سویت حکومت نے اس تہدید پر فوراً کوئی کارروائی نہیں کی، جو عثمان بطور نے ان کے سفیر کو کی تھی۔ جرمنوں میں سوویت حکومت اس قدر الجھی ہوئی تھی کہ عثمان کے خلاف کوئی جارحانہ کارروائی نہیں کر سکتی تھی۔ اس لیے روسیوں نے صوبے کے دوسرے حصوں کی طرف توجہ کی اور چین کی صوبائی حکومت کے خلاف رکاوٹ پیدا کرنے کی خفیہ کوششیں پھر شروع کر دیں۔ اس میں انھیں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ صدر ویو نے جو مقامی خود مختاری کے وعدے کیے تھے وہ اب تک پورے نہیں ہوئے تھے۔ لہذا مشرقی ترکستان میں پھر ویسی ہی شورش پھیل گئی جیسی قصائی شنگ کے زمانے میں پھیلی تھی۔
یہ دبی ہوئی آگ ۱۹۴۴ء میں ایک دم سے خلدزا علاقوں کے قازقوں میں بھڑک اٹھی۔ سوویت جمہوریہ قازقستان کے صدر مقام الما عطا اور ارمچی کی درمیانی سڑک پر جو سوویت سرحد ہے، اس سے خلدزا کوئی پچاس میل کے فاصلے پر ہے۔ یہاں قازقوں کی بڑی تعداد آباد تھی۔ چین سے انھیں آزادی دلانے کے جو وعدے ان سے روسی ایجنٹ کرتے انھیں یہ قازق بڑے شوق سے سنتے۔ خلدزا ایک اچھے آباد رقبے کا مرکز تھا۔ جس کی آبادی کوئی ایک لاکھ ساٹھ ہزار کی تھی۔ خلدزا صوبے کو ایلی بھی کہتے ہیں اور کبھی اسے اننگ بھی کہتے ہیں۔ دستاویزوں میں کبھی ان میں سے کوئی نام درج ہے، کبھی کوئی۔ کانفرنسیں کرنے کے لیے یہ مقام نہایت مناسب ہے۔ اس پچاس سال میں جس سے ہمارے اس قصہ کا تعلق ہے، ایلی میں کم از کم چار معاہدے ضرور کیے گئے۔ زیادہ کیے گئے ہوں تو ان کا تذکرہ علی بیگ اور حمزہ نے ہم سے نہیں کیا۔ ایلی میں گفت و شنید عموماً چینی صوبائی حکومت اور روسی مرکزی حکومت کے درمیان ہوئی تھی۔ مثلاً جب صوبہ دارشنگ نے صوبے کا اختیار ۱۹۳۴ء میں روسیوں کے حوالے کیا۔ لیکن ایلی کا ایک معاہدہ ایسا تھا جس سے غیر متوقع نتائج برآمد ہونے کا اندیشہ تھا۔ یہ معاہدہ چینی حاکموں نے مشرقی ترکستان کی مقامی قوموں سے کیا۔ کیونکہ ۱۹۴۴ء میں روسیوں نے جس بغاوت کو ہوا دی تھی وہ زور پکڑ گئی تھی۔
اس بغاوت کا سردار ایک شخص تھا علی ہن طور، جس نے روسیوں کی مدد سے کوئی پچیس ہزار آدمی جمع کر لیے تھے۔ ان میں سے بیشتر قازق تھے مگر خود علی ہن طور قازق نہیں تھا۔ ماسکو کی شہ پر خلدزا اور الطائی کے درمیان جو خلدزا اور تار باغتائی کے صوبے ہیں، ان کی آزادی کا اعلان اس نے کر دیا۔ اس کے بعد اس نے دور دور اپنے ایلچی بھیجے، عثمان بطور کے پاس، مناس میں علی بیگ کے پاس اور دوسرے قازق سرداروں کے پاس اور غزکل جیسے دور دراز مقام پر حسین تجی کے پاس۔ ان سب سے کہلوایا کہ تم بھی میری طرح اپنے اپنے علاقوں کی خود مختاری کا اعلان کر دو۔
چند ہی مہینوں میں تئین شان پہاڑوں کے شمال میں سارا مشرقی ترکستان چین کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور چینیوں کو اپنے فصیل دار شہروں کو بچائے رکھنا بھی مشکل ہو گیا۔ عثمان بطور نے اس عرصے میں الطائی کو خود مختار بنا لیا تھا لیکن خلدزا کی بغاوت سے اس کا امکان پیدا ہو گیا تھا کہ پورا مشرقی ترکستان آزادی حاصل کر لے گا اور یہ معاملہ یقیناً بہت زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔
علی ہن طور کی تجویزوں کے پہنچ جانے کے بعد علی بیگ کچھ عرصے تک انتظار کرتا رہا لیکن ١٩ مئی ۱۹۴۵ء کو یورپ میں جنگ کے ختم ہونے کے دو ہفتے بعد ہی اس نے عثمان بطور کے مشورے سے علم بغاوت بلند کر دیا۔ حمزہ نے چینی حکومت میں اپنے عہدہ سے فوراً استعفیٰ دے دیا اور علی بیگ سے آ ملا۔ علی بیگ نے اسے بہ عجلت تمام خلدزا روانہ کر دیا تاکہ مستقبل کے منصوبوں پر علی ہن طور سے بات چیت کرلے۔ یہاں سے خلدزا کا فاصلہ اگرچہ تین سو میل سے کم ہی تھا مگر پھر بھی حمزہ کو وہاں پہنچنے میں تقریباً چار ہفتے گزر گئے۔ پورے درمیانی علاقے میں شورش برپا تھی اور جگہ جگہ جھڑپیں ہو رہی تھیں حالانکہ یہ بیشتر علاقہ بنجر تھا اور اس میں کوئی دلکشی نہیں تھی۔ پہلی لمبی سڑک دلدلی علاقے میں سے ہو کر جاتی تھی۔ اس کے بعد کی رہ گزر پہاڑوں میں سے تھی۔ انھیں عبور کرنے کے بعد حمزہ ایلی دریا کے کنارے پہنچا جو خلدزا کے قریب سے بہتا ہوا سوویت قازقستان میں جھیل بل کش میں شامل ہو جاتا ہے۔
علی ہن طور سے حمزہ کی گفتگو ایک سیدھے سادے سے سوال پر ہی مرکوز رہی۔ وہ یہ کہ ہم چینیوں کو کیسے نکال باہر کریں۔ دونوں نے بغیر کسی بحث مباحثے کے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ چینی اشتراکیوں اور چینی قومیت پسندوں میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں تھا۔ مشرقی ترکستان کے باشندوں کے دونوں ہی دشمن تھے۔ اس لیے دونوں کو خارج کرنے کی ضرورت تھی۔
علی ہن طور جو عمر میں حمزہ سے کئی سال بڑا تھا، روسیوں کا مامور کیا ہوا تھا۔ اس لیے اس میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ چینیوں کو نکال باہر کرنے کی پالیسی کا علم روسیوں کو ضرور تھا اور انھوں نے اس پالیسی کو منظور کر رکھا تھا۔ یہ البتہ کہا جا سکتا ہے کہ روسی اس تحریک کے بانی مبانی نہیں تھے لیکن چینی اشتراکی شنگ کے مظالم نے قازقوں میں نفرت کا جو جذبہ پیدا کر دیا تھا اس کے محرک دو طرح روسی ہی تھے۔ اول یہ کہ شنگ اگرچہ بظاہر چین کی قومی حکومت کا نمائندہ تھا لیکن دراصل وہ ارمچی میں رہنے والے سوویت قونصل جنرل امیری سوف کی ہدایات پر چلتا تھا۔ دوئم یہ کہ ۱۹۳۴ء بلکہ اس سے بھی پہلے سے مقامی قوموں کو روسی برابر اکسا رہے تھے کہ چینیوں کو جڑ بنیاد سے کھود کر باہر پھینک دیں۔
یہاں یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ ادھر تو سوویت حکومت علی ہن طور اور قازقوں کو چینی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے میں مدد دے رہی تھی اور ادھر چیانگ کائی شیک سے اگست ۱۹۴۵ء کا چینی روسی معاہدہ کر رہی تھی۔ مذاکرات کے دوران سوویت نمائندوں نے تسلیم کیا تھا کہ سنکیانگ کا صوبہ چین کا حصہ ہے۔
علی ہن طور سے مناس میں بات چیت کر کے حمزہ کے واپس آتے ہی اور چینی روسی معاہدے پر دستخط ہونے سے پانچ ہفتے پہلے ٣ جولائی ۱۹۴۵ء کو خلدزا میں چینیوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ چند ہی روز میں خلدزا، تار باغتائی اور مناس کے درمیانی تکون میں ایک بھی خطائی باقی نہیں رہا۔ چینی سپاہی، شہری، کسان، سرکاری افسر، تاجر، دستکار، مرد، عورت، بچہ ایکوں ایک چھانٹ کر قتل کر دیا گیا۔
مناس شہر پر چینی فوجوں کا قبضہ تھا اور علی بیگ اور حمزہ کی سرکردگی میں قازق دریا کے مغربی رخ پر تھے۔ شہر والے جو تقریباً سبھی مسلمان تھے شہر چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ صرف چینی فوج کا ایک دستہ شہر کی حفاظت کر رہا تھا۔ قازق حملہ آور اپنے آپ میں اتنی قوت نہ پاتے تھے کہ مناس کے بڑے پل کو عبور کر کے شہر پر قبضہ کر لیں بلکہ الٹا انھیں یہ اندیشہ تھا کہ کہیں چینی اس پل کو پار کر کے ہم پر حملہ نہ کر دیں۔ اسی طرح چینی اپنی جگہ پر خائف تھے کہ کہیں قازق پل پار کرکے حملہ نہ کر دیں۔
اب ہوا یہ کہ قالی جو جلادوں کا قاتل تھا، اس وقت مناس میں موجود تھا۔ وہ اب بھی چینی پولیس ہی کا ملازم تھا حالانکہ روسی سربراہ پوگودِن جا چکا تھا اور سوویت کی تربیت دی ہوئی پاؤ اَن چو یعنی خفیہ پولیس اب یکسر قومیت پسند ہو چکی تھی۔ قالی کو حکم ملا تھا کہ اپنی لاری میں روسی پٹرول کے پیپے اٹا اٹ بھر کے مناس میں پڑے ہوئے چینی دستے کو پہنچا دے۔
جب قالی کو معلوم ہوا کہ چینی کمانڈر کو اندیشہ ہے کہ کہیں قازق پل پار کر کے حملہ نہ کر دیں تو قالی اس کے پاس گیا اور بولا: میں پل کو جلا ڈالنے کو تیار ہوں یعنی ان مضبوط پایوں کو نہیں جو پتھر کے بنے ہوئے ہیں بلکہ ان موٹے موٹے شہتیروں کو جن سے پل کی سڑک بنائی گئی ہے۔ لیکن آپ فوجی سپاہیوں کو حکم دے دیجیے کہ میں جب اس کام میں لگوں تو وہ گولی نہ چلائیں۔ کماندار اس بات سے بہت خوش ہوا کہ ایک قازق ہی نے یہ تجویز پیش کی۔
جب اس نے گولی نہ چلانے کا حکم اپنی فوج کو دے دیا تو قالی اپنی لاری پل پر سے گزار کر دوسری طرف قازقوں میں جا پہنچا۔ قازقوں نے جو دیکھا کہ قالی اکیلا چلا آ رہا ہے اور اس کی لاری میں پٹرول کے پیپے لدے ہوئے ہیں تو انھوں نے اس پر گولی نہیں چلائی اور اسے آنے دیا۔
پل پار کرتے ہی قالی نے لاری کا انجن بند کر دیا اور اپنی جگہ سے اتر کر اس نے پل کی نگرانی کرنے والے قازق کماندار سے ملنے کی درخواست کی۔ کماندار سے اس نے کہا: “اگر آپ کی مرضی ہو تو اللہ اور اس پٹرول کی مدد سے میں اس پل کو جلا ڈالوں گا تاکہ چینی اسے عبور کر کے ادھر نہ آنے پائیں۔ یوں قازق فوجیں محفوظ ہو جائیں گی اور ان کی نظروں میں میری وقعت بڑھ جائے گی، اس کے علاوہ چینی اس پٹرول سے بھی محروم ہو جائیں گے جو روسیوں نے ان کے لیے بھیجا ہے۔”
ہمیں اس قازق کماندار کا نام معلوم نہیں ہے۔ اس نے حکم دے دیا کہ پل جلا ڈالا جائے۔
چنانچہ قالی اپنی لاری پر پھر سوار ہو گیا اور لاری کو موڑ کر پل پر روانہ ہو گیا۔ ہر چند قدم کے بعد وہ ایک پیپا کھولتا اور اس کا پچاس گیلن پٹرول لکڑی کے شہتیروں پر انڈیل دیتا اور جب وہ چینیوں کی طرف پل کے سرے پر پہنچا تو صرف ایک بھرا ہوا پیپا بچا رہ گیا تھا۔ باقی سب خالی ہو چکے تھے۔ اس پیپے میں وہ چیتھڑے بھگو بھگو کر آگ سلگاتا اور پل پر پھینکتا رہا۔ باقی کام تیز ہوا نے کیا۔ دونوں حریف بھی خوش ہو گئے اور قالی بھی اپنے اس کارنامے پر پھولا نہ سمایا۔
اس کے بعد قالی کے متعلق ہم نے کچھ اور نہیں سنا سوائے اس کے کہ جب ۱۹۴۹ء میں اشتراکیوں نے دوبارہ ارمچی میں اقتدار حاصل کیا تو پھر وہ ان کے ملازموں میں شامل ہو گیا تھا۔
ستمبر ۱۹۴۵ء میں عثمان بطور نے خلدزا کی طرح الطائی کو چینیوں سے پاک کرنے کا سلسلہ شروع کیا لیکن یہ کام کچھ زیادہ بڑے پیمانے پر نہیں کیا گیا۔ کیونکہ لال ڈاڑھی سے جنگ کرنے کے زمانے میں وہاں کے رہنے والے چینیوں میں بہت سوں کا صفایا کیا جا چکا تھا۔ لیکن بعد میں کچھ نئے چینی آ کر بس گئے تھے جو سمجھتے تھے کہ اب اس علاقے میں کسی قسم کی شورش نہیں ہوگی۔ صوبہ دارشنگ کے کومنتانگ حکومت میں واپس چلے جانے اور پھر ۱۹۴۳ء میں چینی صدر مقام پہنچ جانے پر ہونان کے قحط زدہ علاقے سے اور ۱۹۳۸ء میں جاپانیوں کی تاخت سے بچ نکلنے والے تارکین وطن ایک سیلاب کی صورت میں امنڈ پڑے۔ صحرائے گوبی میں سے وہ اس نو ساختہ سوویت شاہراہ پر پیدل، اونٹوں پر، رکشاؤں اور گاڑیوں میں اس امید پر چلے آ رہے تھے کہ جس طرح امریکنوں نے انیسویں صدی کے نصف آخر میں مغرب وسطیٰ کو آباد کیا تھا، انھیں بھی چین کے سب سے مغربی علاقے میں آباد ہو جانے کا موقع مل جائے گا۔ ارمچی کے چینی حکام نے مقامی آبادی سے استفسار کیے بغیر ان ہی کی زمینیں اور روپیہ ان تارکینِ وطن کو دینا شروع کر دیا۔ مقامی آبادی خود مختاری کا مطالبہ پہلے ہی کر رہی تھی۔ ظاہر ہے کہ جب ان نفرت انگیز خطائیوں کا سیلاب آنے لگا تو ان کا رد عمل کیا ہوا ہوگا۔ واقعہ یہ ہے کہ علی ہن طور کو بغاوت کر کے جو کامیابی حاصل ہوئی اس کی ایک بڑی وجہ ان تارکین وطن کا یوں در آنا بھی تھا۔ لیکن اس کے علاوہ اور بھی کئی اسباب تھے جو نتیجہ تھے گذشتہ دس سالہ بدنظمیوں کا۔ مثلاً شکایتیں کرنے کے لیے شنگ کے سفید بکس، سوویت شاہراہ بنانے کے لیے شنگ کا عائد کردہ بیگاری طرز کار، نام نہاد خدمت عوام جس سے اشتراکیوں کے مقصد پورے ہوتے اور روپیہ عوام کی جیبوں سے جاتا۔ بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، مقامی حکومتِ خود اختیاری کے جھوٹے وعدے اور ان سب پر مستزاد لال ڈاڑھی والوں کے مظالم و جرائم۔
علی بیگ اور حمزہ نے جو مظالم بہ چشم خود دیکھے ان میں سے چند ہم سے بیان کیے۔ مثلاً جب چینی تارکین وطن نے لال ڈاڑھی والوں کی مدد سے مناس کے مسلم علاقوں پر حملہ کیا تو انھوں نے تمام مردوں کو قتل کر ڈالا اور عورتوں اور بچوں کی ٹانگیں توڑ ڈالیں تاکہ بھاگ کر دوسروں کو اطلاع نہ دے سکیں۔ اس کے بعد بے دست و پا عورتوں کی عصمت دری کی اور ان کے ٹوٹے ہوئے اعضا اور درد کی چیخوں کی بھی پروا نہیں کی۔ آخر میں ان کے گھروں کا مال و اسباب سب لوٹ کر لے گئے۔
ادھر تو اس ظلم و ستم کے ساتھ لال ڈاڑھی والے صوبے میں گھوم پھر کے قازقوں اور منگولوں کے پڑاؤ اور ترکی دیہاتوں کو اجاڑ رہے تھے، ادھر شنگ کی روسی تربیت یافتہ خفیہ پولیس شہروں میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے شکار پکڑ رہی تھی اور ان میں سے کوئی ایک لاکھ کو موت کے گھاٹ اتار چکی تھی، اور ان سے بھی زیادہ لوگوں کو طرح طرح کی اذیتیں دے رہی تھی اور ان کی رہائی کے لیے ان کے عزیزوں سے بڑی بڑی رشوتیں لے رہی تھی۔ ان مظالم کے بعد جو بغاوت ہوئی تو شہری آبادیوں پر اس سے بھی زیادہ بربادی آئی۔ پورے پورے علاقے اجاڑ دیے گئے اور ہزاروں فاقوں اور بیماریوں سے مر گئے۔ یہ وہ بھیانک پس منظر ہے جس پر ١٩٤٥ء میں قازقوں کے ہاتھوں چینیوں کے قتل عام کو جانچنا چاہیے۔
علی ہن طور اور حمزہ کی بات چیت میں چینیوں کا نام و نشان مٹانے کی تاریخ مقرر کرنے کے علاوہ کچھ اور بھی فیصلے ہوئے۔ علی ہن طور نے حمزہ سے صاف صاف کہہ دیا کہ روسی میری مدد کر رہے ہیں، اسے یقین تھا کہ حمزہ اس بات کو سن کر مطمئن ہو جائے گا۔ حمزہ نے اسے دھوکا نہیں دیا۔ لیکن حمزہ اور علی بیگ اور غالباً عثمان بطور بھی اپنے طور پر سبھی اس کوشش میں تھے کہ مشرقی ترکستان کی پرانی بسنے والی قوموں کی ایک جمہوری اور متحدہ خود مختار حکومت قائم ہو جائے، اس کے لیے ضروری تھا کہ روسیوں سے بھی چھٹکارا حاصل کیا جائے اور چینیوں سے بھی۔ قازق سرداروں کو اعتماد تھا کہ جنگ ان دونوں حکومتوں کو اس قدر کمزور کر دے گی کہ وہ مداخلت نہیں کر سکیں گے۔ لیکن اگر علی ہن طور نے محض روسیوں کے احکام پر بغاوت کی تھی تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ روسی اپنے اندر اتنی طاقت موجود پاتے تھے کہ شنگ کے زمانے میں ہٹلر کے حملے کی وجہ سے جو صوبہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا تھا اسے اب دوبارہ اپنے قبضے میں لا سکتے تھے۔ اگر یہ صحیح تھا تو مشرقی ترکستان کو خود مختاری حاصل کرنے کے مواقع کچھ زیادہ امید افزا نہیں تھے۔
خلدزا سے مناس واپس آنے کے بعد حمزہ نے اس صورت حال پر غور کیا، کیا آزاد دنیا ہماری مدد کر سکے گی؟ ارمچی میں امریکی اور برطانوی قونصل خانے کھل گئے تھے لیکن یہ دونوں ملک بہت دور تھے۔ دنیا کے سب سے اونچے پہاڑوں کے پیچھے یا وسیع صحرائے گوبی کے اس پار۔ اس کے برعکس سوویت مملکت اس مقام سے صرف پچاس میل کے فاصلے پر تھی جہاں اس نے اور علی ہن نے مشورے کیے تھے۔ اسے یاد تھا کہ روسیوں نے کچھ عرصہ تک خلدزا کو اپنے علاقہ میں شامل کر لیا تھا۔ یہ جنرل بڑے گھوڑے ما کے عہد میں ہوا تھا۔ اس کے بعد روسیوں نے اشتراکی شنگ کو یہ علاقہ واپس دے دیا تھا۔
جولائی کے قتل عام میں جو حصۂ ملک چینیوں سے آزاد کرا لیا گیا تھا اس میں تین علاقے شامل تھے۔ ان تینوں کا مجموعی رقبہ اتنا تھا جتنا کہ انگلینڈ، ویلز اور اسکاٹ لینڈ کا۔ خلدزا سے الطائی تک یہ خبر نہایت مسرت کے ساتھ سنی گئی اور سب کو امید ہو گئی کہ خود مختاری حاصل کرنے کی جانب یہ فیصلہ کن اقدام کیا گیا ہے۔ ہر شہر نے اپنے اپنے آزادی کے تمغے بنائے جن پر وجود میں آنے والی مشرقی ترکستان کی جمہوریہ کے پانچ تارے اور ہلال منقش تھے۔ علی ہن طور نے ایک خاص تمغا علی بیگ کو دیا جس نے جواب میں فوراً ایک تمغا علی ہن طور کو پیش کیا۔ مناس، تار باغتائی اور دوسرے شہروں نے ایسے ہی امتیازی نشان علی بیگ، حمزہ اور علی ہن طور کی خدمت میں پیش کیے۔
ستمبر میں جب عثمان بطور الطائی کو چینیوں سے پاک کر رہا تھا، حمزہ نے ایک کانفرنس میں شرکت کی۔ یہ کانفرنس ایک نہایت اہم مسئلے پر بلائی گئی تھی، وہ یہ کہ مشرقی ترکستان کے دوسرے حصوں میں سے چینیوں کو کیسے خارج کیا جائے۔ علی ہن طور کی نمائندگی اس کے بھائی نے کی۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ عثمان بطور جان بوجھ کر اس میں شریک نہیں ہوا۔ چار دن کی گفت و شنید کے بعد مندوبین با دلِ ناخواستہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مخالفانہ کارروائی کرنے کا وقت ابھی نہیں آیا۔ اس وقت تک دس ہزار باقاعدہ چینی فوج صوبے میں جمع ہو چکی تھی اور بوجوہ اچھے ہتھیاروں سے لیس۔ ادھر قازقوں کے پاس اس کے تین چوتھائی تو آدمی تھے اور وہ بھی بے قاعدہ اور بے ہتھیاروں کے، جدید اسلحۂ جنگ ان کے پاس نہیں تھا۔ اگر کچھ تھا تو علی ہن طور کی فوجوں کے پاس۔ روسیوں نے پورے ہتھیار اسے بھی نہیں دیے تھے، اس اندیشے سے کہ کہیں یہ لوگ روس ہی پر نہ پلٹ پڑیں۔ لہذا قازقوں کے پاس وہ ہتھیار تھے جو ان کے پاس لڑائیوں میں ہاتھ آئے تھے، انھوں نے کہیں سے چرائے تھے یا کسی اور ذریعے سے حاصل کیے تھے۔ بعض کے پاس نل کے ٹکڑوں کی خانہ ساز بندوقیں تھیں، اسی طرح کا خانہ ساز گولہ بارود تھا، اکثر قازقوں کے پاس ہتھ گولے اور تلواریں تھیں یا لمبے سونٹے تھے جن میں کیلیں لگی ہوئی تھیں، وردی ایک کے پاس بھی نہیں تھی۔ دوران جنگ میں بھی وہ زمانۂ امن ہی کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ اپنے گلے اور ریوڑ بڑھاتے رہتے، جہاں جہاں لڑنے والے جاتے ان کے جلو میں یہ جانور بھی جاتے یا اگر انھیں پیچھے چھوڑ دیا جاتا تو انھیں سے پنیر اور جما ہوا دہی انھیں مہیا ہوتا اور ان کی کھالوں سے ان کے کپڑے تیار ہوتے۔
چینیوں پر التوائے تاخت کے منفی فیصلے کے علاوہ ایک مثبت فیصلہ بھی کیا گیا۔ سب نے اس پر رضا مندی ظاہر کی کہ عثمان بطور کو کماندار اعلی بننے کی دعوت دی جائے۔ اس تجویز کے بارے میں علی ہن طور کے دل میں کیا تھا یہ نہ معلوم ہو سکا کیونکہ اس کے زیر کمان پچیس ہزار آدمی تھے یعنی عثمان بطور سے کم سے کم دوگنے لیکن اس نے اس فیصلے کو قبول کر لیا اور دونوں سرداروں نے اب اس پر غور و خوض شروع کیا کہ حملہ کرنے سے پہلے اس مسئلے کو طے کرنا چاہیے کہ جن علاقوں کو آزاد کرایا گیا ہے ان کا اور ان کے ساتھ الطائی کا تحفظ کیسے کیا جائے۔
جب ان کا آمنا سامنا ہوا تو دونوں سرداروں نے ایک دوسرے کو ناپسند کیا۔ عثمان بطور ایک سچا فدائی وطن تھا۔ نہایت مذہبی خیالات کا آدمی اور وہ یہ سمجھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس خدمت پر مامور فرمایا ہے کہ میں خطائیوں کو اپنے ملک سے خارج کر دوں۔ علی ہن طور قازق نہیں تھا اور نہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ مجھے من جانب اللہ کسی خدمت پر مامور کیا گیا ہے۔ سوائے ذاتی ترقی کے اس کا کوئی مقصود زندگی نہیں تھا۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ چینیوں سے مل جانے اور آسمان کے نیچے ایک خاندان میں شامل ہو جانے سے چینی اسے فوقیت نہیں دیں گے لہذا وہ اس کوشش میں لگا ہوا تھا کہ روسیوں کی مدد سے کسی طرح صوبہ سنکیانگ کا صدر یا کم سے کم نائب صدر بن جائے۔ قصین نے بل غن میں اسے جو باتیں بتائی تھیں ان کی وجہ سے عثمان بطور روسیوں کے مقاصد کو مشتبہ نظروں سے دیکھتا تھا لیکن اس پر بھی وہ سمجھتا تھا کہ چینیوں سے اپنی اس لڑائی میں روسیوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے لہذا عثمان اور علی ہن طور میں قدر مشترک بہت ہی کم تھی۔
تاہم فوری فیصلے جنگی معاملات کے بہ اتفاق کیے گئے کہ گھمسان کی لڑائی سےبچتے رہیں۔ جب اور جہاں بھی ممکن ہو دشمن کو پریشان کیا جائے اور چند ایسے مضبوط مقام بنائے جائیں جن سے تینوں نئے آزاد کرائے ہوئے علاقے محفوظ رہیں۔ حمزہ کو دونوں پسند کرتے تھے اس لیے اسے ترقی دے کر کرنل بنا دیا اور مناس اور یلذر پہاڑوں کے درمیانی علاقے کا اسے کماندار بنایا۔ اس علاقے کا وہ سیاسی افسر بھی متعین کیا گیا۔ علی بیگ کو شادان یا خمِ خاکی کا افسر بنا دیا گیا۔ یہ علاقہ الطائی کی سڑک پر مناس کے شمال مغرب میں ہے۔
لیکن سب کو اس بات پر تعجب ہوا کہ قتل عام کا خون بہا وصول کرنے کے بدلے چینیوں نے مشرقی ترکستانیوں کو ایلی میں ایک کانفرنس میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ انفرادی طور پر قازق رہنماؤں نے اس کے متعلق کیا رائے قائم کی یہ تو معلوم نہیں لیکن انھیں سوائے اس دعوت کو قبول کرنے کے اور کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ جتنی اور مقامی قومیں تھیں وہ سب اپنے مندوبین بھیجنے پر فوراً رضامند ہو گئیں۔ چینیوں کے ساتھ ایک مشروط معاہدہ ٢ جنوری ١٩٤٦ء کو ہو گیا لیکن اسے مرکزی چینی حکومت سے بھی منظور کرانا تھا چنانچہ ایلی کے گیارہ نکاتی معاہدہ پر ٦ جون سے پہلے دستخط نہیں ہو سکے۔ اس کے بعد یکایک کم از کم کاغذ پر مقامی قومیں اپنے مقامی معاملات کی ذمہ دار ہو گئیں۔ صوبائی صدر اب بھی چینی ہی تھا لیکن وزیروں اور نائبوں میں اٹھارہ مقامی قومیت کے اور صرف بارہ چینی ہوتے تھے۔ ایک صوبائی اسمبلی بھی بنانی تھی جس میں مقامی قوموں کو نمائندے بھیجنے تھے۔ آگے چل کر ان سب باتوں پر عمل ہوا۔ نئے صوبائی دستور کے ساتھ انھیں چاسر ویو کے بدلے ایک نیا چینی صدر جنرل چانگ چی شنگ بھی ملا اور انھیں ایک مقامی “فوج” بنانے کا حق بھی ملا جس میں چھ رجمنٹیں تھیں، بیشتر قازقوں کی۔
یہ باتیں اتنی عمدہ تھیں کہ ان پر کسی کو یقین نہیں آتا مگر یہ حقیقت تھی۔ ١٦ اگست کو خور غوث کے سرحدی شہر سے چار سوویت افسر وردیاں پہنے سرحد پار کر کے آئے اور خلدزا میں علی ہن طور کے گھر پر نہایت اخلاق کے ساتھ ملنے گئے۔ اس ملاقات کے ختم ہونے پر انھوں نے بڑی شائستگی سے علی ہن طور کو خور غوث آ کر ان کے ساتھ کھانا کھانے کی دعوت دی۔ علی ہن طور نے دعوت منظور کر لی اور افسروں کے ساتھ ان کی کار میں بیٹھ کر چلا گیا وہاں سے پھر وہ واپس نہیں آیا۔
ترکی میں جو قازق مہاجر تھے ہمیں نہیں بتا سکے کہ اس کا کیا حشر ہوا۔ وہ صرف یہ جانتے تھے کہ اس پر تورانیوں کو ایک کرنے کا الزام لگایا گیا۔ اس کوشش میں پہلی عالمی جنگ کے ختم ہونے کے بعد ترکی جنرل انور پاشا نے سوویت قفقاز میں اپنی جان دے دی تھی لیکن قازق مہاجر کچھ بتا نہیں سکے کہ علی ہن طور کو قید کیا گیا یا وہ اب زندہ ہے یا مر چکا ہے۔
یہ بالکل صحیح ہے کہ مشرقی ترکستان کے نوے فی صدی سے زیادہ باشندے چینی مملکت میں ہوتے ہوئے ایک ترکی زبان بولتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے بحیرہ روم کے شمالی ساحلوں پر رہنے والوں میں سے نوے فی صدی لوگ ایک لاطینی زبان بولتے ہیں۔ سوویت یونین کے ایک حصے مغربی ترکستان کے نوے فی صدی باشندے بھی ترکی النسل ہیں لیکن قازقوں کو اس کا یقین ہے کہ ذرا سی بھی شہادت اس امر کی موجود نہیں ہے کہ علی ہن طور سوویت حکومت سے ترکی باشندوں کو آزاد کرانے کی سازش کر رہا تھا۔ وہ صرف انھیں آزاد کرانا چاہتا تھا جو چینی حکومت کے مظالم سہہ رہے تھے اور اس کی یہ کوشش بھی خود سوویت حکومت کے اشارے اور مدد پر تھی لیکن اس کی کامیابی نے مشرقی ترکستانیوں، ترک، منگول، ازبک اور قازقوں کو خود مختاری حاصل کرنے کے اتنے قریب کر دیا تھا کہ سوویت حکومت اس حد تک اسے گوارا نہیں کر سکتی تھی۔ اس سے یہ قومیں نہ صرف سوویت حکومت کی زیادہ محتاج نہ رہتیں بلکہ سوویت قازقستان اور قفقاز میں جو نو آباد قومیں روسیوں کے زیر اقتدار ہیں ان کے دلوں میں بھی دبی ہوئی آرزوئیں اور ولولے ابھر آتے۔
علی ہن طور کی بڑھتی ہوئی خود مختاری روسیوں کی اس پالیسی کے خلاف بھی پڑ رہی تھی کہ وہ ایک اور کٹھ پتلی چینی حکومت کو بر سر کار لانا چاہتے تھے جو صوبہ سنکیانگ میں شنگ کی حکومت سے مشابہ ہو۔ ایسی حکومت کے قیام سے سوویت مشیر، نصابی کتابیں، خفیہ پولیس اور غیر ملکی تجارت کی اجارہ داری یہ سب باتیں دوبارہ وجود میں آ جاتیں اور یہ صوبہ یا تو سوویت نو آباد مملکت میں شامل کر لیا جاتا یا چوئی بلسان کے تحت بیرونی منگولیا کی طرح ایک کٹھ پتلی ریاست میں تبدیل کر دیا جاتا۔ علی ہن طور نے ایسی کسی پالیسی کو ترقی دینے کے بدلے ایک ایسا معاہدہ کر لینے میں مدد دی جس کی رو سے قومی چین کی سرپرستی میں مشرقی ترکستان خود مختاری حاصل کرنے میں بہت کچھ آگے بڑھ چکا تھا لہذا علی ہن کو ختم کر دیا گیا۔
چینیوں اور ترکستانیوں میں ایلی معاہدہ ہونے کے صرف ڈھائی مہینے بعد ہی علی ہن طور کو غائب کر دیا گیا اور دو ہفتے بہ مشکل گزرے ہوں گے کہ روسی اور منگول فوجوں نے الطائی پر چڑھائی کر دی۔ جہاں تک منگولوں کا تعلق تھا تو شاید چڑھائی کرنے میں وہ کسی حد تک حق بجانب تھے کیونکہ صوبہ الطائی بیرونی منگولیا کا ١٩٢٢ء تک ایک حصہ تھا اس کے بعد منگول چین سے الگ ہو گئے۔ بہت سے منگول اب بھی وہیں رہتے تھے، اسی طرح سنکیانگ کے دوسرے حصوں میں بھی ان کی رہائش تھی۔ جب ١٩٤٥ء میں چینی سوویت معاہدے کی بات چیت ہو رہی تھی تو سوویت حکومت نے از خود تسلیم کر لیا تھا کہ یہ صوبہ چین میں شامل ہے۔ الطائی پر چڑھائی کرنے سے سال بھر پہلے اس معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ چینیوں اور ترکستانیوں نے قدرتی طور پر یہ سمجھ لیا کہ سوویت کے اعلان میں اس صوبے سے وہی صوبہ مراد ہے جس صورت میں کہ ١٩٤٥ء میں موجود تھا۔ سوویت کارگزاروں نے انھیں دھوکا نہ دینے کی یقیناً کوئی کوشش نہیں کی اور یہ بات جلدی ہی ظاہر ہو گئی کہ سنکیانگ کی سرحدوں کے تعین کے متعلق ماسکو کے اپنے مخصوص تصورات تھے اور پھر صرف الطائی ہی اس معاملے میں ان کے پیش نظر نہیں تھا۔
روسیوں کے مخصوص طرزِ کار کے مطابق الطائی میں روسی اور منگولی فوجوں کے در آنے سے پہلے کوئی پانچ سو لاریاں روزانہ سرحد پار کر کے آتیں اور خام دھات ولفرام بغیر کسی کی اجازت اور لڑے جھگڑے بغیر کھود کر لے جاتیں۔ اس کے قرب و جوار میں جو مقامی قازق قبیلے والے اپنے جانور چرایا کرتے تھے، انھوں نے ایک دن دیکھا کہ مزدوروں کے بدلے ان لاریوں میں سے فوجی سپاہی اتر رہے ہیں۔ قبیلے والوں نے جلدی جلدی اپنے جانوروں کو سمیٹا اور انھیں ہنکا کر اپنے پڑاؤ پر لے گئے۔ بعجلت تمام انھوں نے اپنے نمدہ دار خیمے اتارے اور اپنے دوسرے اثاثے کے ساتھ انھیں اپنے اونٹوں اور مویشیوں پر لاد کر جنوب کی جانب روانہ ہو گئے اور بادپا گھوڑوں پر قاصد روانہ کر دیے تاکہ عثمان بطور کو ان گھس آنے والوں کی اطلاع کر دیں۔ یہ قبیلے والے اور ان کے ساتھ ہزاروں اور، بائتِک بوغدو کے سلسلۂ کوہ میں کیری قازقوں کی مشرقی شاخ سے جا ملنے کے لیے روانہ ہو گئے۔ اس علاقے میں گدھے کے برابر جنگلی بھیڑیے ہوتے ہیں جن کے بڑے اور بل کھائے ہوئے سینگ ہوتے ہیں، ایک ایک فٹ قطر کے۔ بائتک بوغدو کے شمالی ڈھلان جنگلوں سے خوب ڈھکے ہوئے ہیں۔ پانی کی ان میں افراط ہے اور چراگاہیں بہت عمدہ ہیں، ان کے برعکس جنوبی ڈھلان بالکل بے آب اور بنجر ہیں۔
٧ ستمبر ١٩٤٦ء کو الطائی میں گھس آنے اور علی ہن طور کو غائب کر دینے نے کل قازق رہنماؤں کی آنکھیں کھول دیں بلکہ سوویت کے ارادوں سے پورا ترکستان واقف ہو گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تاریخ میں پہلی بار قازقوں اور دوسرے مقامی باشندوں نے چین کو اپنا حلیف قرار دینے پر رضا مندی ظاہر کی اور سوویت حکومت اور چوئی بلسان کے ماتحت بیرونی منگولیا کی کٹھ پتلی ریاست کی چیرہ دستیوں کا مقابلہ چینیوں کے شانہ بشانہ کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ اب دریائے مناس پر سے گزرنے میں قازق چینی فوجوں سے مزاحم نہیں ہوتے تھے اور طرفین فوراً اس پر تل گئے کہ جلے ہوئے پل کی مرمت کر لی جائے۔
لیکن چینیوں میں خود اتحاد نہیں تھا۔ ان کے بہت سے افسر اب بھی یہی سمجھتے تھے کہ قازق صرف لٹیرے اور گھڑ چور ہیں جن سے کوئی شریف آدمی دوستی نہیں کر سکتا۔ بعض مقامی افسر قازقوں کے بدلے اشتراکیوں سے جا ملے۔ بعض نے معاہدۂ ایلی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا حالانکہ ان کی حکومت نے اس پر دستخط کیے تھے۔ صرف مٹھی بھر چینی اس پر قائم رہے۔ اس وقت تک چینی اشتراکیوں کا ستارہ آہستہ آہستہ عروج پر آ رہا تھا اور صرف شمال مغربی صوبہ سنکیانگ ہی میں نہیں بلکہ سارے چین میں سوویت حکومت اب ان کی کھلم کھلا مدد کر رہی تھی حالانکہ چین سوویت معاہدہ صرف ایک سال قبل ہی ہو چکا تھا۔
یہاں سے قازقوں کی کہانی کا اگلا رخ سامنے آتا ہے وہ اب تک چینیوں سے برسرِ جنگ تھے لیکن اب انھیں یقین ہو گیا کہ ان کا حقیقی دشمن اشتراکیت ہے، چاہے یہ چینی ہو چاہے روسی اشتراکیت۔ آئندہ کے لیے انھوں نے اسی طرح اسے اپنا دشمن قرار دے لیا جیسے پہلے چینی قوم پرستوں اور چینی اشتراکیوں دونوں کو اپنا دشمن قرار دے لیا تھا۔ ١٩٤٦ء کے بعد سے قازق مشرق کے بجائے شمال اور مغرب کے حملوں سے اور اس کے بعد مشرق ہی کی جانب سے چین پر اشتراکیت کی یلغار سے اپنے طرز زندگی کو بچائے رکھنے کے لیے جان توڑ کوششوں میں لگے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی فوجوں میں تیس ہزار سے زیادہ آدمی کبھی نہیں ہوئے اور ان کی لڑائیاں بیشتر گشتی ہوتی تھیں جن میں عورتیں اور بچے اور جانور بھی مبتلا ہوتے تھے کیونکہ ان خانہ بدوشوں کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ انھیں پیچھے چھوڑ جائیں۔ ان کے ہتھیاروں کو ہم دیکھ ہی چکے ہیں کہ ان کے پاس چند رائفلیں تھیں، چند مشین گنیں اور کچھ تعداد ہتھ گولوں کی، مگر یہ ہتھیار بھی اس قدر ناکافی تھے کہ بہت سے قازقوں کے پاس صرف تلواریں تھیں یا میخی سونٹے۔ اشتراکیوں کے پاس توپ خانے، بکتر بند گاڑیاں، ٹینک اور ہوائی جہاز تھے لیکن اس پر بھی قازق لڑتے رہے۔
چینی حکمرانوں نے ارمچی سے کوئی روک تھام کا انتظام نہیں کیا مگر محبوب وطن الطائی پر جب سوویت منگول تاخت ہوئی تو عثمان بطور اسے روکنے کے لیے فوراً جانب شمال روانہ ہو گیا لیکن عثمان کے چھاپہ مار جو شنگ کے لال ڈاڑھی والوں سے بخوبی نمٹ لیتے تھے اس نئے لشکر کے آگے کوئی حقیقت نہیں رکھتے تھے۔ تھوڑے ہی عرصے میں قازق لڑنے والوں کو مجبور ہو کر اسی طرح بوئتک بوغدو پہاڑوں میں پسپا ہونا پڑا جیسے روسی سپاہیوں کو ولفرام کھود کر لے جاتے دیکھ کر قازق قبیلے والے پیچھے ہٹ آئے تھے۔ اب عثمان ایسے مقام پر کھڑا ہوا تھا کہ اس کے لیے پیچھے ہٹنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ اس کے پیچھے تیرہ چودہ ہزار فٹ اونچے برفیلے پہاڑ کھڑے تھے اور اس کے سامنے وہ راستہ تھا جس پر سے دشمن پیش قدمی کر سکتا تھا۔ دشمن کو اس نے بار بار منتشر کر کے پسپا کیا لیکن جب وہ دشمن کا پیچھا کر کے ان پر حملہ آور ہوتا تو دشمن کو اتنا قوی پاتا کہ ناچار اسے لوٹ جانا پڑتا۔ ایک سال تک یہی کیفیت جاری رہی۔
اس دوران میں روسی خلدزا میں ذرا گہری چالیں چل رہے تھے۔ علی ہن طور کے غائب ہو جانے کی خبر پھیلنے سے پہلے بہت سے روسی افسر اور اشتراکی سرحد پار کر کے علی ہن طور کی فوج پر قابض ہو گئے اور بظاہر اسے ایک قازق اسحٰق بیگ کی کمان میں دے دیا جو ان کا تنخواہ دار تھا۔ چند ہی روز میں انھوں نے “ناقابل اعتماد” عناصر سے قازقوں کو پاک کرنا شروع کر دیا اور جو باقی رہ گئے انھیں اپنے اصول ٹھسانے لگے۔ روسیوں نے ان سے وعدہ کیا کہ ہم تمھیں وردیاں، تنخواہیں اور راشن دیں گے۔ یہ چیزیں قازقوں کو پہلے کبھی نہیں ملے تھیں۔ ان وعدوں پر شروع میں کسی نے اعتبار نہیں کیا مگر جب یہ وعدے پورے کیے گئے تو قازق تیزی سے ان کی طرف رجوع ہونے لگے۔ ایک سال کے اندر ہی اندر علی ہن طور کے بے قاعدہ اور بے ترتیب قازق چھاپہ مار باقاعدہ منظم فوج میں تبدیل ہو گئے اور اس ابتدائی منزل ہی میں روسی ہائی کمان نے یہ مناسب سمجھا کہ انھیں خاصی تعداد میں ہتھیار دے دیے جائیں۔
جب یہ اقدامات کیے جا رہے تھے تو روسیوں نے معاہدۂ ایلی سے بھی فائدہ اٹھا کر صوبے کے دوسرے حصوں میں اپنے اثر و اقتدار کو پھیلایا۔ اس معاہدہ کی رو سے جو صوبائی اسمبلی بنائی جانے والی تھی وہ اب بن چکی تھی۔ اس لیے روسیوں نے اپنے منتخب کردہ نمائندے خلدزا سے ان ہدایات کے ساتھ بھیجے کہ نئی سیاسی مشین میں ریت جھونک دیں۔ یہی چال اشتراکی ممبر پہلے بھی کہیں مجلس قانون ساز میں چل چکے تھے اور کامیاب رہے تھے۔ ارمچی میں ان کی کامیابی کے مواقع اور بھی زیادہ تھے کیونکہ خلدزا صوبے اور باقی صوبے میں علی ہن طور کے غائب ہو جانے سے قانونی تعلقات میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ اس سے اشتراکیوں کو بر سر کار حکومت کو تباہ کرنے کا ایک قانونی ذریعہ مل گیا تھا لیکن خلدزا اگرچہ سوویت کے زیر اقتدار آ گیا تھا پھر بھی سنکیانگ کے چینی صوبے کا وہ ایک حصہ ہی تھا اس سے یہ ہوا کہ جو قازق یہاں آباد تھے انھیں اجازت تھی کہ ان کے رشتے کنبے کے لوگ جو کہیں اور تھے ان سے وہ اپنا تعلق قائم رکھیں۔ لہذا حمزہ اپنی مرضی کے مطابق آ جا سکتا تھا۔ کم از کم اس وقت تک جب تک اس کی آر جار پر روسیوں کو کسی قسم کے خطرے کا شبہ نہ ہو۔ روسی یہ تو جانتے ہی تھے کہ حمزہ کو اشتراکی تعلیم ملی ہے شاید اس سے انھیں یہ خیال ہوا کہ وہ ان کی پاسداری کرنے لگے گا۔ لیکن اگر ان کا یہ خیال تھا غلط تو تھا۔ اس تعلیم نے اس پر الٹا اثر کیا تھا۔ یلدز پہاڑوں میں جب وہ اپنے عہدے کے سلسلے میں اپنے آدمیوں کی نگرانی کرنے کبھی آگے اور کبھی پیچھے جاتا تو وہ ان دوروں سے فائدہ اٹھا کر یہ بھی دیکھ لیتا کہ علی ہن طور کی فوج کے ساتھ روسی کیا کارروائی کر رہے ہیں۔ اس کے بھائی یونس حجی نے قازق قبیلے والوں کو مرتب ہو کر لڑنے کی ترتیب دینی چاہی تھی مگر اسے کامیابی نہیں ہوئی تھی اور قازق ایک جتھے کی صورت ہی میں لڑتے رہے۔ حمزہ کے دل میں بار بار یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ جس کام میں میرا بھائی ناکام رہا، کیا اسی کام میں روسی کامیاب ہو جائیں گے۔ کچھ عرصے بعد حمزہ کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ روسی کامیاب ہو جائیں گے۔ اس سے وہ بہت پریشان ہوا۔ اس کے اپنے آدمی وفادار تھے لیکن ان کے پاس جدید اسلحہ نہیں تھے، انھیں تنخواہیں نہیں دی جاتی تھیں اور نہ وردیاں دی جاتی تھیں۔ روسیوں کے تربیت دیے ہوئے قازقوں کے پاس یہ تینوں چیزیں تھیں اور ظاہر ہے کہ وہ ان سے بہت خوش تھے۔
اگر روسیوں کو معلوم ہو جاتا کہ حمزہ کیوں بار بار خلداز آتا ہے تو یقیناً وہ اسے آزاد نہ چھوڑتے۔ علی ہن طور کے غائب ہو جانے کے بعد علی بیگ نے قازق سرداروں کو مشورے کے لیے مناس کے اوپر کے پہاڑوں میں جمع ہونے کی دعوت دی۔ مشورہ اس بات کا کرنا تھا کہ اشتراکیت کے بڑھتے ہوئے خطرہ کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔ ٢١ اکتوبر ١٩٤٦ء کو تمام نمائندے یکجا ہوئے اور سب نے رضا مندی سے طے کیا کہ پہلی بات تو یہ کہ ہمیں قومیت پسند چینیوں سے، اگر وہ منظور کریں تو پوری طرح مل کر کام کرنا چاہیے اور دوسری بات یہ کہ جو قازق روسی اثر قبول کر چکے ہیں ان میں اشتراکیوں کے خلاف جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔
پہلی بات پر گفت و شنید کرنے کا کام ایک قازق سردار جانم خاں کے سپرد کیا گیا۔ اس کا ذکر آگے بھی آئے گا۔ فروری ١٩٤٧ء کے اختتام تک ارمچی میں چینی فوجوں کے کماندار جنرل سُنگ ہسی لین کو جانم خاں نے اس پر کسی نہ کسی طرح رضامند کر لیا کہ قازقوں کو پانچ سو رائفلیں، چار مشین گنیں، چالیس ہزار گولیاں، دو ہزار ہتھ گولے اور ایک وائرلیس سیٹ بطور تحفہ دے دے۔ حمزہ سے جب علی بیگ نے اس کا ذکر کیا تو مسکرا کر بولا کہ وائرلیس سیٹ دینے کے ساتھ جنرل سنگ نے یہ شرط لگائی ہے کہ ایک چینی سیٹ چلانے والا بھی سیٹ کے ساتھ جائے گا۔
حمزہ نے علی بیگ کو بتایا کہ اسحٰق بیگ کے تمام آدمیوں کے پاس اب رائفلیں ہیں، اور مشین گنیں کتنی ہیں اس کا مجھے علم نہیں۔ اسحٰق بیگ کے پاس کم از کم پچیس ہزار آدمی ہیں جن میں سے بیشتر قازق ہیں۔ ان میں سے بعض مشرقی ترکستان کے ہیں اور باقی سرحد پار سوویت قازقستان کے۔
جہاں تک اسلحہ کی کمی کا تعلق ہے قازق اس باب میں لاچار تھے۔ جنرل سُنگ کی بھی یقیناً وہی کیفیت تھی جو ان قازقوں کی، اس وقت امریکی اسلحہ چین میں دھڑا دھڑ آ رہے تھے اور ان میں سے بعض ہوائی جہازوں میں ارمچی میں سے ہو کر آ رہے تھے لیکن ان کو اسلحہ دینے کا اختیار چینی مرکزی حکومت اور اس کے امریکن مشیرین کو تھا جو نان کنگ میں تھے، ارمچی سے ہزاروں میل دور۔ پھر یہ بھی تھا کہ بہت سے چینی افسر قازقوں پر بھروسا نہیں کرتے تھے۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ جب جنرل سنگ نے ایسے لوگوں کو ہتھیار دے دیے جنھیں اس کے ساتھی چور اور ڈاکو سمجھتے تھے تو اس نے بڑی ہمت سے کام لیا اور وہ اپنے مستقبل کو خطرے میں ڈالنے سے بھی نہیں چوکا۔
پروپیگنڈے کے میدان میں علی بیگ اور اس کے دوست اپنے آپ کو بڑا خوش نصیب سمجھتے تھے کہ وہ متعدد اشاعتیں ایک اخبار “ریویو” کی شائع کر سکے۔ اس کی وہ بہت ساری کاپیاں چھاپتے اور بڑی رازداری سے اس علاقے میں تقسیم کر دیتے جس پر اسحٰق بیگ کی فوجیں قابض تھیں۔ اس اخبار کا چھپنا اور تقسیم ہونا مخفی رہا۔ خلداز کے علاقہ میں اس کی اشاعت کا ذمہ دار حمزہ تھا اور تار باغتائی کے علاقہ کا ذمہ دار ایک اور قازق قائنیش تھا۔ دونوں کے لیے یہ ایک نہایت خطرناک خدمت تھی لیکن ان میں سے ایک بھی نہیں پکڑا گیا۔
مارچ ١٩٤٣ء میں یلذر پہاڑوں کے علاقے سے حمزہ ارمچی گیا تاکہ نئے صوبائی صدر کی تعیناتی کی رسم میں شرکت کرے۔ علی بیگ اور جانِم خاں بھی وہاں موجود تھے لیکن عثمان بطور نہیں تھا۔ وہ سوویت منگول تاخت کا مقابلہ کرنے میں اتنا مصروف تھا کہ یہاں نہیں آ سکتا تھا اور چینی فوجی سربراہ اس مہم کی طرف بالکل متوجہ نہیں تھے۔ صوبائی حکومت کا نیا حاکم چینی نہیں تھا بلکہ مقامی قوموں کا ایک نمائندہ تھا۔ یہ ایک ترکی تھا جس کا نام محسود صابری تھا۔ اس تاجر کو آبادی کے ہر قسم کے لوگ پسند کرتے تھے اور اس کی عزت کرتے تھے۔ ایک اور ترکی محمد امین بُغرا، جس کا نام ہم پہلے بھی سن چکے ہیں، ڈپٹی سکریٹری جنرل بن گیا۔ دو قازق سعالی جن کے نام ہمارے لیے نئے ہیں اور جانِم خاں سکریٹری جنرل اور وزیر مالیات بن گئے۔ کوئی اور وزیر ہماری کہانی سے تعلق نہیں رکھتا۔ حالانکہ اب سب ملا کر پچیس وزیر اور نائب وزیر تھے۔ پندرہ ان میں سے مقامی آدمی تھے اور دس چینی۔ علی بیگ اور حمزہ دونوں کو پورا یقین ہے کہ ان دونوں گروہوں میں کچھ لوگ ایسے شامل تھے جو روس کے تنخواہ دار ہیں مگر نام انھوں نے کسی کا نہیں لیا۔ نئی وزارت کا اچھا آغاز کرنے کے لیے تمام سیاسی قیدیوں کو آزاد کر دیا گیا اور یہ اعلان کر دیا گیا کہ جتنے سرحدی تنازعات ہوں گے انھیں دبانے کے لیے چینی فوجوں سے مدد حاصل کی جا سکے گی۔ سرحدی تنازعات مگھم اصطلاح سے مراد ایسی مداخلت بے جا تھی جیسی کہ سوویت منگول تاختِ الطائی۔
دوسرے اعلان پر شاید سب سے عمدہ تبصرہ یہ واقعہ ہے کہ جانے والا چینی صدر جنرل چانگ اب شمال مغربی چین کے لیے صدر اعظم کے مصالحتی صدر دفتر کا ناظم اعلیٰ ہو کر جا رہا تھا۔ صدر اعظم اس معاملے میں چیانگ کائی شیک تھا۔ اس خطاب سے اگر کسی کو اسٹالن کا مغالطہ ہو جائے تو وہ قابل درگزر ہے کیونکہ بعد میں یہ خطاب اسٹالن نے اختیار کر لیا تھا۔ اس وقت سارا زور مصالحت پر تھا۔
مصالحت کے ناظم اعلیٰ چانگ نے قریب کے صوبہ کنسو کے صدر مقام لانچاؤ میں اپنا صدر دفتر بنایا تھا۔ اسی شہر تک روسیوں اور شنگ نے ١٩٣٨ء میں ایک شاہراہ صحرائے گوبی میں سے نکالی تھی۔ اس طرح ارمچی اور چینی صدر مقام نان کنگ کے درمیان جو تنہا سیدھا راستہ ہے اس پر لانچاؤ واقع تھا۔ قازقوں کو کچھ ہی عرصہ میں یقین ہو چلا کہ سنکیانگ آنے جانے والوں پر چانگ نگرانی رکھتا ہے۔ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ وہ کس قسم کی مصالحت کے طالب ہیں، فوراً نہیں تھوڑے عرصے بعد چانگ نے ان لوگوں کی آمد و رفت بند کر دی جو ترکستانیوں اور چینیوں میں اتحاد چاہتے تھے۔ جب اس نے یہ بندش لگا دی تو صوبہ سنکیانگ باقی چین سے کٹ گیا لیکن روس سے نہیں کٹا۔
نئی وزارت کے قائم ہوتے ہی علی بیگ اور حمزہ اپنی اپنی جائے ملازمت پر بہ عجلت واپس پہنچ گئے اور چند روز بعد حمزہ ایک بار پھر خلداز گیا۔ یہاں اس نے روسیوں اور ان کے پٹھوؤں کو بظاہر دوست پایا لیکن زیادہ نہیں۔ دو سو میل ہی کے فاصلے پر وہ عثمان بطور سے بری طرح بر سر پیکار تھے۔ حمزہ کو یقین آ گیا کہ دیر سویر روسی علاقہ مناس پر حملہ کر دیں گے۔ لیکن آزاد قازق سوائے اس کے اور کر بھی کیا سکتے تھے کہ اس حملے کی روک تھام کے لیے چینیوں سے اسلحہ جنگ کی آس لگائے بیٹھے رہیں۔
خلداز سے حمزہ کے واپس آنے کے کچھ دنوں بعد علی اور حمزہ ارمچی جا پہنچے تاکہ جنرل سُنگ اور دو قازق وزیروں سعالی اور جانم خاں سے حصول اسلحہ پر بات چیت کریں۔ وائر لیس سیٹ چلانے والے قضیے کے باوجود قازقوں کو جنرل سنگ پر بھروسا تھا، اس لیے انھوں نے اس سے کہا کہ بےقاعدہ قازق سپاہیوں کو چینی باقاعدہ افواج میں شامل کر لیا جائے۔ اس طرح ایک ہی وار میں ہتھیاروں، وردیوں اور تنخواہوں تک کا فیصلہ ہو گیا۔ ان اخراجات کی کفالت کے لیے جانم خاں بحیثیت وزیر مالیات بالکل آمادہ تھا۔ جنرل سنگ کا رویہ ہمدردانہ تھا اور بلا شبہ وہ یہ بھی سمجھتا تھا کہ یہ پیش کش تقویت بخش ہے۔ لیکن اصول سے اتنا بڑا بنیادی انحراف چونکہ پہلے کبھی نہیں کیا گیا تھا، اس لیے وہ اسے حیطۂ امکان سے باہر سمجھتا تھا۔ وہ اس پر رضامند ہو گیا کہ اپنی سفارش کے ساتھ اس تجویز کو نان کنگ بھیج دے اور اہل اختیار سے درخواست کرے کہ اس منظوری میں اتنی تاخیر نہ کی جائے کہ پانی سر سے اونچا ہو جائے۔
لہذا علی بیگ اور حمزہ اپنے اپنے مقام پر واپس چلے گئے اور انھیں اس کا پریشان کن احساس رہا کہ اگر روسیوں نے اپنے سکھائے پڑھائے قازقوں کو حملہ کرنے کا حکم دے دیا تو ارمچی تک وہ بغیر کسی مزاحمت کے جا پہنچیں گے۔ ہاں اگر ان قازقوں نے ایک زبان ہو کر اپنے ہم وطنوں سے لڑنے سے انکار کر دیا تو بات ہی کچھ اور ہوگی۔ مگر دونوں محسوس کرتے تھے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ منظم فوجیں عموماً اتنی آسانی سے حکم عدولی نہیں کرتیں بلکہ اس کے بدلے یہ ہو سکتا تھا کہ آزاد قازق اپنے بھائی بندوں سے لڑنے سے انکار کر دیں۔ خصوصاً اس صورت میں کہ وہ ہتھیاروں سے لیس ہوں اور یہ ہتھیاروں سے عاری۔
عثمان بطور کی جو خبریں آ رہی تھیں ان سے صورت حال اور بھی زیادہ خراب ہو گئی۔ الطائی اور بائتک بوغدو کے درمیانی علاقے میں جو حملے اور جوابی حملے ہو رہے تھے ان سے تنگ آ کر روسیوں نے منگولیا سے ایک نئی سڑک بنانی شروع کی جو اجاڑ علاقے میں سے ہو کر عثمان کے مغربی پہلو تک پہنچ جائے۔ اس سے اندیشہ پیدا ہو گیا تھا کہ وہ اپنے مناس اور ارمچی کے دوستوں سے بالکل کٹ جائے گا۔ اب سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ عثمان بطور بائتک بوغدو کو بھی الطائی کی طرح خالی کر دے۔ چنانچہ قازق خانہ بدوشوں نے ایک با ر پھر اپنے جانوروں کو جنوب کی طرف ہنکایا۔ اب کی دفعہ تئین شان سلسلۂ کوہ میں جا پہنچے۔ عثمان نے اپنا صدر مقام قزل چالابیل یا کمرِ سرخ میں بنایا جو کیو چنک کے قریب ہے لیکن اس علاقے میں بیشتر ریت کے تودے ہیں اور پانی صرف جاڑوں میں میسر آتا ہے، وہ بھی جب ریت برف سے ڈھک جائے۔
قازقوں کی عظیم پسپائی میں یہ دوسری منزل تھی۔ پہلی منزل وہ تھی جب حسین تجی بارکل سے ہٹ کر غزکل پہنچا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ بعض قبیلے والے اپنے سرداروں کے مارے جانے پر الطائی میں اپنے روایتی مسکنوں کو لوٹ گئے ہوں، لیکن بیشتر قازق منگولوں کی طاقت کی وجہ سے نِگھرے ہو گئے اور انھوں نے اس اقتدار کو قبول کر لیا جسے چوئی بلسان جیسوں نے زبردستی مسلط کر رکھا ہے۔ بہت سے قازق بائتک پہاڑوں کو بھی چھوڑ کر چلے گئے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان علاقوں میں منگولی اور سوویت سرحدیں جنوب کی جانب بڑھ کر چین کو غصب کرتی رہیں۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ انھوں نے کتنا چینی علاقہ دبا لیا کیونکہ آج تک اس کا اعلان عام نہیں کیا گیا کہ ان فوجوں نے کوئی نقل و حرکت بھی کی ہے یا نہیں۔ کم سے کم علی بیگ اور حمزہ کے علم میں ایسا کوئی اعلان نہیں ہے۔ یہ سرحدیں قانوناً نہیں بلکہ درحقیقت اس وقت پھیلیں جب عثمان بطور اپنی لڑائیوں کے ساتھ از خود چین کی لڑائیاں بھی لڑ رہا تھا۔ اور جب ١٩٤٦ء میں اسے الطائی سے پسپا ہونا پڑا تھا اس وقت چین کے دوسرے حصوں میں روسیوں کی تحریک پر چینی اشتراکی چینی قوم پرستوں سے بر سر پیکار نہیں ہوئے تھے۔ عثمان بطور کو چینی اشتراکیوں نے پیچھے نہیں ہٹایا تھا بلکہ سوویت اور منگولی باقاعدہ فوجوں نے الطائی کے چینی علاقہ پر جبریہ قبضہ ہوائی حملوں کی مدد سے کیا تھا اور یہ سب کچھ چینی سوویت معاہدۂ دوستی کے تیرہ مہینے کے اندر ہی ہو گیا حالانکہ طرفین میں سے کسی نے بھی اس معاہدہ کو کالعدم قرار نہیں دیا تھا۔ علی بیگ اور حمزہ کا بیان یہ ہے کہ چینی قوم پرستوں نے روسیوں اور منگولوں کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس وقت جتنی بھی مخالفت ہوئی وہ صرف عثمان بطور اور اس کے چھاپہ ماروں کی طرف سے ہوئی۔
دسمبر ١٩٤٧ء میں آزاد اور بہکائے ہوئے قازقوں میں مناس کے قریب ایک ٹکر ہوئی جس کا اندیشہ بہت عرصے سے تھا مگر اشتراکیوں کو اس میں متوقع کامیابی نہیں ہوئی۔ مادی فائدوں کا لالچ دے کر اشتراکیوں نے قازقوں کو جس طرح توڑ لینا چاہا تھا اس میں وہ بری طرح ناکام ہوئے کیونکہ قازقوں کو اپنے طرز زندگی سے زیادہ محبت تھی۔ “ریویو” کی منقول کاپیوں سے متاثر ہو کر جنھیں حمزہ اور قائنیش نے مخفی طور پر تقسیم کیا تھا کوئی آٹھ ہزار بہکائے ہوئے قازق، نو میں سے تین رجمنٹیں، بغاوت کر بیٹھے اور بجائے اپنے آزاد بھائی بندوں پر حملہ کرنے کے ہتھیاروں سمیت ان سے جا ملے۔ حمزہ نے بڑی مسرت سے ان کا استقبال کیا اور انھیں مناس دریا کے اس پار پہنچا دیا۔ یہاں باقی چھ رجمنٹوں نے علی بیگ کے لشکر پر جو اچانک حملہ کیا، اسے انھوں نے پسپا کر دیا۔ ان کے پسپا ہونے سے پہلے کئی دن تک جنگ جاری رہی اور دونوں طرف کشتوں کے پشتے لگ گئے۔
ہم لوگوں کے لیے جو زیادہ سلجھے ہوئے انداز جنگ کے عادی ہیں، یہ بات سمجھ لینی آسان نہیں ہے کہ صوبائی حکومت سے اس وقت اور بعد میں بھی، آزاد اور بہکائے ہوئے قازقوں، دونوں کے تعلقات استوار رہے۔ خلدزا نے اپنے چنے ہوئے نمانئندے ارمچی کی صوبائی اسمبلی میں بھیجنے بند نہیں کیے حالانکہ چین اور سوویت حکومت کی درمیانی سرحد آگے پھیل چکی تھی اور جن علاقوں کی نمائندگی یہ نمائندے کرتے تھے، وہ فی الحقیقت اب چین میں نہیں رہے تھے۔ بعض بعض جگہ تو یہ سرحد ڈھائی ڈھائی سو میل آگے بڑھ گئی تھی۔ چینی اشتراکیوں نے جب قوم پرست رہنماؤں کو فارموسا میں دھکیل دیا تو اس وقت بھی یہ سرحد وہیں قائم رہی اور علی بیگ اور حمزہ کا بیان ہے کہ اب تک وہی سرحد قائم ہے۔
لیکن اس عرصے میں خلدزا کے مندوبین صوبائی اسمبلی ارمچی میں اسی مستقل مزاجی سے شریک ہوتے رہے۔ یہ لوگ “ایلی کے باغی” مشہور ہو گئے تھے وہ اب بھی اپنے آپ کو اشتراکی کہلوانا پسند نہیں کرتے تھے لیکن ان کا تعلق ہمراہیوں سے کم نہیں تھا۔
جب یہ واقعات پیش آ رہے تھے تو خلدزا اور تار باغتائی علاقوں سے تمام قازق باشندے ترک وطن کر کے نہیں چلے گئے تھے، کچھ تعداد ان کی ضرور چلی گئی تھی۔ آزاد قازق تئین شان پہاڑوں کے شمال ڈھلانوں پر اب بھی قابض تھے اور آزادی سے عثمان بطور سے ان کے نئے صدر مقام قزل چالابیل میں اپنا تعلق قائم کیے ہوئے تھے لیکن اب پورا الطائی ان کے لیے کھلا ہوا نہیں تھا اور دریائے مناس کے مشرق کے علاوہ تئین شان کی پہاڑیوں سے آگے نہیں جا سکتے تھے۔ اس علاقے میں بہت سے قازقوں کے پڑاؤ تھے اس لیے اس کا چھن جانا ان کے لے بہت اہم معاملہ تھا۔
اس حقیقت کے باوجود کہ ان کی رہائش کی جگہ سکڑتی چلی جا رہی تھی، آزاد قازق مستقبل کی طرف سے مطمئن اور خوش تھے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ نان کنگ سے بالآخر اجازت آ گئی تھی کہ چین کی باقاعدہ افواج میں قازق لشکروں کو شامل کر لیا جائے۔ قازق لشکر عثمان بطور کی کمان میں دے دیا گیا تھا اور عثمان نے حمزہ کو فوراً طلب کیا تھا کہ وہ ان تین رجمنٹوں کو لے کر آ جائے جو روسیوں سے بغاوت کر کے ان میں آن ملی تھیں۔ حمزہ کی عمر اس وقت صرف پچیس سال کی تھی اور وہ چینی باقاعدہ فوج میں کرنل بن چکا تھا۔
اس طرح تقویت پا کر عثمان بطور اب اتنا قوی ہو گیا تھا کہ روسیوں اور منگولوں کو بائتک بوغدو اور الطائی سے نکال باہر کرنے کی ایک اور کوشش کر دیکھے۔ جاڑے کا زمانہ تھا اور قازقوں کو عادت تھی کہ موسم چاہے کیسا ہی ہو اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر علاقے میں گھومتے پھریں۔ یہی عادت ان قازقوں کی بھی تھی جو روسیوں کی تربیت پانے کے باوجود روسیوں سے باغی ہو کر آ گئے تھے۔ عثمان نے اپنے آدمیوں کو آگے بھیج دیا تاکہ جتنے علاقے کو اپنے قبضے میں لے سکیں لے لیں اس کے علاوہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ جب گرمیاں آنی شروع ہوں گی تو اس کے ساتھی اوپر کے پہاڑی علاقوں میں جانا چاہیں گے کیونکہ وہ اپنے جانوروں کو نیچے کی زمینوں میں صرف جاڑوں ہی میں چرا سکتے تھے۔
یہ پہلا اتفاق تھا کہ اس نے اپنے آدمیوں کی رہنمائی جنگ میں خود نہیں کی بلکہ اس کی کمان اپنے بیٹے شیر درماں کو سونپی۔ ٧ دسمبر ١٩٤٧ء کو جب یہ فوج آٹھ دن کی گھڑ سواری کے فاصلے پر دشمن کی ایک چوکی پر حملہ کر رہی تھی، دشمن کے تقریباً سو سواروں کے ایک دستے نے خود عثمان پر کیو چنگ کے قریب اچانک چھاپہ مار دیا۔
یہ واقعہ قازقوں کا ایک کارنامۂ شجاعت بن گیا ہے۔ عثمان بطور اس وقت اپنے نمدہ دار خیمے میں مقیم نہیں تھا بلکہ ایک گھر میں رہتا تھا۔ یہ ایک منزلہ عمارت تھی جس کے چاروں طرف مٹی کی کچی دیوار کھینچی ہوئی تھی۔ دیوار ایک گز موٹی تھی اور اس میں ایک مضبوط سیخوں کا پھاٹک لگا ہوا تھا۔ عثمان نے اتفاقاً ایک صبح کو ٩ بجے کھڑکی میں سے دیکھا کہ چند مسلح آدمی اس پھاٹک کو کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس وقت تک اسے سان گمان بھی نہیں تھا کہ دشمن کہیں قریب ہی موجود ہے اور جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا سوائے اس دستے کے اس سارے علاقے میں دشمن کہیں بھی نہیں تھا۔ عثمان خود اس قسم کے متعدد حملے دشمنوں پر کر چکا تھا اس لیے رائفل اس کے قریب ہی ہمیشہ رکھی رہتی تھی۔ داخل ہونے کی کوشش کرنے والوں کو بھاگ کھڑے ہونے کا بھی وقت نہیں ملا اور ان میں سے دو آدمی سر میں گولی کھا کر مر گئے۔ جو باقی بچے وہ جلدی سے منتشر ہو گئے۔
عثمان کے ساتھ اس وقت اس کے گھر میں اس کی بیوی تھی، ان کی چھ سال کی ایک بچی تھی اور ایک ملازم۔ یہ ملازم بھی مشین گن چلانے میں مشاق تھا اور خوش بختی سے اس کی مشین گن بھی اس کے پاس ہی تھی۔ یہ مکان ایک تنہا مقام پر تھا اور یہاں مدد پہنچنے کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔ عثمان کی بیوی کے پاس ایک خودکار طمنچہ تھا۔ خود عثمان کے پاس اپنی رائفل تھی اور بہت ساری گولیاں تھیں۔ دن کی روشنی میں یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ دشمن دیوار پھلانگ کے یا پھاٹک توڑ کر اندر آ جائے۔ رات پڑے پیچھے البتہ اس کا اندیشہ ہو سکتا تھا۔
مٹی کی دیوار میں سے گولی آر پار نہیں جا سکتی تھی اس لیے دونوں مرد، عورت اور لڑکی سب مل کر گھومتے پھرے اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد دیوار پر سے جھانک لیتے کہ دشمن دیوار پر چڑھنے کی کوشش تو نہیں کرتا یا کوئی سرنگ تو نہیں بنا رہا۔ جب ان میں سے کوئی دشمن کو دکھائی دے جاتا تو ادھر سے گولیاں چلنے لگتیں اور دو گولیاں ایسی بری چلیں کہ ایک سے مشین گن چلانے والا بری طرح زخمی ہو گیا اور دوسری گولی سے لڑکی مر گئی۔ انھوں نے لڑکی کو دفن کر دیا مگر گہری قبر نہیں کھود سکے کیونکہ برف جمی ہوئی تھی اور زخمی مشین گن چلانے والے کو ایسی جگہ سہارے سے بٹھا دیا جہاں سے وہ اب بھی پھاٹک میں سے آنے والے پر گولی چلا سکتا تھا۔
اسی عرصے میں عثمان اور اس کی بیوی نے اپنے گھوڑوں کے خاردار نعل باندھ دیے تاکہ جمی ہوئی برف پر ان کے پاؤں نہ پھسلنے پائیں۔ ٹھہر ٹھہر کر عثمان دیوار کے اس پار دیکھ لیتا اور اگر کوئی اسے نظر آ جاتا تو اس پر تڑا تڑ گولیاں چلا دیتا۔ عثمان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اس کا نشانہ کبھی خطا نہ ہوتا تھا اور ہمیں یہ مان لینے میں کوئی پس و پیش نہیں ہونا چاہیے کہ ایسے موقعوں پر تو عثمان چوکتا ہی نہیں ہوگا۔
جب عثمان اور اس کی بیوی نے جانچ لیا کہ کافی اندھیرا ہو گیا ہے تو انھوں نے مشین گن چلانے والے کو خدا حافظ کہا۔ وہ بے چارہ اتنا شدید زخمی ہو گیا تھا کہ ہل جل بھی نہیں سکتا تھا۔ دونوں نے اپنے گھوڑوں پر زینیں کسیں اور ایک دم سے پھاٹک کھول کر برف جمی ہوئی زمین پر سرپٹ روانہ ہو گئے۔ چند دشمنوں نے ان کا پیچھا کیا لیکن عثمان نے اپنے زین پر گھوم کر ان میں سے کئی ایک کو گولی کا نشانہ بنایا اور جو باقی بچے وہ واپس چلے گئے۔ جب وہ دشمنوں کی زد سے باہر ہو گئے تو انھوں نے دیکھا کہ ان کے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے۔
چند روز بعد جب عثمان واپس آیا تو اسے جلے ہوئے کھنڈر کے سوا کچھ نہیں ملا۔ اسی میں اسے مشین گن چلانے والے کی جلی ہوئی لاش ملی۔ لیکن نہ معلوم کیوں دشمن کا دستہ اب بھی قرب و جوار میں موجود تھا۔ عثمان بطور کے محافظوں نے دستے کا پیچھا کیا اور بہت سوں کو ٹھکانے لگا دیا۔ ان میں سے بعض منگول تھے بعض روسی وردیاں پہنے قازق تھے اور بعض روسی تھے۔
قازق سردار کو مار ڈالنے یا زندہ گرفتار کر لینے کی کوشش ناکام رہی لیکن اس حملے کی خبر سنتے ہی اس کے لوگ اس کی حفاظت کرنے کے لیے الطائی سے جلدی جلدی آنے لگے۔ اس امر پر یقین کرنے کے وجوہ ہیں کہ اس حملے کا منصوبہ ارمچی میں روسی طرف داروں نے بنایا تھا۔ جس دن عثمان کے گھر پر حملہ ہوا اسی دن ارمچی میں اعلان کر دیا گیا تھا کہ عثمان بطور مارا گیا۔ معمولی حالات میں یہ خبر دار الحکومت میں کئی دن میں پہنچتی۔ اس واقعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اشتراکی جاسوس بہت باخبر رہتے تھے۔ مناس میں علی بیگ کو بھی یہی اندیشہ ہو چلا تھا اور اسے اور عثمان بطور کو یقین ہو چلا تھا کہ جو تین رجمنٹیں آزاد قازقوں سے آ ملی تھیں ان میں بہت سے جاسوس بھی شامل ہیں۔
قازقوں کو جن پر اشتراکی ہونے کا شبہ ہوتا ان سے گڑھے کھدواتے اور ان میں انھیں قید کر دیتے۔ جب وہ کیچڑ پانی میں ہتھکڑیاں لگے پڑے رہتے اور انھیں کئی دن اسی طرح سے گزر جاتے تو انھیں رسیاں ڈال کر باہر نکالا جاتا تاکہ وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور اپنے ساتھیوں کا نام بتائیں۔ سزا کا یہ بڑا پرانا طریقہ تھا جس میں گناہگار کے ساتھ بے گناہ بھی پھنس جاتا۔ لیکن ان کے مخالفین اشتراکی جو طریقے اختیار کرتے تھے وہ بھی ان سے کچھ بہتر نہیں تھے۔ وہ جسمانی اذیت کے ساتھ ذہنی اذیت بھی دیتے تھے۔ اس کے علاوہ اشتراکیوں کا عام وطیرہ یہ تھا کہ ملزم چاہے اقرار کرے یا نہ کرے۔ چاہے گناہگار ہو چاہے بے گناہ، آخر میں میں اس کی گدی میں گولی مار دی جاتی۔ مردہ باتیں نہیں کرتا۔ جنھیں قازق گڑھوں میں قید کرتے ان میں سے چند کو مار ڈالتے یا انھیں بھی مار ڈالتے جنھیں خود کچھ کرتے دیکھ لیتے اور ان پر مقدمہ چلانے کی ضرورت نہ سمجھتے۔ جو باقی بچتے انھیں چھوڑ دیتے۔ جو لوگ سخت مصیبتوں میں پھنس جاتے ہیں وہ مجبور ہو جاتے ہیں کہ ان کا تدارک سختی سے کریں۔ قازق جانتے تھے کہ اگر ہم نے ہتھیار ڈال دیے تو ہمارا کیا حشر ہوگا۔ قازقوں کو علم تھا کہ اشتراکی جاسوس ہمارے طرزِ زندگی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اس لیے انھوں نے بہت سے جاسوسوں کا پتہ چلا لیا مگر سب کا پتہ پھر بھی نہ چلا سکے۔