اٹھارہ سال پہلے
سب کچھ ٹھیک ہوگیا تھا۔عاریہ نے اپنی دوسری بیٹی کو جنم دیا تھا۔ یہ نو مہینہ چٹکی لگا کر اڑ گئے تھے اور ان نو مہینہ میں عاریہ بازل کے عشق پر ایمان لے آئی تھی۔ عاریہ آج بھی معمول کے مطابق بازل کا انتظار باہر کار پورچ میں کھڑی کر رہی تھی۔جب منہا بھاگتی ہوئی عاریہ کے پاس آئی اور عاریہ کا پاؤں پہسلا اور وہ کمر کے بل گر گئی اور درد سے بلبلا اٹھی۔ اسی وقت بازل کی گاڑی بھی پورچ میں داخل ہوئی اور سامنے والے منظر نے بازل کو ہولا دیا تھا۔ وہ عاریہ کی طرف تیزی سے بڑھا اور اسے باھوں میں اٹھاتا ہسپتال کی طرف پلٹ گیا اور پلٹتے ہوۓ بولا۔
منہا بیٹا بی جان کو بتا کے آؤ۔ بابا مما کو لے کر ہسپتال جا رہے ہیں۔ جلدی سے وہی آجائیں۔ بازل عاریہ کی حالت دیکھتے ہوئے مضطرب ہو رہا تھا۔ عاریہ بازل کی شرٹ کو سختی سے پکڑے ہوۓ رو رہی تھی۔
عاریہ پلیز رو مت۔ تم ٹھیک ہو۔ ہمارہ بچہ بھی ٹھیک ہے۔ پریشان مت ہو۔ بازل بہت محبت سے عاریہ کو تسلی دے رہا تھا جب کے اندر سے اسکا دل بھی ڈرا ہوا تھا۔ اگر اسکے بچے کو کچھ ہو جاتا تو وہ کس کو قصوروار کہتا؟ اپنی پانچ سال کی معصوم بچی کو یا اپنی محبوب بیوی کو؟ نہیں وہ تو کسی کو قصوروار نہیں گردان سکتا تھا۔ وہ ہسپتال پہنچ چکا تھا اور عاریہ کو آپریشن تھیٹر لے کے جایا گیا۔ جب ڈاکٹر آئی اور بولی۔
سر بہت بلیڈنگ ہو گئی ہے۔ آپکی وائف کی حالت خطرہ میں ہے پلیز دعا کریں۔ دوا کے ساتھ دعا کی بھی بہت ضرورت ہے انکو۔ ہم یا تو ماں کو بچا سکتے ہیں یا بچے کو۔ وہ اپنی بات کہتی واپس جا چکی تھی اور بازل سکتے کے عالم میں کھڑا اسکے کہے ہوئے الفاظ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ جب بی جان آئی اور اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔
کیا ہوا بازل عاریہ کیسی ہے اب۔ ڈاکٹر کیا کہہ رہے ہیں۔ اور یہاں بازل کا ضبط ٹوٹا اور وہ سینتیس سالہ مضبوط مرد بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔
بی جان یہ سب میرے ساتھ کیوں ہوتا ہے۔ زرا سی خوشیاں ملتی ہیں تو اسکے بعد ہی ایسے دکھ ملتے ہیں۔ جو اسی مقام پر لے آتے ہیں جہاں سے شروع کیا تھا۔ بی جان میں کیا کروں اسے کھونے کا ڈر ہی میری روح فنا کرنے لگتا ہے۔ مجھے لگتا ہے میں مر جاؤں گا اگر اسے کچھ ہو گیا تو۔ بی جان کیوں اللہ مجھے بار بار آزمائش میں ڈالتا ہے۔ میں کیسے پورا اترو گا۔ اس آزمائش میں۔ اللہ کیوں مجھے سکون نہیں دیتا بی جان۔ اللہ سے کہیں نا کہ عاریہ کو زندگی دے دیں بےشک میری زندگی لے لیں لیکن اسکو زندگی سے نواز دیں۔ بی جان اسکا چہرا صاف کرتے ہوئے بولی۔
بازل اللہ اسی کو آزمائش میں ڈالتا ہے جو اس رب العظیم کو پیارا ہوتا ہے۔ اللہ آپکو آزمائش میں ڈالتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ آپ بار بار اسے مانگیں۔ اس کے سامنے جائیں۔ اس سے فریاد کریں۔ اور سکون تو انسان کے اندر ہوتا ہے اسے ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ آپ خود بتائیں جب سے آپ اپنا انتقام لینے کیلئے پر تول رہے تھے۔ آپ نے نماز پڑھنا چھوڑ دی۔ تلاوت چھوڑ دی۔ اللہ سے دور ہوگئے تو بیٹا سکون کسے ملتا آپکو۔ اللہ نے آپ سے اپنی نعمتیں نہیں چھینی لیکن آپکو آزمائش میں ڈالا کے آپ اس کے پاس جائیں۔ آپ گئے؟ نہیں۔ آپکا سکون عاریہ کی محبت اسکی معافی میں تھا۔ آپکو وہ نہیں ملا کیونکہ آپ نے اپنے رب کی چاہت کو پورا نہیں کیا۔ اس رب العظیم کے فرض نہیں پورے کیئے۔ اس لیئے آپکی چاہت پوری نہیں ہوئی۔
آپ اس رب کی چاہت کو پورا کرنے لگ جائیں وہ آپکی چاہت پوری کرے گا۔ عاریہ کی زندگی چاہتے ہو اس رب سے مانگو جو زندگی اور موت کا مالک ہے۔ بی جان بہت پیار سے بازل کو سمجھا رہی تھی اور وہ سمجھ بھی رہا تھا۔
بی جان آپ سہی کہہ رہی ہیں میں نے اس سب میں اللہ کے احکامات کی پیروی نہیں کی تو مجھے سکون کیسے ملتا۔ اللہ نے تو مجھے بار بار بلایا لیکن میں نہیں گیا۔ اسکے رونے میں روانی آگئی تھی۔ وہ نم آنکھوں کے ساتھ اٹھا اور وہاں سے جانے لگا۔
کہاں جا رہے ہو بازل؟ بی جان اسے دیکھتی ہوئی بولی۔
اللہ کو منانے بی جان۔ اپنے رب سے اپنی محبت کی زندگی مانگنے۔اپنے گناہوں کی معافی مانگنے۔ بی جان اللہ معاف کردے گا نا؟ بازل آخر میں بی جان کی طرف پلٹتا ہوا پوچھنے لگا۔
ہاں بیٹا اللہ تو غفور و رحیم ہے۔ وہ معاف کردیتا ہے۔ اس کی صفات میں شامل ہے یہ۔وہ ایک آنسو کے بدلے سارے گناہ مٹا دیتا ہے۔اسے معافی مانگو تو اس یقین سے مانگنا کے وہ معاف کر دے گا پھر ان گناہوں کی طرف مت جانا بازل کیونکہ گناہ پیچھا نہیں چھوڑتے۔ بی جان اسے کہہ رہی تھی اور وہ اثبات میں سر ہلاتا چلا گیا اور بی جان نم آنکھوں سے مسکرا دی کیونکہ وہ جانتی تھیں کے اب بازل اللہ کو مانا کر ہی لوٹے گا۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
بازل منہا کو سلون سے پک کر کے میرج ہال لے آیا تھا۔ میرج ہال میں خوبصورت ڈیکوریشن کی ہوئی تھی۔ عاریہ لال کامدار سوٹ میں ملبوس تھی۔ سٹالش ہیئر سٹائل، خوبصورت میک اپ میں وہ کہیں سے بھی منہا اور ہانیہ کی ماں نہیں لگ رہی تھی ہاں تھوڑا بہت چینج جو عاریہ میں آیا تھا وہ یہ کے عاریہ کی ذات میں ٹھراؤ آگیا تھا۔ بازل سفید شلوار کمیز اور بھوری واسکٹ میں ملبوس تھا۔ پاؤں میں پشاوری چپل پہنے وہ بہت سوبر لگ رہا تھا۔ ہانیہ نے مہرون اور سکن کامبینیشن کا امبریڈرڈ ٹیل والا فراک پہنا ہوا تھا۔ ساتھ ہی سکن کلر کا کامدار ٹراؤزر اور شانے پر نیٹ کا ڈوپٹہ۔ میک اپ اسنے ہلکا کیا ہوا تھا لیکن لپ سٹک ڈیپ مہرون لگائی ہوئی تھی جو اسکے حسن میں چار چاند لگا رہی تھی۔ منہا سفید کامدار سوٹ میں ملبوس تھی۔ سر پر نفاست سے بھاری سفید دوپٹہ سیٹ کیا ہوا تھا۔ جس کی چاروں طرف لال دھاگے اور موتیوں کا کام ہوا تھا۔ نفاست سے کیا ہوا میک اپ، نازک ڈائمنڈ جیولری میں وہ واقعی ہی شہزادی لگ رہی تھی۔ جب وہ اپنے باپ کے ساتھ ہال میں داخل ہوئی تو ماشااللہ کی صدائیں گونج اٹھی اور ہانیہ بھاگتی ہوئی منہا کے پاس آئی اور اسکے گلے لگ گئی۔
آپیا میں آپکو مس کروں گی۔ ہانیہ جزبات سے چور لہجے میں کہہ رہی تھی۔
ہانی میرا نکاح ہو رہا ہے ابھی شادی تو نہیں جو تم ایسے رو رہی ہو۔ یار پلیز نہیں کرو سب دیکھ رہے ہیں۔ منہا خود بھی جزباتی ہو رہی تھی لیکن وہ خود کو کمپوز کرنا جانتی تھی جبکہ ہانیہ اس کے مقابل اکسپریسو تھی۔
آپیا آپ تو ابھی سے پرائی ہو گئی ہو۔ آپ مجھے روک رہی ہو آپکو مس کرنے سے۔ آپ ہانیہ بازل خان کو روک رہی ہیں۔ ہانیہ حیرت سے بولی۔ عاریہ جو اتنی دیر سے اپنی ڈرامہ کوین کو دیکھ رہی تھی نفی میں سر ہلاتی اسکے پاس آئی اور سب کے کان اسکے سامنے کھینچتے ہوئے بولی۔
مس ڈرامہ کوین کبھی تو موقعہ دیکھ لیا کرو۔ ہر جگہ شروع ہو جاتی ہو۔ عاریہ اسکو ڈانٹ رہی تھی۔
مما آپ تو مجھے میری ماں کم اور ہٹلر زیادہ لگتی ہیں۔ وہ روہانسی ہوتے ہوئے بولی جب سب کا ایک ساتھ قہقہ ابل پڑا۔
اور وہ منہ بناتی ہوئی اپنے باپ کے ساتھ لپٹ گئی اور لاڈ کرتے ہوۓ بولی۔
بابا آپ دیکھ رہے ہیں یہ ہٹلر کا فی میل ورثن کیسے مجھے سب کے سامنے ڈانٹ رہی ہیں۔ بازل ہنستے ہوئے اپنی شہزادی کو دیکھ رہا تھا۔
ہاں تو بیٹا آپ کیوں اسے کام کرتی ہو جس سے آپکو ڈانٹ پڑے۔ بازل اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئی بولا۔
بابا آپ بھی۔ ہانیہ حیران ہوتی اپنے باپ سے بولی۔ ایک دفعہ پھر سب کا قہقہ ایک ساتھ ہال میں گونجا۔ جب محسن بازل کے قریب آتے ہوئے بولا۔
بازل نکاح خواہ آگیا ہے آجاؤ نکاح شروع کرواتے ہیں۔ محسن بازل کو کہتے ہوئے واپس چلا گیا۔ منہا ایک سائیڈ سے بازل کا بازو پکڑے اور ایک سائیڈ سے عاریہ کا ہاتھ پکڑے چلتی ہوئی سٹیج تک آئی جس کے درمیان نیٹ کے پردے سے پورشن بنا گیا تھا جو نکاح ہونے تک رہنا تھا۔ ریعان جو کے عاریہ کا بھنجا اور ہونے والا داماد تھا اسکے ایک پار بیٹھا تھا۔ ریعان ایک خوبرو نوجوان تھا۔ جس کی نظر اس پر پڑ جاتی ہٹنا بھول جاتی تھی۔ ریعان کا ایک بھائی اور یک بھن تھی۔ ریعان کا بھائی اریعان ہانیہ سے چھ مہینہ بڑا تھا۔ اور ریعان کی بہن مزیشہ ابھی صرف تیرا سال کی تھی۔ نکاح شروع ہوا منہا کے قبول ہے کہنے پر ہر طرف ہوٹنگ شروع ہوگئی تھی۔ ہانیہ اور اریعان ہر جگہ بندروں کی طرح اچھل رہے تھے۔ ایک دوسرے کو چھیڑتے، سیلفیز لیتے وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت پیارے لگ رہے تھے۔ نکاح ہونے کے بعد بیچ میں سے پردہ ہٹا لیا گیا اور منہا اور ریعان کو ایک ساتھ بیٹھایا گیا۔ ریعان مہنا کو دیکھنے میں اتنا گم تھا کے اسے پتا ہی نہیں چلا کے کب ہانیہ نے اسکی ویڈیو بنا کر ساشل سائٹ فیس بک پر پوسٹ کر دی تھی۔
” ریعان بھائی آپیا کے حسن پر لٹو ”
جب اریعان نے یہ پوسٹ دیکھی تو اسنے بدلہ لینے کیلئے منہا کی پک کیپچر کر کے پوسٹ کر دی جس پر لکھا تھا۔
“منہا بھابی خوف سے بھاگنے کے قریب ”
اور ہانیہ کو خاص طور پر ٹیگ کیا تھا کہ دیکھ لو ہم بھی کسی سے کم نہیں اور ہانیہ کا تو پوسٹ دیکھتے ساتھ ہی غصہ آسمان پر پہنچ گیا اور وہ غصہ میں ہی اریعان کی طرف گئی اور اس کا فون چھین کر پوسٹ ڈلیٹ کی۔ اریعان شدشدر سا ہانیہ کو دیکھتا رہ گیا جو اسکا فون لے کر پوسٹ ڈیلیٹ کر گئی تھی اور وہ چپ چاپ تماشہ دیکھتا رہ گیا تھا۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
بازل جب اپنے رب سے معافی مانگ کر واپس آیا تو ڈاکٹر نے اسے ایک اور رحمت کی اور عاریہ کی زندگی کی نوید سنائی۔ بازل اپنی چھوٹی سی بیٹی کو بازؤں میں اٹھائے اسکو چومتے ہوۓ بولا۔
میری ہانیہ۔ میری جان. وہ محبت سے چور لہجے میں ہانیہ کا نام لے رہا تھا۔ جب منہا آئی اور بولی۔
بابا یہ ڈول ہے؟ وہ معصومیت سے پوچھ رہی تھی۔
ہاں بیٹا یہ ڈول ہے۔منہا کی ڈول منہا کی ہانی۔ بازل منہا کا ہاتھ ایک ہاتھ سے پکڑتے ہوئے بولا۔
واؤ میری ہانی۔ میری ڈول۔ بابا یہ میرے پاس ہی رہے گی نا ہمیشہ؟ میں اسکو کسی کو نہیں دوں گی ریعان کو بھی نہیں وہ بھی مجھے اپنا ڈوڈا( گوڈا یعنی اریعان،ریعان کا بھائی) نہیں دیتا۔ وہ آخری بات منہ بناتے ہوئے بولی تھی اور بازل بے ساختہ قہقہ لگاتا ہوا بولا۔
ہاں مت دینا کسی کو بھی۔ چلو آؤ اب مما سے ملنے چلتے ہیں آپکی۔ بازل اپنی دونوں بیٹیوں کو لیئے عاریہ کے کمرے میں داخل ہوا جو اسکو دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ تبھی منہا بھاگتی ہوئی عاریہ کے پاس آئی اور ہنستے ہوۓ خوشی سے بولی۔
مما یہ دیکھیں بابا کے پاس میری ڈول ہے۔ میری ہانی مما یہ میرے پاس ہی رہے گی۔ اب میں بھی ریعان کو نہیں دوں گی جیسے وہ مجھے نہیں دیتا اپنا ڈوڈا۔ منہا کے ڈوڈا کہنے پرعاریہ ہنس پڑی اور اسکا ماتھا چومتے ہوۓ بولی۔
ہاں بلکل یہ میری جان کی گڑیا ہے اور آپ سے اسکو کوئی بھی نہیں لے گا۔ تبھی منہا بولی۔
مما یہ ہانی بھی ہے۔ اور عاریہ ایک دفعہ پھر ہنس پڑی۔ جب بازل ہانیہ کو عاریہ کو دیتے ہوئے بولا۔
تھینک یو سو مچ عاریہ۔ میری زندگی کو اتنا خوبصورت بنانے کیلئے اور مجھے ان دو انمول تحفوں سے نوازنے کیلئے۔ بازل عاریہ کی پیشانی پر بوسہ دے رہا تھا جب منہا بولی۔
بابا اٹس آ بیڈ تھنگ۔ بازل عاریہ کو دیکھ رہا تھا جو کندھے اچکا گئی اور منہا بازل کو دیکھتی آنکھوں پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی۔ بازل منہا کی طرف آیا اور اسے اپنی گود میں اٹھاتا ہوا اسکے گال چومے جب وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
اور عاریہ ان دونوں کو دیکھتی ہوئی نم آنکھوں سے مسکرانے لگی اور دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کرنے لگی۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
منہا اٹھارہ سال کی تھی جب بازل نے عاریہ سے محسن کی خواہش کا زکر کیا اور عاریہ نے باخوشی محسن کی خواہش کا احترام کرتے ہوۓ ریعان کا پرپوزل قبول کر لیا۔ جب عاریہ نے منہا سے پوچھا تو اس نے بھی اپنی رضامندی ظاہر کی۔
مما جیسے بابا کو ٹھیک لگتا ہے کر لیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ عاریہ یہ کہتی نظریں جھکا گئی تھی۔ جب عاریہ اسکا ماتھا چومتی ہوئی بولی۔
مجھے پتا تھا تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ عاریہ منہا کے پاس سے اٹھ کر بازل کے پاس چلی گئی اسے یہ خوشخبری دینے۔ بازل یہ بات سنتے ہی منہا کے پاس آیا تھا اور با زاتِ خود منہا سے پوچھنے اور منہا نے بازل کو بھی وہی بتایا جو عاریہ کو۔ کچھ ہی دنوں میں منہا اور ریعان کی منگنی دھوم دھام سے کر دی گئی۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
منہا اور ریعان کے نکاح کے دن ہی ہانیہ اور اریعان کا رشتہ تہہ کر دیا گیا تھا اور ساتھ ہی منگنی کی رسم بھی۔ بازل اور عاریہ ایک ساتھ کھڑے اپنی بیٹیوں کو دیکھ رہے تھے اور خدا کا شکر ادا کر رہے تھے۔ ہانیہ تو اریعان کے پیچھے ہی پڑ گئی تھی کیونکہ اسکولائسنس جو مل گیا تھا اریعان کا خون پینے کا۔ اس بے اریعان کی بے تحاشہ پکچرز عجیب و غریب پوز کی کھینچ کر عجیب و غریب ناموں کے ساتھ پوسٹ کر رہی تھی اور ریعان بیچارے نے تنگ آکر اکاؤنٹ ہی بند کر دیا تھا۔ جب ہانیہ نے اسکا اکاؤنٹ بند دیکھا تو پوسٹس ڈیلیٹ کر دی اور اریعان کے پاس سوری کرنے چلی گئی اور اریعان جو پہلے سے ہانیہ پر فدا تھا اس ادا پر تو مر مٹا اور اسکی معافی قبول کرتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑتا سب کے پاس سٹیج پر لے آیا اور پھر انکی فیملی فوٹو سیشن سٹارٹ ہو گیا۔جس میں وہ سب ایک دوسرے کے ساتھ پکچرز کھینچوا رہے تھے اور آخر میں گروپ فوٹو لی گئی جس میں وہ سب ایک دوسرے کے ساتھ مکمل تھے اور یوں ہی ایک کہانی اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ بازل کے انتقام کا جنون اور عاریہ یعنی بازل کے عشق کا حصول۔ بازل نے دونوں حاصل کر لیئے تھے۔ عاریہ کی محبت جو کے سوگئی تھی جب جاگی تھی تو اسکی محبت کی شدت اور بڑھ گئی تھی۔ عاریہ اور بازل جب بھی ماضی کو یاد کرتے تو افسردہ ہو جاتے کتنا کچھ دیکھا تھا انہوں نے لیکن پھر جب اپنی بیٹیوں کو دیکھتے تو افسردگی خوشی میں بدل جاتی۔ کہانی کی ابتداء بےشک تکلیفوں سے ہوئی ہو لیکن اختتام ہمیشہ خوشیوں سے ہوتا ہے۔ عاریہ اور بازل کی کہانی کی شروعات بھی ایسی ہی ہوئی تھی تکلیفوں بھری لیکن اختتام خوشیوں سے بھر پور تھا۔
ختم شدہ
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...