ایک دن یاد نہیں کیا بات تھی۔ اس پر جو وہ اپنی عادت کے موافق بھبک کر بولیں، ایسے کہ گویا ابھی کھا جائیں گی، تو بوا میں نے بھی ایسا پتھر توڑ جواب دیا کہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئیں۔ کیا کرتی کہاں تک سنتی، کلیجے میں آبلے پڑ گئے تھے۔ پھر تو اس کا خوب چرچا ہوا۔ رفتہ رفتہ انور محل صاحبہ کو بھی خبر پہنچی۔ انھوں نے میری ساس کو آن کر بہت شرمایا اور کہا: “کیوں، ہم نہ کہتی تھیں کہ تم ناحق بہو کے سر نہ ہوا کرو۔ اب راضی رہیں۔ دیکھو آخر ناچار ہو کر وہ بھی دو بدو جواب دینے آ گئی نا۔ بڑی شرم کی بات ہے۔ تم نے اپنا وقار اپنے ہاتھوں سے کھویا۔ ابھی کیا ہے، اگر تم اسی طرح روز کی رد و کد رکھو گی تو آئندہ دیکھنا کہ وہ تمھارا کیسا کھوجڑا کھوتی ہے۔ آخر شریف زادی، امیر زادی ہے، کوئی پجوڑی تو نہیں ہے”۔ غرض انھوں نے ایسا جھنجھوڑا کہ شرمندگی کے مارے عرق عرق ہو گئیں۔ اس روز سے میرے منہ تو پھر وہ لگی نہیں، میرا پیچھا تو چھوٹا۔ گو وہ تا بمرگ میرے خون کی پیاسی رہیں مگر پھر میری طرف کوئی بدزبانی وغیرہ کا حملہ نہیں کیا۔ اس پر چند ہی روز گزرے تھے۔
بھائی جعفر علی خاں کی شادی کا حال
میرے بھائی محمد جعفر علی خاں صاحب مرحوم کا بیاہ رچا۔ ان کی برات لودھیانہ میں آئی۔ کیونکہ میری ایک سوتیلی نند ان سے منسوب ہوئی تھیں۔ زیادہ اس سبب سے کہ امید تھی بیاہ کے بعد میں بھی بھائی کے ہم راہ اپنے میکے جاؤں گی۔ بس جب شادی ہو چکی اور برات رخصت ہونے لگی تو بھائی نے آن کر میری ساس سے کہا کہ “اگر آپ اجازت دیں تو میں بہن کو اپنے ساتھ لے جاؤں”۔ پر بوا! وہ تو طوطے کی طرح دیده بدل گئیں، صاف انکار کر دیا۔ میری سوتیلی ماں اور بھائی نے بہتیری منتیں کیں، ہاتھ تک کے جوڑے، انھوں نے ایک نہ سنی اور مجھ کو نہیں بھیجا۔ میں نے رو رو کر بہتیری اپنی نکڑی اڑائی مگر وہ ایسی سنگ دل تھیں کہ ذرا بھی نہ پسیجیں۔ ناچار بھائی بیچارے آنکھوں میں آنسو ڈبڈبائے ان کے پاس سے اٹھ کر میرے پاس آئے۔ مجھے بہت سے دلاسے دے کر سوار ہو گئے۔ میں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی لیکن خدا کے واری جاؤں کہ اس نے میری آہ و زاری اور بے قراری پر رحم کیا اور ایسی داد دی کہ دو مہینے نہ گزرے تھے جو دلہن کی ماں نے میری ساس سے کہا کہ “بوا! تم پاٹودی جاؤ اور میری بیٹی کو جا کر لے آؤ”۔ ہر چند انھوں نے ٹالے بالے بتائے، مگر انھوں نے ایک نہ سنی اور ایسا دبایا کہ بغیر جائے کچھ بن نہ آیا۔
لودھیانہ سے پاٹودی کو آنا
غرض لودھیانہ سے روانہ ہوئے اور منزل بمنزل چل کر پاٹودی میں پہنچے۔ میں بھی شکر خدا کا بجا لائی۔ یوں کہ ساس کے ہم راہ اپنے میکے میں آئی۔ وہ پاٹودی آ کر کوئی بیس روز رہیں۔ پھر انھوں نے لودھیانہ کی تیاری کی۔ مجھے اپنے ہم راہ لے جانا چاہا، پر میرے ماں باپ نے نہ بھیجا۔ بہتیری تیوری بدلی، ناک بھوں چڑھائی، پر کچھ بن نہ آئی۔ اپنا سا منہ لے کر چلی گئیں۔ میں اپنے میکے میں خوش و خرم رہی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میری ساس لودھیانہ کو روانہ ہوئی ہیں تو جمادی الثانی کا مہینہ ١٢٧٨ھ تھی۔ سو بوا! ڈیڑھ دو مہینے تو خوب ہنسی خوشی میں کٹے۔
والد کا بیمار ہونا اور ان کا انتقال کرنا
شعبان کی بارھویں تاریخ تھی جو سنا کہ ابا جان کو بخار چڑھا۔ اسی وقت بڑی انا کو خیر صلاح کے لیے بھیجا۔ وہ واپس آئی تو معلوم ہوا کہ بخار بہت شدت کا ہے۔ جب تین روز ابا جان محل میں نہ آئے تو سب گھبرائے کہ خدا خیر کرے۔ دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ عادت ان کی نہ تھی۔ کیسے ہی بیمار ہوتے مگر محل میں ضرور ہو جاتے۔ پھر تو مرض کی یہ صورت ہوئی کہ روز بروز بڑھتا ہی چلا گیا۔ بہتیرے علاج کیے، مسہل دی، سب کچھ کیا، پر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ بخار نے جنبش نہ کھائی۔ یکم رمضان ١٢٧٨ھ کو انھوں نے انتقال کیا۔ دن کے نو بجے ہوں گے، جو یکایک باہر سے رونے کی آواز آئی۔ اماں جان نے گھبرا کر کہا: “ارے خدا کے لیے جا کر دیکھو تو سہی کیا ہوا”۔ اتنے میں بڑی انا باہر سے روتی پیٹتی ہوئی اندر آئی۔ اس کے آتے ہی محل میں کہرام مچ گیا۔ ہر طرف رونے پیٹنے کی آواز بلند ہوئی۔
دادی اماں کی گریہ و زاری دیکھ کر مجھ کو غش آنا
اور خاص کر دادی اماں کی گریہ و زاری اور بے قراری کو تو سننے اور دیکھنے کی تاب نہ تھی۔ جس وقت وہ یہ بیان کرتی تھیں کہ “ہائے میرے لعل، میرے گھر کو بے نور کر گیا۔ ہائے میرے چاند کدھر چھپ گیا۔ ارے میری آنکھوں کے نور، میرے دل کی تسکین، میرے کلیجے کی ٹھنڈک جاتی رہی۔ ارے میرے فرزند میرے دلبند اکیلا ہی چلا گیا، مجھے تنہا چھوڑ گیا۔ جنگل آباد کیا، میرا گھر ویران کر دیا۔ ہے ہے میں کیا کروں۔ اس کے بغیر کیوں کر جیوں”۔ یہ سن کر اپنے تو اپنے اجنبی بھی اپنے ٹکڑے اڑاتے تھے۔ میرا یہ حال ہوا کہ پہلے تو میں سہمی ہوئی ششدر تھی، اس لیے کہ مرنا کسی کا بھی آنکھ سے دیکھا نہ تھا، اب دیکھا تو اپنے باپ کا مرنا۔ اور باپ بھی عاشق زار باپ۔ بس مجھے، ان پر خدا رحمت نازل فرمائے، کمال ہی درجے کی ان سے الفت تھی۔ میں نے جو دادی اماں کی درد انگیز بین سنی تو ایکا ایکی میرے دل نے پھریری سی لی اور سارے بدن میں سناٹا سا آ گیا۔ اسی وقت غش کھا کر تڑاق سے زمین پر گری، میرے گرتے ہی سب رونا پیٹنا بھول گئے۔ لوگوں کے اور بھی ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ کوئی کہتا ہے اب کیا کریں، وہ تو جو کچھ ہوا سو ہوا، دیکھیے یہ کیا ہوتا ہے، کسی نے گلاب کے چھینٹے دیے، کوئی کیوڑا عطر لائی، کسی نے لخلخہ سنگھایا۔ جب دس منٹ میں ہوش آیا، پھر تو میں بھی خوب ہی ڈاڑھیں مار مار کر روئی اور جی میں کہتی تھی کہ ہائے قسمت، سسرال میں تو ساس نے چین نہ لینے دیا، میکے آئی تو یہ سانحہ پیش آیا۔ بیت:
فلک نے تو اتنا ہنسایا نہ تھا
کہ جس کے عوض یوں رلانے لگا
ادھر ان کی بیویاں بین کر کر روتی تھیں۔ محل میں عجب طرح کا تلاطم پڑا ہوا تھا۔ آخر ان مرحوم کو اول منزل پہنچایا اور پاٹودی میں دفن کیا۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت کرے۔ وہ بڑے نصیب والے تھے۔ ہمارے خاندان میں ایسا خوش نصیب آج تک نہیں ہوا۔ اگرچہ دادا فیض طلب خاں صاحب مرحوم بھی نصیبے کے سکندر ہی تھے، انھوں نے بھی مدت تک ریاست برتی اور عیش کیے مگر اس سے پہلے یہ مرتبہ حاصل کرنے کے لیے بڑی بڑی زحمتیں اٹھانی پڑی تھیں۔ لیکن ابا جان کی عمر ابتدا سے انتہا تک اقبال مندی کے ساتھ عیش میں گزری اور یوں پوچھو تو یہ ساری ثروت و حشمت و ریاست، جو کچھ ہے دادا فیض طلب خاں ہی کا ظہورا ہے کہ انھوں نے بڑی جان جوکھوں کے ساتھ اپنی قوت بازو سے پیدا کیا تھا۔ یہاں اگر ان کا بھی مختصر حال لکھا جائے تو مناسب مقام ہوگا۔ اس لیے لکھا جاتا ہے۔