا شکر کیجئے کہ ہمارا بیٹا ہماری سنتا اور مانتا ہے، ہٹ دھرم اور ضدی ہوتا اور آپ کو منھ پھاڑ کر جواب دیتا تو کیا عزت رہ جاتی؟” اس سے زیادہ سننے کی ان میں تاب نہ تھی۔
“بس بس۔۔! مجھے زیادہ سبق مت پڑھاؤ۔ مجھے اچھی طرح پتا ہے کہ کب کیا کرنا ہے؟” خالی پیالی میز پر پٹختے انھوں نے کہا:
“اب صاف صاف الفاظ میں بتاؤ کہ کیا منوانے کے چکر میں ہو؟” ان کے پوچھنے پر وہ گڑبڑا کر رہ گئیں۔
“زیادہ بننے کی ضرورت نہیں ہے، شوہر ہوں تمھارا، تیس اکتیس سال کا ساتھ ہے ہمارا بیگم! رگ رگ سے واقف ہوں تمھاری۔ اتنا لیکچر اور فلسفہ تم اسی وقت جھاڑتی ہو جب کچھ منوانا ہوتا ہے۔ اب بولیے بیگم صاحبہ!” پلیٹ میں بچا سموسیوں کا چورا چن چن کر کھانے لگے، ایک گہری سانس بھر کر فوزیہ نے اوپر ہال کمرے میں شیلف اور اوون سیٹ کرنے کی بات چھیڑی۔
“گویا تم چاہتی ہو کہ میں اسے بیکری بنانے کی کھلی چھوٹ دے دوں؟ وہ گھر سے پہلے ہی نہیں نکلتا، اب اگر اوپری کمرے میں اس کی خواہش کے مطابق کچن سیٹ کروا دیا تب تو اس نے آفس بھی جانا چھوڑ دینا ہے۔” انھوں نے فوزیہ کو زبردست گھوری سے نوازا:
“نوکری چھوڑنے کا کس نے کہہ دیا آپ کو؟ وہ آفس سے آنے کے بعد وہاں کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔” فوزیہ کا جی چاہا اپنا سر پیٹ لیں۔
“آفس سے آ کر وہ آرام کرے گا یا ان سب فضولیات میں وقت برباد کرے گا۔؟”
“آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ کام اس نے کرنا ہے، تھکے گا یا وقت برباد کرے گا تو اپنا کرے گا۔ آپ سے یا مجھ سے شکایت نہیں کرے گا۔” وہ کبھی کبھی شوہر کی اس بلاوجہ کی ضد کرنے والی عادت سے عاجز آ جاتی تھیں۔
“تو یوں کہو نا کہ تم نے اور تمھارے چہیتے نے اپنی من مانی ہی کرنی ہے۔ جب سارا لائحہ عمل تم دونوں ماں بیٹا مل کر طے کر ہی چکے ہو تو مجھ سے پوچھ کر خانہ پری کرنے کی کیا ضرورت تھی؟” انھوں نے بچوں کی طرح منھ پھلایا تھا۔
“سربراہ آپ ہیں اور آپ کے نام کا خانہ آپ ہی کے دم قدم سے تو پر ہوتا ہے۔ اس لیے یہ خانہ پری بھی ضروری ہے۔” ان کے غصے، ان کی ناراضی کو خاطر میں لائے بغیر کہتے، فوزیہ برتن سمیٹ کر وہاں سے چلی گئیں۔ جاتے سمے آخری جملہ جو شاہد کے کانوں نے سنا وہ یہی تھا۔
“میں سبکتگین سے کہہ دوں گی کہ کل ہی مستری بلوا کر کام شروع کروا دے۔”
“ہونہہ! دونوں کا دماغ خراب ہو گیا ہے، خیر مجھے کیا۔” انھوں نے سر جھٹکا اور فیاض کے گھر جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے:
“میں فیاض کی طرف جا رہا ہوں، رات کا کھانا کھا کر ہی آؤں گا۔” فوزیہ کو اطلاع دے کر وہ باہر نکل گئے۔ فوزیہ جانتی تھیں کہ اب جب تک وہ اقدس کے ساتھ مل کر جلے دل کے پھپھولے نہیں پھوڑ لیتے، انھیں سکون نہیں ملے گا۔ اقدس بھی تو ان کی ہر بات پہ آمنا صدقنا کہتی تھی۔ ان کی ذہنی رو بھٹکی اور وہ سبکتگین اور اقدس کے متعلق سوچنے لگیں۔
“دونوں کا مزاج زمین آسمان جیسا تھا، خاص طور پر اقدس کو سبکتگین کے شوق، اس کے ابا جی کی طرح خاصے کھلتے تھے، کیسے نبھے گی دونوں کی؟” دونوں بہنیں بچپن سے ہی اپنی اپنی اولاد کو لے کر بہت کچھ سوچے ہوئے تھیں۔ باقی تو جو ہونا تھا سب قسمت کا کھیل تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
ایک بے حد مصروف اور تھکا دینے والا دن اپنے اختتام کو پہنچا تھا۔ اس نے اپنا کیبن لاک کیا اور آفس کی عمارت سے باہر نکلا۔ باہر نکلتے ہی ہوا کے سرد جھونکے نے اس کا استقبال کیا تھا۔ اس نے اپنی جیکٹ کے کالر کھڑے کیے تاکہ سردی سے بچاؤ ہو سکے۔ اسی وقت فون بجنے لگا۔ جیکٹ سے ہاتھ نکالنا موت لگ رہا تھا۔ اسے تو پاکستان میں اتنی سردی لگتی تھی، یہاں مونٹریال (کینیڈا) کی سردی تو ہڈیوں میں گودا جماتی تھی۔ نومبر کے ابتدائی دن تھے اور سرد ہوائیں چلنا شروع ہو گئی تھیں۔ اس سال تو اکتوبر میں ہونے والی غیر متوقع برفباری نے موسم کو مزید سرد کیا تھا۔ اس نے فون بجنے دیا۔ نمبر پہ سیٹ کی ہوئی مخصوص گھنٹی بتا چکی تھی کہ فون ردابہ کا ہی ہو گا۔
گاڑی میں بیٹھ کر، ہیٹر چلا کر، جیکٹ کی اندرونی جیب سے فون نکالا اور ردابہ کو فون ملایا:
“تمھیں معلوم ہے ردابہ اس وقت میں آفس سے نکلتا ہوں اور آفس سے پارکنگ ایریا تک آنے میں مجھے تین منٹ لگتے ہیں اور۔۔”
“اور سردی کی وجہ سے چونکہ تمھاری ٹانگیں برف ہو جاتی ہیں تو یہی تین منٹ چھ منٹ پہ محیط ہو جاتے ہیں۔” اس کی بات کاٹ کر ردابہ چڑ کر بولی تھی۔
“جب تمھیں پتا ہے کہ مجھے کتنی سردی لگتی ہے تو کیوں روزانہ اسی وقت فون کرتی ہو؟ جبکہ میں خود گاڑی میں بیٹھتے ہی تمھیں فون کرتا ہوں۔” ہیٹر سے گاڑی میں درجہ حرارت بہتر ہونے لگا تھا، اسے کچھ سکون آیا۔
“کیا میں نے کبھی تم سے یہ کہا کہ میں فون کر رہی تھی، تم نے اٹھایا کیوں نہیں؟ بات کیوں نہیں کی؟” وہ سوچ میں پڑ گیا، واقعی وہ صرف کال کرتی تھی، اس کے کال نہ لینے پہ کبھی برا نہیں مانتی تھی۔
“اچھا بابا! غلطی ہو گئی۔ معاف کر دو۔” اس نے اس کا مزاج برہم ہونے سے پہلے ہی معافی چاہی۔
“معافی ایک ہی شرط پہ ملے گی۔” وہ ترنگ میں آئی۔ اس کا ماتھا ٹھنکا، خدا جانے اب کیا منوائے گی۔
“ڈیڈی تم سے ملنا چاہتے ہیں۔” گاڑی سٹارٹ کرتے اس کے ہاتھ تھم گئے۔
“انکل کئی بار مجھ سے مل چکے ہیں، بلکہ پرسوں ہی تو میری ان سے ملاقات ہوئی تھی جب میں اور سفیر (ردابہ کا بڑا بھائی) ہوٹل میں تھے۔” وہ اس کی بات سمجھ نہیں پایا تھا۔
“تم ایک نمبر کے گھامڑ اور احمق ہو غزنوی! آخر کس نے تمھارا اتنا بھاری بھرکم اور حکمت و دانائی سے بھرا نام رکھا تھا؟”
“دیکھو لڑکی! اب تم مجھے بے عزت کر رہی ہو۔ مانا کہ تم سے محبت کرتا ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمھیں خود کو بےعزت کرنے کا سرٹیفکیٹ بھی دے چکا ہوں۔” گاڑی سٹارٹ کرتے وہ مصنوعی خفگی سے بولا۔
“میں نے ڈیڈی کو ہمارے بارے میں بتا دیا ہے۔ اسی لیے انھوں نے تمھیں آج رات کھانے پہ گھر بلایا ہے۔”
“اچھا تو یہ بات ہے۔” اس نے گہری سانس بھری۔ گویا حالات کا سامنا کرنے کی نوبت آ ہی گئی تھی۔
“رات کو ٹھیک 8 بجے گھر پہنچ جانا، سمجھے تم۔” وہ ہمیشہ اس پہ یونہی رعب جھاڑتی تھی۔
“مہربانی ہو گی اگر یہ بھی بتا دو کہ کپڑے کیسے اور کس رنگ کے پہنوں؟ کھانے کی میز پر پہلے کس ڈش کا انتخاب کروں اور مشروب کون سا پیوں؟” وہ بھی نان سٹاپ شروع ہوا جبکہ وہ اسے روکتی ہی رہ گئی۔۔
“اور دروازے سے اندر آتے وقت دایاں پاؤں اندر رکھوں یا بایاں؟”
“بہت بدتمیز ہو تم غزنوی! میں نے صرف اس لیے کہا تھا کہ ڈیڈی وقت کے بہت پابند ہیں، کہیں پہلا تاثر ہی خراب نہ ہو۔” ردابہ برا مان گئی تھی۔
“میں ان سے پہلی بار نہیں مل رہا، پچھلے ڈیڑھ سال سے جانتے ہیں وہ مجھے۔” اس کی باتوں کے چکر میں وہ اب تک گاڑی سٹارٹ نہیں کر پایا تھا۔
“لیکن میرے۔۔۔”
“اب بس۔! خبردار جو تم نے مجھے مزید کوئی سبق سکھایا۔ اب بند کرو فون۔ رات کو ملتے ہیں۔” اس کی مزید کوئی بات سنے بغیر غزنوی اب فون بند کر چکا تھا۔ تو بالآخر ردابہ نے کاشف مجید صاحب کو اپنے اور غزنوی کے بارے میں بتا ہی دیا تھا۔ خیر دیکھتے ہیں کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اس نے گاڑی پارکنگ ایریا سے بار نکالی۔ اس کا رخ اپنے اپارٹمنٹ کی طرف تھا۔ جہاں وہ اپنے دو دوستوں کے ساتھ رہتا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
سردیوں کی آمد تھی، اس سال تو نومبر ہی میں سرد ہوائیں چلنے لگی تھیں۔ فیاض آج پالک گوشت بنانے کی فرمائش کر گئے تھے۔ شازیہ نے پالک کا تھیلا سنبھالا اور بہن کے گھر چلی آئیں۔ کہ صحن میں بیٹھ کر بہن سے دو باتیں بھی کریں گی اور سبزی بھی بنا لیں گی۔
“اچھا تو پالک بنے گا آج۔” فوزیہ بھی پیاز اور لہسن کی ٹوکری لیے ان کے پاس آ گئیں۔ بلکہ پیاز ایک طرف رکھ کر ان کے ساتھ ہی پالک صاف کرنے لگیں۔
“اقدس کے بابا کہہ کر گئے ہیں کہ پالک بناؤں۔ بھلا ہو اس صبح سبزی والے کا جو پالک لے بھی آیا تھا۔” دونوں کتنی ہی دیر ادھر ادھر کی باتیں کیے گئی تھیں۔
“ارے یاد آیا۔!” شازیہ نے پالک کی گٹھی سی بنا کر ایک طرف رکھی، بعد میں ایک ساتھ کاٹنے کے لیے۔
“شاہد بھائی بتا رہے تھے کہ سبکتگین اوپر ہال کمرے میں کچن بنوا رہا ہے۔”
“صرف بتا رہے تھے یا در پردہ ہم ماں بیٹے کو سنا رہے تھے۔” فوزیہ نے مسکرا کر پوچھا تو وہ ہنس کر کہنے لگیں:
“سنا تو وہ اپنی چہیتی کو ہی رہے تھے، جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتی رہتی ہے۔ میں تو کچن میں تھی اس لیے زیادہ نہیں معلوم کہ اور کیا کہتے رہے، بس تھوڑی سی ہی بات سنی کہ:
“سخت نالاں ہیں وہ سبکتگین کے اس شوق سے۔۔ سارا دن عورتوں کی طرح کچن میں گھسا رہتا ہے۔”
“سارا دن کہاں۔۔ میرا بچہ جیسے آفس تو جاتا ہی نہیں۔۔ اور بھی گھر کے کتنے کام کرتا ہے، کسی معاملے میں شکایت کا موقع نہیں دیا کبھی۔ ان کے ابا پھر بھی خوش نہیں ہوتے۔” پالک صاف ہو چکی تھی۔ فوزیہ نے تاسف سے کہتے، لہسن اٹھایا۔
“خیر۔۔ ایک وقت آئے گا خود ہی مان جائیں گے۔ ویسے میں کل ایک بات سوچ رہی تھی شازیہ!” وہ رازداری سے کہتیں بہن کے قریب ہوئیں۔
“اقدس کے بارے میں کیا سوچا ہے تم نے؟”
“اقدس کے بارے میں۔۔؟” شازیہ نے اچنبھے سے بہن کو دیکھا، ان کے چہرے کے تاثرات جانچنے چاہے۔ جہاں کچھ بھی نیا نہیں تھا۔
“میں نے کیا سوچنا ہے بھلا؟ وہی جو برسوں سے ہمارے درمیان طے ہے، وہی سوچا ہوا ہے۔” پالک کاٹنے کے لیے چھری اٹھاتے وہ ایک دم جیسے کھٹکیں۔
“لیکن تم اچانک سے یہ سب کیوں پوچھ رہی ہو؟ کہیں تمھارا ارادہ تو نہیں بدل گیا؟” شازیہ نے ایک ہی سانس میں سب پوچھ لیا لیکن فوزیہ بے نیازی سے سر جھکائے لہسن چھیلتی رہیں۔ ان کی بےچینی کو خاطر میں لائے بغیر۔۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...