(Last Updated On: )
سب مایا ہے سب مایا ہے سب ڈھلتی پھرتی چھایا ہے اِس عشق میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا ہے
جو تُم نے کہا اور فیض نے جو فرمایا ہے سب مایا ہے سب مایا ہے
جب دیکھ لیا ہر شخص یہاں ہرجائی ہے اِس شہر سے دُور اِک کُٹیا ہم نے بنائی ہے
اور اُس کُٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے سب مایا ہے سب مایا ہے
جو لوگ اَبھی تک نام وفا کا لیتے ہیں وہ جان کے دھوکے کھاتے دھوکے دیتے ہیں
ہاں ٹھوک بجا کے ہم نے حکم لگایا ہے سب مایا ہے سب مایا ہے
وہ لڑکی بھی جو چاند نگر کی رانی تھی وہ جِس کی اَلڑ آنکھوں میں حیرانی تھی
آج اُس نے بھی یہی پیغام سنایا ہے سب مایا ہے سب مایا ہے
معلوم ہم میں سب قیس میاں کا قصہ بھی سب ایک سے ہیں یہ رَانجھا بھی یہ اِنشا بھی
فرہاد بھی جو اِک نہر سی کھود کے لایا ہے سب مایا ہے سب مایا ہے