(Last Updated On: )
فون کی بیل مسلسل بجنے سے نور کی آنکھ کھل گئی وہ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھی اور فون کو دیکھنے لگی۔ علی اور اس وقت کال کیوں کر رہے ہیں، یہی سوچتے ہوئے نور نے کال رسیو کی اور ہلکی سی آواز میں ہیلو کہا۔
دوسری جانب سے علی کی چیختی ہوئی آواز سنائی دی،
علی: ہیلو نور میری آواز آرہی ہے کیا؟
آواز کان تک تو کیا پورے کمرے میں سنائی دے رہی تھی رات کے اس پہر میں۔
نور: علی آہستہ بولیں آواز آرہی ہے آپ کون سا مارس سے کال کر رہے ہو مجھے آہستہ بولو۔ نور نے ڈانٹتے ہوئے جواب دیا اور سوالات کی لائن لگا دی۔
کال اس وقت کیوں
اتنے دن کے بعد کیوں
اور اونچا کیوں بولے اتنا ۔
علی: نور اونچا اس لیے بول رہا کہ یہاں سگنل پرابلم ہے اور اتنے دن بعد اس لیے کا میں ہارڈ ایریا میں تھا آج ہی واپس پوسٹ پر آیا ہوں پہلے امی سے بات کی انہوں نے بتایا کہ پیپرز کے بعد تم بیمار ہو گئی تھی آب کیسی طبعیت ہے۔
نور: میں ٹھیک ہوں اب بس بور ہوتی رہتی ہوں گھر میں اور کوئی ہے بھی نہیں نہ کہیں آنا جانا ہوتا ہے اس کے علاوہ سب ٹھیک ہے آپ کیوں ہارڈ ایریا میں ہو آپکی تو ٹرانسفر کے احکامات جاری ہو گئے تھے پھر کیوں رک گئے ہیں؟
ہاں وہ تو ہو گئے تھے لیکن یہاں حالات تھوڑے سے خراب ہو گئے تھے اس لیے رکنا پڑ گیا تھا میں کل صبح آوں گا گھر دو دن کے لیے پھر نیکسٹ پوسٹنگ کی طرف جانا ہے، اب میں چلتا ہوں کل ملتے ہیں۔ نور نے کال کاٹ دی اور سوچوں میں گم ہوگئی کہ کتنی کٹھن زندگی ہوتی ہے ان لوگوں کی کیسے رات کے اس پہر بھی وہ جاگ رہے ہوتے ہیں۔
سوچتے سوچتے وہ پھر سے نیند میں چلی گئی۔ دوبارہ جب نور کی آنکھ کھلی تو دروازے پر بہت زور زور سے دستک ہو رہی تھی۔ کیا مصیبت ہے یار چھٹیوں میں تو سو لینے دیں نا کیا ہے اب کیوں جگانے آگئے ہیں اتنی جلدی میں نہیں اٹھ رہی ابھی۔
نور غصہ سے چنگاڑ کر بولی اور منہ تکیے میں چھپا لیا۔
نور دروازہ کھولو بیٹا میں ہوں تمھارا بابا بیٹی اٹھ جاو اب گیارہ بج رہے ہیں دن کے،
خاور ملک کی گرج دار آواز گونجی۔
نور: بابا آپ آگئے، نور بھاگتی ہوئی بابا کے سینے سے جا لگی وہ بہت خوش تھی اپنے بابا کے واپس آنے سے۔ دو ماہ اپنے بھائی کے پاس رہنے کے بعد خاور ملک آج ہی واپس آئے تھے، کاروبار کے سلسلے میں خاور ملک اتنے دن سے گھر سے دور تھے وہ سب کاروبار اپنے بھائی کے پاس ہی شفٹ کر دینا چاہتے تھے۔
بابا اب تو نہیں جائیں گے نا واپس آپ؟
نور نے چائے کی پیالی اپنے بابا کو دی اور ان کے پاس کالین پر بیٹھ گئی اور بابا کو امید بھری نظروں سے دیکھنے لگی۔ وہ اپنی پرابلم گھر میں کس سے شیئر کرے بھائی سے وہ تو بات ہی نہیں کرتے گھر میں بھابی تو خیر نہ ہی ہونے والی بات ہوئی نا پیچھے رہتی امی یا پھپو اور ان کو پریشان کرنا مطلب کی ہی خدمت کرنا اور بابا کو تو فرصت ہی نہیں ہے۔
نور انہیں سوچوں میں گم تھی کہ بابا پاس سے اٹھ کر چلے گئے ان کا کوئی ضروری فون آگیا تھا ۔
فون بند کرنے کے بعد خاور ملک کو خیال آیا کہ ان کی بیٹی نے واپسی کے بارے میں کوئی سوال کیا تھا جس کا وہ جواب نہیں دے پائے تھے۔
خاور ملک: نور بیٹا میرے جانے کے بارے میں پوچھا تھا تم نے شاید؟
(واپس آکر صوفہ پہ بیٹھتے ہوئے انہوں نے سوال کیا نور سے)
نور: جی بابا میں نے یہی پوچھا تھا۔
خاور ملک: نہیں بیٹا جانا تو ہوگا ہی اب کی بار منصور بھی ساتھ ہی جائے گا اور تمھارے ذمہ بھی مجھے ایک ضروری کام لگانا ہے،
( انہوں نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے جواب دیا اور بغور بیٹی کا چہرہ دیکھنے لگے)
نور: جی اچھا بابا میں تیار ہوں کیسا کام کرنا ہوگا بابا؟
( نور نے اپنے ہی خیالات میں گم سم سے اپنے بابا کی بات کا جواب دیا،
وہ الجھن کا شکار تھی کہ کیا اسکو بتانا چاہیے یا ابھی نہیں)۔
خاور ملک: تم کچھ کمزور سی لگ رہی ہو کیا بات ہے بیٹا کھاتی پیتی نہیں ہو کوئی پرابلم ہے تو بتاؤ مجھے۔
نور: نہیں بابا میں ٹھیک ہوں آپ نے بہت دنوں کے بعد آج دیکھا ہے نآ اج اس لیے آپکو ایسا لگ رہا ہے اور پیپرز کے دوران کہاں ہوش ہوتی ہے بابا کچھ کھانے پینے کی،
( نور نے اپنی نظر جھکا لی کہ اس کے جھوٹ کو بابا آنکھوں میں نہ پڑھ لیں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عادل چپ چاپ سب باتیں سن رہا تھا اس میں اتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ سر کو اٹھا کر کشمالہ کے گھر کی ایک نوکرانی سے بات کر سکے عادل کے اعصاب شل ہونے لگے تھے۔
من کے مندر میں رکھا ہوا بُت منہ کے بل زمین بوس ہو چکا تھا وہ جس کی پوجا کرتے کرتے عادل سر جھکانا بھی بھول چکا تھا وہ ہی بُت کرچی کرچی ہو گیا تھا۔
عادل کا تمام غرور اور گھمنڈ پانی کے بُلبلے کی طرح ہوا ہوگیا تھا،
عادل کا دماغ ماؤف ہونے لگ گیا تھا وہ جو کچھ سن رہا تھا اسے وہ سننا نہیں چاہتا تھا۔
میں چلی صاحب جی، کام والی کی آواز بھی اسے دور سے آتی سنائی دے رہی تھی جیسے وہ عادل سے کوسوں دور ہے۔
کتنا خوشی خوشی لاہور آیا تھا عادل وہ کب جانتا تھا اس کا آنا جیسے قیامت کو ساتھ لے کر آئے گی۔
عادل آج صبح ہی لاہور آیا تھا پہلے ہوسٹل اور پھر اب وہ کشمالہ کے گھر آیا تھا مگر یہاں دروازے پر لگا تالا اس کا موڈ خراب کرنے کو کافی تھا، وہ واپس جانے سے پہلے ہمسایوں سے گھر والوں کے بارے میں جانا چاہتا تھا ابھی وہ کسی گھر کی بیل بجانے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ کشمالہ کے گھر کام کرنے والی سامنےسے آتی ہوئی دیکھائی دی جو عادل کو دور سے دیکھ کر پہچان گئی تھی اور اسی طرف آرہی تھی، اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر عادل کی چھٹی حِس کہ رہی تھی یا تو کچھ برا ہو چکا ہے یا ہونے کو ہے۔؎
وہ عادل کے سامنے آکھڑی ہوئی تھی عادل نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے گھر پر تالا لگنے کی وجہ پوچھی، تو جواب ملا کہ سب گھر والے پیچھے گاوں گے ہیں بڑی بی بی جی کا انتقال ہو گیا ہے نا پچھلے ہی جمعہ کے روز آج جی آٹھ دن ہو گے ہیں اور کشمالہ بی بی تو پیپرز کے دو روز بعد سلمان صاحب کے ساتھ چلی گئی تھی یہاں سے وہ تو ماں کے جنازے میں بھی نہیں آسکی تھی واپس۔
سلمان کون؟
عادل نے پہلا سوال کیا اور دل ہی دل میں دعا کرنے لگا کہ جواب وہ نہ ہو جو ایسے عمومی طور پر ایسے وقت میں دیا جاتا ہے۔
ملازمہ: جی وہ کشمالہ بی بی کے شوہر اور ملک سے باہر رہتے تھے،آپکو نہیں پتہ جی؟
کشمالہ بی بی کو تو طلاق ہونے والی تھی گھر میں سب کا یہی فیصلہ تھا مگر کشمالہ بی بی ہی تھی جو ہمیشہ انکار کر دیتی تھی وہ کہتی تھی سلمان مجھے نہیں چھوڑ سکتا نہ ہی میں اس کو چھوڑ سکتی ہوں۔ یہ کاغذ چھوڑ گئی تھی جی آپ کے لیے، ملازمہ نے دوپٹہ کے پلو سے بندھا ہوا چڑمڑا سا کاغذ کھول کر عادل کے حوالے کر دیا اب میں چلتی ہوں صاحب جی۔
عادل نے بمشکل خود کو سنبھالا اور گاڑی میں واپس آکر بیٹھ گیا اسکو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس ہاتھ میں اٹھائے ہوئے پیغام کو پڑھے یا نہ پڑھے۔ آج پہلی بار عادل کو شکست ہوئی تھی پہلی بار وہ ہار گیا تھا۔ وہ ہارا تھا اپنے دل کے ہاتھوں، وہ ہار گیا تھا قسمت سے،شکست ہوئی تھی عادل کو اپنے آپ سے۔
عادل نے بنا پڑھے ہی وہ کاغذ جیب میں رکھ لیا اور واپس گھر کے لیے روانہ ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت علیؓ کا یہ قول عادل کے دماغ میں گھوم رہا تھا جس میں انہوں نے فرمایا
“میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا”
آج عادل کو احساس ہو۔ رہا تھا کہ کوئی ذات ہے جس کے حکم کے بغیر عادل تو کیا کوئی کچھ بھی نہیں کر سکتا۔
عادل نے خود کو بہت حد تک سنبھال لیا تھا وہ اب رو نہیں رہا تھا عادل کی آنکھوں میں آنسوں کو روکے رکھنے سے جلن ہونے لگی تھی۔ مسلسل جاگتے رہنے سے اور کچھ ضبط کیے رکھنے سے آنکھیں انگاروں کی مانند لال ہو رہی تھی۔
عادل آج پھر سے اکیلا تھا اس کے ساتھ ایسا کیوں ہوا اس کا جواب وہ جانتا تھا لیکن وہ اب تک کشمالہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ کوئی لڑکی کیسے اتنی قریب آکر یہ سب احساس دلا کر میرے اندر کے انسان کو بدل کر ایسے کیسے کر سکتی ہے۔ یہی سوچتے ہوئے عادل نے گاڑی کو سڑک کنارے کھڑا ک دیا۔ گھر سے تھوڑا سا ہی فاصلہ رہتا تھا مگر عادل میں اس قدر طاقت نہیں تھی کے وہ اپنی ماں کے سامنے ایسے خالی ہاتھ جائے، اس نے جیب سے وہ کاغذ نکالا اور کھولنے لگا۔
عادل کے ہاتھ کانپ رہے تھے وہ لرزتے ہاتھوں سے کاغذ کو کھول رہا تھا اسے کھولتے ہوئے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ ایک خط نہیں ایک پیغام نہیں بلکہ کوئی موت کا حکم نامہ ہے۔
عادل نے خط کو دونوں ہاتھوں میں تھام رکھا تھا،گاڑی میں مدھم سی لائٹ میں عادل وہ خط پڑھنے لگا، زندگی کا پہلا خط جو عادل کے نام تھا۔
” آئی ایم سوری عادل میں تم سے شاید مل نہ سکوں اور جب یہ لائنز تم پڑھ رہے ہو گے تب تک میں معلوم نہیں کہاں ہوں گی، مگر ایک بات یقینی ہے وہ یہ کہ تم کو میری شادی کے بارے میں معلوم ہو گیا ہوگا، میں یہ بات تمہیں خود بتا دیتی مگر شاید یہ میری خود غرضی تھی کہ میں تمھارے ساتھ وقت گزارنا چاہتی تھی، مجھے ایک دوست کی ضرورت تھی اور پھر پڑھائی کے معاملے میں تم سے زیادہ کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا۔ عادل یہ بات شزا بھی جانتی تھی کہ مجھے تم سے کسی بھی قسم کا دلی لگاؤ نہیں ہے میں نے تم سے کہا تھا نا میں پیپرز ختم ہونے کی شام تمہیں سب بتا دوں گی لیکن جلدی میں تم سے بات نہیں ہو سکی۔
میں اور سلمان ایک دوسرے کو بہت پیار کرتےہمارے درمیان کچھ باتوں پر لڑائی ہو گئی تھی اسی وجہ سے گھر چلی آئی تھی، عادل تم نے نوٹ کیا ہوگا کہ جب تم میرے گھر آئے تھے تب بھی میرا موڈ آف تھا کیونکہ میری امی اور بھائی یہ چاہتے تھے کی مجھے سلمان سے طلاق مل جائے اور میری شادی تم سے ہو جائے۔
سوری عادل تم میرے جیسی لڑکی کے آئڈیل نہیں ہو مجھے افسوس ہے کہ میں نے تمھارے ساتھ یہ سب کیا،اور امید کرتی ہوں تم بھی مجھے بھول کر اپنی آنے والی زندگی اچھے سے گزار سکو گے،عادل کبھی کبھی لوگ زندگی میں ساتھ دینے نہیں بس سبق سیکھانے کو آتے ہیں۔
(یورز کشمالہ سلمان)”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عادل بیٹا یہاں کیوں بیٹھے ہو؟
کب آئے واپس لاہور سے تم؟
زرینہ بیگم فجر کی نماز کے بعد واک کے لیے جانے کو باہر نکلی تو بیٹے کو راہداری میں سر جھکائے بیٹھا دیکھ کر چونک گئی اور جلدی سے عادل کے پاس چلی آئیں۔
عادل نے سر اٹھا کر ماں کو دیکھا اور چپ رہا،
بس اپنے واپس آنے کا وقت بتا کر چپ چاپ ماں کو دیکھنے لگا۔
زرینہ بیگم: عادل کیا بات ہے تم ٹھیک تو ہو نا بیٹا یہ تمھاری آنکھیں کیوں لال ہو رہی ہیں سب ٹھیک تو ہے نا؟
کشمالہ سے ملے تم کیا بات ہوئی عادل بولو نا میرے دل کو کچھ ہو جائے گا بیٹا بول نا یہ کیا حال بنا رکھا ہے تم نے اپنا۔
عادل: بس امی آپکا بیٹا فیل ہو گیا ہے، ہر میدان میں آپکا سر فخر سے بلند کرنے والا بیٹا پیار کے میدان میں بازی ہار گیا،
(عادل کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ تھی جس میں خود پر ہلکہ سا طنز بھی شامل تھا)
امی آپ نے ٹھیک کہا تھا میں غرور کرنے لگا ہوں۔
عادل نے کاغذ جیب سے نکال کر اپنی ماں کے ہاتھوں میں دیا اور اپنے کمرے کی جانب چل پڑا۔
زرینہ بیگم جیسے جیسے اس خط کو پڑھتی جا رہی تھی ایک عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہوتی جا رہی تھی، وہ اپنے بیٹے کو ملنے والے اس دکھ کا افسوس کریں یا اس بات کی خوشی منائیں کہ انکے بیٹے کو اس کی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔
وہ انہیں سوچوں میں گم تھی جب ان کی بھابھی خدیجہ نے پیچھے سے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
خدیجہ: کیا ہوا زرینہ آج واک کرنے نہیں گئی اور یہ خط کس کا ہے، عادل تو واپس نہیں آگیا اس کی گاڑی کھڑی دیکھی مینے ابھی، ایک ہی سانس میں اتنے سارے سوال کر کے وہ جواب کے انتظار میں زرینہ بیگم کو دیکھنے لگی۔
زرینہ بیگم: بھابھی یہ اس لڑکی کشمالہ کا خط ہے میں نے بتایا تھا نا آپکو اس بارے میں ؟
خدیجہ: ہاں وہی نا سی ایس ایس والی کیا ہوا اس کو اور عادل تو اس کو ہی ملنے کو گیا تھا یہ خط کیا اپنی ہونے والی ساس کے نام بھیجا ہے بہو نے۔
خدیجہ نے نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
زرنہ بیگم نے خط خدیجہ کے ہاتھوں میں دے دیا، خدیجہ ہمارا عادل بہت اونچی اڑان بھرنے لگا تھا مگر اس لڑکی نے پر کاٹ دیے ہیں عادل کے۔
دونوں کے درمیان گھری خاموشی تھی۔ بولتی بھی تو کون اور کیا کہتی دوسری سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عادل اس دن کے بعد سے گھر سے باہر تو کیا اپنے کمرے سے باہر بھی نہیں آتا تھا۔ اسی دوران علی دو دن کی چھٹی پر گھر آیا تھا جس کے بعد وہ واپس نیکسٹ پوسٹنگ کے چلا گیا تھا،اس تمام وقت میں اگر کوئی ضروری بات ہوئی تھی تو وہ تھی نور کی شادی کی تاریخ پکی کرنے کی بات۔ اگلا سمسٹر ختم ہو ہونے کے بعد جلد ہی شادی کر دی جائے گی۔ اس معاملے میں نور نے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا وہ اپنی زندگی کے تمام اختیار اپنے بابا کو دے چکی تھی اور اب بھی اسے کوئی اختلاف نہیں کرنا چاہتی تھی وہ کسی بھی قسم کی بحث نہیں کرنا چاہتی تھی۔
کرتی بھی ی تو کس کے لیے؟ اس کے لیے جس نے نور سے پیار تو کیا کرنا کبھی پیار سے نظر بھر کر دیکھا بھی نہیں، کاش ایک بار مسکرا کر دیکھ لے مجھے مگر وہ تو کسی اور کے سوگ میں ہے اس کے دل میں میں کبھی نہیں آسکتی، نور انہیں سوچوں میں گم بیٹھی تھی۔
کمرے کے دروازے پر ہونے والی دستک سے سوچوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا تھا، نور نے پلٹ کر پیچھے دیکھا اور دیکھ کر حیران رہ گئی۔ حیرانگی کیسے نہ ہوتی دروازے پر دستک دینے والا کوئی اور نہیں عادل تھا۔
نور: عادل آپ یہاں؟
حیرت سے دیکھتے ہوئے عادل کی جانب بڑھنے لگی۔
عادل: ہاں میں ہوں نور،
عادل کی آواز میں کپکپاہٹ تھی اور داڑھی بڑھی اور بے ترتیب سی تھی۔
یہ وہ عادل نہیں تھا جس کو نور دیکھا کرتی تھی اس روپ میں دیکھ کر نور کا دل جیسے بجھ سا گیا تھا۔
اب دونوں ایک دوسرے کے سامنے بلکل خاموش بیٹھے تھے اور نظریں بھی نہیں ملا رہے تھے،
گھمبیر سی خاموشی تھی جیسے کوئی مقابلہ چل رہا ہو کہ جو بھی بولا وہ ہار جائے گا۔
بہت دیر خاموش رہنے کے بعد عادل نے نور سے سر درد کی گولی مانگی۔
نور: ٹیبلٹ تو میرے پاس نہیں ہے میں امی سے لے آتی ہوں آپ بیٹھیں۔
عادل: نہیں نہیں رہنے دو ممانی پریشان ہو جائیں گی۔
نور: نہیں معلوم ہو گا انہیں میں بابا کے دراز سے لے آوں گی ویسے بھی بابا کون سا گھر پر ہیں ۔
عادل: کیا ؟ ماموں گھر پر نہیں ہیں۔
نور: نہیں بابا تو چاچو کے پاس ہیں بزنس تمام وہیں شفٹ کر رہے ہیں نا اس لیے اور بھائی بھی نہیں ہیں یہاں۔
عادل: تو پھر یہاں کے کام کون دیکھ رہا ہے؟ ۔
نور: یہاں کے کام نور خاور ملک دیکھ رہی ہے نا، نور کے لہجے میں شرارت کی جہلک نمایاں تھی ۔
عادل: اوہ نہیں پلیز مذاق نہ کرو نور، عادل بہت دن بعد کسی بات پر ہنسا تھا، آج بھی اس کی ہنسی کسی افسانوی شہزادے کی طرح تھی جیسے اس کے ہنسنے سے آس پاس موجود ہر چیز ہنستی مسکراتی ہے ۔
نور: آہ ہ آپ ہنس رہے ہیں مجھ پر نہیں یقین امی سے پوچھ لیں آپ ہنہ، نور منہ بسورتے ہوئے عادل کے سامنے سے اٹھ کر اپنے بیڈ میں جا کر بیٹھ گئی۔
عادل: ارے میں کیوں ہنسنے لگا بہلا، ابھی تو میں خود لوگوں کے لیے ہنسی کا موجب بنا ہوں ۔
نور: بس بس دیو داس نہیں بن جانا اور سر درد کی گولی کو کیا کرنا ہے میں لا دوں کہ نہیں؟
نور نے فوراً سے بات کا رخ بدل دیا تھا،وہ عادل کو اداس نہیں دیکھ سکتی تھی۔
جیسا بھی تھا،تھا تو نور کا پہلا پیار اور شاید آخری بھی۔
پہلا پیار زندگی میں کوئی شخص نہیں بھول سکتا اگر کوئی یہ کہتا ہے تو وہ جھوٹ بول رہا ہے، وہ خود سے اپنے آپ سے جھوٹ بولتا ہے۔
عادل: ہاں لے آو دو لانا۔
عادل اسی طرح گم سم بیٹھا ہوا رہا جیسے وہ کچھ لمحے پہلے تھا۔
نور دوائی لینے بابا کے کمرے کی طرف چلی گئی، عادل یوں ہی کمرے کا جائزہ لینے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
یہ اسی نور کا کمرہ تھا جس جس میں کچھ بھی ترتیب سے نہیں رکھا ہوتا تھا جیسی نور خود بچوں جیسی تھی ویسے ہی اس کے کمرے کا سامان ایسے بے ہنگم انداز میں پڑا رہتا تھا۔
لیکن آج یہ کمرہ بہت ہی پیارا لگ رہا تھا جیسے الف لیلا کی داستان میں کسی شہزادی کی خوابگاہ ہو۔ کتابیں اور ساتھ میں دوائیوں کا ڈھیر طرح طرح کی ادویات دیکھ کر عادل رک گیا اور ایک ایک دوائی کو اٹھا کر دیکھنے لگا ۔
نور کے کمرے میں داخل ہونے کی عادل کو کوئی خبر نہیں ہوئی وہ بہت غور سے ادویات کو دیکھ رہا تھا اور ان کے استعمال کے بارے میں پڑھ بھی رہا تھا۔
نور: عادل کیا کر رہے ہیں کون سی کتابیں پڑھ رہے اتنے غور سے، نور یہ دیکھ نہیں پائی تھی کہ عادل جو پڑھ رہا ہے وہ کوئی کتاب نہیں بلکہ اس کے استعمال کی دوائیاں ہیں، وہ جانے انجانے میں اس راز میں شریک ہو چکا تھا،جو صرف نور اور علی کے درمیان تھا۔
ان کے علاوہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ نور کس قسم کی دوائی لے رہی ہے اور کیوں لے رہی ہے۔
عادل نے اچانک بنا پلٹے پوچھا،
عادل: نور یہ دل اور جگر کی دوائیاں تم کیوں استعمال کر رہی ہو؟
اور کب سے کر رہی ہو کیا یہ بات مامو جانتے ہیں۔ اس وقت وہ پہلے والا عادل تھا سنجیدہ ہر معاملے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر کے ٹھیک کرنے والا،عادل نے نور کو بغور دیکھتے ہوئے سوال کیا تھا۔
اس کے جواب میں نور کچھ بولی نہیں بس آگے بڑھ کر ہاتھوں سے دوائیاں لینے کی خوشش کرنے لگی مگر اس سے پہلے کہ وہ عادل کے ہاتھ سے دوائی لیتی عادل نے نور کی کلائی کو دبوچ لیا۔
نور کے دل کی دھڑکنوں کو کسی نے بجلی کی سی رفتار سے چلا دیا تھا، نور کو ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے سینے میں ایک کے بجائے دو دل دھڑکنے لگے ہیں۔
نور: عادل ہاتھ چھوڑیں میرا۔
نور کے لہجے میں التجا تھی وہ عادل کا لمس برداشت نہیں کر پارہی تھی وہ ایسا محسوس کر رہی تھی جیسے عادل کے ہاتھوں سے نکلنے والی حرارت نور کا جسم موم کی طرح پگھلا کر رکھ دے گی۔
عادل: میں چھوڑ دوں گا لیکن مجھے میری بات کا جواب لینا ہے تم سے۔ عادل نے بھی سپاٹ لہجے میں جواب دیا اور نور چہرے کے بدلتے ہوئے رنگوں کو دیکھنے لگا۔
نور: میں بتاتی ہوں سب مجھے چھوڑ دیں عادل پلیز۔
عادل کو جب اس بات کا مکمل یقین ہوگیا کہ اب نور سچائی چھپانے کی کوشش نہیں کرے گی تو اس نے بھی ہاتھ کی گرفت ڈھیلی کر دی۔
نور بجلی کی سی تیزی کے ساتھ عادل سے دور جا کر کھڑی ہو گئی اور کسی سہمے ہوئے ہرن کی طرح خوفزدہ نظروں سے عادل کو دیکھنے لگی، بلکل ایسے جیسے شکاری کو دیکھ کر ہرن کی جان حلق میں اٹک جاتی ہے ایسے ہی نور بے بسی سے عادل کو دیکھ رہی تھی۔
عادل: بولو نور یہ سب ادویات تمھارے استعمال میں کیوں ہیں اور یہ بات گھر میں کس کو معلوم ہے کہ تم یہ سب یوز کرتی ہو۔
نور: گھر میں کوئی بھی نہیں جانتا یہ بات اور میرے علاوہ یہ بات علی کو معلوم ہے اور اب آپکو بھی۔
نور نے محسوس کر لیا تھا کہ عادل سے بات چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے یہ ایسا شخص ہے جو بات نہ جان سکا تو تمام گھر والوں کے سامنے یہ بات کر کے مزید مشکل میں ڈال دے گا۔
عادل: جگر کی تو بات سمجھ میں آتی یہ تو کامن پرابلم ہے مگر دل کی؟
اس کو لینے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔
نور: میرے دل میں سوراخ ہے جو اب چھوٹا نہیں ہو سکتا اگر میں یہ دوائیاں استعمال کرتی رہوں گی تو یہ پرابلم بڑھے گا نہیں اور جگر والی اس لیے کہ میرے جگر نے خون بنانا بہت کم کر دیا ہے۔ نور اتنا ہی بول سکی اس کے بعد اس کی آواز حلق میں گھٹ کر رہ گئی وہ اپنا سر جھکا کر ایسے بیٹھی تھی جیسے وہ کوئی مجرم ہے اس کی کوئی چوری سب کے سامنے آگئی ہے۔
عادل: نور ایسے اپنی بیماری کو چھپائے رکھنے سے کیا حاصل ہو گا تمہیں؟
نور: حاصل مجھے ہوا ہی کیا ہے عادل جو مانگا کبھی ملا ہی نہیں نہ پڑھائی نہ خوشیاں اور نہ ہی، وہ کہنا چاہتی تھی نہ تم ملے مگر رک گئی چپ ہو گئی اور خالی نظروں سے عادل کو دیکھنے لگی گی۔
عادل: نور کیا حاصل کرنا ہے تم نے اور کیا نہیں ملا مجھے بتاو کس چیز کی چاہت ہے تمہیں جو مل نہیں سکتی، آخر وہ کیا شیے ہے جس کو پا لینا ناممکن سمجھتی ہو تم۔
نور: ہے بہت کچھ ہے ایسا عادل جو ہم چاہتے ہوئے بھی حاصل نہیں کر سکتے اور تم بھی تو جانتے ہی ہو اب میرا بتانا ضروری ہے کیا؟
عادل: طنز اچھا کرنے لگی ہو تم بھی۔ عادل زیر لب مسکراتے ہوئے بولا۔
نور: ہاں نا یہی تو سیکھا ہے آج تک اور آپکو کیا فکر کھائے جا رہی ہے میری جب علی کو بھی اس سب سے کوئی شکایت نہیں ہے تو آپ بھی مجھے ڈانٹنے کا کوئی حق نہیں رکھتے ہیں اور یہ اپکی ٹیبلٹس۔ نور کا لہجہ بدتمیزی کے زمرے میں آتا تھا مگر عادل چپ رہا وہ کہتا بھی تو کیا آخر کس حق سے وہ اب نور کو کچھ کہ سکتا بھی نہیں ہے۔
عادل کے چلے جانے کے بعد نور نے اپنا سر ہاتھوں میں تھام لیا اور بیڈ کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئی، اوہ میرے خدا یہ مجھے کیا ہوتا جا رہا ہے میں کیسے عادل کو یہ سب باتیں بول سکتی ہوں مجھےکیا ہو جاتا ہے عادل کو دیکھتے ہی میں کیوں نہیں خود کو قابو میں نہیں رکھ پاتی۔ وہ بھی کیسے آرام سے چلا گیا آج بولا کیوں نہیں کچھ مجھے۔
“یہ بھی کتنی عجیب بات ہے انسان اس شخص کی بات کا برا بھی جلدی مانتا ہے جس سے وہ پیار کرتا ہو، اور اگر وہ چپ رہے کچھ نہ کہے وہ رویہ اس کو مزید ہرٹ کرتا ہے”۔ یہ ہی حالت نور کی تھی وہ اسی کشمکش میں تھی کہ آخر عادل نے کچھ کہا کیوں نہیں، وہ تو کبھی موقع جانے نہیں دیتا اپنے ہاتھ سے۔ مجھے ستانے کے لیے تو وہ کچھ بھی کر گزرتا تھا اور آج کیسے بھیگی بلی بن کر چلا بھی گیا، یہ کچھ تو کرے گا ایسے نہیں چھوڑے گا مجھے۔
کہیں یہ بابا یا اماں کو نہ بتا دے یہ سب بیماری کا اور پھر میری خیر نہیں اوہ میرے خدا میں بھی نا
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
“” یہ سوچتے ہوئے نور پلنگ سے بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اٹھی اور ننگے پاؤں ہی عادل کو ڈھونڈنے کے لیے اس کے کمرے کی طرف بھاگی۔ ابھی وہ جا ہی رہی تھی کے سامنے سے عادل آتا دیکھائی دیا گم سم سا اور جھکائے ہوئے سر کے ساتھ وہ نور کے کمرے کی جانب ہی آرہا تھا۔ نور ایک لمحہ کو ساکت ہو گئی، لو جی اب میری خیر نہیں ہے نور نے دل ہی دل میں سوچا اور بچوں کی طرح پڑھنے لگی
” جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو”
اور کبوتر جیسے بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر کے یہ گمان کرتا ہے کہ بلی اسے نہیں دیکھ رہی۔ ایسے ہی نور نے آنکھیں بند کر لی تھی کہ مجھے عادل نہیں دیکھے گا، مگر یہ کیا اس کے قدموں کی چاپ تو قریب سے قریب تر ہوتی جا رہی ہے””۔
عادل: نور کیا وظیفہ کر رہی ہو یہاں بند آنکھوں کے ساتھ اور وہ بھی ننگے پاؤں ؟
( عادل نے کان آگے کر کے نور کے ہلتے ہوئے ہونٹوں سے آنے والی آواز کو سننے کی کوشش کی مگر ناکام رہا)۔
کیونکہ نور اس قدر سہم گئی تھی عادل کے پاس آنے سے کہ اس کی زبان بھی آنکھوں کی طرح بند ہوچکی تھی۔
نور نے دائیں بائیں سر کو ہلایا جیسے کہ رہی ہو میں کوئی وظیفہ نہیں کر رہی اور ہاتھوں سے پیچھے ہٹنے کا اشارہ بھی کیا۔ عادل نے جلدی سے خود کو پیچھے کھینچ لیا اور سیدھا کھڑا ہو گیا اور نور کو دیکھنے لگا۔
عادل: کیا ہوا آنکھیں تو کھول لو اب۔
نور: نن نہیں پہلے ایک وعدہ کرو۔
عادل: کیسا وعدہ بتاؤ تو سہی۔
نور: نہ پہلے ہاں بولو پھر بتاتی ہوں۔
عادل نے اپنے بازوں کو سینے پر باندھ لیا اور نور کو بغور دیکھنے لگا سر سے پاؤں تک۔
عادل: اچھا کارٹون نیٹ ورک اب بولو بھی میں وعدہ کرتا چلو بتاؤ کیا بات ہے۔
نور: اوں میں کارٹون نہیں اور بات یہ ہے کہ وہ آپ میری بیماری۔
وہ اتنا ہی بول پائی تھی کے عادل نے اس کے پاؤں پر پاؤں رکھ دیا تھا، نور بلبلا اٹھی درد سے اور جلدی سے آنکھیں کھول کر عادل کو دیکھنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں سوال تھا کہ یہ کیا کیا ہے تم نے،اس سے پہلے کے وہ چلانے لگتی یا کچھ بھی کہتی عادل نے آنکھوں سے اشارہ کر کے یہ بتانے کی کوشش کی کے کوئی آرہا ہے چپ رہو۔ عادل کا اندازہ ٹھیک تھا ، وہاں کوئی تھا اور وہ بھابھی کے علاوہ کون ہو سکتا تھا جو گھر بھر میں مخبری کرتا دیکھائی دیتا۔ عادل نے جلدی سے بیماری والی بات کو نرالہ رنگ دے ڈالا اور قدرے اونچی آواز میں بولا،
عادل: نور تمھاری بیماری کا کس کو نہیں معلوم سب جانتے ہیں تمھاری اوپر کی منزل خالی ہے اس میں چھپانے کی کیا بات ہے اور سر گھومنا ہی ہے نا خالی جو ہے تھوڑا سا بوجھ ہو تو سہارا ملتا رہتا ہے نا۔
( بات کے ساتھ عادل نے ہاتھ کے اشارے سے نور کو یہ یقین دلایا کہ بے فکر ہو جاو میں کسی کو نہیں بتاؤں گا)
نور: ہاں ہاں خود تو تم نے نہیں آپ نے کوئی بہت بڑا معقولہ پیش کیا ہے نا سائنس کی دنیا میں۔
(نور نے مشکل سے اپنی ہنسی کو روکا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں عادل کا شکریہ ادا کر کے کمرے کی جانب چل دی)
نور کے جانے کے بعد عادل کے دل میں ایک سکون کی لہر دوڑ گئی۔ عادل کے دل سے جیسے بہت سا بوجھ اتر گیا تھا، عادل کے پاس موقع تھا اپنی عمر بھر کی غلطیوں کو سدھارنے کا، نور کے لیے کچھ کر پانے کا۔ وہ بہت شرمندہ تھا لیکن اس بات کا اظہار کیسے کرے وہ یہ نہیں جانتا تھا، اب بھی وہ سر درد کے بہانے سے نور کے کمرے میں آیا تھا اس کے بعد سے جیسے اللہ تعالیٰ نے راستہ خود بخود آسان کر دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستمبر کے مہینہ تک کیا یوں ہی بےکار بیٹھے رہو گے عادل کچھ تو کام کرو کاروبار تمھیں نہیں کرنا رزلٹ ستمبر میں آنا ہے ایسے کیسے چلے گا اور اب اس لڑکی کا سوگ منانا چھوڑ بھی دو۔ زرینہ بیگم کی باتیں عادل سن تو رہا تھا مگر اس کی سوچ کی سوئی نور پر ااتکی ہوئی تھی وہ اس بدلی ہوئی نور کو دیکھ کر بہت خوش بھی تھا گزشتہ دو دنوں میں وہ دونوں آپس میں بہت بار بات کر چکے تھے۔ اب نور سے بات کر کے عادل کو اچھا لگتا تھا وہ اب بہت پراعتماد انداز میں بات کرتی تھی اور کسی بھی موضوع پر بات کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ جیسے کبھی عادل خود ہوا کرتا تھا مگر پیار کی مات نے جیسے عادل سے باتیں ہی چھین لی تھی وہ پہلے سے بھی خاموش ہو گیا تھا۔
عادل: امی میرا دل نہیں لگتا ہے کسی بھی بات میں اور نوکری میرے مزاج کے خلاف ہے آپ جانتی تو ہیں اور امی ویسے بھی میں نے کہا تھا نا اگر پاس نہ ہوا تو ماموں کے ساتھ کاروبار میں شامل ہو جاوں گا، لیکن امی لگتا یہ بھی نہیں ہونا اب۔
زرینہ بیگم: کیوں ممکن کیوں نہیں لگتا اب یہ؟
عادل: امی دیکھیں اب بڑے ماموں ان کے کاروبار میں شامل ہو رہے ہیں اور ان کے ہوتے مجھ سے کام نہیں ہونا ۔
زرینہ بیگم: عادل من مانی کرنا بند کر دو اب میں بات کر چکی ہوں اور ویسے بھی تم باہر نہیں ادھر ہی رہو گے۔
ماں کی بات سن کر عادل خاموش ہو گیا، وہ سوچ رہا تھا کل تک تو میں سب سے سمجھدار بچہ تھا اس خاندان کا اور ایک غلط فیصلے نے مجھے کیا سے کیا بنا ڈالا ۔
انسان انسانوں کی غلطیوں کو کیوں معاف نہیں کرتے کیوں اس غلطی کو عمر بھر کا طعنہ بنا دیتے ہیں۔ عادل یہی بات سوچتے سوچتے عادل اچانک سے اٹھا اور بنا بتائے گھر سے باہر نکل آیا اور بے مقصد شہر کی سڑکوں پر گھومنے لگا۔ آج موسم میں حبس شدید تھا اور ایسی ہی گھٹن عادل کے اندر بھی تھی جو اسے سکون کی سانس نہیں لینے دے رہی تھی۔ عادل کو اپنی ناکامی پر شدید دکھ تھا وہ کھل کر بات بھی نہیں کر سکا تھا کسی سے کون تھا جو اس کی سنتا۔۔۔۔ ہمیشہ خود کو مضبوط ظاہر کرنے والا انسان آج اندر سے کس قدر ٹوٹ چکا ہے یہ کوئی نہیں اندازہ کر سکتا تھا۔
” اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام صمد بھی ہے، عادل صنم کی جستجو میں صمد سے بھی دور ہوتا چلا گیا تھا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت اپنی رفتار کے ساتھ چلا جا رہا تھا اور یہاں نور اور عادل کے درمیان نوک جھونک بھی چلتی ہی رہتی تھی۔ نور کو بابا کے جانے کے بعد سے کاروباری معاملات دیکھنے تھے اس لیے کہیں بھی آنا جانا اگر ہوتا تو عادل ساتھ ہی ہوتا تھا۔۔
بظاہر یہ لگتا تھا کہ عادل ماں کے کہنے پر ساتھ جارہا ہے مگر اندر کی بات کوئی نہیں جانتا تھا نور بھی نہیں۔۔۔۔۔
نور نے جس طرح سے عادل کو مایوسی سے نکالا تھا عادل اس بات پر نور کا شکر گزار تھا۔ نور کی باتوں میں بہت گہرائی آچکی تھی وہ اب کوئی بھی بات بچگانہ نہیں کرتی تھی بلکہ اب تو عادل کو کہنا پڑتا تھا کہ بس کردو کتنی کتابیں پڑھ بیٹھی ہو جو نچوڑ کر مجھے پلا رہی ہو۔ اور نور ہنس کے کہتی تھی، میں دل سے کہتی کتابیں تو مجھ سے کورس کی نہیں پڑھنے ہوتی دوسری کوئی کتاب کیا پڑھنی میں نے۔
کشمالہ سے ملنے والے دھوکہ عادل کے لیے کافی تھا وہ اب کسی اور تعلق کسی رشتہ کسی بھی طرح کی کمٹمنٹ سے دور بھاگتا تھا۔ وہ خود کو نور کی ذات کی عادت نہیں ڈالنا چاہتا تھا تب ہی بات بن بات لڑائی کرنے لگتا تھا، اس موقع پر نور بھی غصہ میں آکر طعنہ دیتی تھی وہ کہتی۔
کشمالہ بیچاری کیا کرتی تم ہی کریلے جیسے ہو نا تب ہی چلی گئی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ کشمالہ پہلے سے شادی شدہ تھی۔ اب تو عادل بھی نور کا طنز سن کر برداشت کر لیتا تھا وہ اب اس کو اپنے کیے ہوئے کا کفارہ سمجھتا تھا جو کچھ نور کے ساتھ کیا۔ دوسری وجہ نور کی بیماری تھی ایک نہیں دو دو امراض جن سے لڑتے لڑتے نور اس قدر بلند حوصلہ والی ہو گئی تھی جو دوسروں کو بھی ان کے دکھوں سے نکالنا سیکھ گئی تھی۔
عادل کا فائنل رزلٹ آچکا تھا جس کے بعد عادل کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی تھی ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے عادل کو دنیا بھر کی خوشی مل گئی ہے۔ ان امتحانات سے پہلے کا عادل اور رزلٹ کے بعد کے عادل میں کتنا فرق تھا، پہلے کا عادل دنیا کو ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ کیا ہے اور کیا کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور اب کے عادل نے جو چوٹ کھائی تھی اس کے بعد سے وہ اس کامیابی کو اپنے لیے ایک ایسی گڈ لک خیال کر رہا تھا جس کے مل جانے سے وہ کسی کی زندگی کو بہتر کر سکے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عادل نے کسٹمز میں جانے کا فیصلہ کر لیا تھا اور وہ ٹرینگ کے لیے لاہور اور ملک کے دیگر سٹیز میں جا رہا تھا جس کی وجہ سے وہ گھر بہت ہی کم رکتا تھا اور ماں سے ملنا بھی بہت کم ہو چکا تھا، دوسری جانب نور کی صحت بھی مزید خراب رہنے لگی تھی وہ اپنی آنکھوں کے گرد پرنے والے ہلکے میک اپ سے چھپانے لگی تھی۔ علی کی امی نے دسمبر کے مہینہ کے آخری اتوار کی تاریخ رکھ دی تھی۔۔۔ سب خوش تھے نور بھی بظاہر خوش تھی علی اس دوران گھر نہیں آیا تھا اور عادل کے جانے سے بھی نور تنہائی محسوس کر رہی تھی لیکن جلد ہی وہ خود کو سنبھال بھی لیتی تھی۔ اگر تو معاملہ صرف تنہائی کا ہوتا تو وہ دل کو بہلانے کو کچھ بھی کر سکتی تھی۔ لیکن اصل مشکل تو صحت کی خرابی سے تھی نہ وہ زیادہ دیر گھر سے باہر رہ سکتی تھی اور اگر رہتی بھی تو ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ بے حوش ہو جائے گی اسے کچھ ہو جائے گا۔ وہ بے حد وہمی سی ہوتی جا رہی تھی۔
تم کو کیا ہو گیا ہے نور آج میں خود تمھارے ساتھ چلوں گی ڈاکٹر کے پاس ایسے کب تک چلے گا تمھاری ماں اور بابا کو کوئی فکر ہی نہیں ہے تمھاری،بھائی صاحب خود تو گئے ساتھ بیٹا بھی لے گئے ہیں گھر بھر میں بس عورتیں ہی رہتی ہیں خدا نہ کرے کچھ اونچ نیچ ہو جائے اگر تو کیا ہوگا کون دیکھے گا یہاں سب کچھ ۔ زرینہ بیگم نے نور کو ڈانٹتے ہوئے کہا اور اپنا غصہ بھی سب پر اتار دیا، عادل ہوتا گھر تو کوئی فکر کی بات نہیں تھی۔۔۔۔
خدیجہ نے بھی ہاں میں ہاں ملائی اور نور کی بات کسی نے نہ سنی زبردستی اس کو اپنے ساتھ لے کر ڈاکٹر کی طرف لے جانے لگی۔
نور: ماں کہیں لے جانے کی ضرورت نہیں ہے مجھے میں تھک گئی ہوں آپ سب سے چھپاتے چھپاتے میں مر رہی ہوں آہستہ آہستہ سے یہی سنا چاہتی ہو نا آپ لوگ۔ نور غصہ اور دکھ سے کانپ رہی تھی اس کی آواز میں دکھ تھا ایک ایسا دکھ جسے محسوس کرنا یا سمجھ پانا کسی کے لیے بھی آسان نہیں تھا۔ نور نے اپنے سر کو ہاتھوں میں دبوچ لیا تھا وہ رو رہی تھی اس کی ہمت آج جواب دے گئی تھی اس نے ہتھیار ڈال دیے تھے روتے روتے وہ پھپی کے پاس بیٹھ گئی۔
پھپو میں مر جاؤں گی مجھے بچا لیں مجھے نہیں مرنا مجھے جینا ہے مجھے ابھی نہیں مرنا پھپو میری کیا غلطی ہے پھپو میں نے کیا گناہ کیا ہے ایسا جس کی اتنی سخت سزا مل رہی ہے مجھے۔ مجھے سب نے تنہائی دی ہے پھپو ہمیشہ سے بس ایک آپ ہی میری خوشی کے لیے سب کرتی تھی آج بھی آپ مجھے بچا لو گی نا پھپو بولو نا ایسے چپ کیوں ہیں آپ بتائیں نا۔
جوان بھتیجی کو ایسے بچوں کی طرح روتے بلکتے دیکھ کر زرینہ بیگم بھی ضبط نہیں کر پائیں اور رونے لگی گھر بھر میں جیسے کہرام مچ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔