مشرف عالم ذوقی نے مشرق ومغرب کی شعریات کے مطالعے اور اکتسابات سے واقعات وواردات اورمسائل حیات وکائنات کے تجزیے کی بصیرت ہی حاصل نہیں کی ہے، ان کے فنی اظہار کا شعور بھی حاصل کیا ہے۔ اس کا احساس نہ صرف ان کے اکثر افسانوں بلکہ ناولوں سے بھی ہوتا ہے اور جہاں تک ناولوں کا تعلق ہے، ان میں ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ اپنے موضوعات ومسائل، معنوی جہات اور صوری تشکیل کے لحاظ سے بھی ایک منفرد اور ممتاز فنی کارنامہ ہے۔ اس سے مشرف کے امتیاز کے نقوش مزید گہرے اور روشن ہوئے ہیں۔
مشرف کاکینوس بہت پھیلا ہواہے۔ ان کے موضوعات متنوع اور مسائل نہایت ہی پیچیدہ اور بے شمار ہیں۔ بلکہ ایک انبار ہے مسائل کا جسے مشرف نے فلسفہ بنادیا ہے— ان معنوںمیں کہ فلسفے مسائل کی آگہی دیتے ہیں، ان کا حل نہیں دیتے مگر باضابطہ غور وفکر کا ایک سلسلہ قائم کردیتے ہیں۔ گویا ان کے مقدمات فلسفیانہ ہوتے ہیں لیکن ان کی پیش کش فنکارانہ ہوتی ہے۔ تکنیک اکثر چونکانے والی ہوتی ہے— اس ناول میں خصوصیت کے ساتھ یہ امتیاز نظرآتا ہے۔ تمہید کے طور پر ہرمن ھیسے کے ڈیمیان سے ماخوذ اقتباس پیش کیا گیا ہے جس کا یہ آخری جملہ کلیدی اہمیت کا حامل ہے:۔
’’ارتقا کے راستے میں اخلاقیات کا کوئی دخل نہیں ۔‘‘
اور پھر مختصر سے یہ تین جملے:۔
’’کبھی کبھی قدرت کے آگے/
ہم بیحد کمزور ہوجاتے ہیں/
اور سپر ڈال دیتے ہیں‘‘
ان عبارتوں سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ یہ انسانی مقدرات کی ستم ظریفی کی داستان یا قدرت کے جبر کی کہانی ہے جس میں تہذیب انسانی کے ارتقا کی راہیں اخلاقیات کی دھجیوں سے اٹی پڑی ہیں۔
اردو میں بھی بہت سارے افسانے اور ناول لکھے گئے ہیں سنسنی خیز اور رونگٹے کھڑے کردینے والے مگر ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ اپنی کیفیت وکمیت کے اعتبار سے ممتاز، منفرداور جداگانہ حیثیت کا حامل ہے۔ اس کی سنسنی خیزی میں برف زار کی طوفانی ہوا کا وہ جھونکا ہے جس سے رگ احساس شل اور روح منجمد سی ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے اپنے فکری سروکار اورفنی طریق کار سے اس ناول کو مذاہب، فلسفے اور حکمتوں کی ناکامیوں کا نوحہ بنادیا ہے۔ یہ ناول بنیادی طور پر جدیدیت کی فکری روایت اور فلسفیانہ اساس سے ہمکنار ہے جس کا نتیجہ حزن وملال سے پُر اور یاس انگیز ہے۔
اس ناول کا قصہ فلیش بیک کی تکنیک میں بیان کیا گیا ہے۔ قصے کے راوی عبدالرحمن کاردارہیں جن کا آبائی تعلق بلند شہر سے ہے۔ رؤسائے بلند شہر میں کاردار خاندان کے علاوہ نور محمد کا بھی ایک خاندان ہے۔ ان دونوں خاندانوں کے تار حریر دورنگ (سفید وسیاہ دھاگوں) سے اس قصے کا بنیادی پلاٹ بناگیا ہے اس میں حیرت وحسرت کی جھلک نمایاں ہے۔ حالانکہ بظاہر قصہ نور محمد ہی کے خاندان سے متعلق ہے۔
عبدالرحمن کاردار، مایوسی ومحرومی اور تنہائی وناپرسانی کازمانہ بلند شہر سے دور ایک پہاڑی سلسلے پر گزاررہے ہیں جہاں تھوڑے تھوڑے دنوں کے لیے ان کی سترہ سالہ پوتی سارا کاردار، جوان کے تنہا بیٹے ڈاکٹر شان الرحمن کاردار کی تنہا اولاد ہے، آجاتی ہے۔ ملازم اور ملازمہ ہیں۔ یہیں پروفیسر نیلے بھی اپنے آبائی علاقہ سے دور اپنی بیوی کے ساتھ وقت گزاررہے ہیں۔ان کے بال بچے بھی اس عمر میں ان سے، ان کی آنکھوں سے دور ہیں۔ پروفیسر نیلے یہاں عبدالرحمن کاردار کے پڑوسی بھی ہیں اور دوست بھی— دونوں اکثر پہاڑی سلسلے پر ایک ساتھ گھومتے پھرتے ہیں حالات سابقہ وحاضرہ پر تبصرے کرتے ہیں خود اپنے حال واحوال ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ ایسے ہی کسی موقع پر عبدالرحمن کاردار کو یادآتا ہے جب نادرہ ان کی حویلی میں آئی تھی۔ سفیان ماموں کی بیٹی نادرہ۔ نادرہ کے سحرآنگیں حسن سے حویلی طسلم ہوش ربا بن گئی تھی جو پہلے آسیب زدہ سمجھی جاتی تھی۔ اپنے ان دنوں کے احساسات وجذبات کا اظہار عبدالرحمن کاردار اس طرح کرتے ہیں :۔
’’لمحے ٹھہر گئے تھے۔ یہ آسیبی حویلی اچانک طلسم ہوش ربا میں تبدیل ہوگئی— ایک ایسی ساحرہ جس کی آنکھوں کی پر اسرار چمک نے اس وقت مجھے کسی بے جان بت میں تبدیل کردیاتھا۔‘‘
لیکن یہ سحر کار حسن عبدالرحمن کاردار کے اندر ایسا انقلاب پیدا نہ کرسکا کہ وہ سفیان ماموں سے اپنے لیے نادرہ کا رشتہ مانگ لیتے۔ نادرہ کی شادی نورمحمد سے ہوگئی اور اس طرح ایک زن بے زبان کی کی چاہتوں کا خون ہوگیا۔ یعنی روایتی اخلاقیات کی پابندی اور پاسداری نے معاشرتی نظام میں ایک طرح کی بیماری پیدا کردی۔ پھر اس بیمار نظام میں پیداہونے والے بہت سے بیمار بچوں کی طرح نادرہ نے بھی ذہنی طور پر معذور ایک بچی نگار کو جنم دیا۔ اصل کہانی اسی کے ساتھ جنم لیتی ہے۔ اب تک کی دنیا کی سب سے بھیانک کہانی— یا سب سے بدترین کہانی۔ دو چہروں کے تعاون سے لکھی جانے والی کہانی۔ پہلا چہرہ ایک مرد کاتھا۔ ایک بے حد معصوم سامرد اور دوسرا چہرہ ایک چھوٹی سی معصوم بچی کا تھا۔ بے حد معصوم سی چھوٹی سی بچی کا… بے حد معصوم سامرد کوئی اور نہیں، نورمحمد ہے اور ایک چھوٹی سی معصوم سی بچی، بے حد معصوم سی بچی، نور محمد کی بیٹی اور نادرہ کی بیٹی نگار ہے۔ یہ دونوں کردار ایسی بدنصیبی کے شکار ہوجاتے ہین جن کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے۔
اس ناول میں تجسس اورتحیر کے بے شمار عناصر قدم قدم پر دامن نگاہ کو تھام لیتے ہیں اور اس جہان سے سرسری گزرنے نہیں دیتے۔ ہر جا جہان دیگر کی نیرنگیاں دکھائی دیتی ہیں جن کا تعلق واقعات وواردات ہی سے نہیں بلکہ فکر وفن کی تخلیقی قوت سے بھی ہے۔
ہمارے تجربے میں معذور زندگی کا ایسا واقعاتی تناظر بھی ہے جس کے لیے MERCY DEATH کانہ صرف فارمولا تیار کیاگیا بلکہ اس کے نفاذ کے لیے عدالتِ عالیہ سے گزارش بھی کی گئی لیکن عدالت نے اس کی منظوری نہیں دی، عدالت کا یہ بھی ایک تاریخ ساز فیصلہ تھا۔
اب ایسی زندگی جو موت سے بھی بدتر ہو اور اسے مرنے کی اجازت بھی نہ دی جائے تو گویا یہ بھی بے رحمی ہی کی ایک مثال ہے۔ عذاب الہی کا یہ نزول کسی ا یک فرد پر نہیں بلکہ معاشرے کے متعدد افراد پر ہے اور دوسرے لفظوں میں آج کا انسانی معاشرہ ایسے عذاب میں مبتلا ہے۔ لیکن اس ناول میں نور محمد جس عذاب میں مبتلا ہے اس کی نوعیت سارے جہان سے مختلف ہے، اس کی کیفیت سارے زمانے سے جدا ہے۔
باپ بیٹی کے مقدس رشتے کی پامالی کے متعدد واقعات تاریخ کا بھی جزواور ادب کا بھی حصہ بنے ہیں۔ لیکن یہاں نگار اورنورمحمد کے رشتے کی پامالی کی نوعیت ایسی ہے جو تاریخ اور تخیل کی ہمکاری سے ایسی حیثیت اختیار کر گئی ہے جو فن کو شاہکار کے مرتبے تک پہنچا دیتی ہے، لیکن کہانی کے آغاز سے تکمیل تک عبدالرحمن کاردار ناقابل فراموش کردار کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں کیونکہ ذہنی طور پر معذور نگار کی معذوری کا اصل سبب عبدالرحمن کاردار سے تعلق سے نادرہ کی نفسیاتی اورجنسی گھٹن بھی ہوسکتی ہے۔ نگار پیدا ہوتی ہے تو اس بیماری کے ساتھ کہ اس پر رونے کے دورے پڑتے ہیں اور جب یہ دورہ پڑتا ہے تو لگتا ہے روتے روتے اس کا دم گھٹ جائے گی، وہ مرجائے گا۔ نگار کو جنم دینے کے بعد نادرہ بھی صحت مند نہیں رہتی۔ اس کی بیماری کے دوران عبدالرحمن کاردار جب ملنے آتے ہیں تو وہ اپنے دل کا حال سنا ڈالتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ زخم محبت اور درد جدائی سے ابھی بھی اس کا سینہ چھلنی بنا ہوا ہے۔ اور بالآخر نادرہ اپنے پس ماندگان میں نورمحمد کے علاوہ سات سال کی نگار کو چھوڑ کر مرجاتی ہے۔ نگار جسے بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ رونے کے علاوہ حوائج ضروریہ، یہاں تک کہ اپنے کپڑے لتے اور اپنے جسم تک کا کوئی خیال نہیں رہتا۔ آیا کے طور پر بانو کچھ دنوں تک خدمات انجام دیتی ہے لیکن وہ بھی بالآخر اوب جاتی ہے اور نتیجے کے طور پر اس کی نگہداشت کی تمام تر ذمہ داریاں نورمحمد کو بحیثیت باپ نہیں، بطور ماں قبول کرنی پڑتی ہیں۔ وہ نادرہ سے اس کا وعدہ کرچکا ہے اور ہنوز پابند عہد ہے۔ کیونکہ نگار اس کی محبت، نادرہ کی تنہا نشانی ہے۔
اس قصے کا المیہ یہ بھی ہے کہ نورمحمد کی چاہت نادرہ اور نادرہ کی چاہت عبدالرحمن کاردار ہیں۔ پس منظر سے ابھرنے والے واقعے کی المناکی یہ ہے کہ نورمحمد کی والدہ اور نادرہ کی والدہ بھی بے وقت موت کی آغوش میں پناہ لے لیتی ہیں۔ ماں کے کھوجانے کا غم نورمحمد اور نادرہ دونوں کو ہے۔ یہ وہ غم مشترک ہے جو دونوں کو ایک دوسرے سے قریب کردیتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے ہمدرد وغم گسار بن جاتے ہیں۔ نادرہ کے اس رویے سے عبدالرحمن کاردار اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ نادرہ نورکو چاہتی ہے۔ چنانچہ اپنی چاہتوں کو قربان کرکے اس کوشش میں مصرف ہوجاتے ہیں کہ نادرہ نور سے بیاہ دی جائے۔ سفیان ماموں نادرہ کی موت کے بعد خود اس کوشش میں ہیں کہ اپنی دوسری شادی کرلیں لیکن اس کے پہلے وہ نادرہ کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجانا چاہتے ہیں۔ نادرہ اپنے باپ کے اس رویے سے بددلی کا شکار ہوجاتی ہے۔ نادرہ کو عبدالرحمن کاردار کی سرد مہری بھی کھلتی ہے۔ لیکن روایتی اخلاقیات کے تقاضے کے تخت اس کی زبان پر مہر ہی لگی رہتی ہے حالانکہ جب وہ بسترعلالت بلکہ بستر موت پر ہوتی ہے اور عبدالرحمن کاردار اس سے ملنے جاتے ہیں تو اس کی زبان پر حرف شکایت ہی نہیں آتے بلکہ زبان ہی برہنہ گفتار ہوجاتی ہے۔ ہجر کا غم دونوں کو ستاتا ہے۔ لیکن نادرہ اس غم سے نڈھال ہوکر بالآخر دم توڑدیتی ہے۔ نورمحمد نادرہ کے غم کو نادرہ کی نشانی نگار کے معذور وجود اور اس کی شب وروز کی خدمت سے ہلکا کرنا چاہتا ہے۔ لیکن نصیب کی بات کہ یہ غم شب وروز بھاری ہی ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔ لیکن زندگی بہرحال زندگی ہے جو زہر بھی بن جائے تو پینا ہی پڑتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ زندگی نورمحمد کی ہے۔ یہ جینا نورمحمد کا ہے۔ زندگی کا زہربھی اسی کو پینا پڑتا ہے۔ لیکن اس ناول کی یاس انگیز فضا اور گھٹن بھرے ماحول میں کبھی آہستہ کبھی تیز تیز سانس لیتاہوا کردار نورمحمد زندگی کے زہر کو گھونٹ گھونٹ اور گھٹ گھٹ کر پیتے پیتے بالآخر بے تکلفی کے ساتھ پینے لگتا ہے، گویا زندگی کی ولولہ انگیزیاں لوٹ آتی ہیں۔ عبدالرحمن کاردار شدت کے ساتھ اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ نورمحمد کا روپ بہروپ میں ڈھل چکاہوتا ہے۔ لیکن یہ ہوتا تب ہے جب نورمحمد نگار کے ساتھ شہر سے ہجرت کرتا ہے اور ایک گائوں میں جاکر بس جاتا ہے ایک پرانی تہذیب نیا قالب اختیار کرتی ہے۔ بطور ناول نگار یا فنکار مشرف عالم ذوقی کے فکری وفنی زاویے سے قطع نظر ایک قاری کے ذہن میں یہ سوال ضرور ابھرتا ہے کہ کیا ناول نگار شہر کی آلودگی پر گائوں کی آب وہوا کو ترجیح دینا چاہتا ہے۔ کیا گائوں کی آب وہوا آج بھی ایسی راحت بخش اور جانفزا ہے؟
میںتو قدرے ضخیم اس ناول کے مطالعے کے دوران اکثر یہ محسوس کرتارہا ہوں کہ ناول کے توضیحی بیانیہ کے مقابلے میں یہاں ہمارا واسطہ افسانویت سے پڑتا ہے۔ اور افسانوی خصوصیات میں تجسس اور تحیر کے عناصر وعوامل کے علاوہ کسی کڑی کا کسی خوبصورت موڑ پر گم ہوجانا بھی شامل ہے۔ اور گم شدہ کڑیوں کی تلاش جس متجسسانہ تشنگی میں مبتلا کرتی ہے، اس کا تعلق یقینا فن کاری کے محاسن سے ہے۔
نادرہ، نگار کو سات سال کی عمر میں چھوڑ کر مرجاتی ہے نورمحمد دس سال تک شہر ہی میں نگار کو جھیلتا ہے۔ اس دوران نورمحمد کی نفسیاتی الجھنیں، طرز عمل، اور اسلوب بیان پر مشرف عالم ذوقی نے جو بحیثیت ناول نگار توجہ صرف کی ہے۔ فنی شعور کی پختگی اور فنکاری کا جومظاہرہ کیا ہے۔ ناقدری ہوگی اگر اسے نظرانداز کردیا جائے۔
عبدالرحمن کاردار بحیثیت راوی ایک موقع پر نورمحمد کے بیان اور اپنے مشورے کو دہراتے ہیں:
’’نور محمد بتا رہا تھا— ’مجھے رات اور رات کے احساس سے ڈر لگتا ہے بھیّا— جب وہ جسم کے کپڑے پھینک کر بیہوشی کے عالم میں اپنا جسم میرے جسم پر ڈال دیتی ہے… میں اسے مشکل سے الگ کرتا ہوں۔ بالکنی میں آجاتا ہوں۔ ساری رات ٹہلتا رہتا ہوں… آپ بتا سکتے ہیں بھیّا… یہ کیا ہے۔ یہ کیسا امتحان ہے؟ اور یہ امتحان مجھ سے ہی کیوں لیا جا رہا ہے…‘
’اب یہ سب سوچنا بند کرو نور محمد۔ جتنا سوچو گے، اتنا ہی ذہن پریشان ہوگا— بس یہ سوچوکہ اللہ نے ایک معذوربچی کی ذمہ داری تمہارے سپرد کی ہے اور تم یہ ذمہ داری نبھا رہے ہو…؟
اس نے سر جھکالیا—‘‘
نادرہ کا جب انتقال ہواتھا، نگار سات سال کی تھی۔ اور ذہنی طور پر معذور تھی۔ اس پیچیدہ صورت حال اورعمومی معاشرتی اخلاقیات کا تقاضہ تو یہ تھا کہ نورمحمد شادی کرلیتا۔ اپنے لیے نہیں تو کم از کم نگارہی کے لیے۔ یہی مشورہ خود ایک ہمدرد اور غمگسار ہونے کی حیثیت سے عبدالرحمن کاردار کا بھی تھا۔ لیکن نادرہ کی محبت میں پاگل پن کی حد تک گرفتار نورمحمد کسی بھی صورت میں شادی کی بات سننا تک گوارہ نہیں کرتاتھا۔ غالبا اسے اندیشہ تھا کہ اس کے شادی کرلینے سے نگار کو تکلیف ہوگی۔
یہ وہ واقعی صورت حال ہے جو دوسرے معاشرتی افراد کو بھی مختلف قسم کے اندیشے میں مبتلا کرسکتی ہے۔ اسی صورت حال سے گزرتے ہوئے خود عبدالرحمن کاردار بھی کئی سوالوں میں الجھتے ہیں:۔
’’لیکن ایک سوال جو بار بار مجھے پریشان کر رہا تھا کہ کیا اسے کبھی کسی بھی طرح کی جنسی طلب پریشان نہیںکرتی؟
اور اس سے بھی بڑاایک سوال تھا۔ کیا اس عمر میں جنسی خواہش کا خیال بھی لانا کوئی گناہ ہے؟
کیا کوئی جوان آدمی اپنی جنسی خواہشات کا قتل کر کے زندگی گزار سکتا ہے؟
نادرہ کا جب انتقال ہوا تب اس کی عمر ہی کیا تھی… نگار صرف سات سال کی تھی— اور اس عمر میں تو جنسی طلب اپنے شباب پر ہوتی ہے— مجھے نور محمد سے ہمدردی تھی— اپنی جنسی طلب کو سلا کر بیٹی کے لیے پوری زندگی وقف کر دینا کوئی کھیل نہیں۔ لیکن نور محمد نے یہ کر دکھایا تھا—‘‘
مشرف عالم ذوقی کے فنی شعور کی پختگی اورفنکاری کامظاہرہ غیر روایتی انداز واسلوب میں ہوا ہے۔ انہوں نے تہذیب واخلاق کو نئے معنوی تناظر میں دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کی ہے تو جنسیات کو مرکزیت عطا کردی ہے اور اسے عصرحاضر کے آفاق گیر مسئلے کے طور پر پیش کیا ہے۔ لیکن جنسی مسائل کو وہ، خواہ وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی، تسلسل کے ساتھ بیان نہیں کرتے۔ اس سلسلے میں اکثر تخلیقی رکاوٹ (Creative interruption) پیدا کردیتے ہیں۔ اس رکاوٹ کے دوران دوسرے سنجیدہ اور پیچیدہ مسائل قاری کے پیش نظر ہوتے ہیں جن کا بیشتر تعلق ناعاقبت اندیش سیاست اورگھنائونی صارفیت سے ہوتا ہے ان کے پیدا کردہ محرکات وعوامل سے ہوتا ہے۔ یہاں غور طلب امریہ بھی ہے کہ عبدالرحمن کاردار یا پررفیسر نیلے اپنے وجود سے کوہ وبیابان میں زندگی کی رمق گھولنے پر کیوں مجبور ہیں جب کہ بہ اعتبار عمر ان کی زندگیاں موت کی سرحدوں کو چھورہی ہیں۔ دراصل ان کی اولاد اور اولاد کی اولاد بھی قابل لحاظ فاصلے پر اپنی اپنی زندگی اور اس سے گونا گون مسائل میں الجھی ہوئی ہے۔ اس اولڈ ایج میں ان کی حویلیوں میں ان کا پرسان حال کوئی نہیں۔ اور ان کا تہذیبی تعلق اس اقداری نظام سے بھی نہیں جس میں اس عمر کے لوگ اللہ اللہ اور رام نام کے جاپ میں باقی ماندہ عمر تمام کردیا کرتے تھے۔
یہ ایک تاریخ سچائی ہے کہ تہذیبیں رنگ بدلتی رہتی ہیں اور ان ہی رنگوں سے ارتقا کا رنگ پھوٹتا ہے۔ ان رنگوں کے چھینٹے کاردار پر بھی پڑے ہیں اور پروفیسر نیلے پر بھی۔ انہیں ان رنگوں کا احساس ہے لیکن وہ اس سے وحشت زدہ نہیں جیسا کہ عبدالرحمن کاردار کے درج ذیل بیان سے واضح ہے:۔
’’ایک بار پھر پہاڑ روشن تھے— یا پہاڑ جاگ گئے تھے— آج ہم Family Incest کے موضوع پر گفتگو کر رہے تھے— مرغزاروں کی ہری بھری گھاس نے دھند کا لباس پہن رکھا تھا— پروفیسر نیلے کے پاؤں میں کچھ تکلیف تھی۔ اس لیے آج وہ لاٹھی کے سہارے ٹہل رہے تھے— میں نے اُنہیں باہر نکلنے سے منع بھی کیا— لیکن انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا— اس عمر میں آرام کرنے سے ہڈیاں کمزور ہوجاتی ہیں۔ ہم دیر تک جنسی اشتعال انگیزی اور شہوت انگیزی کے موضوع پر گفتگو کرتے رہے۔ بہر حال وہ ان باتوں سے ذرا بھی فکر مند نہیں تھے—‘‘
یہاں پر سوال پیداہوتا ہے کہ یہ بوڑھے اس عمر میں کس قسم کی گفتگو کرنا پسند کرتے ہیں؟ پھر یہ بھی کہ پروفیسر نیلے پر اس قسم کی گفتگو کا رد عمل کیا ہوتا ہے؟ واقعاتی تسلسل میں نہ جانے ایسے کتنے ہی مقامات آتے ہیں جہاں قاری کے ذہن میں اس طرح کے سوالات ابھرتے رہتے ہیں۔ قاری متجسسانہ تشنگی کے مرحلے سے گزرتا رہتا ہے اور اکثر اس کی آنکھیں تحیرات کے عالم سے دو چار ہوتی ہیں۔ معرض التوا میں پڑے ہوئے واقعات وواردات تازہ دم ہوکر گرد سفر جھاڑتے ہوئے پیش نگاہ ہوتے ہیں۔ یہ مسافران واقعات وواردات کبھی سست رو اور کبھی تیز رفتار ہوتے ہیں۔لیکن جب حلقہ نظر میں آتے ہیں تو ناظر کو ادھر سے ادھر نہیں ہونے دیتے۔ جذب وکشش کا یہ عالم فنی سلیقہ شعاری اور ہنرمندی سے ہی پیدا ہوتا ہے۔
نورمحمد اور نگار کے سلسلے کا واقعہ جس کی کڑی ٹوٹ گئی تھی، آگے بڑھ کر اگلی کڑی سے مل جاتا ہے۔ اور ایک درمیانی کڑی بھی اپنی اگلی پچھلی کڑیوں سے مل جاتی ہے۔ اس درمیانی کڑی کا تعلق انوار سے ہے جو نور محمد کا رشتہ دار ہے۔ لیکن بے روزگار ہے۔ نورمحمد اس کا ہمدرد، معاون اورمددگار بن جاتا ہے۔ اور اپنے اسی گھر میں اوپر والے کمرے میں اس کے رہنے سہنے کا انتظام کرتا ہے اور تاکید کردیتا ہے کہ وہ ہر گز نیچے کا کبھی رخ نہ کرے۔ لیکن جس اندیشہ کے تحت یہ تاکید کی جاتی ہے۔ ہونی کے طور پر وہی حادثہ پیش آتا ہے۔ اس سلسلے میں نورمحمد نے عبدالرحمن کاردار کو جو کچھ بتایا ہے۔ کاردار باردگر اسے بیان کررہے ہیں:۔
’’وہ خلا میں دیکھ رہا تھا… اس کی آنکھیں گہری فکر میں ڈوب گئی تھیں۔ ’اس دن… جیسا میں نے آپ کو بتایا… انوار کے بارے میں… ‘
وہ کہتے کہتے رک گیا تھا— ’اور جب دوسرے دن شام چھ بجے… میں نے تالہ کھولا اور میری بیٹی اپنے کمرے کے باہر برہنہ پڑی تھی— اور یقینا یہ میرا شک نہیں تھا کہ اس نے کچھ تو بدسلوکی کی کوشش کی تھی— ممکن ہے وہ کسی بہانے نیچے آیا ہو— اور ممکن ہے اس نے میری بیٹی کو دیکھا ہو— اور ممکن ہے اس وقت بھی اسے کپڑوں کا کوئی ہوش نہ ہو— جیسا کہ عام طور پر وہ اپنے لباس سے بے ہوش ہی رہتی ہے…‘‘
قیاسات اورخدشات پر مبنی یہ بیان قدرے طویل ہوجاتا ہے جہاں دست درازی کے شبہے پر یقین کا رنگ چڑھتا چلاجاتا ہے لیکن ایک نیم برہنہ حقیقت کے بیان میں باپ کی زبان برہنہ گفتار نہیں ہوتی:
’ ’میری غلطی یہ تھی کہ میں نے ایک نوجوان، ایک گرم خون پر بھروسہ کیا تھا، جو مجھے نہیں کرنا چاہئے تھا۔ خاص کر ایسے وقت میں جب پوری کوٹھی میں سوائے میری بیٹی کے کوئی نہیں تھا، مجھے اس پر بھروسہ کرنے کا حق ہی نہیں تھا۔ مگر— میں نے بھروسہ کیا اور ممکن ہے اس نے دست درازی کی کوشش کی ہو— دست درازی…‘‘
مشرف عالم ذوقی کا یہ فنکارانہ اسلوب اس لیے بھی قابل لحاظ ہے کہ ایک باپ اپنی ایک معذور بیٹی اور اپنے ایک رشتہ دار نووارد انوار کے تعلق سے شبہات کا شکار ہے جس میں یقین کا رنگ گھلاملا ہوا ہے لیکن ایک باپ کی مجبوری ہے کہ وہ یقین کے رنگ کو شبہات کے پردے میں ہی ڈھکا چھپارہنے دینا چاہتا ہے۔ لیکن وہ اپنے ایک مخلص، ہمدرد اور غمگسار کے آگے اپنے تجربات، اپنے مشاہدات اور اپنے قیاسات کو بے کم وکاست اشارے کنائے میں بیان کردینا چاہتا ہو۔ نورمحمد ایک لمحے کے لیے رک کر پھر قیاسات پر مبنی اپنے بیان کے سلسلے کو آگے بڑھاتا ہے:
’’اور اپنے سامنے ایک انجان آدمی کو پاکر اس پر پھر سے دورہ پڑ گیا ہو— یا ممکن ہے اسکے باوجود… آپ سمجھ رہے ہیں نا بھیّا— ایک باپ کی لاچاری اور مجبوری کو سمجھئے… میں شاید اس سے زیادہ واضح الفاظ میں آپ کو نہ سمجھا پاؤں— مگر کچھ ہوا تھا— شاید اس کی چیخ سننے کے بعد بھی ممکن ہے… اس نے بیٹی کے ہاتھوں کو چھوا ہو— یا پھر… یہ بھی ممکن ہے کہ وہ بھاگ کھڑا ہوا ہو— لیکن اتنا طے ہے کہ…‘‘
عبدالرحمن کاردار کے بیان کے مطابق:
’’وہ(نورمحمد) ایک بار پھر خلا میں دیکھ رہا تھا— ’اس نے کچھ اور نہیں کیا ہوگا— اس لیے کہ اس کے ڈرنے، خوفزدہ ہونے کے امکانات زیادہ مضبوط ہیں… مگر اس رات… اس پوری رات… اور اس کے جانے کے بعد کی یہ تین راتیں— وہ رکا… یہ سب بتانا آسان نہیں ہے۔ اور اس کے لیے پتھر کا کلیجہ چاہئے—‘‘
عبدالرحمن نہ جانے کس نفسیات کے شکار ہیں کہ کرید کرید کر نور محمد سے سب کچھ اگلوا لینا چاہتے ہیں اور نورمحمد بالآخر اقرار کرلیتا ہے کہ نگار کے اندر سیکس جاگ گیاتھا۔ ۱۸ سال کی بچی میں جسے کوئی شعور نہیں تھا، اچانک انوار کی آمد یا موجودگی نے اس کے اندر سیکس کو جگا دیاتھا۔
روتی، بلکتی اور سسکیوں میں ڈوبی ہوئی نورمحمد کی آواز ابھرتی ہے اور واضح طور پر اس کے یہ الفاظ سنائی دیتے ہیں:۔
’’وقت اور حالات مجھ سے جو کہانی لکھوا رہے ہیں، میں اس کے لیے قطعی تیار نہیں تھا بھیّا— لیکن اب… مجھے بس نگار کی زندگی چاہئے— جب نادرہ کا انتقال ہوا تھا۔ آپ کو یاد ہے، میں نے آپ سے کیا کہا تھا… وہ جو بھی کہے گی کروں گا… اس کی ہر بات مانوں گا— مگر اسے مرنے نہیں دوں گا… یادہے؟‘
’ہاں…‘
اس رات پہلی بار…
نور محمد نے نگاہیں پھیرلی تھیں— ’رات کے تین بجے کا وقت ہوگا— وہ دوا کھا کر سو گئی تھی— مجھے بھی نیند آگئی تھی— اچانک تین بجے کے آس پاس میری نیندکھل گئی… مجھے جسم میں چیونٹیاں سی رینگتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں… اچانک مجھے احساس ہوا… میں نیچے کچھ بھی نہیں پہنے ہوں… کسی نے پائجامے کا ازاربند کھول لیا ہے…میرا پائجامہ اتر چکا ہے… اور اچانک میں نے دیکھا…
’کیا—؟‘ میں زور سے چلایا…’ کیا دیکھا نور محمد…‘
’یہ نگار تھی… جو میرے پاؤں کے پاس جھکی ہوئی تھی… اور میرے ننگے جسم کو غور سے دیکھ رہی تھی… اور فقط ان تین دنوں میں…‘
وہ مجھ سے کہیں زیادہ زور سے چیخا— ’اس کے اندر سیکس کے مطالبے جاگ گئے ہیں۔‘‘
اس دھماکہ خیز انکشاف سے عبدالرحمن کاردار کے اندر بھی کوئی دھماکہ ہوا تھا اور شدت جذبات سے مغلوب ہوکر چیختے ہوئے انہوں نے اپنے دونوں کان بند کرلیے تھے۔
مشرف عالم ذوقی نے اس سنسنی خیز سچوئیشن کو بھی فنکارانہ مہارت کے ساتھ پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ کاردار کا سارا جسم پسینے سے تربتر تھا اور سارہ انہیں جگارہی تھی گویا انہوں نے کوئی بھیانک سا خواب دیکھا تھا۔ سارہ نے بھی یہی سمجھا تھا لیکن اس نے اپنے دادا کو مشکوک نظروں سے دیکھا تھا۔ اسے محسوس ہوا تھا جیسے اس سے کوئی بات چھپائی جارہی ہے۔ اس نے اپنے اس خیال کا اظہار بھی براہ راست کردیا تھا۔ لیکن سارا ہی کیا، اس ناول کا کوئی بھی قاری عبدالرحمن کا ردار کے اس جملے پر کہ:
’’سارا بیٹی… زندگی کبھی کبھی ڈرائونے خواب سے بھی زیادہ ڈرائونی لگتی ہے۔‘‘
ٹھٹھک کر رک جائے گا اور زندگی کے اسرار ورموز پر غور وفکر کرنے لگے گا۔ اس طور سمجھنا مشکل نہیں کہ مشرف کے سادہ بیانیہ میں بھی پرکاری کے ایسے ایسے عناصر وعوامل کی کثرت ہوتی ہے جن سے زندگی تمام تر سادگی کے باوجود پیچیدگی اختیار کرلیتی ہے۔ اپنی طرحداری کے باوجود اس قدم مبہم اور تہدار ہوجاتی ہے کہ فلسفیانہ موشگافیوں کا جواز پیدا کردیتی ہے۔
واقعات وواردات کی نوعیت اورکیفیات سے جو متنوع صورتیں پیدا ہوتی ہیں وہ بیان کے اسلوب کو بھی زیر وزبر کرتی رہتی ہیں۔ کہیں تاریخی صداقت اورکہیں صحافیانہ واقعیت اسلوب میں شفافیت اور قطعیت بھی پیدا کردیتی ہے۔ اور جہاں تک مضامین وموضوعات یا واقعات وواردات کا تعلق ہے تو وہ سیاسی ہوں یا اخلاقی، تہذیبی ہوں یا مذہبی، جنسی ہوں یا نفسیاتی، ملکی ہوں یا غیر ملکی، انفرادی ہوں یا اجتماعی ان کی سنسنی خیزی نمایاں وصف کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔
تہذیب، ترقی اور عصری صورت حال کے تناظر میں بچوں کی تربیت سے متعلق اپنے خیالات کا اظہا ر کرتے ہوئے واشگاف اورقطعی انداز واسلوب میں پروفیسر نیلے اپنا اعتراض درج کراتے ہیں:
’’مہذب دنیا میں ایسی کسی بھی تقسیم پر میں اعتراض درج کرتا ہوں جہاں بہانہ کوئی بھی ہو، مگر عورتوں کو مردوں سے کم تر سمجھا جاتا ہو۔‘‘
عبدالرحمن کاردار اسی تسلسل میں اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’وہ میری طرف مڑے… ’ہاں ، تم اس دنیا کے بارے میں جاننا چاہتے تھے، جہاں باپ اور بیٹی…؟ اور جیسا کہ تم نے بتایا…؟ تم ابھی بھی کانپ رہے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری آج کی دنیا میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ آسٹریلیا کے شہر Amstetten میں ایک شخص نے اپنی سگی بیٹی الزابتھ کے ساتھ 22 سال تک جنسی تعلقات بنائے … خود ہندستان میں اس قسم کے کتنے واقعات ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں اور یہ مت بھولو کہ تمہاری اس کہانی میں ابھی صرف اس مانگ نے جنم لیاہے— اور ایک باپ ڈر گیا ہے— ایک معذور بیٹی، جس نے 18سال تک ہوش و حواس سے الگ کی دنیا میں پناہ لی، اب اس کے اندر ایک مانگ پیدا ہو رہی ہے— مگر بھیانک…‘‘
اس موقع پر پروفیسر نیلے مسکراتے بھی ہیں لیکن ان کی مسکراہٹ معنی خیز ہوتی ہے۔ بین السطورمیں محسوس کیا جاسکتا ہے نگار کی مانگ، بھیانک مانگ یا طلب کے سلسلے میں عبدالرحمن کار دار نے نورمحمد کا بیان جس انداز میں دہرایاہے، اسے پروفیسر نیلے جس زاویہ نظر سے دیکھ رہے ہیں وہی حقیقت ہو اور نورمحمد نے جو کچھ سنایا ہے اس کی حقیقت افسانے سے زیادہ نہ ہو، کیوں کہ پروفیسر نیلے واضح لفظوں میں کہتے ہیں کہ— ’’ابھی اس کہانی سے باہر نکلو۔‘‘ یہی نہیں، وہ عبدالرحمن کاردار کو کچھ دکھانا چاہتے ہیں۔ کچھ بتانا چاہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ کسی ایسی دنیا کا انکشاف کرنا چاہتے ہیں جس کا ہماری تہذیب نے کبھی تصور تک نہیں کیا ہوگا۔ پہلے ہزارے کی پہلی دہائی کے مکمل ہونے تک ایسی دنیا پیدا ہوچکی ہے جسے شاید بچوں اور بچوں کے بچوں نے تو دیکھی ہو لیکن کاردار اور ان کی عمر کے لوگوں نے نہیںدیکھی۔ اگروہ اس دنیا کو دیکھیں تو صرف لرز سکتے ہیں مگر زمانے کے اس بھیانک سچ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چل سکتے۔ پروفیسر نیلے کہتے بھی ہیں:
’’ ممکن ہے، ہمارے تمہارے بچوں نے اس سچ کو ہزار بار دیکھا ہو— پھر بھی ان کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی ہو۔ کسی بھی طرح کوئی لہر، کوئی بغاوت پیدا نہیں ہوئی ہو۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی سنسکرتی، تہذیب اور اخلاق کو ہونٹوں پر نہ لائے ہوں، اور دیکھ کر بھی اس واقعہ سے ایسے گزر گئے ہوں، جیسے جنک فوڈ کھا رہے ہوں— برگر، پیپسی،یا پزا…‘‘
پروفیسر نیلے صرف اپنے بیان پر اکتفا نہیں کرتے۔ وہ اسکرین پرکاردار کو جوکچھ دکھاتے ہیں وہ واقعی حیرت انگیز انکشاف کی حیثیت رکھتا ہے لیکن INTERNET سے منسلک پروفیسر نیلے جیسے لوگوں کے لیے حیرت کی کوئی بات نہیں۔ یہاں Google ہے… Facebook ہے۔ Picasa, Smugmug, Webshots, vimeu, Yautube, Zoom اور Padora ہے ۔ Google کے اسکرین پر Family incest لکھ کر پروفیسر نیلے ہزاروں خانے روشن کرتے ہیں اور اس روشنی میں جو کچھ نظرآتا ہے، وہ آج کی مہذب، ترقی یافتہ اورروشن خیال دنیا کا کڑوا سچ ہے:
’’باپ بیٹی میں سیکس— ماں بیٹے میں سیکس— خاندان کے ساتھ گروپ سیکس… بھائی بہن میں سیکس… سوتیلی بہن کے ساتھ… ماں اور بیٹی کے ساتھ باپ کا دونوں کو Seduce کرنا…
پروفیسر نیلے کے ہاتھ سانپ بن گئے تھے—‘‘
مشرف عالم ذوقی نے یہ کہانیاں گھڑی نہیں ہیں۔ بلکہ اپنی فنکارانہ ہنرمندی سے کٹنگ (Cutting) پیسٹنگ اور ڈبنگ کاکام کیا ہے۔ تہذیب، ترقی اور روشن خیالی کے دعوے کو آئینہ دکھایا ہے۔ مواد صحافتی،مسالہ اخباری ہے لیکن اسے ادب کے قالب میں ڈھالنا فنکاری ہے اور یہاں مشرف عالم ذوقی کی یہی کارگزاری نظرآتی ہے اس صورت حال کی سنسنی خیزی شدید سے شدید تر ہوجاتی ہے جب پروفیسر نیلے عبدالرحمن کاردار کو احساس دلاتے ہیں کہ معاملہ سیکس سے رشتوں تک آگیا ہے۔ یہاں ہزاروں فلمیں ہیں جہاں رشتوں کے مقدس دھاگے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرگئے ہیں۔ پروفیسر نیلے کہتے ہیں:
’’اب یہ دیکھو— یہاں میں لکھتاہوں India, incest family یا پاکستان کا نام لکھو— اور یہ دیکھو— وہ دکھا رہے ہیں… یہاں کوئی یوروپین نہیں ہے۔ امریکہ ، برطانیہ یا آسٹریلیا کے جوڑے نہیں ہیں۔ تمہارے لوگ ہیں کاردار— پاکستان کے، ہندستان کے۔ اپنے سگے جو جنسی اشتعال انگیزی میں گم ہیں۔ تم کہہ سکتے ہو، ممکن ہے، یہ سگے نہ ہوں۔ محض فلمیں بنا دی گئی ہوں۔ لیکن یہاں سگے رشتوں کا نام کیوں درج ہے کاردار؟ کیونکہ بازار سے مارے، گلوبلائزیشن سے بور ہوجانے والے اب دوسروں کے سیکس کا ڈرامہ دیکھ کر بور ہوچکے ہیں اور نتیجہ… وہ سیکس کو آپسی رشتوںمیں تلاش کر رہے ہیں۔‘‘
اس صورت حال میں باپ بیٹی، نورمحمد اورنگار کے جنسی تعلقات کی سنسنی خیزی اپنی شدت تاثیر اگر کھو نہیں دیتی تو کم سے کم ضرور ہوجاتی ہے۔ اس کے باوجودنورمحمد کے اس انکشاف سے کہ اس نے نگار کی مانگ مان لی ہے، اس کی طلب پوری کردی ہے، یہاں تک کہ اب وہ حاملہ ہے— عبدالرحمن کاردار چیخ پڑتے ہیں۔ لیکن وہ یہ قیاس کرنے سے باز نہیں رہتے کہ نورمحمد اس کا ابارشن کرادے گا۔ البتہ وہ نورمحمد کو اس کا مشورہ نہیں دیتے۔ جب کہ وہ نورمحمد کے ہمدر وغمگسار اور رازدار واصلاح کار بھی ہیں۔ وہ نورمحمد کو یہ مشورہ ضرور دیتے ہیں کہ وہ شہر کی اپنی کوٹھی فروخت کردے اور کہیں دور جابسے جہاں اجنبیت ہی اجنبیت ہو، کوئی شناسانہ ہو۔ اور نورمحمد یہی کرتا ہے۔ وہ ولاس پور نام کے ایک گائوں میں جابستا ہے۔ ترک وطن کے بعد اس کی صورت وسیرت اور ہیت کزائی میں بھی نمایاں بتدیلی آتی ہے۔ وہ گائوں میں ملا جی کی حیثیت سے اپنی شناخت بنالیتا ہے۔ نگار کے بارے میں گائوں والوں میں یہ تاثر قائم ہوجاتا ہے کہ ملا جی نے کسی بیمار غریب لڑکی کو آسرا دے رکھا ہے۔ بہرحال گائوں کے ماحول سے نورمحمد مطابقت پیدا کرلیتا ہے اور ملاجی کے نام سے مشہور ہوجاتا ہے— اسی اثنا میں مذہب کے دروازے اس پر کھل جاتے ہیں۔ ایسے ہی حالات میں خود نورمحمد کے بیان کے مطابق:
’’ اکثر رات گئے نگار کی طلب بڑھ جاتی۔ میں غصے میں دھکّا دیتا تو وہ پاگلوں کی طرح مجھ پر جھپٹ پڑتی۔ میں روتا— ہاتھ جوڑتا— تو وہ جنون کی حالت میں کپڑے پھینک کر مجھے وہ سب کرنے پر مجبور کرتی، جسے احساس گناہ اور احساسِ جرم کے ساتھ میں نے صرف اس کی زندگی کے لیے قبول کر لیا تھا—‘‘
نورمحمد اس بیان کے دوران اپنی مجبوری اور کسمپرسی پر روتا بھی ہے۔ اور اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے:
’’ ہر رشتے کی اپنی اہمیت— مگر یہاں۔ رات گئے جیسے سانپ کے پھنکارنے کی آواز ہوتی تھی اور نگار کی خطرناک طلب— اور ایسے میں— شاید اس لمحے میرے لیے یہ بھول جانا ہوتا تھا کہ یہ جسم نگار کا ہے— میں آنکھیں بند کرلیتا۔ اور نادرہ کو محسوس کرتا— اور نادرہ کے احساس کے ساتھ ہی میرے جسم میں انگارے جمع ہو جانا شروع ہوجاتے— اور یقینا سرد ہوتے ہوئے، سانپ سے خرگوش بنتے ہی وہی احساسِ گناہ مجھ پر حاوی ہو جاتا—‘‘
عبدالرحمن کاردار کے اس سفر اورنورمحمد کے تفصیلی ملاقات اور گفتگو کے دوران ذہن کا نگار کی طرف منتقل ہونا فطری ہے— عبدالرحمن کاردار کے ذہن میں بار بار یہ بات آتی ہے لیکن نورمحمد کی ظاہری حالت اور ذہنی کیفیت کے علاوہ اس کی گفتگو کی رو میں نگار کا خیال محو بھی ہوجاتا ہے۔ اس کے ساتھ جینی کے سلسلے میں ذہن متجسس ہوتا رہتا ہے۔ سارہ کی عمر کی یہ لڑکی کون ہے؟ گائوں کے الہڑ حسن کا پیکر… یہاں تجسس متجسسانہ تشنگی میں تبدیل ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن بالآخر یہ تشنگی بھی دور ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ منظر نامے پر ابھرنے والا کردار چندومیاں اور کاردار کے ذہن پر چھائے ہوئے اسرار بھی کھل جاتے ہیں۔ اس لفافے کا رمز بھی آشکار ہوجاتا ہے جو پہاڑی سلسلے پر کاردار کے نام سارہ کو موصول ہواتھا۔ اس نے ددو کو جب یہ لفافہ دیا تھا تو ایک بے نیازی کی سی کیفیت محسوس کی تھی۔ بند لفافے کو کھولا نہیں گیا تو اسے حیرت بھی تھی۔ سارہ نے محسوس کیا تھا کہ لفافہ موصول ہونے کے بعد اس کے ددو کی آنکھوں میں تفکر اور تردد کے آثار نمایاں ہوگئے تھے۔
نورمحمد سے عبدالرحمن کاردار کی اس ملاقات میں اس لفافے کا راز بھی منکشف ہوجاتا ہے جسے دیکھتے ہی غالباً کاردار نے مضمون کو سمجھ لیا تھا اور بالآخر دیر یا سویر نورمحمد سے ملنے کے لیے ولاس پور کے سفر پر نکل پڑے تھے۔ بہرحال اس موقع پر عبدالرحمن کاردار نورمحمد کے ہر حرف، ہرلفظ، ہر جملے اور ہرعبارت پر اپنی خصوصی توجہ مرکوز رکھنے کے علاوہ نورمحمد اور جینی کے ہر طرز عمل، گفتار اور سست ورفتار پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ اس موقع پر عبدالرحمن کاردار نے پہلے پہل چندومیاں کو بھی دیکھاتھا— چنانچہ وہ چندومیاں کے وجودسے بھی صرف نظر نہیں کرتے۔ وہ اس ملاقات کے دوران تمام تر حالات سے باخبر ہوجانا چاہتے ہیں۔ نورمحمد بھی حسب سابق تمام ناگفتہ اور سابقہ و موجودہ واقعات وحوادثات اور صورتحال سے انہیں آگاہ کردینا چاہتا ہے کیوں کہ وہ اپنی علالت کی وجہ سے اپنی زندگی سے مایوس اور جینی کے مستقبل کے سلسلے میں فکر مند ہے۔ وہ عبدالرحمن کاردار سے اپنے خدشات کو بیان کرتا ہے۔ کاردار اسے دہراتے ہیں:
’’چندو میاں، جینی کو بیٹی کی طرح مانتے ہیں۔ مگر ہیں تو پرائے— یہاں کوئی اپنا نہیں— اور میں… قبر میں پاؤںپھیلائے… اس نے مجھے اشارے سے روک دیا تھا… میں جانتا ہوں میرے پاس بہت کم عمر بچی ہے۔ مرنے کا غم نہیں ہے مجھے مگر جینی کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ جینی کا کیا ہوگا میرے بعد…؟‘
اس نے پلٹ کر میری طرف دیکھا— ’گاؤں کی ہوا راس آگئی ہے— لیکن ہے تو اکیلی— میں اس بے رحم زندگی کی جنگ میں اسے اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا—‘ اُس نے اچانک جھک کر میرے ہاتھوں کو تھام لیا تھا—
’بھیّا— بسی اسی لیے آپ کو خط لکھا— کون ہے آپ کے سوا میرا— اور میں …؟کس امید پربلند شہر کے رشتہ داروں سے ملنے جاتا— انہیں کیا بتاتا— جینی کو بھی کچھ نہیں معلوم… آپ سمجھ رہے ہیں نا بھیّا—‘
میرے اندر نگاڑوں کی گونج شروع ہو گئی تھی…
ڈرم… ڈرم…
’تو جینی…؟‘ میری سانس ٹوٹ رہی تھیں— ’تمہاری بیٹی ہے…؟ نگار کی…؟ ‘
’ہاں… ‘ اُس پر کھانسی کا دورہ پڑا تھا— ’بے رحم حقیقت— لیکن اسے تسلیم کرنا ہی ہے بھائی— میری بیٹی— لیکن قدرت کا ظلم کہ اس کی ماں بھی میری بیٹی تھی…‘ وہ رو رہا تھا… قدرت کا انتقام… اور یہی تو جانناہے مجھے کہ اس انتقام کے لیے خدانے میرا انتخاب ہی کیوں کیا… کھوں… کھوں…‘ ‘
یہ اس ناول کے بنیادی قصے یامرکزی موضوع کا کلائمکس ہے جو دوسرے ذیلی مسائل اور واقعات وواردات کے مابین اپنی نمایاں شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہے۔ بے رحم حقیقتوں کے بے شمار الجھاوے ہیں جنہیں اپنی فنکاری یا فنکارانہ ہنرمندی سے مشرف نے زیب داستان کے طور پر بنیادی قصے میںپیوندکاری کی ہے، یا ان کی ہمکاری سے اصل قصے کو موثر بنادیا ہے۔ اس قدر موثر کہ ایسی بے رحم اور سفاک حقیقتوں سے آنکھیں چار کرنے کا حوصلہ پیدا ہوسکتاہے یہی خصوصیت حالات کے جبر یا قدرت کے ستم کے احساس سے پیدا ہونے والے یاس انگیز یا قنوطی سیلان کو ایک رجائی نقطہ نظر بھی عطا کردیتی ہے۔
یہاں اچانک میرا ذہن ایک نکتے کی طرف متوجہ ہوگیا ہے جو میرے خیال میں نہایت اہم ہے۔ اور وہ یہ کہ مشرف نے انتساب کے صفحے کو ڈاکٹر محمد حسن کے نام معنون کیاہے: ’’کہ اس صفحہ پر… بس ان کا… حق ہے…
اور میر تقی میر کا درج ذیل شعر نقل کیا ہے جس سے اس ناول کا سرنامہ ماخوذ ہے:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا
میرا قیاس ہے کہ فکری یا فنی ، کسی نہ کسی سطح پر ڈاکٹر محمد حسن کی شخصیت، یا ان کی کوئی فکری جہت مشرف کے اس ناول کی تخلیق میں اصل محرک بنی ہے۔ نہیں کہہ سکتا، میرا یہ قیاس کہاں تک درست ہے— لیکن یہ طے ہے کہ قیاس کی بھی کوئی نہ کوئی منطقی صورت ضرور ہوتی ہے۔ جواز کے طور پر میں ڈاکٹر محمد حسن کا ایک اقتباس نقل کررہا ہوں:
’’… فن نے زندگی کی حقیقتوں پر صدیوں تک رنگین نقاب ڈالے ہیں۔ لوہے کی زنجیروں میں نقلی کاغذی پھول گوندھے ہیں۔ خاص طور پر شاعر وادیب نے لٹریچر، انسان اور حقیقت کے درمیان دھندلی دیوار بنا کر کھڑی کردی ہے۔ میں اس طلسم کو توڑنا چاہتاہوں۔ انسان کا اصل روپ خدائی نہیں حیوانی ہے۔ اور اسے حیوان کے روپ میں زندگی کو دیکھنا اور گزارنا سیکھنا چاہئے۔ پوری کٹھورتا، تلخی اور بے باک سچائی کے ساتھ اور اگر وہ اس زہر ناکی کو برداشت نہیں کرسکتا تو میں اسے موت کے حوالے کرتا ہوں جو ناتوانوں کاآخری سہارا ہے۔ (زلفیں زنجیریں۔ ص ۱۳)
مشرف عالم ذوقی کے ناول ’’لے سانس بھی آہستہ‘ میں نورمحمد ایک ایسا ہی کردار ہے جو پوری کٹھورتا، تلخی اور بے باک سچائی کے ساتھ زندگی کی زہرناکی کو برداشت کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی بین مثال اس کی بیٹی نگار کے ساتھ اس کا جنسی تعلق (Sexual Relation) ہے جو تقریبا دو دہائی کی عمر گزار کر اور اپنے باپ کے نطفے سے ایک بیٹی جینی کو جنم دے کر اس جہان فانی سے کوچ کرجاتی ہے— نگار میں جس طرح سترہ سال کی عمر کے بعدجنسی بھوک پیدا ہوگئی تھی، اسی طرح جینی کو جنم دینے کے بعد اس کے معذور ذہن میں قدرے صحت کی رمق پیدا ہوتی ہے— کسی حدتک اس کے شعور کا ارتقا ہوتا ہے۔ وہ اپنی نومولود بچی جینی کو دودھ پلاتی دیکھی جاتی ہے۔ یہی نہیں اس دوران وہ نور محمد کو نفرت اور حقارت کی نظر سے بھی دیکھنے لگتی ہے، جس کا اظہار اس کی بعض حرکتوں سے ہوتا ہے اور نورمحمد اس کی اس کیفیت کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ پاتا۔
جینی اب سارہ کی عمر کی ہوچکی ہے— اس نے سترہ سال پورے کرلیے ہیں۔ اس کے حسن، جوانی اور الہڑ پن، نورمحمد کی عمر سے تقریبا پانچ سال کم لیکن مضبوط کاٹھی کے ملازم چندومیاں اورخود اپنی علالت اور گرتی ہوئی صحت کی وجہ سے نورمحمد جینی کے مستقبل سے ہراساں دکھائی دیتا ہے۔ لیکن کاردار جیسے مونس وغمگسارکی حوصلہ افزائی اورمختصر سے علاج سے وہ نہ صرف روبہ صحت نظر آنے لگتا ہے بلکہ مریٹھا (پگڑی) باندھ کر لہلہاتی ہوئی فصلوں کے درمیان خود بھی سر سبزوشاداب نظرآتا ہے۔ اب وہ کل جیسا بجو کا نہیں لگ رہا۔ ناول کے اختتامیہ حصے میں یہ بڑا ہی معنی خیز اور فنکارانہ لمس (Touch)کے طور پر نظرآتا ہے— چلتے چلتے کاردار کا یہ فقرہ یا مشرف کا مکالمہ کہ …’’ بڈھے… ابھی مجھ سے زیادہ زندہ رہوگے تم… ‘‘ اس معنی خیز تاثر کو اور بھی گہرا کردیتا ہے۔ یہاں تک کہ ناول کے اختتام پر مولانا رومی کا درج ذیل مصرع اس معنی خیز تاثر کو آفاقیت کے رنگ وآہنگ میں ڈھال دیتا ہے:
ہرنفس نومی شود دنیا وما
ہرآن ایک نئی دنیا تعمیر ہورہی ہے۔
Head P.G. Dptt of urdu,
A.N. College, Patna 300013