“سات سمندر پار میں تیرے پیچھے پیچھے آ گئ…
میں تیرے پیچھے پیچھے آ گئ…
زلمی میری جاں…
او زلمی میری جان تیرے قدموں کے نیچے آ گئ…
سات سمندر پار میں تیرے پیچھے پیچھے آ گئ… ”
وہ اچھلتی کودتی اور بلند آواز سے گنگناتی ہوئ اپنے تایا جی کے گھر میں داخل ہوئ… اپنی ہی مستیوں میں گم اس کی نگاہ لان میں پودوں کو پانی دیتے حسن پر نہیں پڑی تھی… تبھی وہ مگن سی گیٹ سے گزرتی اندر کی جانب بڑھ رہی تھی جب حسن کی آواز پر اسے رکنا پڑا…
“اوۓ…کبھی میرا پیچھا چھوڑ بھی دیا کرو… نہا دھو کے میرے پیچھے ہی پڑ گئ ہو…کسی ڈائن کی طرح…” وہ نچلا لب دانتوں تلے دباۓ شرارتی لہجے میں کہتا جان بوجھ کر اسے چڑانے کی کوشش کر رہا تھا…
اس کی آواز پر ہانیہ کے قدم بے ساختہ رکے… وہ ایڑیوں کے بل گھومی… کمر پر دونوں ہاتھ ٹکاۓ… اور آنکھیں سیکڑ کر اسے دیکھنے لگی…
“میں نے کب تمہارا پیچھا کیا ہے…؟؟” کھا جانے والے انداز میں اس سے مخاطب ہوتے ہوۓ وہ کیاریاں ہھلانگتی اس تک پہنچی…
“ابھی تو کہا تم نے… سات سمندر پار میں تیرے پیچھے پیچھے آ گئ… مطلب میرے پیچھے ہی آئ ہو نا…” وہ کندھے اچکا کر کہتا پودوں کی طرف متوجہ ہو گیا جو پانی سے دھلنے کے باعث نکھرے نکھرے سے لگ رہے تھے…
“منہ دھو رکھو اپنا… کبھی آئینہ دیکھا ہے تم نے…؟؟ میں… اور تمہارے پیچھے آؤں… خوش فہمیاں اچھی پال رکھی ہیں… میں صرف گانا گا رہی تھی… ” ایک ادا سے ترشے ہوۓ بال پیچھے جھٹکتے ہوۓ وہ مغرور لہجے میں بولی… حسن نے دلچسپ نگاہوں سے اس کی ان جان لیوا اداؤں کو دیکھا تھا…
“ہاں… اب کر دو بہانہ سونگ کا… لیکن تمہارے دل کی بات میں اچھی طرح جانتا ہوں…” اس کا لہجہ مسکراتا ہوا سا تھا…
“بکواس نہیں کرو حسن… ایسا کچھ نہیں جیسا تم سمجھ رہے ہو…” وہ منہ کے زاویے بگاڑتے کہہ گئ…
“حدِ ادب گستاخ لڑکی… تم جانتی بھی ہو کہ کس سے بات کر رہی ہو تم…” حسن نے رعب جھاڑنے کی ادنٰی سی کوشش کی جس کا ذرہ برابر اثر نہ ہوا تھا ہانیہ پر…
“ہاں جانتی ہوں… ہے ایک دنیا جہان کا نکمّا, آوارہ, بدمعاش, غنڈہ اور موالی جو مجھ سے مخاطب ہونے کے بہانے ڈھونڈتا رہتا ہے ہر وقت…” وہ بھی اب کی بار شرارت سے گویا ہوئ تھی…
“ایک چیز تو بتانے والی رہ ہی گئ… مابدولت خاصے ہینڈسم بھی ہیں…” وہ جتانے والے انداز میں کہتا بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا…
“اوہ… اس خوش گمانی میں کس نے مبتلا کیا آپ کو… مسٹر حسن رضا…؟؟” وہ ٹھوڑی تلے انگلی ٹکاۓ آنکھیں پٹپٹا کر پوچھنے لگی…
“اچھا چھوڑو… یہ بتاؤ یہاں کیوں آئ ہو… کچھ شرم کر لو ہانی… جب دل چاہے دندناتی ہوئ اپنے ہونے والے سسرال پہنچ جاتی ہو… بندہ تھوڑا سا لحاظ کر لے… مشرقی لڑکیوں والی کوئ بات ہی نہیں ہے تم میں… ” وہ ملامت بھرے لہجے میں اسے شرمندہ کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہا تھا…
“تمہیں کیا تکلیف ہے…؟؟ میں نہیں مانتی اس گھر کو سسرال… یہ میرے تایا جی اور تائ جی کا گھر ہے… جب چاہوں تب آؤں گی یہاں… تم کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے…؟؟” وہ خم ٹھونک کر میدان میں اتر آئ تھی…
“بتاؤں کون ہوں میں…؟؟” آنکھوں میں خاص چمک لیے شرارتی لہجے میں وہ اس سے پوچھ رہا تھا… ہانیہ اس کے اس انداز پر سٹپٹا کر رہ گئ… تبھی فوراً نظریں جھکائ تھیں…
“بس… اتنی ہی ہمت تھی میرا مقابلہ کرنے کی…؟؟” وہ اب قہقہہ لگا کر ہنس رہا تھا… ساتھ ہی مسکراتی نگاہوں سے اس کا سرخ پڑتا چہرہ دل میں سمانے لگا… جو لب کاٹتی کنفیوژ سی کھڑی تھی… بار بار نچلا لب دانتوں میں دبانے کے باعث گالوں کے ڈمپلز واضح ہو رہے تھے جو حسن کا ضبط آزمانے پر تلے تھے…
“تم نا… ایک نمبر کے فضول انسان ہو…جاؤ میں بات نہیں کرتی تم سے…” وہ مصنوعی خفگی سے کہہ گئ…
“بالکل ٹھیک کہا ہانیہ آپی… بھائ تو ہیں ہی فضول انسان… اور کبھی بات مت کیجیے گا ان سے… پکی والی ناراضگی آج سے آپ دونوں کی…” اس سے پہلے کے حسن کچھ بولتا لان میں آتے محسن نے ہانیہ کی بات کا جواب دیا…
“اوۓ ڈفر… تو میرا بھائ ہے یا اس کا…؟؟” حسن نے اسے زبردست گھوری سے نوازا…
“امممم…ففٹی ففٹی… آدھا آپ کا… آدھا بھابھی کا…” محسن نے سوچنے کی اداکاری کرتے ہوۓ حواب دیا جبکہ اس کی بات پر ہانیہ اسے خشمگیں نگاہوں سے گھورنے لگی…
“آپ کو کیا ہو گیا… سالم نگلنے کا ارادہ ہے کیا…؟؟ یقین کریں بالکل ہڈیوں کا ڈھانچہ ہوں… مجھے کھانے کے بعد بھی آپ کی بھوک بالکل نہیں مٹے گی… اس لیے مجھ معصوم کو بخش دیں پلیز…” وہ باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر اس کے سامنے جھکا کھڑا تھا… ہانیہ نے زور سے اس کے جڑے ہاتھوں پر ہاتھ مارا…
“یہ بھابھی کسے کہا تم نے…؟؟ کتنی بار بولا ہے کہ بھابھی کہہ کر مت بلایا کرو…پہلے رشتے ختم ہو گۓ کیا…؟؟ آپی کہا کرو مجھے آپی…اور میں کیا آدم خور لگتی ہوں تمہیں…؟؟ جو انسانوں کو سالم نگل جاؤں گی…؟؟” وہ قمیض کے دونوں بازو اوپر کرتے ہوۓ توپوں کا رخ اس کی طرف کر گئ…
“وہ…. وہ نا…کل بھائ کہہ رہے تھے کہ آپ ڈائن ہیں… چڑیل ہیں… لوگوں کا خون پیتی ہیں… یقین نہیں تو خود پوچھ لیں ان سے…” محسن نے کوئ راہِ فرار نہ پا کر پھر اسے حسن کی طرف متوجہ کر دیا… حسن اس کی بات پر سٹپٹا کر رہ گیا…
“شرم تو نہیں آتی تمہیں حسن… میرے پیچھے میری برائیاں کرتے ہوۓ… میرے سامنے تو بڑے محبت محبت کے راگ الاپتے ہو… پتا چل گیا ہے کتنی محبت ہے تمہیں مجھ سے…” وہ رونے والا منہ بناتی اسے سخت سست سنانے لگی…
“ارے ہانی… مذاق میں کہا تھا یار… غصہ کیوں ہو رہی ہو… ” حسن تو پریشان ہی ہو کر رہ گیا اس کی بات پر… جانتا تھا چھوٹی چھوٹی بات پر ناراض ہو جاتی ہے وہ… اور پھر اسے منانا انتہائ مشکل کام ثابت ہوتا تھا…
“دفع ہو جاؤ تم… ” وہ کہتی وہاں سے جانے کو مڑی…
“ہانیہ میری بات تو سنو یار…میں…” بوکھلاہٹ میں وہ ہانیہ کی جانب بڑھتے ہوۓ یہ بھول چکا تھا کہ اس کے ہاتھ میں پانی کا پائپ ہے… اور نادانستگی میں ہی پائپ کا رخ وہ ہانیہ کی جانب کر گیا جس سے پانی کی تیز پھوار ہانیہ کے پورے وجود کو بھگو گئ…
“اوہ…” وہ بوکھلا کر پائپ ہاتھ سے پھینک گیا… ہانیہ جو ناراض سی جانے کو مڑی تھی پانی سے بھیگنے کے بعد وہیں رک گئ… اور اب پلٹ کر خونخوار نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی جیسے آنکھوں سے قتل کر دے گی اسے… جبکہ اس صورتحال پر محسن کی بتیسی ہی اندر نہ جا رہی تھی… اپنی بے قابو ہوتی ہنسی اور حسن کی گھوریوں پر اس نے وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت جانی…
“تم…تم نے مجھے بھگو دیا…” ہانیہ رونی صورت بناۓ غصے اور بے بسی بھرے لہجے میں اس سے مخاطب ہوئ…
“آئم سوری ہانی… قسم سے جان بوجھ کر نہیں کیا میں نے… بس بے خیالی میں ہی ہو گیا یہ سب…” حسن شرمندہ سا کہہ گیا…
“ایسی کی تیسی تمہاری سوری کی… اب بچو تم مجھ سے… آج تمہارا قتل ہو کر رہے گا… اور میرے ہی ہاتھوں ہو گا تمہارا قتل… یاد رکھنا تم…” وہ خطرناک تیور لیے اس کی جانب بڑھی… جبکہ حسن خطرہ محسوس کرتے ہوۓ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا… اب پورے لان میں وہ آگے آگے تھا اور ہانیہ پیچھے پیچھے… اسے پکڑنے کی کوشش میں وہ ہانپ کر رہ گئ… تبھی ایک جانب لگے جھولے پر بیٹھ کر گہرے گہرے سانس لینے لگی…
“کیوں خود کو ہلکان کر رہی ہو… تمہاری یہ حالت دیکھی نہیں جاتی مجھ سے… پھر سے کہہ رہا ہوں… آئم سوری… ایکسیپٹ کر لو میری معافی… ” وہ اب پھر شرارت کے موڈ میں آ چکا تھا…
“نہیں کروں گی ایکسیپٹ… بالکل نہیں کروں گی…” وہ چلّائ…
“نہ کرو… مجھے کیا… اس میں تیرا گھاٹا میرا کچھ نہیں جاتا…” ہانیہ کو انگوٹھا دکھاتا, دھیمے لہجے میں گنگناتے ہوۓ وہ کندھے اچکا گیا…
وہ کچھ کہنے ہی والی تھی جب تائ جی کی وہاں انٹری ہوئ…
“ہانیہ پتر…. تیرے لیے پکوڑے بناۓ ہیں میں نے گرم گرم… ساتھ بڑی مزے کی چاۓ بھی تیار ہے… آ جا دونوں مل کے پکوڑے کھائیں گے…”
تائ جی پرجوش انداز میں اطلاع دیتیں اس تک آئیں… پھر ہانیہ کی حالت دیکھ کر ان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا…
“ہائیں… یہ کیا حالت بنا رکھی ہے ہانی… کیا ہوا ہے تجھے پتر… تو ٹھیک تو ہے نا…؟؟” تائ جی اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لے کر پریشانی سے پوچھنے لگیں…
“تائ جی… دیکھ لیں اپنے سپوت کی حرکتیں… کیا حال کر دیا میرا… اتنا اچھا ڈریس تھا میرا… آج پہلی بار پہنا تھا… سوچا اپنی پیاری سی تائ اماں کو دکھا کر آتی ہوں…لیکن یہ جل ککڑ ہے نا… اسے میرا اور آپ کا پیار بالکل برداشت نہیں ہے…” وہ رونی صورت بناۓ تائ اماں سے چپکی اس کی شکایت کر رہی تھی… جبکہ حسن منہ کھولے اس کی الزام تراشی سن رہا تھا…
“حسن… یہ کیا بے غیرتی ہے…؟؟؟ کتنی بار کہا ہے تجھے کہ میری بیٹی کو تنگ مت کیا کر… پھر… کب باز آۓ گا تو…؟؟ دیکھ کسی دن تیری ان حرکتوں کی وجہ سے نا چھترول ہو جانی ہے تیری میرے ہاتھوں… میں کہتی ہوں بچ کے رہ مجھ سے… ” اماں حسب توقع جلال میں آ چکی تھیں…
“اماں میں نے کیا کیا ہے یار… یہ چھچھوندر جان بوجھ کر آپ کو میرے خلاف بھڑکاتی ہے… مانتا ہوں میری غلطی ہے…لیکن نادانستگی میں ہوا یہ سب… میں تو اسے منانے کی کوشش کر رہا تھا…” وہ جھنجھلا کر رہ گیا…
“تائ اماں… دیکھیں کیا کہہ رہا ہے یہ مجھے…” چھچھوندر بلاۓ جانے پر وہ ٹھنکی…
“چھچھوندر کسے کہا تو نے حسن… اور مجھے یہ بتا کہ منانے کے لیے اگلے بندے کو پانی ڈال کر بھگونا ضروری ہوتا ہے…؟؟ یہ نیا اصول کہاں سے سیکھ لیا تو نے…؟؟” تائ اماں تو کلاس لینے کے موڈ میں آ چکی تھیں… بھلا ان سے کہاں برداشت ہوتی تھی ہانیہ کی اتری صورت…
“ارے کچھ نہیں اماں… جان چھوڑیں میری… اور تم… مجھ سے بات کیا کرو نا ڈائریکٹ… یہ اماں کو کیوں بیچ میں لاتی ہو…؟؟” وہ اسے گھور کر بولا…
“میں تو لاؤں گی… آفٹر آل میری تائ اماں ہیں…” وہ اسے ڈانٹ پڑوا کر تائ اماں کے کندھوں گے گرد بازو پھیلاتی لاڈ سے ان کے ساتھ لگ کر مزے سے کہہ گئ…
“تمہیں تو میں سیدھا کرتا ہوں رکو ذرا…” وہ اسے پکڑنے کو آگے بڑھا جب تائ اماں کی تیز گھوری نے اسے رکنے پر مجبور کیا… ساتھ ہی تنبیہہ بھی سنائ دی…
“حسن…” اور بس… حسن کی اکڑ, اس کا بدلہ لینے کا جذبہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا…
“تمہیں تو میں دیکھ لوں گا چیونٹی… ہاتھ لگو میرے تم…” منہ پر ہاتھ پھیر کر اسے وارن کرتا وہ وہاں سے چلا گیا…
“جاؤ جاؤ بڑے آۓ…” ہانیہ نے ہاتھ جھٹکتے گویا ناک سے مکھی اڑائ… پھر تائ اماں کے ساتھ اندر کی جانب بڑھ گئ… البتہ جاتے جاتے پیچھے مڑ کر دیکھا تو حسن اسی کی طرف متوجہ تھا… ہانیہ نے اسے زبان دکھائ اور تیزی سے اندر داخل ہو گئ…
“پاگل لڑکی…” حسن سر جھٹکتا پودوں کی کانٹ چھانٹ کرنے لگا… جبکہ اب لبوں پر دلفریب سی مسکراہٹ تھی…
💝💝💝💝💝
“حسن…” وہ دونوں اس وقت ڈنر کرنے باہر آۓ تھے… ہانیہ اور حسن کی شرط لگی تھی جس میں حسن ہار چکا تھا اور اب اصول کے مطابق اسے ڈنر کروانے باہر لایا تھا…
“ہاں کہو…” حسن نے پلیٹ میں چمچ چلاتے ہوۓ اسے دیکھا جو کسی گہری سوچ میں گم نظر آتی تھی…
“میری ایک خواہش پوری کرو گے…؟؟” وہ آس بھری نظریں اس پر جماۓ پوچھ رہی تھی…
“ارے یار… یہ بھی کوئ پوچھنے کی بات ہے… تمہارے لیے تو جان بھی حاضر ہے… تمہاری ہر خواہش پوری کرنا میری خواب ہے… تم کہہ کر تو دیکھو…” حسن آنکھیں میں خوبصورت جذبات لیے اسے دیکھنے لگا… چند لمحوں کے لیے کھانا چھوڑ کر وہ پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہو چکا تھا…
“حسن… میری بڑی خواہش ہے میں کوئ جن دیکھوں… کوئ بھوت… کوئ غیر انسانی مخلوق… مجھے جنون ہے ایسی کسی چیز سے ملنے کا… لوگ پتا نہیں کیوں اتنا ڈرتے ہیں ان چیزوں سے… میں… میں نا ان کا سامنا کرنا چاہتی ہوں… میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ ایسی مخلوق کو اپنے سامنے پا کر انسان کی کیا کیفیت ہوتی ہے… اس کے کیا جذبات ہوتے ہیں… وہ کیا محسوس کرتا ہے… میرا دل چاہتا ہے میں رات کے وقت کسی پرانی سی حویلی میں جاؤں… کھنڈر نما حویلی میں… جہاں جن بھوت کا سایہ ہو… یا کسی ویران اور پرانے قبرستان میں… وہاں جا کر میں ان جنات سے بات کروں… ان سے پوچھوں کہ ان کی لائف کیسی ہوتی ہے… وہ لوگ کیسے رہتے ہیں اپنی دنیا میں… کیا کرتے ہیں…کیا کھاتے پیتے ہیں… میں چاہتی ہوں کہ…” وہ مگن سی پرجوش انداز میں اسے بتا رہی تھی جبکہ حسن آنکھیں پھاڑے ٹکر ٹکر اس کی شکل دیکھ رہا تھا…
“بس بس لڑکی… حقیقت کی دنیا میں واپس آ جاؤ… کمرے میں ایک ذرا سی کرسی ہلنے ہر تم جیسی لڑکیوں کی جان لبوں پر آ جاتی ہے اور میڈم چلی ہیں بھوتوں کو ملاقات کا شرف بخشنے… کسی دن کوئ بھوت سچ میں سامنے آ گیا نا… تو اس کے بعد تم زندہ نہیں بچو گی… ہارٹ اٹیک ہو جانا ہے تمہیں…اور مرنے کے بعد خود بھی بھوت بن کر بھٹکتی آتما کی طرح ادھر ادھر گھومتی رہو گی… محترمہ کو نیا شوق چرایا ہے بھوتوں پر ریسرچ کرنے کا…” کچھ دیر قبل جو رومینٹک موڈ تھا حسن کا ہانیہ اس کا سارا موڈ غارت کر گئ تھی… وہ سمجھا تھا کوئ پیاری سی, رومینٹک سی فرمائش کرے گی وہ حسن سے… یا کچھ مانگے گی اس سے… کوئ گفٹ… یا کوئ ڈریس… لیکن نہیں جی… اسے تو بس بھوتوں سے ملنا تھا… یا ایسا کوئ بندہ چاہیے تھا اسے جو اس سے بھوتوں کے ٹاپک پر بنا رکے لگاتار گفتگو کرتا جاۓ… اور حسن کو اس کی یہ بے تکی اور فضول باتیں قطعاً پسند نہ تھیں…
“حسن پلیز نا… دیکھو ویسے اماں اور بابا جان کبھی بھی اجازت نہیں دیں گے مجھے رات کے وقت قبرستان جانے کی… لیکن اگر تم میرے ساتھ ہو گے تو ہم چھپتے چھپاتے چلے جائیں گے نا… صرف ایک رات کی ہی تو بات ہے… مجھے بس یہ دیکھنا ہے کہ کیا واقعی رات کے وقت قبرستان میں روحیں بھٹکتی ہیں… بس ایک رات تم میرے ساتھ قبرستان چلے جانا… اس کے بعد پھر کبھی نہیں کہوں گی… پکا پرامس… ” وہ منتیں کرنے پر اتر آئ تھی…
“تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا ہے ہانی… یہ کیسی انوکھی خواہشات ہیں تمہاری… مجھے جوتے پڑوانے کا ارادہ ہے کیا…؟؟ رات کے وقت تمہیں لے کر قبرستان چلا جاؤں… اور اگر کوئ دیکھ لے تو کیا کہے گا… اور پھر کیا گارنٹی ہے کہ اس ایک رات میں تمہیں ضرور بھوت ملے گا… اور اگر بھوت مل بھی گیا تو تمہیں کیا لگتا ہے تم سے ملنے کے بعد, اور تمہیں اپنا انٹرویو دینے کے بعد وہ سر جھکا کر ادب سے تمہیں کہے گا کہ محترمہ ہانیہ صاحبہ… اب آپ اپنے ایک عدد منگیتر کے ساتھ اپنے گھر واپس جا سکتی ہیں… ؟؟ ارے کچا چبا جاۓ گا وہ ہم دونوں کو… اور ہماری لاش تک نہیں ملنی گھر والوں کو… بڑی آئ جن سے ملاقات کرنے والی…” حسن تو سلگ کر رہ گیا تھا اس کی ان فضولیات پر…
“حسن پلیز…” وہ معصوم صورت بناۓ اصرار کرنے لگی…
“ہانیہ فضول ضد مت کرو… اور ایسے فضول خیالات اپنے دل و دماغ سے نکال ہی دو تو بہتر ہے… یہ جو تم خوفناک ڈائجسٹ پڑھتی رہتی ہو نا یہ ان سب کا ہی اثر ہے جو تمہارا دماغ خراب ہوتا جا رہا ہے… میں چچا جان کو شکایت لگا دوں گا تمہاری… خدا کا خوف کرو لڑکی.. کسی دن خود ہی ڈر جاؤ گی اپنے ساۓ سے… ان سب کاموں میں مت پڑو… اور ایسی باتیں بھی مت کیا کرو… ایسی مخلوق ہر وقت ہمارے آس پاس ہوتی ہے… نہ جانے کس وقت کونسی دعا, کونسی خواہش پوری ہو جاۓ… اس لیے ایسی بے تکی باتیں منہ سے نہیں نکالنی چاہئیں…” اب کی بار قدرے سخت لہجہ اختیار کرتے ہوۓ حسن نے اسے ڈانٹ کر رکھ دیا تھا… ساتھ ہی اسے سمجھانے کی کوشش بھی کی تھی… اب اسے کس حد تک اس کی بات سمجھ آئ تھی یہ تو وہ نہیں جانتا تھا… البتہ وہ منہ لٹکاۓ خاموش ضرور ہو گئ تھی… اور حسن کی تسلی کے لیے یہی کافی تھا…
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...