جیسے میں تو اس کا دوست ہوں مجھے کچھ نہیں کرے گا” سعد نے بھی غصے سے کہا۔
“یار میری تو ابھی تک شادی نہیں ہوئی” عرش نے کہا۔
“ہاں جیسے میں تو تین پچوں کا باپ ہوں”
“چل ایک کام کر اس کو نیچے لات سے پھینک ہم پھر دروازے سے باہر چلے جاتے ہیں”عرش نے کہا۔
“میں کیوں تو مار”سعد نے کہا۔
“چل دونوں مارتے ہیں”
“ٹھیک”
“آلتو جلالتو اس سانپ کو گٹر میں ڈال تو” یہ کہتے ہوئے سعد نے پیر اٹھایا۔
رانیہ نے آواز سن لی اور دروازے فوراً بند کیا انہوں نے دروازے بند ہوتے دیکھا لیکن رانیہ کا ہاتھ نہیں دیکھا۔
“یہ دروازہ کیسے بند ہوا ” سعد نے ڈر کے کہا۔
مجھے کیا پتہ میں خود تمھارے ساتھ ہوں” عرش نے کہا۔
“اس سانپ نے تو بند نہیں کیا”
“اوہ اوہ یہ کیسے بند کرسکتا ہے”
“کیا پتہ یہ انسان بنے والا سانپ ہو”
“یہ کیا ہوتا ہے”
“سانپ جو انسان بھی ہوتا ہے اور جانور بھی”
“یہ کس نے کہا”
“میں نے ڈراموں میں دیکھا ہے”
“ایسے ڈرامے دیکھو گے تو یہی ہوگا اور ویسے بھی وہ یہاں کیوں آئیگا”
“بدلہ لینے”
” کیوں تم نے کیا اس کی بہن کو چھیڑا ہے” عرش نے غصے سے کہا۔
“نہیں ہو سکتا ہے تم نے چھیڑا ہو”سعد نے جواب دیا
“جی نہیں لڑکیاں کم نہیں ہے جو میں سانپ کو چھیڑوں”
“میں نے تو آج تک ایک ہی لڑکی کو تنگ کیا ہے ہو سکتا ہے وہ اس کی بہن ہو” سعد نے کہا
“کون” عرش نے حیرانی سے کہا۔
“رانیہ”
“وہ سانپ کی بہن ہے کیا”
“ہو سکتا مجھے ویسے بھی وہ ناگن لگتی ہو”
“یہاں سانپ سے حالت بری ہے اور تم مزاق کر رہے ہو”
“نہیں سچ کہہ رہا ہوں کیا پتہ یہ سانپ رانیہ سے میلے میں بچھڑ گیا ہو اور اسے لینے آیا ہو ویسے بھی اسے یہاں سے بھیجو”
“چپ ہو جاؤ سعد تم اور مجھے کچھ سوچنے دو میں حیران ہوں یہ سانپ ہل بھی نہیں رہا”
“ہو سکتا ہے اسے ہماری باتیں اچھی لگ رہی ہوں اور اچھا ہے نا نہیں ہل رہا کیوں مروانے پہ تلے ہو”
رانیہ اس وقت اندر آئی۔
“رانیہ تم آگئی ہمیں اس سے بچاؤ” عرش نے کہا۔
“کس سے” رانیہ نے پوچھا۔
“اس سانپ سے” رانیہ سانپ کے قریب آئی۔
“ہاں جلدی اپنے رشتیدار سے بچاؤ” سعد نے کہا
“تمھارا ہوگا”
“ہم شکل تو تمھارا ہے”
“تم نے مجھے سانپ کہا” رانیہ نے غصے سے کہا۔
سعد نے بھی اس کے قریب آکر ہاں کہا۔
“کس اینگل سے میں تمہیں اس سانپ جیسی لگتی ہوں”
“تھری سکسٹی(360) کے کمپلیٹ اینگل سے” سعد اور قریب ہوگیا لیکن اسے احساس ہوا کہ وہ سانپ کہ بالکل پاس کھڑا ہے اور چلا کر پیچھے گیا۔
رانیہ نے سانپ کو اٹھایا اور نمرہ کو لے کر کمرے سے چلی گئی تب ان دونوں کو احساس ہوا کہ وہ نقلی سانپ سے ڈر رہے تھے۔
ابھی وہ سانپ کو لے کر جا ہی رہے تھے کہ سامنے سے فارس آیا اور زور سے چلایا۔
“کیوں کان کے پردے پھاڑنے پر تلے ہو” نمرہ نے غصے سے کہا۔
“یہ تمھارے ہاتھ میں۔۔” اس کی بولتی بند ہوگئی۔
“نقلی ہے” رانیہ نے غصے سے کہا
“اوہ اچھا یہ عرش اور سعد کیوں چلا رہے تھے نیند خراب کر دی” فارس نے غصے سے کہا۔
“تم خود جا کر پوچھو ہم یونی جا رہے ہیں” نمرہ نے غصے سے کہا۔
اتنے میں انوشے آئی۔
“یہ صبح صبح کیا دورے چڑھے ہیں سب کو پورا گھر اٹھ گیا۔امی، مامو، مامی اور شاہانہ مامی بھی اٹھ گئی ہیں اور غصے میں ہیں” انوشے نے غصے میں کہا۔
“یہ سعد اور عرش کو مرگی کا دورا چڑھا ہے ان سے کہو چپل سونگھے ہم تو یونی چلے” رانیہ بیگ اٹھا کر نکل پڑی اور نمرہ اس کے پیچھے چل پڑی۔
“اسے کہتے ہیں ایک تیر سے پورے فوج کو ڈھیر کرنا” رانیہ نے ہنس کر کہا۔
“کیا” نمرہ نے پوچھا۔
“ڈرایا سعد اور عرش کو تھا اور پورا گھر اٹھ گیا”
“یہ تو ہے لیکن تم سانپ لے کر کیوں چل رہی ہو”
“سر ذین کو ڈرانا ہے”
“کیوں”
“بے وجہ کل بے عزت کیا”
“اور اگر واپس سانپ لے لیا”
“سر رضی اور مس سعدیہ زندا باد”
وہ حماد کی گاڑی میں بیٹھے۔
“آدھے گھنٹے سے انتظار کر رہا ہوں” حماد نے غصے میں کہا۔
“تم کیوں مس کالز مار کر تنگ کر رہے تھے”رانیہ نے کہا۔
“آپ دونوں لیٹ ہیں اب اس ماہرانی فضاء کو بھی لینا ہے اس کے لئے الگ انتظار کرو” حماد نے کہا۔
“ہاں تو گاڑی تیز چلانا ” نمرہ نے کہا۔
“روز تم دونوں کی وجہ سے لیٹ ہوتا ہوں عائشہ بھی غصہ کرتی ہے اگر پولیس والے نے پکڑ لیا اسپیڈ میں گاڑی چلانے کی وجہ سے” حماد نے کہا۔
“ایک تو تمھاری گرلفرینڈ..” رانیہ نے غصے سے کہا۔
“اور پولیس والے کو کچھ پیسے دے دینا ہماری پولیس مان جائے گی” نمرہ نے کہا۔
“چپ کرو تم پولیس والے کے بیٹے سے بات کر رہی ہو اگر ابو کو میری ان حرکتوں کے بارے میں پتہ چل گیا تو میری صحیح والی شامت آنی ہے” حماد نے کہا۔
“تم ہو ہی اسی لائق اب جلدی چلاؤ” نمرہ نے کہا.
“ایسا لگتا ہے میں تم تینوں کا ڈرائیور ہوں” حماد نے غصے میں کہا۔
_________
آج ورک شوپ کی وجہ سے وہ دونوں لیٹ آئیں نمرہ گھر میں چلی گئی اور رانیہ کو کچھ سامان چاہئیے تھا جس کی وجہ سے وہ اسٹور روم کی طرف بڑھی لیکن قدم وہی رک گئے کیونکہ سامنے جس مخلوق کو دیکھا اسکی تو سانسیں بند ہوگئیں۔ وہ اپنی چھوٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا اور اس کی آنکھیں اور بڑی ہو رہی تھی وہ ابھی زبان نکالتا اور اندر ڈالتا رانیہ کی سانس رک جاتی، وہ وہیں بت بن کر کھڑی رہی لیکن جیسے ہی کتے نے اپنی پونچھ ہلائی رانیہ پیچھے ہوتی گئی اور اسی طرح کتا بھی آگے آتے گیا اچانک سے رانیہ کو ہوش آیا اور پیچھے مڑ کر بھا گی کتا بھی بھاگا، لیکن اس کا بیلٹ اسٹور روم کے دروازے سے ہی بندھا تھا اس لئے وہ آگے نہ بھاگ سکا اور پیچھے کتا بھونکتا رہا اور یہ سب منظر سعد چھپ کر مسکراہٹ کے ساتھ دیکھ رہا تھا رانیہ کے بھاگنے کے بعد سعد کتے کے قریب آیا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور وہاں سے کتے کو لے گیا۔
رانیہ بھاگتے ہوئے گھر میں آئی اور اس کمرے میں پہنچی جہاں سب بیٹھے ہوئے تھے رانیہ کا اس طرح آنا سب کو حیران چھوڑ گیا۔ رانیہ نے لمبے سانس لینا شروع کردیا۔
“کیا ہوا رانیہ” فارس نے پوچھا۔
“فارس کتا” رانیہ نے کہا۔ جس پر سب کی آنکھیں پھٹ گئی۔
“میں صرف سوال پوچھ رہا تھا” فارس نے رونی صورت بناتے ہوئے کہا۔
“فارس کتا” رانیہ نے غصے سے کہا.
“رانیہ کیا بول رہی ہو” نور نے غصے سے کہا۔
“لگتا ہے رانیہ کو یونی میں سزا ملی ہے جس کا غصہ یہ بےچارے فارس پر اتار رہی ہے” شایان نے کہا۔
“چپ ہوجاؤ شایان میں کتا بول رہی ہوں سب کو” رانیہ نے غصے سے کہا۔
“کیوں ہم نے کیا کیا” شایان نے کہا۔
“اوہ اوہ شایان کتا بات سمجھو” رانیہ سے ڈر کی وجہ سے بولا نہیں جا رہا تھا
” پھر سے” شایان نے کہا۔
“میرا مطلب ہے وہ کتا” رانیہ نے باہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا لیکن اس طرف عرش بیٹھا تھا۔
“میں کتا” عرش نے حیرانی سے پوچھا۔
“رانیہ یہ کیا بول رہی ہو” شاہانہ نے کہا۔
“تائی میں بول رہی ہوں وہاں کتا ہے” رانیہ نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
“کہاں”فارس نے انجان بنتے ہوئے کہا
“باہر” رانیہ نے کہا۔
سب نے جا کر دیکھا تو وہاں کچھ نہیں تھا اور رانیہ کو کمرے میں رہنے کی سزا ملی ساتھ میں امی، ابو کی ڈانٹ الگ، لیکن سچ تو صرف فارس، سعد اور عرش کو پتا تھا کہ اس وقت کتا سعد کے ساتھ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو سعد اور عرش نے آہستہ سے دروازہ کھولا اور دبے پاؤں داخل ہوئے سعد کے ساتھ کتا بھی آیا۔
“یار یوں لڑکیوں کے کمرے میں جانا غلط بات ہے” عرش نے کہا۔
“چپ کرو دونوں کزن ہے ہماری”سعد نے کہا۔
“یار دونوں ڈر جائیں گی” عرش نے کہا۔
“اور صبح ان دونوں نے کیا کیا تھا”
“یار بچی ہیں”
“ہاں جیسے ہم جوان بچوں کے باپ ہیں”
سعد نے کتا بیڈ کی طرف باندھا جہاں رانیہ سو رہی تھی اور اس کا پٹہ تھورا کھلا چھوڑا۔
“یار یہ کیا کر رہا ہے”
“باندھ رہا ہوں اندھے”
“اگر اس نے انہیں کاٹ لیا”
“پلا ہوا ہے”
“یار پھر بھی نمرہ تو بہت ڈرتی ہے کتے سے” عرش نے کہا۔
“تجھے بڑی فکر ہے” سعد نے کہا۔
“ہاں تو بیوی ہے میری”
“اوہ ہو صاحب کو اپنا نکاح یاد آگیا، خیر ہے اچانک” سعد نے شوخی سے کہا۔
“تم چپ کرو اور یہ مذاق بند کرو”
سعد اس کا ہاتھ پکڑ کر کمرے سے لے کر گیا اور باہر کھڑے ہوگئے۔
رانیہ نے سوتے سوتے کروٹ بدلی اور ہاتھ کسی ملائم چیز سے جا لگا۔
رانیہ کے ہاتھ کی وجہ سے کتے نے بھونکا اور اسی وجہ سے رانیہ کی آنکھ کھل گئی اور سامنے کتے کو دیکھ کر بولتی بند ہوگئی، آنکھوں میں آنسو آئے اور ہلکی ہلکی آواز نکالنے لگی۔
“اوہ ہو کیا ہوا رانیہ” نمرہ نے اٹھتے ہوئے پوچھا لیکن رانیہ کے پاس جسے دیکھا سانس اسی وقت روک دی۔
“آہ۔ہ۔ہ” نمرہ زور سے چیخی۔
عرش تو جیسے ہل گیا جلدی سے اندر جانے کو تھا کہ سعد اسے نیچے لے گیا۔
نمرہ نے رانیہ کا ہاتھ پکڑا اور دونوں بیڈ سے چھلانگ لگا کر بھاگیں اور کمرے سے نکل گئی، کتے نے بھی بھاگنے کی کوشش کی لیکن بھاگ نہ سکا اور کوشش کرتا رہا آخر پٹا ٹوٹ گیا۔
“امی بچاؤ اس جانور سے” رانیہ بھاگتے ہوئے بولی۔
“یہ یہاں پر کیسے؟” نمرہ نے کہا۔
“مجھے کیا پتا میں نے تو کہا لیکن کسی نے میری بات پر یقین نہیں کیا۔”
ان کے پیچھے ہی کتا بھاگ رہا تھا دونوں گھر سے باہر نکل گئی ایک گارڈن کے ایک حصے میں گئی تو دوسری دوسرے حصے میں، بھاگتے بھاگتے نمرہ کسی بھاری چیز سے ٹکرائی اور توازن کھو بیٹھی لیکن اسی وقت عرش نے اسے پکڑا۔
“کیا تم تھیک ہو” عرش نے کہا۔
“نہیں وہ کتا” نمرہ نے کہا نمرہ کی سانسیں پھول رہی تھی۔
“اچھا پہلے تم ریلیکس ہو” عرش نے کہا۔
“کیسے وہاں کتا” نمرہ نے کہا۔
“وہ تمہیں کچھ نہیں کریگا” عرش نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑتے ہو ہے کہا اور نمرہ تھوری بہتر ہوئی لیکن اگلے ہی لمحے جیسے ہی وہ مڑی اس نے کتے کو دیکھا اور عرش سے جا لگی۔
نمرہ نے اس کی شرٹ مضبوطی سے پکڑیں تھی اور آنکھیں بند تھی۔
عرش نے اپنی شرٹ چھروائی اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔
“نمرہ آنکھیں کھولو” عرش نے کہا۔
“نہیں” نمرہ نے سختی سے کہا۔
“کچھ نہیں ہوگا” عرش نے اس کا چہرہ اوپر کیا۔
“تمہیں مجھ پر بھروسہ ہے تو کھولو آنکھیں”عرش نے نرمی میں سے کہا۔
نمرہ نے آنکھیں کھولیں اور سر ہلایا۔
عرش نے اس کا ہاتھ اور زور سے پکڑا اور اس کا رخ موڑا۔
“کچھ مت کہنا” عرش نے کہا اور وہ نمرہ کو آگے لے جاتا گیا۔ لیکن کتا جیسے ہی بھونکا وہ واپس عرش سے جا لگی اور عرش کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔
عرش بے چارے نے وہی سب کیا اسے الگ کرنے کے لیے اور نیچے بیٹھا اور نمرہ بھی اس کے ساتھ بیٹھی۔ نمرہ عرش کے پیچھے تھی ایک ہاتھ سے اس کی شرٹ پکڑی تھی اور دوسرے ہاتھ اس کے کندھے پر تھے اور منہ تھورا نکال کر ساری کارروائی دیکھ رہی تھی ۔
عرش نے کتے کو پیار کیا اور اسے دوسری طرف جانے کا کہا اور کتا بھی پیچھے مڑ کر چلا گیا۔
“یہ تو چلا گیا تھینک یو عرش” نمرہ نے کہا۔
“اچھا تو محترمہ میری شرٹ چھوڑنے کا ارادہ ہے یا اتار کر دے دوں” نمرہ ہوش میں آئی اور عرش سے تھورا دور ہوئی اور پھر سے کنفیوز ہوگئی جبکہ عرش اب بھی مسکرا رہا تھا اور یہ مسکراہٹ نمرہ کو بہت خوبصورت لگی۔
“وہ وہاں رانیہ ہے کتا بھی وہاں گیا ہے” نمرہ نے کہا۔
“تم فکر مت کرو وہاں سعد ہے” عرش نے کہا۔
“لیکن اگر اس نے۔۔” نمرہ نے بات اُدھوری چھوڑی۔
“فکر مت کرو کتا پلا ہوا ہے کچھ نہیں کرے گا”۔
تبھی عرش نے نمرہ کو سعد کی پلاننگ بتائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رانیہ بھاگتے بھاگتے واپس گھر میں گئی لیکن سارے کمرے لاکڈ تھے جس پر وہ ازحد حیران ہوئی۔ سعد نے پہلے ہی سب کے کمرے کے دروازے اور کھڑکیاں بند کرلیں تھی تاکہ کمروں تک آواز نہ پہنچے۔ رانیہ نے اپنے پیچھے بھوکنے کی آواز سنی اور سوفے پر چڑھ گئی سعد یہ سوچ کر اندر آیا کہ اب رانیہ کو بہت ڈرا لیا لیکن اندر آ کر جو نظارا دیکھا حیران ہوگیا اور جلدی اس طرف بھاگا جہاں رانیہ زمین پر گری ہو اپنا ہاتھ منہ پر ہےاور کتا اس پر تھا اور اسے ناخن سے مار رہا تھا اور رانیہ چلا رہی تھی۔
سعد جلدی سے آیا اور کتے کو دور ہٹایا اور رانیہ کو بٹھایا جبکہ رانیہ ابھی بھی سہمی ہوئی تھی۔
“رانیہ تم تھیک ہو” سعد نے پوچھا لیکن رانیہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔
سعد نے اسے اٹھنے میں مدد دی اور کمرے میں لے آیا
“کیا تم تھیک ہو رانیہ” سعد نے اس سے پوچھا لیکن اس بار بھی کوئی جواب نہیں دیا سعد نے اسے تھورا ہلایا اور وہ ہوش میں آئی اور سعد سے جا لگی سعد نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
“کچھ نہیں ہوا رانیہ تم ٹھیک ہو” سعد نے اسے نرمی سے کہا کہ اچانک نظر اس کے ہاتھوں پر نشان پر رکی اور وہ پریشان ہوگیا کہ اس کا چھوٹا سا مذاق کتنا خطرے دار ثابت ہوا۔
اس نے رانیہ کو الگ کیا اور اپنے روم میں بھاگ کر فرسٹ ایڈ باکس لے کر آیا اور بیڈ کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور دوائی لگائی اور پٹی لگائی اس نے ابھی ہاتھ چھوڑا ہی تھا کہ نمرہ اور عرش کمرے میں آئے اور نمرہ نے رانیہ کا ہاتھ دیکھا ور اس کے قریب آ بیٹھی۔
عرش کے پوچھنے پر سعد نے پوری بات بتائی جسے سن کر نمرہ کو بہت غصہ آیا۔
رانیہ ابھی بھی چپ تھی اور نمرہ کے آتے ہی اس سے جا لگی۔
“سب ٹھیک ہے” نمرہ نے کہا۔
“آپ لوگوں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا” نمرہ نے کہا۔
“ہاں ہم تو صرف مذاق کر رہے تھے” عرش نے کہا۔
“ایسا مذاق وہ تو اچھا ہے کہ اسے زیادہ چوٹ نہیں آئی”
“تم صحیح کہہ رہی ہو ہم نے غلط کیا ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا” سعد نے کہا۔
“مجھے آپ دونوں سے یہ امید نہیں تھی” نمرہ نے کہا۔
“ہم شرمندہ ہیں ہم کل صبح ہوتے ہی اس کتے کو واپس اس کے اصل مالک کے پاس چھوڑ آئیں گے” عرش نے کہا۔
“اب تم دونوں سو جاؤ اب کتا واپس نہیں آئیگا” سعد نے کہا۔
“نہیں میں ادھر نہیں سونگی” رانیہ نے کہا۔
“ٹھیک ہے ہم شازیہ پھوپھو اور انوشے کے کمرے میں سو جاتے ہیں۔
نمرہ نے بغیر عرش اور سعد کی طرف دیکھے چادر نکالی اور سونے چلیں گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح فجر میں شازیہ اٹھی تو ان دونوں کو کمرے میں دیکھ کر حیران ہوگئی انہیں اٹھایا۔
“کیا ہوا تم لوگ یہاں کیوں سو رہی ہو” شازیہ نے پوچھا۔
“رات کو نیند نہیں آ رہی تھی اس لئے ہم یہاں آ گئے” رانیہ نے وضاحت پیش کی۔
رانیہ نے وقت دیکھا۔
“ہم اپنے کمرے میں سونے چلے جاتے ہیں” نمرہ نے کہا۔
“پہلے دونوں نماز پڑھ لو فجر کا وقت ہے” شازیہ نے رانیہ کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
دونوں جی کہتے کھڑی ہوگئی کہ شازیہ کی نظر رانیہ کے ہاتھ پر پڑی اور اس نے چوٹ کے متعلق پوچھا۔
“وہ کل رات کو۔۔۔” نمرہ نے بات شروع کی.
“کل رات کو میں پانی پی رہی تھی کہ گلاس گر کر ٹوٹ گیا اور اٹھانے کے چکر میں یہ چوٹ لگ گئی” رانیہ نے نمرہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا جس پر نمرہ حیران رہ گئی اور وہ دونوں نماز کے لئے کھڑی ہوگئی اور پھر یونی کے لئے تیار ہوئیں۔
“تم نے پھوپھو سے جھوٹ کیوں کہا” نمرہ نے کہا۔
“کیونکہ اگر میں نے سچ بتایا تو انہیں صحیح والی ڈانٹ پڑتی” رانیہ نے کہا۔
“تو صحیح تھا نہ ان دونوں نے کام ہی ایسا کیا ہے”
“چھوڑو انہیں، ہم یہ معاملہ ہی ختم کرتے ہیں اب ان سے بات ہی نہیں کرتے”
“ہاں صحیح اب سے ان پر دھیان بھی نہیں دیں گےا ہم اپنے راستے وہ اپنے راستے”
“ہاں” یہ کہتے دونوں باہر گئی کہ ان کا ٹکراؤ عرش اور سعد سے ہوا پہلے تو ان کو اتنی صبح باہر سے آتے دیکھ حیران ہوئی لیکن پھر اگنور کرتے ہوئے آگے بڑھی۔
“ہم کتے کو چھوڑ کر آئے ہیں” سعد نے کہا۔
“ہاں تو کوئی احسان نہیں کیا اگر نہیں چھوڑتے تو میں چاچو کو سب کچھ بتا دیتی” نمرہ نے کہا جبکہ رانیہ منہ پھیرے کھڑی تھی۔
“تم دونوں اب بھی ناراض ہو” عرش نے پوچھا۔
“کیوں نہیں ہونا چاہیے” نمرہ نے کہا۔
“بالکل ہونا چاہیے لیکن۔۔۔”
ابھی سعد کی بات آدھی ہی ہوئی تھی کہ نمرہ بولی۔”بس تو پھر”
“اچھا نا معاف کر دو نمرہ اور رانیہ” سعد رانیہ سے مخاطب ہوا۔
“نمرہ چلو ہمیں لیٹ ہو رہا ہے” رانیہ سعد کی بات اگنور کرتی آگے چلی گئی کہ نمرہ بھی منہ پھیرتے اس کے پیچھے چلی گئی۔ پہلے تو دونوں پہلی بار ان کو اس طرح دیکھ کر حیران رہ گئے لیکن پھر عرش نمرہ کہ انداز پر مسکرا پڑا اور دونوں نے شام تک ہی ان کو منانے کا سوچ لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونی کے بعد نمرہ، رانیہ اور حماد نے فضاء کے گھر جانے کا پروگرام بنایا۔ اور شام کو نمرہ اور رانیہ وہیں ٹھیر گئیں اور دوسری طرف عرش اور سعد ان کا انتظار کرتے رہ گئے لیکن جب اس بات کی خبر ہوئی تو کافی غصہ آیا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...