وقت کی رفتار اچانک ہی نہایت مدھم ہوگئی تھی گھڑی کی سوئیاں گھسٹ گھسٹ کر اپنا سفر طے کر رہی تھی ۔۔
"پلوشہ تم گھر چلی جاؤ تمھاری طبیعت بھی ٹھیک نہیں” جمال کی ماما نے اس سے کہا
اس نےگردن ہلا کے وہاں سے جانے سے انکار کردیا ان میں سے کوئی بھی وہاں سے جانے کے لیے تیار نا تھا ۔۔
سب ہی آنے والے وقت سے خوف زدہ تھے اور بار بار شیشے سے جمال کو دیکھ رہے تھے ۔۔
یک دم ڈاکٹروں اور نرسوں کی آمدورفت اس کے کمرے میں بڑھ گئی ۔۔
وہ لوگ بھی اٹھ کے کھڑے ہوگئے سب کے دل انجانے خوف سے لرز رہے تھے ۔۔
ڈاکٹر کے باہر آتے ہی وہ سب تیزی سے اس کی طرف بڑھے
"کیا ہوا ڈاکٹر؟ جمال ٹھیک تو ہے نا ؟؟
‘آئی ایم سو سوری ہم مریض کو نہیں بچا سکے” ڈاکٹر نے دنیا کے اذیت ناک الفاظ ادا کیے اور ان کو تسلی دیتے ہوئے وہاں سے چل دیا ۔۔
پلوشہ کا جسم یہ سن کر کرسی پہ بری طرح اچھلا اور اس کے حلق سے دبی دبی چیخیں نکلنے لگیں ۔۔
"کیا ہوا پلوشہ؟؟ وہ اسے جگانے کی کوشش کرنے لگیں
پلوشہ نے آنکھیں کھول دیں اس کا چہرہ آنسوؤں میں بھیگا ہوا تھا ۔۔
"یا خدایا !! شکر ہے کہ یہ حقیقت نہیں ” اس کا جسم واضح طور پہ کپکپا رہا تھا۔۔
بند آنکھوں سے دیکھے گئے منظر نے اسے لرزا کہ رکھ دیا تھا ۔۔۔
یک دم ڈاکٹروں اور نرسوں کی آمدورفت اس کے کمرے کے باہر بڑھ گئی ۔۔
وہ لوگ بھی اٹھ کے کھڑے ہوگئے سب کے دل انجانے خوف سے لرز رہے تھے ۔۔
ڈاکٹر کے باہر آتے ہی وہ سب تیزی سے اس کی طرف بڑھے
"کیا ہوا ڈاکٹر؟ جمال ٹھیک تو ہے نا ؟؟
یہ سارا منظر پلوشہ تھوڑی دیر پہلے بند آنکھوں سے دیکھ چکی تھی ۔۔
وہ بھاگ کے ڈاکٹر کے پاس جانا چاہتی تھی لیکن اس کے جسم نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔۔
سب کچھ جیسے سلوموشن میں ہورہا تھا اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگنے لگا اس دھند میں سب کچھ دھندلانے سا لگا تھا۔۔
وہ سانس روکے سب دیکھ رہی تھی اس کے وجود میں خاموشی بڑھتی جارہی تھی اپنی دھڑکن تک اسے اپنے کانوں میں صاف سنائی دے رہی تھی ۔۔
"تم کو کیا ہوا؟؟ اس کی ساس نے اس کے پیلے پڑتے چہرے کی طرف دیکھا۔۔
ڈاکٹر۔۔۔ نے کیا……؟؟ وہ بمشکل ادھورا جملہ بول کہ ان کا چہرہ تکنے لگی ۔۔
جان کنی کا عالم کیا ہوتا ہوگا اس کو اس کا ابھی بخوبی احساس ہو رہا تھا۔۔
"جمال کسی حد تک خطرے سے باہر ہے اب اسکے ہوش میں آنے کے بعد ہی صحیح اندازہ ہو سکے گا” انھوں نے اسے تفصیل بتائی۔۔
پلوشہ لڑکھڑاتے ہوئے سامنے کی دیوار تک گئ اور سجدے میں گر گئی فرش اس کے آنسوؤں سے تر ہونے لگا۔۔۔
دونوں نے آگے بڑھ کر اسے اٹھایا وہ تینوں ہی رو رہے تھے ۔ جمال کی ان تینوں کی زندگی میں اپنی ایک الگ اہمیت تھی ۔۔
"میں اپنی ہر غلطی کا ازالہ کر دوں گا” جمال کے ڈیڈ بھیگے ہوئے چہرے کے ساتھ کہہ رہے تھے۔۔
"اس کی ہر خوشی اسے لوٹا دیں آپ لوگ میرے بچے نے بہت تکلیف کاٹی ہے ” اس کی ماما نے امید بھری نظروں کی طرف دیکھا۔۔
"ہاں ! میں خود حسینہ کو لے کر آؤں گی ” پلوشہ نے ایک عزم سے کہا
"ہاں میں بھی ساتھ چلوں گا تمہارے” سب بےقراری سے صبح کے ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سب کی زندگی میں آنے والی ایک کالی رات تھی جو ان سب کی بنیادیں ہی ہلا گئی تھیں ۔۔
کیا قیمتی چیز کھونے سے بچ گئی تھی اس کا ادراک ان کو کل ہی ہوا۔۔
سب اپنی اپنی جگہ جمال اور حسینہ کے مجرم تھے کسی نے سازشوں کے جال بنے تو کوئی چپ کی مہر ہونٹوں پہ لگائے تماشا ہی دیکھتا رہا۔۔۔
صبح جمال کا ہوش آنے لگا تھا لیکن مکمل طور پہ وہ ابھی ہوش میں نہیں آیا تھا۔۔۔
پلوشہ اور جمال کے ڈیڈ حسینہ کے بوتیک پہ پہنچے تو اندر پہنچے ۔۔
حسینہ نے ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھا تو ساری گتھیاں خود بخود ہی سلجھ گئیں ۔۔
جمال کا اچانک اس کو ڈھونڈ لینا کا سبب وہ جان چکی تھی۔۔
” جی !! کیا کر سکتی ہوں میں آپ لوگوں کے لیے” وہ ٹھنڈے لہجے میں بولی
"بیٹی ہمارے ساتھ چلو جمال کو تمھاری ضرورت ہے” وہ التجائیہ انداز میں بولے ۔۔
"جمال کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے آپ ہمارے ساتھ چلیں” پلوشہ نے وضاحت کی
"کس حثیت اور رشتے سے آپ لوگ مجھے لینے آئے ہیں” اس نے پوچھا۔۔
‘تم آج بھی اس کی بیوی ہو میں اپنی رچائی ہر سازش کے لیے ہاتھ جوڑ کہ تم سے معافی مانگتا ہوں . جمال نے تم کو وہ پیپرز نہیں بھیجے تھے” انھوں نے شرمندہ لہجے میں اصل حقیقت سے اسے آگاہ کیا۔۔
حسینہ پلکیں جھپک جھپک کے آنسوؤں کو اپنے اندر اتارنے لگی ان کے سامنے رو کے وہ خود کو کمزور نہیں ثابت کرنا چاہتی تھی ۔۔
"ابھی تو میں نہیں چل سکتی میں آپ لوگوں کے ساتھ آپ مجھے اسپتال کی تفصیلات بتا دیں میں خود آجاؤں گی” اس نے نہایت تحمل سے جواب دیا۔۔
"آجانا بیٹی تمھاری ضرورت ہے ہمیں ” جمال کے ڈیڈی نے آگے بڑھ کے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا ۔۔
حسینہ نے اثبات میں سر ہلا دیا ان کے رخصت ہونے کے بعد وہ وہیں زمین پہ بیٹھتی چلی گئی اسکا دل کیا کہ وہ اتنے زور زور سے روئے کہ سب کی سماعتوں تک اس کی چیخیں جا پہنچیں ۔۔۔
اپنی زندگی کا بیشتر وقت ان لوگوں کی سازشوں کی نذر ہوگیا تھا ۔۔
جو وقت وہ حسین ترین گزار سکتی تھی ان کی مہربانیوں کے طفیل وہ وقت کانٹوں پہ گزرا تھا۔۔
حسینہ نے کال کرکے اپنی معاون ساتھی کو کال کرکے بلایا تاکہ وہ اس کی غیر موجودگی میں سارے معاملات دیکھ لے۔۔
وہ گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی دل و دماغ ایک نقطے پہ اتفاق نہیں کرپا رہے تھے..
ان ہی سوچوں میں گم وہ اپنے گھر تک پہنچ گئی۔ بے وقت اسے گھر پہ دیکھ کے سب ہی چونک پڑے تھے ۔۔
آج کل ایک شخص جوکہ ان کے جاننے والے تھے ان کے رشتے کی بات گھر میں چل رہی تھی۔۔
وہ ایک دردمند دل کے انسان تھے اور وہ حسینہ کے ساتھ اس کے بچوں کو بھی اپنانے کے لیے تیار تھے مگر وہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی انکار کر رہی تھی ۔
سب کے سمجھانے پہ وہ نیم رضامند ہو ہی گئی تھی ۔۔
” خدایا تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے ہے کہ تو نے مجھے بچائے رکھا” جمال کے نکاح میں وہ اب تک تھی اگر کہ زندگی کے کسی کمزور لمحے میں وہ ڈگمگا جاتی کسی اور کا ہاتھ تھام لیتی تو کیا ہوتا ۔۔
اسکی سوچ اس سے آگے جا کے رکنے لگی تھی ۔
وہ آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو رگڑ کے اٹھی اور چادر لے کے اسپتال کے لیے نکلنے لگی۔۔۔
چھوٹا زرک اسے جاتے دیکھ کر اس کی چادر سے لپٹ گیا۔۔
"امی میں نے بھی جانا ہے مجھے بھی ساتھ لے چلیں ” وہ ضدی لہجے میں بولا
حسینہ نے اسے جھک کے پیار کیا وہ شکل اور عادتوں دونوں میں جمال کی طرح تھا ۔۔
اس کی طبیعت میں باپ جیسی ہی ضد تھی ۔۔
اس کو اب چھوڑ کے جاتی تو وہ پیچھے بڑا واویلا کرتا ۔
اس نے کچھ سوچا اور پھر اسے جھک کے گود میں اٹھا لیا ۔۔
اب وہ اسے بھی اپنے ساتھ لے جانے لگی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمال اب کسی حد تک ہوش میں آچکا تھا ڈاکٹر معائنہ کر کے ابھی گئے تھے ۔۔
کمر کی ہڈی پہ چوٹ کے باعث اسے اب لمبے عرصے تک علاج کروانا تھا۔۔
پلوشہ اسے اپنے ہاتھوں سے دلیہ کھلا رہی تھی کہ اور اس کے والدین اس کمرے میں ہی موجود تھے ۔۔
پلوشہ بار بار کمرے میں لگی گھڑی کی طرف دیکھ رہی تھی ۔گزرتا وقت حسینہ کے آنے کے امکان کو کم کرتا جا رہا تھا۔۔
اس ہی پل دروازہ کھلا اور حسینہ اندر آگئی ۔۔
جمال نے دائیں طرف دروازے کی طرف بمشکل گردن موڑ کے دیکھی تو اسے اس منظر پہ یقین نا آیا ۔۔
وہ دونوں ہی ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے وہ دوڑ کر اس فاصلے کو سمیٹ لینا چاہتا تھا لیکن جسم پہ لگی ان گنت چوٹییں ابھی اس کی اجازت نہیں دے رہیں تھیں ۔۔
حسینہ اس کے بستر کے پاس کھڑی ہو گئی تھی اس ہی پل زرک نے اس کی چادر کھینچی جو کہ اجنبی جگہ آکر ماں کے پیچھے چھپا ہواتھا ۔۔
حسینہ نے اسے ہاتھ پکڑ کے اپنے ساتھ کھڑا کیا سوائے پلوشہ کے سب کو اسے دیکھ کے جھٹکا سا لگا ۔۔۔
"میرا بچہ” جمال کے منہ سے سرسراتی ہوئی آواز نکلی ۔۔
جمال کے والدین جو کہ اس نعمت کہ محرومی پہ سمجھوتا ہی کر چکے تھے اسے دیکھ کر ان کو نئی زندگی ہی مل گئی۔۔
"ہمارا پوتا” وہ بھی زیر لب بولے
حسینہ نے ان کے چہروں پہ چھائی مسرت اور حیرانی دیکھ کر یہ سمجھنے میں دیر نا لگائی کہ دوسری شادی جمال کو اولاد کی خوشی نہیں دے سکی تھی۔۔
حسینہ ان سب کو بغور دیکھتی رہی اور جو فیصلہ اسے نہایت مشکل لگ رہا تھا وہ یک دم آسان ہوگیا۔۔
اس نے زرک کو اٹھا کے پلوشہ کی گود میں دیا اور خود باہر جانے کے لیے قدم بڑھا دیئے ۔۔
اسے یوں پلٹتے دیکھ کر جمال کی سانس ہی رکنے لگی ۔۔
"حسینہ رک جاؤ” جمال نے اسے بےتابی سے پکارا۔۔
"میں نے تمھارے بغیر جینا سیکھ لیا ہے جمال میں پھر سے اس خوف میں زندگی نہیں گزار سکتی کہ کب تم مجھے بدگمان ہو کہ چھوڑ جاؤ” وہ مظبوط لہجے میں بولی۔۔
"مجھے معاف کردو بیٹی ” جمال کے ڈیڈ نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا
"مجھے آپ میں سے کسی سے بھی کوئی شکایت نہیں بس میں بغیر سہاروں کے جینا سیکھ چکی ہوں ”
” مجھے اب ڈھونڈنے میں بقیہ عمر نہیں گزارنا ” اس نے ایک الوداعی نظر سب پہ ڈالی زرک کو پیار کیا اور باہر نکل گئی۔۔
جمال نے آج حقیقتاً آج ہی اسے کھویا تھا اور شاید آج ہی اس کی تلاش ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی تھی ۔۔
اس نے زرک کو سینے سے لگایا اور ایک گہری سانس لی اس کی زندگی کے تپتے ریگ زار میں یہ وجود گھنا سایہ بننے والا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اختتام۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر مقصود جعفری کی مکالماتی اسلوب کی منفرد شاعری
ڈاکٹر مقصود جعفری کہتے ہیں "میں نے کہا کہ زاغ و زغن پھر سے آ گئے کہنے لگے یہ طرزِ...