بچپن کے تلخ تجربات اور صدمات کا اثر انسان کی باقی زندگی پر ہوتا ہے یہ ہم جانتے ہیں۔ مختلف تحقیقات سے یہ پتہ چلا ہے کہ بچپن میں بدسلوکی اور غفلت شکار افراد میں بقیہ زندگی کے اندر خودکشی کے امکانات عام آبادی سے تین گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ بچپن میں بدسلوکی کا شکار افراد کے اندر ڈپریشن کا شکار ہونے کے امکانات عام آبادی سے پچاس فیصد زیادہ ہوتے ہیں اور اس بیماری سے چھٹکارا پانے میں انکو بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔ یہ افراد دوسری بیماریوں مثلاً شیزوفرینیا، بائی پولر ڈس آرڈر، کھانے کی بیماریوں کا زیادہ شکار ہوتے ہیں اور ان میں منشیات و شراب نوشی کی طرف جانے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا ہوتا ہے لیکن یہ اس قدر عام ہے کہ ہم اکثر اس سوال کی کھوج لگانے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کچھ عرصہ تک ہونے والے واقعات اپنا اثر دہائیوں کے بعد دکھاتے ہیں۔ ایک جواب یہ ہوتا ہے کہ ایسے افراد ابتدائی عمر سے نفسیاتی طور پر تباہ ہوجاتے ہیں۔ مگر یہ جملہ کوئی وضاحت نہیں بلکہ ایک ڈسکرپشن ہے۔ ایک سائنسدان جب اس چیز کو دیکھتا ہے تو وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ آخر اس نفسیاتی تباہی کے پیچھے وہ کونسے مالیکیولر تبدیلیاں ہیں؟ بدسلوکی یا عدم توجہ کے شکار بچوں کے دماغ میں ایسا کیا ہوتا ہے جو انکو دہائیوں کے بعد بھی ذہنی مسائل کا شکار ہونے کے خطرے سے دوچار کردیتا ہے؟ دوسری فیلڈ کے لوگ اس کی مخالفت کرسکتے ہیں مثلاً ایک مذہبی انسان اس میں روح کا تصور لے آئیگا یا ایک فرائیڈ کا پیروکار سائیکی کی بات کریگا مگر ان تصورات کی کوئی فزیکل بنیاد نہیں یے۔ تو پھر مالیکیولر بنیاد کو تلاش کرنے کے علاوہ ہمارے پاس کیا بچتا ہے ؟
سائنس کے اندر ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ ہر نظر آنے والے واقعہ کے پیچھے فزیکل بنیاد موجود ہے۔ اس کیس میں ہمارا مفروضہ یہ ہے کہ ابتدائی بچپن کے تلخ تجربات مخصوص ڈیولپمنٹل دور کے اندر دماغ کے کسی فزیکل پہلو کو تبدیل کردیتے ہیں۔ جسکا نتیجہ ان بچوں میں مستقبل میں ذہنی مسائل کے امکانات میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ ایک میکانیاتی مگر نامکمل وضاحت ہے مگر آگے چل کر ہم ان خلاؤں کو پر کرنے کی کوشش کریں گے۔
میکانیاتی وضاحتیں اکثر معاشرے کے اندر بے چینی پیدا کرتی ہیں کیونکہ یہ بہت زیادہ تعینی لگتی ہیں۔ اسکو اکثر غلط طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ انسان روبوٹ ہے جسکو اسطرح پروگرام کیا گیا ہے کہ وہ خاص قسم کے محرکات کو ایک خاص طریقے سے ہی جواب دیتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے اگر ایک نظام اپنے اندر لچک رکھتا ہے تو ضروری نہیں کہ ہر محرک کا نتیجہ ایک ہی ہو، ضروری نہیں کہ ہر بدسلوکی و عدم توجہ کا شکار بچہ بڑا ہوکر ذہنی امراض کا شکار ہو۔ ایک نظام میکانیاتی بنیادیں رکھنے کے باوجود بھی غیر تعینی ہوسکتا ہے۔
ہمارے دماغ کے اندر ایک سو ارب نیورونز موجود ہیں ہر نیورونز ہزاروں دوسرے نیورونز کیساتھ ملکر تھری ڈی گرڈ بناتا ہے جسکے اندر ایک ہزار کھرب کنیکشن موجود ہوتے ہیں۔ اسکو تصور کرنا مشکل ہے لہذا اسکو اس مثال سے سمجھیں۔ ہر کنیکشن کو ہم ایک ڈسک فرض کرتے ہیں جسکی موٹائی ایک ملی میٹر ہے اب ان ہزار کھرب ڈسکس کو ایک دوسرے کے اوپر رکھنا شروع کریں تو یہ اتنی اونچائی تک جائینگی کہ سورج تک جاکر تین بار واپس آجائیں۔ یاد رہے سورج زمین سے ترانوے ملین میل کی دوری پر ہے۔ اتنے زیادہ کنیکشنز کے ساتھ دماغ ایک لچکدار نظام کے طور پر سامنے آتا ہے لیکن یہ کنیکشنز مکمل طور پر رینڈم نہیں ہوتے کچھ خاص قسم کے خلیات ایک خاص قسم کے خلیات کیساتھ ہی نیٹورک بناتے ہیں۔
آڈری ہیپ برن (مشہور اداکارہ) اپنی ساری زندگی صحت مسائل کا شکار رہی کیونکہ وہ ہالینڈ کی قحط زدہ سردیوں سے بچ جانے والوں بچوں میں سے ایک تھی۔ امپرنٹڈ جینز ڈیولپمنٹ کے ایک خاص وقت میں آف ہوگئے اور ساری زندگی اسی حالت میں رہے۔ ایپی جینیٹک ترامیم اسکے سب سے مظبوط امیدوار ہیں جو ان جینز کو اس حالت میں رکھ سکتے ہیں۔ ماہرین جو مفروضہ ٹیسٹ کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ ” ابتدائی عمر کے واقعات دماغ کے اندر جینز کے ایکسپریشن کو متاثر کرتے ہیں اور ایسا کرنے اور اسکو قائم رکھنے والے ایپی جینیٹک عوامل ہوتے ہیں، جین ایکسپریشن پیٹرنز کے اندر یہ تبدیلی ان افراد کو ذہنی مسائل کے خطرے سے دوچار کرتی ہے”. گزشتہ کچھ سالوں میں ہونے والی تحقیقات کا ڈیٹا اس مفروضہ کو مظبوط بناتا یے۔
ان تحقیقات کا بنیادی مرکز کورٹیسول نامی ہارمون ہے۔ یہ ہارمون سٹریس یعنی تناؤ کی حالت میں گردوں کے اوپر موجود ایڈرینل گلینڈز سے خارج ہوتا ہے۔ ہم جتنا زیادہ سٹریس یعنی تناؤ میں ہوتے ہیں اتنا زیادہ کورٹیسول خارج ہوتا ہے اور بچپن میں صدمات کا شکار لوگوں میں اسکی مقدار کئی دہائیوں کے بعد بھی عام افراد سے زائد ہوتی ہے۔ ذہنی امراض بھی کینسر کی طرح ہوتے ہیں، بہت سے عوامل کا اس میں کردار ہوتا ہے۔ دباؤ کی بڑھتی ہوئی سطح بچپن کے تلخ تجربات کے حامل افراد کو ان امراض کے نشانے پر لے آتی ہے۔
لیکن کورٹیسول کا یہ زیادہ ایکسپریشن کیوں ہوتا ہے۔ اسکی وجہ گردوں سے دور دماغ کے اندر ہونے والے واقعات ہیں۔ دماغ کے ایک حصے میں پیدا ہونے والے کیمیکلز دوسرے حصے پر اثرانداز ہوتے ہیں اور کوئی دوسرا کیمکل پیدا کرتے ہیں اور یہ عمل چلتا رہتا ہے۔ بالآخر ایک کیمیکل دماغ سے نکلتا ہے اور گردوں میں ایڈرینل گلینڈز کو پیغام دیتا ہے جسکے نتیجے میں کورٹیسول پیدا ہوتا ہے۔ بچپن میں ان افراد میں یہ چین بہت زیادہ فعال ہوتی ہے اور باقی زندگی میں بھی اکثریت کے اندر یہ فعال رہتی ہے جیساکہ وہ ابھی بھی اس تلخ ماحول میں موجود ہوں۔ یہ عمل دماغ کے ایک حصے “ہپوکیمپس” میں شروع ہوتا ہے جوکہ یونانی زبان سے ماخوذ ہے اسکا مطلب دریائی گھوڑا ہے۔ اس حصے کی شکل اسی جانور سے ملتی جلتی ہے۔
جسم میں سٹریس کے جواب میں ہپوکیمپس ایک اور حصے ہائپوتھیلامس کو پیغام دیتا ہے جو دو ہارمون، کورٹیکوٹروفن ریلیزنگ ہارمون اور آرجینین ویسوپریسن خارج کرتا ہے یہ دونوں ہارمون ایک اور حصے پچوٹری کو سگنل دیتے ہیں اور وہ اسکے جواب میں ایڈرینوکورٹیکوٹروفن ہارمون خارج کرتا ہے۔ یہ ہارمون خون میں شامل ہوجاتا ہے اور جب ایڈرینل خلیات اسکو جذب کرتے ہیں تو جواب میں کورٹیسول خارج کرتے ہیں۔ یہ کورٹیسول جسم میں موجود ہوتا ہے اور کچھ واپس دماغ تک بھی پہنچتا ہے۔ دماغ کہ یہ تینوں حصے اپنے ریسپٹرز کی مدد سے اسکی مقدار کا اندازہ لگاتے ہیں اور اسطرح سے یہ پوری چین آہستہ ہونا شرو ع ہو ہوجاتی ہے۔ ہپوکیمپس ماسٹر سوئچ ہے جو باقی سارے حصوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ ایک نیگیٹو فیڈ بیک سسٹم ہے جسکی مدد سے لگاتار سٹریس کو روکا جاتا ہے۔
لیکن بچپن میں بدسلوکی و تلخ تجربات کے حامل افراد میں ایسا نہیں ہوتا۔ اسکا مطلب ہے ان افراد میں یہ نظام صحیح کام نہیں کررہا۔ انکے اندر کورٹیسول کی پیداوار مسلسل جاری رہتی ہے۔ ایسا کئی تحقیقات میں سامنے آیا ہے۔ بہت سی تحقیقات میں اس قسم کے افراد کے اندر جب دماغ اور سپائنل کارڈ کےا ردگد موجود مائع کا تجزیہ کیا گیا تو اس میں کورٹیکوٹروفن ریلیزنگ ہارمون کی مقدار زیادہ تھی۔ انسانوں کے اندر اس پر تحقیق بہت مشکل ہے اور اس بارے ہمیں بڑی کامیابیاں جا نوروں کو بطور تجرباتی ماڈل استعمال کرکے ملی ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...