روز کی طرح آج بھی اسکی آنکھ آلارم کی پہلی گھنٹی پر ہی کھل گئی تھی ۔ اس نے اسی وقت چارپائی چھوڑ دی ۔۔ باتھ روم میں جانے سے پہلے دادا ابا کے پلنگ کے قریب کھڑے ہو کر انکی چلتی ہوئی سانسوں کا یقین کیا ۔۔۔ اور جب انکے ہلکے ہلکے خراٹے سن کر دل کو تسلی حاصل ہوگئی تووہ انکے کمرے کا دروازہ دھیرے سے کھولنے اور دوبارہ سے بند کرنے کے بعد باہر آ گئی۔سیڑھیوں کی طرف جا رہی تھی مگر رک گئی ۔ چھوٹی چھوٹی گوں گوں کی آواز نے ساری توجہ چھین لی لبوں پہ خود بخود مسکراہٹ دوڈ گئی ۔ سٹور روم کے ساتھ والا کمرہ ثمرہ کا تھا ۔ اور آج کل وہ اپنے چھوٹے سے گول گپے کے ساتھ رہنے آئی ہوئی تھی ۔ دروازہ ان لاک ہی تھا اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ گھر پوری طرح سے بند تھا مین اور سیڑھیوں والا دروازہ اگر لاک ہوتے تو باقی کوئی فکر نہیں تھی ۔ کمرے میں نائٹ بلب کی روشنی پھیلی ہوئی تھی ۔ ثمرہ کی رضائی تقریباً بیڈ سے نیچے پڑی تھی ۔ خود وہ آنکھوں پر بلائنڈ فولڈر لگائے خراٹے بھر رہی تھی ۔ پھر اس کی نظر اس وجود پر پڑی جس کی کشش میں اندر آئی تھی ۔ چھ ماہ کا عبداللہ اماں کی ساری محنتوں گئی پیکنگ اکھیڑ اکھاڑ کر ننگا پڑا اپنے پیروں کے انگوٹھے منہ میں ڈالنے کی بھرپور کوشش میں تھا ۔ مسکراتے ہوئے آگے آئی رضائی اٹھا کر ثمرہ پر ڈالی ۔ اور بے بی کاٹ میں لیٹے عبداللہ کی طرف آئی ۔۔ اسکو بھی اچھی طرح کمبل اوڈھا کر گود میں اٹھا لیا ۔۔ “” آپ کی صبح تو میرے ساتھ ہی ہوتی ہے ہنہ عبداللہ شہزادے ۔۔ “” سرگوشیوں میں عبداللہ سے باتیں کرتی اسکی دودھ والی خالی بوتلیں اٹھا کر نائٹ بلب کو بھی بند کرتی باہر آگئی ۔ کچن کی لائٹ پہلے سے جلتی دیکھ کر تھوڑی حیرت بھی ہوئی مگر اندر کام کرتے رشید کو دیکھ کر اور بھی حیرت ہوئی ۔ “” رشید تم اتنے منہ اندھیرے کچن میں ۔ ??.”” ۔رشید اسکی آوازپرچونک کر پلٹا ۔۔۔ “” آپ اٹھ گئیں چھوٹی بی بی چائے یا لسی کچھ بنا دوں ۔۔۔ ??.. “” اسکے لئے رشید کے لہجے میں ہمیشہ عزت ہی ہوتی “” ارے نہیں میں تو بس عبداللہ کےلئے دودھ لینے آئی ہوں مگر تم نے نہیں بتایا کیا واصف کی آج پھر کوئی ٹرپ ہے ۔۔۔ “” اسکی بات پہ رشید ہنس دیا ۔۔ نہیں چھوٹی بی بی واصف بھائی کی ٹرپ ہو تو تیاری یوں خفیہ کب ہوتی ہے وہ تو چار دن پہلے سے ہی مینیو بتانے لگ جاتے ہیں ۔۔ یہ تو چھوٹے صاحب آئے ہیں انکے لئے کافی بنا رہا ہوں ۔۔۔ لائیں یہ خالی بوتلیں مجھے دے دیں میں دھوکر پھر سےتیار کر دیتا ہوں ۔۔سبھی کو علم تھا کہ رشید کس کو چھوٹے صاحب کہہ کر مخاطب کرتاہے ۔ اور اس کے منہ سے چھوٹے صاحب سنتے ہی امثال کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا ۔ جو رشید کی نظروں سے یہ منظر چھپا نہیں تھا اسی لئے اب وہ اسے باتوں میں لگا کر دھیان بٹانا چاہ رہا تھا ۔ اس نے آگے بڑھ کر فرئج سے تازہ دودھ کا بنا پڑا فیڈر نکال کر مائیکرو ویو میں رکھا ۔ پھر سپاٹ سے لہجے میں رشید کو ہدایت دی ۔۔۔ “” رشید خالی کافی مت دینا پہلے لسی پلوا کر پھر کافی دینا ۔۔۔”” رشید نے تابعداری سے سر اثبات میں ہلا دیا ۔ “” میں دے دوں گا باجی مجھے نہیں لگتا کہ وہ نا کریں گے چھوٹے صاحب میں ضد اور غصہ تو ہے ہی نہیں ہے جی بس سنجیدہ بہت ہیں بات کم کرتے ہیں مگر دل کے بڑے درویش ہیں ۔ “” رشید بول رہا تھا اور امثال کے اندر باہر دھواں بھر رہا تھا ۔ وہ جلدی سے کچھ بھی کہے بغیر کچن سے نکل آئی ۔ اسی وقت وہ مین ڈور سے اندر آیا تھا ۔ یقیناً مسجد سے نماز پڑھ کر آ رہا تھا ۔ کالے کھدر کے سوٹ پہ اس نے براوٴن گرم چادر اوڑھی ہوئی تھی ۔ وہ بھی امثال کےوجود کو اسی طرح اگنور کرتا دادا کے کمرے کی جانب بڑھ گیا جیسے امثال اسکو نظر انداز کرتی سپیر روم میں چلی گئی ۔ کیونکہ اوپر اپنے بیڈ روم میں اب وہ جانا ہی نہیں چاہتی تھی ۔ اور دل میں دعا کر رہی تھی کہ یا اللہ جب تک امی ابا عمرہ سے واپس نہیں آجاتے یہ وقت خیر سے گزر جائے ۔
★★★★★. ★★★★★★.
امثال کی بچی بیمار پڑنے کا پروگرام تو نہیں تمہارا یہ املی کا پندرہواں پیکٹ ہے ۔ اور اب جو رات کو میری جان کھائی ناں کہ امی گلا بند ہو گیا ہے تو رکھ جوتے لگاوں گی ۔ “” امی کی ڈانٹ پر اس نے اپنے باب کٹ بالوں کو مخصوص سٹائل میں جھٹکا دیکر لاپرواہی سے کندھے اچکائے “” امی اپنی ڈانٹ سنبھال کر رکھیں کسی اور وقت کے لئے آج تو آپ کا کہا سچ ثابت ہونے والا نہیں ہے کیونکہ یہ جو املی آپکے سامنے میں نے کھائی ہے نہ یہ کھٹی نہیں میٹھی املی ہے ۔۔ اگر یقین نہیں تو چکھ کر دیکھ لیں ۔۔۔۔ “” اس نے فٹ سے املی امی کے منہ کے آگے کی ۔۔۔ “” ارے ادھر ساڑو اس سوغات کو تمہیں ہی مبارک ہو ۔۔ “” امی نے اسکا ہاتھ جھٹک کر دور کر دیا ۔۔۔ تو وہ واپس صوفے کی نرمیوں میں خود کو دفن کرتے ہوئے پر سوچ انداز میں بولی ۔۔ “” امی ایک بات تو بتائیں ۔ ?? امی نے الماس کی قمیض کی ترپائی کرتے ہوئے اک لمحے کو سر اٹھا کر اپنی لاڈلی بیٹی کے چہرے کو دیکھا ۔۔ “” پوچھو ہو گا پھر کوئی الٹا سیدھا خیال ۔۔ “” اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔۔ “” ارے کہاں میری پیاری راج دلاری ماں ۔۔۔ میں تو صرف یہ جاننا چاہ رہی تھی کہ کیا آپ پیدائشی سڑو ہیں یا شادی کے بعد ہوئیں ۔۔ ??… “” امی نے اپنا کام ترک کرکے اس بار اسکو ملامتی نظروں سے دیکھا ۔۔ “” بس انہی فضول باتوں اور سوالوں کے لئے تم میرے گھر پیدا ہوئی ہو ۔۔۔ “” انکی بات اندر آتا ابسام جاری رکھتے ہوئے شروع ہو گیا ۔۔۔ “” خالہ اسکو اور بھی بہت سے کام کرنے تھے جس کے لئے دنیا میں آئی ہے مثلاً رسالے پڑھنا موویز دیکھنا ۔لوگوں کی جھوٹی شکایتیں لگا کر ان کو اباسے جھڑکیاں پڑوانا ۔۔۔ ویسے بندری تمہیں شرم تو نہ آئی ہوگی اباکو بتاتے کہ خالو جی ابسام دوستوں کے ساتھ سینما گیا ہے ۔ “” اینڈ پہ اس نے امثال کی نکل اتارتے ہوئے کہا تھا ۔۔ اور وہ اسکو نظر انداز کرتی بھاگ کے جاکر خالہ کے گلے لگی تھی ۔۔ “” میں نے آپکو اتنا مس کیا تھا مجھے کوئی نہیں پتا اگلی دفعہ جب آپ اپنی نند کے گاؤں جائیں گی میں بھی آپکے ساتھ چلوں گی ۔۔۔ “” خالہ نے محبت سے اسکوساتھ لگا کر دو تین بوسے لے ڈالے ۔۔ردوسری طرف ابسام نے اپنی خالہ کو اشارہ کیا ۔۔۔ “” خالہ امی دیکھ رہی ہیں لوگ ہمیں جلانے کو کیسے ہیار کا کھلا اظہار کر رہے ہیں ورنہ دیکھ لیجیے گا جس دن کلمے پڑھے گئے ناں ۔۔ کہاں کی خالہ کہاں کی بھانجی ظالم ساس اور سازشی بہو ہی نس دیکھنے کو ملے گی ۔ بس آپ اور میرا پیار ہی سچا ثابت ہونا ہے ۔۔۔ “” وہ بھی خالہ کا ہاتھ پکڑ کر صوفے پہ انکے برابر بیٹھ گئی ۔ “” فکر نہ کرو یہ میری ساس ہیں تمہاری نہیں ظلم بھی کریں گی تو پیار سے ۔۔۔۔ اور جہاں تک رہی سازشی بہو کی بات تو مسٹر ابسام سکندر سازشیں تو ہونی ہی ہونی ہیں مگر اپنی شزادی خالہ کے نکھٹو بیٹے کے خلاف ۔۔ کیوں خالہ ۔۔۔ !! “” اس نے رائے خالہ سے مانگی جواب امی کی طرف سے خاصا گرم آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” کیا کروں میں تمہاری اس گز بھر لمبی زبان کا جسے چسکے لینے اور پٹر پٹر بے لگام دوڈنے کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں ۔ “” اس نے سنجیدہ ہونا کب سیکھا تھا ۔ فٹ بولی دو تو آپ نے گنوا دئیے ہیں ویسے خالہ میں آپکے گھر کیوں نہیں پیدا ہوئی کتنا اچھا ہوتا اگر آپ میری امی ہوتیں اور ابسام میرے ماں باپ کی اولاد ہوتا ۔۔ “” پہلے خود ہی آئیڈیا دیا پھر خود ہی بولی ۔۔ “” استغفار یہ میں کیا چاہ رہی ہوں اگر یہ امی کی اولاد ہوتا تو اسکا مطلب امی میری ساس ہوتیں ۔۔۔ یا اللہ تیرا شکریہ جو تو نے مجھے امی جیسی ہٹلر ساس نہیں دی ۔”” .. ۔بیٹی کی بات سن کر ساجدہ کو ہنسی بھی آئی غصہ بھی جو ہمیشہ کی طرح سوچے سمجھے بغیر بولتی چلی جا رہی تھی ۔ حلانکہ انکا دل اس کے لمبے لمبے بے پرواہ قہقوں سے ہمیشہ ڈرتا تھا وہ دل کی سادی تھی ۔ ایک تو خالہ سے بچپن کا پیار تھا ۔ اور عمارہ کی بھی تو اس میں جان تھی ۔ ابسام ڈیڑھ سال کا تھا جب وہ دنیا میں آئی تھی ۔ اس سے بڑی ایک بہن اور ایک چھوٹا بھائی تھا ۔ مگر لاڈلی وہ ہی تھی اسکی وجہ ہر وقت پٹر پٹر چتی زبان ہی تھی ۔۔ اگر کوئی کہانی پڑھ لی تو تب تک سکون نہ آیا جب تک ابو کو لفظ با لفظ سنا نہ لی ۔ اسکی ہر بات میں بے ساختہ پن ہوتا۔ پتا نہیں یہ بات کس نے پہلے کی تھی کوئی کہتا ابسام کی دادی نے کوئی کہتا امثال کی دادی نے پر یہ بات اب سارے خاندان برادری میں مشہور تھی کہ امثال عمارہ کی بہو بنے گی ۔۔ ابسام کے والد سکندر واپڈہ میں ملازم تھے ۔ پیچھلے پندرہ سال سے اسی شہر میں تائینات تھے ۔ امثال لوگوں کی پیچھلی گلی میں انکا گھر تھا ۔ وہ ہر روز شام کو انکے گھر پائی جاتی کبھی کرکٹ کھیلی جا تہی ہے کبھی بیڈمنٹن اگر خالہ کے ساتھ انکنڈیشنل پیار تھا تو خالو کے ساتھ انکنڈیشنل یاری تھی ۔
★★★★★★. ★★★★★★★.
۔عام طور پر وہ صرف پورے یا آدھے دن کے لئے آتا تھا ۔ لنچ یا بڑے اصرار پر ڈنر کے لئے رکتا اور ڈنر کے فوراً بعد نکل جاتا ۔۔ اسکی نوکری اسلام آباد میں تھی ۔ گھر والوں کے کہنے کے باوجود وہ اپنا ٹرانسفر نہیں کر وانا چاہتا تھا ۔ جو ذندگی اس نےاپنے لئے چنی ہوئی تھی وہ فرار تھا اور اب اسے فرار میں ہی مزا آرہا تھا ۔ ابھی بھی وہ کل سے گھر پر تھا اور کل سے وہ ایک دفعہ بھی اپنے کمرے میں نہیں آئی تھی ۔ اور نہ ہی اس نے خود سے اسے بلوایا تھا ۔ مگر وہ سب دیکھ اور سمجھ رہا تھا کہ رشید کے زریعے اس کے سب کام کروائے جا رہے تھے ۔ جس طرح وہ سب کچھ خاموشی سے کر رہی تھی ۔ اسی طرح وہ سب کچھ خاموشی سے دیکھ رہا تھا ۔ اس وقت بھی تیار ہوکر نیچے آیا ۔۔ سبھی سیٹنگ روم میں ہی موجود تھے ۔ اسے دیکھتے ہی عبداللہ کے ساتھ کھیلتے واصف کی زبان پہ کھجلی ہوئی تھی ۔ “” ارے آئیے آئیے جناب بڑی بات ہے حضور آج کل گھر پہ نظر آرہے ہیں ۔ کہیں نوکری ختم تو نہیں ہوگئی ۔”” وہ واصف کی گود سے عبداللہ کو اٹھاتا وہیں اسکے برابر بیٹھ گیا ۔۔ “” نہیں یار نوکری سے دل اکتا گیا ہے اسلئے چار دن چھٹی لی ہے ۔۔ “” واصف کو جواب دینے کے بعد وہ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے عبداللہ کی توجہ اپنی طرف کرنے کے لئے سیٹی بجانے لگا ۔۔۔ جبکہ واصف ابھی تک منہ کھولے اپنے بڑے بھائی کی شکل دیکھ رہا تھا ۔ ثمرہ نیچے کارپٹ پر بیٹھی عبداللہ کے دھلے ہوئے کپڑے طہ کرکر کے ٹوکری میں رکھ رہی تھی اور امثال دادا جی کے تخت پر انکے برابر بیٹھی کوئی کتاب پڑھ کر سنا رہی تھی ۔ ثمرہ نے واصف کا منہ بند کرتے ہوئے مشورہ دیا ۔ “” منہ بند کر لو نہیں تو مکھی چلی جائے گی ۔ “” واصف کی اکٹنگ عروج پہ تھی ۔ ارے عبداللہ کی ماں جاو بھاگ کر دادا جی کے کمرے سے آ لا لیکر آو اپنے بھائی کا بلڈ پریشر تو چیک کریں جناب کہہ رہے ہیں کہ انکا اپنی محبوبہ سے دل اکتا گیا ہے ۔۔ “” وہ واصف کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا تھا ۔ محبوبہ کے نام پہ امثال کے ہاتھ میں پکڑی کتاب نہ جانے کیسے گر گئی ۔ سبھی کا دھیان اسکی طرف گیا سوائے اسکے شوہر کے ۔۔ واصف نے تودل کھول کرقہقہ مارا ۔۔۔ اس نے عبداللہ کو اسکی ماں کی گود میں ڈالا اور واصف سے مخاطب ہو ۔”” اپنے ہاتھی سے دانت اندر کرو اور میرے ساتھ چلو زرا ایک دوست کے ابو کا چالیسواں ہے افسوس کر آئیں ۔۔۔ “” میں کیا اس گھر کا بڑا بوڑھا ہوں ۔ ۔۔ “” واصف کے پاس فٹ جواب حاضر تھا ۔ “” نہ جاو میں دادا جان کو لے جاتا ہوں ۔۔ “” وہ آواز تھوڑی اونچی کرکے دادا جی سے پوچھنے لگا ۔۔ “” دادا ابو چلیں ایک فوتگی کا افسوس کر آئیں ۔ ۔۔۔ “” آدھے ممتاز مفتی کی کتاب میں گم دادا جی نے بھی سر نفی میں ہلا دیا ۔۔ “” او یار تم جانتے تو ہو مجھ بڈھے سے تو دس منٹ تک لگاتار بیٹھا نہیں جاتا ایویں ادھر کوئی نئی مصیبت بناو گے ۔۔۔ تم امثال کو لے جا و ۔۔۔۔ “” دادا جی کے مشورے پر جہاں اسکی نظربے اختیار اس جھکے ہوئے سر کی طرف گئی تھی وہیں واصف تالی بجا کر دادا جی کو داد دیتا پٹوسی مار کر ایک ہی جست میں انکے برابر جا بیٹھا ۔۔۔ “” یہ کی ناں بات آج آپ نے ثابت کر دیا کہ شیر جوان آخر شیر جوان ہی ہوتے ہیں ۔ “” واصف کے بیٹھتے ہی امثال تقریباً چیخ اٹھی ۔۔۔ “” دیکھ کر موٹو دادا کی عینک پر بیٹھ گئے ہو ۔۔۔ “” بات تو کوئی نہیں ہوئی تھی ۔ مگر پھر بھی کچھ لمحوں کے لئے ہر کوئی اپنی جگہ تھم سا گیا ۔۔۔ اور امثال کے شوہر کی نظریں اپنی بیوی کے چہرے سے ہٹنے کی انکاری ہو گئی تھیں ۔ ۔ ثمرہ نے ایک نظر سر جھکائے اپنے ہونٹ کا ٹتی امثال کو دیکھا پھر اپنے بھائی کی گہری سنجیدگی میں چھپی ازیت کو تو آنکھوں میں آنسو آگئے ۔جنہیں صاف کرتی لہجے میں بشاشت پیدا کرتے ہوئے بولی ۔۔۔ “”ٹھیک کہہ رہے ہیں بھابھی آپ تیارہوجائیں آپ ہی بھائی کے ساتھ جائیں ۔۔ “” امثال نے سر اٹھا کر ثمرہ کی جانب دیکھا تو اسکے چہرے پہ پھیلی دہشت اور سراسیمگی دیکھ کر ان چاروں کے دل کٹ گئے تھے ۔ ہ فوراً کتاب چھوڑ کر کھڑی ہوگئی ۔ “” میں ۔۔ !! ۔ میں بھلا وہاں جاکر کیا کروں گی اور ویسے بھی گھر پہ اتنے کام ہیں ۔۔ میرا نہیں خیال میرا جانا ممکن ہے ۔۔۔ “” اس سے پہلے کے وہ وہاں سے غائب ہوتی واصف نے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ تھام لیا ۔۔ “” کام وغیرہ کی فکر کیوں کرتی ہیں یہ آپکا موٹو ہے ناں سب دیکھ لونگا آپ جاو اور واپسی پہ میرے اور عبداللہ کے لئے برگر بھی لانا ۔۔۔”” اس نے منت بھری نظروں سے واصف کو دیکھتے ہوئے ہاتھ چھڑانا چاہا ۔۔مگر آج واصف کچھ سوچ چکا تھا ۔ اس نے امثال کے آگے اپنے ہاتھ جوڑ دیئے ۔۔ “” میں معافی مانگتا ہوں ۔ میں ہم سب کی طرف سے آپ سے معافی مانگتا ہوں ۔ جو کچھ ہوا تھا اس میں نہ آپکا قصور تھا نہ میرے بھائی کا پھر آپ دونوں ایک دوسرے کو کس بات کی سزا دے رہے ہیں ۔۔ “” امثال کے چہرے پہ پتھروں سی سختی تو آئی پر رنگ دھلے لٹھے سا ہوگیا ۔ اس نے واصف کےبندھے ہوئے ہاتھ کھول دئیے ۔ بولی تو آواز کانپ رہی تھی ۔ “” آج کے بعد ایسی کوئی بات مت کرنا واصے زیادتی کل بھی میرے ابو سے ہوئی تھی اور آج بھی نتیجہ کل بھی میں نے بھگتا تھا آج بھی میں ہی بھگت رہی ہوں ۔۔۔ مگر فرق جانتے ہو کیا ہے کل مجھے کوئی شکوہ نہیں تھا ۔ جو بھی انکا فیصلہ تھا انکو میرے باپ کی حثیت سے حق تھا اور یہ حق میں نے انکو با خوشی دیا تھا ۔ آگے جو ہوا وہ میرا نصیب مگر اب جو ہوا ہے نہ مجھے جینے نہیں دیتا میرا دم گھٹتا ہے یہ سوچ کر کے میرے بڑوں نے زبردستی مجھے کسی کے سر پر تھونپ دیا ۔ “” وہ شائد اسکی موجودگی سے غافل ہو گئی تھی ۔ پہلے وہ سارا سین یوں دیکھتا اور سنتا رہا جیسے یہ اسکے گھر کی نہیں کسی ڈرامے کی سٹوری چل رہی ہو ۔۔۔ مگر امثال کی آخری بات نے اسے اپنی جگہ سے اٹھ کر اسکے مقابل آنے پہ مجبور کر دیا ۔۔۔۔ “” کس کی بات کر رہی ہو ۔۔۔ ??? ۔ اسکی آواز اپنے قریب سنتے ہی وہ بت بن گئی ۔ تیزی سے وہاں سے ہٹ جانا چاہا مگر اس نے سامنے آکر راستہ روک دیا ۔۔۔ “” آج سر بازار موضوع چھڑ ہی گیا ہے تو بات کرنے میں کیا حرج ہے ۔۔۔۔ “” یوں تو پیچھلے چھ ماہ سے دونوں ایک دوسرے کے نکاح میں تھے ۔ مگر آج پورے چار سال بعد وہ اس کے ساتھ براہ راست مخاطب ہوا تھا ۔ امثال کو یوں لگا جیسے سینے میں سے ساری ہوا ختم ہو گئی ہو ۔۔۔ وہ آج چار سال بعد پھٹتی آنکھوں سے اسے اپنے قریب کھڑا دیکھ رہی تھی ۔ اسکے سامنے کھڑے آدمی کی شکل پہ رقم تھا کہ وہ بڑی لمبی مسافت کرکے اس تک آیا ہے ۔۔ جس چہرے پہ ہمہ وقت شوخیاں اور مسکرہٹیں بکھری رہتی تھیں۔اسکی شخصیت ہی نہیں ہر وقت بولتی رہنے والی آنکھیں بھی خاموش تھیں ۔ “” میرا راستہ چھوڑ د…. ۔و بات درمیان میں ہی رہ گئی کیونکہ اسکی ٹانگوں نے بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا تاریکی میں ڈوبتے ذہن میں بس ایک احساس بچہ تھا کہ اسکو تھامنے کے لئے جسکے ہاتھ اسکی جانب بڑھے تھے وہ اسکا نہیں تھا ۔ وہ شاندار آن بان والا شخص جس کے سر پہ سفید بال زیادہ اور کالے کم تھے ۔ وہ ہر لحاظ سے مکمل تھا۔ اسکی دسترس میں تھا مگر اسکا نہیں تھا ۔ وہ بے ہوش ہوکر گرنے لگی تھی مگر اس نے اسکو گرنے نہیں دیا بلکہ اسکو اپنی کسی قیمتی متاع کی طرح سنبھال لیا۔۔۔ تینوں بہن بھائیوں کے ہاتھوں سے طوطے چھوٹ گئے ۔ ڈاکٹر کے بعد امی ابو نے بھی سختی سے منع کیا ہوا تھا کہ اس گھر میں کوئی کبھی امثال سے اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرے گا ۔ اور آج یونہی باتوں باتوں میں بات ہاتھ سے نکل گئی تھی ۔ اگلے پانچ دس منٹ تک بھی اسکو ہوش نہیں آیا تھا ۔ ثمرہ تو باقاعدہ رو رہی تھی ۔ دادا جی نے ثمرہ کو ڈانٹ دیا ۔۔ “” ثمی پتر تم تو چپ کرو اور تم دونوں بھائی اسکو ہسپتال لے جاو ۔میرا دل گھبرا رہا ہے کب کی یونہی بے سدھ پڑی ہے ۔ “” اس نے واصف کو گاڑی نکالنے کا بولا اور خود اسکو اٹھا کر باہر گاڑی تک لایا ۔۔۔ ہسپتال والوں نے جاتے ہی ایڈمٹ کر لیا ۔۔ اسکا نروس بریک ڈاوٴن ہوا تھا ۔۔
★★★★★★★. ★★★★★★
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...