کیا ہوا دردانہ بھابھی۔۔!! آپ اتنی پریشان کیوں ہیں۔۔؟
ماریہ شاہ جو کچن میں کھانا بنا رہی تھیں۔ اور دعا ان کی مدد کر رہی تھی۔ دردانہ کو اندر آتا پریشان حال دیکھ پوچھ بیٹھیں۔
اف کیا بتاٶں بھابھی۔۔۔!! یہ۔۔ محلے والے بھی ناں۔۔۔ہر وقت ہی الٹا سیدھا بولتے رہتے ہیں۔
پاس رکھی چیٸر پے بیٹھتے دکھ سے کہا۔
کیا ہو گیا۔۔۔؟ کیا کہہ دیا۔۔۔؟ سرسری سے انداز میں پوچھا۔
اب دیکھیں ناں۔۔۔۔ عفان کے تو جانے کا وقت آگیا تھا۔
ہاٸے۔۔۔۔ جوان جہان ۔۔ بچہ چلا گیا۔
منہ پے دوپٹہ رکھے آنسو بہاٸے۔ اور پونچھنے بھی لگیں۔
لیکن باتوں کا سلسلہ جاری رکھا۔
پر ۔۔اس میں ہماری عین کا کیا قصور۔۔۔؟؟دردانہ کی بات پر دعا کے کام کرتے ہاتھ بھی لمحے بھر کو رکے۔ اور نظر اٹھا کر دردانہ شاہ کو دیکھا۔
کیامطلب۔۔۔۔؟؟ کیاکہنا چاہ رہی ہیں آپ۔۔؟؟
ماریہ شاہ نے ناسمجھی سے انکی طرف دیکھتے دریافت کیا۔
میں نے۔۔۔ کچھ عورتوں کو کہتے سنا ہے۔۔
عین۔ کرم جلی ہے۔ منخوس ہے۔۔۔۔اسکی وجہ سے۔۔۔۔!!
بس کریں آنٹی۔ کیا بولے جا رہی ہیں۔؟
دعا نے انکی بات پوری نہ ہونے دی بیچ میں ہی غصے سے ٹوک دیا۔
لو بھلا۔۔۔ میں کہاں کہہ رہی ہوں۔۔؟ محلے میں چہ مگوٸیاں ہو رہی ہیں۔
اپنے ان گناہگار کانوں سے سنا ہے میں نے۔
بڑھا چڑھا کے پیش کیا۔
ایسا۔۔۔ کچھ نہیں۔۔ میری بیٹی۔۔۔۔
ماریہ شاہ کا لہجہ ڈگمگایا۔
دعا نے فوراً آگے بڑھ کر ماں کو آنکھوں ہی آنکھوں میں تسلی دی۔
لیکن لب بھی خاموش نہ رہ سکے۔
مما۔۔۔!! لوگوں کا تو کام ہے باتیں کرنا۔ نہ وہ زندہ کو چھوڑتے ہیں نہ مرے ہوٸے کو۔۔۔
اپنا مرنا تو جیسے سب بھول ہی گٸے ہیں ناں۔۔۔
کن اکھیوں سے دردانہ شاہ کو منہ بنا کے دیکھا۔
انہوں نے پہلو بدلا۔
ماریہ شاہ لمبی سانس خارج کرتیں دوبارہ کام میں لگ گٸیں۔
ارے۔۔۔ میں نے تو آپ کوبھلاٸی میں ہی بتایا ہے۔۔۔ خیر۔۔۔ عین مجھے بھی بہت عزیز ہے۔ میر ے لیےفاریہ جیسی ہے وہ ۔۔۔ کبھی فرق نہیں کیا میں نے۔
بہت جتلا کے بتانے لگیں۔
آنٹی اگر ایسی بات ہوتی تو آپ۔۔ ان لوگوں کو جو اسطرح کی باتیں کررہے ہیں۔ آپ وہیں انکو جواب دے کے آتیں۔ نہ کے۔۔ ہمیں آ کر۔۔۔!! جان بوجھ کے بات ادھوری چھوڑی۔
ہاں وہی تو بتا رہی ہوں۔
اچھا خاصا ٹکا کے جواب دیا میں نے۔۔۔
لیکن آگے سے بولیں اگر اتنی ہی چاہت ہے تو اپنی بہو بنا لو ناں۔۔۔۔!! زبانی ہمدردی کیوں دیکھا رہی ہو۔۔۔؟؟
دردانہ شاہ نے خوب سوچ سمجھ کے پتہ پھینکا۔
دعا کے ماتھے پےتیوری چڑھی۔ ماریہ شاہ نے بھی حیرانی سے دیکھا۔
اور پھر کیا تھا۔۔۔ میں نے بول دیا۔
ہاں ہاں۔۔ بنا لوں گی۔بہو۔ چاند کا ٹکڑا ہے اور بہت نیک بخت بچی ہے ہماری نور العین۔
تب تو سب کے ہی منہ بند ہوگٸے۔
بہت اترا کے قصہ تمام کیا۔
آپ۔۔۔ آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔
ماریہ شاہ دھیرے سے مخاطب ہوٸیں۔
دیکھیں بھابھی۔۔۔!! اس میں براٸی ہی کیا ہے۔۔۔؟؟ نور العین ہماری بھی بیٹی ہے۔۔ اور ہمیں بھی بہت عزیز ہے۔۔ لوگ باتیں کریں گے تو دکھ تو ہوگا ناں۔۔ اور لوگوں کے منہ بندکر نے کا اس سے اچھا اور کوٸی طریقہ نہیں۔
آپ۔۔۔ اجازت دیں۔۔ تو شاہ جی سے بات کروں۔ اللہ نے چاہا تو بہت اچھا ہو جاۓ گا۔ اور گھر کی بات گھر میں ہی رہ جاۓ گی۔
اپنی فل پلاننگ کر کے انہوں نے اپنی بات ماریہ شاہ کے سامنے رکھی۔
آنٹی ۔۔! آپ کو کوٸی ۔۔ خوفِ خدا ہے کہ نہیں۔۔؟؟ دعا سے برداشت نہ ہوا تو غصہ ضبط کرتے بولی۔
عفان بھاٸی کی قبر کی مٹی بھی خشک نہیں ہوٸی۔ اور آپ۔۔۔ شادی کی بات۔۔۔کیسے۔۔۔؟؟
دعا کی آنکھیں نم ہوٸیں۔
ماریہ شاہ کی آنکھیں بھی بھیگ گٸیں۔
دیکھو بیٹا۔۔۔! یہ سب بڑوں کی باتیں ہیں۔ تم اس میں نہ بولو ۔۔۔ تو بہتر ہے۔! روکھے انداز میں ٹوکا۔
بھابھی۔! میرا خیال ہے۔ اس موضوع کو آپ یہیں ختم کر دیں۔ مزید اس بارے میں کوٸی بات نہ ہو۔
ماریہ شاہ نے سختی سے مگر دھیمے لہجے میں درادانہ کو باور کرایا۔
بھابھی۔۔۔!میں تو آپ کے بھلے کے لیے۔۔۔۔۔!!
جس وجہ سے بھی کہہ رہی ہیں۔ بس بات کو یہیں ختم کر دیں۔
ماریہ شاہ نے غصے سے ٹوکا تو دردانہ بیگم اپنا سا منہ لے کے رہ گٸیں۔ اور منہ بنا کے کچن سے نکل گٸیں۔
دعا نے آگے بڑھ کے ماں کو گلے لگایا۔
ماریہ شاہ نے آنسو صاف کیے۔
بہت درد بھر گیا تھا دل میں۔
عفان ان کا ہونے والا داماد بعد میں ۔ پہلے انکا بیٹا تھا۔
اور وہ بیٹی کی موت کو کیسے یوں اچانک فراموش کر دیتیں۔۔مم جبکہ وہ تو انکے دل میں بستا تھا۔
سب کچھ ٹھیک جا رہا ہے بابا۔۔۔!!
ابرار شاہ نے اپنے باپ کبیر شاہ سے کہا۔
ہاں۔۔۔!! فی الحال تک۔۔۔۔!!
کبیر شاہ سوچتے ہوٸے بولے
کیا سوچنے لگے۔۔۔ بابا۔۔؟؟
ہممممم۔۔۔ کچھ خاص نہیں۔۔۔!!
تم بتاٶ۔۔۔ ! رات کوکدھر تھے۔۔۔؟ گھر نہیں آٸے۔۔۔؟؟
جی۔۔ وہ ۔۔ ڈیرے پے تھا۔۔
نظریں جھکا کے بولا۔
ڈیرے پے کیوں۔۔؟؟ ماتھےپے تیوری چڑھی۔
وہ۔۔۔ بس۔۔۔۔ ایسے۔۔۔ ہی۔۔۔!! ابرار شاہ کے پاس جواب نہ تھا۔
برخوردار۔۔۔ دن کوجومرضی کرو۔۔۔ جہاں مرضی جاٶ۔ لیکن ۔۔۔ رات ہوتے ہی گھر واپس آٶ۔ سمجھے۔
تنبیہ کرتے وہ آگے بڑھ گٸے۔
ابرار شاہ نے سر اثبات میں ہلایا۔
اور باپ کے جانے کے بعد گارڈن ایریا میں آ گیا۔
اور بد قسمتی عین کی جو سیڑھیاں چڑھتے اوپر جا رہی تھی۔ ابرار شاہ کی نظر میں آگٸ۔
رکو۔۔۔۔!! عین آواز پے چونکی۔
اور پلٹی۔ سامنے ابرار شاہ کو دیکھ اسکے چہرے پے ڈر واضح نظر آنے لگا۔
یہاں آٶ۔ !! سخت لہجے میں پکارا۔
عین نے ادھر ادھر دیکھا کوٸی نظر نہ آیا۔
لیکن اپنی جگہ سے ہلی بھی نہ۔۔
سنا نہیں ۔۔۔ کیا کہا میں نے۔۔۔؟؟ ابرار شاہ غصے سے اسکی طرف بڑھا۔
وہ سہمی سی سیڑھیوں کے بیچوں بیچ کھڑی تھی۔
اور وہ سر پے آن وارد ہوا۔
تمہیں۔۔۔ کم سناٸی دیتا ہے۔۔۔؟؟ بہت اونچی آواز میں وہ چلایا۔
کیوں گلہ پھاڑ رہے ہو۔۔۔؟؟ کیا مٸسلہ ہے۔۔؟؟
فارس نے پاس سے گزرتے ابرار کو اونچی آواز میں بولتا دیکھ غصے سے ٹوک بیٹھا۔ یہ دیکھے بنا کہ وہ بات کس سے کر رہا ہے۔
فارس کو دیکھ ابرار کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑا۔
جی۔۔۔ وہ۔۔۔ کچھ نہیں۔۔ وہ میں۔۔۔!!
ابرار شاہ کے ڈرنے اور فارس کے اسطرح بولنے سے عین کو تھوڑا حوصلہ ہوا۔ ایک نظر فارس پے ڈالی جو اسے ہی غصے سے دیکھ رہا تھا۔ اور آنکھوں میں صاف لکھا تھا۔ کہ یہاں سے دفع ہوجاٶ۔ ایسا عین کو لگا۔ اور وہ جھپاک سے اوپر۔کی طرف بھاگی اور غاٸب ہوگٸ۔
ابرار شاہ لب بھینچے نیچے اترا۔
اور فارس شاہ کے قریب سے گزرا ۔
فارس کی تیز نظروں کا حصار وہ خود پے محسوس کر رہا تھا۔
ابرار کے جانے کے بعد وہ جو اپنے روم کی جانب بڑھا تھا۔ کہ قدم رکے۔ نظر اوپر کی جانب اٹھی۔وہیں جہاں عین گٸ تھی۔ بے اختیار ہی اس نے قدم اوپر کی جانب بڑھاٸے۔
دروازہ کھولا تو سورج کی تیز روشنی اندر روم میں داخل ہوٸی۔
ہر طرف نور ہی نور بکھر گیا۔
وہ اسکا اسپیشل روم تھا۔ جہاں وہ اپنے فارغ وقت میں آرٹ کیا کرتی تھی۔اور عفان ہمیشہ اسکا ساتھ دیا کرتا تھا۔
آج وہ اکیلی تھی یہاں۔
ڈھیروں پینٹنگز بنا کے اس نے یہاں رکھیں تھیں۔
ایک خاص پینٹنگ بھی اس نے بناٸی۔ جو اس نے بنا تو دی لیکن۔۔ اس میں ۔۔ جو وہ بنا گٸ۔ خود بھیحیران رہ گٸ۔
اور ایک ڈر سا دل میں بیٹھ گیا۔ کہنکہیں کوٸی دیکھ نہ لے۔ اور وہ پینٹنگ اس نے چھپا دی۔
اور خود بھی نہ دیکھی۔
سب کچھ ویسا ہی تھا۔ کچھ بھی تو نہ بدلا تھا۔
آگے بڑھی۔ ایک اور پینٹنگ جو اس نے بناٸی تھی۔ وہ اٹھا کے اسٹینڈ پے ایڈ جسٹ کی۔ اور بے اختیار ہی دیکھے گٸ۔
یہ پینٹنگ ادھوری ہے عین۔۔۔!!
عفان نے دیکھتے پر سوچ انداز میں کہا۔ تو وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔
کیا۔۔؟ کیا ادھورا پن ہے اس میں۔۔۔؟؟
کھنکتی معصوم آواز عفان کےکانوں سے ٹکراٸی۔ تو وہ مسکرا دیا۔
یہ سمندر کا برفیلا پانی۔۔۔
یہ سر سبش و شاداب منظر ۔۔
جو چاند کی روشنی میں دمک رہا ہے۔
اور یہ پیاری سی لڑکی۔۔۔ جو اس رات کے خوبصورت منظر کا ایک پیارا سا حصہ معلوم ہوتی ہے۔۔۔
یہ۔۔۔ اداس ہے۔۔۔۔!!
اور جانتی ہو۔۔۔ یہ اداس کیوں ہے۔۔؟؟وہ جو انہماک سے سن رہی تھی۔ چونکی۔
کیونکہ۔یہ۔۔۔ اکیلی ہے۔۔۔!! اسکا ہمسفر نہیں ا سکے ساتھ۔۔۔!! میں۔۔ نہیں۔۔ تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔
دھیرے سے سرگوشی میں کہتا وہ دور کہیں ہوا میں تحلیل ہوا ۔
اور عین ماضی سے حال میں لوٹی۔
آنکھوں میں آنسوٶں نے پھر ڈیرا جما لیا۔
پینٹنگ انگلیوں کی پوروں سے چھوتے اس کےلب سسک اٹھے۔
یہ تصویرکہاں۔۔۔ ادھوری ہے ۔۔ فان۔۔؟
اس میں۔۔۔ آپ ہو۔۔۔۔ ناں۔۔۔۔
یہ چاند ۔۔۔۔آپ ہی تو۔۔۔۔ ہو۔۔۔
جو ہم۔۔سے بہت دور چلے گۓ۔۔۔۔
کہ۔۔۔
جہاں ہم پہنچ ہی نہیں سکتے۔۔۔۔۔!!
ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔! واقعی۔۔۔اس میں ۔۔۔
ادھوراپن رہ گیا ہے۔۔۔۔۔!!
کہتے کہتے وہ روتی بیٹھتی چلی گٸ۔
بے بسی حد سے سوا تھی۔
ایک جھٹکے سے بازو سے کھینچ کر مقابل نے کھڑا کیا ۔۔ عین ۔۔۔اس اچانک افتاد پر بوکھلا گٸ۔ اور سامنے ہی نظر بپھرے شیر پر پڑی۔
جس کی سبز ماٸل آنکھوں میں سرخی اتری ہوٸی تھی۔۔
روٸیں آنکھیں ، ان انگارہ آنکھوں سے ٹکراٸیں ۔جن میں نفرت اور بے انتہا غصہ بھرا ہوا تھا
فارس نے اسے کھینچ کر جنونی انداز میں اپنے سینے سے لگایا تھا۔وہ تڑپ ہی گٸ۔۔۔
دل کی دھڑکن اچانک ہی بڑھ گٸ۔
اور دھڑکنوں کا شور فارس شاہ اسکی سانسوں کی مہک سے ہی سن سکتا تھا۔
کتنا پیار کرتی ہو مجھ سے۔۔۔۔۔۔؟ہاں۔۔۔۔ ؟
جنونی انداز میں کہتااپنا ہاتھ اس کے گال پر پھیرا۔
عین تڑپ ہی تو گٸ اس کے جان لیوا لمس پے۔۔
لب بھینچے۔۔۔ آنسو روکے ۔۔۔ وہ ہچکیوں سے روۓ جا رہی تھی۔۔۔
اپنی محبت کو پانا چاہتی ہو ناں تم۔۔۔۔؟
لیکن ۔۔۔ پہلے اس محبت کا اظہار تو کرو۔۔۔۔!
میں بھی تو دیکھوں ۔۔۔۔۔محبت کی دیوانگی۔۔۔۔۔
فارس نے اس کے نازک وجود کو مزید خود سے قریب کرتے اپنے غصے کی شدت کو ضبط کرتے کہا۔
اپنی انگلیاں اسکی نازک کمر میں سختی سے پیوست کر دیں۔
اور اتنا قریب کر لیا۔۔کہ ناک کے ساتھ ناک رب کی۔
عین نے آنکھیں سختی سے میچ لیں۔
اسکا پورا وجود زلزلوں کی زد میں تھا۔ کمر جیسے ٹوٹتی ہو ٸی محسوس ہوٸ۔
وہ فارس کے سہارے ہی کھڑی تھی۔اگر ابھی وہ اسے چھوڑتا تو وہ زمین بوس ہو جاتی۔
کیا ہوا۔۔۔۔؟ اتنا ڈرامہ کیوں کر رہی ہو؟
۔۔۔۔؟
تمہاری خواہش ہی تو پوری کر رہا ہوں۔۔۔سویٹ ہارٹ۔۔۔۔!!!
اب کی بار فارس نے میٹھے الفاظ میں سخت طنز کیا۔
عین کی آنکھیں جھٹ سے کھلیں۔۔۔اور حیرانی سے فارس کو دیکھا۔کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔۔۔
اور اسکے غصے سے بھرے چہرے کی طرف دیکھا۔
اور وہ ایک لمحہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس میں عین نے فارس پےحیرانی سے نظریں جماٸیں۔وہ اس لمحے میں قید ہوا۔۔۔۔۔
وہ ایک لمحہ۔۔۔ اسے تسخیر کر گیا۔
وہ۔اک لمحہ۔۔۔۔۔ اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔
اور ہوش و حواس سے بیگانہ ہوا۔۔۔
اپنے سامنے کھڑے وجود کی مہک۔۔۔ اپنے اندر اتارنے لگا۔۔
لیکن یہ سب۔۔۔۔صرف ایک پل کے لیے ہی تھا۔۔۔۔
فارس نے زور سے عین کو پیچھے کی طرف دھکا دیا۔اور وہ دور زمین پر جا گری۔
عین نے گرتے ہوۓ خود کو بازٶں کے سہارے چوٹ لگنے سے بچایا۔
اور پلٹ کر ڈرتے ہوۓ فارس کو دیکھا۔۔۔
نور العین فراز شاہ۔۔۔۔۔۔۔! بہت جلد ۔۔۔۔ تمہیں ۔۔تمہارے کرموں کا حساب دینا ہو گا۔۔۔۔۔!.
میں۔۔۔۔ فارس شاہ۔۔ نہ بھولوں گا۔۔۔۔۔ نہ تمہیں بھولنے دوں گا۔۔۔۔۔!!!!
یاد رکھنا۔۔۔۔!!!
انگلی اٹھاتا وارن کرتا ایک نظر اسکی پینٹنگ پر ڈالی۔اور غصے سے اٹھا کے اسے زمین پے پٹخا۔
او اس پینٹنگ پے اپنے جوتو ں کی چھاپ چھوڑتا ۔۔۔ وہ عین کے سراسیمہ وجود کو دیکھتا۔۔ وہاں سے چلا گیا۔۔۔ اور عین کے لیے۔۔۔ کٸ ڈر اور سوال چھوڑ گیا۔
بمشکل اٹھ کر نیچے گری پینٹنگ کو اٹھایا۔
جو ساری کو ساری خراب ہو چکی تھی۔
آنسو خودبخود گالوں پے بہہ نکلے ۔
بہت ہی خاموشی سے اس پینٹنگ کو دیوار کے ساتھ ٹکایا۔
آنسو پونچھے۔ گرنے کی وجہ سے کلاٸی دب کھا گٸ تھی۔
کمر میں ابھی بھی انگلیاں دھنسی ہوٸی محسوس ہو رہی تھیں۔
اور اسکی تکلیف کو بڑھا رہی تھیں۔
اللہ جی۔۔!! یہ کیا بول کے گۓ ہیں۔۔؟ ہم نے کیا کیا۔۔؟؟
اللہ جی۔۔۔!! پلیز۔۔۔ہماراان سے کبھی بھی دوبارہ سامنا نہ کروانا۔۔۔۔
بہت بڑے ڈیول ہیں یہ۔۔۔۔!! اس ابرار شاہ سے بھی بڑے ڈیول۔۔۔!آنسو گالوں سے بہے جا رہے تھے۔ اور وہ معصوم۔اللہ سے دعا گو تھی۔
جاری ہے۔۔